اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )0%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف: شیخ علی اصغر قائمی
زمرہ جات:

صفحے: 303
مشاہدے: 148487
ڈاؤنلوڈ: 3719

تبصرے:

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148487 / ڈاؤنلوڈ: 3719
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

برزخ میں کافروں پر عذاب

( النَّارُ یَعرِضُونَ عَلیها غُدُوّاً وَعَشِیّاً وَیَومَ تَقَومُ السَّاعَة أَدخِلُوا آلَ فِرعَون أَشَدَ العَذَابِ ) ہر صبح وشام آگ انہیں پیش کی جاتی ہے اور جب قیامت آئے گی اس وقت حکم دیا جائے گا کہ آل فرعون کو سخت ترین عذاب سے گذارا جائے۔( ۱ )

امام صادق سے روایت ہے کہ دنیا میں آل فرعون ہر صبح وشام آگ کے سامنے پیش کئے جا ئیں گے لیکن قیامت میں (یوم تقوم الساعة)ہے( ۲ ) آیت نے واضح طور پر عذاب کو دوحصوں میں آل فرعون کے لئے تقسیم کیاہے۔

۱۔برزخ میں صبح وشام آگ۔۲۔ قیامت میں سخت ترین عذاب۔

قبر دوسری دنیا کی پہلی منزل

سوال قبر :

جب انسان کو قبر میں رکھ دیا جائے گا اور خدا کے دوفرشتے جنہیں نکیر ومنکر یا ناکر ونکیر کہا جاتا ہے اس کے پاس آئیں گے اوراس سے خد اکی وحدانیت ،نبوت ، وولایت اور نماز وغیرہ کے بارے میں سوال کریںگے ۔

عن أب عبداللّه قال:'' مَن أَنکَر ثلا ثة أشیاء فلیس من شیعتنا المعراج والمسألة فی القبر و الشفاعة''

____________________

(۱)غافر آیة :۴۶

(۲) بحا رالانوار ج۶، ص ۲۸۵

۲۴۱

امام صادق نے فرمایا جو شخص تین چیز کامنکرہے وہ میرا شیعہ نہیں ہے معراج رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، قبر میں سوال اور شفاعت۔

امام زین العابدین ہرجمعہ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسجد میں لوگوں کو نصیحت کرتے تھے لوگ اسے حفظ بھی کرتے تھے او رتحریر بھی کرتے تھے ،امام فرماتے ہیں :

أیُّها النَّاس اتقوا اللّه واعلموا أنَّکم الیه تُرجعون فتجد کُلِّ نفس ما عملت فی هذه الدنیا من خیر محضراً وما عملت من سوء تودُّ لو أَنَّ بینها و بینه أمداً بعیداً و یحذّرکم اللّه نفسه و یحک ابن آدم الغافل و لیس بمغفول عنه ابن آدم أَنَّ أَجلک أسرع شیئٍ اِلیک قد أَقبل نحوکَ حثیثاً یطلبکَ و یوشکَ أنَّ یدرککَ وکان قد أَوفیت أجلکَ و قبض الملکَ روحکَ وصرت اِلیٰ منزل وحیداً فردَّ اِلیکَ فیه روحکَ واقتحم علیکَ فیه ملکا کَمنکر ونکیر لمسئلتکَ وشدید امتحانکَ أَلا وأَنَّ أوّل مایسئلا نکَ عن رَبِّکَ الّذِی کنت تعبده وعن نبیّک الذی أرسل اِلیکَ وعن دینکَ الّذِی کنت تدین به وعن کتابکَ الذِی کنت تتلوه وعن اِمامکَ الذی کنت تتولاه ثم عن عمرکَ فیما أَفنیته و مالکَ من أَین اکتسبته؟وفیما أتلفته فخذ حذرکَ و انذر لنفسکَ واعد للجواب قبل الامتحان والمسألة والاختبار''

اے لوگو ! تقوی الٰہی اختیار کرو او ریہ جان لو کہ اسی کی طرف پلٹ کے جا نا ہے اب جس نے اس دنیا میں نیک کام انجام دیا وہ اس کا صلہ پائے گا ۔اسی طرح برائیاں بھی ہیں کہ جس کے لئے تمنا کرے گا اے کا ش! میرے او ران گناہو ں کے درمیان ایک لمبا فاصلہ ہوتا ۔اور خدا آپ کو ڈرا رہا ہے کہ اے غافل انسان تجھ سے غفلت نہیں برتی گئی ہے ۔

۲۴۲

اے فرزند آدم موت تجھ سے سب سے زیادہ قریب ہے اور عنقریب وہ تجھے اپنی آغوش میں لے لیگی گویا موت آچکی ہے او رفرشتہ نے تمہاری روح کو قبض کرلیا ہے او رتم ایک گوشہ تنہائی میں داخل ہو گئے ہو اور تمہاری روح پلٹا دی گئی ہے اور نکیر ومنکر تمہارے سوال او رسخت امتحا ن کے لئے حاضر ہوگئے ہیں جاگ جائو سب سے پہلا سوال جو تم سے کیا جائے گا ،اس خد اکے سلسلہ میں ہو گا جس کی تم عبادت کرتے تھے اور اس پیغمبر کے بارے میں پوچھا جائے گا جو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا اس دین کے بارے میں ہوگا جس کے تم معتقدتھے او راس قرآن کے بارے میں ہوگا جس کی تم تلا و ت کرتے تھے او راس امام کے بارے میں جس کی ولا یت کو تم نے مانا تھاپھر تمہاری عمرکے سلسلہ میں سوا ل ہوگا کہ کس چیز میں گذاری اور مال کے بارے میں کہ تم نے اسے کہاں سے حاصل کیا اورکہا ں خرچ کیا ؟لہٰذا احتیاط کا دامن نہ چھوڑو اور اپنے سلسلہ میں سوچو ،امتحان اور سوالات سے پہلے اپنے کو تیار رکھو ۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ،۶ ص ۳۲۲

۲۴۳

سوالات

۱۔ انسا ن موت کے وقت کس چیز کا مشاہدہ کرے گا ؟

۲۔ ہر شخص ولا دت کے بعد کتنے مراحل طے کرتاہے ؟

۳۔ برزخ کیا ہے اور کس مرحلے کانام ہے ؟

۴۔ قرآن برزخ کے لئے کیا فرماتا ہے آیت لکھیں ؟

۲۴۴

چھتیسواں سبق

صور کا پھونکنا ،اور نامۂ اعمال

اس دنیا کا اختتام اور دوسری دنیا کا آغاز ایک قیامت خیز چیخ کے ساتھ ہوگا قرآن کی بہت سی آیتوں میں صور پھونکنے کی طرف اشارہ ہے ان تمام آیتوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دوبارصورپھونکا جائے گا۔

۱۔اس دنیا کے خاتمہ کے وقت جس سے تما م مخلوق خدا فنا ہوجا ئے گی یہ صورموت ہے ۔

۲۔ قیامت کے وقت جب تمام مخلو ق کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اوریہ صور قیامت ہے ان دواہم واقعہ کو قرآن نے مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے'' نفخ صور'' صیحہ' نقر در ناقور'' '' صاخہ''،''قارعہ'' ''زجرة''۔( وَنُفِخَ فیِ الصُّورِ فَصُعِقَ مَن فِی السَّمواتِ وَمَن فِی الأَرض اِلا مَن شاء اللَّه ثُمَّ نُفِخَ فیهِ أُخَریٰ فاِذاهُم قِیَامُ یَنظُرونَ ) ''اور جب صور پھو نکا جائے گا اس وقت تمام مخلوق جو آسمان و زمین میں ہیں سب کے سب فنا ہوجائیں گے مگرصرف وہ لوگ بچیں گے جنہیں خدا چاہے گا پھر دوبارہ صور پھونکا جائیگا کہ اچانک سبھی اٹھ کھڑے ہو نگے اورحساب اور جزاء کے منتظر ہوںگے ''۔

سورۂ یس کی ۵۳ آیت میں اس واقعہ کو''صیحہ ''چنگھا ڑ کے نام سے یاد کیاگیاہے ۔

( اِنّ کَانَت اِلَّا صَیحَةً وَاحِدةً فاِذَا هُم جَمِیعُ لدَینا مُحضَرُونَ ) یس:۵۳) قیامت توصرف ایک چنگھاڑ ہے اس کے بعد سب ہماری بارگا ہ میں حاضر کردئے جائیں گے او رسورہ مدثر کی آیت ۸ میں نقر وناقور کے نام سے جانا جاتاہے( فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُورِ فَذلِک یَومَئذٍ یَوم عَسیر ) پھر جب صور پھونکا جائے گا تو وہ دن انتہائی مشکل دن ہوگا اور سورہ عبس کی آیة ۳۳ میں( فاِذَا جاء ت الصَّاخَةُ ) پھر جب کان کے پردے پھاڑ نے والی قیامت آجا ئے گی ۔

اور سورہ قارعة کی ایک سے تین تک کی آیتوں میں اس اہم واقعہ کو قارعہ سے یاد کیا ہے۔( القَارِعَةُ مَا القَارِعةُ وَمَا أدرَاک مَا القَارِعَةُ ) کھڑکھڑانے والی اور کیسی کھڑکھڑانے والی اورتمہیں کیامعلوم کہ وہ کیسے کھڑکھڑانے والی ہے اور سورہ صافات کی آیة ۱۹میں زجر کے نام سے یاد کیاگیاہے( فَاِنّما هِیَ زَجَرَةُ وَاحِدةُ فَاِذَا هُم یَنظُرُونَ ) یہ قیامت تو صرف ایک للکا ر ہوگی جس کے بعد سب دیکھنے لگیں گے ان تمام آیات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس دنیا کا خاتمہ اور دوسری دنیا کا آغاز اچانک اور ایک چنگھا ڑ ''صیحہ '' کے ذریعہ ہوگا یہ تمام عنوان جو ذکر کئے گئے ہیں

۲۴۵

یہ سب کنایہ ہیں نفخ چاہے پھونکنے کے معنی میں ہو یا صورکے البتہ یہ بات ظاہر ہے کہ یہ واقعہ سخت ہوگا او رصور کا پھونکا جانا عام طرح سے نہیں ہوگا بلکہ ایک سخت دن ہوگا اور عجیب طریقہ کی چنگھاڑ ہوگی جس سے ایک سکنڈ میں تمام زمین او رآسمان والے نابو د ہو جا ئیں گے خدااپنے دوسرے حکم سے قیام قیامت کی خاطر سب کو دوبارہ زندہ کرے گا ان دو حکم کے درمیان کا فاصلہ ہمیں معلوم نہیں ۔

صحیفہ یانامۂ اعمال

قرآن او راحادیث معصومین علیہم السلام میں نامہ اعمال کے متعلق بہت طویل بحث ہے ایسانامہ اعمال جس میں انسان کے تمام اعمال ثبت ہو ں گے اور قیامت کے دن ظاہر ہوں گے ۔

۱۔ اعمال کا ثبت ہونا:( وَنَکتُبُ مَا قَدَّموا وَآثَارهم وکُلَّ شَیئٍ أَحصَینَاهُ فِی اِمامٍ مُبینٍ ) اور ہم ان گزشتہ اعمال اور ان کے آثار کو لکھتے جاتے ہیں اورہم نے ہر شی ٔ کو ایک روشن امام میں جمع کردیاہے۔( ۱ ) ( وَکُلّ شَیئٍ فَعَلُوهُ فِی الزُّبُرِ وَکُلُّ صَغِیرٍ وَکَبیرٍ مُستَطرُ ) اور ان لوگو ں نے جو کچھ بھی کیا ہے سب نامۂ اعمال میں محفوظ ہے اور ہر چھوٹا اور بڑا عمل اس میں درج کردیاگیا ہے۔( ۲ ) ( اِنَّ رُسُلُنا یَکتُبُونَ مَا تَمکُروَن ) اور ہمارے نمایندہ تمہا رے مکر کو برابر لکھ رہے ہیں۔( ۳ ) ( أَم یَحسَبُونَ أِنَّا لَا نَسمعُ سِرَّهمُ و نَجوٰهم بَلیٰ وَ رُسُلَنَا لَدیهِم یَکتبُونَ ) یا ان کاخیال ہے کہ ہم ان کے راز اور خفیہ باتوں کو نہیں سن سکتے ہیں تم ہم کیا ہمارے نمایندہ سب کچھ لکھ رہے ہیں۔( ۴ )

( فَمَنْ یَعمَل مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤمِنُ فلا کُفرانَ لِسَعیهِ وَاِنَّا لَهُ

____________________

(۱)سورہ یس آیة: ۱۲

(۲) سورہ قمر آیة: ۵۲۔۵۳

(۳) سورہ یونس آیة: ۲۱

(۴) سورہ زخرف آیة: ۸۰

۲۴۶

کَاتِبُونَ ) پھر جوشخص صاحب ایما ن رہ کر عمل کرے گا اس کی کوشش برباد نہ ہوگی اورہم اس کی کوشش کوبرابر لکھ رہے ہیں۔( ۱ )

اعمال کا ظاہر ہونا :( وَاِذَا الصُحُفُ نُشِرَت عَلِمَت نَفسُ مَا أَحَضَرت ) اورجب نامۂ اعمال منتشر کر دئے جائیں گے تب ہر نفس کومعلوم ہوگا کہ اس نے کیا حاضرکیا ہے۔( ۲ ) ( بَل بَداَ لَهُم مَا کَا نُوا یُخفُونَ مِن قَبلُ ) بلکہ ان کے لئے وہ سب واضح ہوگیا جسے پہلے سے چھپا رہے تھے۔( ۳ ) ( یُنبَّوا الأِنسَانُ یَومئِذٍ بِمَا قَدَّمَ و اخَّرَ ) اس دن انسان کو بتایا جائے گا کہ اس نے پہلے اور بعد کیاکیا اعمال کئے ہیں۔( ۴ ) ( وَکُلَّ اِنسانٍ ألزمنَاهُ طَائِرهُ فِی عُنُقهِ وَنُخرِجُ لَهُ یَومَ القِیَامَةِ کِتَاباً یَلقیٰهُ مَنشُوراً ) ( ۵ ) اور ہم نے ہر انسان کے نامہ اعمال کو اس کی گردن میں آویزان کردیا ہے اور روز قیامت اسے ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح پیش کردیں گے( وَوُضِعَ الکِتَابُ فَتَریٰ المُجرمِینَ مُشفِقِینَ مِمَّا فِیهِ وَیَقُولُونَ یا وَیلَتَنَا مَالِ هَذا الکِتَابِ لَا یُغَادِرُ صَغِیرَةً وَلَاکَبِیرَةً اِلاَّ أَحصیٰها وَ وجدُوا مَا عَمِلوا حَاضِراً وَلاَ یَظلِمُ رَبُّکَ أَحَداً ) اور جب نامہ اعمال سامنے رکھا جائے گا تودیکھو گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر خوفزدہ ہوں گے اورکہیں گے ہا ئے افسوس اس کتاب نے چھوٹا بڑا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کرلیا ہے اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے اور تمہارا پرور دگار

____________________

(۱) سورہ انبیاء آیة: ۹۴

(۲) تکویر آیة: ۱۰۔۱۴

(۳) سورہ انعام آیة: ۲۸

(۴) سورہ قیامت آیة: ۱۳

(۵)سورہ اسراء آیت۱۳

۲۴۷

کسی ایک پربھی ظلم نہیں کرتا ہے۔( ۱)

نامۂ اعمال احادیث معصومین علیہم السلام کی نظر میں

امام محمدباقرں سورہ اسراء کی آیة ۱۴ کی تفسیر میں فرماتے ہیں ہر انسان کا نامہ اعمال اس کی گردن میں لٹکادیا جائیگا ۔

(خیره وشره معه حیث کان لا یستطیع فراقه حتیٰ یعطیٰ کتابه یوم القیامة بما عمل ) انسان کی اچھائیاں اور برائیاں نہ الگ ہونے والے ساتھی کی طرح ہمیشہ اس کے ساتھ ہیں یہاں تک(نامہ اعمال) وہ کتاب ان کے کئے ہو ئے اعمال کے ساتھ اس کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔( ۲ )

عن أَبی عبد اللّه علیه السلام: اذاکان یوم القیامة دفع الانسان کتابه ثم قیل له اقرأ فقال الراوی فیعرف ما فیه :فقال أِنَّ اللَّهَ یُذکّره ، فما من لحظة ولا کلمة ولانقل قدم ولا شیء فعله الاذکره کأنه فعله تلک الساعة فلذلک قالوا یا وَیلتَنا مالِ هَذَا الکِتَابِ لَایُغادِرُ صَغیرةً ولا کَبیرةً اِلَّا أَحصیٰهَا.

امام جعفر صادق نے فرمایا :جب قیامت آئے گی انسان کے نامہ اعمال کواس کے ہاتھ میں دیا جائے گا اور اس سے کہا جا ئے گا پڑھو راوی کہتا ہے کیا ان

____________________

( ۱)سورہ کہف آیة ۴۹

(۲) نورالثقلین ج،۳ ص ،۱۴۴

۲۴۸

مطالب کو وہ جانتا ہوگا ؟امام نے فرمایا : خدا وند عالم اسے یاد دلا ئے گا اس طرح کہ جو بھی اس نے وقت گذار اجو کہا ،جو قدم اٹھایا ،یادوسری چیزیں جس پر عمل کیا ہوگا خدا اسے ان تمام لمحات کو اسے اس طرح یاد دلائے گا جیسے اس نے اسی وقت انجام دیاہواور وہ کہیں گے ہا ئے افسوس یہ کیسی کتاب ہے کہ جس میں ہر چھوٹا ،بڑا سب کچھ لکھ دیا گیاہے ۔( ۱ )

نامۂ اعمال کسے کہتے ہیں

جوچیز یقینی اور مسلّم ہے وہ یہ کہ انسان کے تمام اعمال اور کردار لکھے جاتے ہیں، اب کیا یہ کا غذ، ورق یا کتاب ہے یادوسری چیز ہے ؟اس کی مختلف تفسیریں کی گئیں ہیں تفسیر صافی میں مرحوم فیض کاشانی کہتے ہیں نامہ اعمال روح انسان کے لئے کنایہ ہے کہ اس میں تمام اعمال کے آثار چھپ جاتے ہیں۔

تفسیر المیزان میں علامہ طباطبائی مرحوم فرماتے ہیں نامہ اعمال انسان کے تمام حقیقت کو اپنے اندر شامل کئے ہوگا اوراس کے خطوط دنیاوی کتاب سے مماثلت نہیں رکھتے ہوںگے بلکہ وہ خود اعمال انسان ہے،کہ جس سے خدا باکل واضح طور پر انسان کو بتا دے گا اور مشاہدہ سے بڑھ کر کوئی دلیل نہیں ہے انھوں نے سورہ آل عمران کی آیت ۳۰ سے استفادہ کیا جس میں ارشاد ہو ا (جس دن انسان اپنے اچھے اور برے اعمال کو سامنے دیکھے گا )( ۲ ) اور بعض نے نامۂ اعمال کو

____________________

(۱)پیام قرآن ج،۶ ص ۱۰۱

(۲) المیزان ج، ۱۳ص،۵۸

۲۴۹

ویڈیوکیسٹ کی تصویر یا ٹیپ کی کیسٹ سے مشابہ بتایا ہے بہر حال چونکہ نامۂ اعمال کا قرآن واحادیث میں کافی ذکر ہے ہم اس پر ایما ن رکھیں ہر چند اس کی حقیقی کیفیت کاہمیں علم نہیں ہے ۔

سوالات

۱۔نفخ ،صور سے کیامراد ہے اور یہ کب واقع ہوگا ؟

۲۔ امام محمد باقر ںنے نامۂ اعمال کے سلسلے میں کیا فرمایا ہے ؟

۳۔ نامہ اعمال کسے کہتے ہیں واضح کیجئے ؟

۲۵۰

سیتیسواں سبق

قیامت کے گواہ اور اعمال کا ترازو

خدا وند عالم لوگوں کی تما م اچھائیاں اوربرائیاں اچھی طرح سے جانتا ہے چاہے انہیں ظاہر میں انجام دیا ہو یاچھپ کر لیکن خدا کی مصلحت اور حکمت اس چیز پر قائم ہوگی کہ قیامت میں لوگوں سے سوالات ان کے اعمال کے کارنامہ اور گواہوں کی گواہی کے اعتبار سے ہو گی اور وہ گواہ یہ لوگ ہیں ۔

۱۔خدا وند عالم :

جوپہلا گواہ ہے( اِنَّ اللّهَ علیٰ کُلِّ شَیئٍ شَهِیدُ ) بیشک خدا ہر چیز پر گواہ ہے۔( ۱ ) ( اِنَّ اللّهَ کَانَ عَلَیکُم رَقیباً ) اللہ تم سب کے اعمال کانگراں ہے۔( ۲ ) ( فَاِلَینَا مَرجِعُهُم ثُمَّ اللَّه شَهِیدُ عَلیٰ مَایَفعَلُونَ ) بہر حال پلٹ کر ہماری ہی بارگاہ میں آنا ہے اس کے بعد خدا خود ان کے اعمال کا گواہ ہے۔( ۳ )

۲۔انبیاء اور ائمہ علیہم السلام :

( وَ یَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیکُم شَهِیداً ) اور پیغمبر آپ پرگواہ ہونگے۔( ۴ ) ( وَجِئنَابِک عَلیٰ هَولاِء شَهِیداً ) اورپیغمبر آپ کو ان سب کاگواہ بنا کر بلائیں گے۔( ۵ ) ( وَیَومَ نَبعَثُ مِن کُلِّ أُمَّةٍ

____________________

(۱) سورہ حج آیة:۷ ۱

(۲) سورہ نسا ء آیة: ۱

(۳) سورہ یونس آیة: ۴۶

(۴) سورہ بقرہ آیة:۱۴۳

(۵) سورہ نسا ء آیة:۴۱

۲۵۱

شَهِیداً ) اور قیامت کے دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے۔( ۱ )

ابوبصیر کے بقول امام صادق سے اس قول خدا کی تفسیر میں :

( وَکَذلِکَ جَعَلنَاکُم أمَّةً وَسَطَاً لِتَکُونُوا شُهدَائَ عَلیٰ النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیکُم شَهِیداً ) فرماتے ہیں:''نحن الشهداء علیٰ الناس بما عند هم من الحلال والحرام وبما ضیعوا منه '' (ہم لوگوں پر گواہ ہو نگے اس چیز کے لئے جو حلا ل اور حرام ان کے پاس ہے اور جو انھوں نے ضایع کیا ہے۔( ۲ )

او ردوسری روایت میں ہے کہ ہم امت وسط ہیں اور ہم خدا کی طرف سے امت کے گواہ ہیں اور خدا کی زمین پر حجت ہیں۔( ۳ )

۳۔فرشتے :

( وَجَائَتْ کُلُّ نَفسٍ مَعَها سَائِقُ وَ شَهِیدُ ) اور ہر انسان آئے گا اس حال میں کہ فرشتے اسے لے جائیں گے اور فرشتے ان کے کامو ں پر گواہ ہوں گے( ماَ یَلفَظ مِن قَول اِلّا لَدَیه رَقِیب عَتید ) وہ کو ئی بات منھ سے نہیں نکالتا ہے مگر یہ کہ ایک نگہبان اس کے پاس موجود رہتا ہے۔( ۴ )

امیر المومنین دعائے کمیل میں فرماتے ہیں:''وکلَّ سیئة أمرت بِاثباتها الکرام الکاتبین الذین وکلّتهم بحفظ مایکون منی وجعلتهم شهوداً علیِّ مع جوارحی ''بارالہا ! میرے ان گنا ہوں کومعاف کردے جنہیں لکھنے کے لئے اپنے

____________________

(۱) سورہ نحل آیة:۸۹

(۲) تفسیر نورالثقلین ج۱،ص ۱۳۴

(۳) حوالہ سابق

(۴) سورہ ق آیة:۲۱، ۱۸

۲۵۲

محبوب فرشتوں کو حکم دیا ہے اور انہیں ہما رے اعضاء جسمانی کے ساتھ گواہ بنایا ہے۔

۴۔زمین :

( یَومئذٍ تُحَدّث أخباَرها ) (زمین ) اس دن وہ اپنی خبریں بیان کریگی( ۱ ) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اس آیت کو پڑھا فرمایا:''ا تدرون ما اخبارها؟ جاء ن جبرئیل قال خبرها اِذا کان یوم القیامة أخبرت بکلِّ عمل علیٰ ظهرها'' جانتے ہو زمین کی خبریں کیا ہیں ؟ جبرئیل نے مجھ سے بتایا ہے کہ زمین اس چیز کے بارے میں بتائے گی جو اس پر انجام دیا گیا ہے۔( ۲ )

مولائے کا ئنات فرماتے ہیں :''صلوا المساجد فی بقاع مختلفة فاِنَّ کُلَّ بقعة تشهد للمصلی علیها یوم القیامة ''مسجد میں ہر جگہ نما ز پڑھو چونکہ ہر جگہ قیامت کے دن نماز پڑھنے والے کے لئے گواہی دے گی ۔اسی طرح جب مولائے کائنات بیت المال کو مستحقین میں تقسیم کردینے کے بعدجب زمین خالی ہوجاتی تھی تو دورکعت نماز پڑھتے تھے اور بیت المال کی زمین سے خطاب کر کے کہتے تھے قیامت میں گواہ رہنا حق کے ساتھ یہا ں مال جمع کیا اور حق کے ساتھ تقسیم کیا۔( ۳ )

۵۔ زمان (رات ودن )

قال أبو عبداللّٰه علیه السلام: ما مِن یوم یأتی علیٰ اِبن آدم اِلّا قال ذلک الیوم : یا بن آدم أنا یوم جدید وأنا علیک شهید فقل فَیّ خَیراً أشهُد لَک یوم القیامة فاِنَّک لن ترانِی بعدها أبداً ''امام صادق

____________________

(۱) سورہ زلزال آیة:۴

(۲) درالمنثور ج،۲ معاد فلسفی ۳۳۴

(۳) لئالی الاخبارص۴۶۲

۲۵۳

نے فرمایا : کوئی دن انسان کے لئے نہیں گذرتا مگر وہ دن انسان سے کہتا ہے اے فرزند آدم! میں نیا دن ہو ں اور ہم تمہا رے اوپر گواہ ہیں لہٰذا آج اچھائی انجام دو تاکہ قیامت کے دن تمہارے لئے گواہی دیں اور اس کے بعد تم مجھے کبھی نہیں دیکھو گے ۔

وعنه عن أبیهں :قال اللّیل اِذا اقبل نادیٰ منادٍ بصوت یسمعه الخلائق اِلّا الثّقلین :یا ابن آدم !أنِّی علیٰ ما فیِّ شهید فخذ منی فأَنِّی لوطلعت الشمس لم تزد فیّ حسنه ولم تستعتب فیِّ من سیئة وکذلک یقول النهار اِذَا ادبر اللَّیل ''امام صادق اپنے والد بزرگوار امام باقر سے نقل کرتے ہیں کہ انھو ں نے فرمایا جب رات آتی ہے تو آواز دینے والا آواز لگا تا ہے جس کو انسان او رجنات کے علاوہ سبھی سنتے ہیں کہتاہے :اے فرزند آدم !جو کچھ ہم میں انجام پایا ہے اس پرگواہ ہیں لہٰذا زاد راہ کو مجھ سے حاصل کرلو کیونکہ اگر سورج نکل آیا تو پھر مجھ میں اچھا ئیوں کا اضافہ نہیں کرسکتے او ر گنا ہ کو واپس نہیں لے سکتے اور یہی فریاددن کی ہوتی ہے جب رات گذر جاتی ہے۔( ۱ )

۶۔ انسان کے اعضاء وجوارح :

( یَومَ تَشهَدُ عَلَیهِم ألسِنَتهُم وَ أَیدِیهِم وَ أَرجُلُهُم بِمَا کَا نُوا یَعملُون ) قیامت کے دن ان کے خلا ف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پائوں سب گواہی دیں گے کہ یہ کیا کررہے تھے۔( ۲ ) ( الیَومَ نَختِمُ عَلیٰ أَفوَاهِهِم وَ تُکَلِّمنَا أَیدِیهِم وَتَشهُد أَرجلُهُم بِمَا کَانُوا یَکسِبُونَ ) آج

____________________

(۱)بحا الانوار ج۷، ص ۳۲۵

(۲)سو رہ نور آیة: ۲۴۔

۲۵۴

ہم ان کے منھ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ بولیں گے او ران کے پائو ں گواہی دیں گے کہ یہ کیسے اعمال انجام دیا کرتے تھے۔( ۱ ) ( شَهِدَ عَلَیهِم سَمعُهم و أَبصارُهُم وَ جُلُودُهُم بِمَا کَا نُوا یَعمَلُونَ ) ان کے کا ن اور انکی آنکھیں اور جلد سب ان کے اعمال کے بارے میں ان کے خلا ف گواہی دیں گے۔( ۲ )

۷۔ خود عمل کا حاضر ہونا :عمل کا مجسم ہوکر سامنے آنا سب سے بڑا گواہ ہے( یَومَئِذٍ یَصدُرُ النَّاسُ أَشتاتاً لِیُروا أَعَمَالَهُم فَمَنْ یَعمَلْ مِثقَالَ ذَرةٍ خَیراً یَرَهُ وَمَنْ یَعمَل مِثقالَ ذَرةٍ شَراً یَرَهُ ) اس روز سارے انسان گروہ در گروہ قبروں سے نکلیں گے تاکہ اپنے اعمال کو دیکھ سکیں پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے بھی دیکھے گا ۔( ۳ ) ( وَوَجَدُوا مَاعَمِلوا حاَضِراً وَلَا یَظلِمُ رَبُّکَ أَحداً ) او رسب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے او رتمہا را پرو ردگا ر کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتا ہے۔( ۴ ) ( یَومَ تَجدُ کُلَّ نَفَسٍ مَاعَمِلتْ مِنْ خَیرٍ مُحضَراً وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوئٍ تَودُّ لوأَنَّ بَینَها وَبَینَهُ أَمَداً بَعیدا ) اس دن کو یاد کرو جب ہر نفس اپنے نیک اعمال کو حاضر پائے گا او ر اعمال بد کو بھی کہ جن کو دیکھ کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش ہما رے اور ان برے اعمال کے درمیان طویل فاصلہ ہو جا تا۔( ۵ )

____________________

(۱) سورہ یس آیة: ۶۵

(۲) سورہ فصلت آیة: ۲۰

(۳)سورہ زلزال آیة: ۶تا آخر۔

(۴) سورہ کہف آیة ۴۹

(۵)سورہ آل عمران آیة ۳۰۔

۲۵۵

اعمال کے مجسم ہونے اور حاضر ہونے کے سلسلے میں بہت سی حدیثیں ہیں پائی جا تی ہیں جیسا کہ شیخ بہا ئی مرحوم کہتے ہیں:''تُجسّم الأعمال فی النشأة الأ خرویة قد ورد فیِ أحادیث مُتکثرة من طرق المخالف والمؤالف ''اعمال کا دوسری دنیامیں مجسم ہونا بہت سی حدیثوں میں سنی او ر شیعہ دونوں کے یہاں موجود ہے۔( ۱ )

نمو نہ کے طورپر پیغمبر کی ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں ....و اِذا جاء أخرجوا من قبورھم خرج من کلّ اِنسان عملہ الذیِ کان عملہ فی الدنیا لأن عمل کلّ اِنسان یصحبہ فی قبرہ ''جب تمام لوگ اپنی قبروں سے باہر آئیں گے ان کے اعمال بھی ان کے ساتھ آئیں گے کیونکہ ہرانسان کا عمل اس کی قبر میں اس کے ساتھ رہتا ہے۔( ۲ )

قیامت میں میزان اعمال

قرآن اور احادیث معصومین میں قیامت کے ترازو کے بارے میں بہت زیادہ تذکرہ ہے ،ترازو تولنے کاذریعہ ہے ہر چیز کا ترازو اسی کے لحاظ سے ہوتا ہے سبزی بیچنے کے لئے مخصوص ترازو ہے، لائٹ اور پانی کا ترازو مخصوص میٹر ہے، ٹھنڈی اورگرم ہواکا پتہ لگا نے کے لئے تھرما میڑہے اور قیامت کا ترازو اعمال کو تولنے کا ذریعہ ہوگا ۔

قبل اس کے کہ قیامت کے میزان (ترازو) کے معنی اور اس کی تفسیر بیان کریں

____________________

(۱) بحار الانوار ج۷، ص ۲۲۸

(۲)تفسیر برہان ج۴، ص ۸۷

۲۵۶

اس سلسلے میں قرآن کی آیتوں کو ملا حظہ فرمائیں( وَنَضعُ المَوَازِینَ القِسطَ لِیَومِ القِیَامَةِ فَلاَ تُظلَمُ نَفَسُ شَیئاً وَاِن کان مِثقَالَ حَبَّةٍ مِن خَردَلٍ أتَینَابِهَا وَکَفیٰ بِنَا حَاسِبِین ) او رہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کریں گے او رکسی نفس پر ادنی ظلم نہیں کیا جائے گا اوراگر کسی کا عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہے تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں۔( ۱ )

( وَالوَزنُ یَومَئِذٍ الحَقُّ فَمَن ثَقُلَت مَوَازِینُهُ فَأُولئِک هُمُ المُفلِحُونَ وَمَن خَفَّتْ مَوَازِینُهَُ فَاُولئِک الَّذینَ خَسِرُوا أَنفسُهُم بِمَاکَانُوا بِآیاتِنَا یَظلِمُونَ ) آج کے دن اعمال کاوزن ایک برحق شی ٔ ہے پھر جس کے نیک اعمال کا پلہ بھا ری ہوگا وہی لوگ نجات پانے والے ہیں ۔( ۲ )

( فَأمَّا مَنْ ثَقُلَت مَوَازِینُهُ فَهُو فِی عِیشةٍ رَاضِیَةٍ وَ أمَّا مَن خَفَّت مَوَازینُهُ فَأُمُّهُ هَاوِیَةُ ) تو اس دن جس کی نیکیوں کاپلہ بھاری ہوگا وہ پسندیدہ عیش میں ہوگا اور جس کاپلہ ہلکا ہوگا اس کا مرکز جہنم ہے۔( ۳ )

میزان قیامت کسے کہتے ہیں ؟

مرحوم طبرسی فرماتے ہیں : آخرت میں انصاف کا نام ترازو ہے او روہا ں کسی پر ظلم نہیں کیاجائے گا ،وزن سے مراد عظمت مومن اور اس کی فضیلت کااظہار ہے اور کفار کو ذلیل اور رسوا کرنا ہے جیسا کہ سورہ کہف کی آیة ۱۰۵ میں مشرکین کے سلسلہ میں آیا

____________________

(۱) سورہ انبیاء آیة ۴۷

(۲) سورہ اعراف آیة۸۔۹

(۳)سورہ قارعة آیت ۶۔۹

۲۵۷

ہے''فلا نقیم لهم یَومئذٍ وزنا'' او رہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے اور آیة'' ثَقُلَت مَوازِینُہُ'' سے مراد یعنی ان کی خوبیاںبھاری ہوںگی اورنیکیاں زیادہ ہوںگی اور''خفت موازینه ''سے مراد یعنی خوبیا ں ہلکی او راطاعتیں کم ہوںگی۔( ۱ ) اور جوچیز مرحوم طبرسی نے بیان کیا ہے اس روایت کے ذیل میں ہے جو ہشام بن حکم نے امام صادق نے نقل کیا ہے۔( ۲ )

میزان قیامت کون لوگ ہیں ؟

بحاالانوار کی ساتویں جلد کے ص ۲۴۲ کے ذیل میں جو بیان ہواہے او رتفسیر

صافی میں جو میزان کے معنی بیان کئے گئے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے آخرت میں لوگوں کا ترازو وہ چیز ہے جس کے ذریعہ ہر شخص کی قیمت ومنزلت کو اس کے عقیدہ اور اخلا ق وعمل کے اعتبار سے تولا جائے گا تاکہ ہر انسان کو اس کی جزا مل سکے ،اور اس کے میزان انبیاء اور اوصیاء ہوں گے کیونکہ ہرانسان کی قدرو منزلت انہیں انبیاء کا اتباع اور ان کی سیرت سے قربت کے مطابق ہوگا اور اس کا سبک وہلکا ہونا انبیاء اور اوصیاء سے دوری کے باعث ہوگا ،کافی اور معانی الاخبار میں امام صادق نے اس آیت کی تفسیر میں ''ونضعَ الموازین القِسطَ لیومِ القیامة'' اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کریںگے فرمایا:''هُم الأ نبیاء والأوصیائ '' یعنی میزان عمل انبیاء او راوصیاء ہو ں گے

دوسری روایت میں فرمایا:''نحن موازین القسط ''ہم میزان عدالت ہیں۔( ۳ )

____________________

(۱) بحارالانوار ج،۷ ص ۲۴۷و ۲۴۳

(۲) بحار الانوار ج،۷ ص

۲۴۸(۳) بحارالانوار ج،۷ ص ۲۴۷و ۲۴۳

۲۵۸

مرحوم علامہ مجلسی ،شیخ مفید سے نقل فرماتے ہیں کہ روایت میں آیاہے کہ :''ان أمیرالمؤمنین والأئمةمِن ذریته هم الموا زین ''بیشک امیر المومنین اوران کی آل پاک ائمہ اطہار علیہم السلام قیامت میں میزان عدالت ہو ں گے۔( ۱ )

امیر المومنین ں کی پہلی زیارت مطلقہ میں آیاہے :''السلام علیک یامیزان الاعمال ''میرا سلام ہو آپ پر اے میزان اعمال ۔لہٰذا جو کچھ اب تک بیان کیا گیا ہے وہ میزان عدل الٰہی ہے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم او ر ہمارے ائمہ معصومین علیھم السلام اس کی عدالت کے مظہر او رنمونہ ہیں، بعض محققین کے بقول معصوم امام ترازو کے ایک پلڑے کے جیسے ہیں اور تمام لوگ اپنے اعمال وعقیدہ کیساتھ ترازو کے دوسرے پلڑے کی مانند ہیں اب ایک دوسرے کے ساتھ تولا جا ئیگا اب ہما را عمل او ر عقیدہ جتنا ان کے عقیدہ اورعمل سے قریب او ر مشابہ ہوگا اتنا ہی ہمارا وزن بھاری ہوگا جیسا کہ مرحوم طبرسی مجمع البیان میں سورہ کہف کی آیة ۱۰۵ کے ذیل میں فرماتے ہیں روایت صحیحہ میں ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''انه لیأ تِی الرجل العظیم السمین یوم القیامة لایزن جناح بعوضة ''قیامت کے دن ایک فربہ اور بھاری بھرکم آدمی کولا یا جائیگا اور اس کا وزن مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہوگا۔یعنی وہ انتہائی معمولی اور ہلکا ہوگاکیونکہ اس کے اعمال افکاراور اس کی شخصیت اس کے ظاہری قیافہ کے بالکل خلا ف چھوٹی اور ہلکی ہوگی۔

____________________

(۱) بحار الانوار ج،۷ ص ۲۴۸

۲۵۹

سوالات

۱۔ قیامت میں گواہ کون لوگ ہوںگے بطور خلاصہ بیان کریں ؟

۲۔ میزان کے کیا معنی ہیں اور قیامت میں میزان کیساہوگا ؟

۳۔ قیامت میں میزان عمل کون لوگ ہو ں گے ؟

۲۶۰