شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں0%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي
زمرہ جات:

صفحے: 232
مشاہدے: 76454
ڈاؤنلوڈ: 4074

تبصرے:

شيعہ جواب ديتے ہيں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 76454 / ڈاؤنلوڈ: 4074
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

ہے جیسے اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ہو''

لہذا حیات اور ممات کے درمیان فرق ڈالنا صرف ایک موہوم خیال ہے_ اور اس کے ساتھ ساتھ اس حدیث کے اطلاق سے یہ بھی بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ(ص) کی قبر کی زیارت کے قصد سے '' شدّ رحال'' سامان باندھنے اور سفر کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے_

خواتین اور قبور کی زیارت

خواتین زیادہ عطوفت اور رقّت قلب کی وجہ سے اپنے عزیزوں کی قبروں پر جانے کی زیادہ ضرورت محسوس کرتی ہیں تا کہ انہیں صبر اور تسلّی حاصل ہوسکے_ اور تجربے کے ذریعے یہ بات ثابت ہے کہ اولیاء الہی کی قبور کی زیارت کے لیے بھی وہ زیادہ مشتاق ہوتی ہیں_

لیکن مقام افسوس ہے کہ یہ وہابی ٹولہ ایک مشکوک حدیث کی خاطر، خواتین کو ان قبور کی زیارت سے شدت سے منع کرتے ہیں_ حتی کہ جنوب ایران میں انکی عوام کی زبانوں پریہ بات مشہورہے کہ اگر کوئی عورت کسی کی قبر پر جائے تو وہ مُردہ اس خاتون کو بالکل برہنہ حالت میں دیکھتا ہے

ایک عالم کہہ رہے تھے میں نے وہابیوں سے کہا کہ پیغمبر اکرم (ص) اور خلیفہ اوّل و دوّم کی قبریں حضرت عائشےہ کے کمرے میں تھیں اور وہ کافی عرصہ تک اُسی کمرہ میں رہتی رہیں یا کم از کم کمرہ میں آمد و رفت رکھتی تھیں_

بہرحال ( خواتین کے لیئےیارت قبور کی حرمت پر ) ان کے پاس دلیل کے طور پر ایک مشہور حدیث ہے جسے وہ رسولخدا(ص) کی طرف نسبت دیتے ہیں کہ آپ(ص) نے فرمایا '' لعن الله زائرات القبور'' '' اللہ تعالی قبروں کی زیارت کرنے والی خواتین پر لعنت کرے''

۸۱

بعض کتابوں میں '' زائرات'' کے لفظ کی بجائے ''زوّارات القبور'' نقل کیا گیا ہے کہ جو مبالغہ کےلیے استعمال کیا جاتا ہے_

اہلسنت کے بعض علماء جیسے ترمذی(۱) و غیرہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس زمانے کے ساتھ مخصوص ہے جب آنحضرت(ص) نے اس بات سے منع فرمایا تھا_ بعد میں یہ حکم نسخ ہوگیا تھا اور آپ(ص) نے اجازت فرمادی تھی

بعض دیگر علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث ان خواتین کے ساتھ مخصوص ہے جو اپنا زیادہ وقت زیارت قبور کے لیے صَرف کرتی تھیں اور اس طرح انکے شوہروں کے حقوق ضائع ہوتے تھے اور لفظ '' زوّارات'' و الانسخہ کہ جو مبالغے کا صیغہ ہے اس بات کی دلیل ہے_

یہ برادران چاہے سب چیزوں کا انکار کردیں لیکن حضرت عائشےہ کے کام کاتو انکار نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) اور پہلے و دوسرے خلیفہ کی قبریں انکے گھر میں تھیں اور وہ ہمیشہ ان قبروں کے نزدیک تھیں_

'' شدّ رحال'' فقط تین مساجد کے لیے

تاریخ اسلام میں صدیوں سے مسلمان، پیغمبر اکرم(ص) اور بزرگان بقیع کی قبور کی زیارت کے لیے شدّ رحال کرتے تھے ( یعنی اس زیارت کے قصد سے سامان باندھتے ) اور سفر کرتے تھے اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا_

____________________

۱) سنن ترمذی ، جلد ۳ ص ۳۷۱ ( انہوں نے باب کا عنوان یہ رکھا ہے ''باب ما جاء من الرخصة فی زیارة القبور'' یعنی وہ باب جس میں زیارت قبور کی اجازت دی گئی ہے_

۸۲

یہاںتک کہ ساتویں صدی میں ابن تیميّہ کا زمانہ آیا اور اس نے اپنے پیروکاروں کو اس بات سے منع کیااور کہا کہ '' شدّ رحال'' صرف تین مسجدوں کی زیارت کے لیے جائز ہے اور بقیہ مسجدوں کے لیے حرام ہے اور اس بارے میں دلیل کے طور پر ابوہریرہ کی اس حدیث کو نقل کیا کہ ابوہریرہ نے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا :

'' لا تشد الرحال الا الی ثلاثة مساجد، مسجدی هذا و مسجد الحرام و مسجد الاقصی ''(۱)

صرف تین مساجد کے لیئے رخت سفر باندھا جاتا ہے ایک میری مسجد اور دوسری مسجد الحرام اور تیسری مسجد الاقصی(۱)

حالانکہ اولاً اس حدیث کا موضوع مساجد کے ساتھ مخصوص ہے نہ دوسرے مقامات کی زیارت کے ساتھ _ لہذا اس حدیث کا مفہوم یہ ہوگا کہ تین مساجد کے علاوہ دیگر مسجدوں کے لیے سامان سفر نہیں باندھا جاتا ہے_

ثانیاً: یہ حدیث ایک اور طر ح بھی نقل ہوئی ہے اور اس نقل کے مطابق انکے مقصود پر اصلاً دلالت نہیں کرتی ہے وہ اسطرح کہ''تشدّ الرحال الی ثلاث مساجد'' تین مساجد کے لیئے سامان سفر باندھا جاتا ہے''(۱) اور یہ در حقیقت اس کام پر تشویق کرنا ہے_ اس تشویق سے دوسرے مقامات کی زیارت کی نفی نہیں ہوتی ہے کیونکہ ایک شے کے ثابت کرنے سے دوسری شے کی نفی نہیں ہوتی _ اور چونکہ معلوم نہیں ہے کہ اصل حدیث کا متن پہلی طرح یا دوسری طرح تھا اس لیے حدیث مجمل ہوجائیگی اور استدلال کے قابل نہیں رہے گی_

____________________

۱) صحیح مسلم جلد ۴ ص ۱۲۶_

۲) مصدر سابق_

۸۳

ممکن ہے کوئی کہے کہ اسی کتاب میں دوسرے مقام پر یوں نقل کیا گیا ہے کہ '' انّما یسافر الی ثلاثة مساجد'' سفر صرف تین مساجد کے لیے جائز ہے''

لہذا شدّ رحال صرف تین مساجد کے لیے جائز ہے

اس سوال کا جواب واضح ہے اولاً: امّت کا اس بات پر اجماع ہے کہ بہت سے دینی اور غیر دینی سفر مختلف مقاصد کے لیے جائز ہیں_ سفر صرف تین مساجد کے لیے منحصر نہیں ہے لہذا یہ حصر اصطلاحاً '' حصر اضافی '' ہے یعنی مساجد میں سے یہ تین مسجدیں ہیں جنکے لیے شدّ رحال کیا جاتا ہے _ ثانیاً : حدیث کا متن مشکوک ہے معلوم نہیں ہے کہ پہلا متن درست ہے یا دوسرا یا تیسرا_ اور یہ انتہائی بعید ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس مطلب کو تین مرتبہ مختلف الفاظ میں بیان کیا ہو_ ظاہراً یہ لگتا ہے کہ راویوں نے نقل بہ معنی کیا ہے لہذا اس حدیث میں ابہام پایا جاتا ہے اور جب کسی حدیث کا متن مبہم ہوتو اس کے ساتھ کیا گیا استدلال معتبر نہیں ہوتا ہے_

کیا قبور پر عمارت بنانا ممنوع ہے؟

صدیوں سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے کہ مسلمان بزرگان اسلام کی قبور پر تاریخی اور عام عمارتیں تعمیر کرتے تھے اور ان کی قبور کی زیارت کے لیے آتے اوران سے متبرک ہوتے تھے اور اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کرتا تھا_ حقیقت میں اس عمل پر مسلمانوں کا اجماع تھا اور اس سیرت عملی کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں تھا_

مورخین نے تاریخ میں جیسے مسعودی نے مروّج الذہب میں ( کہ جنہوں نے چوتھی صدی میں زندگی گذاری ہے) او ر سيّا حوں جیسے ابن جُبیر اور ابن بطوطہ نے ساتویں اور آٹھویں صدی میں اپنے سفر ناموں میں اس قسم کی عظیم عمارتوں کا تذکرہ کیا ہے_

____________________

۱)صحیح مسلم، ج۴ ص ۱۲۶_

۸۴

یہاںتک کہ ساتویں صدی میں ابن تیميّہ اور بارہویں صدی میں انکے شاگرد محمد ابن عبدالوہاب پیدا ہوئے اور انہوں نے قبور پر ان عمارتوں کو بدعت، شرک اور حرام قرار دیا_

وہابیوں کے پاس چونکہ اسلامی مسائل کی تحلیل کے لیے علمی قدرت کم تھی اس لیے بالخصوص توحید اور شرک کے مسئلہ میں وسواس کا شکار ہوگئے _ انہیں جہاں بھی کوئی دستاویز ملی اس کی مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے_ اسی لیے زیارت ، شفاعت ، قبروں پر عمارات اور دیگر مسائل کو انہوں نے شریعت کے خلاف شمار کرتے ہوئے شرک اور بدعت کے ساتھ تعبیر کیا_ اور ان میں سے اہم ترین مسئلہ بزرگان دین کی قبروں پر تعمیرات کرانے کامسئلہ ہے آج بھی سوائے حجاز کے پوری دنیا میں سابقہ انبیاء اور بزرگان دین کی قبور پر عظیم تاریخی عمارتیں موجود ہیں جو بہت سی تاریخی یادوں کو تازہ کرتی ہیں_

مصر سے لیکر ہندوستان تک اور الجزائر سے لیکر انڈونیشیا تک سب لوگ اپنے ملک میں موجود اسلامی آثار کا احترام کرتے ہیں اور بزرگان دین کی قبروں کے لیئےیک خاص اہمیت کے قائل ہیں_ لیکن حجاز میں ایسی بات نظر نہیں آتی ہے_ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ اسلامی مفاہیم کی صحیح تحلیل نہیں کر پائے ہیں_

وہابیت کے ہاتھوں ثقافتی میراث کی نابودی

گذشتہ صدی میں سرزمین وحی پر ایک تلخ واقعہ رونما ہوا جس نے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیئےسلامی تاریخ کے آثار سے محروم کردیا اور وہ حادثہ وہابیت کا بر سر اقتدار آنا تھا_ تقریباً یہی (۸۰) سال پہلے ( ۱۳۴۴ ھ ق) جب حجاز کیحکومت وہابیت کے ہاتھوں آئی تو انہوں نے ایک بے بنیاد سازش کے تحت تمام اسلامی تاریخ کی عمارتوں کو شرک یا بدعت کے بہانے سے

۸۵

ویران کرکے خاک کے ساتھ یکساں کردیا_

البتہ انکی یہ جرا ت نہ ہوئی کہ پیغمبر(ص) گرامی اسلام کی قبر مطہر کو خراب کریں_ اس خوف سے کہ کہیں پوری دنیا کے مسلمان انکے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوں اور حقیقت میں ان تقیہ کے مخالفین نے دوسرے سب مسلمانوں سے تقیہ کیا

مکہ مکرّمہ کے بعض سفروں کے دوران ہم نے دوستانہ ماحول میں وہابیت کے بزرگان سے یہ دریافت کیا کہ آپ نے سوائے روضہ رسول(ص) کے باقی سب قبور کو ویران کردیا ہے اس قبر کے باقی رکھنے کا راز کیا ہے؟ تو اس سوال کے جواب میں انکے پاس کوئی عذر و بہانہ نہیں تھا_

بہرحال قوموں کی حیات مختلف امور کے ساتھ وابستہ ہے جن میں سے ایک انکی ثقافتی میراث اوراپنے دینی و علمی آثار کی حفاظت ہے_ جبکہ نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ سرزمین وحی بالخصوص مکہ اور مدینہ میں مسلمانوں کی غلط تدبیر کی وجہ سے ایک پسماندہ ذہنیت رکھنے والے کج سلیقہ اور متعصّب ٹولے نے اسلام کی انتہائی قیمتی میراث کو بوگس بہانوں کے ذریعہ برباد کر دیا ہے_ ایسی میراث جس کی ہر ایک عمارت اسلام کی پر افتخار تاریخ کو یاد دلاتی تھی_

صرف آئمہ اطہار (ع) اور جنت البقیع میں مدفون دوسرے بزرگوں کی قبروں کو ویران نہیں کیا گیا بلکہ اس ٹولے نے جہاں بھی کہیں اسلامی تاریخ کا کوئی اثر پایا اسے ویران کردیا_ اور اس سے ایک بہت بڑا ناقابل تلافی خسارہ مسلمانوں کے دامن گیر ہوا_

یہ تاریخی آثار ایک عجیب جاذبيّت رکھتے تھے_ اور انسان کو اسلامی تاریخ کی گہرائیوںسے آشنا کرتے تھے_ جنت البقیع ایک وقت انتہائی با عظمت جلوہ رکھتا تھا اور اس کا ہر گوشہ ایک اہم تاریخی حادثہ کی یاد دلاتا تھا لیکن آج ایک ویران بیابان میں تبدیل ہوچکا ہے،

۸۶

جو انتہائی عجیب لگتا ہے اور وہ بھی بڑے بڑے خوبصورت ہوٹلوں اور زرق برق والی عمارتوں کے درمیان اور زیاہ عجیب لگتا ہے_ اس کے لوہے کی سلاخوں کے دروازے صرف ایک دو گھنٹے کے لیئے وہ بھی فقط مرد زائرین کیلئے کھولے جاتے ہیں _

بہانے:

۱_ قبروں کو مسجد نہیں بنانا چاہیے:

کبھی کہتے ہیں کہ قبروں پر عمارت بنانا انکی پرستش کا باعث بنتا ہے_ اور بنی اکرم(ص) کی یہ حدیث اس کے جائز نہ ہونے پر دلیل ہے'' لعن الله الیھود اتّخذوا قبور انبیائہم مساجد'' '' اللہ تعالی نے یہودیوں پر لعنت کی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنالیا تھا''(۱)

سب مسلمانوں پر واضح ہے کہ کوئی بھی اولیائے الہی کی قبروں کی پوجا نہیں کرتا ہے_ اور زیارت اور عبادت کے درمیان واضح فرق ہے_ ہم جس طرح زندہ لوگوں کی زیارت و ملاقات کے لیے جاتے ہیں بزرگوں کا احترام کرتے ہیں اور اُن سے التماس دُعا کرتے ہیں ایسے ہی مردوں کی زیارت کے لیئے بھی جاتے ہیں اور بزرگان دین اور شہداء فی سبیل اللہ کا احترام کرتے ہیں اور اُن سے التماس دعا کہتے ہیں_

کیا کوئی بھی عاقل یہ کہتا ہے کہ زندگی میں بزرگوں کی زیارت اس طرح کرنا جس طرح کہ بتایا گیاہے عبادت یا کفر و شرک ہے؟ مرنے کے بعد بھی انکی زیارت اسی طرح ہے_

____________________

۱) صحیح بخاری، جلد۱، ص ۱۱۰ یہی حدیث '' و النصاری '' کے لفظ کے اضافہ کے ساتھ صحیح مسلم میں بھی آئی ہے (جلد ۲، ص ۶۷)_

۸۷

پیغمبر اکرم (ص) جنت البقیع میں قبروں کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے اور کتب اہلسنت میں بھی بہت سی روایات پیغمبر اکرم (ص) کی قبراور دیگر قبور کی زیارت کے بارے میں ذکر ہوئی ہیں_ اگر اللہ تعالی نے یہودیوں پر لعنت کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ ( سجدہ کا مقام ) قرار دیا تھا_ جبکہ کوئی بھی مسلمان کسی قبر کو اپنا سجدہ کا مقام قرار نہیں دیتا ہے_ قابل توجہ بات یہ ہے کہ آج بھی پیغمبر اسلام (ص) کا روضہ مبارک، مسجد نبوی کے ساتھ موجود ہے اور تمام مسلمان حتی کہ وہابی بھی اس روضہ مقدسہ ( مسجد نبوی کے اس حصے میں جو آنحضرت(ص) کی قبر مبارک سے متّصل ہے ) کے ساتھ پانچ وقت واجب نمازیں اور اس کے علاوہ مستحبی نمازیں پڑھتے ہیں اور آخر میں پیغمبر اکرم (ص) کی قبر کی زیارت کرتے ہیں _ کیا یہ کام قبروں کی پوجا شمار ہوتا ہے اور حرام ہے؟ یا یہ کہ پیغمبر اکرم(ص) کی قبر اس حرمت سے مستثنی ہے؟ کیا غیر خدا کی پوجا کی حرمت کی دلیلیں بھی قابل استثناء ہیں؟

یقینا قبروں کی زیارت انکی عبادت شمار نہیں ہوتی ہے اور پیغمبر اکرم (ص) کی قبر مبارک کے ساتھ یا دیگر اولیاء الہی کی قبروں کے نزدیک نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور مندرجہ بالا حدیث ان لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے جو واقعاً قبروں کی پوجا اور پرستش کرتے تھے _جو لوگ شیعوں کی اپنے آئمہ اطہار کی قبور کی زیارت کے ساتھ آشنا ہیں وُہ جانتے ہیں کہ جب واجب نمازوں کے اوقات میں مؤذن اذان دیتا ہے تو سب رو بہ قبلہ کھڑے ہو کر ان نمازوں کو جماعت کے ساتھ انجام دیتے ہیں_ اور زیارت کرتے وقت سب سے پہلے سو مرتبہ تکبیر کہتے ہیں اور زیارت کے بعد دو رکعت نماز زیارت رو بہ قبلہ انجام دیتے ہیں تا کہ ابتدا اور انتہاء میں روشن ہوجائے کہ پرستش صرف اللہ تعالی کے ساتھ مخصوص ہے_

۸۸

لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ کچھ خاص مقاصد کی خاطر تہمت، افتراء اور جھوٹ کے دروازے کھول دیئےے ہیں اور وہابی حضرات جوکہ اقلّیت میں ہیں اپنے تمام مخالفین پر قسم قسم کی تہمتیں لگاتے ہیں_ انکی باتوں کی بہترین توجیہہ ہم یہی کرسکتے ہیں کہ یہ لوگ کم علمی کی وجہ سے مسائل کی درست تحلیل نہیں کر سکتے اور توحید و شرک کی حقیقت کو خوب سمجھ نہیں پائے ہیں اور انہیںعبادت و زیارت میں واضح طور پر فرق معلوم نہیں ہوسکا ہے_

۲_ایک اور بہانہ:

صحیح مسلم سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ ابوالھيّاج نے پیغمبر اکرم(ص) سے اسطرح حدیث نقل کی ہے:

'' قال لی علی ابن ابی طالب ا لا ابعثک علی ما بعثنی علیه رسول الله ا ن لا تدع تمثالاً الّاطمسته و لا قبراً مشرفا الا سوّیته'' (۱)

'' حضرت علی نے مجھے فرمایا کیا تجھے وہ ذمہ داری سونپوں جو مجھے رسول خدا(ص) نے سونپی تھی: کہ جہاں ( ذی روح) کی تصویر دیکھو مٹادو او ر جہاں کہیں اُبھری ہوئی قبر دیکھو اسے صاف کردو''

اس حدیث سے غلط مفہوم نکالنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے بیلچے اٹھالیے اور تمام بزرگان دین کی قبریں ویران کردیں_ صرف پیغمبر اکرم(ص) اور پہلے و دوسرے خلیفہ کی قبریں باقی رہنے دیں اور ایسے استثناء کے قائل ہوئے جس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے_

____________________

۱) صحیح مسلم، جلد ۳ ص ۶۱ یہ روایت اہلسنت کے بعض دیگر مصادر میں بھی نقل ہوئی ہے_

۸۹

لیکن اولا: اس حدیث کی سند میں کئی افراد ایسے ہیں جو رجال اہلسنت کے مطابق بھی مورد تائید نہیں ہیں اور ان میں سے بعض دھوکہ و فریب دینے والے شمار ہوتے ہیں جیسے بالخصوص '' سفیان ثوری '' اور '' ابن ابی ثابت''

ثانیاً: بالفرض اگر یہ حدیث صیح ہو تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ قبر کی پشت صاف ہونی چاہئے (مچھلی کی پشت کی طرح ابھری ہوئی نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ کفار کی رسم تھی ) اور بہت سے اہل سنت فقہاء نے فتوی دیا ہے کہ قبر کی پشت صاف اور مسطّح ہونی چاہیے اور یہ بات مذکورہ بحث کے ساتھ مربوط نہیں ہے_

ثالثاً: فرض کرلیتے ہیں کہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ قبر زمین کے ساتھ ہم سطح ہونی چاہیے اور بالکل اُبھری ہوئی نہیں ہونی چاہیے _ لیکن اس مسئلہ کا قبروں پر عمارت بنانے سے کیا تعلق ہے؟ فرض کیجئے پیغمبر اکرم(ص) کی قبر مبارک کا پتھر زمین کے ساتھ ہم سطح اور اس کے ساتھ ساتھ یہ روضہ گنبد اور بارگاہ جو آجکل موجود ہے یہ بھی باقی ہو ان دونوں کے درمیان کیا منافات ہے؟

جسطرح قرآن مجید میں پڑھتے ہیں کہ جس وقت اصحاب کہف کا راز فاش ہوگیا تو لوگوں نے کہا کہ ان کی قبروں پر عمارت بنائیں گے_ قرآن مجید یوں فرماتا ہیں'' قال الذین غَلبُوا علی أَمرهم لنتّخذّن علیهم مسجداً'' جو لوگ انکے واقعہ سے آشنا تھے کہنے لگے ان کے مقام پر مسجد بنائیں گے _(۱)

قرآن مجید نے مثبت اندازمیں اس داستان کو نقل کیا اور اس پر اعتراض نہیں کیاہے_ اس کا مطلب یہ ہے کہ بزرگان کی قبروں کے ساتھ مسجد بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے_

____________________

۱) سورة کہف آیت ۲۱_

۹۰

بزرگان دین کی قبور کی زیارت کے مثبت آثار

اگر لوگوں کو صحیح تعلیم دی جائے کہ ہر قسم کے افراط وتفریط سے پرہیز کرتے ہوئے ان مزاروں کے پاس یاد خدا میں رہیں اور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے اولیائے الہی کی افکار سے الہام لیں تو یقیناً یہ قبریں تعلیم و تربیت کا مرکز اور اللہ تعالی کی طرف توبہ اور تہذیب نفوس کا محور بن جائیں گیں_

یہ بات ہمارے لیے تجربہ شدہ ہے کہ ہر سال آئمہ اطہار اور شہدائے راہ حق کی قبور کی زیارت کو جانے والے لاکھوں زائرین، بہتر جذبہ اور نورانی، صاف اور پاکیزہ دل کے ساتھ واپس آتے ہیں اور اس زیارت کی نوارنیت ،کافی عرصہ تک انکے عمل سے نمایاں ہوتی ہے_ اور جب یہ لوگ ان بزرگان کو درگاہ ربُّ العزّت میں شفاعت کے لیے پکارتے ہیں اور اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی توبہ اور دینی و دنیوی حاجات طلب کرتے ہیں تو روحانی اورمعنوی رابطہ برقرار کرنے کی خاطرانکے لیے ضروری ہوتا ہے کہ حتماً گناہوں سے دوری اختیار کریں اور نیکی و پاکی کے راستے پر چلیں_ اسطرح یہ توسّل انکی نیکی کا باعث بنتا ہے_

علاوہ بر این بزرگان کی طرف یہ توجّہ اور توسّل اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں ان سے شفاعت طلب کرنا انسان کو مشکلات کے مقابلے میں باہمت بناتا ہے اور مایوسی و ناامیدی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے اور اس کے جسمانی و روحانی درد و غم کا مداوا بنتا ہے_ اس کے علاوہ اور بہت سی برکتوں کا موجب بنتا ہے_

ہم زیارت، شفاعت اور توسّل والے مسائل میں کج فہمی کی وجہ سے کیوں لوگوں کو ان روحانی وجسمانی اور معنوی برکتوں سے محروم کریں؟ کونسی عقل سلیم اس بات کی اجازت دیتی

۹۱

ہے؟ ان روحانی و معنوی منزلوں کو طے کرنے سے روکنا عظیم خسارے اور نقصان کا موجب بنے گا_ لیکن کیا کریں افسوس یہ ہے بعض لوگوں کے توحید و شرک کے مسئلہ میں بے جا وسواس نے بہت سے لوگوں کو اس عظیم فیض سے محروم کردیا ہے_

۳:تبرّک کو چاہنا اور طلب کرناممنوع ہے_

بہانہ دیگر : جو لوگ بزرگان کی قبروں کی زیارت کے لیے جاتے ہیں اور ان قبور سے متبرک ہوتے ہیں اور کبھی قبر یا ضریح کو چومتے ہیں_ اس سے شرک کی بو آتی ہے_ اس لیئےاجی صاحبان نے دیکھا ہوگا کہ پیغمبر اکرم (ص) کی قبر مبارک کے نزدیک ہر طرف سرسخت سپاہی کھڑے ہوتے ہیں اور نبی(ص) کے عاشقوں کو ان کی ضریح اور قبر مطہّر کی طرف کھلنے والی جالی کے نزدیک جانے سے روکتے ہیں _کبھی اس حرمت کو '' ابن تیمیہ'' اور '' محمد ابن عبدالوہاب'' کی طرف نسبت دیتے ہیں_ ہمیں یقین ہے کہ اگر یہ دو افراد کہ جو وہابیت کے بانی ہیں رسولخدا(ص) کے زمانے میں ہوتے اور صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے موقع پر اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ جب آنحضرت(ص) وضو کرتے تو اصحاب کرام ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر وضو کا پانی لینے کی کوشش کرتے تا کہ ایک قطرہ بھی زمین پر نہ گرے(۱)

ایسا منظر دیکھ کر اگریہ افراد زبان سے اعتراض نہ کرسکتے تو دل ہی دل میں ضرور کڑھتے اور یوں کہتے کہ یہ کام پیغمبر اکرم (ص) اور صحابہ کرام کی شان کے مطابق نہیں ہے اس سے تو شرک کی بو آتی ہے

____________________

۱) یہ مسئلہ پیغمبر اکرم(ص) کی زندگی میں کئی مرتبہ وقوع پذیر ہوا ( صحیح مسلم، جلد ۴ ، ص ۱۹۴۳ اور کنز العمال ،جلد ۱۶ ص ۲۴۹ کی طرف رجوع کیاجائے)_

۹۲

اور یا اگریہ لوگ نبی اکرم (ص) کی رحلت کے بعد مدینہ میں ہوتے تو اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ آنحضرت(ص) کے سب سے پہلے میزبان جناب ابوایوب انصاری قبر مبارک پر رخسار رکھ کے تبرک حاصل کرتے تھے_(۱) یا حضرت بلال مؤذّن آنحضرت (ص) کی قبر کے نزدیک بیٹھ کر شدید گریہ کرتے تھے اور شدت غم کیوجہ سے اپنا چہرہ قبر مبارک پر رگڑ تے تھے_(۲) وہابی حضرت، بلال اور ابو ایوب انصاری کا گریبان پکڑ کر انہیں دور دھکیلتے کہ یہ کام شرک ہے_ وہی کام کہ جو آجکل اس مکتب کے پیروکار رسولخدا(ص) کے زائرین کے ساتھ کرتے ہیں_

حالانکہ تبرک حاصل کرنے کا پرستش و پوجا کے ساتھ ذرہ بھر بھی کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس تبرک کا مطلب ایک قسم کا احترام و ادب ہے_ اس امید کے ساتھ کہ جس خدا نے اپنے رسول(ص) کو مبعوث فرمایا ہے اس ادب و احترام کی خاطر زیارت کرنیوالے پر اپنی رحمت و برکت نازل فرمائے_

علمائے اسلام کی اہم ذمہ داری:

اس وجہ سے کہ عوام الناس کے بعض کاموں کی وجہ سے مخالفین کو بہانہ مل جاتا ہے اس لیے تمام علماء اعلام اور دانشمند حضرات کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ عوام کو پیغمبر اکرم(ص) ، آئمہ بقیع اور دیگر آئمہ اطہار و شہدائے اسلام کی قبور مبارکہ کے نزدیک غیر سنجیدہ حرکات کرنے سے روکیں اور انہیں زیارت، توسّل ، تبرک اور شفاعت کے حقیقی مفہوم کی تعلیم دیں_

____________________

۱) مستدرک الصحیحین ، جلد ۴ ، ص ۵۶۰_

۲) تاریخ ابن عساکر، جلد ۷ ص ۱۳۷_

۹۳

تمام لوگوں پر یہ واضح کردیں کہ تمام امور اللہ تعالی کے اختیار میں ہیں اور وہی ذات مسبّب الاسباب ،قاضی الحاجات، کاشف الکربات اور کافی المہمات ہے_ اگر ہم پیغمبر اکرم (ص) اورآئمہ اطہار کے ساتھ توسل کرتے ہیں تو یہ ذوات مقدّسہ بھی اذن پروردگار اور اس کی مدد کے ساتھ ہر کام انجام دیتے ہیں_ یا اس کے حضور ہماری شفاعت اور اس سے ہماری حاجات کے برآنے کا تقاضا کرتے ہیں_

عوام میں سے بعض لوگوں کا ان قبور مقدسہ کے سامنے سجدہ کرنا یا ایسے جملے ادا کرنا جن سے انکی الوہيّت کی بو آتی ہو یا ضریح پر کسی چیز سے گرہ لگانا و غیرہ یہ تمام ناشائستہ امور ہیں اور ان سے مشکل ایجاد ہوتی ہے_ اور ایک مثبت اور انتہائی تعمیری کام ( زیارت) کا چہرہ مسخ ہوجاتا ہے اور تجھ مجھ کو بہانہ مل جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ تمام لوگوں کو زیارت کی برکتوں سے محروم کردیتے ہیں_

۹۴

۵

نکاح موقّت (مُتعہ )

۹۵

متعہ یا ازدواج موقت

تمام علمائے اسلام اس بات کے قائل ہیں کہ متعہ پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں ایک عرصہ تک رائج تھا_ ایک گروہ قائل ہے کہ یہ خلیفہ ثانی کے دور میں خود اس کے توسط سے اور دوسرا گروہ قائل ہے کہ خودپیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں متعہ کو دوبارہ حرام کردیا گیا تھا_ اور ہم مکتب اہلبیتکے پیروکاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ متعہ ہرگز حرام نہیں ہوا ہے اور اس کا جواز باقی ہے ( البتہ مخصوص شرائط کے ساتھ)

اس عقیدہ میں بہت کم اہلسنت ہمارے ساتھ متفق ہیں جبکہ انکی اکثریت اس مسئلہ میں ہمارے مخالف ہے _ بلکہ ہمیشہ ہمیں اس بات کا طعنہ دیتے اور اعتراض کرتے ہیں حالانکہ اس مسئلہ میں نہ صرف اعتراض کا مقام نہیں بلکہ یہ بہت سی اجتماعی مشکلات کے حل کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے_

اس مطلب کی وضاحت آئندہ ابحاث میں بیان کی جائیگی_

ضرورت اور نیاز

بہت سے لوگ ( بالخصوص جوان لوگ) دائمی نکاح اور شادی کی قدرت نہیں رکھتے ہیں کیونکہ عام طور پر شادی کرنے کے لیئے مقدمات، اخراجات اور بہت سی ذمہ داریوں کو قبول کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک بڑی تعداد کے لیے شرائط ابھی آمادہ اور میسر نہیں ہیں_

۹۶

مثال کے طور پر :

۱_ بہت سے جوان اپنے تعلیمی دور میں شادی کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ہیں (بالخصوص ہمارے زمانے میں تو تعلیمی دورانیہ طولانی ہوچکا ہے) کیونکہ نہ تو ان کی کوئی ملازمت و غیرہ ہے اور نہ ہی رہائشے کے لیئے کوئی مناسب مکان اور نہ دیگر اخراجات، جس قدر بھی سادگی کے ساتھ شادی کرنا چاہیں پھر بھی بنیادی وسائل فراہم نہیں ہیں_

۲: بعض افراد شادی شدہ ہیں لیکن بیرون ممالک سفر پر جاتے ہیں اور انکے سفر لمبے ہوجاتے ہیں_ وہاں وہ جنسی محروميّت کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ نہ تو اپنی بیویوں کو ساتھ لے جاسکتے ہیں اور نہ ہی اس ملک میں دوسری شادی کر سکتے ہیں_

۳: بعض لوگ ایسے ہیں جنکی بیویاں مختلف بیماریوں یا مشکلات کا شکار ہوجاتی ہیں اور اس وجہ سے وہ اپنے شوہروں کی جنسی خواہشات کو پورا نہیںکرسکتی ہیں_

۴: بہت سے فوجی ایسے ہیں جو بارڈر و غیرہ کی حفاظت کے لیے یا کسی اور مناسبت سے لمبی ڈیوٹی پر اپنے گھر سے دور چلے جاتے ہیں اور وہاں جنسی مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں_

اور جیسا کہ آئندہ بیان کیا جائیگاپیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں بھی بہت سے اسلامی فوجیوں کے لیئےہی مشکل پیش آئی اور اسی وجہ سے متعہ کو حلال کیا گیا_

۵: بعض اوقات حمل کے دوران یا بعض دیگر وجوہات کی بناء پر انسان مجبور ہوجاتا ہے کہ کچھ عرصہ کے لیئےپنی بیوی کے ساتھ جنسی روابط ترک کردے اور ممکن ہے شوہر جو ان بھی ہو اور اس محرومیت میں گرفتار ہو_

اس قسم کی اجتماعی ضروریات اور مشکلات ہمیشہ تھیں اور ہمیشہ رہیں گی اور یہ مسائل صرف

۹۷

پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے کے ساتھ مخصوصنہیں ہیں بلکہ ہمارے زمانے میں تحریک جنسی کے عوامل کی زیادتی کی وجہ سے یہ مسائل شدت اختیار کرچکے ہیں_

ایسے موقع پر لوگوں کے سامنے دو راستے کھلے ہیں_ یا تو معاذ اللہ بدکاری اور گناہوں میں آلودہ ہو جائیں یا ایک سادہ سے نکاح یعنی متعہ سے استفادہ کریں کیونکہ اس میں شادی کی مشکلات و مسائل بھی نہیں ہیں اور دوسری طرف یہ وقتی طور پر انسان کی جنسی ضروریات کو پورا کرتا ہے _پارسائی کا مشورہ دینا اور دونوں راستوں سے چشم پوشی کرنا اگرچہ اچھا مشورہ ہے لیکن بہت سے مقامات پر قابل عمل نہیں ہے اور کم از کم بعض افرادکیلئے صرف ایک خیالی راستہ ہے_

نکاح مسیار:

دلچسپ بات یہ ہے کہ حتی متعہ کے منکر علماء ( یعنی اکثر اہلسنت برادران) جب جوانوں اور دیگر محروم لوگوں کی طرف سے دباؤ کا شکار ہوئے تووہ تدریجاً ایک نکاح کے قائل ہوگئے جو متعہ کے مشابہ ہے اور اسے وہ '' ازدواج مسیار'' کا نام دیتے ہیں _ گرچہ اس نکاح کا نام نکاح موقت یعنی متعہ نہیں ہے لیکن عمل میں یہ متعہ کے ساتھ کوئی فرق نہیں کرتا ہے_

پس اسطرح وہ علماء بھی اجازت دیتے ہیں کہ یہ ضرورت مند انسان اس عورت کے ساتھ دائمی نکاح کر سکتا ہے حالانکہ اس کا ارادہ یہ ہے کہ کچھ مدت کے بعد اسے طلاق دے دے گا اور اس کے ساتھ یہ شرط کرتا ہے کہ وہ نفقہ کا حق نہیں رکھے گی اور نہ ہی رات ساتھ سونے اور وراثت کا حق رکھے گی یعنی بالکل متعہ کے مشابہ ہے_ فرق صرف اتنا ہے کہ اس نکاح مسیار میں طلاق کے ذریعہ دونوں جدا ہوتے ہیں جبکہ متعہ میں باقی ماندہ مدت کو بخشنے کے ذریعے یا

۹۸

نکاح کی مدت ختم ہوجانے کے ذریعے مرد و عورت ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے ابتداء سے ہی عقد میں ایک محدود مدت معین کی تھی_

اوراس سے بڑھ کر بھی دلچسپ یہ ہے کہ ماضی قریب میں ہی بعض اہلسنت جوانوں نے کہ جنہیں شادی کی مشکل تھی اور وہ مسائل سے دوچار تھے، انٹرنیٹ کے ذریعے ہمارے ساتھ رابطہ کیا ہے اور سوال کیا کہ کیا ہم متعہ کے مسئلہ میں شیعہ مجتہد کے فتوی پر عمل کر سکتے ہیں؟ ہم نے جواب دیا جی ہاں آپ اس مسئلہ میں شیعہ مسلک کے مطابق عمل کر سکتے ہیں_

جو لوگ متعہ کا انکار کرتے ہیں اور نکاح'' مسیار'' کو اختیار کرتے ہیں در حقیقت وہ متعہ پر عمل کر رہے ہیں صرف اس کا نام نہیں لینا چاہتے ہیں

ہاں '' ضروریات'' انسان کو '' حقائق'' کے تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں اگرچہ اس کا نام زبان پر نہ لائیں_

پس یوں نتیجہ لیتے ہیں کہ جو لوگ متعہ کی مخالفت پر اصرار کرتے ہیں وہ دانستہ یا نادانستہ طور پر برائیوں اور بدکاریوں کے لیئےاہ ہموار کر رہے ہیں مگر یہ کہ متعہ کے مشابہ '' نکاح مسیار'' کا فتوی دیں_ اسی لیے آئمہ اطہار (ع) کی روایات میں یہ بات بیان ہوئی ہے '' کہ بعض لوگ اسلامی طریقہ کے مطابق نکاح موقت '' کی مخالفت نہ کرتے تو کوئی بھی زنا سے آلودہ نہ ہوتا''(۱)

____________________

۱) امام صادق (ع) فرماتے ہیں '' لو لا ما نہی عنہا عمر ما زنی الاشقيّ'' (وسائل الشیعہ جلد ۱۴ ص ۴۲۰ حدیث ۲۴) اہلسنت کی کتاب میں بھی یہ حدیث کثرت کے ساتھ بیان ہوئی ہے_ قال علی _ '' لو لا انّ عمر نہی عن المتعة ما زنی الا شقيّ'' ( تفسیر طبری ،جلد ۵ ،ص ۱۱۹ ; تفسیر در المنثور، جلد ۲ ،ص ۱۴۰ و تفسیر قرطبی ،جلد ۵ ،ص ۱۳۰)_

۹۹

اسی طرح جولوگ اس متعہ سے سوء استفادہ کرتے ہیں ( حالانکہ یہ محروم لوگوں کی ضروریات اور مسائل کے حل کے لیئےریعت کی طرف سےتجویز ہوا ہے) اور لوگوں کی نظروں میں اس کا چہرہ مسخ کرتے ہیں اور اسے اپنی ہوس رانی کے لیئے استعمال کرتے ہیں وہ بھی اسلامی معاشروں میں برائی اور زنا کی راہ ہموار کرنے میں مدد کر رہے ہیں اور گناہ میں آلودہ لوگوں کے ساتھ شریک ہیں کیونکہ یہ لوگ عملا متعہ کے صحیح استعمال کی راہ میں رکاوٹ ہیں_

بہرحال اسلام کہ جو الہی قانون ہے اور انسان کی فطرت کے عین مطابق ہے اور انسان کی تمام ضروریات کو احاطہ کیے ہوئے ہےممکن نہیں ہے کہ متعہکا مسئلہ اسلام کے احکام میں بیان نہ ہوا ہو جیسا کہ بعد میں بیان کیا جائیگا_ نکاح موقت پر قرآن مجید بھی شاہد ہے اور احادیث نبوی میں بھی یہ مسئلہ بیان ہوا ہے اور اصحاب کی ایک جماعت کا عمل بھی اس پر رہاہے_ ہاں بعض لوگ اس اسلامی حکم کے منسوخ ہوجانے کے قائل ہیں اور جیسا کہ آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ نسخ کے قائلین کے پاس کوئی معقول اور قانع کنندہ دلیل موجود نہیں ہے_

متعہ کیا ہے؟

بعض ناآگاہ لوگ '' نکاح موقت '' کو انتہائی مسخ چہرے کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور اسے '' گناہ، فحشاء اور جنسی آزادی کو قانونی شکل دینے'' کے مترادف شمار کرتے ہیں

اگر اس قسم کے لوگ سب کے سب عوام الناس میں سے ہوتے تو کوئی مشکل نہیں تھی لیکن افسوس یہ ہے کہ اہلسنت کے بعض علماء بھی اس قسم کی نازیبا نسبتیں دیتے ہیں_ یقیناً شدید مذہبی تعصب انہیں اپنے مد مقابل کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے اور شاید

۱۰۰