اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )0%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف: شیخ علی اصغر قائمی
زمرہ جات:

صفحے: 303
مشاہدے: 148492
ڈاؤنلوڈ: 3719

تبصرے:

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148492 / ڈاؤنلوڈ: 3719
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

اٹھارواںسبق

نبوت عامہ (چوتھی فصل )

عصمت انبیاء

انبیاء کی سب سے اہم خاصیت ا ن کا معصوم ہو نا ہے۔

عصمت؛ لغت میں روکنے، حفاظت کرنے یاغیر اخلا قی چیزوں سے دور رہنے کے معنی میں ہے اور عقیدہ کی بحث میں جب انبیاء کی عصمت کی با ت آتی ہے تو اس کے معنی ان کا گناہو ں سے دور رہنا اور خطا ونسیان سے پاک رہنا ہے ۔اسی لئے انبیاء وائمہ کرام نہ ہی کبھی گناہ کرتے ہیںاو رنہ ہی کبھی تصور گناہ ۔

سوال۔ انبیاء کا معصوم ہونا اور خطاونسیان سے محفوظ ہو نا کیوں ضروری ہے ؟

جو اب ۱۔ بعثت انبیاء کا مقصد ہدایت بشریت ہے او ریہ بات مسلّما ت میں سے ہے کہ تربیت میں مربی کاعمل اس کے قول سے زیادہ موثر ہو تا ہے، لہٰذا اگرتربیت کرنے والا خو د گناہوں سے آلودہ ہوگا تودوسروں کو کس طرح سے منع کرے گا ۔؟

۲۔ انبیاء در حقیقت مربی بشریت ہیں لہٰذا ان کی ذات لوگوں کے لئے قابل قبول او ربھروسہ مند ہو نا چاہئے ۔ سید مرتضی علم الہدی کے بقول اگر ہم کو کسی شخص کے بارے میں شائبہ بھی ہے یقین نہیں ہے کہ وہ گناہ بھی کرتا ہے یا نہیں؟ توکبھی بھی اس کی باتوں کودل سے قبول نہیں کریں گے ۔لہٰذا انبیاء کا خطاونسیان سے بچنا ضروری ہے کیونکہ خطا اوربھول چوک بے اعتمادی کاسبب بنتا ہے اور ان(انبیاء ) کو قابل اعتماد ہونا چاہیئے ۔

۱۲۱

فلسفہ عصمت

یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان گناہو ں سے معصوم (محفوظ ) ہو یہاں تک کہ تصور گناہ بھی نہ کرے؟۔

اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ جب کسی چیز کے با رے میں ہم یقین کر لیں تواس کے برخلا ف کبھی عمل کر ہی نہیں سکتے، کیا کوئی عقلمنداور سلیم الطبع شخص آگ یا گندگی کوکھا نے کی سونچ سکتا ہے ؟کیا کو ئی صاحب شعور آگ کے گڑھے میں کودنے کوتیار ہو گا ؟ کیا کوئی صحیح الدماغ جام زہر خو شی خو شی نوش کرے گا ؟

ان سارے سوالا ت کے جو اب میں آپ کہیں گے ، ہرگز نہیں عاقل شخص کبھی ایسا کر ہی نہیں سکتا، یہاں تک کہ اس کی فکر بھی یا تمنابھی نہیں کرے گا اور اگر کوئی ایسا کرتاہے توکسی مرض میں مبتلا ہے ۔

نتیجہ یہ نکلا: ہر عاقل انسان ایسے کاموں کے مقابل دوری یادوسرے لفظوں میں کہا جا ئے کہ ایک عصمت کامالک ہے ؛ اوراگر آپ سے سوال کیاجائے کہ کیوں انسان ایسے کاموں کے مقابل میں معصوم ہے تو کہیں گے کہ چونکہ اس کے عیب ونقصان کاعلم ویقین اس کو ہو گیا ہے ۔ اور یہ جانتا ہے کہ اس کے ارتکاب کے بعد فنا ونابودی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ۔

اسی طرح اگر انسان گنا ہ اوراس کے نقصانات سے باخبر ہو کر یقین تک پہنچ جا ئے تو عقل کی طاقت سے شہوت پر غالب ہو کر کبھی گناہ میں مبتلا نہیں ہو سکتا یہا ں تک کہ اس کا خیال بھی ذہن میں نہیں لا ئے گا ۔

جو شخص خدا اور اس کی عدالت پر یقین رکھتا ہے کہ پوری کائنا ت پیش پروردگار ہے او روہ اس پر حاضر وناظر ہے تو ایسے شخص کے لئے گنا ہ اورفعل حرام میں مبتلاہونا ، آگ میں کو دنے ، اور جام زہر پینے کی مانند ہے لہٰذا کبھی بھی اس کے قریب نہیں جاتا اور ہمیشہ دور رہتا ہے ۔

۱۲۲

پیامبران الٰہی اس یقین کے ساتھ جو گناہ کے آثار ونتائج کے بارے میں رکھتے ہیں نہ صرف یہ کہ گناہ بلکہ تصور گناہ کے بابت بھی معصوم ہو تے ہیں۔ آثار عمل کو دیکھنے ،نیکیوں کی جانب دھیان دینے اور گناہوں سے پرہیز کے لئے بہتر ہے کہ مولا ئے کا ئنا ت کی اس حدیث میں غور وفکر کرے :''مَن أَیقن أَنّه یفارق الأحباب ویسکن التراب ویواجه الحساب ویستغنی عمّا خلف ویفتقر اِلیٰ ما قدّم کان حریاً بقصرالأمل وطول العمل ''جس شخص کو یہ یقین ہوجائے کہ وہ حتمی طور سے اپنے دوستوں سے جدا ہورہا ہے اورمٹی کو اپناگھر بنارہا ہے اور حساب کے لئے جا رہا ہے اور کئے ہوئے سے بے نیاز ہے اور جو بھیج چکا ہے اس کا محتاج ہے تو یقینااس کی آرزوئیں کم اور عمل طولانی ہوجائے گا۔( ۱ )

انبیاء اور ائمہ کی عصمت اکتسابی ہے یا خدا دادی

عصمت ائمہ کے بارے میں علما ء علم کلام کی جا نب سے بہت سارے مطالب بیان کئے گئے ہیں اور جس بات کو سب مانتے ہیں وہ یہ کہ عصمت کی طاقت ائمہ اور انبیاء میں اجباری نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ پاکیزگی نقص پر مجبور ہو ں بلکہ تمام لوگوں کی طرح گناہ کر نے کی قدرت رکھتے ہیں لیکن چونکہ وہ ایک طرف گنا ہ کے نقصانا ت ومفاسد کو بہ خوبی جانتے ہیں نیز ان کی معرفت اور شناخت خدا کے حوالے سے بہت زیادہ ہے یعنی وہ اپنے آپ کو ہمیشہ خد اکے حضورمیں سمجھتے ہیں اسی لئے اپنے ارادہ واختیار سے گناہ اور برائی کو نہ کرنے پر پوری طرح قادر ہیں اور کبھی اس کے قریب نہیںجاتے۔

انبیاء وائمہ کی عصمت ا ن کے اختیار وارادہ کا نتیجہ ہے او ران کی کاوشوں اورزحمات کا ثمرہ ہے جو انھوں نے راہ خدا میں برداشت کی ہیں ۔

چونکہ خدا وند تعالیٰ ان کی خلقت سے قبل جا نتا تھا کہ یہ فدائی اور ایثار کے پیکرہیں اسی لئے ان کی ابتدائی زندگی سے انھیں اپنے لطف وکرم کے سائے میں رکھا اور بے راہ روی سے محفوظ رکھا ۔علوم خاص وعام نیز عنایت خاص سے نوازا لہٰذا اس رخ سے کوئی محل اعتراض نہیں کہ انبیاء وائمہ ایک قسم کی جسمانی اور روحانی خصوصیت

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۷۳ ،ص ۱۶۷

۱۲۳

کے مالک ہیں،کیونکہ اس خصوصیت کی وجہ خود ان کا کرداراور عمل ہے ،یہ ایک طرح کا انعام ہے جو اللہ نے انھیں عمل سے پہلے عطاکیاہے ۔

نتیجہ :خدا وند عالم اس علم کے ذریعہ جو انسانوں کے مستقبل کے سلسلہ میں رکھتا ہے وہ جا نتا ہے کہ ان کے درمیان بعض افراد خاص اہمیت کے حامل ہیں ( اور یہ ایساعلم ہے جس میں تبدیلی ممکن نہیں ہے اور اس کا تحقق یقینی ہے ) لہٰذا انہیں معاشرہ کی ہدایت اور رہبری کی وجہ سے اپنی عنایت خاص سے نوازا ۔الٰہی نمایندوںکے لئے ان عنایتوں کا ہونا ضروری ہے ۔

امام محمد باقرں نے فرمایا :اِذا عَلم اللّه حُسن نیّة من أحدٍ اکتنفه بالعصمة ( ۱) خدا وند عالم جب کسی کی حسن نیت سے مطلع ہو جا تا ہے تو اسے عصمت کے ذریعہ محفوظ کردیتا ہے ۔

معصومین کا فلسفہ امتیاز

عن أَبیِ عبداللّه: أَن اللَّه أوحیٰ اِلیٰ موسیٰ فقال یا موسیٰ اِنّی أطلعت اِلیٰ خلقیِ اطلاعة فلم أجد فی خلقی اشدّ تواضعاً لی منک فمن ثمَّ خصصتک بوحییِ وکلا میِ مِن بَین خَلق ( ۲ )

امام صادق فرماتے ہیں : خدانے جناب موسی پر وحی کی کہ اے موسی! ہم نے تمام انسانوں کو دیکھا ان میں سے تمہارے تواضع کواوروںسے زیادہ

____________________

(۱) بحارالانوار جلد ۷۸، ص ،۱۸۸

(۲) وسائل الشیعہ جلد ۴، ص، ۱۰۷۵

۱۲۴

پایا ،اسی وجہ سے تمہیں اپنے کلام اور وحی کے لئے چنا او رسب میں سے تم کو منتخب کیا ۔

قال علی :عَلیٰ قَدر النّیة تکو ن من اللّه العطیّة ( ۱ )

امیر المو منین نے فرمایا :خدا کا لطف وکرم نیتوں کے مطابق ہے قرآن نے سورہ عنکبوت کی آخری آیة میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے( وَالَّذِینَ جَاهدُوا فِینَا لنَهدِینَّهُم سُبُلنا واِنَّ اللّهَ لمَعَ المُحسِنیِنَ ) ( ۲ )

او رجن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا یقینا ہم ان کو اپنے راستوں کی جانب ہدایت کریں گے بیشک خدا افراد صالح کے ساتھ ہے ۔

امام صادق اور ایک مادیت پر ست کا مناظرہ

ایک مادیت پرست انسان نے امام صادق سے سوال کیا: اللہ نے بعض انسانو ں کو شریف اور نیک خصلت او ربعض کوبری خصلت کے ساتھ کیوں خلق کیا؟۔

امام نے فرمایا: شریف وہ شخص ہے جو خدا کی اطاعت کرے اور پست وہ ہے جواس کی نافرمانی کرے اس نے پوچھا کہ کیا لوگ ذاتی طور پر ایک دوسرے سے برتر نہیں ہیں ؟۔

آپ نے فرمایا :نہیں صرف برتری کا معیار تقوی ہے ، اس نے پھر سوال کیا کہ کیا آپ کی نظر میں تمام اولاد آدم ایک جیسی ہیں اور فضیلت کا معیار صرف تقوی ہے ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ۔

____________________

(۱) غرر الحکم

(۲)سورہ عنکبوت آیة:۶۹

۱۲۵

میں نے ایسا ہی پایا کہ سب کی خلقت مٹی سے ہے سبھی کے ماںباپ آدم وحوا ہیں وحدہ لا شریک خدا نے ان کو خلق کیاہے اور سب خد اکے بندے ہیںالبتہ خدانے آدم کی بعض اولادوںکو منتخب کیا او ر ان کی خلقت کو طاہر بنایا اور ان کے جسموں کوپاک کیا اور ان کو صلب پدر اور ارحام مادر کے حوالے سے بھی نجاست سے دور رکھا اور انھیں کے درمیان سے نبیوں کا انتخاب کیا اور وہ جناب آدم کی بہترین اور افضل ترین اولا د ہیں اور اس امتیازو فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ خدا جانتاتھاکہ وہ اس کے اطاعت گذار بندو ں میں سے ہیں اور کسی کو اس کا شریک نہیں قرار دیں گے، گویا بلند مرتبہ ہو نے کا اصل راز، ان کے اعمال اور ان کی اطاعت ہے۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۱۰،ص ۱۷۰

۱۲۶

سوالات

۱۔یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان گناہ حتی تصور گنا ہ سے بھی معصوم ہو ؟

۲۔ ائمہ اور انبیاء کی عصمت اکتسابی ہے یا خدا دادی ؟

۳۔ ائمہ کی فضیلت کا فلسفہ امام صادق کی نظرمیں کیا ہے ؟

۱۲۷

انیسواںسبق

نبوت عامہ (پانچویں فصل )

کیا قرآن نے انبیا ء کو گناہ گار بتایا ہے ؟

عصمت کی بحث کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذنب وعصیا ن اور اپنے اوپر ظلم ،جیسی لفظیں جو بعض انبیا ء کے سلسلہ میں آئیں ہیں اس سے مراد کیا ہے ؟ اس کی وضا حت کے لئے کچھ نکا ت کی جانب توجہ ضروری ہے ۔

۱۔ عصمت انبیاء کا مطلب جیسا کہ بیا ن کیا جا چکا ہے یہ ہے کہ انبیاء حرام کام یا گناہ نہیں کر تے ،لیکن وہ کا م جس کاچھوڑنا بہتر لیکن انجام دینا حرام نہیں ہے گذشتہ انبیاء سے ممکن اور جائز ہے اور یہ فعل ا ن کی عصمت کے منا فی نہیں ہے۔ (یہی ترک اولیٰ ہے )

۲۔ سب سے اہم بات کلما ت قرآن کے صحیح معنوں پر توجہ کرنا ہے کیونکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہو اہے لہٰذا یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عربی لغت میں کلمات قرآن کے کیا معنی ہیں ؟لیکن افسوس کی بات ہے کہ بسا اوقات ا س جانب غور نہ کرنے کے باعث قرآن کی آیتوں کے غلط معنی بیا ن کئے جاتے ہیں ۔

۳۔اہل بیت عصمت وطہارت کی قرآنی تفاسیر کا بغور مطالعہ کیاجائے اس میں غور وخوض کیا جائے کیونکہ وہی حقیقی مفسر قرآن ہیں ہم یہا ں پرا ن آیتوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان آیتوں میں انبیاء کو گنہگار بتایا گیا ہے تاکہ اعتراض ختم ہو جا ئے (وعَصَیٰ آدمَ ربّہ فغویٰ)بعض نے اس آیة کا ترجمہ یو ں کیا ہے ،آدم نے اپنے رب کی معصیت کی او روہ گمراہ ہو گئے ۔ جبکہ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے ، آدم نے رب کا اتباع نہیں کیا لہٰذا محروم ہو گئے، مرحوم طبرسی اس آیت کے ذیل میں مجمع البیان میں کہتے ہیں کہ آدم نے اپنے رب کی مخالفت کی لہٰذا ثواب سے محروم رہے ۔

۱۲۸

یہاں معصیت سے مراد حکم الٰہی کی مخالفت ہے چاہے وہ حکم واجب ہو یا مستحب ،محدث قمی سفینة البحار میں لفط (عصم ) کے معنی علامہ مجلسی سے نقل کرتے ہیں '' ان ترک المُستحب وفعل المکروہ قد سُم ذنبا'' مستحب کو ترک کرنا اور فعل مکروہ کو انجام دینا کبھی کبھی گناہ ،ذنب ،اور عصیان کے معنی میں آتاہے ۔گذشتہ موضوع کو ثابت کرنے کے لئے لغت کی طرف رجوع کریں گے المنجد ( جوکہ ایک مشہو ر لغت ہے ) میں ہے کہ (عصیان ) اتباع نہ کرنے اور پیروی نہ کرنے کے معنی میں ہے ۔اسی طرح اغوی کے معنی (خاب ) یعنی محروم ہونے اور نقصان اٹھا نے کے ہیں اگر آدم وحوا کے قصہ کو دیکھا جائے توپتہ چلے گا کہ عصیان (عصی ) سے مراد حرام کام کرنا یاواجب کوچھوڑنا نہیں ہے ۔

آدم کا عصیان کیا تھا ؟

قرآن اس واقعہ کو یوں نقل کرتاہے کہ ہم نے آدم سے کہا کہ شیطان تمہا را اور تمہاری اہلیہ کا دشمن ہے لہٰذا کہیں وہ تمہیں جنت سے باہر نہ کرادے اور تم زحمت وتکلیف میں پڑجا ئو پھر شیطان نے آدم کو بہکا یا اور انھو ںنے اس درخت کا پھل کھا لیا ،نتیجہ میں جنت کے لبا س اتار لئے گئے کیو نکہ آدم کو اس درخت کا پھل کھانے سے منع کیاگیا تھا اور انھوں نے نافرمانی کی لہٰذا بہشتی نعمتوں

۱۲۹

سے محروم ہوگئے۔( ۱ )

جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ جنت کاپھل کھا نے سے روکنا صرف نہی ارشادی تھا اور درخت کاپھل نہ کھانا ہمیشہ جنت میں رہنے کی شرط تھی لہٰذا مذکورہ آیتوں سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ آدم کافعل گناہ نہیں تھا بلکہ اس کا نقصان جنت سے نکا لا جانااور دنیوی زندگی کی سختیاں تھیں ، اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ اگر آدم کافعل گناہ نہیں تھا پھر توبہ کرنا (جیسا کہ اگلی آیتوں میں ذکر ہے ) کیا معنی رکھتا ہے ۔

جو اب میں کہیں گے کہ ہر چند (درخت کاپھل کھا نا) گناہ نہیں تھا لیکن چونکہ حضرت آدم نے نہی ارشادی کی مخالفت کی لہٰذا ان کا مقام خدا کے نزدیک کم ہوگیا اور آدم نے دوبارہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے توبہ کی اورخدا نے ان کی توبہ قبول کرلی۔

مامون نے جب جناب آدم کی معصیت کے بارے میں پوچھا تو امام رضاعلیہ السلام نے فرمایا : ولم یک ذلک بذنب کبیر یستحق بہ دخول

____________________

(۱) سورہ طہ آیة: ۱۱۶ تا ۱۲۱

۱۳۰

النّار واِن کان من الصغائر الموهوبة التی تجوز علیٰ الأنبیاء قبلَ نزول الوحیِ علیهم ( ۱ ) جو کام آدم نے انجام دیا وہ گناہ کبیرہ نہیں تھا جس کے باعث جہنم کے مستحق ہوجائیں بلکہ ایک معمولی سا ترک اولی تھا جو معاف ہو گیا اور انبیاء نزول وحی سے قبل ایسے کام کرسکتے ہیں۔

ظلم کیا ہے اور غفران کے کیا معنی ہیں ؟

(قالَ رَبِّ اِنِّیِ ظَلَمتُ نَفس فاغفِرلِی )( ۲ ) خدا یا میں نے اپنے نفس کی خاطر مصیبت مول لی، لہٰذا معاف کردے ان مقامات میں سے ایک یہ بھی ہے جہا ں اس با ت کا گمان کیاگیا ہے کہ قرآن نے انبیاء پر گنا ہ کاالزام لگا یا ہے یہ آیت جنا ب موسی کے واقعہ سے مربوط ہے جب قبطی (فرعون کے ساتھی ) کو قتل کر دیا تھا تو کہا ،رَبِّ ِانِّی ظَلَمتُ نَفسیِ المنجد نے لکھا ہے کہ (الظلم وضع الشیء فی غیر محله )ظلم یعنی کسی شی ٔ کو ایسی جگہ قرار دینا جو اس کا مقام نہ ہو (کسی فعل کاغیر مناسب وقت پر انجام دینا ) اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ عمل صحیح ہو او ر بے محل انجام پائے یا عمل غلط اور حرام ہو لہٰذا ہر ظلم حرام نہیں ہے ۔

المنجد میں غفر کے معنی لکھے ہیں ،غَفَر الشیٔ غطّاه وستره ) غفر اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کوئی شی ٔ چھپا ئی ہواو رمخفی کی گئی ہواس لئے اس کے معنی یو ں ہوں گے موسی نے کہا ،اے پرور دگا ر !میں نے فرعون کے ایک ساتھی کو قتل کر

____________________

(۱) تفسیر برہان ج۳، ص ۴۶

(۲)سورہ قصص آیة: ۱۶

۱۳۱

کے بیجا فعل انجام دیا گوکہ ہمارے لئے اس کا قتل جائز تھا لیکن ابھی اس کاوقت نہیں تھا لہٰذا (فاغفرلی) اے خدا ہمارے اس کام پر پردہ ڈال دے تاکہ میرے دشمن میری گرفتاری پر کامیا ب نہ ہو سکیں ۔تو ایسی صورت میں گناہ ،ظلم یا حرام کام کی نسبت موسی کی جانب نہیں دی گئی ہے ۔

مامون نے مذکورہ آیت او رظلم کے معنی کے سلسلہ میں پوچھا تو امام رضاں نے فرمایا:اِنّی وضَعتُ نفسیِ فی غیر موضعها بدخول هذه المدینة فَاغفرلیِ أیِ أستّرلیِ من أعدائک لئلا یظفروابی فیقتلونی ۔ موسیٰ نے خد ا سے عرض کی ،میں نے اس شہر میں داخل ہو کر (اور فرعون کے ایک ساتھی کو قتل کرکے ) بے محل کام انجام دیا لہٰذا (فاغفرلی) مجھے اپنے دشمنو ں کی نگا ہو ں سے مخفی کردے مبادا ہم کو گرفتار کر کے قتل کردیں ۔

نتیجہ: ظلم اور غفران کے معنی کلی ہیں نہ کہ وہ خاص معنی جو ان الفاظ سے سمجھے جاتے ہیں لہٰذا یہ آیة بھی عصمت کے منا فی نہیں ہے ۔

سوالا ت

۱۔قران نے انبیاء پر گناہ کی تہمت نہیں لگا ئی اس کو سمجھنے کے لئے کن نکات کیجانب توجہ ضروری ہے ؟

۲۔ عصی آدم ربہ فغوی سے کیا مراد ہے ؟

۳۔ ظلمت نفسی فاغفرلی کا کیا مطلب ہے ؟

۱۳۲

بیسواں سبق

نبو ت عامہ (چھٹی فصل )

سورہ فتح میں ذنب سے کیا مراد ہے ؟

( اِنَّا فَتحَنا لَک فَتحاً مُبیناً لِیَغفَرلَک اللّهَ مَا تَقدَّمَ مِن ذَنبِک وَمَا تأخَّرَ ) ( ۱ ) بیشک ہم نے آپ کوکھلی ہو ئی فتح عطا کی تاکہ خدا آپ کے اگلے پچھلے تمام الزامات کو ختم کر دے ۔

یہ انہیں مقامات میں سے ہے جہاں یہ خیال کیاجاتا ہے کہ خدا نے رسول اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کو گنہگا ر گردانا ہے اور پھر معاف کردیاہے ۔

یہاں بھی '' ذنب''''غفران'' کے صحیح معنی کی طرف دھیان نہیں دیا گیا ہے قابل افسو س مقام ہے کہ اصلی معنی سے غفلت برتی گئی ہے ۔

عربی لغات نے ''ذنب '' کے اصلی معنی اور مفہو م کلی سے مراد پیچھا کرنے والا اور آثار لیا ہے ،یعنی نتیجہ اور اس کا رد عمل مراد ہے المنجد میں ''ذَنبَ ذَنباً تبعه فلم یُفارق أثره'' ذنب کہتے ہیں اس عمل کے نتیجہ او ر آثار کو جواس سے الگ نہیں ہوتا

____________________

(۱) سورہ فتح آیة: ۱

۱۳۳

اور گناہ کو ذنب اس لئے کہاجاتا ہے چونکہ گناہ نامناسب عمل اور اس کے آثار و نتیجہ کی بنا پر وجودمیں آتاہے ۔

اس معنی کے ذریعہ جو غفران کے لئے پہلے بیان کئے گئے ہیں اس آیة کا مفہوم واضح ہو جا تا ہے مزید وضاحت کے لئے اس حدیث کی جانب توجہ فرمائیں ۔

امام رضا ںنے مذکو رہ آیة کی توضیح میں فرمایا: مشرکین مکہ کی نظر میں پیغمبر سے بڑا کوئی گنہگار نہیں تھا چونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے خاندان والوں کو خدائے وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دی تھی ، اس وقت ان کے پاس ۳۶۰ بت تھے اور وہ انھیں کی پرستش کرتے تھے، جب نبی نے ان کو وحدہ لا شریک کی عبادت کی دعوت دی تویہ بات ان کو سخت نا گوار گذری اور کہنے لگے کیا ان تمام خدائوں کو ایک خدا قرار دے سکتے ہیں ،یہ تعجب کی بات ہے ہم نے اب تک ایسی بات نہیں سنی تھی لہٰذا یہا ں سے چلو او راپنے بتوں کی عبادت پر قائم رہو ۔

جب خدانے اپنے رسول کے ذریعہ مکہ فتح کیا تو ان سے فرمایا ؛( اِنَّا فَتحَنا لَکَٔ فَتحَاً ) بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہو ئی فتح عطاکی تاکہ خدا آپ کے اگلے پچھلے تمام الزامات کو ختم کردے جو مشرکین آپ پر وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دینے کی بنا پر عائد کرتے ہیں چونکہ فتح مکہ کے بعد کافی لوگ مسلمان ہوگئے اوربعض بھاگ نکلے اورجوبچ گئے تھے ان کی ہمت نہیں تھی کی خدا کی وحدانیت کے خلاف لب کھول سکیں مکہ کے لوگ جوگناہ اور ذنب کا الزام لگا رہے تھ

۱۳۴

ے وہ پیغمبر اسلام کی فتح اور ان پر غلبہ نے چھپا دیا اورسب ساکت ہوگئے۔( ۱ )

انبیاء او رتاریخ

قرآن کی رو سے انسانی تاریخ اور وحی ونبوت کی تاریخ ایک ہے اور جس وقت سے انسان کی تخلیق ہوئی اسی وقت سے وحی بھی اس کی ارتقاء وسعادت کی خاطر موجود رہی ہے( واِنَّ مِنْ أُمةٍ اِلَّاخَلَا فِیها نَذِیرُ ) ( ۲ ) اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گذرا ہو ۔

مولا ئے کا ئنات نے فرمایا: ولم یخل اللّہ سبحانہ خلقہ من نَبیِّ مُرسل أوکتاب مُنزل أوحجّة لازمةُ اومحجّة قائمة( ۳ ) خدانے کبھی بھی انسان کو تنہا نہیں چھو ڑا پیغمبر یاآسمانی کتاب ،واضح دلیل یا صراط مستقیم کوئی نہ کوئی ضرور تھا ۔

مولا نے خطبہ ۹۳ میں فرمایا ۔کُلّما مضیٰ منهم سلف قام منهم بدین اللّه خلف حتیٰ أفضت کرامة اللّه سبحانه تعالیٰ اِلیٰ محمد صلی اللّه علیه وآله وسلم ۔''جب کبھی کسی پیغمبر کی رسالت تمام ہوتی تھی اور اس دنیا سے کوچ کرتاتھا دوسرا نبی خدا کے دین کوبیان کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہو تا تھا اوریہ سنت الٰہی اسی طرح چلتی رہی یہاں تک لطف خدا وندی پیغمبر اسلام کے شامل حال ہوئی''۔

انبیاء کی تعداد

عن أبی جعفر قال :قال رسول اللّٰه کان عدد جمیع الأنبیاء

____________________

(۱) تفسیر برہان ج، ۴ ص ۱۹۳

(۲) سورہ فاطر آیة :۲۴

(۳) نہج البلا غہ خطبہ ۱

۱۳۵

مائة الف نبیِّ وأربعة وعشرون ألف نبیِّ خمسة منهم أولوا العزم: نوح و ابراهیم وموسیٰ وعیسیٰ ومحمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''

امام باقر سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا کی کل انبیاء کی تعداد ایک لاکھ جو بیس ہزار ہے اور ان میں سے پانچ اولوالعزم ہیں ۔نوح ،ابراہیم موسی ، عیسی ، اورمحمد عربی ۔اسی مضمون کی دوسری حدیث بحار کی گیا رہویں جلد میں بھی ہے( ۱ )

قرآنی رو سے تمام انبیاء پر ایما ن لانا ضروری اور لازم ہے ۔

( قُولُوا آمَنّا باللّهِ وَمَا أُنزِلَ اِلَینَا وَمَا أُنزِلَ اِلیٰ ِابراهیمَ وَاِسمَاعیلَ واِسحٰقَ ویَعقُوبَ وَالأسباطِ وَمَا أوتِی مُوسیٰ وعیسیٰ و مَا أوتِی النبیُّون من رَبِّهم لا نُفرِقُ بَینَ أحِدٍ مِنهُم وَنَحنُ لَهُ مُسلِمُون ) ( ۲ )

اور مسلمانو ں تم ان سے کہدو کہ ہم اللہ پر اور جو اس نے ہماری طرف بھیجا ہے اور جو ابراہیم ،اسماعیل واسحاق ویعقوب اور اولا د یعقوب کی طرف نازل کیاہے اور جو موسی ،عیسیٰ اور دیگر انبیاء کو پر وردگار کی جانب سے دیا گیا ہے، ان سب پر ایما ن لے آئے ہیں، ہم پیغمبروں میں تفریق نہیں کرتے اور ہم خدا کے سچے مسلمان ہیں۔

____________________

(۱) بحارالانوار جلد ۱۱ ،ص ۴۱

(۲) بقرہ آیة: ۱۳۶

۱۳۶

سوالات

۱۔ سورہ فتح کی پہلی آیة میں ذنب اور غفران سے کیا مراد ہے۔ ؟

۲۔ پیغمبروں کی تعداد او ر اوالعزم رسولو ں کے نام بتائیں ۔؟

۱۳۷

اکیسواں سبق

نبوت خاصہ (پہلی فصل )

نبوت خاصہ اور بعثت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

چودہ سو سال پہلے ۱۰ ۶ ھ میں جب شرک وبت پرستی نے پوری دنیا کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا او رمظلوم افراد ظالم حکمرانوں کے شکنجو ں میں بے بسی سے ہاتھ پیر ماررہے تھے اور سبھی لوگ ناامید ی کے سائے میں زندگی گذار رہے تھے ایک شریف خاندان سے شرافت و طہارت کا ایک پیکر اٹھاجس نے مظلو موں کی حمایت کی ،عدالت وآزادی کا نعرہ بلند کیا ،اسیروں کے زنجیروں کی گرہوں کو کھولا، علم وتربیت کی جانب لوگو ں کو دعوت دی ،اپنی رسالت کی بنیاد فرمان ووحی الٰہی کو قرار دیتے ہو ئے خود کو خاتم الا نبیاء کے نام سے پہنچوایا ۔

وہ محمد بن عبد اللہ خاندان بنی ہاشم کا چشم و چراغ ہا ں وہی قبیلہ بنی ہاشم جو شجاعت، شہا مت ،سخاوت ،طہارت ،اصالت میں تمام قبائل عرب میں مشہور تھا وہ ہمالیائی عظم واستقلا ل کا پیکر جس کی لیاقت اور روحی کمال کی حد درجہ بلندی کی پوری دنیا کے مورخو ں چاہے دوست ہو ں یا دشمن سب نے گواہی دی ہے اعلا ن رسالت سے قبل ان کی چالیس سالہ زندگی سب کے سامنے آئینہ کی طرح شفاف و بے داغ تھی، اس نامساعد حالات اور جزیرة العرب کی تاریکیوں کے باوجود پیغمبر اسلا م کی فضیلت کا ہر باب زبان زد خاص وعام تھا، لوگوں کے نزدیک اس قدر بھروسہ مند تھے کے سب آپ کو محمد امین کے نام سے جانتے تھے ،خدا کا کروروں سلام ان پر اور ان کی آل پاک پر ۔

۱۳۸

رسالت پیغمبر پر دلیلیں

انبیاء کی شناخت کے لئے جتنے اصول وقوانین بتائے گئے ہیں، سب آنحضرت کی رسالت پر مدلل ثبوت ہیں (یعنی معجزہ ،گذشتہ نبی کی پیشین گو ئی ،شواہد قرآئن ) تاریخ ،قرائن وشواہد رسول کی رسالت کے ،او ربعثت پر گواہ ہے ۔

گذشتہ انبیاء کے صحیفے پیغمبر اسلا م کی بعثت کی بشارت دے چکے ہیں ، لیکن پیغمبر کے معجزات دوطرح کے ہیں ۔

پہلی قسم ان معجزات کی ہے جوکسی خاص شخص یا گروہ کی درخواست پر آنحضرت نے خد اسے طلب کیا اور وہ معجزہ آپ کے ہاتھوں رونما ہوا جیسے درخت اورسنگریزوں کا سلام کرنا دریائی جانور کاآپ کی رسالت کی گواہی دینا شق القمر( چاند کے دوٹکڑے کرنا ) مردوں کو زندہ کرنا ،غیب کی خبر دینا ابن شہر آشوب نے لکھا ہے کہ چار ہزار چار سو چالیس معجزے رسول اکرم کے تھے جن میں سے صرف تین ہزار معجزوں کاذکر ملتاہے ۔

قرآن رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دائمی معجزہ

دوسری قسم : قرآن رسول اکرم کاابدی معجزہ ہے جو ہر زمانے اورہر جگہ کے لئے قیامت تک معجزہ ہے ،رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسرے انبیاء کے درمیان امتیازی فرق یہ ہے کہ ان سب کی رسالت محدود تھی وہ کسی خاص گروہ یا محدود امت کے لئے مبعوث ہو ئے تھے ،بعض محدود ومکان اور محدود زمانے میں تھے اگر ان میں سے بعض مکانی لحاظ سے محدود نہیں تھے توا ن کی رسالت ایک زمانے تک محدود تھی اور وہ دائمی رسالت کے دعویدار بھی نہیں تھے ،اسی لئے ان کے معجزے بھی فصلی اور وقتی تھے، لیکن چونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت ابدی اور عالمی ہے اس لئے ان کے عصری اور وقتی معجزے کے علاوہ دائمی معجزہ (قرآن )بھی ہے جو ہمیشہ کے لئے ہے اور ہمیشہ ان کی رسالت پر گواہ ہے۔

۱۳۹

نتیجہ : قرآن کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ:

۱۔ اس نے زمان ومکان کی سرحدوں کی ختم کردیا او رقیامت تک معجزہ ہے ۔

۲۔ قرآن روحانی معجزہ ہے یعنی دوسرے معجزے اعضاء بد ن کو قانع کرتے ہیں لیکن قرآن ایک بولتا ہوامعجزہ ہے جوڈیڑھ ہزار سال سے اپنے مخالفو ں کوجواب کی دعوت دیتا آرہاہے اورکہہ رہا ہے اگرتم سے ممکن ہوتومجھ جیسا سورہ لاکر بتاؤ اور چودہ سوسال اس چیلنج کو گذر رہے ہیں مگر آج تک کوئی اس کو جواب نہ لا سکا اورنہ ہی صبح قیامت تک لاس کے گا ۔

( قُلْ لَئِن اجتَمَعَتِ النسُ والجِنُّ علیٰ أَن یَأتوا بِمثلِ هذا القُرآن لایأتُونَ بِمِثلِه وَلَوکَانَ بَعضُهُم لِبَعضٍ ظَهِیراً ) ( ۱ )

آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان وجنات اس بات پر متفق ہوجا ئیں کہ اس قرآن کامثل لے آئیں توبھی نہیں لا سکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پنا ہ ہی کیوں نہ ہو جائیں ۔

دوسرے مقام پر ان کے مقابلہ کی ناکامی کو چیلنچ کرتے ہو ئے فرمایا :اگر یہ دعوی میں سچے ہیں توان سے کہہ دیجئے اس کے جیسے دس سورہ تم بھی لے آئو( ۲ ) تیسرے مقام پہ ارشاد ہو ا( واِنْ کُنتُم فِی رَیبٍ مِمَّا نَزَّلنَا علیٰ عَبدِنا فَأتوا بِسورةٍ مِن مِثلهِ وَ ادعُوا شُهدائَ کُم مِن دُونِ اللّهِ اِن کُنتُم صَادِقیِن ) ( ۳ )

''اگرتمہیں اس کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آئو اور اللہ کے سوا جتنے تمہا رے مدد گار ہیں سب کوبلا لو اگر تم اپنے دعوی او رخیال میں سچے ہو'' ۔

تو اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ وہ ایک سورے کابھی جواب لانے سے عاجز ہیں ۔

یہ بالکل واضح اور روشن سی بات ہے کہ اگر اس وقت کے فصحاء اور بلغا ء قرآن کے ایک بھی سورہ کا جواب لانے کی صلا حیت رکھتے ہوتے تو پھر پیغمبر اورمسلمانوں کے خلا ف اتنی جنگیں نہ لڑتے بلکہ اسی سورہ کے ذریعہ اسلا م کے مقابلہ میں آتے

____________________

(۱) سورہ اسراء آیة: ۸۸

(۲)سورہ بقرہ آیة :۲۳

(۳) سورہ ھو د آیة:۱۳

۱۴۰