اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار0%

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 103

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

مؤلف: آیت اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 103
مشاہدے: 35314
ڈاؤنلوڈ: 3325

تبصرے:

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 103 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 35314 / ڈاؤنلوڈ: 3325
سائز سائز سائز
اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

مؤلف : آیة اللہ محمد مہدی آصفی

مترجم: سید شاہد رضا رضوی السونوی

تصحیح: محمد کامل

نظر ثانی: مرغوب عالم عسکری

پیشکش: معاونت فرہنگی ،ادارۂ ترجمہ

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت (ع)

طبع اول : ١٤٢٧ھ ٢٠٠٦ ء

تعدد : ٣٠٠٠

مطبع : اعتماد

www.ahl-ul-bayt.org

Info@ahl-ul-bayt.org

۳

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلامکی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علّام آقای آیة اللہ محمد مہدی آصفی کی گرانقدر کتاب وہابیان کو فاضل جلیل مولاناسید شاہد رضا رضوی الہ آبادی السونوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

مقدمہ

کتاب حاضر ''الجسور الثلاثہ ''کے عنوان پر حضرت آیة اللہ محمد مھدی آصفی صاحب قبلہ دام ظلہ العالی اس کتاب (الجسور الثلاثہ) کو رشتہ تحریر میں لائے، جس کو مرکز ''الغدیر'' نے زیور طبع سے آراستہ کیا۔

اپنے اس تحلیل و تجزیہ میں، مؤلف نے مغربی و انگریزی، ثقافتی اور مذہبی یلغار کو جس میں ماضی اور دور حاضر کے باہمی روابط کے پلوں کو توڑ کر عصر حاضر کو گذشتہ امتوں سے رشتہ توڑ کر اسے اپنے حملے کا نشانہ بنایا ہے، اسی حملہ کی وضاحت کرتے ہوئے مؤلف نے ان باہمی روابط پیدا کرنے والے پلوں کا تعارف کرایا ہے، باہمی روابط پیدا کرنے والے پلوں، ان کے کردار نیز ان کی حیثیت کو بھی بیان کیا ہے اور یہ باہمی ربط پیدا کرنے والے پل حسب ذیل ہیں:

گھر، مدرسہ اور مسجد

علامہ مجاہد حضرت آیة اللہ محمد مہدی آصفی صاحب قبلہ کی نظر میں قدامت پسندی اور (فکرنو) جدت پسندی میں کوئی مقابلہ اور ٹکراؤ نہیں ہے۔ اس لئے کہ کوئی بھی سمجھدار انسان نئے پن اور جدت پسندی کی ضرورت اور اس کی حتمیت اور قطعی ہونے کا منکر نہیں ہے، چونکہ جدت پسندی اور فکرنو یہ ہمارے معاشرہ کی شدید ضرورت ہیں؛ بلکہ ہمارے اختلاف کا اصلی مرکز اور محور، کاٹ چھانٹ اور اس کے ملانے (جوڑ توڑ) سے متعلق ہے۔ اسی بنا پر اعتراض اور اشکال کو مندرجہ ذیل دو بنیادی سوالوں میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے:

(١) ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیلی اور تغیر کیسے واقع ہو سکتا ہے؟

(٢) کیا یہ کام جڑوں کے کاٹ دینے اور ان کو سرے سے ختم کر دینے سے امکان پذیر ہو سکتا ہے؟ یا ان کو آپس میں ملا دینے اور ان کی بنیادوں میں ایک نئے روابط نیز باہمی اور اخلاقی بالا دستی کے ذریعہ اس بات کو ممکن بنایا جا سکتا ہے کہ قوموں اور نسلوں کو ایک دوسرے سے نزدیک اور ان کو باہم متصل کیا جائے؟

۷

انھیں دو سوالوں اور اعتراضوں کے ذریعہ مصنف نے اس مسموم تحریک (مذہب اور ثقافت سے جدائی کی تحریک) کی علامتوں، ان کی شناخت اور پہچان کے ذریعہ ان کے وجود، اس (مغربی تحریک) کی طرف دعوت دینے اور اپنی طرف جذب کرنے والے افراد اور اس (تحریک) کے نمودار اور آشکار ہونے والے آثار کے بارے میں اِن سوالوں کا جواب دیتے ہیں، ان کی نظر میں ایک نسل کو دوسری نسل سے جدا کر نے کی تحریک نے ابتدا میں ملت اسلامیہ کو ان کی گذشتہ تہذیب و ثقافت اور تاریخ میں گہری جڑیں رکھنے والی قدیمی وراثت سے جدا اور بے دخل کر دیا نیز اپنے سر میں یہ سودا پال لیا کہ اسلامی تہذیب و ثقافت کو نسل نو کے سامنے مسخ اور اس کا چہرہ بگاڑ کر ا س کے سامنے پیش کیا جائے؛ تا کہ وہ اپنی حقیقی اور واقعی دینی وراثت سے بالکل نا واقف رہیں۔ لیکن خدا وند عالم کا ارادہ یہ ہے کہ امت اسلامی کو خواب خرگوش سے بیدار کرکے اس امر کی طرف متوجہ کر دے؛ لہذا ملت اسلامیہ پر لازم ہے کہ خواب غفلت کو چھوڑ کر اپنے مذہبی اور ثقافتی امور میں چوکنّا، ہوشیار اور چاک و چوبند رہے اور عنقریب پیش آنے والے خطروں سے استقامت کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیلئے ہمیشہ ایک جانباز سپاہی کے مانند چو کنا رہے؛ اسی لئے مسائل اور حالات سے آگاہ اور مخلص لوگ اپنی اولاد کو حقیقی طرز نو اور جدت پسندی سے متعارف کرانے کے لئے فکر نو کی نشاندہی کرنے اور آپس میں باہمی ارتباط پیدا کرنے والے ان پُلوں کی تعمیر نو اور اُن کو ہر قسم کے یلغار اور حملوں سے بچانے کے لئے آمادہ کر لیا ہے۔

اس مقام پر امت اسلامی کے دشمن تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں اور دین و مذہب پرنا گہانی مخفیانہ حملہ کر نے کی گھات میں ہیں، اس طرح سے کہ وہ خود سمجھتے ہیں کہ ظاہر بظاہر اور آمنے سامنے ان سے مقابلہ کرنا آسان کام نہیں ہے لہذا ہمیں مغربی مکرا ور حیلوں سے مقابلہ کرنے اور اس سے نمٹنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ مغرب اور مغرب زدہ لوگوں سے مقابلہ کر نے کے لئے مناسب ساز و کار اور وسائل کے بارے میں پور ی جان کاری حاصل کرلی جائے، اس کے بعد اس مقام پر ہمیں ہر قسم کے ضروری ا سلحوں سے مسلح ہوکر پوری تیاری کر لینی چاہئے۔ اس قیمتی اور بااہمیت تحقیقی ترجمہ کو آپ (باذوق) قارئین کی نذر قرأت کر رہا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ اس ناچیز خدمت کے ذریعہ مسلمانوں کے اس عظیم جہاد میں، میں بھی شریک ہو کر سرخرو ہو جائوں۔

۸

پیش لفظ

گو کہ ترجمہ اور ترجمہ نگاری بہت ہی دشوار گذار وادی میں قدم رکھنے کے مترادف ہے لیکن مؤلف موصوف کے اس تجزیاتی اور تحقیقی بیان نے مجھے مسخر کر لیا اور میں مجبور ہو گیا کہ اس کتاب یعنی الجسور الثلاثہ کا ترجمہ اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار کے نام سے کروں ''الجسور الثلاثہ ''باہمی ارتباط پیدا کرنے والے تین پُل جو نسل حاضر کو نسل گذشتہ اور آیندہ سے جوڑتے ہیں اس کتاب کے مؤلف کی علمی شہرت جنگل کی آگ کی طرح علمی حلقوں کے درمیان پھیل گئی اور پھر عوام الناس بھی آپ کے فیض وجود سے بہرہ مند ہو نے لگے، اس طرح آہستہ آہستہ آپ مکمل اور ہمہ جہت شخصیت کے طور پر پہچانے جانے لگے اور اپنے علمی آثار کے ذریعہ ہر دل عزیز اور سبھی لوگوں کے محبوب ہوگئے۔ مختلف علوم و فنون میں آپ کی درجنوں کتابیں دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوکر مو منین کے دل و دماغ کو تازگی عطا کر کے ان کے ایمان و عمل کو جلا بخش رہی ہیں۔

آپ کی کتابوں کا خاصہ یہ ہے کہ آپ نے زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر قوم و ملت کو صحیح نسخہ تجویز کرکے ان کو شفا خانۂ اہل بیت علیہم السلام کی طرف مناسب نشان دہی کردی ہے۔ آپ کا تجزیاتی انداز نگارش و تحریر، لوگوں کے دلوں کو اپنے مقناطیسی مدار میں کھینچ کر اپنی طرف مائل کر لیتے ہیں۔ اگر آپ کے لطیف اور ظریف بیان میں ذرا سی دقت اور غور فکر کیا جائے تو کوئی بھی متفکر بغیر متأثر ہوئے نہیں رہ سکتا۔

اس کتاب میں اسلام و مسلمین کے جانی دشمن مغربی اور انگریزی تمدن، اس کے دعویدار اور علمبر داروں کی حرکات و سکنات اور راہ وچاہ کی طرف پوری توجہ مبذول کرائی ہے۔ دینی اور تربیتی مراکز کی نشان دہی کرکے اس پر ہونے والے حملے کو پوری طرح اجاگر کر دیا ہے؛ اس کے بعد ملت اسلامیہ کو مغربی دشمن سے نمٹنے کے مختلف طریقے اور راہ و چاہ مناسب تدبیر سے آگاہ کردیا ہے۔ اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دشمنوں نے اسلامی گرانقدر وراثتوں کو کن کن حیلوں اور بہانوں سے برباد کردیا ہے یا پھر پورے طور پر برباد کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ تعجب کا مقام تو یہ ہے کہ اس کے بعد بھی بہت سے بھولے بھالے یا پھر مغربی تمدن کے مستعار حکام و سلاطین اور صاحبان قلم اور دانشوروں کے ریلے نے انگریزوں یا ان کی بدبودار تہذیب سے گرویدہ ہو گئے، یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائیکہ وہ لوگ احساس کمتری کے شکار ہوگئے ہیں یا پھر وہ لوگ خود فروختہ اور بے زر خریدہ غلام بن گئے اور ان کا گن گانے لگے اور انھیں کے تابع محض ہو کر رہ گئے۔

۹

نتیجہ یہ ہوا کہ انھیں بھولے بھالے مسلمان دانشوروں کے ہاتھوں میں تیشہ د ے دیا گیا اور اپنے آپ یہ لوگ تمدن اسلامی کے سایہ دار درخت کو کاٹنے پر تُل گئے اور اپنی ہی قدیمی تاریخی تہذیب و ثقافت کو جڑ سے ختم کرنے کے در پے ہو گئے اور اس طرح لوگوں کو مغربی تہذیب و ثقافت کی طرف شوق دلانے میں مصروف ہو گئے جیسے ان کا تعلق کسی بے گانہ ثقافت سے ہو کہ وہ برائے نام مسلمان بھی باقی رہیں اور اسلامی روح کا جنازہ دھوم سے اپنے کندھوں پر نکال دیں۔ ترقی کے نام پر دینی ارتقائی اور اقتصادی نظام کو یکسر بھلا دیا اور انگریزوں کے پیچھے پیچھے ان کے نقش قدم پر چلنے، دین و مذہب کو ترقی کی راہ میں مانع اور سد راہ گرداننے لگے اور اس طرح انھیں نے اپنے ترقی یافتہ دینی اقتصادی اور ترقیاتی نظام کو یکسر پس پشت ڈال دیا۔

ان سب چیزوں پر مصنف موصوف نے بڑے ہی آب و تاب کے ساتھ روشنی ڈالی اور دشمن کے حملوں کی کاٹ، اس کا دفاع اور تاریخی حقائق کو تجزیاتی طور پر بڑے ہی ماہرانہ انداز میں پیش کیا ہے، اسی طرح اسلام کی مخالفت کرنے والوں کا پردہ فاش کر کے ان کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ وہ اس بہانے سے اسلام اور اسلامی ثقافتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنا چاہتے ہیں؛ ورنہ یہ لوگ خود ''فولکلور'' یعنی تودہ شناسی قدیم جاہلی ثقافت اور تمدن کی وسعت کے لئے اتنی تگ و دو نہ کرتے۔ اسی طرح آثار قدیمہ کے احیا میں خاص عقائد اور مجرمانہ فکر کے حامل لوگ کروڑوں روپئے خرچ نہ کرتے۔ اس کام سے ان کا اصلی مقصد یہ تھا کہ دین مبین اسلام کو ہستی سے ساقط اور نیست و نا بود کر دیں۔

اسی لئے میں نے یہ چاہا کہ دشمنوں کے چہروں پر پڑی ہوئی نفاق کی نقاب کو، دوسری مختلف زبانوں میں ترجمہ کے ذریعہ اس کو نوچ کر پھینک دوں اور مسلمانوں کو ان عظیم خطروں کی طرف توجہ دلاتا چلوں کہ اہل اردو حضرات بھی اس تجزیاتی بیان سے استفادہ کر سکیں او ر اس طرح دوست و دشمن کی بخوبی پہچان کرلیں نیز بڑی ہی ہوشیاری، تدبیرو فراست اور کیاست کے ذریعہ اچھے اور برے کی تشخیص دے لیں نیز ہر ظاہری زرق و برق سے دھوکہ نہ کھائیں۔

۱۰

دوستوں کے اصرار اور اپنے شوق کی خاطر میں نے اس ترجمہ کو شروع کردیا اور اب بحمد للہ بڑی ہی کوششوں سے پورا ہوگیا ہے۔ اس ناچیز کی استدعا ہے کہ اس کتاب میں جو نقائص پائے جاتے ہوں (جیسا کہ غیر معصوم کا خاصہ بھی یہی ہے) اس کے بارے میں حقیر کو ضرور یاد دہانی کرا دیں؛ اگرچہ میں نے اس ترجمہ میں اپنے تئیں بہت ہی دقت سے کام لیا ہے۔

آخر کلام میں، سب سے پہلے میں مجمع جہا نی اہل البیت علیہم السلام اور اس کے خادمین کا تہہ دل سے شکر گذار ہوں جنھوں نے اس ناچیز خدمت کے ذریعہ حقیر کو خادمین مذہب و ملت میں شامل کردیا ہے ۔ میں ہر قسم کا تعاون کر نے والے احباب اور افاضل کا شکر گذار ہوں جنھوں نے نظر ثانی اور تحریر و ترتیب (کمپوزنگ) میں مدد کرکے اس تحریر میں چار چاند لگا دیا ہے میں ان افاضل کا تہہ دل سے شکر گذار ہوں۔

والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ

سید شاہد رضا رضوی الہ آبادی السونوی

حوزۂ علمیہ قم مقدسہ ایران

۱۱

مؤلف کی زندگی اور ان کے آثار کی ایک جھلک

حضرت آیة اللہ محمد مھدی آصفی دام ظلہ ١٩٣٨ء مطابق ١٣١٧ ہجری شمسی میں نجف اشرف میں پید اہوئے۔ آپ کے والد شیخ علی محمد آصفی کا شمار اس زمانہ کے بر جستہ فقہا اور حوزہ علمیہ نجف اشرف کے بہت ہی اہم اساتید میں ہوتا تھا۔ آپ کے والد کے متعدد آثار، قرآنی موضوعات پر بطور یادگار آج بھی قارئین کرام کی آنکھوں کو خیرہ کر رہے ہیں۔

آیة اللہ محمد مھدی آصفی صاحب قبلہ دامت برکاتہ ابتدائی تعلیم اور قدرے دورہ متوسطہ گذارنے کے بعد، دینی تعلیم کے میدان میں وارد ہوئے۔ اس کے مقدمات، منجملہ نحو، صرف، منطق اور بلاغت،کے حصول میں مشغول ہوگئے۔

دروس سطح مثلاً فقہ و اصول اور فلسفہ کو اس زمانہ کے معروف اساتذہ، مرحوم شیخ صدر الدین باد کوبی، شیخ مجتبیٰ لنکرانی، سید جعفر جزائری رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اور اپنے والد مرحوم طاب ثراہ کے پاس حاصل کیا۔ درس خارج، اصول و فقہ کے لئے حضرت آیة اللہ میرزا باقر زنجانی مرحوم کے پاس زانوئے ادب تہہ کیا نیز آیة اللہ حسین حلی مرحوم و آیة اللہ العظمی ٰالحاج آقائے سید محسن الحکیم قدّس اللّٰہ نفسہما کے پاس شاگردی کا شرف حاصل کیا۔ اور ایک مدت تک آپ بانیٔ انقلاب آےة اللہ العظمی ٰحضرت امام الحاج آقائے سید روح اللہ الخمینی قُدّس سرّہ الشریف کے درس مکاسب میں حاضر ہوتے رہے، لیکن حصول علم میں آپ نے حضرت آیة اللہ العظمیٰ الحاج آقائے سید ابوالقاسم الخوئی طاب ثراہ سے سب سے زیادہ کسب فیض کیا۔

آپ نے حوزوی علوم کے حصول کے ضمن میں رائج تعلیمی نظام میں بھی بغداد یونیورسٹی کے شعبۂ معارف اسلامی سے بی اے کی سند حاصل کی اور اس کے بعد ایک عرصہ تک عراق کی موجودہ بَعثی حکومت کی سی، آئی، ڈی، ( C.I.D .) (ادارۂ اطلاعات اور خفیہ ایجنسی) کے تحت تعقیب رہے، اس کے بعد سات مہینہ رو پوشی کے زمانہ کو گزارتے ہوئے سوریہ کے راستہ ایران کی طرف ہجرت کی؛ اس طرح وہ جاں بر ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

۱۲

آپ ایران میں ایک مدت تک حضرت آیة اللہ العظمیٰ الحاج آقائے سید محمد رضا الموسوی گلپائیگانی اور آیة اللہ میرزا ہاشم آملی کے درس میں حاضر ہوئے اور آیة اللہ الحاج میرزا ہاشم آملی طاب ثراہ سے اجازہ اجتہاد یعنی سند اجتہاد بھی حاصل کرلی۔

حضرت استاد آیة اللہ مہدی آصفی صاحب قبلہ دامت برکاتہ اپنی طالب علمی کے دوران سے ہی حوزۂ علمیہ نجف اشرف او رپھر اس کے بعد، ڈگری کالج اور اسی طرح حوزۂ علمیہ قم میں بھی، فقہ و اصول، قرآنی علوم،تفسیر و فلسفہ کے شعبوں میں تدریس کے فریضہ کو بھی بہ حسن و خوبی ادا کیا۔ عنفوان شباب سے ہی آپ کو تصنیف و تالیف اور تحقیق کا بڑا شوق تھا اور وہ اس کی طرف بہت مائل تھے، اسلامی تہذیب و ثقافت کے مختلف موضوعات پر چالیس سے زائد کتابیں اور جرائد، مثال کے طور پر فقہ و اصول، سیرت و تاریخ، فلسفہ اور اسلامی عقائد کو عربی زبان میں تالیف فرمایا ہے۔ آپ کی اکثر کتابیں اور جریدے زیور طبع سے آراستہ ہو چکے ہیں، جن میں سے بعض کتابیں تو ایسی بھی ہیں جنہیں بارہا عراق، ایران اور لبنان میںچھاپا جا چکا ہے، اور ان میں سے کچھ کتابیں دنیا کی مختلف زندہ زبانوں مثلاً اردو، فارسی، انگریزی، فرانسیسی اور ترکی زبانوں میں ترجمہ ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں۔

استاد معظم جناب مہدی آصفی صاحب قبلہ دامت برکاتہ، قرآن مجید میں کشش اور اس کے جذاب ہونے کے بارے میں اس طرح فرما رہے ہیں:

''قرآن مجید میں ایسی کشش اور جذابیت پائی جاتی ہے، جس کے ذریعہ قرآن انسان کو مقناطیسی انداز میں اپنے مدار میں کھینچ لیتا ہے اور جیسے ہی انسان قرآن کی مقناطیسی جذابیت کے مدار میں پہونچتا ہے، پھر وہ اپنے آپ کو اس سے جد ا کرنے کی قدرت کو کھو بیٹھتا ہے اور اس میں پوری طرح ضم ہو جاتا ہے۔ ''

حضرت آیة اللہ عالی جناب الحاج آقائے محمد مھدی آصفی صاحب قبلہ دامت برکاتہ کے بعض مطبوعہ آثار مندرجہ ذیل ہیں:

۱۳

اسمائے کتب

١

التقویٰ في القرآن

تقویٰ قرآن کی روشنی میں

٢

العلاقة الجنسیة في القرآن

جنسی روابط قرآن کی روشنی میں

٣

آیة الکنز

آیۂ کنز (خزانہ کے بارے میں)

٤

وع القرآن

قرآنی آواز

٥

المیثاق

عہد و پیمان

٦

آیة التطہیر

آیۂ تطہیر

۱۴

٧

المذھب التاریخ في القرآن

تاریخی مذہب قرآن کی نظر میں

٨

الشہود في القرآن

شہود قرآن کی نظر میں

٩

الولاء و البرائة

تولیٰ و تبریٰ

١٠

الکلمات الابراہیمیة العشرة

حضرت ابراہیم کی دس باتیں

١١

الاستعاذة

اللہ سے پناہ چاہنا

١٢

تفسیر بخشی از سورۂ بقرة

سورۂ بقرہ کی بعض آیات کی تفسیر

١٣

تفسیر سورۂ انفال

سورۂ انفال کی تفسیر

۱۵

١٤

در آمدی بر علم تفسیر

علم تفسیر پر ایک تبصرہ

١٥

الجسور الثلاثة

باہمی ربط دینے والے تین پل (کتاب ھٰذا)

اور بہت سی دوسری کتابیں ہیں جو ابھی منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔

آخر میں استاذ علّام حضرت آیة اللہ الحاج شیخ محمد مھدی آصفی صاحب قبلہ کی صحت و سلامتی، عمر درازی اور ان کی اور خود اپنے آپ کی روز افزوں توفیق کے لئے درگاہ رب العزّت میں آرزو مند اور دعا گو ہوں۔(مترجم)

۱۶

دینی اور ثقافتی وراثت

دینی میراث اور اس کے مقدسات کا بعد والی نسلوں میں منتقل کرنا، افکار و عقائد، رسم و رواج اور عمل کا ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کا نام دینی ثقافت ہے۔ اس میراث کو منتقل کرنے کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں؛ جیسا کہ نباتات، اور انسانوں کی زندگی کے لئے بھی کچھ قواعد و ضوابط مقرر کئے گئے ہیں۔

ان قوانین پر عمل کر نے کے سبب، مذہب کو اس کی تمام ذاتی وراثتوں کے ساتھ بخوبی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کیا جا سکتا ہے، چنانچہ جس مقام پر گذشتہ نسل کا خاتمہ ہوتا ہے وہیں سے آنے والی دوسری نسل کا آغاز ہوتا ہے۔ انھیں اسباب کے ذریعہ، اس عظیم دینی اور فکری تحریک کا آغاز جو حضرت آدم سے لے کر حضرت ابراہیم، نوح، موسیٰ، عیسیٰ علیھم السلام اور حضرت محمد مصطفےٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ ہم تک پہونچا ہے۔ ہم بھی اسی مستحکم اور استوار ماضی کا ایک حصہ اور تاریخ کی گہرائیوں میں انھیں عمیق اور طولانی جڑوں کی شاخوں میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔ ان اسلامی معارف اور عقائد کے خزانوں کو دینی میراث کے ذریعہ اس کے مقدسات کو سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل منتقل کرنے میں مشغول ہیں۔

بیشک، یکے بعد دیگرے، ان ارتباطی پُلوں کی حفاظت نے، مذہبی وراثت کے انتقال کے کام میں سرعت بخشی ہے، جیسا کہ ان ارتباطی پُلوں میں رکاوٹ ایجاد کرنا اور ان کو ڈھا دینا، ایک نسل سے دوسری نسلوں کے درمیان بہت بڑی رکاوٹ سدّ راہ محسوب ہوگی۔

نتیجتاً اگر ان ارتباطی پُلوں کی فعاّلیت کو سماج میں مذہبی فرائض کی انجام دہی سے روک دیا جائے، تو بیشک نسل حاضر کا گذشتہ نسلوں اور آنے والی تمام نسلوں کے درمیان یکسر رابطہ ختم ہو جائے گا۔

اور وہ اہمیت کے حامل خاص ارتباطی پُل مندرجہ ذیل ہیں:

(١) گھر

(٢) مدرسہ

(٣) مسجد

۱۷

ان تینوں ارتباطی پُلوں کے ذریعہ ہمیشہ سیاست اور دین کی جدائی کے مسئلہ میں دینی تحریک (یعنی دین اور سیاست میں جدائی ممکن نہیں ہے) ہمیشہ آگے آگے اور پیش قدم رہی ہے، زمانہ حاضر کو گذشتہ زمانہ سے اور اولاد کو ان کے باپ دادائوں (آباء اجداد) سے اس طرح منسلک کر دیا ہے جس طرح تسبیح کے دانوں کو ایک دوسرے سے پرو دیا جاتا ہے۔ گھر، مدرسہ ( School ) اور مسجد کے اس اہم اور کلیدی کردار کے ذریعہ جو مذہب کی تبلیغ و ترویج اور نسلوں کو ا پس میں ایک دوسرے سے جوڑنے کا وسیلہ ہیں۔ دین اسلام نے ان تینوں مراکز پر خصوصی توجہ مبذول کرائی ہے اور ان کے ساز و کار پر خاص توجہ رکھنے کی سفارش اور نصیحت کی ہے۔ اب ان تمام باتوں کے بیان کرنے کے بعد ہم ان پُلوں کے کلیدی اور اساسی کردار ادا کرنے کے بارے میں درج ذیل عبارت میں اختصار سے وضاحت کررہے ہیں:

١)گھر

یہاں گھر سے مراد گھرانہ ہے۔ جوانوں میں دینی وراثت کو منتقل کرنے میں گھر اور گھر والوں کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے؛ اس لئے کہ عقائد کی بنیادیں ایک بچہ کی شخصیت کے نکھار پر موقوف ہیں۔ اس کی شخصیت میں نکھار گھر اور گھر والوں سے وجود میں آتا ہے۔ یہ بنیادی چیزیں انسان کی شخصیت کو اجاگر کرنے میں اس کے مستقبل کے حوالہ سے بہت تیزی سے اثر انداز ہوتی ہیں۔

مولائے کائنات امیر المؤمنین حضرت علی نے امام حسن مجتبیٰ سے فرمایا:

(اِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ کَالْاَرْضِ الْخَالِیَّةِ، مَا اُُلْقَِ فِیْهَا مِنْ شَْئٍِ قَبِلَتْهُ، فَبَادَرْتُکَ بِالْاَدَبِ قَبْلَ اَنْ یَّقْسُوَ قَلْبُکَ وَ یَشْتَغِلُ لُبُّکَ(١)

''بچہ کا دل اس آمادہ زمین کے مانند ہے کہ اس میں جو بھی چیز ڈالی جاتی ہے، وہ اس کو قبول کر لیتی ہے، اسی لئے میں نے تمھیں پہلے ادب سکھانا شروع کردیا، قبل اس کے

____________________

(١)نہج البلاغة صبحی صالح ص٣٩٣۔

۱۸

کہ تمہارا دل سخت ہو جائے اور تمہارے سر میں کوئی دوسرا سودا پرورش پانے لگے'' (یعنی تمہاری فکر تم کو دوسرے امور میں مشغول کردے۔)

ہر گھر کی سلامتی اور امنیت اس کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے، لڑکوں کو صحیح تربیت دینے میں سلامتی کے اثرات بہت زیادہ ہیں اور ان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے؛ جیسا کہ گھر کے اندر کا فساد (فاسد گھرانہ) نسل نو کو فساد میں آلودہ کرنے اور جوانوں کو برباد کرنے میں اساسی اور اہم کردار ادا کرتا ہے۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی گئی ہے:

(مَا مِنْ بَیْتٍ لَیْسَ فِیْهِ شَْئ مِنَ الْحِکْمَةِ اِلاَّ کَانَ خَرَاباً .)(١)

''جس گھر میں حکمت کا یکسر گذر نہ ہو، (یعنی حق و حقیقت کا بالکل نام و نشان بھی باقی نہ رہے) بلا شک و شبہہ یہ گھر بربادی کے دہانے پر ہے۔''

اس کے بر خلاف، صالح اور نیک گھرانہ؛ ایسا گھرانہ ہے جو اس بات پر قادر ہے کہ نسلوں کی اصلاح اور اس کے سنوارنے اور سدھارنے کی صلاحیت اور قدرت کو بڑی ہی جد و جہد اور عرق ریزی کے ساتھ بروئے کار لائے۔ مذہب کے مقدسات اور اس کی وراثت کو بڑی ہی دیانت اور امانت داری کے ساتھ اس نسل کے حوالہ کردے جس کی وہ خود پرورش کر رہا ہو۔

مولائے کائنات امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے دین، دینداری اور

____________________

(١)مجمع البیان ج١، ص٣٨٢ ۔

۱۹

تاریخی معلومات اور درآمدات کا خلاصہ نیز اس کے ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کی کیفیت کو اپنے بیٹے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے اس طرح بیان فرمایا:

(اَْ بُنََّ! اِنِّ وَ اِنْ لَمْ اَکُنْ عُمِّرْتُ عُمْرَ مَنْ کَانَ قَبْلِْ، وَ قَدْ نَظَرْتُ فِ اَعْمَالِهِمْ وَ فَکَّرْتُ فِ اَخْبَارِهِمْ و َسِرْتُ فِ آثَارِهِمْ، حَتیّٰ عُدْتُ کَاَحَدِهِمْ، بَلْ کَاَنِّ بِمَاْ اِنْتَهیٰ اِلَّ مِنْ اُمُورِهِمْ قَدْ عُمِّرْتُ مَعْ اَوَّلِهِمْ اِلیٰ آخِرِهِمْ فَعَرَفْتُ صَفْوَ ذَلِکَ مِنْ کَدِرِه، وَ نَفْعِه مِنْ ضَرَرِه، فَاْسْتَخْلَصْتُ لَکَ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ نَخِیْلَهُ وَ تَوَخَّیْتُ لَکَ جَمِیْلَهُ، صَرَّفْتُ عَنْکَ مَجْهُولَه ۔)(١)

''اے میرے لخت جگر! اگرچہ میں نے اتنی عمر نہیں پائی جتنی اگلے لوگوں کی ہوا کرتی تھی، لیکن میں نے ان کے اعمال میں غور و خوض کیا ہے، ان کے اخبار میں غور و فکر اور دقت کی ہے؛ ان کے آثار میں سیر و سیاحت کی ہے۔ میں صاف اور گندے کو خوب پہچانتا ہوں۔ نفع و ضرر میں امتیاز (کی صلاحیت) رکھتا ہوں۔ میں نے ہر امر کی خوب چھان بین کرکے اس کا نچوڑ اور حقیقت سامنے پیش کر دیا ہے اور سب سے اچھے کی تلاش کر لی ہے اور بے معنی چیزوں کو تم سے دور کر دیا ہے۔''

حضرت امیر المؤمنین مولائے کائنات امام علی بن ابی طالب علیہما السلام نے

روشنی ڈالی ہے، جس میں آپ نے اپنی حد درجہ عالی تربیت و پرورش نیز حضرت کی شخصیت کی تعمیر میں کن کن چیزوں کی رعایت کی گئی اس کی اس طرح خبر دے رہے ہیں:

____________________

(١)نہج البلاغة نامہ ٣١۔

۲۰