اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )0%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف: شیخ علی اصغر قائمی
زمرہ جات:

صفحے: 303
مشاہدے: 148549
ڈاؤنلوڈ: 3719

تبصرے:

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148549 / ڈاؤنلوڈ: 3719
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

''وأمّا الحوادث الواقعة فارجعوا فیها اِلیٰ رواة أحَادیثنا فأِنّهُم حُجَّتِی علیکم وأنا حُجّة اللّهِ علیهم''اگر کو ئی مسئلہ درپیش ہوتو ہما رے راویان حدیث کی طرف رجو ع کریں کیونکہ وہ ہماری طرف سے تم پر حجت ہیں اور ہم اللہ کی طرف سے ان پر حجت ہیں۔( ۱ ) مرحوم شیخ طوسی نے بھی کتاب ''الغیبة'' میں اس حدیث کونقل کیا ہے فقط''اَنَا حُجّةُ اللّهِ علیهم''کی جگه'' اناحجة الله علیکم''کالفظ استعمال کیاہے کہ (میں تم پر حجت خداہوں )اس حدیث سے اس طرح استدلال کیاجائیگاکہ اس حدیث میں امام زمانہ نے دوجملوں''فأِنّهُم حُجَّتِی علیکم وأنا حُجّة اللّهِ'' اس طرح بیان فرمایا جو بالکل روشن ہے راویا ن حدیث جویہی فقہاء ہیں ان کا حکم امام کے حکم کے مانند ہے یعنی فقہاء لوگوں کے درمیان امام کے نائب ہیں ۔

۲۔وہ حدیث جو امام صادق سے نقل ہوئی ہے اور مقبولہ محمد بن حنظلہ کے نام سے مشہور ہے ''مَنْ کا ن منکم قَد رویَ حدیثنا ونظر فیِ حلالنا وحرامنا وعرف أحکامنا فلیرضوا به حکماً فاِنِّی قد جعلته علیکم

____________________

(۱)اکمال الدین صدوق ج،۲ص ۴۸۳

۲۰۱

حاکماً فاِذا حَکم بحکمنا فلم یقبله منه فانما استخف بحکم اللّه وعلینا ردّ والرّاد علینا کالرّاد علیٰ اللّه وهو علیٰ حدّ الشِّرک باللِّه'' ( ۱ )

تم میں جو بھی ہماری حدیثیں بیان کرے اور جو ہمارے حلال وحرام میں صاحب نظر ہو اور ہمارے احکام کو صحیح طریقہ سے جانتا ہو اس کی حاکمیت سے راضی ہو کیونکہ ہم نے ان کو تم سب پر حاکم قرار دیاہے اگر انھو ں نے ہمارے حکم کے مطابق حکم کیا اور قبول نہیں کیا گیا تو حکم خدا کو ہلکا سمجھنا ہے اور ہمارے قول کی تردید ہے اور ہماری تردید حکم خدا کی تردید ہے اور یہ شرک کے برابر ہے ۔آج کی اصطلاح میں فقیہ اس شخص کو کہتے ہیں جوحدیث کی روشنی میں حلال وحرام کو درک کرسکے ۔اس حدیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب امام معصوم کی موجود گی میں امام تک پہنچنا ممکن نہ ہو اور امام معصوم کی حکومت نہ ہو تو ایسی صورت میں لوگوں کاکام فقیہ جامع الشرائط کی طرف رجوع کرناہے اس زمانہ غیبت امام میں جبکہ کوئی امام موجود نہیں ہے تولوگو ں کی یہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ فقیہ جامع الشرا ئط کی طرف رجو ع کریں ۔

۳۔شیخ صدوق امیر المومنین ںسے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا:''اللَّهمَّ ارحم خُلفائِ الّذین یأ تون مِن بعدیِ یرون حدیثیِ وسنتیِ'' ( ۲ ) خدا یا!ہمارے خلفاء پر رحم فرما آپ سے پوچھا گیا آپ کے جانشین کون ہیں ؟تو آپ نے فرمایا جو ہمارے بعد آئیں گے اورہماری سنت واحادیث کو نقل کریں گے ۔اس حدیث سے ولا یت فقیہ کے اثبات میں دو نکتہ پر غور کرنا ضروری ہے ۔

____________________

(۱) اصول کافی ج۱، ص ۶۷(۲) من لا یحضر ہ الفقیہ ج،۴ص ۴۲۰ وسائل الشیعہ ج ،۱۸ ص ۶۵

۲۰۲

الف ) رسول اسلام تین چیزوں کے لئے مبعوث کئے گئے تھے۔

۱۔ آیات الٰہی کی تبلیغ احکام شرعی کی تو ضیح وتفسیر اور لوگو ں کی ہدایت کے لئے۔

۲۔ اختلافات اور تنازع کے وقت قضاوت کے لئے۔

۳۔ حکومت اسلامی کی تشکیل اور اس کی حسن تدبیر یعنی ولایت کے لئے۔

ب) جو رسول کے بعد آئیں گے اور ان کی سنت واحادیث کو بیان کریں گے ان سے مراد فقہاء ہیں ۔راویان ومحدثین مراد نہیں ہیں کیونکہ راویان حدیث فقط حدیث نقل کرتے ہیںاور ان کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ یہ حدیث یاسنت خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہے بھی یانہیں ؟کو ن سی حدیث میں تعارض (ٹکرائو) ہے اور کون سی مخصصّ ہے ان تمام چیزوں کو وہی جانتا ہے جو مقام اجتہاد اور درجہ فقہاہت تک پہنچ چکا ہوتا ہے ان دو نکتوں کی جانب توجہ کرنے کے بعد اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ فقہا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین ہیں اور وہ تمام چیزیں جوپیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے تھیں (جیسے تبلیغ دین ، فیصلہ، حکومت وولایت ) ان کے لئے بھی ہیں ۔

۲۰۳

ولی فقیہ کے شرائط

۱۔اجتہاد وفقاہت: دینی واسلامی حکومت میں سماج ومعاشرہ کی زمامداری اسلامی قوانین کی بنا ء پر ہو تی ہے لہٰذا جو شخص اس منزل و مقام پر ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی قانون کو اچھی طرح جا نتا ہو تاکہ معاشرہ کی رہبری کے وقت اس کے قانو ن کی مخالفت نہ ہو ۔ اور ان قوانین کا علم اجتہاد ی منزل میں ہو نا چاہئے ۔

۲۔ عدالت وتقوی :اگر عالم وفقیہ عدالت وتقوی سے دور ہوگا تواقتدار ومسند نشینی اس کو تباہ کردے گی بلکہ اس بات کا امکا ن ہے کہ ذاتی یاخاندانی منفعت کوسماجی وملی منفعت پر مقدّم کردے۔ولی فقیہ کے لئے پرہیزگا ری،امانتداری،اور عدالت شرط ہے تاکہ لوگ اعتما د اوراطمینا ن کے ساتھ مسند ولایت اس کے حوالے کردیں ۔

۳۔سماجی مصلحت کی شناخت اور اس کی درجہ بندی : یعنی مدیر ومدبر ہو ۔قال علی :''أَیُّها النّاس أِنَّ أحقّ النَّاس بهذا الأمر أقواهم علیه وأعلمهم بأمرِ اللّه فیه'' ( ۱ ) اے لوگو ! حکومت کامستحق وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ شجاع ہو اور احکا م الٰہیہ کا تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہو۔( ۲ )

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۳(۲) ولایت فقیہ کی بحث کو مصباح یزدی ہادوی تہرانی ، کی بحثوں سے اقتباس کیا ہے۔

۲۰۴

سوالات

۱۔ ولایت عربی لغت میں کن معنوں میں مستعمل ہواہے اور ولایت فقیہ سے مرادکون ہیں؟

۲۔ ولایت فقیہ کے لئے عقلی دلیل بیان کریں ؟

۳۔ امام زمانہ کی توقیع مقدس جو فقہاء کے طرف رجو ع کے سلسلہ میں ہے بیان کریں ؟

۴۔ مقبولہ عمر وبن حنظلہ سے کس طرح استدلا ل کیاجا ئے گا ؟

۵۔ حدیث ''اللّھم اِرحم خلفائی'' میں ولی فقیہ کا امتیاز کیاہے ؟

۶۔ولی فقیہ کے شرائط کیا ہیں ؟

۲۰۵

تیسواں سبق

معاد

توحید کے بعد اعتقادی امور میں قیامت سے اہم کوئی مسئلہ نہیں ہے، قرآن میں تقریبا بارہ سو آیتیں صرف معاد کے لئے ہیں ،اس طرح تقریبا ہر صفحہ پر معاد کاتذکرہ ہے اور تیس مقامات پر خداپر ایمان کے بعد اس دوسری دنیا پر ایمان کا تذکرہ ہے جیسے''و یؤمنون باللّہ والیوم الاخر'' خدا اوراس کی حکمت وعدالت اور قدرت پر ایمان ،معاد کے ایمان کے بغیر ناممکن ہے ۔

اعتقاد معاد کے آثار

۱۔معاد پر ایمان واعتقاد انسانی زندگی کوایک مفہوم عطاکرتاہے اوراس دنیا کی کھوکھلی زندگی سے رہائی دلاتا ہے ۔۲۔ معاد کا عقیدہ انسان کوکمال کے راستے پر گامزن کرتاہے اوراسے ادھر ادھر حیران وسرگردان ہو نے سے بچاتا ہے۔ ۳۔ معاد پر ایمان تمام احکام الٰہی کے اجراء کی ضمانت ،حقدار کو ان کا حق ملنے کا سبب اور انسان کو مشکلات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیتا ہے ۔۴۔معاد پر ایمان کا اصلی مقصد پاکیزگی نفس ،احکام شرعی پرعمل پیرا ہونا اورایثار وقربانی ہے ۔۵۔ معاد کا عقیدہ دنیاداری کے اس جڑکو اکھاڑ پھینکتاہے جس پر خطا ومظالم کی بنیاد ہے اوریہ فعل خود تمام گناہو ں سے دوری کا سبب ہے ۔

۲۰۶

خلاصہ کلام یہ کہ معاد پر ایمان کے نتیجہ میں انسان کے اعمال میں بہت زیادہ فرق آجا تا ہے او راس کا گہرا اثر پڑتا ہے، کیونکہ انسان کے اعمال کی بازگشت اس کے اعتقادکی طرف ہوتی ہے دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ ہر انسان کے کردار اوراعتقاد کارابطہ دوسری دنیا سے براہ راست ہوتاہے جوبھی معاد پر اعتقاد رکھتا ہے اپنی اوراپنے اعمال کی اصلاح میں حد سے زیادہ سخت اور حساس ہوتاہے وہ جب بھی کوئی کام کرتاہے اس کا قطعی نتیجہ اپنی آنکھو سے دیکھ لیتاہے اسی لئے وہ ہمیشہ اپنے اعمال پر نظر رکھتاہے ان لوگو ں کے بہ نسبت جو مرنے کے بعد والی زندگی کی طرف توجہ نہیںکرتے، انکی دنیاوی زندگی عبث ،بیکا راور تکراری ہے اگر دنیا کی زندگی کو آخرت پر ایمان رکھے بغیر دیکھیں توبالکل ویسے ہے جیسے وہ بچہ جو بطن مادر میں ہے اور اس کے لئے یہ دنیا نہ ہو تو وہ ایک تاریک قید خانہ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

درحقیقت اگراس دنیا کا اختتام فقط فنا ونابودی ہے توکتناخوفناک اور بھیانک ہے یہاں تک آرام دہ زندگی بھی عبث اور بے فائدہ ہوجائے گی کچھ دن تک سادہ لوح اورناتجربہ کار پھر ہر طرح سے آمادہ کچھ دن غم وآلام کی زندگی پھر پیری وبڑھاپا اورموت ونابودی یہ سب کیامعنی رکھتا ہے تو پھر کس کے لئے زندہ ہیں ؟صرف کھانے لباس زحمات کامقابلہ کرنے کے لئے ؟

۲۰۷

اس تکراری زندگی کو دسیوں سال کھینچنے سے کیا فائدہ؟ کیاواقعاً اتنا وسیع آسمان اور یہ زمین اور یہ حصول علم کی زحمت اور تجربات یہ اساتید اور مربی یہ سب فقط چند دن کی زندگی کے لئے تھے پھر ہمیشہ کے لئے فناونابودی ہے اس جگہ قیامت پر ایمان نہ رکھنے والو ں کے لئے زندگی کاعبث وبیکار ہو ناقطعی ہوجاتاہے لیکن جو لوگ معاد پر اعتقاد رکھتے ہیں دنیاکو آخرت کی کھیتی سمجھتے ہیں اس کسا ن کی مانند ہے جوفصل اس لئے اگا تاہے کہ اس سے ایک مدت تک بلکہ ہمیشہ اپنی زندگی بسر کرئے گا ۔زندگی ایک پل اور صراط مستقیم کی مانند ہے جس پر چل کرانسان ایک مقصد تک پہنچتاہے جیساکہ قرآن نے فرمایا :( وَفیهَا مَا تَشتَهِیهِ الأنفُسُ وَتَلذُّ الأعیُنُ ) ( ۱ ) وہاں ان کے لئے وہ تمام چیزیں ہوںگی جس کی دل میں خواہش ہو اور جو آنکھوں کوبھلی معلوم ہوتی ہو اورتم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو اس دنیا جیسی با عظمت( ''لاعینُ رأت ولا أذنُ سَمِعت'' نہ آج تک کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا او رنہ کسی کا ن نے سنا ہو گا ) مقام کوپانے کے لئے سختیاں آسان، کوششیں شیریں ہوجاتی ہیں مشکلا ت کو برداشت کرنا اور سختیوں کوتحمل کرنا بہت آسان لگتا ہے کیو نکہ اس کے نتیجہ میں ہمیشہ رہنے والا آرام وآسائش ہے قیامت پر ایمان رکھنے کا پہلا فائدہ بامقصد ہونا ہے کیونکہ قیامت پر اعتقاد رکھنے والوں کی نظر میں موت فناونابودی کانام نہیں بلکہ ایک ابدی زندگی کے لئے ایک روشن دان کی مانند ہے۔

____________________

(۱)سورہ زخرف آیة: ۷۱

۲۰۸

قیامت پر ایمان رکھنے کا فائدہ قرآن کی نظرمیں

قیامت پر ایمان انسان کی تربیت کا اہم سبب ،اچھے کام انجام دینے اورمعاشرہ کی خدمت کرنے کامحرّک نیز گناہو ں سے روکنے کاایک مضبوط ذریعہ ہے قرآن میں اہم تربیتی مسئلہ کو اسی راستہ سے پیش کیاگیا ہے جیساکہ بعض آیات میں ہے کہ نہ تنہا قیامت پرایمان اور اعتقاد بلکہ ظن واحتمال بھی مثبت آثار کا باعث ہے ۔

۱۔( ألا یَظُنُّ أُولئِک أَنَّهُم مَبعُوثُونَ لِیوم ٍعَظیمٍ یَومَ یَقُومُ النَّاسُ لرِبِّ العَالَمینَ ) ( ۱ ) کیا انہیں یہ خیال نہیں کہ یہ ایک روز دوبارہ اٹھائے جا نے والے ہیں بڑے سخت دن کہ جس دن سب رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہوںگے ۔

۲ ۔دوسری آیت میں اشارہ ہو ا ہے کہ صرف اس دوسری دنیا کی امید وتوقع ہی گناہو ں سے روکنے اورعمل صالح کرنے کے لئے کافی ہے( فَمَنْ کَانَ یَرجوا لِقَائَ رَبّهِ فَلیَعمَلْ عَمَلاً صَالحاً وَلا یُشرِک بِعبادَةِ رَبِّه أَحداً ) ''لہٰذا جو بھی اس کی ملا قات کاامید وار ہے اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اور کسی کو اپنے پرور دگار کی عبا دت میں شریک نہ بنا ئے''۔( ۲ )

۳۔ قرآن کا صریحی اعلان ہے کہ انسان کے افعال وکردار ابدیت کا لبا س پہن لیتے ہیں اورقیامت میں اس سے الگ نہیں ہو ں گے( یَومَ تَجدُ کُلَّ نَفَسٍ )

____________________

(۱)سو رہ مطففین آیة:۴تا۶

(۲) سورہ کھف آخری آیت

۲۰۹

( مَا عَمِلت مِنْ خَیرٍ مُحضَراً وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوئٍ تَودُّ لوأَنَّ بَینَها وَبَینَهُ أَمَداً بَعیدا ) ( ۱ ) ''اس دن کو یاد کرو جب انسان اپنے اعمال نیک کو بھی حاضر پائے گا اور اعمال بد کو بھی جن کو دیکھ کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش ہمارے او ران برے اعمال کے درمیان طویل فاصلہ ہوجاتا'' ۔

۴۔قیامت کا معتقد کسی اچھے یابرے کام کو چھو ٹا نہیں سمجھتا ہے کیو نکہ قرآن کے مطابق چھوٹی چیز کابھی حساب ہوگا( فَمَنْ یَعمَلْ مِثقَالَ ذَرةٍ خَیراً یَرَهُ وَمَنْ یَعمَل مِثقالَ ذَرةٍ شَراً یَرَهُ ) ( ۲ ) پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ بھی اسے دیکھے گا ۔

ایک شخص مسجد نبوی میں آیا اورکہنے لگا یا رسول اللہ! ہمیں قرآن کی تعلیم دیں پیغمبر نے ایک صحابی کے حوالے کردیا تاکہ وہ اس کو قرآن کی تعلیم دے وہ مسجد کے کونے میں بیٹھ کراسی دن قرآن سیکھنے لگا ،معلم نے سورہ زلزال پڑھانا شروع کیا جب اس آیت پر پہنچا تو اس آدمی نے رک کر تھوڑا سونچا اورپوچھتا ہے کیایہ وحی ہے؟ معلم نے کہا ہاں؛ اس نے کہا بس کیجئے ہم نے اس آیت سے سبق سیکھ لیا جب ہمارے ہر چھوٹے بڑے اچھے برے اعمال کاحساب ہوگا تواب ہم کو اپنی ذمہ داریوں کا علم ہوگیا یہی جملہ ہماری زندگی کی کا یا پلٹنے کے لئے کافی ہے اس نے خدا حافظی کی اور چلا گیا۔ معلم،رسول کے پاس آیا ساراواقعہ بیان کیا ،حضرت نے فرمایا : ''رجع فقیھاً''گو کہ وہ چلا گیا مگر سب کچھ سمجھ کرگیا ہے ۔

____________________

(۱)سورۂ آل عمران ۳۰

(۲) سورہ زلزال آخری آیة

۲۱۰

قیامت کامعتقد خدا کی راہ میں تمام سختیاں اورمشکلات برداشت کرتاہے اور اخروی زندگی کی خاطر اس دنیوی زندگی کو خیر باد کہہ دیتا ہے جیساکہ جادوگر وں نے جب موسی کے معجزہ کو دیکھا او رسمجھ گئے کہ یہ خدا کی جا نب سے ہے تو سب ان کی رسالت پرایمان لے آئے فرعون نے کہا ہم سب کے ہا تھ پیر کاٹ دیں گے اور سولی پرلٹکا دیں گے ان لوگوں نے جواب میں کہا( فَاقضِ مَاأنتَ قَاضٍ اِنَّما تَقضِ هَذِهِ الحَیاة الدُّنیا اِنَّا أَمنَّا بِرَبِّنَا لِیَغفرَ لَنَا خَطایَانَا وَمَا أکرَهتَنا عَلیهِ مِنَ السِّحرِ وَاللَّه خَیر وَأبقَیٰ ) ( ۱ ) ''اب تجھے جو فیصلہ کرناہے کرلے تو فقط زندگا نی دنیا ہی تک کا فیصلہ کرسکتاہے ہم اپنے پرور دگا ر پر ایما ن لے آئے ہیںکہ وہ ہماری خطائو ں کو معاف کردے اور اس جادو کو بخش دے جس پر تونے ہمیں مجبور کیاتھا اوراللہ سب سے بہتر اوروہی باقی رہنے والاہے ۔

____________________

(۱)سورہ طہ آیة :۷۲تا۷۳

۲۱۱

سوالات

۱۔ قیامت پر ایما ن رکھنے کے فوائد بیان کریں ؟

۲۔ جو قیامت کا معتقد نہیں ہے اس کی زندگی کیسی ہے ؟

۳۔ قیامت پرایمان رکھنے کافائدہ بطور خلا صہ بیان کریں ؟

۲۱۲

اکتیسواں سبق

اثبات قیامت پر قرآنی دلیلیں

پہلی خلقت کی جانب یاد دہانی

( وَهوُ الّّذیِ یَبدؤُا الخَلَق ثُمَّ یُعیدُهُ وَهُوَ أَهوَنُ عَلِیه ) ( ۱ ) ''اور وہی وہ ہے جو خلقت کی ابتدا ء کرتاہے اور پھر دوبارہ بھی پیدا کرے گا اوریہ کام اس کے لئے بے حد آسان ہے''( کَما بدأَ کُم تَعُودُونَ ) ( ۲ ) اس نے جس طرح تمہاری ابتداء کی ہے اسی طرح تم پلٹ کر بھی جائو گے( وَیَقولُ الأِنسانُ ذا مَا مِتُّ لسَوفَ اخرج حیّاً أولا یَذکُر الأِنسانُ اِنّاخَلقَناهُ مِنْ قَبلُ وَلَمْ یَکُ شَیئاً ) ( ۳ ) اور یہ انسان کہتا ہے کہ کیا ہم جب مرجائیں گے تو دوبارہ زندہ کرکے نکالے جائیںگے کیاوہ اس بات کو یاد نہیں کرتا ہے کہ پہلے ہم نے اسے خلق کیاہے جب یہ کچھ نہیں تھا( فَسیقُولُونَ مَنْ یُعیدُنَا قُل الَّذِی فَطَرَکُم أَوّلَ مَرَةٍ ) ( ۴ ) عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ ہم کو کون دوبارہ واپس لاسکتاہے توکہہ دیجئے جس نے تمہیں پہلی بار پیداکیا ہے ۔

____________________

(۱) سورہ روم، آیة:۲۷

(۲)سورہ اعراف ،آیة:۲۹

(۳) سورہ مریم آیة :۶۶۔۶۷

(۴) سورہ اسراء آیة:۵۱

۲۱۳

ایک صحرای عرب کو ایک انسان کی بوسیدہ ہڈی کاکوئی ٹکڑا ملا وہ اس کو لے کر دوڑتاہو ا شہر کی جانب آیا اور پیغمبر کو تلاش کرتا ہو ا حاضر خدمت ہوااور چیخ کرکہتا ہے کون اس پرانی ہڈی کودوبارہ زندہ کرے گا ؟۔

ارشاد ہو ا:( قُلْ یُحییهَاالَّذِی أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَة وَهُوَبِکُلِّ خَلقٍ عَلِیمُ ) ( ۱ ) ''آپ کہہ دیجئے جس نے پہلے خلق کیاہے وہی زندہ بھی کرے گا اوروہ ہر مخلوق کا بہتر جاننے والا ہے'' ۔

مذکورہ اور ان جیسی آیات کے پیش نظر انسانوں کو تخلیق کی ابتداء کی طرف توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانو ں کو دوبارہ پلٹانا خداکے لئے بہت آسان ہے یعنی قادر المطلق خداکے لئے یہ ساری چیزیں بہت آسان ہے (تخلیق کی ابتدا ء اور دوبارہ قیامت میں واپس پلٹانا ایک ہی چیز ہے ۔

قیامت اورخداکی قدرت مطلقہ

خدا کی قدرت: خدا کی ایک صفت قادرمطلق ہونا ہے جوتوحید کے بحث میں گزر چکی ہے یہ وسیع آسمان یہ کہکشاں ،منظومہ کثیر اور عظیم کواکب ،مختلف النوع مخلوقات یہ سب کے سب اس کے قادر مطلق ہونے پر دلالت کرتے ہیں ان سب کومان لینے کے بعد سوال کا کوئی مقام نہیں رہتا کہ انسان کیسے دوبارہ زندہ ہوگا( أَوَلَمْ یَرَوا أَنَّ اللَّهَ الَّذِِ خَلَقَ السَّمواتِ وَالأَرضَ وَلَمْ یَعیِ بِخَلقهِنَّ )

____________________

(۱)سورہ یس آیة ۔۷۹

۲۱۴

( بِقَادرٍ علیٰ أَن یُحیالمَوتیٰ بَلیٰ اِنَّهُ علیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدِیر ) ( ۱ ) ''کیا انھوں نے نہیں دیکھا جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اوروہ ان کی تخلیق سے عاجز نہیں تھا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے کہ یقینا وہ ہر شی ٔ پر قدرت رکھنے والاہے ''( أَوَ لَیسَ الَّذِ خَلَقَ السَّمٰواتِ والأَرضَ بِقَادِرٍ علیٰ أَنْ یَخلُقَ مِثلَهُم بَلیٰ وَهُوَ الخَلَّاقُ العَلِیمُ ) ( ۲ ) ''تو کیا جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا و ہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان کا مثل دوبارہ پیداکر ے یقینا ہے ا ور وہ بہترین پیدا کرنے والااو رجاننے والا ہے ''۔( أَیَحسَبُ الِانسانُ أَنْ لَنْ نَجمَعَ عِظَاَمهُ بَلیٰ قَادرِینَ علیٰ أن نُسوِّ بَنَانهُ ) ( ۳ ) کیا انسان یہ خیال کرتاہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کوجمع نہیں کرسکیں گے یقینا ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کے انگلیوں کے پور تک درست کردیں۔( أَیَحسبُ الأِنسانُ أَنْ یُترَک سُدیً أَلَمْ یَک نُطفةً مِنْ مَنِیٍ یُمنیٰ ثُمَّ کَانَ عَلَقةً فَخَلقَ فَسویٰ فَجَعلَ مِنهُ الزَّوجَینِ الذَّکَرَ وَالأُنثیٰ أَلیسَ ذَلِکَ بِقَادرٍ عَلیٰ أَن یُحی المَوتَی ) ٰ)( ۴ ) ''کیا انسان کا خیال ہے کہ اسے اسطرح آزاد چھوڑ دیاجا ئے گا کیا وہ اس منی کاقطرہ نہیں تھا جسے رحم میں ڈالا جاتاہے پھر علقہ بنا پھر اس کو خلق کرکے برابر کیا پھر اس سے عورت اورمرد کوجوڑا تیار کیا ۔کیا وہ خدا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرسکے'' ۔( قُل سِیرُوا فیِ الأَرضِ فَانُظُروا کَیفَ بَدأ )

____________________

(۱) احقاف آیہ: ۳۳

(۲) یس آیة: ۸۱

(۳) قیامت آیة :۳۔۴

(۴) قیامت آیة:۴۰۔۳۶

۲۱۵

( الخَلَقَ ثُمَّ اللَّهُ ینُشُ النَّشأَةَ الأَخرِةَ أِنَّ اللَّه عَلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدِیرُ ) ( ۱ )

''آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ زمین پر سیر کرو اور دیکھو کہ خدا نے کس طرح خلقت کا آغاز کیاہے اس کے بعد وہی آخرت میں دوبارہ ایجاد کرے گا بیشک وہی ہر چیز پر قدرت رکھنے والاہے'' ۔

مسئلۂ قیامت اوردلیل عدالت

قیامت اور خدا کی عدالت : خداکے حکم کے مقابلہ میں دوطرح کے لوگ ہیں کچھ اس کے مطیع اور فرمانبردار کچھ عاصی اور گنہگا ر ۔

اس طرح کچھ لوگ ظالم ہیں کچھ مظلوم ( جو سختی کی زندگی گذاررہے ہیں ) کچھ زندگی کی ہر آسائش وآرام سے لطف اندوز ہو رہے ہیں کچھ ایسے ہیں جو فقروفاقہ اور تنگ دستی کی زندگی گذاررہے ہیں ۔

لہٰذاخدا کی قدرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس دنیا کے بعد قیامت اور حساب وکتاب ہو تاکہ ان مسائل کی مکمل تحقیق ہوسکے ۔( أمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجتَرحُوا السَّیئَاتِ أَنْ نَجعَلهُم کالَّذِینَ آمنُوا وَعَملوا الصَّالِحاتِ سَوَائً مَحیَاهُم وَمَمَاتُهُم سَائَ مَا یَحکُمُونَ وَخَلَقَ اللََهُ السَّمواتِ والأَرضَ بِالحقِّ وَلتُجزَیٰ کُّلُّ نَفسٍ بِما کَسَبت وَهُمْ لاَ یُظلَمُونَ ) ( ۲ ) '' کیا برائی اختیار کرنے والوں نے یہ سونچ لیا ہے کہ ہم ان کو ایمان لانے والوں اورنیک کام

____________________

(۱)سورہ عنکبوت آیة:۲۰

(۲)جاثیہ: ۲۱۔۲۲

۲۱۶

انجام دینے والوں کے برابر قرار دیں گے سب کی موت وحیات ایک جیسی ہو گی یہ ان لوگوں نے نہایت بدترین فیصلہ کیا ہے اور اللہ نے زمین وآسمان کوحق کے ساتھ پیداکیا ہے اور اس لئے بھی کہ ہر نفس کو اس کے اعمال کا بدلہ دیاجاسکے اوریہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا ''( أفَمَن کَانَ مُؤمِناً کَمَنْ کَا نَ فَاسِقاً لَا یَستوُونَ ) ( ۱ ) '' کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہوجا ئے گا جوفاسق ہے ہر گز نہیں ،دونو ں برابر نہیں ہوسکتے''( أَفَنجَعلُ المُسلمِین کالمُجرِمِینَ مَالکُم کَیفَ تَحکُمُونَ ) ( ۲ ) ''کیا ہم اطاعت گزاروں کو مجرموں جیسا بنادیں تمہیں کیا ہوگیاہے تم کیسا فیصلہ کر رہے ہو'' ۔( اَم نَجعَلُ الَّذینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالحِاتِ کالمُفسِدِینَ فیِ الأَرضِ أَم نَجعَلُ المُتَّقِینَ کَالفُجَّار ) ( ۳ ) '' کیا ہم ایما ن لانے والے اورنیک عمل کرنے والوں کو زمین میں فساد برپا کرنے والو ں جیسا قرار دیدیںگے یا صاحبان تقوی کوفاسق وفاجر جیسا قرار دیدیں گے''( ؟! ( اِلَیهِ مَرجِعُکُم جَمیعاً وَعدَ اللَّهِ حَقَّاً اِنَّهُ یَبدؤا الخَلَق ثُمَّ یُعیدُهُ لِیَجزِِ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالقسطِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا لَهُم شَرابُ مِنْ حَمِیمٍ وَعَذَابُ ألِیمُ بِمَا کَانُوا یَکفُرُونَ ) ( ۴ ) اس کی طرف تم سب کی

____________________

(۱) سورہ سجدہ آیة:۱۸

(۲) قلم :۳۵،۳۶

(۳) سورہ ص: ۲۸

(۴) سورہ یونس آیة: ۴

۲۱۷

بازگشت ہے یہ خدا کا سچاوعدہ ہے وہی خلقت کا آغاز کرنے والا ہے اور واپس لے جانے والاہے تاکہ ایمان اورنیک اعمال کو عادلا نہ جزا دے سکے اورجو کافر ہو گئے ان کے لئے تو گرم پانی کامشروب ہے اور ان کے کفر کے بنا پر درد ناک عذاب

بھی ہے۔

سوالات

۱۔ پہلی خلقت قیامت پر کس طرح دلیل ہے ؟

۲۔خدا کی قدرت قیامت کے لئے کس طرح دلیل ہے ایک آیت پیش کریں ؟

۳۔ دلیل عدالت ،قیامت کو کس طرح ثابت کرتی ہے ؟

۲۱۸

بتیسواں سبق

معاد اور فلسفہء خلقت

قرآن کی تقریباًسو آیتوںمیں خدا کو لفظ حکیم سے یاد کیا گیا ہے ۔اور ہم اس کی حکمت کی نشانیوں کودنیابھر میں دیکھتے ہیں ۔اگر ہم فرض کریں کہ موت زندگی کے خاتمہ کانام ہے اورمرنے کے بعد قیامت نہیں ہے تو خلقت بیکار وعبث ہو جا ئے گی اور حکیم خداکبھی بھی بیکار کام انجام نہیں دیتا ،کیا کوئی سونچ سکتاہے کہ وہ تمام حکمتیں جوخدا نے دنیا کی خلقت کے لئے قرار دی ہیں و ہ سب عبث ہیں اور اس دنیا کا اختتام فنا ونا بودی ہے؟ کیایہ یقین کرنے کے قابل ہے کہ خدا اس دنیا کے دستر خوان کوبچھائے اور دنیا کی تما م ضروریا ت زندگی کو مہیا کرے اور اس کے بعد موت کی وجہ سے یہ ساری چیزیں ختم ہوجائیں اور یہ دنیا کابچھا ہو ا دستر خوان سمٹ جا ئے( رَبَّنَا مَاخَلقَتَ هذا بَاطِلاً ) ( ۱ ) خد ایا! تونے اس کا ئنات کو بیکا ر وعبث خلق نہیں کیا ہے ۔

لہٰذا حکیم وعلیم خدا پرایمان رکھنا موت کے بعد کی زندگی پر ایمان رکھنے کے برابر ہے یعنی اگرکو ئی وحدانیت کاقائل ہے تو ضروری ہے کہ وہ قیامت پر بھی ایمان

____________________

(۱) آل عمران ۱۹۱

۲۱۹

رکھتا ہو اس سلسلہ میں بہت ساری آیتیں ہیں جن میں سے بعض کو بطور نمونہ پیش کررہے ہیں ۔

( أَفَحَسِبتُم اِنَّمَا خَلَقنَاکُم عَبَثاً وَأَنَّکُم اِلَینا لَا تُرجعُونَ ) ''کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہم نے تمہیں بیکار خلق کیاہے اورتم ہماری طرف پلٹ کرنہیں آئوگے''۔( ۱ ) ( وَمَاخَلقَنا السَّمائَ وَالأرَضَ وَمَا بَینَهُمَا بَاطِلاً ذلِک ظَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا فَوَیل لِلّذِینَ کَفَرُواْ مِنَ النّارِ ) ''میں نے آسمان وزمین اوراس کے درمیان کی چیزوںکو بیکا ر خلق نہیں کیاہے یہ ان لوگوں کا گمان ہے جو کا فر ہوگئے ہیں پس کافروں کے واسطے جہنم کی آگ ہے''۔( ۲ ) ( وَمَا خَلَقَنا السَّمَواتِ وَالأَرضَ وَمَا بَینَهُما اِلّا بِالَحقِّ واِنَّ السَّاعَة لآتِیَةُ فَاصفَح الصَّفَح الجَمِیلَ ) ''میں نے آسمان وزمین او ر اس کے درمیان کی چیزوں کو خلق نہیں کیا مگر حق پر اور قیا مت یقینی ہے''۔( ۳ ) ( أَیَحسَبُ الأَِنسانُ أَنْ یُترک سُدیً أَلَم یَکُ نُطفَةً مِنْ مَنٍِ یُمنیٰ ثُمَّ کَانَ عَلَقةً فَخَلقَ فَسوَّیٰ فَجَعلَ مِنهُ الزَّوجِین الذَّکَرَ وَالأُنثیٰ أَلَیسَ ذَلِک بِقادرٍ علیٰ أَن یُحیَی المَوتی ) ٰ)( ۴ ) '' کیاانسان کاخیال ہے کہ اسے اس طرح آزاد چھو ڑ دیا جائے گا؟ کیا وہ اس منی کا قطرہ نہیں تھا جسے رحم میں ڈالا جاتاہے ۔پھر علقہ بناپھر اس کو خلق کر کے برابر کیاپھر اس سے عورت اور مرد کاجوڑا تیار کیا ۔کیا وہ خدا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرسکے۔؟

____________________

(۱) مومنون آیة: ۱۵ ۱

(۲) سورہ ص آیة: ۲۷

(۳) سو رہ حجر آیة: ۸۵

(۴) سورہ قیامت آیة: ۳۶۔۴۰

۲۲۰