شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں0%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 232
مشاہدے: 76429
ڈاؤنلوڈ: 4074

تبصرے:

شيعہ جواب ديتے ہيں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 76429 / ڈاؤنلوڈ: 4074
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

۴۷ کیا یہ آیات صراحت کے ساتھ بیان نہیں کر رہیں کہ افراد کی خوبی اور بدی کا معیار انکا اپنا ایمان اور عمل ہے_ حتی کہ اگر بُرے اعمال ہوں تو نبی(ع) کی بیوی یا بیٹا ہونا بھی جہنم میں جانے سے نہیں روک سکتا_

اس کے باوجود کیا صحیح ہے کہ ہم آنکھیں بند کرلیں اور کہیں کہ فلاں شخص چونکہ کچھ عرصہ کے لیئے بنی (ص) کا صحابی رہا ہے لہذا اس کی محبت دین و ایمان اور اس کی مخالفت کفر و نفاق ہے_ چاہے وہ صحابی بعد میں منافقین کی صف میں داخل ہوگیا ہو اور اس نے نبی اکرم(ص) کا دل دکھایا ہو اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ہو_ کیا عقل و خرد اس بات کو قبول کرتی ہے؟

اگر کوئی کہے کہ طلحہ و زبیر ابتدائ-ے اسلام میں اچھے انسان تھے لیکن جس وقت حکومت کی ہوس اُن پر سوار ہوئی تو انہوں نے زوجہ رسول(ص) ( حضرت عائشےہ) کواپنے ساتھ لیا اور حضرت علی(ع) کے ساتھ اپنی بیعت و پیمان توڑ ڈالی حالانکہ تقریبا تمام مسلمانوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی_ پھر انہوں نے جنگ جمل کی آتش کو بھڑ کایا اور اس طرح سترہ ہزار مسلمان اس جنگ کا لقمہ بن گئے_ پس یہ لوگ راہ راست سے منحرف ہوگئے تھے اور اس عظیم تعداد کا خون انکی گردن پر ہے اور قیامت کے دن یہ جوابدہ ہونگے_

کیا یہ بات حقیقت کے خلاف ہے؟

یا اگر کوئی کہے چونکہ معاویہ نے حضرت علی (ع) کی بیعت کی خلاف ورزی کی اور جس خلافت کو تمام مسلمانوں نے قبول کر لیا تھا تو اس نے انکار کیا اور جنگ صفین کی آگ بھڑکائی جس میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان لقمہ اجل بن گئے_ لہذا معاویہ سمتگر آدمی تھا_ کیا یہ بات نا حق ہے؟

۴۱

کیا تاریخ کے ان تلخ حقائق سے چشم پوشی کی جاسکتی ہیں_ یا ان غلط توجیہات کی خاطر کہ جنہیں کوئی بھی عقلمند آدمی قبول نہیں کرتا ان نہایت افسوس ناک حوادث سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے؟ کیا '' عبداللہ موصلی کے بقول ایسے افراد کی محبت، دین و ایمان ہے اور انکا بغض کفر و نفاق ہے؟

کیا ہمارا فریضہ یہ ہے کہ ان غلط کاموں کے سامنے جو ہزاروں مسلمانوں کے قتل کے موجب بنے ہیں سکوت اختیار کریں؟ کونسی عقل یہ حکم لگاتی ہے؟ قرآن مجید کہتا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کے گرد جمع ہونے والوں میں منافق لوگ بھی تھے کیا ان آیات قرآن سے چشم پوشی کرلیں؟

قرآن مجید یوں فرماتا ہے :

''( و ممَّن حَولَکم من الأعراب مُنافقُونَ و من أهل المدینة مَرَدُوا علی النّفاق لا تَعلَمُهُم نَحنُ نَعلَمُهُم ) ''(۱)

کیا آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ اس قسم کی منطق کو دنیا کے عقلمند انسان قبول کرلیں؟

۴: صحابہ کون ہیں؟

اس مقام پر ایک اور اہم نکتہ مفہوم '' صحابہ'' ہے_

صحابہ کہ جن کے بارے میں طہارت و پاکیزگی کی بات کی جاتی ہے تو مسئلہ یہ ہے کہ صحابہ سے کون لوگ مراد ہیں _اس سلسلہ میں علمائے اہل سنت کی جانب سے مکمل طور پر مختلف تعریفیں بیان کی گئی ہیں_

____________________

۱)سورہ توبہ آیت ۱۰۱_

۴۲

۱_ بعض نے تو اس کے مفہوم کو بہت وسیع کردیا ہے _وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے جس نے بھی آنحضرت (ص) کو دیکھا ہے وہ آپ (ص) کاصحابی ہے

اسی تعبیر کو '' بخاری'' نے ذکر کیا ہے وہ یوں لکھتے ہیں ''من صَحَبَ رسولُ الله او رآه من المسلمین فهو من أصحابه''

اہل سنت کے معروف عالم جناب احمد بن حنبل نے بھی صحابی کے مفہوم کو بہت وسیع بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں''أصحابُ رسول الله کلُّ منَ صَحَبه ، شَهراً أو يَوماً أو سَاعَةً أو رَآه''

''رسولخدا(ص) کا صحابی وہ ہے کہ جس نے رسولخدا(ص) کی صحبت اختیار کی ہو چاہے ایک ماہ ایک دن یا حتی ایک گھنٹے کیلئے بھی بلکہ اگر کسی نے آنحضرت(ص) کی زیارت کی ہو وہ بھی صحابی ہے''

۲_ بعض علماء نے صحابی کی تعریف کو محدود انداز میں پیش کیا ہے مثلا '' قاضی ابوبکر محمد ابن الطيّب'' لکھتے ہیں کہ اگرچہ صحابی کا لغوی معنی عام ہے لیکن اُمت کے عرف عام میں اس اصطلاح کا اطلاق صرف اُن افراد پرہوتا ہے جو کافی عرصہ تک آنحضرت(ص) کی صحبت میں رہے ہوں نہ ان لوگوں پرکہ جو صرف ایک گھنٹہ کی محفل میں بیٹھاہو یا آپ(ص) کے ساتھ چند قدم تک چلا ہو یا اُس نے ایک آدھ حدیث آنحضرت(ص) سے سُن لی ہو''_

۳_ بعض علماء نے صحابی کی تعریف کا دائرہ اس سے بھی زیادہ تنگ کردیا ہے جیسے'' سعید بن المسيّب'' لکھتے ہیں کہ '' پیغمبر (ص) کا صحابی وہ ہے جو کم از کم ایک یا دو سال آنحضرت(ص) کے ساتھ رہا ہو اور ایک یا دو غزووں میں اس نے آنحضرت(ص) کے ساتھ شرکت کی ہو''(۱)

____________________

۱) تفسیر قرطبی، جلد ۸، ص ۲۳۷_

۴۳

ان تعاریف اور دیگر تعریفوں میں کہ جنہیں طوالت کے خوف کیوجہ سے ذکر نہیں کیا جا رہا ہے مشخّص نہیں ہے کہ اس قداست کے دائرے میں آنے والے افراد کون سے ہیں_ اکثر علماء نے اسی وسیع معنی کو اختیار کیا ہے_اگرچہ ہماری مدّ نظر ابحاث میں ان تعریفوں کے اختلاف سے زیادہ فرق نہیں پڑتا ہے_ جیسا کہ عنقریب روشن ہوجائیگا کہ سیرت رسول(ص) کی خلاف ورزی کرنیوالے اکثروہ افراد ہیں جو کافی عرصہ تک آپ(ص) کے ہمنشین رہے ہیں_

۵:''عقیدہ تنزیہ کا اصلی سبب''

اس کے باجود کہ اصحاب کی اس حد تک پاکیزگی کا عقیدہ رکھنا کہ جو بعض لحاظ سے عصمت کے مشابہ ہے نہ تو قرآن مجید میں اس کا حکم آیا ہے نہ احادیث میں بلکہ قرآن ، سنت اور تاریخ سے اس کے برعکس مطلب ثابت ہے حتی کہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلی صدی میں اس قسم کا کوئی عقیدہ موجود نہیں تھا_ تو پھر دیکھنا یہ ہے کہ بعد والی صدیوں میں یہ مسئلہ کیوں اور کس د لیل کی بناپرپیش کیا گیاہے؟

ہمارے خیال کے مطابق اس عقیدہ کے انتخاب کی چند وجوہات تھیں

۱_ اگر کمال حُسن ظن سے کام لیا جائے تو ایک وجہ تو یہی ہے جسے سابقہ ابحاث میں ذکر کیا گیا ہے کہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ اگر صحابہ کرام کا تقدس پائمال ہوجائے تو انکے اور پیغمبر(ص) کے درمیان حلقہ اتصال ٹوٹ جائے گا_کیونکہ قرآن مجید اور پیغمبر اکرم(ص) کی سنت انکے واسطہ سے ہم تک پہنچی ہے_

لیکن اس بات کا جواب بالکل واضح ہے کیونکہ کوئی بھی مسلمان معاذ اللہ تمام اصحاب کو غلط اور کاذب نہیں کہتا ہے کیونکہ انکے درمیان ثقہ اور مورد اطمینان افراد کثرت کے ساتھ

۴۴

تھے،وہی بااعتماد افراد ہمارے اور پیغمبر اکرم(ص) کے درمیان حلقہ اتصال بن سکتے ہیں_ جس طرح ہم شیعہ، اہلبیت(ع) کے اصحاب کے بارے میں یہی نظریہ رکھتے ہیں_

دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد والی صدیوں میں بھی یہی مشکل موجود ہے کیونکہ آج ہم کئی واسطوں کے ذریعے اپنے آپ کو زمانہ پیغمبر(ص) کے ساتھ متّصل کرتے ہیں_ لیکن کسی نے دعوی نہیں کیا کہ یہ تمام واسطے ،ثقہ اور صادق ہیں اور ہر صدی کے لوگ بڑے مقدس تھے اور اگر ایسا نہ ہوتو ہمارا دین متزلزل ہوجائیگا_

بلکہ سب یہی کہتے ہیں کہ روایات کو ثقہ اور عادل افراد سے اخذ کرنا چاہیئے_

علم رجال کی کتب تحریر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ثقہ کو غیر ثقہ سے ممتاز کیا جاسکے_

تواب کیا مشکل ہے کہ اصحاب کرام کے بارے میں بھی ہم وہیطریقہ عمل اختیار کریں جو ان سے بعد والوں کے بارے میں اختیار کرتے ہیں؟

۲: بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بعض صحابہ کے بارے میں ''جرح'' یعنی انکے نقائص بیان کرنے اور ان پر تنقید کرنے سے پیغمبر اسلام(ص) کے مقام و منزلت میں کمی واقع ہوتی ہے_ اس لیے اصحاب پر تنقید جائز نہیں ہے_

جو لوگ اس دلیل کا سہارا لیتے ہیں ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا قرآن مجید نے پیغمبر(ص) کے گرد جمع ہونے والے منافقین پر شدید ترین حملے نہیں کیے ہیں؟ کیا آنحضرت(ص) کے خالص اور صادق اصحاب کے درمیان منافقین کی موجودگی کی وجہ سے آپ(ص) کی شان میں کمی واقع ہوئی ہے؟ ہرگزایسا نہیں ہے

خلاصہ یہ کہ ہمیشہ اور ہر زمانے میں حتی تمام انبیاء کے زمانوں میں اچھے اور بُرے افراد

۴۵

موجود تھے_ اور انبیاء کے مقام و منزلت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا_

۳_ اگر اصحاب کے اعمال پر جرح و تنقید کا سلسلہ شروع ہوجائے تو بعض خلفاء راشدین کی شخصیت پر حرف آتا ہے_اس لئے ان کے تقدس کی حفاظت کیلئے صحابہ کی قداست پر تاکید کرنا چاہئے تا کہ کوئی شخص مثلا حضرت عثمان کے اُن کاموں پر اعتراض نہ کرے جو بیت المال کے بارے میں اور اس کے علاوہ ان کے دور حکومت میں وقوع پذیر ہوئے اور یہ نہ کہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا_

یہاںتک کہ اس قداست کے قالب میں معاویہ اور اس کے اقدامات ;جیسے کہ اس نے خلیفہ رسول(ص) حضرت علی _ کی مخالفت کی اور اُن کے ساتھ جنگیں کیں اور مسلمانوں کے قتل عام کا موجب بنا;کی توجیہ کی جاسکے، اور اس ہتھیار کے ذریعے ایسے افراد کو تنقید سے بچایا جاسکے_ البتہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس قداست والے مسئلہ کی بنیاد ابتدائی صدیوں کے سیاستدانوں نے رکھی_ جسطرح انہوں نے کلمہ '' اولی الامر'' کی تفسیر، ''حاکم وقت'' کی تا کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے ظالم حکام کی اطاعت کو بھی ثابت کیا جاسکے نیز یہ حکام کا سیاسی پروگرام اور لائحہ عمل تھا_ ہمارا یہ خیال ہے کہ ایسی باتوں سے ان کا مقصدسب صحابہ کو بچانا نہ تھا بلکہ اپنے مورد نظر افراد کی حمایت مقصود تھی_

۴_ بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اصحاب کے تقدس کا عقیدہ قرآن مجید اور سنت نبوی(ص) کے فرمان کے مطابق ہے کیونکہ قرآن مجید کی بعض آیات اوربعض احادیث میں یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے_

اگرچہ یہ بہترین توجیہ ہے لیکن جب ہم ادّلہ کی تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات و روایات میں جس چیز کو وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں موجود نہیں ہے_سب سے اہم آیت

۴۶

جس کو دلیل کے طور پر ذکر کیا گیا ہے مندرجہ ذیل آیت ہے:

''( و السابقون الاوّلون من المُهاجرینَ و الأنصار وَ الَّذین اتّبعُوهُم رَضی الله عنهم و رَضُو عنه و أعَدَّ لهم جَنّات: تَجری تَحتهَا الأنهارُ خالدین فیها أبداً ذلک الفَوزُ العظیم ) ''(۱)

مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ انکی پیروی کی اللہ تعالی ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں اور اللہ تعالی نے انکے لئے باغات تیار کر رکھے ہیں جنکے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں یہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے _

اہلسنت کے بہت سے مفسّرین نے اس آیت کے ذیل میں ( بعض صحابہ اور پیغمبر(ص) اکرم سے حدیث ) نقل کی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ ''جمیع أصحاب رسول الله فی الجنّة مُحسنهم ومُسیئهم'' اس حدیث میں مذکورہ بالا آیت سے استناد کیا گیا ہے_(۲)

دلچسپ یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیت کہتی ہے کہ تابعین اس صورت میں اہل نجات ہیں جب نیکیوں میں صحابہ کی پیروی کریں ( نہ برائیوں میں ) اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ صحابہ کے لیے بہشت کی ضمانت دی گئی ہے _کیا اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ گناہوں میں آزاد ہیں؟

جو پیغمبر(ص) ، لوگوں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے آیا ہے کیا ممکن ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو استثناء کر دے اور ان کے گناہوں سے چشم پوشی کرے_ حالانکہ قرآن مجید ،ازواج رسول(ص) کے بارے میں فرماتا ہے کہ جو سب سے نزدیک صحابیہ تھیں، اگر تم نے گناہ کیا تو تمہاری سزا دو

____________________

۱) سورة توبہ آیت ۱۰۰_

۲) تفسیر کبیر فخر رازی و تفسیر المنار ذیل آیت مذکورہ_

۴۷

برابر ہے_(۱)

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اگر اس آیت میں کسی قسم کا ابہام بھی ہو تو اسے سورة فتح کی آیت نمبر ۲۹ رفع کر دیتی ہے کیونکہ یہ آیت پیغمبر اکرم(ص) کے سچّے اصحاب کی صفات بیان کر رہی ہے_

''أشدَّاء عَلی الکفّار رُحَمَائُ بَینَهُم تراهُم رُكَّعاً سُجَّداً يَبتَغُونَ فَضلاً منَ الله و رضوَاناً سیمَاهُم فی وُجُوههم من أثَر السُجُود''

یہ لوگ کفار کے مقابلے میں شدید اور زبردست ہیں اور آپس میں مہربان ہیں انہیں ہمیشہ رکوع و سجود کی حالت میں دیکھو گے اس حال میں کہ مسلسل فضل و رضائے خدا کو طلب کرتے ہیں_ سجدہ کے آثار ان کے چہروں پر نمایاں ہیں''_

جنہوں نے جمل و صفّین جیسی جنگوں کی آگ بھڑکائی اور امام وقت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اورہزاروں مسلمانوں کو قتل کرایا_ کیا وہ ان سات صفات کے مصداق تھے؟ کیا وہ آپس میں مہربان تھے؟ کیا انکے عمل کی شدت کفار کے مقابلے میں تھی یا مسلمانوں کے مقابلے میں ؟

اللہ تعالی نے اسی آیت کے ذیل میں ایک جملہ ارشاد فرمایا ہے جو مقصود کو مزید روشن کرتا ہے

( ''وَعَدَ الله الّذین آمَنُو و عَملُو الصّالحات منهم مَغفرَةً و أجراً عَظیماً'' ) (۲)

اللہ تعالی نے ( ان اصحاب میں سے) جو ایمان لائے اور اعمال صالح انجام دیتے

____________________

۱) سورہ احزاب آیہ ۳۰_

۲) سورہ فتح آیہ ۲۹_

۴۸

رہے ان سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ دیا ہے_

پس واضح ہوگیا کہ مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو با ایمان اور اعمال صالح انجام دیتے ہیں_ جن لوگوں نے جنگ جمل میں مسلمانوں کو قتل کیا اور اس جیسی جنگوں کو بھڑکایا اور حضرت عثمان کے دور میں بیت المال کو ہڑپ کیا وہ کیا اعمال صالح انجام دینے والے تھے؟

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے اولوالعزم پیغمبروں کا ایک ترک اولی کی خاطر مؤاخذہ کیاہے _ حضرت آدم(ع) کو ایک ترک اولی کی خاطر بہشت سے نکال دیا_ حضرت یونس (ع) کو ایک ترک اولی کی خاطر ایک عرصہ مچھلی کے پیٹ میں ،تین اندھیروں میں بند رکھا_

حضرت نوح (ع) کو اپنے گناہ گار بیٹے کی سفارش پر تنبیہ فرمائی_تو اب کیا یہ یقین کرنے کی بات ہے کہ اصحاب پیغمبر(ص) اس قانون سے مستثنی ہوں_

۶_ کیا تمام اصحاب بغیر استثناء کے عادل تھے؟:

جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اکثر برادران اہلسنت اسی بات کے قائل ہیں کہ تمام صحابہ یعنی جو پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں تھے یا جنہوں نے آپ(ص) کے زمانے کو پویا اور کچھ عرصہ تک آپ(ص) کے ساتھ رہے ہیں بغیر کسی استثناء کے مقام عدالت پر فائز تھے اور قرآن مجید اسی بات کی گواہی دیتا ہے_

مقام افسوس یہ ہے کہ ان بھائیوں نےقرآن کی کچھ اُن آیات کو جو ان کے نفع میں تھیں قبول کر لیا ہے لیکن دوسری آیات سے انہوں نے چشم پوشی کی ہے اُن آیات سے جن میں اس

۴۹

بات سے استثناء موجود ہے ( جیسا کہ واضح ہے کہ ہر عموم کے لئے عام طور پر استثناء موجود ہوتا ہے)_

ہم عرض کریں گے:

کہ یہ کیسی عدالت ہے جس کے خلاف قرآن مجید نے بارہا گواہی دی ہے _ من جملہ سورة آل عمران کی آیت ۱۵۵ میں یوں بیان ہوا ہے_

'' انّ الّذین تَوَلَّوا منكُم يَومَ التقيَ الجَمعَان انّما إستَزَلَّهُم الشَیطانُ ببَعض مَا كَسَبُوا وَ لَقَد عَفاَ الله عنهم إنّ الله غفورٌ حَلیم''

اس آیت میں ان لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو جنگ اُحد کے دن فرار کر گئے اور پیغمبر اکرم(ص) کو دشمن کے مقابلہ میں تنہا چھوڑ گئے تھے_ آیت فرماتی ہے '' جو لوگ دو لشکروں کے روبرو ہونے والے دن ( یعنی جنگ احد میں ) فرار کر گئے تھے_ شیطان نے انہیں انکے بعض گناہوں کی وجہ سے بہکا لیا اللہ تعالی نے انہیں معاف کردیا چونکہ اللہ تعالی بخشنے والا اور بردبار ہے''_

اس آیت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اُس دن ایک گروہ فرار کر گیا تھا اور تاریخ میں اس گروہ کی تعداد بہت زیادہ ذکر کی گئی ہے اور دلچسپ یہ ہے کہ قرآن مجید کہتا ہے شیطان نے ان پر غلبہ کیا اور یہ غلبہ انکے اُن گناہوں کی وجہ سے تھا جس کے وہ پہلے مرتکب ہوچکے تھے_ اس سے پتہ چلا کہ سابقہ گناہ ایک بڑے گناہ یعنی غزوہ سے فرار اور میدان اور دشمنسے پشت کرکے فرار کرنے کا موجب بنے_ اگرچہ آیت کا ذیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں بخش دیا_

۵۰

یہ بخشش پروردگارپیغمبر اکرم(ص) کی وجہ سے تھی_

اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عادل تھے اور انہوں نے گناہ نہیں کیا_ بلکہ صراحت کے ساتھ قرآن مجید فرما رہا ہے کہ انہوں نے متعدّد گناہ کیئے_

یہ کیسی عدالت ہے کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں سورة حجرات کی آیة نمبر ۶ میں بعض کو فاسق کے عنوان سے یاد کر رہا ہے:

''یا ايّها الّذین آمَنُو إن جاء كُم فاسقٌ بنَبا فَتَبَيَّنُوا أن تُصیبُوا قوماً بجهالة فَتُصبحُوا علی مَا فَعَلتُم نَادمین''

اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو اس کے بارے میں تحقیق کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ لا علمی میں تم لوگ کسی کونقصان پہنچا بیٹھواور پھر بعد میں اپنے کیے پر پشیمان ہو''

مفسّرین کے درمیان مشہور ہے کہ یہ آیت '' ولید بن عُقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے_ پیغمبر اکرم' نے اسے ایک جماعت کے ساتھ '' بنی المصطلق'' قبیلہ کے پاس زکات کی جمع آوری کے لیئے بھیجا_ واپسی پر ولید نے کہا کہ وہ زکوة نہیں دیتے اور اسلام کے خلاف انہوں نے قیام کرلیا ہے مسلمانوں کے ایگ گروہ نے ولید کی بات پر یقین کرلیا اور اس قبیلہ کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہوگئے_ لیکن سورہ حجرات کی یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو خبردار کیا کہ اگر ایک فاسق آدمی خبر لے کر آئے تو اس کے بارے میں تحقیق کرلیا کرو_ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جھوٹی خبر کی وجہ سے تم کسی قبیلہ کو نقصان پہنچاؤ اور پھر بعد میں اپنے کیئے پر

۵۱

پشیمان ہو_

اتفاقاً تحقیق کے بعد واضح ہوا کہ بنی المصطلق قبیلہ کے لوگ مؤمن ہیں اور ولید کے استقبال کے لیئے باہر آئے تھے نہ اسلام اوراس کے خلاف قیام کرنے کے لیے لیکن چونکہ ولید انکے ساتھ سابقہ ( قبل از اسلام ) دشمنی رکھتا تھا اسی امر کا بہانہ بنا کر واپس چلا آیا اور غلط خبر پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں پیش کردی_ ولید صحابی پیغمبر(ص) تھا_ یعنی اُن افراد میں سے تھا جنہوں نے پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے کوپایا اور آپ(ص) کی خدمت میں رہے_ جبکہ قرآن مجید اس آیت میں اُسے فاسق بتارہا ہے _کیا یہ آیت تمام اصحاب کی عدالت والے نظریہ کے ساتھ سازگار ہے؟

یہ کیسی عدالت ہے کہ بعض اصحاب زکاة کی تقسیم کے وقت پیغمبر اکرم(ص) پر اعتراض کرتے ہیں__ قرآن مجید انکے اعتراض کو سورہ توبہ آیہ۵۸ میں نقل فرماتا ہے :

'' و منهم مَن يَلمزُک فی الصّدقات فان اُعطُوا منها رَضُوا وَ إن لم يُعطُوا منها اذأ هم يَسخَطُون''

'' انکے درمیان ایے لوگ بھی ہیں جو غنائم کی تقسیم میں آپ(ص) پر اعتراض کرتے ہیں اگر انہیں اس میں سے عطا کیا جائے تو راضی ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو غصّے میں رہتے ہیں'' کیا اس قسم کے افراد عادل ہیں؟

یہ کیسی عدالت ہے کہ قرآن مجید سورہ احزاب کی آیت نمبر ۱۲ اور ۱۳ میں جنگ احزاب کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ بعض منافقین او ر بیماردل لوگ جو پیغمبر اکرم' کی خدمت میں تھے اور انہوں نے جنگ میں شرکت کی لیکن پیغمبر اکرم(ص) پر فریب کاری کی تہمت لگائی_

۵۲

'' ما وَعَدَنا الله و رسُولہ الاّ غُروراً'' خدا اور رسول(ص) نے ہمیں صرف اور صرف جھوٹے وعدے دیئے ہیں ان میں سے بعض یہ خیال رکھتے تھے کہ اس جنگ میں پیغمبر اکرم(ص) کو شکست ہوگی اور احتمالاً وہ قتل ہوجائیں گے اور اسلام کی بساط لپٹ جائیگی_

یا ان روایا ت کے مطابق جنہیں شیعہ و سنّی نے نقل کیا ہے یہ معلوم ہوتاہے کہ خندق کھودنے کے دوران ایک پتھر ملا جسے آپ(ص) نے توڑا اور مسلمانوں کو شام ، ایران اور یمن کی فتح کا وعدہ دیا تو ایک گروہ نے آنحضرت(ص) کی اس بات کا مذاق اڑایا_

کیا یہ اصحاب نہیں تھے؟اور اس سے زیادہ عجیب بات کو بعد والی آیت بیان کر رہی ہے کہ '' ان میں سے ایک گروہ نے ( مدینہ کے بعض لوگوں کو کہ جو جنگ میں حاضر ہوئے تھے مخاطب کر کے )کہا یہ تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ( ''و إذ قَالَت طائفةٌ منهم یا اَهلَ يَثربَ لا مُقَامَ لکم فَارجعُوا'' )

اور پھر ایک گروہ آنحضرت(ص) کی خدمت میں آیا اور میدان احزاب سے فرار کرنے کے بہانے بنانے لگا_ اسی آیت میں یوں ارشاد ہے( ''وَ يَستَأذنُ فریقٌ منهم النّبی يَقُولُون إن بُيُوتَنَا عَورَة و مَا هی بعَورَة إن يُریدُونَ الا فراراً'' ) ان میں سے ایک گروہ پیغمبر اکرم(ص) سے واپسی کی اجازت مانگتا تھا اور کہتا تھا کہ ہمارے گھر اکیلے ہیں لہذا ہمیں اجازت دیجئے تا کہ اپنے گھروں کی حفاظت کے لیے واپس مدینہ چلے جائیں_یہ لوگ جھوٹ بول رہے تھے ان کے گھر اکیلے نہیں تھے_ یہ صرف فرار کا بہانہ تلاش کر رہے تھے'' اب خود ہی فیصلہ کیجئے ہم کیسے ان تمام امورسے چشم پوشی کرلیں اور ان پر تنقید کو جائز نہ سمجھیں؟

۵۳

ان سب سے بدتر بعض اصحاب کا پیغمبر اکرم(ص) کی طرف خیانت کی نسبت دینا ہے اور قرآن مجید نے سورة آل عمران کی آیت ۱۶۱ میں اسے منعکس کیا ہے( '' و ما كَانَ لنَبيّ أن يَغُلَّ و من يَغلُل يَأت بما غَلَّ يَومَ القیامَة ثُم تُوَفّی كُلّ نفس: مّا کسبَت و هُم لا يُظلَمُونَ'' )

''ممکن نہیں ہے کہ کوئی نبی خیانت کرے اور جو کوئی خیانت کرے گا قیامت کے دن جس قسم کی خیانت کی ہوگی اسے اپنے ساتھ دیکھے گا_ پھر ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائیگا_ اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائیگا'' یعنی اگر سزا ملے گی تو انکے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوگی_

اس آیت کی دو شأن نزول بیان کی گئی ہیں_ بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت ''عبداللہ بن جُبیر'' کے دوستوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ وہ جنگ اُحد میں ''عینین'' نامی مورچہ میں تھے_ اور جب جنگ کی ابتداء میں اسلام کا لشکر دشمن پر فتح پاگیا تو عبداللہ کے ہمراہ تیرانداز تھے حالانکہ رسولخدا(ص) نے فرمایا تھا کہ تمہیںاپنی جگہ سے حرکت نہیں کرنی جبکہ اس گروہ نے اپنا مورچہ چھوڑ دیا اور غنائم لوٹنے کے پیچھے دوڑ پڑے_ اس سے بھی بُرا عمل انکی باتیں تھیں کہ کہتے تھے کہ ہمیں خطرہ ہے کہیں رسولخدا(ص) ہمارا حق ہمیں نہ دیں (اور اس قسم کے جملے کہے جنہیں لکھنے سے قلم شرم محسوس کرتی ہے)_

''ابن کثیر'' اور '' طبری'' نے اسی آیت کے ذیل میں اپنی تفسیر میں ایک اور شان نزول کوذکر کیا ہے_ وہ یہ کہ جنگ بدر میں کامیابی کے بعد ایک سرخ رنگ کا قیمتی کپڑا گم ہوگیا_ بعض کم عقل لوگوں نے رسولخدا(ص) کو خیانت سے متہم کیا_ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ کپڑا مل گیا اور معلوم ہوا کہ لشکر میں موجود فلاں شخص نے اٹھایا تھا_

۵۴

پیغمبر اکرم(ص) کی طرف اس قسم کی ناروا نسبتیں دینے کے باوجود کیا عدالت باقی رہتی ہے؟ اگر ہم اپنے وجدان کے ساتھ قضاوت کریں تو کیا قبول کریں گے کہ اس قسم کے افراد عادل اور پاک و پاکیزہ تھے اور کسی کو انکے ایسے کاموں پر تنقید کرنے کا حق نہیں ہے؟

ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) کے اکثر اصحاب و یاران با تقوی اور پاکیزہ انسان تھے_ لیکن سب کے لیے ایک ہی حکم لگا دینا اور سب پر تقوی اور عدالت کی قلعی چڑھا دینا اور ان پر کسی قسم کی تنقید کرنے کا حق سلب کردینا ایک انتہائی عجیب بات ہے_

یہ کیسی عدالت ہے کہ ایک انسان جو ظاہراً پیغمبر اکرم(ص) کے اصحاب میں سے ہے ( ہمارا مقصود معاویہ ہے ) نبی اکرم(ص) کے با عظمت صحابی حضرت علی _ پر سال ہا سال سبّ و لعن کرتا ہے اور تمام شہروں میں سب کواس کام کا حکم دیتا ہے_

ان دو احادیث کی طرف توجہ فرمایئے

۱_ صحیح مسلم میں کہ جو اہلسنت کی معتبر ترین کتاب ہے یوں بیان ہوا ہے_

کہ ''معاویہ'' نے ''سعد بن ابی وقاص''سے کہا کہ کیوں ابو تراب (علی ابن ابی طالب) پر سبّ و لعن سے پرہیز کرتے ہو؟ اس نے کہا میں نے پیغمبر اکرم (ص) سے اُن کے بارے میں تین فضائل ایسے سنے ہیں کہ اگر وہ میرے بارے میں ہوتے تو میرے لیئے دنیا کی عظیم دولت سے زیادہ اہمیت رکھتے _ اس لیے میں اُن پر سَبّ و شتم نہیں کرتا ہوں_(۱)

____________________

۱) صحیح مسلم، جلد ۴ ص ۱۸۷۱، کتاب فضائل الصحابہ اور اسی طرح کتاب فتح الباری فی شرح صحیح البخاری، جلد ۷ ص ۶۰ پر بھی یہ حدیث بیان ہوئی ہے ( وہ تین فضلتیں یہ ہیں: ۱_ حدیث منزلت، ۲_حدیث لاعطین الرایة غداً ۳_ آیت مباہلہ)_

۵۵

۲_ کتاب '' العقد الفرید'' میں کہ جسے اہلسنت کے بزرگ عالم دین ( ابن عبد ربّہ اندلسی ) نے تألیف کیا ہے یوں بیان ہوا ہے کہ جب امام حسن ابن علی علیہما السلام کی شہادت ہوئی، اس کے بعد معاویہ مكّہ کے بعد مدینہ آیا اُس کا ارادہ تھا کہ مدینہ میں منبر رسول (ص) سے حضرت علی _ پَر سبّ و لعن کرے_ لوگوں نے کہا کہ '' سعد بن ابی وقاص'' بھی مسجد میں ہے اورہمارے خیال کے مطابق وہ تیری اس بات کو تحمل نہیں کریگا اور شدید ردّ عمل کا اظہار کرے گا لہذا کسی کو اُس کے پاس بھیج کر اُس کی نظر معلوم کرلو_

معاویہ نے ایک آدمی کو سعد کے پاس بھیجا اور اس مطلب کے بارے میں استفسار کیا سعد نے جواب میں کہا کہ اگر معاویہ نے یہ کام کیا تومیں رسولخدا(ص) کی مسجد سے باہر چلا جاؤں گا اور پھر کبھی بھی مسجد نبوی میں داخل نہیں ہوں گا_

معاویہ نے یہ پیغام اور ردّ عمل سّننے کے بعد سب و شتم سے پرہیز کیا_ یہاں تک کہ سعد فوت ہوگئے _ سعد کی وفات کے بعد معاویہ نے منبر سے حضرت علی (ع) پر لعنت کی اور اپنے تمام اہلکاروں کو حکم دیا کہ منبروں سے حضرت پر لعن و سب کریں _ اُن سب نے بھی یہی کام کیا_ اس بات کا جب جناب ام سلمہ زوجہ پیغمبر(ص) کو پتہ چلا تو انہوں نے معاویہ کے نام ایک خط میں یوں لکھا کہ '' تم کیوں منبروں سے خدا و رسول(ص) پر سبّ و لعن کرتے ہو کیا تم یوں نہیں کہتے ہو کہ علی (ع) اور اسکے چاہنے والوں اور محبت کرنیوالوں پر لعنت، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالی ،حضرت علی(ع) سے محبت کرتا ہے اور رسولخدا(ص) بھی حضرت علی (ع) سے بہت محبت کرتے ہیں_ پس حقیقت میں تم خدا اور رسولخدا(ص) پر سبّ و لعن کرتے ہو'' معاویہ نے جناب ام سلمہ کا خط پڑھا لیکن اس کی کوئی پرواہ نہ کی(۱)

____________________

۱)العقد الفرید، جلد ۴ ص ۳۶۶ و جواہر المطالب فی مناقب الامام علی ابن ابی طالب، جلد ۲ ص ۲۲۸ تالیف محمد بن احمد الدمشقی الشافعی، متوفائے قرن نہم ہجری قمری_

۵۶

کیا اس قسم کے بُرے کام عدالت کے ساتھ سازگار ہیں؟ کیا کوئی عاقل یا عادل انسان یہ جرا ت کرسکتا ہے کہ حضرت علی (ع) جیسی با عظمت شخصیت کو اس شرمناک انداز اور اتنے وسیع پیمانے پر گالیاں دے_

ایک عرب شاعریوں کہتا ہے:

اعلی المنابر تعلنون بسبّه و بسیفه نصبت لکم أعوادها؟

کیا منبر سے اس شخصیت پر لعن کرتے ہو جس کی تلوار کی برکت سے یہ منبرقائم ہوئے ہیں_

۷_اصحاب پیغمبر(ص) کی اقسام:

رسولخدا(ص) کے اصحاب کو _ قرآن مجید کی گواہی کے مطابق _ پانچ اصلی گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے_

۱_ پاک و صالح:

یہ افراد مؤمن اور با اخلاص تھے_ ایمان ان کے دل کی گہرائیوں میں نفوذ کرچکا تھا_ یہ لوگ راہ خدا میں اور کلمہ اسلام کی بلندی کے لیے کسی قسم کے ایثار اور قربانی سے دریغ نہیں کرتے تھے_ یہ وہی گروہ ہے جس کی طرف سورہ توبہ کی آیت نمبر ۱۰۰ میں اشارہ ہوا ہے کہ اللہ تعالی ان سے راضی تھا اور یہ بھی اللہ تعالی کے الطاف پر راضی تھے_'' رضی الله عنہم و رَضوُ عنہ''

۲_ مؤمن خطاکار:

یہ وہ گروہ ہے جو ایمان اور عمل صالح رکھنے کے باوجود کبھی کبھار لغزش کا شکار ہوجاتے تھے اور اعمال صالح اور غیر صالح کو آپس میں مخلوط کردیتے تھے_

اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے تھے_ ان کے عفو و بخشش کی امید ہے جیسا کہ سورہ توبہ

۵۷

کی آیة ۱۰۲ میں پہلے گروہ کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی نے اس گروہ کا تذکرہ کیا ہے_

''و آخَرُون اعتَرفُوا بذُنُوبهم خَلَطُوا عَمَلاً صَالحاً و آخَرَ سَيّأً عَسی الله أن يَتُوبَ علیهم''

۳_ گناہگار افراد:

یہ وہ گروہ ہے جس کے لیے قرآن مجید نے فاسق کا نام انتخاب کیا ہے_ کہ اگر فاسق تمہارے لئے خبر لائے تو بغیر تحقیق کے قبول نہ کرنا_ سورہ حجرات کی آیت نمبر ۶ میں اس مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے:( '' یا ايّها الّذین آمنوا ان جاء كُم فاسقٌ بنباء فَتَبَيّنُوا'' ) اس آیت کا مصداق شیعہ و سنّی تفاسیر میں ذکر کیا گیا ہے_

۴_ ظاہری مسلمان:

یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام کا دعوی کرتے تھے لیکن ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا تھا_ سورہ حجرات کی چودھویں آیت میں اس گروہ کی طرف اشارہ ہوا ہے( ''قال الاعرابُ آمَنّا قُل لَم تُؤمنُوا و لکن قُولُوا أسلَمنا و لَمَّا يَدخُل الایمانُ فی قُلوبكُم'' )

۵_ منافقین:

یہ وہ گروہ ہے جو روح نفاق کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان چھپے ہوئے تھے کبھی ان کی شناخت ہوجاتی اور کبھی نہ ہوتی تھی_ یہ لوگ اسلام اور مسلمین کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے سے باز نہیں رہتے تھے_ سورہ توبہ میں ہی مؤمن و صالح گروہ کی طرف اشارہ کے بعد آیت ۱۰۱ میں ان منافقین کا تذکرہ کیا گیا ہے_

( '' و ممَّن حَولَكُم منَ الاعراب مُنافقُونَ و من اَهل المَدینَة مَرَدوا عَلی النّفاق'' ) بے شک ان تمام گروہوں نے پیغمبر اکرم (ص) کا دیدار کیا تھا اور آنحضرت (ص) کے ساتھ مصاحبت اور معاشرت رکھتے تھے_ اور ان میں سے بہت ساروں نے غزووں مین شرکت کی

۵۸

تھی_ اور ہم صحابہ کی جو تعریف بھی کریں ان پانچوں گروہوںپر صادق آتی ہے کیا سب کو اہل بہشت اور پاکیزہ شمار کیا جاسکتا ہے؟ کیا قرآن مجید کی صراحت کے بعد یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم راہ اعتدال کو اپنائیں اور اصحاب کو قرآن مجید میں بیان شدہ پانچ گروہوں میں تقسیم کریں اور ان میں سے نیک و باتقوی اصحاب کے لیے انتہائی احترام کے قائل ہوں اور دیگر گروہوں میں سے ہر ایک کو انکے مقام پر رکھیں_ اور غلّو، افراط اور تعصّب سے پرہیز کریں_( اور انصاف کے ساتھ قضاوت کریں)

۸_تاریخی گواہی:

تمام اصحاب کی قداست کے عقیدے نے اس کے طرفداروں کے لئے بہت سی مشکلات ایجاد کی ہیں_ ان عظیم مشکلات میں سے ایک تاریخی حقائق ہیں_ کیونکہ انکی معروف اور مورد اعتماد تاریخی کتب میں حتی صحاح ستّہ کی احادیث میں بعض صحابہ کی شدیدلڑائی اور جنگ کے تذکرے ہیں ایسی صورتحال میں ہم فریقین کو عادل، صالح اور مقدس شمار نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ یہ کام ضدّین کے درمیان جمع کرنا ہے اور ضدین کے درمیان جمع نہ ہوسکنا ایک واضح عقلی فیصلہ ہے جس کا انکار ممکن نہیں ہے_

جنگ جمل اور صفین کے علاوہ کہ جو طلحہ ، زُبیر اور معاویہ نے امام المسلمین حضرت علی _ کے مقابلہ میں لڑیں اگر ہم حقائق سے چشم پوشی نہ کریں تو حتماً جنگ بھڑکانے والوں کی غلطیوں اور جنایتوں کا اعتراف کریں گے_ اوراس سلسلہ میں بہت سے تاریخی شواہد موجود ہیں_اس مختصر کتاب میں ہم صرف تین نمونوں پر اکتفا کریں گے_

۱_ امام بُخاری اپنی کتاب صحیح میں کتا ب التفسیر میں مسئلہ افک کے بارے میں ( زوجہ پیغمبر(ص) کے بارے میں جو تہمت لگائی گئی تھی ) لکھتے ہیں: کہ ایک دن پیغمبر اکرم (ص) منبر پر تشریف

۵۹

لے گئے اور فرمایا اے مسلمانو ں کون اس شخص کوسزادے گا ( مقصود عبداللہ بن سلول تھا جو منافقین کاایک سر غنہ تھا ) مجھے بتایا گیا ہے کہ اس نے میری بیوی پر تہمت لگائی ہے حالانکہ میں نے اپنی بیوی میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی سعد بن معاذ انصاری ( مشہور صحابی ) اٹھ کھڑے ہوئے اور عرض کی، میں اس کو سزا دوں گا اگر یہ '' اوس'' قبیلہ سے ہوا تو میں اس کی گردن اڑا دونگا اور اگر یہ خزرج قبیلہ سے ہوا تو جو حکم آپ صادر فرمائیںگے ہم انجام دیں گے_ سعد بن عبادہ، خزرج قبیلہ کا سردار کہ جو اس سے پہلے صالح آدمی تھا قبائلی تعصب کی وجہ سے سعد بن معاذ کو کہنے لگا خدا کی قسم تو جھوٹ بول رہا ہے تیری اتنی جرا ت نہیں ہے کہ تو یہ کام کرسکے اسید بن خُضیر ( سعد بن معاذ کا چچا زاد) کہنے لگا کہ خدا کی قسم تو جھوٹا ہے یہ شخص منافقین میں سے ہے ہم اسے ضرور قتل کریں گے_ نزدیک تھا کہ قبیلہ اوس و خزرج کی آپس میں جنگ چھڑ جائے_ رسولخدا(ص) نے انہیں خاموش کرایا(۱) کیا یہ سب افراد صالح صحابی تھے؟

۲: معروف دانشمند '' بلاذری'' اپنی کتاب '' الانساب'' میں لکھتے ہیں کہ '' سعد بن ابی وقاص'' کوفہ کے والی تھے، حضرت عثمان نے انہیں معزول کردیا اور '' ولید بن عقبہ'' کو انکی جگہ گورنر بنادیا_ عبداللہ بن مسعود اس دوران بیت المال کے خزانہ دار تھے جب ولید ،کوفہ میں داخل ہوا تو اس نے عبداللہ ابن مسعود سے بیت المال کی چابیاں طلب کیں_ عبداللہ نے چابیاں ولید کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا کہ خلیفہ نے سنت ( رسول(ص) کو تبدیل کردیا ہے_ سعد بن ابی وقاص جیسے آدمی کو معزول کرکے ولید جیسے آدمی کو اپنا جانشین منتخب کر لیا ہے؟ ولید نے حضرت عثمان کو خط میں لکھا کہ عبداللہ بن مسعود آپ پر تنقید کرتا ہے خلیفہ نے جواب لکھا

____________________

۱) صحیح بخاری، جلد ۵ ص ۵۷_

۶۰