اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )0%

اصول عقائد (چالیس اسباق میں ) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 303

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف: شیخ علی اصغر قائمی
زمرہ جات:

صفحے: 303
مشاہدے: 148560
ڈاؤنلوڈ: 3719

تبصرے:

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 303 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 148560 / ڈاؤنلوڈ: 3719
سائز سائز سائز
اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

اصول عقائد (چالیس اسباق میں )

مؤلف:
اردو

چاہے ہاتھ آسمان کی جانب رکھیں یا زمین کی طرف اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،آپ نے فرمایا : یہ موضوع اس کے علم اور احاطہ قدرت میں برابر ہے لیکن خدانے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ دعا کرتے وقت ہاتھوں کو آسمان کی جانب عرش کی طرف بلند کریں کیونکہ معد ن رزق وہاں ہے ۔جو کچھ قرآن اور فرمان رسول ہے ہم اس کو پہچاتے ہیں ، اس کے بعد فرمایا : اپنے ہاتھوں کو خدا کی طرف بلند کرو اوریہ وہ موضوع ہے جس پر تمام امتوں کا اتفاق ہے ۔( ۱ )

حضرت امیر المومنین ںنے فرمایا : کہ تم میں سے کوئی بھی جب نماز تمام کرے تو دعا کے لئے ہاتھوں کوآسمان کی جانب بلند کرے پھر دعا کرے ،ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا خدا ہر جگہ نہیں ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہا ں ہے ۔ اس نے کہاپھر ہاتھو ں کو آسمان کی طرف کیوں اٹھاتے ہیں ،آپ نے فرمایا :تم نے (قرآن مجیدمیں ) نہیں پڑھا آسمان میں تمہاری روزی ہے اورجو کچھ تم سے وعدہ کیاگیا ہے۔ انسان محل رزق کے علاوہ کہا ںسے رزق طلب کرے گا محل رزق اور وعدہ الٰہی آسمان ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱) پیام قرآن از بحارالانوار ج۳،ص ۳۳۰

(۲) پیام قرآن نقل از بحارالانوار ج ۹۰،ص ۳۰۸

۸۱

سوالات

۱۔ صفات سلبیہ سے مراد کیاہے ؟

۲ ۔ خدا کو دیکھنا کیوں ناممکن ہے ؟

۳ ۔ یہو دی دانشمند جس نے سوال کیا تھا کہ خدا کہا ںہے حضرت امیر نے اس کو کیا جواب دیا ؟

۴۔ دعا کے وقت ہاتھ آسمان کی جانب کیو ں اٹھا تے ہیں ؟

۸۲

گیارہواں سبق

عدل الٰہی

اصول دین کی دوسری قسم عدل سے متعلق ہے ،عدل ،خداکے صفات جمالیہ میں سے ایک ہے عدالت الٰہی ایک طرف تو ایمان بہ خدا سے مربوط ہے تو دوسری طرف معاد سے، ایک طرف مسئلہ نبوت وامامت سے تودوسری طرف سے فلسفہ ٔاحکام سے کبھی ثواب و عقاب تو کبھی جبر و تفویض سے اسی بناپر اصل عدالت کا اقرار یا انکا ر ممکن ہے کہ تمام اعتقاد اور معرفت کے چہرے کو بدل دے اس کے علا وہ اجتماعی ، اخلاقی اور تربیتی مسائل میں بھی عدل الٰہی سے انکا ر نہیںکیا جاسکتاانہیں خصوصیات کی وجہ سے عدل الٰہی کو اصول دین میں شمار کیا گیاہے ۔

مولا ئے کا ئنا ت نے ایک مختصر اورمفید عبارت کے ذریعہ توحید اور عدل کو ایک جگہ رکھ کر فرمایا :''التوحید ان لا تتوھمہ والعدل ان لا تتھمہ'' توحید وہ ہے جوتمہاری واہمہ سے دور ہے (کیو نکہ جو واہمہ میں سماجائے وہ محدود ہے)اور عدل اس چیز کا نام ہے جسے تم متہم نہ کرو ( برے کام جو تم انجام دے رہے ہو اسے خدا کی طرف نسبت نہ دو )( ۱ )

____________________

(۱) کلمات قصار نہج البلا غہ حکمت ۴۷۰

۸۳

عدل الٰہی پر عقلی دلیل

ظلم قبیح (ناپسند) ہے او رصاحب حکمت خدا کبھی قبیح فعل انجام نہیںدیتا کیونکہ ظلم کے کچھ اسباب ہیں اور خدا ان چیزوں سے منزہ ہے ۔

ظلم کے اسباب اور اس کی بنیاد

۱۔ضرورت :وہ شخص ظلم کرتاہے جوکسی مقصد تک پہنچنا چاہتا ہے اور وہ مقصد صرف ظلم ہی کے راستے سے ممکن ہے ۔

۲ ۔ جہالت اور نادانی: وہ شخص ظلم کرتا ہے جو ظلم کی برائیوں اور اس کی قباحت سے واقف نہیںہوتا ۔

۳۔اخلاقی برائی :وہ شخص ظلم کرتاہے جس کے اندر کینہ ،عداوت ،حسد خواہشات پرستی ہے۔

۴۔ عجز و ناتوانی : وہ شخص ظلم کرتا ہے جو خطرہ اور نقصان کو اپنے سے دور کرنے سے عاجز ہو اور اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے ظلم کے علاوہ کو ئی راستہ نہ پاتا ہو ۔

اس دنیا میں جو بھی ظلم ہو تا ہے انہیں میں سے کسی ایک کی بنا پر ہوتاہے اگر یہ اسباب نہ پائے جا ئیں تو کہیں بھی کو ئی ظلم نہ ہو او رمذکورہ اسباب میں سے کو ئی ایک بھی خداکے لئے ممکن نہیں ہے کیونکہ خدا وند عالم :

الف ): غنی ہے او رکسی کا محتاج نہیں ہے ۔

ب): اس کا علم لا محدودہے اور کبھی ختم ہو نے والا نہیں ہے۔

ج): تمام اچھے صفات کا مالک ہے اور تمام عیوب اور نواقص سے پاک اور پاکیزہ ہے ۔

د): لا محدود قدرت کامالک ہے لہٰذا وہ عادل ہے ۔

۸۴

صحیفۂ سجادیہ کی دعا نمبر ۴۵ میں آیا ہے'' وعفوک تفضل وعقوبتک عدل''بارالٰہا! تیری عفو و بخشش تیرے فضل کانتیجہ ہے اور تیرا عقاب عین عدالت ہے۔

ائمہ معصومین سے نقل ہے کہ نماز شب کے اختتام پر اس دعا کو پڑھا جائے ''وقد علمت یا الهیِ أَنّه لیس فی نقمتک عجلة ولا فی حکمک ظلم واِنَّما یُعجّل من یخاف الفوت واِنَّما یحتاج اِلیٰ ظلم الضعیف وقد تعالیت یا ألهی عن ذلک علواً کبیراً'' ( ۱ ) ''بارالٰہا ! میں جانتا ہو ںکہ توعقاب میں جلدی نہیں کرتا اور تیرے حکم میں ظلم نہیں پایا جا تا، جلدی وہ کرتاہے جو ڈرتا ہے کہ کہیں وقت ہاتھ سے نکل نہ جائے اور ظلم وہ کرتا ہے جو ضعیف اور ناتواں ہوتا ہے اور اے میرے پروردگار تو ان سے کہیں زیادہ بلند و برتر ہے'' ۔

عدالت خدا کے معانی

عدل کے اس مشہور معنی کے علا وہ (کہ خدا عادل ہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا) دوسرے کئی معانی پائے جاتے ہیں ۔

____________________

(۱) مصباح المتہجد شیخ طوسی ص ۱۷۳ (دعاء بعد از نماز شب )

۸۵

۱۔ خد اعادل ہے یعنی خالق کا ئنا ت ہر اس کا م سے دور ہے جو مصلحت اورحکمت کے خلا ف ہے ۔

۲۔ عدل یعنی : تمام لوگ خدا کی نظر میں ایک ہیں تمام جہات سے اور کو ئی بھی اس کے نزدیک بلند وبالا نہیں ہے مگر وہ شخص جو تقوی اور اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے کو فساد اور نابودی سے بچائے( اِنّ أَکرَمکُم عِند اللَّهِ أتَقاکُم اِنَّ اللّٰهَ عَلیمُ خَبیرُ ) بے شک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے اور اللہ ہر شی ٔ کا جاننے والا اور ہر بات سے با خبر ہے۔( ۱ )

۳۔ حق کے ساتھ فیصلہ او رجزا : یعنی خدا وند عالم کسی بھی عمل کو چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا اور حقیر کیو ں نہ ہو اس کے بجا لانے والے کا حق ضائع نہیں کرتا اور بغیر جزاء کے نہیں رہنے دیتا او ربغیر کسی امتیاز کے تمام لوگوں کو ان کے اعمال کی جزاملے گی

( فَمنْ یَعملْ مِثقالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرهُ وَمَنْ یَعمل مِثقالَ ذَرَّةٍ شَراً یَرهُ ) پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا او رجس نے ذرہ برابربرائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا ۔( ۲ )

۴۔ ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا'' العادل الواضع کُلّ شیئٍ موضعہ'' عادل وہ شخص ہے جوہر چیز کو اس کی جگہ پر قرار دے۔( ۳ )

خدا وند عالم نے تمام مخلوقات کو اس کی مناسبت سے خلق کیا ہے اور اس کے

____________________

(۱)سورہ حجرات آیة ۱۴

(۲) سورہ زلزال آیة ۷

(۳) مجمع البحرین کلمہ عدل

۸۶

اندر کی چیزیں اسی کے لحاظ سے خلق کی ہیں تمام موجودات عالم میں تعادل وتناسب پایا جاتاہے ''( أنبتنا فیها مِن کُلّ شیئٍ موزون ) ''( ۱ ) اور ہر چیز کو معینہ مقدار کے مطابق پیدا کیاہے۔

ہرکا م مقصد کے تحت : یعنی دنیا کی تمام تخلیق کا ایک مقصدہے اور اس دنیا کو خلق کرنے میں کچھ اسرارو رموز پوشیدہ ہیں اوراس دنیامیں کو ئی چیز بیکار و عبث نہیں ہے( أ فَحَسِبتُم انَّما خَلَقنَاکُم عَبثاً وَ أَنَّکم اِلینَا لا تُرجعُون ) کیاتمہا را خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بیکا ر پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لا ئے جا ئو گے( ۲ )

ان مذکورہ عدالت کے معانی پر اعتقاد اور یقین اور ان میں سے ہر ایک معنی کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنانے کی وجہ سے بہت سے اخلاقی آثار مرتب ہو ں گے عادل عدالت کا خواہاں ہو تا ہے ۔

____________________

(۱)سورہ حجر آیة ۱۹

(۲) سورہ مومنون آیة :۱۱۵

۸۷

سوالات

۱۔ کیو ں عدل کو اصول دین میں شامل کیا گیاہے ؟

۲۔ عدل خدا پر عقلی دلیل کیا ہے ؟

۳۔ ظلم کے اسباب کیاہیں ؟

۴ ۔ عدالت کے معانی بطور خلا صہ بیان کریں ؟

۸۸

بارہواں سبق

مصیبتوں اور آفتوں کا راز(پہلا حصہ )

یہ ثابت ہو جا نے کے بعد کہ خدا عادل ہے او ر اس کے تمام کام حکمت کی بنیاد پر ہیں کچھ ایسے مسائل ہیں جو واضح نہیں ہو سکے لہٰذا ان کو واضح کردینا ضروری ہے یعنی آفتیں اور بلائیں ،دردورنج ،ناکامی او ر شکست ،نقائص اور بحران خد اکی عدالت سے کیسے سازگارہے ؟

تھوڑا غورکرنے پر واضح ہوجاتاہے کہ یہ تمام حالات عدل الٰہی کے موافق رہے ہیں نہ کہ مخالف ،مذکورہ سوالات کے سلسلہ میں دو بہترین جواب دئے جا سکتے ہیں۔

۱۔ مختصر اور اجمالی ۲ ۔تفصیلی

اجمالی جواب:

جب عقلی اور نقلی دلیلو ں سے ثابت ہوچکا کہ خداحکیم و عادل ہے اور اس کی تمام تخلیق ہدف اور حکمت کے ساتھ ہے اور یہ کہ خدا وند متعال کسی شخص اورکسی کاکبھی بھی محتاج نہیں اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے خلا صہ یہ کہ وہ کوئی بھی کام خلاف حکمت انجام نہیں دیتا ،ظلم جوکہ سرچشمۂ جہل اورعاجزی ہے اس کا تصور ذات اقدس کے لئے ممکن ہی نہیں اس کے باوجود اب اگر ہم مذکورہ حوادث وحالات کے فلسفہ کونہ سمجھ سکیں تو ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ یہ ہمارے علم کی محدودیت اور اس کا قصور ہے ، چونکہ جس نے بھی خدا کو اس کے صفات کی روشنی میں پہچانا اس کے لئے یہ جواب کافی ووافی ہے ۔

۸۹

تفصیلی جواب :

ان مصیبتوں کے ذمہ دار خو د ہم ہی ہیں ۔انسان کی زندگی میں بہت زیادہ مصیبتیں دامن گیر ہوتی ہیں جس کی اصلی وجہ او رسبب خو د وہی ہے اگرچہ اکثر ناکامیوں کاسبب،سستی وکاہلی او رسعی وتلاش کو چھوڑ دینا ہے ۔

زیادہ تر بیماریاں شکم پرستی اورہوائے نفس کی وجہ سے آتی ہیں ،بے نظمی ہمیشہ بد بختی کا سبب رہی ہے اور اسی طرح اختلاف وجدائی ہمیشہ مصیبت اور بد بختی کا پیش خیمہ رہے ہیں اور تعجب تو یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں نے علت ومعلول کے رابطہ کو بھلاکر ساری مصیبتوں کا ذمہ دار خداکو ٹھرایاہے۔

ان باتوں کے علا وہ بہت سے نقائص اور کمیا ںجیسے بعض بچوں کا ناقص الخلقت ہو نا (اندھا ،بہرا اور گونگا ، مفلو ج ہو نا ) والدین کی کوتاہی او ر شریعت کے اصول و قوانین کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے ہے ، اگر چہ بچہ کا کوئی قصور نہیں لیکن یہ والدین کے جہل او رظلم کا طبیعی اثر ہے (بحمد اللہ معصوم ہادیوں نے ان نقائص کو روکنے کے لئے کچھ قوانین بتائے ہیں یہاں تک کہ بچے کے خوبصورت اور با استعداد ہونے کے لئے بھی قوانین وآئین بتائے ہیں ) ۔

۹۰

اگر والدین نے ان قوانین کی پیروی نہیں کی تو عا م سی بات ہے کہ اس نواقص کے ذمہ دار ہو ں گے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی خدا کی طرف منسوب نہیں کر سکتے بلکہ یہ ایسی مصیبت ہیں جسے انسان نے خود اپنے یا دوسروں کے لئے پال رکھی ہے۔ قرآن اس جانب اشارہ کرتا ہے :( مَا أَصَابَک مِن حَسنَةٍ فَمِن اللّٰه وَمَا أَصَابَک مِن سَیئَةٍ فَمِن نَفسِک ) جو بھی نیکیاں(اچھائیاں او رکا میابیاں) تم تک پہونچی ہیں وہ خدا کی جانب سے ہے اور جو بھی برائیاں( بدبختیاںاور ناکامیاں) تمہا رے دامن گیر ہو تی ہیں وہ خود تمہاری کرتوتوں کا نتیجہ ہیں۔( ۱ )

اور دوسری جگہ قرآن فرماتاہے :( ظَهَر الفَسَادُ فی البَرِّ وَالبَحرِ بِما کَسبَت أَیدیِ النَّاسِ لِیُذِیقهم بَعضَ الّذیِ عَمِلوا لَعَلَّهُم یُرجَعُونَ ) لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے دریا اور خشکی میں فساد پھیل گیا (لہٰذا ) خدا ان کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھا دینا چاہتا ہے شاید وہ بدل جا ئیں۔( ۲ )

نا پسند واقعات او رالٰہی سزائیں

حدیثوں میں بھی متعدد مقامات پر اس طرح ذکر ہو ا:انسانوں کے دامن گیر ہونے والی مصیبتوں کا زیاد ہ تر حصہ گناہو ں کی سزا کا ہو تا ہے ۔

ایک حدیث میں امام علی رضا ںسے روایت ہے :''کلّما أحدث العِباد من الذنوب ما لم یکونوا یعملون أحدث لهم من البلا ء ما لم یکونوا

____________________

(۱) سورہ نساء آیة ۷۹

(۲) سورہ روم آیة ۴۱

۹۱

یعرفون ''جب بھی خدا کے بندے ایسے گناہو ںکو انجام دیتے ہیں جنہیں کبھی پہلے انجام نہیں دیا تھا توخدا انہیں نامعلوم اور نئی مصیبتوں میں گرفتار کردیتاہے ۔( ۱ )

حضرت امام صادق سے منقول ہے :''أِنَّ الرجلَ لیذنب الذنب فیحرم صلا ة اللیل واِنَّ عمل الشَّرأسرع فی صاحبه من السکین فی اللحم ''کبھی انسان ایسے گنا ہ کو انجام دیتا ہے جس کے نتیجہ میں نماز شب سے محروم ہو جا تاہے (کیونکہ ) برے عمل کا برا اثر اس کے انجام دینے والے میں اس چاقو سے زیادہ تیز ہو تا ہے جوگوشت کو کا ٹنے میں ہو تا ہے۔( ۲ )

حضرت علی ابن ابی طالب ں فرماتے ہیں : کسی قوم کی خوشی اور نشاط اسی وقت چھنتی ہے جب وہ براکام انجام دیتی ہے کیو نکہ خدا بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔( ۳ )

ایک دوسری جگہ امام علی فرماتے ہیں : گناہو ںسے دوری اختیار کرو کیونکہ تمام بلا ئیں او رمصیبتیں ،روزی کا کم ہو نا ،گناہ کی وجہ سے ہے یہاںتک کہ بدن میں خراش کا آنا ،ٹھوکر کھا کر گر جانا ،مصیبتوں میں گرفتار ہو نا ،یہ سب گناہ کا نتیجہ ہے، خداوند متعال کا ارشاد ہے : جو بھی مصیبت تم تک آتی ہے وہ تمہا رے ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔

____________________

(۱) سابق ، ،ص ۳۵۸

(۲) نہج البلا غہ خطبہ ۱۷۸

(۳) سورہ نساء ۷۹ ،بحارالانوار ج ۸۳ ،ص ۳۵۰(مزید معلومات کے لئے تفسیر برہان ج،۴ ص ۱۲۷ او رنور الثقلین آیة ۷۸ کے ذیل میںاو ر بحارالانوار ج، ۷۸ ،ص ۵۲ کی طرف رجوع فرمائیں

۹۲

عذاب او رسزا کے عمومی ہونے پر کچھ سوال

بہت سی مصیبتیں اور بلا ئیں تاریخی شواہد ،حدیثوں او رقرآن کی روشنی میں عذاب او ر سزا کے عنوان سے ہو تی ہیں۔

لیکن یہاں پر جو سوال ذہن میں آتاہے وہ یہ ہے کہ عذاب او رسزائوں میں گرفتار ہونے والے افراد دوطرح کے ہیں ،ظالم اور مظلوم ،مومن او رکافر توآخر سبھی لوگ کیو ںعذاب میں گرفتار ہو کر ہلا ک ہوگئے ۔؟

جو اب : اسلا م کی رو سے مظلو مین یا مومنین کی مشکلا ت او رمصیبتیں نہی عن المنکر کو ترک کرنے او ر گمراہی وظالمین کامقابلہ نہ کرنے کی وجہ سے ہے( اِتقُوا فِتنةً لاتُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنکُم خَاصةً ) ایسے فتنہ سے بچو جس کے اثرات صرف ظالموں تک ہی نہیں بلکہ سبھی کو گھیرلیتے ہیں۔( ۱ )

قال رسول اللّه صلیٰ اللّه علیه وآله وسلم : لتامرنَّ بالمعروف ولتنهنَّ عن المنکر أو لیعمنکم عذاب اللّه ( ۲ ) امر بمعروف اور نہی عن المنکر ضرور انجام دو ورنہ خدا کا عمومی عذاب تم کو بھی گھیرلے گا ۔

دوسراسوال یہ ہے : کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ گنہگار وں او رظالموں کی دنیاوی زندگی بہت اچھی ہے او ر انہیں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں، جبکہ ان کے مقابل نیک اور مومن لوگو ں کو پریشان حال دیکھتے ہیں آخر ایسا کیوں ؟۔

جو اب:آیات و روایات کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ ظالموںاور گنہگاروں کو مہلت اور نعمتیں ان کے عذاب کی شدت کا باعث ہے ۔

____________________

(۱) سورہ انفال آیة ۲۰

(۲)وسائل الشیعہ جلد ۱۱،ص۴۰۷

۹۳

( وَلَا یَحسَبَنَّ الَّذینَ کَفَروا أَنَّما نُملیِ لَهم خَیرُ لأنفُسِهِم اِنَّما نُملیِ لَهُم لِیَزدادوا ثماً وَ لَهُم عَذابُ مُهِینُ ) ( ۱ )

کفار ہر گز اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ اگر ہم نے ان کو مہلت دے دی تو اس میں ان کی بھلا ئی ہے ،ہم نے ان کو اس لئے مہلت دی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ گنا ہ کریں ، سخت عذاب ا ن کے انتظار میں ہے ۔

حضرت علی ںنے فرمایا :''یابن آدم اِذا رأیتَ ربکَ سبحانه یُتابع علیک نعمة وأَنت تعصیه فاحذره'' فرزند آدم جب تم یہ محسوس کرنا کہ خدا نا فرمانی کے باوجود تم پر نعمتوں کی بارش کر رہا ہے تو اس سے ہوشیار رہنا( ۲ )

امام صادق فرماتے ہیں :

اِذا أَراد اللّه بعبد خیراً فأذنب ذنباً تبعه بنقمة فیذکره الاستغفار واذا أراد اللّه بعبدٍ شراً فاذنب ذنبا تبعه بنعمة لینسیه الاستغفار ویتمادی به وهو قول اللّه عزَّوجلَّ ( سنستدرجهم من حیث لا یعلمون ) بالنعم عند المعاصی'' ( ۳ ) جب خدا کسی بندہ کی بھلا ئی اور خوش نصیبی چاہتا ہے تو اس کے گناہ کرنے پر کسی پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے او راسے استغفار کی طرف متوجہ کر تا ہے ،اور جب (نا فرمانی او رسر کشی کی وجہ سے ) کسی بندہ کی

____________________

(۱)سورہ آل عمران آیة ۱۷۸

(۲)شرح ابن الحدید ، ج،۱۹ ص ۲۷۵ ۔

(۳) اصول کا فی ج، ۲،باب استدراج ، حدیث ۔۱

۹۴

تباہی وبربادی چاہتا ہے تو اس کے گناہ پر ایسی نعمت دیتا ہے جس سے استغفار کو بھول جائے اور اپنی عادت پر باقی رہ جائے ۔

اور یہ وہی چیز ہے جس کے بارے میں خد اکا ارشاد ہے ، ہم انہیں آہستہ آہستہ ایسے راستوں سے عذاب کی طرف لے جا تے ہیں کہ ان کو خبر تک نہیںہو پا تی اور وہ یہ کہ نافرمانی کے موقع پر ہم انہیں نعمت عطا کر دیتے ہیں ۔

سوالات

۱۔ ناپسندواقعات کااجمالی جواب تحریر کریں ؟

۲۔ اپنی کمائی ہو ئی مصیبتوں سے مراد کیاہے ؟

۳۔ مومنین ومظلومین مشکلا ت سے کیوں دوچار ہیں حدیث رسول بیا ن کریں ؟

۴۔ عذابِ تدریجی کی تعریف کریں ؟

۹۵

تیرہواں سبق

مصائب وبلیات کا فلسفہ (حصہ دوم )

مومنین کے لئے بلا ء ومصیبت ا ن کے علو درجات کے لئے ہے او ر کبھی ان کی یاد دہانی اور بیداری کے لئے بعض وقت ان کے گناہو ں کا کفارہ ہیں اور یہ سب کی سب چیزیں خدا کی طرف سے مومنین پر لطف ہیں ۔

امام صادق فرماتے ہیں:''اِنَّ عَظیم الأجرِ لمَع عظیم البلا ء وما أحب اللّٰه قوماً الا ابتلاهم' ' اجرت کی زیادتی بلا ئوں کی کثرت پر ہے اور خدا جس قوم کو دوست رکھتا ہے اس کو بلا ئو ں میں مبتلا ء کرتا ہے۔( ۱ )

امام باقرں فرماتے ہیں:''لو یعلم المؤمن ماله فی المصائب من الاجر لتمنی أَنَّه یُقرض بالمقاریض'' اگر مومن کو اس بات کاعلم ہو جائے کہ آنے والی مصیبت کااجر کتنا ہے تو وہ اس بات کی تمنا کرے گا کہ اس کو قینچیوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔( ۲ )

امام علی ں فرماتے ہیں:''مَن قَصَّر فی العمل ابتلیٰ بالهم ولا

____________________

(۱) بحار جلد ۶۷ ،ص۲۰۷

(۲) بحار جلد ۸۱ ،ص ۱۹۲ ۔

۹۶

حاجة للّٰہ فِیمَن لیس للّہ فی نفسہ وما لہ نصیب'' جس نے اعمال میں کمی کی وہ مشکلا ت کا شکار ہو ا اور جس کے جان ومال میں کسی قسم کا نقصان نہ پایا جائے تو وہ لطف خدا کا مستحق نہیں ہے۔( ۱ )

امام صادق نے فرمایا:ساعات الأَوجاعُ یُذهبنّ بساعات الخطایا ( ۲) مصیبت کی گھڑیا ں خطا کے لمحات کو مٹادیتی ہیں۔ (بیماری گناہوں کا کفارہ ہے ) ۔دوسری جگہ امام صادق فرماتے ہیں :لا تزال الغموم والهموم بالمؤمن حتی لاتدع له ذنباًً ( ۳ ) مومن ہمیشہ مصیبت وبلا ء میں اس لئے گرفتار رہتا ہے تاکہ اس کے گنا ہ باقی نہ رہ جائیں ۔

امام رضا ںنے فرمایا :المرضُ للمؤمن تطهیرو رحمة و للکافر تعذیب ولعنة وأَن المرضَ لا یزال بالمؤمن حتیٰ لا یکون علیه ذنب ( ۴ ) مومن کی بیماری اس کی پاکیزگی او ررحمت کا سبب ہے او رکا فر کے لئے عذاب و لعنت کا سامان ہے ،مومن ہمیشہ بیماری میں مبتلارہتا ہے تاکہ اس کے سارے گناہ بخش دئیے جائیں ۔

امام باقر ںفرماتے ہیں :''أِنَّما یُبتلیٰ المؤمن فی الدنیا علیٰ قدر دینه او قال علی حسب دینه' ' مومن دنیا میں مراتب دین کے تحت مصیبت میں مبتلاہو تا ہے۔( ۵ )

____________________

(۱) بحار الانوار ج،۸۱ ص ،۱۹۱۔(۳)بحار الانوار جلد۶۷باب ابتلاء لمومن

(۲)بحار الانوار جلد،۸۱ص،۱۹۱(۴)بحار الانوار جلد۸۱، ص،۱۸۳(۵) بحار الانوار ج،۸۱ ص ،۱۹۶۔

۹۷

دوسری حدیث میں امام صادق نے فرمایا :مومن کے لئے چالیس شب نہیں گذرتی کہ اس کے اوپر کو ئی بڑی مصیبت آپڑتی ہے تاکہ وہ ہو شیار ہوجائے ۔( ۱ )

قرآن مجید میں کم وبیش، بیس مقامات پر امتحان الٰہی کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے ۔یہ امتحان خدانے ہم سے آگا ہی کے لئے نہیں لیا ہے کیونکہ وہ ابتداء ہی سے ہم سے با خبر ہے بلکہ اس امتحان میں تربیت کاایک پہلو ہے۔ الٰہی امتحانات روح اورجسم کے لئے تکامل کاذریعہ ہیں او ردوسری طرف امتحان کے بعد جزاوسزا کا استحقاق ہے( وَلَنَبلُونَّکُم بِشَیئٍ مِن الخَوفِ والجُوعِ وَنَقصٍ مِن الأموالِ وَ الأنفُسِ والثَّمراتِ و بَشّر الصَّابِرینَ ) ( ۲ ) او رہم یقینا تمہیں تھوڑے خوف، تھوڑی بھوک اور اموال ونفوس او رثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر! آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ۔( وَنَبلُونَّکُم بالشَّرِّ والخَیرِ فَتنة واِلینا تُرجعَونَ ) ( ۳ ) اور ہم تو اچھائی او ربرائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے اور تم سب پلٹا کر ہماری بارگاہ میں لائے جائوگے ۔

مولائے کائنا ت نے فرمایا :...ولکنّ اللّهَ یختبر عباده بأنواع الشدائد ویتعبدهم بأنواع المجاهد و یبتلیهم بضروب المکاره ( ۴ )

خدا وند تعالی اپنے بندوں کو مختلف سختیوں کے ذریعہ آزماتاہے او ربندے کو مختلف مشکلوں میں عبادت کی دعوت دیتا ہے اور متعدد پریشانیوں میں مبتلا کر تا ہے ۔

____________________

(۱)بحار الانوار جلد۶۷باب ابتلاء لمومن

(۲) سورہ بقرہ آیة ۱۵۵

(۳) سورہ انبیاء آیة ۳۵(۴)نہج البلا غہ خطبہ ۱۹۲

۹۸

فلسفہ مصائب کا خلا صہ اور نتیجہ

بہتیرے اعتراضات، عدل الٰہی کے سلسلہ میں جہالت او ربلا ء و مصیبت کے فلسفہ کو درک نہ کرنے کے باعث ہو ئے ہیں مثلایہ خیال کریں کہ موت فنا ہے اور اعتراض کر بیٹھیں کہ فلاں شخص کیو ں جوانی کے عالم میں مر گیا اور اپنی زندگی کا لطف نہ اٹھا سکا ؟ ہم یہ سوچتے ہیں کہ دنیا ابدی پناہ گاہ ہے لہٰذا یہ سوال کرتے ہیں کہ سیلا ب اور زلزلے کیو ں بہت سارے لوگو ں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ہے ؟ ہماری فکر کے اعتبار سے یہ دنیا آرامگاہ ہے تو پوچھتے ہیں کہ بعض لوگ بے سروسامان کیوں ہیں ؟۔

(یہ سارے سوالات ) ان لوگو ں کی مانند ہیں جو دوران درس اعتراضات کی جھڑ لگادیتے ہیں کہ چائے کیاہوئی ،کھا نا کیوں نہیں لاتے ،ہما را بستر یہاں کیوں نہیں ہے ؟ان سارے سوالوں کے جواب میں صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ درس گا ہ ہے مسافر خانہ نہیں ۔در حقیقت گزشتہ سارے اعتراضات کابہترین راہ حل اس دنیا کو پہچاننا اور موجودات عالم کے مقصد خلقت کو درک کرنا ہے ۔

سوالات

۱۔مومنین دنیا میں مصائب وآلا م کے شکا رکیو ں رہتے ہیں ؟

۲۔ خدا اپنے بندو ں کا امتحان کیو ں لیتا ہے ؟

۳۔ فلسفہ ٔمصائب کا خلا صہ او رنتیجہ بیان کریں ؟

۹۹

چودہواں سبق

اختیار او ر میا نہ روی

شیعہ حضرات ائمہ معصومین کی اتباع کی بناپر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مشیت الٰہی کے باوجود انسان اپنے کام میں صاحب اختیار ہے ۔

کسی کا م میں اختیا ر ،ارادہ ،انتخاب ان سب کا ہو ناایک ناقابل انکا ر شیٔ ہے اس کے باوجود بعض لوگوںنے اپنے ضمیر اور فطرت کی مخالفت کرتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکا ر کر دیا ۔بعض افراد اس کے مقابل میں تفویض کے قائل ہو گئے ۔

آخرکار: اس بحث میں تین نظریہ قائم ہو ئے ہیں ۔

۱ ۔ جبر و بے اختیار: ا س نظریہ کے قائل افراد کہتے ہیں کہ انسان اپنے کاموںمیں ذرہ برابر بھی اختیار نہیں رکھتا ۔ او رانسان کسی ماہر فن کے ہاتھ میں بے شعور اوزار کی طرح ہے ،اور جوکچھ بھی معرض وجو د میں آتا ہے وہ مشیت خد اہے ۔

۲۔ تفویض یا آزادی:اس نظریہ کے معتقد افراد کاکہنا ہے کہ خد انے انسانوں کو خلق کر کے اور دل و دماغ کی قوت بخش کے انہیں ان کے کاموں میں مکمل اختیار دے دیا ہے لہٰذا ان کے افعال وکردار میں خد ا کا کو ئی دخل نہیں او رقضا و قدر کابھی کو ئی اثر نہیں ہے ۔

۳۔اختیار یا میانہ روی ۔ نہ جبر نہ تفویض بلکہ اختیارا ور امر بین الامرین (میانہ روی)

۱۰۰