اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )0%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف: شیخ علی اصغر قائمی
زمرہ جات:

صفحے: 303
مشاہدے: 148589
ڈاؤنلوڈ: 3719

تبصرے:

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148589 / ڈاؤنلوڈ: 3719
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

عن زراره سالت أبا عبد اللّهِ علیه السلام عن قول اللّه عزََّوجلَّ فطرةُ اللّهِ التی فطرالنّاس علیها قال: فطرهم جمیعاً علیٰ التوحید ( ۱ )

جنا ب زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق سے خدا کے اس قول ( فطرة اللہ ) کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا :کہ خدا نے سب کو فطرت توحید پر پیدا کیا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ آیت کریمہ میں فطرت سے کیا مراد ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا : اسلا م مراد ہے کیونکہ خدا نے جب انسانوں سے توحید اور معرفت خدا کا عہد لیا تھا اسی وقت ضرورت دین کو بھی ان کے وجو د میں جا گزیں کر دیا تھا( ۲ ) عن علیّ ابن مو سی الرِّضا صلوات اللّه علیه عن أبیه عن جده محمّد بن علیِّ بن الحسین علیهم السلام فی قوله فطرة اللّه التیِ فطر النّاس علیها:قال هولاأله اِلّا اللّه مُحمّد رسول اللّه علیِّ امیرالمومنین الیٰ هٰهنا التوحید ( ۳ )

امام رضا ںاپنے والد بزرگو ار سے انہوں نے اپنے جدامام باقر ں سے نقل کیا ( فطرةاللہ ) کے معنی لا الہ الا اللّہ محمد رسول اللّہ ۔

____________________

(۱) بحارالانوار جلد ۳،ص،۲۷۸

(۲)بحارالانوار جلد۳،ص ۲۷۸

(۳)بحارالانوار جلد۳،ص۲۷۷

۲۱

علی امیر المومنین ںہیں یعنی خداکی وحدانیت کے اقرار میں رسالت محمدی کا یقین اور ولایت امیر المومنین کا اقرار بھی شامل ہے ۔

ابو بصیر نے امام محمد با قرںسے نقل کیا ہے کہ( فَأقِم وَجهک للدِّینِ حَنیفًا ) سے مراد ولا یت ہے۔( ۱ ) حقیقت امر یہ ہے کہ ہر انسان اپنے آپ میں ایک پیدا کرنے والے کا احساس کرتاہے اور یہ وہ کیفیت ہے جس کو خدانے انسانوں کی سرشت و فطرت میں ودیعت کردیا ہے ۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو غیر مسلم دانشوروں نے بھی قبول کیا ہے جن کے چند نمونوں کی جا نب ہم اشارہ کریں گے

مذہبی فطرت اور دانشوروں کے نظریات !

بغیر کسی استثناکے عقیدہ او رمذہب سب میں پایا جاتاہے اور میں اس کو پیدائشی مذہبی احساس کا نام دیتاہو ں،اس مذہب میں انسان آرزوں اور مقاصد کے کم ہو نے اور عظمت وجلا ل جو ان امور کے ماوراء اور مخلو قات میں پوشیدہ ہوتے ہیں انکا احساس کرتاہے۔( ۲ ) ''انسٹن''

''دل کے پاس کچھ ایسی دلیلیں ہیں کہ جہا ں تک عقل کی رسائی نہیں ہے''( ۳ )

''پاسکال''

میں بالکل کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کرتا ہو ںکہ مذہبی زندگی کا سرچشمہ دل ہے۔( ۴ ) ''ویلیم جیمز''

____________________

(۱)بحارالانوار جلد۳،ص۲۷۷

(۲)دنیا ی کہ من می بینم ص۵۳

(۳)سیر حکمت دراروپاص،۱۴

(۴)سیر حکمت دراروپاص ۳۲۱

۲۲

ہمارے اسلا ف نے با رگا ہ خدا وندی میں اس وقت سر کو جھکا دیا تھا جب وہ خدا کو کوئی نام بھی نہ دے سکے تھے ۔( ۱ ) ''ماکس مولر''

جو حقیقت کھل کر ہما رے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ عرفانی احساس ایک ایسی لہر ہے جو ہماری فطرتوںکے تہہ سے اٹھتی ہے اور در حقیقت وہی اصل فطرت ہے جس طرح انسان پانی اور آکسیجن کا محتاج ہے اسی طرح خدا کی ضرورت بھی ہے۔( ۲ )

''الکسس کا رل''

انسان اس بات کا احساس کرتاہے کہ اسے آب و دانہ کی ضرورت ہے اسی طرح ہماری روح کو بھی بہترین روحا نی غذائوں کی ضرورت ہے ۔اسی احساس کا نام ہے دین، جس کی جانب پہلے ہی انسان کی ہدایت کر دی گئی تھی ،گو یا یہ کہ اگر دنیا کی وحشی ترین قوم سے ایک بچہ کولے لیں اور اس کو آزاد چھوڑ دیں کہ وہ جیسے چاہے ویسے زندگی گزارے اور اس کو کسی بھی دین سے آشنا نہ کرائیں وہ جس وقت بڑا ہوگا اورجس قدر اس کا شعور و ادراک کامل ہوگاہم اس بات کو محسوس کریں گے کہ وہ کسی گمشدہ شی ٔکی تلا ش میں ہے اور ہر دم اور ہمیشہ اصل فطرت و سرشت کی بنا پر ادھر ادھر ہا تھ پیر مارے گا تاکہ اپنے دماغ میں کسی چیز کا تصور کر سکے او رہم اس کی اس تگ ودواور فکر کو دین کہتے ہیں۔ ''سقراط حکیم''

____________________

(۱) مقدمہ نیایش ص ۳۱

(۲) نیایش ص ۲۴،۱۶

۲۳

امیدوں کا ٹوٹنا اور ظہو ر فطرت

ہر انسان ا ضطراب اور غیر خدا سے قطع تعلقات کے وقت اللہ سے لو لگاتا

ہے اور فطرتاً اپنے کو اس بے نیاز کا محتاج محسوس کرتاہے۔ اگر ہر وقت یہی کیفیت برقرار رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا اس کے معبود سے نا تہ ٹوٹا نہیں ہے( ۱ )

امیرالمومنین ں کلمہ(اللہ) کی تفسیر یوں فرماتے ہیں کہ..هوالّذی یتأله الیه عند الحوائج والشّدائد کل مخلوق عند انقطاع الرجاء من جمیع من هودونه وتقطع الاسباب من کل من سواه ( ۲ ) خدا اس ذات کا نام ہے کہ سختی اور حاجات کے وقت جب دنیا کی ہر مخلوق کے ناتے ٹوٹ جاتے ہیں اور امیدیں غیر خدا سے منقطع ہوجاتی ہیں تو اس کی پنا ہ میں آتے ہیں ۔

ایک شخص نے امام جعفر صادق سے عرض کیا یا بن رسول اللہ! خدا کی معرفت عطاکریں کیونکہ اہل مجا دلہ ( بحث کرنے والوں ) نے ہم سے بہت ساری باتیںکی ہیں اور ہمیں پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔

آپ نے فرمایا کہ :کیا تم کبھی کشتی پر سوار ہو ئے ہو ؟اس نے کہا ہا ں۔ آپ نے فر مایا :کیا کبھی ایسا نہیں ہو اکہ تمہاری کشتی بھنور میں پھنس گئی ہو اور اس وقت نہ کوئی دوسری کشتی اور نہ ہی کوئی شناگر (تیراک) ہو جو تم کو نجا ت دے سکے اس نے عرض کی جی ہاں ۔

آپ نے فرمایا :کیا اس وقت تم نے اس بات کا احساس نہیں کیا کہ اب بھی کوئی ایسی طاقت ہے جو تم کو اس خطرناک موجوںسے نجات دلا سکتی ہے .اس نے

____________________

(۱) آیات قران بہ ترتیب ۱۲،۸،۶۵،۳۳،۳۲، سورہ ،یو نس ،زمر ، عنکبوت ،روم ،لقمان ،

(۲) میزان الحکمةج ا ، ص۷۸۲ با ب صانع

۲۴

کہا: ہاں ۔ آپ نے فرمایا :وہی خدا ہے جو تم کو اس جگہ نجا ت دے سکتا ہے جس جگہ کوئی نجات دینے والا نہیں اور نہ ہی کو ئی فریاد رس ہے( ۱ )

گویا یہ خدا شنا سی کی فطرت وجو د انسان کے بنیادی سرمایہ میں سے ہے جو کہ آئین ساز حقیقت کی رہنمائی کرتی ہے ۔مگر بسا اوقات دنیا سے بہت زیادہ وابستگی فاسد ماحول بلکہ ایک لفظ میں یو ں کہا جائے کہ گنا ہ، فطرت کی حقیقت نمائی سے روک دیتا ہے اور صاف و شفاف آئینہ کو دھندھلا اور غبار آلو د کردیتاہے۔

( ثُمَّ کَا نَ عَاقبةَ الَّذینَ أَسآؤا السُّوایٰ أَن کَذَّبوا بآیاتِ اللّهِ وَکَانُوا بِها یَستهزؤنَ ) ( ۲ ) جن افراد نے بہت زیادہ گناہ کیا اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ انھو ں نے آیات الٰہی کو جھٹلایا اور مسخر ہ بنا یا ۔

____________________

(۱) بحار الانوار ج ۳، ص ،۴۱

(۲) سورۂ روم ۱۰۔

۲۵

سوالا ت

۱۔ لغت اور اصطلا ح میں فطرت کے کیا معنی ہیں ؟

۲۔ آیت میں (( فطرة اللّه التی فطرالناس علیها ) آیا ہے اس سے مراد کیا ہے ؟

۳۔ سقراط نے فطرت توحیدی کے بارے میں کیا کہا ہے ؟

۴۔امام جعفر صادق نے اس کو کیا جو اب دیا جو خدا کی معرفت چاہتا تھا ؟

۲۶

تیسرا سبق

وجو د انسان میں خدا کی نشانیاں

( سَنُرِیهِم آیاتِنَا فیِ الافاقِ وَ فِی أَنفُسِهم حتیٰ یَتبیَّن لَهُم أَنَّهُ الحَقُّ ) ( ۱ ) ہم اپنی نشانیو ں کو دنیامیں اورانسان کے وجو د میں لوگوں کو دکھلا ئیں گے تا کہ وہ جا ن لیں کہ خدا حق ہے ۔

( وَفِی خَلقِکُم وَمَا یَبُثُّ مِن دَا بّةٍ آیا تُ لقومٍ یُوقنُونَ ) ( ۲ ) اور خو د تمہا ری خلقت میں بھی اور جن جانوروں کو وہ پیداکرتا رہتا ہے ، ان میں بھی صاحبان یقین کے لئے بہت ساری نشانیاں ہیں ۔( وَمِن آیاتِه أَن خَلقَلکُم مِّن تُرابٍ ثُمّ اِذا أَنتُم بَشَرُ تَنتَشِرُون ) ( ۳ ) اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں خاک سے پیدا کیا اور انسان بنایاپھر تم زمین پر پھیل گئے ۔

جب کہ دنیا کے چوٹی کے دانشورا ور مفکرین ،مختلف النوع اشیاء کا مختلف انداز میں معائنہ کر رہے ہیں لیکن خود وجود انسان ایک نا شناختہ وجو د بنا ہو ا ہے اور برسوں درکا ر ہیں اس بات کے لئے کہ دنیا کے دانشور حضرات دنیا کے اس سب سے بڑے معمہ کی گتھی کو سلجھا سکیں اور اسکے زاویئے کو آشکا ر کر سکیں اور شاید یہ حل نہ ہو نے والی پہیلی ہے۔

____________________

(۱)سورہ فصلت آیہ :۵۳

(۲) سو رہ جا ثیہ آیہ:۴

(۳) سورہ روم آیة: ۲۰

۲۷

انسان کا جسم

اصحاب امام صادق میں سے ایک کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکم (امام جعفر صادق کے شاگرد ) سے پوچھا کہ اگر کو ئی مجھ سے یہ سوال کرلے کہ تم نے خدا کو کیسے پہچانا تواس کا کیا جواب ہوگا؟ ہشام کہتے ہیں ہم اس کے جو اب میں یہ کہیں گے کہ خدا کوہم نے اپنی ہی ذات کے ذریعہ پہچانااس لئے کہ وہ تمام چیزوں میں سب سے زیادہ نزدیک ہے، میں یہ دیکھ رہا ہو ں کہ میرے جسم کی اتنی عظیم عمارت مختلف اجزاء پر مشتمل ہے اور ہر کو ئی اپنے مخصوص اندازومقام پر رواں دواں ہے ان اجزاء کا نظم و ضبط اس بات کا غماز ہے کہ ان کا خالق بہت ہی متین اور دقیق ہے۔ اور(یہ جسم) مختلف اقسام کے رنگ و روغن سے آراستہ ہے ،میں اس با ت کا قطعی مشا ہدہ کر رہا ہوں کہ میرے مختلف النوع حواس ،طرح طرح کے اعضا ء و جوارح جیسے آنکھ کا ن ، شامہ ، ذائقہ ، لا مسہ ، خلق کئے ، او رتمام عقلا ء کی عقل اس بات کو محال جا نتی ہے کہ ایک منظم پروگرام کسی ناظم کے بغیر یا کوئی اچھوتی اور نفیس تصویر کسی ماہر نقاش کے بغیر وجو د میں آجا ئے لہٰذامیں نے اس سے اس بات کا پتہ لگا یا کہ میرے جسم کا نظام میرے بدن کی نقاشی اس قانون سے مستثنی (جدا ) نہیں ہے بلکہ کسی خالق کی محتاج ہے۔( ۱ )

ایک شخص نے امام رضا ںسے وجو د خدا پر دلیل طلب کی تو آپنے فرمایا :

____________________

( ۱) بحار الا نوار ج ۳، ص ،۵۰

۲۸

''علَمتُ اَنَّ لهذا البنیان بانیاً فأقررتُ به''

میں نے اپنے وجو د ہستی پر نظر کی تو اس بات کا انکشاف کیا کہ کو ئی اس کا خالق ہے لہٰذا میں نے اس کے وجو د کااقرار کرلیا۔( ۱ )

صادق آل محمد فرماتے ہیں : مجھے اس شخص پر تعجب ہوتا ہے جو یہ تصور کرتا ہے کہ خدا بندوں کی نظروں سے پو شیدہ ہے جبکہ اس کی خلقت کے آثار خو د اپنے آپ میں دیکھتاہے اور وہ ایسے آثار ہیں جو عقلوں کو مبہوت اور غلط افکا ر کو باطل کر دیتے ہیں ۔

میرے جا ن کی قسم! اگر نظام خلقت میں غور کر لیتے تو یقینا خالق کا ئنات کی جانب مدلل ثبو توں کے ذریعہ پہنچ جاتے۔( ۲ )

جسم انسان ایک پر اسرار عمارت

دا نشور و مفکرین حضرات نے خصوصیات انسان کو جاننے کے لئے کچھ علوم کی بنیا د رکھی ہے او راس کے توسط سے کچھ رازوں کو جان سکے ہیں۔

کیو نکہ انسان کے اعضا ء میں سے ہر عضو اسرار توحید کی ایک دنیا چھپائے ہو ئے ہے ، ان اسرار کو حسب ذیل امور میں تلا ش کیا جا سکتا ہے ۔

۱۔جسم انسان کے پر اسرار انگ : انسان کا بدن ایک عمارت کی مانند مختلف خلیوںسے مل کر بنتاہے جس کا ہر ایک خلیہ مستقل زندہ وجود ہے او ردیگر جاندار کی طرح ہضم ،جذب ، دفع ، اور تولید مثل رکھتاہے انسان کے جسم میں معمولاوہ خلیہ جو

____________________

(۱) اصول کا فی کتاب التوحید ۔ با ب :۱ حدیث۔۳

(۲)بحار الانوار ج۳،ص ۱۵۲

۲۹

مستقل دل کی مدد سے خون کے سہارے غذا حاصل کرتے ہیں کروروں کی تعداد میں ہیں ان میں سے ہر ایک خلیہ خاص اندازمیں مرتب اور کا رفرما ہیں ۔ کبھی گو شت کی صورت میں کبھی پو ست کی شکل میں کبھی دانت کے مثانے کبھی اشک چشم کی صورت میں متشکل ہو تے ہیں ، یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک خاص غذا کا محتاج ہوتاہے جو خون کے ذریعہ دل کے فرمان کے تحت ان تک پہنچایاجا تا ہے ۔

۲۔ مرکز ہضم، جسم کے باورچی خانہ کی حیثیت رکھتاہے ۔

۳۔ مرکز گردش خو ن ،پورے بدن میں غذا رسانی کاکام کرتاہے۔

۴۔ مرکز تنفس بدن انسانی میں تصفیۂ خون کا کام انجام دیتاہے۔

۵۔ مرکز مغز و اعصاب تمام انسانی قوا کا فرمانروا ہے ۔

۶۔ کان، آنکھ ، ناک، یہ سب مغز کے مواصلا تی مراکز ہیں ۔

۷۔تمام اعضاء بدن مرکزی حیرت انگیز مشینری ہیںجو دانااو رتواناخالق کی جانب راہنمائی کرتی ہیں ۔( ۱ )

تمام اعضا ء بدن کی فعالیت اور ان کی فیزیکی نشوء ونما کے بارے میں ہزاروں دانشوروں نے مطالعہ کر کے ہزاروں کتابیں لکھی ہیں، کیا کوئی بھی اس بات پر یقین کرے گا کہ ان اعضاء میں ہرایک کی شناخت کے لئے اتنے عقول ،ذکا وت و درایت کی ضرورت ہے لیکن ا س کی تخلیق کے لئے کسی بھی علم و عقل کی قطعی ضرورت نہیں ہے !

____________________

(۱) راہ خدا شنا سی ۔ استاد سبحانی

۳۰

یہ کیسے ممکن ہے کہ اعضاء انسانی کی فعالیت اور کیفیت کا رکے لئے برسوں مطالعہ کی ضرورت ہے، مگر ان کی خلقت بے شعور عوامل کے توسط سے ہوجائے آخر دنیا کی کو ن سی عقل اس بات کو قبول کرے گی ؟۔

دماغ کی حیرت انگیز خلقت

جسم انسان کا اہم ترین اور دقیق ترین مرکز انسان کا دماغ ہے دماغ تمام قوائے بدن کا فرمانروا اور وجود انسان کے تمام اعصابی مراکز کا اصلی مرکز ہے ،دماغ ضروری اطلاعات کی فراہمی ،اعضاء کے احتیاجا ت نیز بدن تک اپنے تمام فرامین کے پہچانے کے لئے جسم کے تمام باریک اجزاء جو جسم بھر میں پھیلے ہو ئے ہیں ان کا سہارا لیتا ہے او ران اجزاء کو ( سلسلۂ اعصاب ) کہتے ہیں ۔

انسان کی چھو ٹی سی کھوپڑی میں اتنا عظیم الشان مرکز کس طرح فعالیت کرتا ہے، اگر اس جا نب توجہ کریں تو ہم کو اس کا ئنات کے خالق کی عظمت و قدرت و حکمت کی جانب راہنمائی کرتا ہے ۔

روح انسان مخلوقات عالم کی عجیب ترین شی ٔ

وجو د انسان کے ابعاد میں سے ایک روح ہے، روح کا ئنا ت کی عجیب ترین اورپر اسرار موجودات میں شمار ہو تی ہے جبکہ تمام چیزوں سے زیادہ ہم سے نزدیک ہے پھر بھی اس کی معرفت سے قاصر ہیں ۔ ہر چند دانشمند وں نے اس کی شناخت کے لئے انتھک کو شش کر ڈالی ہے، مگر اب بھی روح کااسرار آمیز وجود جوں کاتوں ہے اور اس کے رخ سے رموز کے پردے ہٹائے نہیں جاسکے ہیں ۔

۳۱

قال اللہ:( یَسئلُونَک عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِن أَمرَ رَبّی وَما أُوتِیتُم مِنَ العِلمِ اِلاّ قلیلاً ) ( ۱ ) یہ تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دوکہ روح فرمان الٰہی میں سے ہے اور تم کو تھو ڑے سے علم کے سوا کچھ نہیں دیا گیا ہے یہ سر بمہرجواب اس بات کی جا نب اشارہ ہے کہ روح کا ئنات کے موجودات میں سے نہا یت ہی سرّی وجود ہے اور اس سے لا علمی وعدم آگا ہی کم تعجب کی بات نہیں ہے کہ اسرار روح سے آگا ہ نہ ہو سکے ۔

یہ عجوبہ قادر ومتعال خدا کی عظیم نشانیوں میں سے ایک ہے ۔

روح انسان کی سرگرمیاں

ہم بے شمار روحی اور فکری سر گرمیاں رکھتے ہیں چاہے خود آگا ہ طور پر یا ناخود آگا ہ طور پر ، اور ہر ایک ان میں سے ایک مستقل موضوع بحث ہے نیز متعدد کتابوں میں اس کے بارے میں بحث ہو چکی ہے ان سرگرمیوںمیں سے کچھ حسب ذیل ہیں ۔

۱۔تفکر : مجہو لا ت کا حصول او رحل مشکلا ت ۔

۲۔ تجدد :( نیاپن ) ۔ متعدد حاجات کوپورا کرنا ، مختلف حو ادث کا مقابلہ کرنا ایجاد ات وانکشافات ۔

____________________

(۱) سورہ اسرار آیة :۸۵

۳۲

۳۔ حافظہ ، ان معلومات کو محفوظ رکھنے کے لئے جو حس ، تفکر کے ذریعہ انسان کو حاصل ہو ئی ہے ،پھر ان کی درجہ بندی و حفاظت اور وقت ضرورت ان کی یا د آوری ۔

۴۔ مسائل کا تجزیہ اور ان کی تحلیل :حادثات کے علل و اسباب کو معلوم کرنے کے لئے مفاہیم ذہنی کو ایک دوسرے سے جدا کرنا پھر انہیں مرتب کرنا تاکہ حادثہ کے علل و اسباب کو بخوبی معلوم کیاجاسکے ۔

۵۔ تخیل: یعنی ذہنوں شکلوں کا ایجاد کرنا جو بسا اوقات خارج میں موجود نہیں ہوتیں اور وہ نئے مسائل کے سمجھنے کو مقدمہ ثابت ہو تی ہیں ۔

۶۔ قصد و ارادہ : امور کی انجام دہی ، ان کو متوقف کرنا یا ان کو اتھل پتھل کرنا

۷۔ محبت و دوستی ، دشمنی و نفرت: اور ان کے مانند دسیوں احساسات جو انسانی اعمال میں مثبت و منفی اثرات رکھتے ہیں۔( ۱ )

اپنی پہچان

خدا کی حکمت اور اس کی اہم ترین تدبیری نشانیوں میں سے ایک شیء خلقت انسان ہے اس کی شنا خت ، شنا خت خدا وند کامقدمہ ہے ۔

قال علیِّ ں:مَن عرفَ نفسه فقد عرف ربّه ( ۲ ) ''جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے گویا خدا کو پہچان لیا'' ۔

قال أمیرُ المومنینَ علیه السلام: عَجبتُ لِمن یجهل نفسه

____________________

(۱)پیام قرآن جلد ۲،بحث روح

(۲) غرر و درر ۔ با ب معرفت

۳۳

کیف یعرف ربّه ( ۱ ) '' میں تعجب کرتا ہوں اس شخص پرجو خو د اپنے آپ سے جاہل ہے وہ خدا کو کیسے پہچانے گا ''.

قال علی علیه السلام :مَن عرف نفسه فقد انتهیٰ الیٰ غایة کلّ معرفة و علم ( ۲ ) ''جن نے خدا کو پہچان لیا گو یا اس نے ہر علم ودانش کو پالیا ''۔

قال علیّ علیه السلام : معرفة النفس أنفع المعارف ( ۳ ) ''نفس کی پہچان بہترین معرفت ہے ''۔

قال امیر المومنین علیه السلام : عجبت لمن ینشد ضالته وقد أضلَّ نفس هفلا یطلب ها ( ۴ )

''میں حیران اس شخص پر جو کسی گمشدہ شیء کو تلا ش کر رہا ہے جبکہ وہ خو د کوگم کر بیٹھا ہے اور اس کو تلا ش نہیں کررہا ہے'' ۔

____________________

(۱) (۲)(۳)(۴)غرر و درر ۔ با ب معرفت

۳۴

سوالا ت

۱۔معرفت نفس کے سلسلہ میں حضرت علی کی ایک حدیث بیان کریں ؟

۲۔ شناخت خدا کے بارے میں ہشام کی کیا دلیل تھی ؟

۳۔ بطور خلا صہ بیان فرمائیں کہ جسم انسان کن چیزوں سے بنا ہے ؟

۴۔ روح کی سر گرمیوں کو بطور خلا صہ بیان کریں ؟

۳۵

چوتھا سبق

آفاق میں خدا کی نشانیاں (فصل اول )

زمین:

( وَفِی الأرضِ آیاتُ لِلمُوقنینَ ) ( ۱ ) زمین ہی اہل یقین کے لئے نشانیاں ہیں۔قرآن میں تقریباً اسّی مقامات پر خلقت زمین کے سلسلہ میں بحث کی گئی ہے او رعشاق و فدائیان قران کو عظمت و خلقت زمین کی معرفت کی دعوت دی گئی ۔

امام جعفر صادق نے مفضل کو مخاطب کر کے فرمایا :اس زمین کی خصوصیات پر غور کرو ، اس کی خلقت کچھ یوں کی گئی ہے کہ مستحکم واستوار ہے اور مختلف النوع اشیاء کا مستقر و پناہ گاہ ہے او رتمام فرزندان آدم اپنی حاجا ت بر آنے کیلئے اس پر تلاش و کوشش کر سکتے ہیں سکون و آرام کے وقت اس پر بیٹھ سکتے ہیں اور لذت خو اب سے بہرہ امند بھی ہو سکتے ہیں لہٰذا عبرت حاصل کرو اس وقت سے جب زلزلہ کے جھٹکے لگتے ہیں اور زمین کو قرار نہیں رہتا اور لوگ ناچار ہو کر گھروں کو چھوڑ کر فرار کی راہ لیتے ہیں( ۲ )

تعجب خیز بات تویہ ہے کہ یہ کشتی فضا ان تمام عظمتوں کے ہمراہ کروڑوں لوگوں کو اپنے دوش پر اٹھا ئے ہو ئے نہا یت ہی سرعت کے ساتھ ایک گہوارے کی

مانند متمکن ومستقر۔

____________________

(۱) سورہ ذاریات آیة: ۲۰

(۲) بحار الانوار ج۳ ،ص ۱۲۱

۳۶

علی دعائے صبا ح میں فرماتے ہیں : یاَ من أَرقَدنِی فِی مھاد أمنہ و أمانہ''اے وہ !جس نے امن وامان کے گہوارے میں لذت خو اب عطاکیا'' زمین کے بہترین حصہ دریائوں او رسمندروں کی نذر ہو گئے اور ان میں ایسے ایسے عجا ئبات پائے جاتے ہیں جن کی تفصیل کے لئے مستقل بحث کی ضرورت ہے ، یا من فی البحار عجا ئبہ ، اے وہ ذات! جس کے عجا ئبا ت کے مظہر دریا ئوں میں اٹے پڑے ہیں۔( ۱ )

مولا ئے متقیان کی دوسری منا جات میں آیا ہے : أنت الذیِ فی السمائِ عظمتک و فی الأرضِ قُدرتک وفیِ البحار عجا ئبک( ۲ ) تو خدا وہ ہے جس کی عظمت کے شاہکار آسمان میں ، قدرت کے نمونے زمین میں اور حیرت انگیز تخلیقات دریا ئوں میں بکھری پڑی ہیں ۔

امام جعفر صادق نے مفضل سے فرمایا : اگر تم خالق کی حکمتوں اور مخلوقات کی کم مائیگی علم کو جاننا چاہتے ہو تو پھر سمندروں کی مچھلیوں اور آبی جا نوروں اور اصداف کو دیکھو یہ اتنی تعدادمیں ہیں کہ ان کا محاسبہ نہیں کیا جا سکتا اور ان کی منفعت کا علم بشریت پر دھیرے دھیرے روشن ہوگا ۔( ۳ )

____________________

(۱)جو شن کبیر

(۲) بحار الانوار ج۹۷ ،ص

۹۷(۳) بحار الانوار ج۳، ص ۱۰۳

۳۷

چاند اور سورج

( قال اللّه تعالیٰ :ومِن آیا تِهِ اللَیلُ و النَّهارُ وَ الشَّمسُ والقَمَرُ ) ( ۱ ) اور خدا کی نشانیا ں میں سے دن ، رات ، اور چاند وسورج ہیں۔

سورہ یونس میں ارشاد ہو ا کہ وہ خدا ہے جس نے سورج کو چمک عطا کی اور چاند کو چاندنی سے نوازا او ران کے مستقر کو معین کیا تاکہ برسوں اور صدیوں کے حساب کو جا ن سکو اور خدا نے ان سب کو بجز حق خلق نہیں کیا ہے اور وہ اہل علم و فکر کے لئے اپنی نشانیوں کو بیان کرتاہے ۔

سورج اپنی تابناکیو ں کے ذریعہ صرف بستر موجودات کا ئنات ہی کو گرم اور منور نہیں کرتا، بلکہ حیوانات و نباتات کو حیات عطا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتاہے۔ آج دنیا کے سامنے یہ حقیقت کھل کرآگئی ہے کہ کرۂ زمین کی تمام حرکات خورشید کی ضیاء باریوں کا صدقہ ہے ،خورشید کا حجم دنیا کے حجم کے ۱۳ تیرہ لا کھ ہزار کے برابر بڑا ہے برج آسمانی میں سورج کا منظم حرکت کرنا اس کا دقیق طلوع و غروب کرنے کے علا وہ مختلف فصلو ں کا تعین او رزمان کی تعیین انسانوں کی اجتماعی زندگی میں بہت ہی مفید اور بے حد معاون ہے ۔

چاند ہر گھنٹہ میں تین ہزار چھ سو کیلو میٹر زمین کے اطراف میں اپنی مسافت طے کرتا ہے اور قمری مہینوں میں چاند کم و بیش ۲۹ روز کے اندر زمین کا مکمل چکر لگاتا ہے اور زمین کے ساتھ سال میں ایک بار سورج کا چکر لگا تا ہے چاند ، سورج ، ان میں سے ہر ایک کی گردش ایک خاص نہج پر ہے جس کو فکر بشر درک کرنے سے عاجز ہے ، جو کچھ ہم درک کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ منظم و مرتب طریقہ سے گردش کرنا ،زمان کی

____________________

( ۱)سو رہ فصلت آیة: ۳۷

۳۸

ترتیب او رشب و روز اور ماہ و سال کی پیدائش کا سبب ہے ۔

امام صادقنے مفضل سے روایت کردہ حدیث میں فرمایا: سورج کے طلوع اورغروب میں تدبر کرو خدا نے دن و رات کی حاکمیت کو سورج کے حوالے سے معین کیاہے اگر سورج طلوع نہ ہو تا تو نظام دنیا درہم برہم ہو جاتا ،اگر اس کا نور نہ ہو تا تو حیات کا ئنات بے نور ہوجا تی ، اور وہ غروب نہ ہو تا تو لوگوں کا چین حرام ہوجا تا کیو نکہ روح وجسم کو آرام و سکو ن کی شدید ضرورت ہو تی ہے سورج کا نشیب و فراز میں جا نا چار فصلو ں کے وجو د کا سبب ہے اور جو کچھ اس کے منافع و آثار ہیں، ان کے بارے میں غور و فکر کرو ،چاند کے ذریعہ خدا کو پہچانو کیونکہ لوگ اسی کے مخصوص نظام کے ذریعہ مہینو ں کو پہنچانتے ہیں اور سال کے حساب کو مرتب کرتے ہیں ، ذرا دیکھ تو سہی کہ کس طرح اندھیرے کے سینے کو چاک کرکے رات کو روشنی بخشتا ہے اور اس میں کتنے فوائد پو شیدہ ہیں۔( ۱ )

ستارے : قال اللّہ:( اِنَّا زَیَّنَّا ألسَّمَآئَ الدُّنیَا بِزِینَة الکَوَاکِبِ ) ( ۲ ) ہم نے دنیاوی آسمان کو ستاروں کی محفل سے سجا یا ہے، مولائے کا ئنا ت فرماتے ہیں : آسمانوں میں بکھرے ہو ئے ستارے زمینوں پر بسے ہوئے شہروں کے مانند ہیں اور ان میں سے ایک شہر دوسرے شہر سے نورانی ستون سے متصل ہیں ۔( ۳ )

____________________

(۱) بحا رالانوارج، ۵ ۵ ص ۱۷۵

(۲) سو ر ہ صافات آیة ،

۶(۳) بحا الانوار ج۵۵ص ۹۱

۳۹

سوالات

۱۔ امام جعفرصادق نے خلقت زمین کے بارے میں کیا فرمایا ہے ؟

۲۔ امام جعفرصادق نے سورج کے با رے میں کیا فرمایا ہے ؟

۴۰