اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )0%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف: شیخ علی اصغر قائمی
زمرہ جات:

صفحے: 303
مشاہدے: 148518
ڈاؤنلوڈ: 3719

تبصرے:

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148518 / ڈاؤنلوڈ: 3719
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

علم امام

امام کو چاہئے کہ وہ ان تمام احکام وقوانین کوجانتا ہو جولوگوں کے لئے دنیا اور آخرت کی سعادت کے لئے ضروری ہیں یعنی امام کا علم اہل زمین کے تمام لوگو ں سے زیادہ ہو، تاکہ وہ رہبری کا حقدار بن سکے وہ تمام دلیلیں جو امام کی ضرورت کے لئے ہم نے بیان کی ہیں، وہی یہاں بھی امام کے افضل واعلم ہونے پر دلالت کر تی ہیں، قرآن نے اس کی طرف اس طرح اشارہ کیا ہے :( أَفَمَنْ یَهدِی اِلیٰ الحَقِّ أَحَقُ أنْ یُتَّبَعَ أمَنَ لَایَهدِّیِ اِلَّا أنْ یُهدیٰ فَما لَکُمْ کَیفَ تَحکُمُونَ ) او رجو حق کی ہدایت کرتا ہے وہ واقعا قابل اتباع ہے یا جو ہدایت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے مگر یہ کہ خود اس کی ہدایت کی جائے آخر تمہیں کیا ہوگیاہے اورتم کیسے فیصلے کر رہے ہو۔( ۱ )

اما م کے تعیین کا طریقہ

جب ہم نے امام کے صفات اور کمالات کوپہچان لیاتو اب یہ دیکھنا ہے کہ

ایسے امام کو کس طریقہ سے معین ہونا چاہئے۔

آج کل کی دنیا میں ذمہ دار اور عہدہ دار کے چننے کابہترین طریقہ انتخا بات ہے( چنائو کے ذریعہ ) البتہ یہ چناؤ را ہ حل تو ہوسکتا ہے لیکن ہمیشہ راہ حق نہیںہوتا کیونکہ چنائو واقعیت کو تبدیل نہیں کر سکتا نہ حق کو باطل اور نہ باطل کو حق بنا سکتا ہے،ہر چندکہ عملی میدان میں اکثریت کو مد نظر رکھا جاتاہے لیکن یہ چنے ہو ئے فرد کی حقانیت کی دلیل نہیں ہے ،تاریخ گواہ ہے کہ انتخابات میں بعض لوگ اکثریت کے ذریعہ چنے گئے پھر تھوڑے یازیادہ دن کے بعدیہ پتہ چل جاتا ہے کہ یہ انتخاب اور چنائوسے آنے والا شخص غلط تھا حقیقت یہ ہے کہ ہم علم غیب یاآئندہ کی بات نہیں جانتے لوگوں کے باطن کے سلسلہ میں ہم کس طرح حتمی فیصلہ یا صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں۔؟

لہٰذا کبھی بھی اکثریت حق کی دلیل اور اقلیت باطل کی دلیل نہیں بن سکتی دوسری طرف قرآن نے تقریبا ً اسی مقامات پر اکثریت کی مذمت کی ہے اور سورہ

____________________

(۱) سو رہ یونس آیة :۳۵

۱۶۱

انعام کی آیة ۱۱۶ میں ارشاد ہوتا ہے:( وَأنْ تُطِع أَکثَرمَنْ فیِ الأرضِ یُضلُّوکَ عَن سَبِیلِ اللَّهِ اِن یَتَّبِعُونَ اِلاَّالظَّنَّ وَاِن هُم اِلَّایَخرصُوُنَ ) اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کریں گے تویہ راہ خدا سے بہکا دیں گے یہ صرف گمان کا اتباع کرتے ہیں اور صرف اندازوں سے کام لیتے ہیں۔

اس سے ہٹ کر امامت اوررہبری کاکام فقط دین اور سماجی زندگی کو چلانے کا نام نہیں ہے بلکہ امام دین کا محافظ اور دین ودنیا میں لوگوں کی حفاظت کرنے والا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ وہ ہرگز گناہ وخطا سے معصوم ہواور تمام لوگوں میں افضل واعلم ہو اور ایسے شخص کو لوگ نہیں چن سکتے کیونکہ لوگوں کو کیا معلوم کہ کو ن شخص صاحب عصمت اور علوم الٰہی کاجاننے والا اوردوسری فضیلتوں کامالک ہے تاکہ اسے چنا جائے چونکہ صرف خدا انسان کے باطن اور مستقبل سے باخبر ہے لہٰذا اس کو چاہئے کہ بہترین شخص کو اس مقام کے لئے چنے اور اسے اس کی شایان شان کمال سے نواز کر لوگوں کے سامنے پہچنوائے ۔

امام کیسے معین ہوگا ؟

رسول کے بعد امامت وپیشوای یعنی کار رسالت کوانجام دینا،امام اوررسول میں بس فرق یہ ہے کہ رسول بانی شریعت اور صاحب کتاب ہوتاہے اور امام اس کے جانشین کی حیثیت سے محا فظ شریعت اور اصول دین وفروع دین کابیا ن کرنے والا اورنبوت کی تمام ذمہ داریوں کونبھانے والاہوتا ہے جس طرح نبی کاانتخاب خدا کے ہاتھ میں ہے اسی طرح امام کاانتخاب بھی خدا کی جانب سے ہوناچاہئے جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیة ۱۲۴ میں ہے کہ امامت عہدخداوندی ہے اورخدا کاعہدہ انتخاب اور چنائو سے معین نہیں ہوسکتا کیونکہ چنائو اورشوری لوگوں سے مربوط ہے۔

۱۶۲

جن دوآیتوں میں مشورت کا ذکر کیاہے وہاں لفظ امر آیا ہے( وَأَمرُهُم شُوریٰ بَینَهم )( وشَاورْهُم فیِ الأَمرِ ) ان دو آیتوں میں جومشورت کے لئے کہاگیاہے وہ معاشرتی امور لوگو ں کے لئے ہے اور یہ خدا کے عہدوپیمان میں شامل نہیں ہو گا سورہ قصص کی ۶۸ آیة میں ارشاد ہوتا ہے( و َرَبُّک یَخلُقُ مَا یَشائُ وَ یَختَارُ مَا کَانَ لَهُمُ الخِیَرةُ ) اور آپ کا پرور دگار جسے چاہتا ہے پیدا کرتاہے اور پسند کرتاہے ۔

ان لوگوں کو کسی کا انتخاب کرنے کاکوئی حق نہیں ہے مرحوم فیض کاشانی تفسیر صافی میں اس آیت مذکورہ کے ذیل میں حدیث نقل کرتے ہیں کہ: جب خداوند عالم کسی کو امامت کے لئے منتخب کردے تو لوگ دوسرے کی طرف ہرگز نہیں جاسکتے اور دوسری حدیث میں ارشاد ہوا :

چنائو میں خطا کے امکان کی بناپر اس کی اہمیت کم ہو جا تی ہے صرف خدا کاچناہوا اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے چونکہ صرف وہ ہمارے باطن اور مستقبل کوجانتا ہےلمّاکَانَ النبّیِّ یَعرضُ نَفسَهُ علیٰ القبائل جائَ الیٰ بنَی کلابِ فقالوا : نُبایعک علیٰ أَن یکون لنا الأمر بعَدک فقال: الأَمر للَّه فاِن شاَء کان فیکم أَوفیِ غیرکم ،جس وقت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبیلوں میں جاکر لوگوں کو دعوت دیتے تھے جب قبیلہ بنی کلاب میں گئے تو ان لوگوں نے کہا ہم اس شرط پرآپ کی بیعت کریں گے کہ امامت آپ کے بعد ہمارے قبیلہ میں رہے حضرت نے فرمایا: امامت کی ذمہ داری خداکے ہاتھ میں ہے اگروہ چاہے گا تو تم میں رکھے گا یاتمہارے علاوہ کسی او ر میں ۔( ۱ )

____________________

(۱) بحارالانوار جلد،۲۳ ص ۷۴

۱۶۳

سوالات

۱۔ عصمت امام پر قرآن سے دلیل پیش کریں ؟

۲۔ قرآن کی نظر میں ظالمین کون لوگ ہیں ؟

۳۔ کیوں امام کو انتخاب او رمشورت سے معین نہیں کر سکتے ؟

۴۔امام کا تعین کیسے کریں ؟

۱۶۴

پچیسواں سبق

امامت خاصہ

مولا ئے کائنات ں اور ان کے گیارہ فرزندوںکی امامت وولایت کااثبات:

ہم گذشتہ بحثوں میں امام کی صفات اور ضروری خصوصیات سے آگاہ ہوچکے ہیںلہٰذا اب ہم کو یہ تحقیق کرناچاہئے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان کا حقیقی جانشین کون ہے اوریہ صفات کن میں پائے جا تے ہیں تاکہ وہ عقیدہ جوہمارے پاس ہے اس کا عقلی ونقلی دلیلوں سے اثبات ہوسکے تاکہ جولوگ حق وحقانیت سے دور ہیں ان کی ہدایت کرسکیں۔

مولائے کا ئنات ں کی امامت اور ولایت پر عقلی دلیل

دومقدمہ ایک نتیجہ

۱۔ مولائے کائنات تمام انسانی فضائل وکمالات کے حامل تھے جیسے علم تقوی ،یقین ،صبر ، زہد ، شجاعت ، سخاوت ،عدالت ،عصمت ، اور تمام اخلاق حمیدہ یہاں تک بلا شک وشبہہ(دشمنوں کوبھی اعتراف تھا ) تمام کمالات میں سب سے افضل وبرتر ہیں اور یہ فضائل شیعہ اور سنی دونوں کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں ۔

۲۔عقل کی روسے مفضول کوفاضل پر ترجیح دینا قبیح ہے اور جو بھی مذکورہ فضائل کاحامل نہیں ہے اس شخص پر جو ان فضائل کاحامل ہے ترجیح دینا قبیح ہے ۔

۱۶۵

نتیجہ

حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب ہی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی جانشین ہیں۔

دوسری دلیل

جیسا کہ بیان ہوچکاہے کہ عقلی ونقلی اعتبار سے امام کا معصوم ہونا ضروری ہے اور ہر خطا وغلطی سے پاک اور دور ہوناچاہیئے، آئندہ بحث میں انشاء اللہ قران وحدیث سے ہم ثابت کریں گے کہ یہ صفات وخصوصیات صرف اہل بیت سے مخصوص ہیں، لہٰذ ا حضرت علی اور ان کے گیارہ فرزندوں کے علا وہ کوئی عہدئہ امامت کے لائق نہیں ہے ۔

عصمت اور آیہ تطہیر

ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ امام کا معصوم ہونا ضروری ہے ،اب یہ دیکھیں کہ معصوم کو ن ہے ؟( اِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ أَهَلَ البَیتِ وَیُطهِّرکُم تَطهِیراً ) ( ۱ ) (بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اے اہل بیت! تم سے ہر برائی دور رکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

____________________

(۱)سورہ احزاب ۔آیة: ۳۳

۱۶۶

اہل بیت سے مراد ؟

شیعہ اور سنی کی بہت سی متواتر حدیثیں اس بات پر دلا لت کرتی ہیں کہ آیة تطہیر رسول اکرم اور اہل بیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے یہ حدیثیں اہلسنت کی معتبر کتا بو ں میں موجود ہیں جیسے صحیح مسلم ، مسنداحمد، درالمنثور،مستدرک حاکم ،ینابیع المو دة ،جامع الاصول ،الصواعق المحرقہ ،سنن ترمذی ،نور الابصار مناقب خوارزمی وغیرہ اور شیعوں کی لا تعداد کتب میں موجود ہیں۔

امام حسن ںنے اپنے خطبہ میں فرمایا : ہم اہل بیت ہیں جن کے واسطے خدا وند عالم نے قرآن میں فرمایا :( اِنَّمَایُرِیدُ اللَّهُ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ أَهَلَ البَیتِ وَیُطهِّرکُم تَطهِیرا ) ( ۱ )

انس بن مالک کہتے ہیں کہ : رسو ل خد ا چھ مہینے تک نماز کے وقت جب جناب زہراصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر پہونچتے تھے فرماتے تھے اے اہل بیت وقت نماز ہے( اِنَّمَایُرِیدُ اللَّهُ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ أَهَلَ البَیتِ وَیُطهِّرکُم تَطهِیرا ) ( ۲ )

ابن عباس بیان کرتے ہیں : کہ رسول خدا نو مہینے تک وقت نماز جنا ب امیر علیہ السلام کے دروازے پر آکر فرماتے تھے سلام علیکم یا أَھلَ البَیت:

( اِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ أَهَلَ البَیتِ وَیُطهرّکُم تَطهِیراً ) ( ۳ )

____________________

(۱)ینابیع المودة ص۱۲۶۔

(۲)جامع الاصول جص۱۱۰۔

(۳)الامام الصادق والمذاہب الاربعہ ج،۱ص۸۹۔

۱۶۷

مولا ئے کائنات فرماتے ہیں کہ رسول خدا ہر روز صبح ہمارے گھر کے دروازے پر آکر فرماتے تھے خدا آپ پر رحمت نازل کرے نماز کے لئے اٹھو :

( اِنَّمَایُرِیدُ اللَّهُ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ أَهَلَ البَیتِ وَیُطهِّرکُم تَطهِیرا ) ( ۱ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کافی دن اس پر عمل کرتے رہے تاکہ اہل بیت کی پہچان ہوجائے اور ان کی اہمیت لوگوں پر واضح ہوجائے ۔

شریک ابن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا کی وفات کے بعد مولائے کائنات نے اپنے خطبہ میں فرمایا : تم لوگوںکو قسم ہے اس معبود کی بتاؤکہ کیا میرے اورمیرے اہل بیت کے علاوہ کسی اور کی شان میں یہ آیة نازل ہو ئی ہے :( اِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ أَهَلَ البَیتِ وَیُطهرِّکُم تَطهِیراً ) ( ۲ ) لوگوں نے جواب دیا نہیں ۔

حضرت علی ںنے ابوبکر سے فرمایا تمہیں خداکی قسم ہے بتائو آیة تطہیر میرے اور میری شریک حیات اور میرے بچوں کی شان میں نازل ہو ئی ہے یا تمہارے اور تمہارے بچوں کے لئے ؟جواب دیا :آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہے۔( ۳ )

____________________

(۱) غایةالمرام ص ۲۹۵

(۲) غایةالمرام ص، ۲۹۳

(۳) نو ر الثقلین ج ۴، ص ۲۷۱

۱۶۸

اعتراض :

لوگو ں کاکہنا ہے کہ آیة تطہیر پیغمبر کی ازواج کی شان میں نازل ہوئی ہے کیونکہ اس کے پہلے اور بعد کی آیات پیغمبر کی ازواج کے سلسلے میں ہے یا کم ازکم پیغمبر کی ازواج بھی اس میں شامل ہیں ۔اسی لئے یہ ان کی عصمت کی دلیل نہیںہوسکتی ہے کیونکہ کوئی بھی پیغمبر کی ازواج کومعصوم نہیں مانتا ہے ۔

جواب

علامہ سید عبد الحسین شرف الدین نے اس کے چند جواب دیئے ہیں ۔

۱۔ یہ اعتراض اور شبہ نص کے مقابلہ میں اجتہا د کرناہے کیونکہ بے شمار روایتیں اس سلسلے میں آئی ہیں جوتواتر کے حد تک ہیں کہ آیة تطھیر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فاطمہ زہراصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی ، وحسنین کی شان میں نازل ہو ئی ہے ۔

۲۔ اگر آیة تطہیر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج کی شان میں ہو تی تو مخاطب مونث ہوناچاہئے نہ کہ مذکر ،یعنی آیت اس طرح ہو نی چاہئے ''( اِنَّمَایُرِیدُ اللَّهُ لِیُذهِبَ عَنکُنَّ الرِّجسَ أَهَلَ البَیتِ وَیُطهِّرکُنَّ تَطهِیرا'' )

۳۔آیة تطھیر اپنے پہلے اور بعد کی آیت کے درمیان جملہ معترضہ کے طور پر ہے اور یہ چیز عربوں میں فصیح مانی جاتی ہے اور قرآن میں بھی آیا ہے:

۱۶۹

( فَلَمَّا رَأیٰ قَمِیصهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قالَ اِنَّه مِنْ کَیدِ کُنَّ اِنَّ کَیدَ کُنَّ عَظِیمُ یُوسُف أَعرِض عَن هَذا وَاستغفِریِ لِذَنبِکِ انک کُنتِ مِنْ الخَاطِئیِنَ ) ''( یُوسُف أَعرِض عَن هَذا'' ) : مخاطب یو سف ہیں اور یہ جملہ معترضہ ہے اور پہلے اور بعد کی آیة میں زلیخا سے خطاب ہے:( ۱ )

آیة تطہیر او رمولا ئے کا ئنا ت اور انکے گیارہ فرزندوں کی عصمت وامامت

مولائے کائنات نے ارشاد فرمایا ہم ام سلمہ کے گھر میں رسول خدا کے پاس بیٹھے تھے کی آیة تطہیر( اِنَّمَایُرِیدُ اللَّهُ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ أَهَلَ البَیتِ وَیُطهرِّ کُم تَطهِیرا ) نازل ہو ئی۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :یہ آیت آپ اور آپ کے فرزند حسن وحسین علیہما السلام اور ان اماموں کی شان میں نازل ہو ئی ہے جو آپ کی نسل سے آئندہ آئیںگے میں نے عرض کیا یارسول اللہ آپ کے بعد کتنے امام ہو نگے ۔؟

حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میرے بعد آپ امام ہو ں گے اورآپ کے بعد حسن اور حسن کے بعد حسین اور ان کے بعد ان کے فرزند علی پھر علی کے فرزند محمد اور پھر محمدکے فرزندعلی اور علی کے فرزندجعفر اورجعفر کے فرزندموسیٰ ،موسیٰ کے فرزند علی ،علی کے فرزند محمد،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند علی ،علی کے فرزند حسن ،حسن کے فرزند حجت امام ہو ں گے ان تمام کے اسماء گرامی اسی ترتیب سے عرش پر لکھے ہیں میں نے خدا سے پوچھا یہ کون ہیں ؟جواب یہ تمہارے بعد کے امام ہیں جو پاک اور معصوم اور ان کے دشمن ملعون ہوںگے۔( ۲ )

____________________

(۱)سورہ یوسف آیة:۲۸۔ ۲۹

(۲) غایة المرام ص ، ۲۹۳

۱۷۰

لہٰذا یہ آیة تطہیر چودہ معصوم کی شان میں نازل ہوئی ہے اور رسول خدانے اپنی بے شمار احادیث کے ذریعہ ( انشاء اللہ ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کریں گے ) لوگوں کویہ بتایا کہ یہ عہدہ امامت قیامت تک انہیں مخصوص حضرات سے مربوط ہے کیو نکہ یہ صاحب عصمت ہیں اور اس عہدے کے تمام شرائط ان کے اندر پائے جاتے ہیں ۔

عصت کے متعلق دوحدیث

عن ابن عبّاس قال سمعت رسول اللّه صلیٰ اللّه وآله وسلم یقول : أناوعلیِ والحسن والحسین وتسعة من ولد الحسین مطهّرون معصومون ( ۱ ) ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں اور علی ،حسن و حسین اور حسین کی نسل سے ان کے گیارہ فرزندپاک اور معصوم ہیں ۔

قال امیر المومنین :اِنّ اللّه تبارک وتعالیٰ طهّرنا وعصمنا وجعلنا شهداء علیٰ خلقه وحجّته فی أرضه وجعلنا مع القرآن وجعل القرآن معنا لانفارقه ولا یفارقنا ( ۲ )

مولائے کائنا ت نے فرمایا : بیشک خدا نے ہمیں پاک ومعصوم بنایا ہے اور اپنی مخلوق کا گواہ اور زمین پر حجت قرار دیا اور ہمیں قرآن کے ساتھ اورقرآن کو ہمارے ساتھ رکھا ہے نہ ہم قرآن سے الگ ہو سکتے ہیں نہ قرآن ہم سے الگ ہوسکتا ہے ۔

____________________

(۱)ینابیع المودة ص ۵۳۴

(۲) اصول کا فی کتاب الحجة

۱۷۱

سوالات

۱۔ مولا ئے کائنات کی امامت پر عقلی دلیل بیان کریں ؟

۲۔آیة تطہیر سے اہل بیت سے مراد کون لوگ ہیں حدیث سے ثابت کریں ؟

۳۔ آیة تطہیر میں پیغمبر کی ازواج شامل کیوں نہیں ہوسکتی ہیں ؟

۴۔ بارہ اماموں کی امامت کے سلسلہ میں مولائے کا ئنات کی حدیث بیان کریں ؟

۱۷۲

چھبیسواں سبق

قرآن اور مولائے کا ئنات کی امامت

آیة ولایت

( اِنَّمَا وَلیکُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِینَ آمُنوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلٰوةَ وُیُؤتُونَ الزَّکٰوةَ وَهُم رَاکِعُونَ ) ایمان والو تمہارا ولی بس اللہ ہے او ر اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جونماز قائم کرتے ہیں اورحالت رکوع میں زکاةدیتے ہیں۔( ۱ )

خدا وند عالم نے اس آیت میں لفظ ،،انما،، کے ذریعہ جو انحصار پر دلا لت کرتاہے۔ مسلمانوں کا ولی و سرپرست صرف تین شخصیتوں کوقرار دیاہے خود خدا، پیغمبر اور جو لوگ صاحبان ایمان ہیںکہ جونماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں۔

آیة کا شان نزول

آیت سے خدا اورسول کی ولا یت میں کسی کو شک نہیں لیکن تیسری ولایت

____________________

(۱) سورہ مائدہ آیة: ۵۵

۱۷۳

( ''والذین آمنوا'' ) کے بار ے میں شیعہ اور سنی دونو ں کے یہا ں بے شمار حدیثیں پائی جاتی ہیں کہ یہ آیة مولا ئے کا ئنات ںکی شان میں نازل ہوئی ہے اس وقت کہ جب انھو ںنے حالت رکوع میں اپنی انگو ٹھی سائل کو دے دی شیعوں میں اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیںاوراہل سنت کے علماء میں سے فخر رازی نے تفسیرکبیر میں ،زمخشری نے کشاف میں ،ثعلبی نے الکشف والبیان میں ، نیشاپوری بیضاوی ،بہیقی ،نظیری اورکلبی نے اپنی اپنی تفسیر وں میں ،طبری نے خصائص میں ، خورازمی نے مناقب ،احمد بن حنبل نے مسند میں ،یہاں تک کہ تفتازانی اورقوشجی نے اتفاق مفسرین کا دعوی کیا ہے غایة المرام میں ۲۴ حدیثیں اس سلسلے میں اہل سنت سے نقل کی گئی ہیں ،مزید معلو ما ت کے لئے الغدیر کی دوسری جلد اور کتاب المراجعات ،کی طرف رجوع کریں ۔

یہ مسئلہ اس حد تک مشہور ومعروف تھا اور ہے کہ (پیغمبر کے زمانے کے مشہورشاعر)حسان بن ثابت نے اسے اپنے شعر کے ذریعہ بیان کیااور مولا سے مخاطب ہو کرکہتے ہیں:

فأنتَ الَّذیِ أَعطیت اِذ کنت راکعاً

زکاةً فَد تک النفس یا خیرراکع

فانزل فیک اللّه خیر ولا یة

وبیّنها فی محکمات الشرائع

''اے علی آپ نے حالت رکوع میں زکوة دی ۔میری جان آپ پر قربان اے بہترین رکوع کرنے والے ''

خدانے بہترین ولایت آپ کے لئے نازل کی اور قرآن میں اسے بیان فرمایا ،لہٰذا مولائے کائنات تمام مومنین کے ولی مطلق ہیں اور عقل کی رو سے ایسا شخص ابوبکر وعمر وعثمان کا تابع نہیں ہوسکتا ،ہاں اگر یہ افراد مومن تھے تو ا ن کو مولائے کائنات کی اتباع وپیروی کرنی چاہئے ۔

۱۷۴

دواعتراض اور انکا جواب

بعض اہل سنت کا کہناہے کہ ولی کے معنی دوست اورساتھی کے ہیںنہ کہ رہبر وولی مطلق کے ۔

جو اب :

الف )پہلی بات تویہ کہنا ہی نص آیة اورظاھر کے خلاف ہے اس سے ہٹ کر ولی کے معنی عرف عام میں ولی مطلق ،اور اولی بہ تصرف کے ہیں اور دوسرے معنی میں استعمال کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے چونکہ اولی کا لفظ آیت میں( النَّبُّ أَولیٰ بِالمُؤمنِینَ مِن أنفُسهِم ) ( ۱ ) کا لفظ حدیث غدیر میں ''من کنت مولاہ'' ولایت مطلق پرواضح طور پر دلا لت کرتا ہے ۔

ب) آیة ولایت میں لفظ ''انما'' کے ذریعہ انحصار ہے اور دوستی صرف خدا ورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علی ہی پر منحصر نہیں ہے ۔بلکہ تمام مومنین ایک دوسرے کے دوست ہیں جیسے کہ خدا وند عالم نے فرمایا( المُؤمنُون والمؤمنات بعضهم أولیائُ بَعضٍ ) اب چونکہ دوستی کا انحصار فقط خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وعلی سے مختص نہیں ہے۔( ۲ )

____________________

(۱)الاحزاب آیة:۶

(۲) سورہ توبہ آیة:۷۱

۱۷۵

بلکہ اس کاتمام مومنین سے ہے آیہ( اِنَّما وَلیُّکُم اللّه ) (میں انحصار کاحکم ہے لہٰذا ولا یت کے معنی رہبر وولی مطلق کے ہیں۔

بعض متعصب اہل سنت نے اعتراض کیاکہ مولائے کائنات جب نماز میں اتنا محو رہتے تھے کہ حالت نماز میں تیر نکلنے کابھی انہیںپتہ نہیں چلتا تھا تو کس طرح ممکن ہے کہ سائل کے سوال کو سن کر اس کی طرف متوجہ ہوئے ہوں۔

جواب:

یقینا مولا ئے کائنات حالت نماز میں مکمل طور سے خدا کی طرف دھیان رکھتے تھے، اپنے آپ اور ہر مادی شی ٔ سے جو روح عبادت کے منافی ہوتی تھی بیگانہ رہتے تھے ۔لیکن فقیر کی آواز سننا اور اس کی مدد کرنا اپنی طرف متوجہ ہونا نہیں ہے بلکہ عبادت میں غرق ہو نے کی دلیل ہے دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ آپ کا یہ فعل عبادت میں عبادت ہے اس کے علاوہ عبادت میں غرق ہونے کامطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اپنے اختیارات کھو بیٹھیں یا بے حس ہو جا ئیں بلکہ اپنے اختیار کے ذریعہ اپنی توجہ اور وہ چیز جوراہ خدا میں سد راہ ہے اس سے اپنے آپ کو الگ کرلیں ۔

یہا ں نمازبھی ایک عبادت ہے اور زکوة بھی ،اور دونوںخداکی خوشنودی کے راستے ہیں ،لہٰذا مولائے کائنات کومتوجہ ہونا صرف خداکے لئے تھا اس کی دلیل خود آیت کانازل ہو نا ہے ،جو تواتر سے ثابت ہے ۔

۱۷۶

آیت اطاعت اولی الامر:

( یَاأیُّها الَّذینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّهَ وَأطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِ الأمرِ مِنکُم ) ''ایمان والواللہ کی اطاعت کرو اوراس کے رسول اورصاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں''۔( ۱ )

اس آیت میں صاحبان امرکی اطاعت بغیر کسی قید و شرط کے خد ااوررسول کے اطاعت کے ساتھ واجب قرار دیاہے شیعوں کانظریہ ہے کہ اولی الامر سے مراد بارہ امام معصوم ہیں اوراہل سنت سے بھی روایت پائی جاتی ہے کہ اس سے مراد امام معصوم ہیں۔

مشہور مفسر ،ابوحیان اندلسی مغربی نے اپنی تفسیر بحارالمحیط ،اور ابوبکر مومن شیرازی نے اپنے رسالہ اعتقادی میں ،سلیمان قندوزی نے ینابیع المو دة میں ان روایتوں کو بطور نمونہ ذکر کیا ہے ،شیعوں کی تفسیر وں میں بھی اس آیت کے ذیل میں رجوع کریں منجملہ تفسیر برہان ،نورالثقلین ،تفسیر عیاشی ،اور کتاب غایة المرام اوردوسری بہت ساری کتابوں میں آپ رجوع کریں۔یہاں پر بعض احادیث کونقل کررہے ہیں جابر بن عبداللہ انصاری نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیاکہ اولی الامرجن کی اطاعت کا ہمیں حکم دیاگیا ہے اس سے مراد کون ہیں۔ ؟

آنحضرت نے جواب میں فرمایا : میرے بعد کے خلیفہ وجانشین جو میری ذمہ داریوں کو سر انجام دینے والے ان میں سب سے پہلے میرے بھائی علی ہیںان

____________________

(۱)سورہ نساء آیة:۵۹

۱۷۷

کے بعد حسن وحسین علیہماالسلام پھر علی بن الحسین ان کے بعد محمد باقر (تم اسوقت تک رہوگے اور اے جابر! جب ان سے ملاقات ہو تو انہیں ہماراسلام کہنا)پھرجعفر صادق ان کے بعد موسی کاظم ا ن کے بعد علی الرضا ا نکے بعد محمد جواد پھر علی ہادی ان کے بعد حسن عسکری او ران کے بعد قائم منتظر مہدی میرے بعد امام او ر رہبر ہوںگے۔

اسی حدیث کو امام زمانہ کے سلسلے میں تفسیر نورالثقلین کی پہلی جلد میں صفحہ ۴۹۹ میں واضح طور سے بیان کیاہے ، عن أبی جعفر علیہم السلام: أوصیٰ رسول اللّہ اِلیٰ علی والحسن والحسین علیہم السلام ،ثم قال فی قول اللَّہ عزَّوجلَّ :( یَا أیُّها الَّذینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّهَ وَأطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِ الأمرِ مِنکُم ) قالَ: الأَئِمة مِن وُلِد علیِ وفاطمه أِلی أن تقوم الساعة ( ۱ )

امام محمد باقر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے مولائے کا ئنات اورحسن وحسین علیہم السلام کی امامت کے لئے وصیت کی ،پھرخد اکے اس قول کی طرف اشارہ کیا''أطِیعُوااللَّہَ'' اورفرمایا:بقیہ امام ،علی و فاطمہ کی اولا د سے ہوںگے یہاںتک کہ قیامت آجائے گی لہٰذا اولی الامر کی اطاعت کاتذکرہ جس آ یت میں ہے وہ چند طریقوں سے مولائے کائنات امیرالمومنین ںاورانکے گیارہ فرزندوں کی امامت پر دلالت کرتی ہے اولی الامر کی اطاعت خدا ور رسول کی اطاعت کے ساتھ ہے چونکہ اطاعت مطلق طور پرواجب ہے لہٰذا انہیں پہچانناضروری ہے ۔

جس طرح خد انے رسول خدا کی اطاعت کو واجب کرکے خود رسول کو معین

____________________

(۱) تفسیر نورا لثقلین ج ۱ ص۵۰۵، دلائل امامت ۲۳۱

۱۷۸

کردیا اسی طرح جب اولی الامر کی اطاعت کا حکم دے رہا ہے تو ضروری ہے کہ انہیں بھی معین کرے ورنہ تکلیف مالایطاق ہوجا ئے گی(یعنی جسے ہم نہیں جانتے اس کی اطاعت ہمارے امکان سے با ہر ہے) بے شمار روایتوں نے آیت کے شان نزول کو مولائے کا ئنات اور ان کے گیا رہ فرزندو ں سے مختص کیاہے ۔

علی کی امامت اورآیت انذار وحدیث یوم الدار

حدیث یوم الدار

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بعثت کے تیسرے سال میں حکم ہوا کہ دعوت اسلا م کو علی الاعلان پیش کریں :( وَأنذِر عَشِیرَتَکَ الأَقرَبِین )( ۱ ) (اپنے قریبی رشتے داروں کوانذار کرو ،ڈرائو ) اس حکم کے ساتھ پیغمبر اسلام نے اپنے رشتے داروں کو جناب ابوطالب کے گھر میں اکٹھا کیا اورکھانے کے بعد فرمایا :اے عبد المطلب کے فرزندو! خد اکی قسم میں عرب میں کسی کو نہیں جانتاکہ اپنی قوم وقبیلہ کے لئے اس سے بہترچیز جو میں پیش کر رہا ہو ں اس نے پیش کی ہو ، میں دنیااور آخرت کی فلاح وبہبودی تمہارے لئے لایاہوں اورخدا نے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اس کی توحید اور اس کی وحدانیت اوراپنی رسالت کی طرف دعوت دوں،تم میں سے کون ہے؟ جو اس سلسلے میں میری مددکرے گاتاکہ وہ میرا بھائی میراولی وجانشین بن سکے ۔

کسی نے اس جانب کو ئی توجہ نہیںدی ۔پھر مولائے کائنات کھڑے

____________________

(۱)سورہ شعراء آیة:۲۱۴

۱۷۹

ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ میں حاضر ہو ں ،اس سلسلہ میں آپ کا ناصر ومددگار ہوں یہاں تک تین مرتبہ پیغمبر نے اس جملہ کی تکرار کی،اور علی کے علاوہ کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ، اس وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت کے گلے میں باہیں ڈال کے فرمایا : اِنَّ ھذا أخیِ وَوصییِّ وخلیفتی فیکم فاسمعوا لہ وأطیعوہ بیشک یہ میرابھائی ہے تم لوگوںمیں میراوصی وجانشین ہے اس کی باتو ں کو سنو اور اس کی اطاعت کرو۔

اس حدیث کو اہل سنت کے علماء کرام جیسے ابن ابی جریر ، ابو نعیم ،بہیقی ،ثعلبی ابن اثیر ،طبری اور دوسرے بہت سے علماء نے نقل کیا ہے ،مزید معلومات کے لئے کتاب المراجعات کے صفحہ ۱۳۰ کے بعد اور احقاق الحق ج۴ کے ص ۶۲نیزاس کے بعد ملاحظہ فرمائیں ،یہ حدیث واضح طورپر علی کی ولا یت وامامت کو ثابت کرتی ہے ۔

سوالات

۱۔ آیت ولا یت ''انما ولیکم اللہ'' کے ذریعہ مولائے کا ئنا ت کی امامت کو کیسے ثابت کریں گے ؟

۲۔'' انما ولیکم'' میں ولی کس معنی میں ہے اور اس کی دلیل کیاہے ؟

۳۔ اطاعت اولی الامر کی دلالت کوبیا ن کریں ؟

۴۔ آیة انذار اور حدیث یوم الدار سے کس طرح مولائے کائنات کی

امامت پر استدلال کریں گے ؟

۱۸۰