شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں0%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 232
مشاہدے: 76424
ڈاؤنلوڈ: 4074

تبصرے:

شيعہ جواب ديتے ہيں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 76424 / ڈاؤنلوڈ: 4074
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

ہم نے ہر مقام پر کہا ہے اور اب بھی کہتے ہیں کہ مذہب شیعہ کے علماء و محققین میں سے کوئی بھی (خود انکی اپنی کتابوں کی گواہی کے مطابق) تحریف کا قائل نہیں تھا اور نہ ہے _لیکن پھر بھی بعض تعصب اور ہٹ دھرم قسم کے لوگ اس تہمت پر اصرار کرتے ہیں _پتہ نہیں قیامت والے دن وہ کیا جواب دیں گے کیونکہ ایک طرف تو تہمت لگا رہے ہیں اور دوسری طر ف قرآن مجید کی اہمیت کو کم کررہے ہیں _

اگر آپ کا بہانہ وہ بعض ضعیف روایات ہیں جو ہماری کتابوں میں نقل ہوئی ہیں تو اس قسم کی ضعیف روایات آپ کی حدیث و تفسیر کی کتابوں میں بھی موجود ہیں_ جنکی طرف پہلے اشارہ کیاجاچکا ہے_

کوئی بھی مذہب ضعیف روایات کی بنا پر استوارنہیں ہوتا ہے _

اور ہم نے کبھی بھی ابن الخطیب مصری کی کتاب (الفرقان فی تحریف القرآن ) کی خاطر یا آپ کی ان ضعیف روایات کی خاطر جو تحریف قرآن پر مشتمل ہیں آپ پر تحریف قرآن کی تہمت نہیں لگائی _ اور ہم کبھی بھی قرآن مجید کو تخریب کاری کرنے والے تعصّب کا شکار نہیں ہونے دیں گئے_

دن رات تحریف قرآن کی باتیں نہ کیجئے _ اسلام ،مسلمین اور قرآن مجید پر ظلم نہ کیجئے اور اپنے مذہبی تعصب کی وجہ سے بار بار تحریف قرآن کی رٹ لگا کر پوری دنیا کے مسلمانوں کے اصلی سرمائے یعنی قرآن مجید کے اعتبار کو کم نہ کیجئے _دشمن کو بہانہ فراہم نہ کیجئے _تم اگر اس طریقے سے شیعوں اور اہل بیت (ع) کے پیروکاروں سے انتقام لینا چاہتے ہو تو جان لوتم جہالت

۲۱

اور نادانی سے اسلام کی بنیادوں کو کھو کھلا کررہے ہو_کیونکہ تم کہتے ہو کہ مسلمانوں کا ایک عظیم گروہ تحریف قرآن کا قائل ہے اور یہ قرآن مجید پر ظلم عظیم ہے _

آخر میں پھر ایک دفعہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ شیعہ اوراہل سنت کا کوئی محقق بھی تحریف قرآن کا قائل نہیں ہے بلکہ سب علما ء اس قرآن مجید کو جو پیغمبر (ص) اکرم پر نازل ہوا اور جو آج مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے ایک ہی سمجھتے ہیں _اور خود قرآن مجید کی تصریح کے مطابق عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ اُٹھایا ہے اور ہر قسم کی تحریف ،تبدیلی اور زوال سے اسے محفوظ رکھنے کی ضمانت دی ہے _

لیکن دونوں طرف سے بعض بے خبر، نا آگاہ متعصب قسم کے لوگ ،ایک دوسرے کی طرف تحریف کی نسبت دیتے ہیں اور اس مسئلے کو اختلاف کے عروج تک پہنچادیتے ہیں اللہ تعالی ان سب کو ہدایت فرمائے _(آمین)

۲۲

۲

''تقیہ'' قرآن و سنت کے آئینہ میں

۲۳

دوسرا مسئلہ جس پر ہمیشہ ہمارے متعصب مخالفین اور بہانہ تلاش کرنے والے افراد، مکتب اہلبیت کے پیروکاروں پر تشنیع کرتے ہیں ،''تقیہ''کا مسئلہ ہے _

وہ کہتے ہیں تم کیوں تقیہ کرتے ہو؟کیا تقیہ ایک قسم کا نفاق نہیں ہے ؟

یہ لوگ اس مسئلہ کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ گویا تقیہ کوئی حرام کام یا گناہ کبیرہ یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی گناہ ہے _یہ لوگ اس بات سے غافل ہیں کہ قرآن مجید نے متعدد آیات میں تقیہ کو مخصوص شرائط کے ساتھ جائز شمار کیا ہے _اور خود انکے اپنے مصادر میں منقول روایات اس بات کی تائید کرتی ہیں _اور اس سے بڑھ کر تقیہ (اپنی مخصوص شرائط کے ساتھ)ایک واضح عقلی فیصلہ ہے _خود ان کے بہت سے لوگوں نے اپنی ذاتی زندگی میں اس کا تجربہ کیا ہے اور اس پر عمل کرتے ہیں _

اس بات کی وضاحت کے لیے چند نکات کی طرف توجہ ضروری ہے _

۱-تقیہ کیا ہے ؟

تقیہ یہ ہے کہ انسان اپنے مذہبی عقیدہ کو شدیداور متعصب مخالفین کے سامنے کہ جو اس کے لئے خطرہ ایجاد کرسکتے ہوں چھپا لے_ مثال کے طور پر اگر ایک موحّد مسلمان،ہٹ دھرم بت پرستوں کے چنگل میں پھنس جائے، اب اگر وہ اسلام اور توحید کا اظہار کرتا ہے تو وہ اس کا خون بہا دیں گے یا اسے جان ،مال یا ناموس کے اعتبار سے شدید نقصان پہنچائیں گے _ اس

۲۴

حالت میں مسلمان اپنے عقیدہ کو ان سے پنہاں کر لیتا ہے تا کہ انکے گزند سے امان میں رہے یا مثلا،اگر ایک شیعہ مسلمان کسی بیابان میں ایک ھٹ دھرم وہابی کے ہاتھوں گرفتار ہوجائے جو شیعوں کا خون بہانا مباح سمجھتا ہے _ اس حالت میں وہ مومن اگر اپنی جان،مال اور ناموس کی حفاظت کے لئے اُس وہابی سے اپنا عقیدہ چھپا لیتا ہے تو ہر عاقل اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ایسی حالت میں یہ کام مکمل طور پر منطقی ہے اور عقل بھی یہاں یہی حکم لگاتی تھے _کیونکہ خواہ مخواہ اپنی جان کو متعصب لوگوں کی نذرنہیں کرنا چاہیئے

۲_تقیہ اور نفاق کا فرق:

نفاق بالکلتقیہ کے مقابلے میں ہے_ منافق وہ ہوتا ہے جو باطن میں اسلامی قوانین پر عقیدہ نہ رکھتا ہو یا انکے بارے میں شک رکھتا ہو لیکن مسلمانوں کے در میان اسلام کا اظہار کر تا ہو_

جس تقیہ کے ہم قائل ہیں وہ یہ ہے کہ انسان باطن میں صحیح اسلامی عقیدہ رکھتا ہو، البتہ صرف ان شدت پسند وہابیوں کا پیروکارو نہیں ہے جو اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں اور انکے لیے کفر کا خط کھینچ دیتے ہیں اور انہیں دھمکیاںدیتے ہیں_ جب بھی ایسا با ایمان شخص اپنی جان،مال یا ناموس کی حفاظت کے لئے اس متعصب ٹولے سے اپنا عقیدہ چھپا لے اس کو تقیہ کہتے ہیں اور اسکے مقابل والا نکتہ نفاق ہے_

۳_تقیہ عقل کے ترازو میں :

تقیہ حقیقت میں ایک دفاعی ڈھال ہے_ اسی لیے ہماری روایات میں اسے (تُرس

۲۵

المومن ) یعنی (باایمان لوگوں کی ڈھال)کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے _کسی انسان کی عقل اجازت نہیں دیتی کہ انسان اپنے باطنی عقیدہ کا خطرناک اور غیر منطقی افراد کے سامنے اظہار کرے اور خواہ مخواہ اپنی جان، مال یا ناموس کو خطرے میں ڈالے _کیونکہ بلاوجہ طاقت اوروسائل کو ضائع کرنا کوئی عقلی کام نہیں ہے _

تقیہ:اس طریقہ کار کے مشابہہ ہے جسے تمام فوجی ،میدان جنگ میں استعمال کرتے ہیں اپنے آپ کو دختوں ،سرنگوں اور ریت کے ٹیلوںکے پیچھے چھپا لیتے ہیں اور اپنا لباس درختوں کی شاخوں کے رنگ جیسا انتخاب کرتے ہیں تا کہ بلا وجہ ان کا خون ہدر نہ جائے _

دنیا کے تمام عقلاء اپنی جان کی حفاظت کے لئے سخت دشمن کے مقابلے میں تقیہ والی روش سے استفادہ کرتے ہیں_ کبھی بھی عقلائ، کسی کو ایسا طریقہ اپنا نے پر سرزنش نہیں کریںگے_آپ دنیا میں ایک انسان بھی ایسا نہیں ڈھونڈسکتے جو تقیہ کو اس کی شرائط کے ساتھ قبول نہ کرتاہو_

۴_تقیہ کتاب الہی میں :

قرآن مجید نے متعدد آیات میں تقیہ کو کفار اور مخالفین کے مقابلہ میں جائز قراردیا ہے _ مثال کے طور پر چند آیات پیشخدمت ہیں_

الف)آل فرعون کے مؤمن کی داستان میں یوں بیان ہوا ہے _

( و قال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانه اتقتلون رجلا ان یقول ربی الله و قد جاء کم

۲۶

بالبینات ) (۱)

آل فرعون میں سے ایک باایمان مرد نے کہ جو (موسی کی شریعت پر) اپنے ایمان کو چھپا تا تھا کہا: کیا تم ایسے مرد کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا پروردگار خدا ہے اوروہ اپنے ساتھ واضح معجزات اور روشن دلائل رکھتا ہے_

پھر مزید مؤمن کہتا ہے (اسے اس کے حال پر چھوڑ دو اگر جھوٹ کہتا ہے تو اسجھوٹ کا اثر اس کے دامن گیر ہوگا اور اگر سچ کہتا ہے تو ممکن ہے بعض عذاب کی جو دھمکیاں اس نے سنائی ہیں وہ تمہارے دامن گیر ہوجائیں)پس اس طریقے سے آل فرعون کے اس مومن نے تقیہ کی حالت میں (یعنی اپنے ایمان کو مخفی رکھتے ہوئے ) اس ھٹ دھرم اور متعصب ٹولے کو کہ جو حضرت موسی (ع) کے قتل کے درپے تھا ضروری نصیحتیں کردیں _

ب)قرآن مجید کے ایک دوسرے صریح فرمان میں ہم یوں پڑھتے ہیں _

( لایتخذ المومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین و من یفعل ذلک فلیس من الله فی شئی الا ان تتقو منهم تقاة ً ) ___(۲)

مومنین کو نہیں چاہیے کہ کفار کو اپنا دوست بنائیں _ جو بھی ایسا کریگا وہ خدا سے بیگانہ ہے ہاں مگر یہ کہ تقیہ کے طور پر ایسا کیا جائے _

اس آیت میں دشمنان حق کی دوستی سے مکمل طور پر منع کیا گیا ہے مگر اس صورت میں اجازت ہے کہ جب ان کے ساتھ اظہار دوستی نہ کرنا مسلمان کی آزار و اذیت کا سبب بنے، اس وقت ایک دفاعی ڈھال کے طور پر ان کی دوستی سے تقیہ کی صورت میں فائدہ اٹھایا جائے_

____________________

۱)سورہ غافر آیت ۲۸_

۲)سورہ آل عمران آیت ۲۸_

۲۷

ج) جناب عمار یاسر اور انکے ماں ،باپ کی داستان کو تمام مفسرین نے نقل کیا ہے _ یہ تینوںاشخاص مشرکین عرب کے چنگل میں پھنس گئے تھے _اور مشرکین نے انہیں پیغمبر اکرم (ص) سے اظہار براء ت کرنے کوکہا _جناب عمار کے والدین نے اعلان لا تعلقی سے انکار کیا جس کے نتیجہ میں وہ شہید ہوگئے _لیکن جناب عمار نے تقیہ کرتے ہوئے انکی مرضی کی بات کہہ دی_ اور اس کے بعد جب گریہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں آئے تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی _

( من کفر بالله من بعد ایمانه الا من اکره و قلبه مطمئن بالایمان ) (۱)

جو لوگ ایمان لانے کے بعد کافر ہو جائیں انکے لئے شدید عذاب ہے مگر وہ لوگ جنہیں مجبور کیا جائے_

پیغمبر اکرم (ص) نے جناب عمار کے والدین کو شہداء میں شمار کیا اور جناب عمار یاسر کی آنکھوں سے آنسو صاف کیے اور فرمایا تجھ پر کوئی گناہ نہیں ہے اگر پھر مشرکین تمھیں مجبور کریں تو انہی کلمات کا تکرار کرنا_تمام مسلمان مفسرین کا اس آیت کی شان نزول کے بارے میں اتفاق ہے کہ یہ آیت جناب عمار یاسر اور انکے والدین کے بارے میں نازل ہوئی اور بعد میں رسول خدا (ص) نے یہ جملات بھی ادا فرمائے_ تو اس اتفاق سے عیاں ہوجاتا ہے کہ سب مسلمان تقیہ کے جواز کے قائل ہیں_ ہاں یہ بات باعث تعجب ہے کہ قرآن مجید سے اتنی محکم ادلہ اور اہل سنت مفسرین کے اقوال کے با وجود شیعہ کو تقیہ کی خاطر مورد طعن قرار دیا جاتا ہے-_

____________________

۱) سورة النحل آیت ۱۰۶_

۲۸

جی ہاں نہ تو جناب عمار منافق تھے نہ ہی آل فرعون کا وہ مومن منافق تھا بلکہ تقیہ کے دستور الہی سے انہوں نے فائدہ اٹھایا_

۵_تقیہ اسلامی روایات میں :

اسلامی روایات میں بھی تقیہ کاکثرت سے ذکر ملتا ہے_مثال کے طور پر مسند ابی شیبہ اہل سنت کی معروف مسند ہے _اس میں (مسیلمہ کذاب) کی داستان میں نقل ہوا ہے کہ مسیلمہ کذاب نے رسو ل خدا (ص) کے دو اصحاب کو اپنے اثر و رسوخ والے علاقے میں گرفتار کرلیا اور دونوں سے سوال کیا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں خدا کا نمائندہ ہوں؟ ایک نے گواہی دے کر اپنی جان بچالی اور دوسرے نے گواہی نہیں دی تو اسکی گردن اڑادی گئی_ جب یہ خبر رسول خدا (ص) تک پہنچی تو آپ(ص) نے فرمایا جو قتل ہو گیا اس نے صداقت کے راستے پر قدم اٹھایا اور دوسرے نے رخصت الہی کو قبول کرلیا اوراس پر کوئی گناہ نہیں ہے(۱)

ائمہ اہل بیت کی احادیث میں بھی بالخصوص ان ائمہ کے کلمات میں کہ جو بنوعباس اور بنو اُميّہ کی حکومت کے زمانہ میں زندگی بسر کرتے تھے اور اس دور میں جہاں کہیں محب علی ملتا اسے قتل کردیا جاتا تھا_تقیہ کا حکم کثرت سے ملتا ہے _ کیونکہ وہ مامور تھے کہ ظالم اور بے رحم دشمنوں سے اپنی جان بچانے کے لئے تقیہ کی ڈھالسے استفادہ کریں_

۶_کیا تقیہ صرف کفار کے مقابلے میں ہے؟

ہمارے بعض مخالفین جب ان واضح آیات اور مندرجہ بالاروایات کا سامنا کرتے ہیں تو اسلام میں تقیہ کے جواز کو قبول کرنے کے علاوہ انکے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا_ اس وقت وہ

____________________

۱) مسند ابی شیبہ ، ج۱۲ ص ۳۵۸_

۲۹

یوں راہ فرار تلاش کرتے ہیں کہ تقیہ تو صرف کفار کے مقابلہ میں ہوتا ہے_ مسلمانوں کے مقابلے میں تقیہ جائز نہیں ہے _ حالانکہ مندرجہ بالا ادلہ کی روشنی میں بالکل واضح ہے کہ ان دو موارد میں کوئی فرق نہیں ہے_

۱_ اگر تقیہ کا مفہوم متعصب اور خطرناک افراد کے مقابلے میں اپنی جان ،مال اور ناموس کی حفاظت کرنا ہے، اور حقیقت میں بھی یو نہی ہے، تو پھر نا آگاہ اور متعصب مسلمان اور کافرکے در میان کیا فرق ہے ؟ اگر عقل و خرد یہ حکم لگاتی ہے کہ ان امور کی حفاظت ضروری ہے اور انہیں بیہودہ طور پر ضائع کرنا مناسب نہیں ہے تو پھر ان دومقامات میں کیا فرق ہے_

دنیا میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو انتہائی جہالت اور غلط پروپیگنڈہ کی وجہ سے کہتے ہیں کہ شیعہ کا خون بہانا قربت الہی کا ذریعہ بنتا ہے _ اب اگر کوئی مخلص شیعہ جو امیر المومنین _ کا حقیقی پیرو کار ہو اور اس جنایت کارٹولے کے ہاتھوں گرفتار ہوجائے اور وہ اس سے پوچھیں کہ بتا تیرا مذہب کیا ہے ؟ اب اگر یہ شخص واضح بتادے کہ میں شیعہ ہوں تو یہ خواہ مخواہ اپنی گردن کو جہالت کی تلوار کے سپردکرنے کے علاوہ کوئی اور چیزہے؟ کوئی بھی صاحب عقل و خرد یہ حکم لگا سکتا ہے ؟

باالفاظ دیگر جو کام مشرکین عرب نے جناب عمار و یاسریا مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں نے دواصحاب رسول خدا کے ساتھ کیا اگر وہی کام بنو امیہ اور بنو عباس کے خلفاء اور جاہل مسلمان، شیعوں کے ساتھ انجام دیں تو کیا ہم تقیہ کو حرام کہیں اور اہل بیتکے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مخلص پیروکاروں کی نابودی کے اسباب فراہم کریں صرف اس خاطر کہ یہ حاکم بظاہر مسلمان تھے ؟

اگر ائمہ اہل بیتتقیہ کے مسئلہ پربہت زیادہ تاکید نہ کرتے یہاںتک کہ فرمایا ہے

۳۰

(تسعة اعشار الدین التقیه ) دس میں سے نو حصے دین تقیہ ہے _(۱)

تو بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں شیعوں کے مقتولین کی تعداد شاید لاکھوں بلکہ کروڑوں تک پہنچ جاتی _ یعنی انکی بے رحمانہ اوروحشیانہ قتل و غارت دسیوں گنا زیادہ ہوجاتی_

آیا ان شرائط میں تقیہ کی مشروعیت کے بارے میں ذرہ برابر شک رہ جاتا ہے ؟ہم یہ بات فراموش نہیں کرسکتے کہ جب اہل سنت بھی سالہا سال مذہبی اختلافات کی خاطر ایک دوسرے سے تقیہ کرتے تھے _ من جملہ قرآن مجید کے حادث یا قدیم ہونے پر انکا شدید اختلاف تھا اور اس راہ میں بہت ساروں کا خون بہایا گیا (وہی نزاع کہ جو آج محققین کی نظر میں بالکل بیہودہ اوربے معنی نزاع ہے )کیا جو گروہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتا تھا اگر ان میں سے کوئی شخص مخالفین کے چنگل میں گرفتار ہوجاتا تو کیا اسے صراحت کے ساتھ کہہ دینا چاہیے کہ میرا یہ عقیدہ ہے چاہے اس کا خون بہہ جائے اور اس کے خون بہنے کا نہ کوئی فائدہ ہو اور نہ کوئی تاثیر؟

۲_جناب فخر رازی اس آیت( الا ان تتقوا منهم تقاة ) (۲) کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ آیت کا ظہور یہ ہے کہ تقیہ غالب کافروں کے مقابلے میں جائزہے (الا ان مذهب الشافعی _رض_ان الحالة بین المسلمین اذا شاکلت الحالة بین المسلمین و المشرکین حلّت التقیه محاماة علی النفس ) لیکن مذہب شافعی یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی کیفیت بھی ایک دوسرے کے ساتھ مسلمین و کفار جیسی ہوجائے تو اپنی جان کی حفاظت کے لئے تقیہ جائزہے _

____________________

۱) بحارالانوار ، جلد ۱۰۹، ص ۲۵۴_

۲) سورة آل عمران آیة ۲۸_

۳۱

اس کے بعد حفظ مال کی خاطر تقیہ کے جواز پر دلیل پیش کرتے ہیںکہ حدیث نبوی ہے (حرمة مال المسلم کحرمة دمہ ) مسلمان کے مال کا احترام اس کے خون کی مانند ہے ) اور اسی طرح دوسری حدیث میں ہے (من قتل دون مالہ فہو شہید) جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے ماراجائے وہ شہید ہے(۱) _

تفسیر نیشاپوری میں کہ جو تفسیر طبری کے حاشیہ پر لکھی گئی ہے یوں بیان کیا گیا ہے کہ قال الامام الشافعی :

(تجوز التقیه بین المسلمین کما تجوز بین الکافرین محاماة عن النفس )(۲)

امام شافعی فرماتے ہیں کہ جان کی حفاظت کی خاطر مسلمانوں سے تقیہ کرنا بھی جائز ہے _ جس طرح کفار سے تقیہ کرنا جائز ہے _

۳_دلچسب بات یہ ہے کہ بنی عباس کی خلافت کے دور میں بعض اہل سنت محدثین (قرآن مجید کے قدیم ہونے ) پر عقیدہ رکھنے کیوجہ سے بنو عباس کے حكّام کی طرف سے دباؤ کا شکار ہوئے انہوں نے تقیہ کرتے ہوئے اعتراف کرلیا کہ قرآن مجید حادث ہے اوراس طرح انہوںنے اپنی جان بچالی _

''ابن سعد'' مشہور مورخ کتاب طبقات میں اور طبری ایک اور مشہور مورخ اپنی تاریخ کی کتاب میں دو خطوط کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جو مامون کی طرف سے اسی مسئلہ کے بارے میں بغداد کے پولیس افسر (اسحق بن ابراہیم) کی طرف ارسال کیے گئے _

____________________

۱) تفسیر کبیر فخر رازی، جلد ۸ ص ۱۳_

۲) تفسیر نیشابوری (تفسیر الطبری کے حاشیہ پر) جلد ۳، ص ۱۱۸_

۳۲

پہلے خط کے بارے میں ابن سعد یوں لکھتا ہے کہ مامون نے پولیس افسر کو لکھا کہ سات مشہور محدثین ( محمد بن سعد کاتب واقدی _ابو مسلم_یحیی بن معین_زہیر بن حرب_ اسمعیل بن داوود_ اسمعیل بن ابی مسعود_ و احمد بن الدورقی ) کو حفاظتی اقدامات کے ساتھ میری طرف بھیج دو_جب یہ افراد مامون کے پاس پہنچے تو اس نے ان سے آزمانے کے لیے سوال کیا کہ قرآن مجید کے بارے میں تمہارا عقیدہ کیا ہے؟ تو سب نے جواب دیا کہ قرآن مجید مخلوق ہے (حالانکہ اس وقت محدثین کے درمیان مشہور نظریہ اس کے برعکس تھا یعنی قرآن مجید کے قدیم ہونے کے قائل تھے اور ان محدثین کا بھی یہی عقیدہ تھا(۱) ہاں انہوں نے مامون کی سخت سزاؤں کے خوف سےتقیہ کیا اور قرآن مجید کے مخلوق ہونے کا اعتراف کرلیا اور اپنی جان بچالی _مامون کے دوسرے خط کے بارے میں کہ جسے طبری نے نقل کیا ہے اور وہ بھی بغداد کے پولیس افسر کے نام تھایوں پڑھتے ہیں کہ جب مامون کا خط اس کے پاس پہنچاتو اس نے بعض محدثین کو کہ جنکی تعداد شاید ۲۶چھبیس افراد تھی حاضر کیا اور مامون کا خط انکے سامنے پڑھا_پھر ہر ایک کو الگ الگ پکار کر قرآن مجید کے بارے میں اُسکا عقیدہ معلوم کیا_ ان میں سوائے چار افراد کے سب نے اعتراف کیا کہ قرآن مجید مخلوق ہے ( اور تقیہ کرکے اپنی جان بچالی ) جن چار افراد نے اعتراف نہیں کیا انکے نام یہ تھے احمد ابن حنبل ، سجادہ ، القواریری، اور محمد بن نوح _ پولیس انسپکٹر نے حکم دیا کہ انہیں زنجیروں میں جکڑ کر زندان میں ڈال دیا جائے _ دوسرے دن دوبارہ ان چاروںافراد کو بلایا اور قرآن مجید کے بارے میں اپنے سوال کا تکرار کیا _سجادة نے اعتراف کرلیا کہ قرآن مجید مخلوق ہے وہ آزاد ہو

____________________

۱) طبقات ابن سعد، جلد ۷،ص ۱۶۷، چاپ بیروت_

۳۳

گیا _ باقی تین نے مخالفت پر اصرار کیا ،انہیں دوبارہ زندان بھیج دیا گیا_ اگلے دن پھر ان تین افراد کو بلایا گیا اس مرتبہ (القواریری)نے اپنا بیان واپس لے لیا اور آزاد ہوگیا_لیکن احمد ابن حنبل اور محمد بن نوح اسی طرح اپنے عقیدہ پر مصّر رہے _ پولیس انسپکٹر نے انہیں (طرطوس )(۱) شہر میں جلا وطن کردیا_

جب کچھ لوگوں نے ان تقیہ کرنے والوں پر اعتراض کیا تو انہوں نے کفار کے مقابلے میں جناب عمار یاسر کے عمل کو دلیل کے طور پر پیش کیا(۲) ان موارد سے بالکل روشن ہوجاتا ہے کہ جس دقت انسان کسی چنگل میں گرفتار ہوجائے اور اس وقت ظالموں سے نجات پانے کا تنہا راستہ تقیہ ہوتو وہ یہ راستہ اختیار کر سکتا ہے خواہ یہ تقیہ کافر کے مقابلہ میں ہو یا مسلمان کے مقابلے میں ہو_

۷) حرام تقیہ:

بعض موارد میں تقیہ حرام ہے اور یہ اس وقت ہے کہ جب ایک فرد یا گروہ کے تقیہ کرنے اور اپنا مذہبی عقیدہ چھپا نے سے اسلام کی بنیاد کو خطرہ لاحق ہوتا ہو یا مسلمانوں کو شدید نقصان ہو تا ہو_ اس وقت اپنے حقیقی عقیدہ کو ظاہر کرنا چاہیے، چاہے ان کے لئے خطرے کا باعث ہی کیوں نہ ہو _اور جو لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے اور قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ اس سے منع فرمایا ہے( ولا تلقو بایدیکم الی التهلکة ) یہ

____________________

۱) یہ شام میں دریا کے کنارے ایک شہر ہے (معجم البلدان جلد۴، ص ۳۰)_

۲) تاریخ طبری جلد ۷، ص ۱۹۷_

۳۴

لوگ سخت خطاء سے دوچار ہیں کیونکہ اس کا لازمہ یہ ہے کہ میدان جہاد میں حاضر ہونا بھی حرام ہو حالانکہ کوئی بھی عاقل ایسی بات نہیں کرتا ہے _یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ یزید کے مقابلے میں امام حسین _ کا قیام یقینا ایک دینی فریضہ تھا _ اسی لئے امام _ تقیہ کے طور پر بھی یزیدیوں اور بنو امیہ کے غاصب خلفاء کے ساتھ کسی قسم کی نرمی دکھانے پر راضی نہ ہوئے_ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ایسا کرنے سے اسلام کی بنیاد کو شدید دھچکا لگے گا_ آپ (ع) کا قیام اور آپکی شہادت مسلمانوں کی بیداری اور اسلام کو جاہلیت کے چنگل سے نجات دلانے کا باعث نبی_

(مصلحت آمیز ) تقيّہ:

یہ تقیہ کی ایک دوسری قسم ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ ایک مذہب والے ،مسلمانوں کی صفوں میں وحدت برقرار رکھنے کے لئے ان باتوں میں جن سے دین و مذہب کی بنیادکو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، دوسرے تمام فرقوں کے ساتھ ہماہنگی اور یکجہتی کا ثبوت دیتے ہیں _ مثلا مکتب اہل بیت کے پیرو کار یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کپڑے اور قالین پر سجدہ نہیں ہوتااورپتھریا مٹی و غیرہ پر سجدہ کرنا ضروری ہے _اور پیغمبر اکرم (ص) کی اس مشہور حدیث (جعلت لی الارض مسجداً و طهورا )(۱) ''زمین کو میرے لئے محل سجدہ اور وسیلہ تیمّم قرار دیا گیا ہے '' کو اپنی دلیل قرار دیتے ہیں اب اگر وہ وحدت برقرار رکھنے کیلئے دیگر مسلمانوں کی صفوں میں انکی مساجد میں یامسجد الحرام اور مسجد نبوی میں جب نماز پرھتے ہیں تو ناگزیر کپڑے پر سجدہ کرتے ہیں _ یہ کام جائز ہے اور ایسی نماز ہمارے عقیدہ کے مطابق

____________________

۱)صحیح بخاری جلد ۱ ص ۹۱و سنن بیہقی ،جلد ۲ ص ۴۳۳(اور بھی بہت سی کتب میں یہ حدیث نقل ہوئی ہے )_

۳۵

درست ہے اور اسے ہم مدارا کرنے والا ( مصلحت آمیز )تقیہ کہتے ہیں _کیونکہ اس میں جان و مال کا خوف درکار نہیں ہے بلکہ اس میں تمام اسلامی فرقوں کے ساتھ مدارا کرنے اورحسن معاشرت کا عنوان در پیش ہے _تقیہ کی بحث کا ایک بزرگ عالم دین کے کلام کے ساتھ اختتام کرتے ہیں _

ایک شیعہ عالم دین کی مصر میں الازہر کے ایک بزرگ استاد سے ملاقات ہوئی اس نے شیعہ عالم کو سرزنش کرتے ہوئے کہا-میں نے سنا ہے تم لوگ تقیہ کرتے ہو؟ شیعہ عالم دین نے جواب میں کہا(لعن الله من حملنا علی التقیة ) رحمت الہی سے دور ہوں وہ لوگ جنہوں نے ہمیں تقیہ پر مجبور کیا(۱)

____________________

۱) یعنی اگر دشمنوں کی طرف سے ہماری جان و مال کو خطرہ نہ ہوتا تو ہم کبھی بھی تقیہ نہ کرتے (مترجم)

۳۶

۳

عدالت صحابہ

اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کے اصحاب خصوصی امتیازات سے بہرہ مند تھے _ وحی الہی اور آیات کو پیغمبر اکرم(ص) کی زبان مبارک سے سنتے تھے_ آنحضرت(ص) کے معجزات کا مشاہدہ کرتے تھے _اور آپکی قیمتی باتوں کے ذریعے پرورش پاتے تھے آنحضرت (ص) کے عملی نمونوں اور اسوہ حسنہ سے بہرہ مند تھے _

اسی وجہ سے انکے در میان ایسی بزرگ اور ممتاز شخصیات نے تربیت پائی کہ جہان اسلام جنکے وجود پر فخر و مباہات کرتا ہے _ لیکن اہم مسئلہ یہ ہے کہ کہ کیا تمام اصحاب بغیر کسی استثناء کے مومن،صالح،سچے،درستکار اور عادل افراد تھے یا ان کے در میان غیر صالح افراد بھی موجود تھے _

۱_ دو متضاد عقیدے :

صحابہ کے بارے میں دو مختلف عقیدے موجود ہیں : پہلا عقیدہ یہ کہ تمام اصحاب بغیر کسی استثناء کے پاکیزگی و طہارت کے نور سے منور ہیں اور سب ہی صالح، عادل ، باتقوی اور صادق تھے _ اسی وجہ سے ان میں سے جو بھی پیغمبر اکرم(ص) سے حدیث نقل کرے صحیح اور قابل قبول ہے _ اور ان پر کوئی چھوٹا سا اعتراض بھی نہیں کیا جا سکتا ہے اور اگر ان سے غلط کام سرزد ہوجائے تو ان کی توجیہ کرنا چاہیئے_یہ اہل سنت کے اکثر گروہوںکا عقیدہ ہے _

۳۷

دوسرا عقیدہ یہ ہے کہ اگر چہ ان کے در میان باشخصیت،فداکار،پاک اور باتقوی افراد موجود تھے لیکن منافق اور غیر صالح افراد بھی موجود تھے _اور قرآن مجید اور پیغمبر اکرم (ص) نے ان سے اظہار بیزاری کیا ہے _

با الفاظ دیگر اچھے اور برے کی تشخیص کا جو معیار ہر جگہ استعمال ہوتا ہے وہی معیار ہم یہاں بھی جاری کریں گے _ ہاں چونکہ یہ پیغمبر اکرم(ص) کے اصحاب تھے اس لئے ان کے بارے میں ہمارا اصلی و بنیادی نظریہ یہ ہوگا کہ یہ نیک و پاک افراد ہیں ،لیکن اس کے با وجود ہم حقائق سے ہرگز چشم پوشی نہیں کریں گے _اور عدالت و صدق سے منافی اعمال کے صدورپر غض بصر نہیں کریں گے _چونکہ یہ کام ،اسلام اور مسلمین پر ایک کاری ضرب لگا تا ہے اور اسلام کی چار دیواری میں منافقین کے داخلہ کا سبب بنتا ہے_

مذہب شیعہ اور اہلسنت کے روشن فکر علماء کے ایک گروہ نے اس عقیدہ کا انتخاب کیا ہے_

۲_تنزیہ کے سلسلہ میں شدّت پسندی:

تنزیہ صحابہ والے نظریہ کے طرفداروں کے ایگ گروہ نے اتنی شدت اختیار کی ہے کہ جو بھی اصحاب پر تنقید کر دے اسے فاسق اورکبھی ملحد اور زندیق شمار کرتا ہے اور یا اس کا خون بہانا مُباح سمجھتا ہے_

من جملہ ابو زرعہ رازی کی کتاب '' الاصابة'' میں یوں ملتا ہے:'' اگر دیکھو کوئی شخص اصحاب پیغمبر(ص) میں سے کسی پر تنقید کر رہا ہے تو جان لو کہ وہ زندیق ہے_ یہ فتوی اس لئے ہے چونکہ رسولخدا(ص) حق اور قرآن حق ہے اور جو کچھ پیغمبر پر نازل ہوا حق ہے اور ان تمام چیزوں کو

۳۸

صحابہ نے ہم تک پہنچایا ہے اور یہ ( مخالفین) چاہتے ہیں ہمارے شہود (گواہوں) کو بے اعتبار کردیں تا کہ کتاب و سنت ہاتھ سے چلی جائے''(۱)

'' عبداللہ موصلی '' اپنی کتاب '' حتی لا ننخدع '' میں یوں رقمطراز ہیں'' یہ اصحاب ایسا گروہ ہے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر(ص) کی ہم نشینی اور دین و شریعت کے قوام کے لیے چُن لیا ہے_ اور انہیں پیغمبر(ص) کا وزیر قرار دیا ہے_ انکی محبت کو دین و ایمان اور انکے بُغض کو کفر و نفاق شمار کیا ہے اور امت پر واجب کیا ہے کہ ان سب کو دوست رکھیں اور ہمیشہ انکی خوبیاں اور فضائل بیان کریں اور انکی آپس میں جو جنگیں اور جھگڑے ہوئے ہیں ان پر خاموشی اختیار کریں''(۲)

عنقریب روشن ہو جائیگا کہ یہ بات قرآن و سنت کے خلاف ہے_

۳_ لا جواب سوالات:

ہر عقلمند اور منصف مزاج انسان جو ہر بات کو بغیر دلیل اور آنکھیں بند کر کے قبول نہیں کرتا اپنے آپ سے یہ سوالات کرتا ہے_

اللہ تعالی قرآن مجید میں ازواج پیغمبر(ص) کے بارے میں یوں فرماتا ہے کہ:

( '' يَانسائَ النّبی مَن يَات منكُنَّ بفاحشة: مبيّنة: يُضاعَفُ لَهَا العذابُ ضعفَین و کانَ ذلک علی الله یسیراً'' ) (۳)

____________________

۱) الاصابہ ، جلد ۱، ص ۱۷_

۲) حتی لاننخدع ، ص ۲_

۳)سورہ احزاب، آیت ۳۰_

۳۹

اے ازواج رسول(ص) تم میں سے جس نے بھی کھلم کھلا گناہ کیا اس کی سزا دو برابر ہوگی اور یہ بات اللہ تعالی کے لیے انتہائی آسان ہے_

ہم صحابہ کی جو بھی تفسیر کریں ( عنقریب اصحاب کی مختلف تعریفیں بیان ہونگی) بلاشک ازواج نبی(ص) اصحاب کا روشن ترین مصداق ہیں_

قرآن مجید کہتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ انکے گناہوں سے چشم پوشی نہیں کی جائے گی بلکہ انکی سزا دوبرابر ہوگی_

کیا ہم اس آیت پریا نظریہ تنزیہ کے طرفداروں کی بلا مشروط حمایت پریقین رکھیں؟

نیز قرآن مجید ،شیخ الانبیاء حضرت نوح _ کے فرزند کے بارے میں اس کی غلطیوں کی وجہ سے یوں فرماتا ہے ''( إنّه عملٌ غیرُ صالح ) :'' وہ غیر صالح عمل ہے _(۱)

اور جناب نوح (ع) کو خبردار کیا گیا کہ اس کی شفاعت نہ کریں

کیا ایک نبی(ع) کا فرزند اہم ہوتا ہے یا اس کے اصحاب و اعوان؟

حضرت نوح اور لوط علیہما السلام کی بیویوں کے بارے میں قرآن مجید یوں کہتا ہے:

''( وَ فَخَانَتاهُما فلم يُغنيَا عنهما من الله شَیئاً و قیلَ ادخُلا النّارَ مع الدَّاخلین'' ) (۲)

ان دو نے اپنے شوہروں ( نوح (ع) اور لوط(ع) کے ساتھ خیانت کی ( اور دشمنوں کا ساتھ دیا) اور وہ دو پیغمبر انکی شفاعت نہ کر سکے اور ان دونوں کو حکم دیا گیا کہ دوزخیوں کے ساتھ آگ میں داخل ہوجاؤ_

____________________

۱) سورة ہود آیت ۴۶_

۲)سورة تحریم آیت ۱۰_

۴۰