اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار0%

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 103

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

مؤلف: آیت اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 103
مشاہدے: 35345
ڈاؤنلوڈ: 3327

تبصرے:

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 103 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 35345 / ڈاؤنلوڈ: 3327
سائز سائز سائز
اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

مؤلف:
اردو

(و َقَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِ مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِالْقَرَابَةِ الْقَرِیْبَةِ و َالْمَنْزِلَةِ الْخَصِیْصَةِ، وَضَعَنِ فِ حِجْرِه وَ اَنَا وَلَد یَضُمُّنِ اِلیٰ صَدْرِه، وَ یَکْنِفُنِ فِ فَرَاشِه و َیَمَسُّنِ جَسَدَهُ، یَشُمُّنِ عِرْفَهُ، وَ کَانَ یَمْضَغُ الشَّیْئَ یُلَقِّمُنِیْهِ، و َمَا وَجَدَ لِ کَذِبْة فِ قَوْلٍ، و َلاَ خَطْلَةٍ فِ فِعْلٍِ... وَ لَقَدْ کُنْتُ اَتَّبِعُهُ اِتِّبَاعَ الْفَصِیْلِ اَثَرَ اُمِّه یَرْفَعُ لِ فِ کُلِّ یَوْمٍ مِنْ اَخْلاَقِه عِلْماً، و َیَأْمُرُ بِالْاِقْتِدَائِ بِه و َلَقَدْ کَانَ یُجَاوِر ُفِ کُلِّ سَنَةٍ بِحَرَائَ فَأَرَاهُ، و َلَا یَرَاهُ غَیْرِ. وَلَمْ یَجْمَعْ بَیْت وَاحِد یَوْمَئِذٍ فِ الْاِسْلاَمِ غَیْرَ رَسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ و َاَنَا ثَالِثُهُمَا. اَریٰ نُورَ الْوَحِْ وَ الرِّسَالَةِ و َاَشُمُّ رِیْحَ النُّبُوَّةِ .)(١)

''رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک میرے مقام اور میری منزلت اور آپ سے میری رشتہ داری اور قرابتداری اور آپ سے میری قربت کو خوب جانتے ہو۔ انھوں نے بچپنے سے ہی مجھے اپنی گود میں لیکر اپنے سینے سے لگاتے، اپنے بستر پر سلاتے، جیسے ہی میرا جسم آپ کے بدن مبارک سے مس ہوتا تو آپ مجھے مسلسل شمیم رسالت سے سر فراز فرماتے۔ اور آپ غذا کو اپنے دانتوں سے چبا کر مجھ کو کھلاتے تھے۔ نہ انھوں نے میری گفتار میں جھوٹ کا مشاہدہ کیا، اور نہ ہی میرے اعمال و کردار میں کبھی کسی لغزش کو سرزد ہوتے ہوئے دیکھا۔ اور میں ہمیشہ ہر حالت (سفر و حضر) میں آپ کے ساتھ اسی طرح چلتا تھا، جیسے اونٹ کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔ ہر روز آپ اپنی اخلاقی خصوصیات کی مجھے نشاندہی فرماتے اور پھر مجھے اس کے اتباع پر مقرر فرماتے تھے۔ آنحضرت ہر سال ایک وقت غار حرا میں جاکر خلوت اور گوشۂ تنہائی اختیار فرماتے تھے، جہاں فقط میں ہی آپ کے نور کو دیکھنے پر قادر تھا، وہاں پر کوئی اور نہ ہوتا تھا۔ اور یہ کسی اور کے بس کا روگ بھی نہ تھا۔ اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور خدیجہ کے علاوہ مسلمان گھر دیکھنے کو نہیں ملتے تھے، ان لوگوں کے علاوہ تیسرا صرف میں تھا۔ صرف میں نور وحی و رسالت کا مشاہدہ کرتا تھا، اور شمیم نبوت سے اپنے دل و دماغ کو معطر رکھتا تھا۔''

____________________

(١)نہج البلاغة خطبہ ١٩٢،]خطبۂ قاصعہ [

۲۱

٢)مدرسہ

مدرسہ سے مراد وہ دینی مراکز، وسائل اور ذرائع تبلیغ ہیں، جو انسان کی زندگی کے مختلف مراحل میں لوگوں کی دینی تحریک اور جوانوں کو تعلیم دینے کا واحد وسیلہ اور ذریعہ ہیں اور اس کا میدان بہت وسیع ہے۔ مدرسہ، کتاب اور جوانوں کی تعلیم کے لئے مختلف طریقۂ کار، تعلیم دینے والے افراد، اور مدرسین، دینی و مذہبی نیز ثقافتی و تربیتی کو ششیں، رسم الخط، ( طرز تحریر) زبان، مذہب، تبلیغات، اور اخبارات وغیرہ وغیرہ سب کو شامل ہے۔

اس وسیع دائرہ کے تحت مدرسہ ان اہم ترین پلوں میں سے ایک ہے جو دینی وراثت کو ایک نسل سے دو سر ی نسل میں منتقل کرنے، بعض نسلوں کو بعض دوسری نسلوں سے جوڑنے اور اسی طرح ترقی یافتہ نسل کو پست او ر عقب ماندہ نسل سے جوڑ کر ان میں آپس میں میل ملاپ کی ذمہ داری کا حامل ہے۔

چنانچہ یہ (مدرسہ) تمام لوگوں کی پہلی اور ابتدائی تعلیم گاہ، گھر ہی میں سمٹ جاتی ہے، اور ہر انسان اپنی ابتدائی تعلیم کو گھر ہی سے حاصل کرنا شروع کرتا ہے، اس لئے بلا شک و شبہہ دوسرے درجہ میں، یعنی اس کی تعلیمات کا دوسرا مرکز مدرسہ اور اسکول ( School ) ہے؛ جہاں اس کی عقل میں نکھار آتا ہے۔

اسلامی قوانین اور اس کے دستور میں استاد کی عظمت و منزلت اور اس کے احترام کے بارے میں بہت زیادہ تاکید اور شفارش کی گئی ہے، ہمارے اور آپ کے پانچویں امام، حضرت امام محمد باقر ـ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کرتے ہوئے فرمایا:

(اِنَّ مُعَلِّمَ الْخَیْرِ یَسْتَغْفِرُ لَهُ دَوَابُّ الْاَرْضِ و َحِیْتَانُ الْبَحْرِ وَ کُلُّ ذِ رُوحٍ فِ الْهَوَائِ وَ جَمِیْعُ اَهْلِ السَّمَائِ وَ الْاَرْض )(١)

جو استاد نیکیوں کی تعلیم دیتا ہے، اس کے لئے زمین پر تمام بسنے، چلنے اور رینگنے والے، دریا کی مچھلیاں، ہوا اور فضا میں زندگی بسر کرنے والے، اسی طرح زمین و آسمان میں بسنے والی (خداوند عالم کی) تمام مخلوق اس استاد (اور معلم) کے لئے استغفار کرتی ہیں۔''

امام صادق نے بھی ارشاد فرمایا:

(مَنْ عَلَّمَ خَیْراً فَلَهُ بِمِثْلِ اَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِه. قُلْتُ: فَأِنْ عَلَّمَهُ غَیْرُهُ یَجْرِی ذَلِکَ لَهُ ؟ قَالَ(ع) اِنْ عَلَّمَ النَّاسَ کُلَّهُمْ جَریٰ لَهُ. قُلْتُ: و َاِنْ مَاتَ ؟ قَالَ(ع): و َاِنْ مَاتَ(٢)

____________________

(١)بحارالانوار ج٢، ص١٧۔

(٢)بحارالانوار ج٢ ص١٧

۲۲

ہر وہ شخص جو خیر کی تعلیم دے، اس کا اجر اس شخص کے جیسا ہے جس نے اس پر عمل کیا ہو۔ راوی نے سوال کیا: اگر وہ شخص جس نے اس (استاد) سے براہ راست تعلیم حاصل کی ہو اور بعد میں دوسرے شخص کو تعلیم دے، تو اس کا اجر کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: اگر دوسرا فرد (یعنی سیکھ کر سکھانے والا) روئے زمین پر بسنے والے تمام لوگوں کو بھی اس کی تعلیم دے دے، پھر بھی سکھانے والے پہلے استاد کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ راوی نے پھر سوال کیا: اگر پہلے والا استاد دنیا سے اٹھ چکا ہو تو کیا ہوگا ؟ تو حضرت نے (اس سوال کے جواب میں) فرمایا : پھر بھی اس کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی اور اس کو (یعنی پہلے والے استاد اور معلم کو) وہی اجر دیا جائے گا۔''

حضرت امام صادق نے رسول خدا اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یوں نقل فرمایا:

(یَجِیُٔ الرَّجُلُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَ لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَالسَّحَابِ الرُّکَامِ اَوْ کَالْجِبَالِ الرَّوَاسِی، فَیَقُولُ: یَارَبِّ اَنّٰی لِی هٰذا و َلَمْ اَعْمِلْهَا؟ فَیَقُولُ: هٰذا عِلْمُکَ الَّذِی عَلَّمْتَهُ النَّاسَ یُعْمَلُ بِه بَعْدَکَ )(١)

''قیامت کے دن ایک شخص عرصہ حساب میں لایا جائے گا، اس عالم میں کہ اس کی نیکیاں بادلوں کی طرح آفاق میں پھیلی اور مستحکم پہاڑوں کی طرح استوار ہوں گی۔ وہ شخص آتے ہی (یہ سب نیکیاں دیکھنے کے بعد) بڑی حیرت اور بے چینی سے بول پڑے گا: اے میرے پروردگار! اور اے میرے پالن ہار! میں کہاں؟ اور اتنی ساری نیکیاں کہاں؟! میں نے ان سب نیکیو ں کو ہرگز انجام نہیں دیا۔ خدایا! یہ میرے اعمال نہیں ہیں،

____________________

(١)بحارالانوار ج٢، ص١٨

۲۳

میں نے ا ن تمام اعمال کو انجام نہیں دیا تو اسے بتایا جائے گا: کہ یہ وہی علم ہے جس کو تونے لوگوں کو سکھایا ہے اور انھوں نے تیرے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد اس پر عمل کیا ہے۔''

عبد الرحمٰن سَلَمِی نے حضرت ابا عبد اللہ امام حسین ـ کے بیٹوں میں سے

ایک بیٹے کو سورۂ حمد کی تعلیم دی۔ جب اس بچے نے سورہ حمد کو اپنے والد گرامی

(حضرت امام حسین ـ) کے حضور تلاوت کی تو امام نے بہت سارا مال زیورات اور گہنے اپنے بیٹے کے معلم کو بخش دیئے اور اس (معلم) کے منھ کو موتیوں سے بھردیا۔ جب آپ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

''مال اور زیورات کی اتنی تھوڑی سی مقدار اس (استاد) کے تعلیم دینے کی اجرت کے برابر ہرگز قرار نہیں پاسکتی!''(١)

____________________

(١)المناقب ابن شہر آشوب، مطبوعہ نجف اشرف، ج٣، ص٢٢٢؛ مستدرک الوسائل، ج١، ص٢٩

۲۴

٣)مسجد

ارتباطی پلوں کی قسموں میں سے تیسرا اور آخری پل جو تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے ایک نسل کو دوسری نسل سے جوڑتا ہے،وہ مسجد ہے۔ (یعنی وہ تیسرا وسیلہ جس کے ذریعہ دین میں وسعت دیکر اس کی حفاظت کی جائے۔) اسلام میں مسجد، عبادت اور فکری ارتقا نیز انتظام و انسجام کا بہترین مرکز ہے، اخلاقی، سیاسی اور نیک کاموں کی انجام دہی پر تعاون اور یہ (مسجد) خدمت خلق کا بہترین مرکز ہے، اور اس طرح کی کوشش اور فعالیت میں کلیدی اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے؛ نیز یہ جگہ ایک مقدس فریضہ کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔

درج ذیل بیان مسجد کے کردار اور اس کے ابدی نقوش اور اس کی اہمیت اور حیثیت کو اسلام نے بڑے آب و تاب کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے۔

مولائے کائنات مولائے کائنات امیر المؤمنین حضرت علی نے اس سلسلہ میں اس طرح فرمایا:

(مَنِ اْخْتَلَفَ اِلیٰ الْمَسْجِدِ، أَصَابَ اِحْدیٰ الثَّمَانِ: ١أَخاً مُسْتَفَاداً فِی اللّٰه ٢أَوْ عِلْماً مُسْتَطْرِفاً ٣أَوْ آیَةً مُحْکَمَةً ٤أَوْ رَحْمَةً مُنْتَظِرة ٥أَوْ کَلِمَةً تَرُدُّهُ عَنْ رَدیً ٦أَوْ یَسْمَعُ کَلِمَةً تَدُلُّ عَلیٰ الْهُدیٰ ٧أَوْ یُتْرَکُ دُنْیَا خَسِیْسَةً ٨أَوْ حَیَائً )(١)

''جو شخص بھی مسجد میں رفت و آمد رکھتا ہے ، اس کو ان آٹھ چیزوں میں سے ایک چیز ضرور حاصل ہو جاتی ہے: ١۔ دین میں بھائی چارگی؛ ٢۔ نت نئی اور جدید معلومات؛ ٣۔ مستحکم نشانی؛ ٤۔ اور ایسی رحمت و بخشش جس کا انتظار کیا جا رہا ہو؛ ٥۔ ایسی بات جو ہم کو پستی اور ذلت (ہلاکت) سے دور کردے ؛٦۔ ایسی بات پر کان دھرنے اور غور سے سننے کی توفیق جو انسان کو صحیح راستہ دکھائے اور اس کی ہدایت کر سکے؛ ٧۔ اور اس ذلیل اور پست دنیا کو ترک کر دے اور اس سے لو نہ لگائے؛٨۔ حیا کو اپنا پیشہ بنالے۔''

اسلامی تاریخ میں، مسجدیں، دینی اور مذہبی مدارس، وہ منبر جو اخلاق اور تربیت

____________________

(١)بحارالانوار ج٨٣، ص٣٥١

۲۵

کے رواج اور اس کو وسعت دینے میں مددگار ہیں، فعالیت و کوشش اور جد و جہد کے مراکز، معاشرتی، سماجی اور سیاسی خدمات میں سماجی اور معاشرتی مراکز، اور ایسے پرکار (فعاّل) ادارے، مسلمانوں کی زندگی میںاسلامی تمدن کی وراثت کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے میں بنیادی ذمہ داری اور کلیدی حیثیت کے حامل ہیں، جیسا کہ یہی مراکز اسلامی افکا رکے مضبوط قلعے اور مقدسات اسلامی بھی شمار کئے جاتے ہیں۔ انھیں محاذوں کے ذریعہ مسلمان اپنی فکری اور مذہبی وراثت کو جاہل دشمن کی غارت، یلغار اور لوٹ پاٹ سے بچا لیتے ہیں۔

حوزہ علمیہ اور دینی مدارس کی بنیاد

اس واسطہ کہ مساجد اپنے نقش اور کردار کو امت اسلامی کی خدمت میں اپنی پوری قدرت کے ساتھ بہ حسن و خوبی نیز اپنی دینی اور مذہبی وراثت کو بعد والی نسلوں میں منتقل کر سکیں، لازم اور ضروری ہے کہ انسانی اور مذہبی حمایت برقرار رکھیں۔ کیوں کہ مسجدیں دانشوروں، خطبا اور ان مقررین کو جو لوگ عوام کو ہوشیار بنانے اور اسلامی معاشرہ میں انقلاب برپا کرنے کی تحریک کی ذمہ داری کے حامل ہیں ، ان کے لئے یہ بات ضروری ہے اور یہ اہم فریضہ بھی انھیں دینی اداروں اور مراکز (حوزۂ علمیہ یا دینی اور مذہبی مدارس کے وجود ) کے ذریعہ امکان پذیر ہے۔ اس امر کی انجام دہی ان امور کی بجا آوری، اسلامی اسکولوں ( colleges Islamic ) کا قیام ہے، (دینی اعلیٰ مدارس) جن کی ذمہ داری اسلام کے مختلف گوشوں اور دینی مسائل میں خاص مہارت کے حامل افراد کی تربیت مقصود ہے۔

اس بنا پر لازم ہے کہ بعض مسلمان اپنے علاقوں اور وطن سے کوچ کریں اور اس طرح دین اسلام کی گہرائیوں اور ان کی تہہ تک پہونچ کر پوری طرح مہارت حاصل کرلیں اور اس کو بڑی ہی عرق ریزیوں سے حاصل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہوئے، اپنے کلیدی اور اساسی کردار کو بروئے کار لائیں، تاکہ عوام الناس کی مشکلات کا حل نکالنے کے لئے، آیۂ کریمہ کے مطابق اس حساس ذمہ داری کو اچھی طرح نبھا کر عوام کے مختلف مسائل کا مناسب جواب دے سکیں۔

۲۶

(فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَة لِیَتَفَقَّهُوا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ )

''ہر گروہ میں سے ایک گروہ (کے لوگ) کوچ کیوں نہیں کرتے، تاکہ دینی مسائل کا علم حاصل کریں اور علم حاصل کرنے کے بعد اپنے یہاں (وطن) کے لوگوں کے پاس پلٹ آئیں اور ان کو ڈرائیں شاید وہ لوگ ڈرنے لگیں۔''(١)

اس بنا پر ''مسجد کی بنیاد '' جو کہ تمام مذہبی اداروں کو شامل ہے، جن کو اصطلاحاً (مدارس علمیہ ) دینی مدرسوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان اداروں اور دینی مدارس کے قائم کرنے والوں کو ہم ''مرجعیت'' کے نام سے جانتے ہیں۔ مقام افتا میں فتویٰ دینے والے لوگ، وعظ و نصیحت اور اخلاقی تقاریر کے مراکز کو بھی اس سے ملحق کر تے ہیں۔

مسجد اپنی اس وسیع و عریض تعریف کے ساتھ لوگوں کی زندگی کے وسیع معیار اور ملاک کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اُن میں سے سب سے اہم افکار اور مقدسات کو انسانی تاریخ میں ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کا ذریعہ اور اہم ترین قلعہ شمار ہوتا ہے، جو اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ ہماری مذہبی اور دینی وراثت کو نابودی اور ہر قسم کے انحراف، گمراہی اور کجی سے بچا سکے۔ خصوصاً اِن تلخ تجربوں کے دوران، اس طولانی عرصہ میں ہماری ترقی کے بہت سے پل اور مذہبی قلعے جن کو ہمارے دشمنوں نے ہم سے چھین کر اسلام و مسلمین پر کاری ضرب لگا ئی ہے؛ ان سب چیزوں کو دشمن کے چنگل سے چھڑا کر دوسری نسلوں میں منتقل کردیں۔

ان دشوار گذار برسوں میں، مسجد نے اپنے استقلال کو محفوظ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ دشمن اس قوی اور مستحکم ادارہ کو ختم کرنے، اس پر گھراؤ اور اس کو اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں، منحرف کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس محاذ پر، مسجد، مذہبی پناہ گاہوں اور قلعوں میں سب سے آخری پناہ گاہ اور قلعہ تھی، جس نے مغربی (انگریزی) تحریکوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمارے دین کا کوئی بھی سرمایہ مغربی لوگوں (انگریزوں) کے برباد کرنے اور نابود کرنے سے بچ نہ پاتا، نتیجتاً تمام اسلامی آثار مٹ کر ہستی سے ختم ہو جاتے۔

____________________

(١)سورہ مبارکہ توبہ آیت١٢٢

۲۷

ماضی اور مستقبل کے ارتباطی پُلوں کاانہدام

گھر، (گھرانہ) مدرسہ اور مسجد یہ ایسے تین ارتباطی پل ہیں جو ہمارے دین و مذہب اور تہذیب و تمدن کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرتے اور ہم کو گہری جڑوں کے ساتھ ہمار ی تہذیب و تمدن اور ثقافت سے جوڑ تے ہیں۔ اگر یہ راستے آپس میں بہم جوڑ دینے والے پُل نہ ہوتے تو ہمارا گذشتہ زمانہ سے بالکل رابطہ ختم ہو جاتا، اسلامی امت جس کی جڑیں تاریخ میں بہت مستحکم اور استوار ہیں نیز دینی و مذہبی تہذیب و تمدن کی حامل ہیں، اس کی بنیادوں میں، حقیقت اور گہرائی پائی جاتی ہے اور ایسی صورت میں یعنی جب اس کا رابطہ ختم ہو جائے تو وہ ایک ایسے (بے خاصیت) پودے میں تبدیل ہو جائے گا جس میں گہری جڑیں نہیں پائی جاتیں اور بہت ہی سطحی ہوتی ہیں۔ وہ درخت جس کی جڑیں گہری اور ثابت ہیں اور شاخیں آسمان سے متصل یعنی بہت ہی بلند ہیں وہ ایک خود رو، بیکار اور زائد پودے اور سبزے میں تبدیل ہو جائے گا، اس کے بعد آہستہ آہستہ فنا کے گھاٹ اترجائے گا، جس طرح یہ خودرو پودا اُگا تھا اسی طرح وہ اپنی ابتدائی حقیقت کی طرف پلٹ جائے گا۔

بلاشک و شبہہ جس طرح اسلام ان ارتباطی (گذر گاہوں) پلوں کی حفاظت میں کوشاں اور امت اسلامی جس کو مؤثر بنانے کے لئے اپنی ساری قوت صرف کررہی ہے، ٹھیک اس کے بر خلاف عالمی سامراج اور استکبار بھی اپنی پوری طاقت اور قدرت کے ساتھ ان ارتباطی پلوں کو پورے طور سے منہدم کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ہر روز ایک نہ ایک ترکیب، حیلہ حوالہ اور نت نئے ہتھکنڈوں کو بروئے کار لانے کی کوششوں میں سر گرم ہے۔ اس بات کو بڑے ہی وثوق و اطمینان اور جرأت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے، کہ ہماری باہمی زندگی میں سیاسی کھائی ایجاد کرکے ہمارے اور کافر برادری کے درمیان ایک جنگ چھیڑ دی ہے، جو ان پلوں کے ''توڑنے اور جوڑنے'' کی صورت میں ہمارے درمیان باقی ہے۔

۲۸

سامراج کی استکباری طاقتیںاور ان کے آگے پیچھے کرنے والے نوکر شاہی لوگوں، حکومت کے ذمہ داروں اور دانشوروں کے ذریعہ اسلام میں پھوٹ ڈالنے کی اپنی جیسی کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، اس زور آزمائی کو قدامت پسندی، بنیاد پرستی بنام جدت پسندی اور فکر نو کی جنگ کا نام دے دیا ہے، جبکہ حقیقت اس کے علاوہ کچھ اور ہی ہے۔ قدامت پسندی اور فکر نو کے در میان کوئی گیر و دار نہیں پائی جاتی ہے، بلکہ یہ جنگ باہمی ارتباطی پُلوں کو منہدم کرنے اور ان کی تعمیر نو سے متعلق ہے۔ عالمی سامراج اور استکبار کی ساری کوشش اس بات پر ہوتی ہے کہ امت مسلمہ کو اس کے ماضی کی گہری جڑوں والی تاریخ سے بالکل جدا کر دے۔ وہ ارتباطی پل جو دور حاضر اور زمانۂ حال کو ماضی اور مستقبل سے جوڑ تے ہیں، ان رابطو ں کو بالکل سے منہدم اور خاک سے یکساں کر دے۔ اس کے بر خلاف صالح اور مخلص لوگ اسلامی امت کی جہاں دیدہ، آگاہ، ہوشیار اور تجربہ کار اولادیں، ان دھوکہ دھڑیوں، مکاریوں اور فریب میں آنے والی نہیں ہیں، ان کی ساری کوشش اس بات پر ہوتی ہے کہ ہمارے حال کو (حاضر کو) گذشتہ کل یعنی ماضی سے پوری طرح جوڑ دیں۔ نیز ہماری (دینی اور مذہبی) وراثتیں اور ان کی تاریخ میں گہری جڑوں کی حفاظت اور بقاء کے لئے بہر صورت فکر مند ہیں کہ کیسے اس امانت کو آنے والی نسلوں کے حضور صحیح و سالم پیش کر دیں۔

توڑنے اور جوڑنے کے درمیان کا یہ اختلاف ہر مقام اور موقع پر پایا جاتا ہے۔ مدرسہ و اسکول، جامعہ ( University ) (وہ اعلیٰ تعلیم گاہ جس کو' دانشگاہ ' بھی کہا جاتا ہے) سڑکیں، ہنر اور پیشہ، ادبیات، اصطلاحیں، رسم و رواج، زبان، تحریر اور رسم الخط، شعر گوئی، طرز زندگی، طرز فکر، محاوراتی زبان اور ہماری زندگی میں رائج بہت سی دوسری چیزیں ہیں؛ جس کے لئے بعض لوگ اپنے ذاتی منافع کے حصول کے تحت اختلاف کے بیج بوتے پھرتے ہیں۔

۲۹

ثقافتی تخریب کاری

اس مقام پر یہ سوال اٹھتا ہے: عالمی استکبار ہماری تہذیب و ثقافت کے خلاف تخریبی رویہ اختیار کرنے کے لئے کیوں کمر بستہ، ہمارے مذہب و تمدن کو نابود کرنے کے کیوں درپے ہیں؟

یہ سوال، بہت ہی بر محل، اچھا اور مناسب ہے، بے شک استکباری جنگ کا منصوبہ بنانے والے لوگوں اور عالمی استکبار کے نزدیک، ہمارے تمدن اور اسلامی ثقافت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، ان کے لئے یہ بات کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ وہ اس کے بدلہ کوئی تہذیب و ثقافت پیش کریں؛ بلکہ وہ تو سرے سے کسی تہذیب و ثقافت اور تمدن کے پیشوا اور امن کے سفیر ہی نہیں ہیں کہ کسی تمدن کے بارے میں سوچیں۔ ان میں برائے نام بھی تہذیب نہیں پائی جاتی ہے کہ ان کو کسی تمدن اور تہذیب کے مٹانے کے بارے میں غور و خوض کی ضرورت پڑے، اس (تہذیب و ثقافت اسلامی ) کے بدلہ کسی اور تمدن اور ثقافت کو لانے کی سو چیں؛ بلکہ یہ لوگ مال و دولت اور سرمایہ کو ہر ممکن طریقہ سے ڈھونڈھ نکالنے میں خاصی مہارت کے حامل، شباب و کباب کے متوالے، سنہرے اور کالے سونے کو ہر جگہ ،بہر صورت اور ہر قیمت پر اکٹھا کرنے کی جستجو اور تلاش میں ہیں۔

جو بھی شرق و غرب کے بارے میں شناخت رکھتا ہے، بغیر کسی چوں چرا کے اس حقیقت کو قبول کر لیتا ہے۔ اسے بھی چھوڑیں، وہ سادہ لوح لوگ جو یہ تصور کرتے ہیں کہ مغرب کا سرمایہ داری اور شرق کا اشتراکیت کا نظام (کمیونزم) یہ دونوں ہماری زندگی میں انسانی اور اخلاقی کردار ادا کرتے ہیں! وہ بھی اس بات کو بخوبی جانتے ہیں۔ در حقیقت، غرب و شرق اس ملت اسلامیہ کی زندگی میں مذہبی خراب کاری، تباہی اور ایک نسل کو دوسری نسل سے جوڑنے والے ارتباطی پلوں کو ڈھانے اور بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے سے، کن منافع اور مصالح کی تلاش میں ہیں؟

۳۰

میری نظر میں یہ قضیہ بھی ان کی اسی سنہرے اور کالے سونے کو لوٹنے، اس کو غارت کرنے اور اس کو ہتھیانے کے لئے دانت تیز کرنے کی طرف پلٹتا ہے کہ سنہرے اور کالے سونے پر قبضہ جمالیں۔

بیشک اگر مذہب اور دین کی بنیادیں گہرائی میں اتری ہوئی ہوں تو اس کے ذریعہ امت مسلمہ ہر قسم کی غارت گری، بربادی اور نظامی حملوں کاقطعی طور پر مقابلہ کی صلاحیت اور استعداد پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ خاصیت، ہر گہری جڑ رکھنے والی تہذیب و تمدن میں پائی جاتی ہے۔ (یعنی جو قوم و ملت ان صفات اور خصوصیات کی حامل ہو اس میں ان صلاحیتوںکا پیدا ہو جانا فطری امر ہے۔ مترجم)

اسی بناپر، جب تک ایک امت اپنے گذشتہ اور اپنے تہذیب و ثقافت اور تمدن سے باہمی ربط رکھے اور اس سے منسلک رہ کر اپنی تاریخی اور ثقافتی شخصیت کی طرف متوجہ رہے تو اس کے بارے میں آگاہی ضرور حاصل کرلے گی۔ وہ قوم ہر قسم کے حملے، ناجائز قبضے اور غلط فائدے اٹھانے والوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اجنبی لوگوں کے سیاسی اور فکری نفوذ کے مقابلہ میں اٹھ کھڑی ہوگی؛ یعنی فوراً قیام کرنے پر آمادہ ہو جائے گی اور اس طرح سے فتح و ظفر اور کامیابی اس کے قدم چومنے لگے گی۔

مغربی افراد، اپنا تسلط جمانے اور مسلمانوں کے درمیان نفوذ پیدا کرنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان وارد ہو گئے، تاکہ ان کو ہر طرف سے لوٹیں اورطرح طرح کے بہانے بنا کر ہر ممکنہ تدبیر کے ذریعہ ان کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ البتہ مغربی دنیا یہ جانتی ہے کہ امت مسلمہ کسی بھی اجنبی اور غیرکی دخالت کو برداشت نہیں کرسکتی۔ لہٰذا وہ ہر قسم کے قبضہ اور تسلط کے مقابلہ میں قیام کرنے پر آمادہ ہوجائے گی۔ وہ قوم اس نکتہ کی طرف متوجہ ہے کہ اس میں پائیداری، استحکام اور استواری کی بنیاد، دین، تہذیب و ثقافت اور عقل و خرد کی سوغات دینے والا صرف اسلامی تمدن ہی ہے، جو اس قوم کے دل و دماغ میں راسخ ہے۔ لہذا اس بات کا امکان بھی نہیں پایا جاتا ہے کہ اجنبی لوگ مسلمانوں کے خزانوں اور ان کے مال و دولت کی طرف تیکھی نظر سے دیکھ لیں یعنی ان کی دولت پر ڈاکہ ڈالنے کامنصوبہ بنائیں، لیکن اس مقام پر یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ امت مسلمہ پہلے ہی سے اپنے آپ اور اپنے اولاد کی افکار کو اپنے قبضہ میں لے کر اس پر کڑا پہرا لگائے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سے اس بات کا بھی امکان نہیں پایا جاتا کہ مسلمانوں کے مال و دولت اور ثروت کی طرف کوئی اجنبی، غلط فائدہ اٹھانے کے لئے کوئی راستہ کھوج نکالے؛ اس سے پیشتر ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے راستہ کو دین اور مذہب کے اصولوں پر استوار کر لیں اور اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے، احساس ذمہ داری کے تحت اپنی وراثتوں کی حفاظت کریں۔

۳۱

عالمی سامراج و استکبار کے منصوبوں کو بروئے کار لانے اور ان کو ہر قیمت پر کامیاب بنانے والے، ان تمام حقیقتوں کو بخوبی جانتے ہیں اور اس مشکل کو بر طرف کرنے اور اس استقامت سے مقابلہ کی فکر کو جڑ سے مٹانے کے لئے بڑی ہی سنجیدگی سے مشغول ہیں؛ اپنے مقصد کے حصول کے لئے ایک لمحہ بھی فروگذار نہیں کرتے۔ ہمہ تن گوش اپنی تحریک کی کامیابی کی چارہ جوئی میں لگے ہوئے ہیں۔ (لہٰذا مسلمانوں کا بھی عینی فرض بنتاہے کہ وہ دشمن اور اس کے حربہ سے ایک آن کے لئے بھی غافل نہ ہوں نیز دشمن سے مقابلہ کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں۔ مترجم)

اسلامی ثقافت کو بے اہمیت بنانے کا منصوبہ

اسی وقت تہذیب و ثقافت کو بے اہمیت بنانے کا منصوبہ کامیاب ہوسکتا ہے جب امت اسلامی اپنی ثقافت کھو بیٹھے اور بے بند و بار ہو جائے تو ایسی صورت حال کے مدنظر، اس قوم میں دشمن سے مقابلہ اور استقامت کی قدرت باقی نہیں رہ جاتی ہے۔ عالم استکبار کو دنیائے اسلام سے منافع حاصل کرنے کے لئے دائمی مراکز قائم کرنے کا خواب و خیال دل و دماغ سے نکال دینا چاہئے؛ اس لئے کہ یہ خواب اپنی تعبیر کو حاصل نہ کر پائے گا اور فرنگیوں کو زبوں حال و سر خوردہ، بڑی ہی ذلت وخواری سے الٹے پاؤں واپس پلٹنا پڑے گا۔

انہیں اسباب و عوامل کے تحت اگر مسلمان لوگ غفلت برتیں تو ملت اسلامیہ اپنے ثقافتی اقدار اور اس پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں پر عمل نہ کرے اور اگر اپنی گذشتہ وراثتوں اور قدیم تمدن سے یکسر قطع رابطہ کرلے تو بہت ہی آسانی سے دوسری قومیں تسلط حاصل کر کے ہماری ثقافت پر قابض ہو جائیں گی اور مسلمانوں پر ہر اعتبار سے مسلط ہو جائیں گی۔ آخر کار مسلمانوں کو مجبور ہو کر غیروں کی برتری کو قبول ہی کر لینا پڑے گا۔ ایسی صورت حال میں دشمن مال، دولت و ثروت اور خشکی و نی تمام چیزوں پر اپنا قبضہ جما لینے پر قادر ہو جائے گا۔

۳۲

وہ ارتباطی پل جو ہمارے حال کو ماضی سے جوڑتے اور اسی طرح وراثتوں اور ثقافتوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ملا دیتے ہیں، وہ تمام کے تمام پل منہدم کردئے جائیں گے۔ اس طرح سے دشمنوں کا اپنے مقصد کو جامۂ عمل پہنانے کا تصور ممکن ہو جائے گا۔ ایسی حالت میں عالمی استکبار ارتباطی پلوں کے منہدم کردینے کا جرأت مندانہ اظہار کرنے پر کمر بستہ ہو جائے گا، اس طرح سے دور حاضر (حال) کا زمانۂ ماضی سے جدائی کے تمام اسباب معلوم ہو جائیں گے۔ ہماری حالیہ سیاسی اور ثقافتی زندگی میں بہت بڑا فاجعہ اور بلا کی مصیبت، رو نما ہو نے لگیں گی اور طرح طرح کی فضیحتیں د امن گیر ہو جائیں گی، اور تاریخ ان سیاہ کارناموں کو من و عن ثبت کرلے گی۔

مغرب پرستی کی علامتیں یا اسلامی ثقافت کا انہدام

یہاں پر مغربی تمدن کی طرف جھکاؤ کی تحریک کے علائم یا حقیقی ثقافت سے دوری کے بارے میں بیان کریں گے تاکہ نسل نو (انقلابی نسل) مغرب (یورپ ) کے خطرناک عزائم، خاص طور سے اس وقت جب دنیا میں مسلمانوں کے درمیان ایک خاص وقت میں اپنے منصوبوں کو بروئے کار لانا چاہتے ہوں، ایسے ہنگام میں ملت اسلامیہ کو زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل کرکے اسلام دشمن طاقتوں کے چھکے چھڑا دینا چاہئے۔

گذشتہ زمانہ میں مغربی دنیا کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ عثمانی حکومت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے، اس طرح سے کہ پھر سے اس میں آثار حیات پیدا نہ ہونے پائیں۔ عثمانی حکومت (اپنی تمام آشکارا کمیوں اور خامیوں کے باوجود) ایک سیاسی مرکز، فوجی اور اقتصادی اعتبار سے پورے علاقے میں قوی اور مقتدر (حکومت) نظام محسوب ہوتا تھا کہ اسلامی دنیا، مغربی طمع کاریوں کے مقابلہ میں ڈٹ کر اس کا منھ توڑ جواب دے رہا تھا۔

۳۳

آخرکار ١٣٤٢ ہجری شمسی مطابق ١٩٢٢ ء میں مغربی دنیا عثمانی حکومت کی بساط کو الٹ دینے پر قادر ہوگئی؛ اس کے بعد جب پورے طور پر ضعیف اور کمزور ہوکر یہ نظام ٹوٹ گیا تو ایسی صورت میں خلیفۂ وقت کو خلافتی اور دولتی امور میں صرف نماز جمعہ اور اس کے خطبہ دینے کی اجازت تھی، اپنے محل اور درباریوں کے علاوہ اسے کوئی اختیار حاصل نہیں تھا، خلیفۂ وقت کا اقتدار انھیں جزوی چیزوں میں سمٹ کر رہ گیا تھا۔

عثمانی حکومت کے ٹوٹ جانے کے بعد مغربی خونخوار درندوں نے چین کا سانس لیا۔ اس طرح مسلمانوں کے درمیان قوی اور مقتدر سیاسی اور بانفوذ طاقت ختم ہو گئی۔ اس طرح یہ میدان دشمنوں کے لئے بالکل خالی ہو گیا۔ نتیجتاً مغربی افکار نے اپنے اثر و رسوخ بڑھانا شروع کردیا اور امت اسلامیہ کو ان کی ثقافت اور مذہب سے سوچی سمجھی اور منظم سیاست کے تحت دور کرنا شروع کردیا۔ ایک تحریک پہلے ہی سے پھل پھول اور رفتہ رفتہ پروان چڑھ رہی تھی، لیکن عثمانی حکومت کے ٹوٹتے ہی زندگی کے تمام گوشوں میں غیر معمولی تبدیلی محسوس ہونے لگی، دیکھتے ہی دیکھتے خاصی تبدیلی پیدا ہوگئی۔ وہ حکام جنھوں نے مغربی رجحان کی ٹھیک ایسے وقت میں حمایت کی جب عثمانی حکومت خاتمہ کے دہانے پر کھڑی اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔

۳۴

مغرب پرست حکام اور اس کی حمایت

اُسی وقت اسلامی دنیا (عرصہ) کے سیاسی حلقہ میں، کچھ ایسے حکام اور حکومتیں اقتدار میں آئیں جو آشکارا طور پر مسلمانوں کو ان کی غنی ثقافت اور گہری جڑیں رکھنے والے مذہب سے جدائی اور مغربی تہذیب سے رشتہ ناطہ جوڑنے کی باتیں کرتے ہوئے ''تجدد اور جدت پسندی'' ( Modernity ) اور ترقی کا راگ الاپتے ہوئے ان کی طرف اپنے والہانہ میلان اور رجحان کا اظہار کر رہے تھے۔ اس مقام پر ایسی ہی فکر کے حامل کچھ رہنماؤں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

کمال آتا ترک

مصطفےٰ کمال آتا ترک عثمانی حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد ١٩٢٣ ء سے ١٩٣٨ء تک کے لئے ترکی کی حکومت کو سنبھال لیا۔(١)

____________________

(١)مصطفےٰ کمال ١٩٣٠ء میں ''آتاترک یا بابائے ترک'' کے لقب سے ملقب ہوا اور اپنے مرتے دم تک (ساری عمر) ترکی کی حکومت پر مقتدرانہ حاکم رہا۔اس طرح ترکی کی کرسیٔ صدارت پر مرتے دم تک باقی رہا، بلکہ درحقیقت مرتے دم تک مطلق العنان بادشاہ بنا رہا۔ اس کی حکومت پندرہ سال تک باقی رہی۔ آتاتورک ترکی کی اُس حکومت کو جو مذہب پر استوار تھی، اس کو غیر مذہبی حکومت میں تبدیل کردیا۔ اس نے یہ دستور دے دیا کہ تمام چیزیں ترکوں کی اپنی گذشتہ تاریخ اور رسم و رواج کے مطابق ہونی چاہئیں اورہر وہ چیز جو عثمانی بادشاہت یا اسلام کے بارے میں ہو، اس کو ترکی کے تمام اسکولوں اور نظام سے بالکل حذف کردیا جائے، اس کی جگہ پر مغربی رسم و رواج کو رائج کر دیاجائے ؛ اسی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لیا جائے ۔ ترکوں کو مغربی لباس پہننے پر مجبور کیا جائے، عربی رسم الخط کو ختم کرکے اس کی جگہ پر لاتینی ( Latin )حروف کے ذریعہ نیا رسم الخط رائج کیا جائے۔ آتاترک نے لائیک (بے دینی کے) نظام کو برقرار کرنے کے واسطہ، مردوں اور عورتوں میں ایک لباس کے رواج کو اپنے نظام کا جز قرار دیا ۔اس طرح بے پردگی کو قانونی حیثیت دے کر تمام جگہوں پر ضروری اور لازم قراردے دیا جائے جیسا کہ ابھی تک ترکی حکومت کی انتظامیہ اسی قانون(منع حجاب کی پیرو ی کرتی رہی ہے ۔ اس ملک کے مسلمانوں کے پے در پے اعتراض اور اصرار کے باوجود پردہ دار لڑکیوں کو یونیورسیٹیوں میں جانے یعنی داخلہ سے منع کردیا ہے اور وہاںپر صرف مغربی ثقافت کے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔مترجم فارسی)

۳۵

رضا شاہ پہلوی(١)

شاہ (ملعون) ایران ١٩٢٥ء سے ١٩٤١ء تک عثمانی حکومت کے تختہ پلٹنے کے بعد زمام حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔

____________________

(١)رضا خان شاہ ایران (ملعون) پہلوی سلسلہ کا مؤسس جس نے ١٢٩٩ ہجری شمسی (ایرانی سال کے مطابق) میں حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ وہ (شاہ ملعون) احمد شاہ ، جو خاندان قاچار کا آخری بادشاہ اور چشم و چراغ تھا، اس کی طرف سے''سپہ سالاری'' کے منصب پرفائزہو کر اسی لقب سے مشہو ر ہوگیا۔

وزیرجنگ(دفاع) ہونے کے بعد اپنے وزارت عظمیٰ کے عہد میں قاچاری بادشاہت کے خاتمہ کی فکراس کے دل و دماغ میں پروان چڑھنے لگی۔ ابتدأ میں رضا خان (شاہ ایران ) ایران میں جمہوری حکومت اعلان کرنے کی فکر میں تھا کہ آتاترک کی طرح دین مخالف (لائیک)جمہوری حکومت لائے، لیکن اس پیش کش کی فوراً مخالفت ہوجانے کی وجہ سے، اپنے نقشہ کو بروئے کار نہ لاسکا، بلا فاصلہ کسی دوسرے حل تلاشنے کے چکر میں پڑگیا اور اپنے منصوبہ میں تبدیلی کردی۔ ٩ آبان ١٣٠٤ ہجری شمسی کے جلسہ میںعام منظوری حاصل کر لی گئی کہ قاچاری بادشاہت کو ختم کردیاجائے۔ پارلمانی قومی مجلس ،'' مجلس مؤسِّسین'' کی تاسیس کے بعد، اپنے حق میں ایسے حالات فراہم کئے کہ یہ حکومت اسی(رضا شاہ) کو سونپ دی جائے۔'' مؤسِّسین کی کمیٹی'' نے ٢١آذر ١٣٠٤ ہجری شمسی میں سلطنت کو ایرانی مہینہ کے اعتبار سے ٢٥ شہریور تک کے لئے اس کے حوالہ کردیا۔ وہ روس اور برطانیہ کی افواج کا ایران پرحملہ اور اس پرچڑھائی کے بعد استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگیا۔ اس مدت تک ''رضاشاہ'' کے عنوان سے حکومت کے تخت پربراجمان رہا۔

وہ مختلف عوامل و اسباب کے ذریعہ مغربی تہذیب کو پھیلانے اوراس کو وسعت دینے ،اس کے ساتھ ہی اسلامی تہذیب و ثقافت کی بساط الٹنے کی ہر ممکن کوشش میں مشغول ہو گیا ۔ اس کی گستاخی اور بدتمیزی اس درجہ اوج پر پہونچ گئی کہ ایران کے ایسے شیعی اور مسلمان ملک میں، جو مرکز تشیع سے یاد کیا جاتا رہا ہے وہاں پر ١٧ دی ١٣١٤ ہجری شمسی کو ''کشف حجاب'' یعنی بے پردگی کا حکومتی حکم صادرکردیا؛ اس کے اجرا کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اس (شاہ ملعون) کا بے پردگی کے سلسلہ میں اصرار اس بات کا سبب ہوا کہ بعد، اس نے افغانستان کو مغربی ملک بنانے کی فکر کو اپنے دل و دماغ میں پروان چڑھانا شروع کردیا کہ خود یہیخاص طور سے طبقۂ روحانیت اورعموماًتمامی مسلمانوں نے ملک گیر پیمانہ پر اس حکومت پر بہت شدّ و مدّ کے ساتھ اعتراض کرنا شروع کردیا؛ انھیں اعتراض آمیز اور بھڑکیلے اجتماعات میںاس کی اس حرکت کے خلاف ایک بہت بڑا اجتماع ہوا، جس میںحاضرین اپنی ناراضگی کا اظہار کررہے تھے۔ یا پھر برجستہ روحانی شیخ محمد تقی بہلول کی پردہ فاش تقریر جس نے ''رضاخان'' کی دین مخالف تحریکوں کو اجاگر کر کے اس کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ پھر لوگوں میںاعتراض کی آگ اوربھڑک گئی۔ رضا خان کے جلادوں نے اس ملعون کے حکم سے اس مسجد پر بے شرمانہ ناگہانی حملہ کروادیا؛ لوگوں کو گولیوں کی باڑھ پر باندھ دیا۔ اس حملہ میں تقریباً تین ہزار لوگ شہید ہوگئے، پھر بھی شاہ نے صرف اسی جرم و جنایت پر اکتفا نہیں کی؛ بلکہ جیسے ہی اس بات کا احتمال دیا کہ عمومی اور عوامی قیام برپا ہوسکتا ہے، مشہد کے تمام مبارز علماء اور مجاہدین کو گرفتار کرکے جلا وطن کردیاگیا۔جلا وطن علماء میں سے کچھ کو تہران روانہ کر دیا گیا، ان میں سے تین معروف، سرشناختہ اور مسلّم مجتہد تھے؛ بلکہ ان کا شمار مراجع کرام کی فہرست میں ہوتا تھا۔ اُن میں سے کچھ کے نام درج ذیل ہیں :

آیة اللہ الحاج آقا ئے حسین قمی صاحب قبلہ و کعبہ ، آیة اللہ الحاج آقائے سید یونس اردبیلی صاحب قبلہ و آیة اللہ الحاج شیخ آقائے محمد آقا زادہ صاحب قبلہ دامت برکاتہم کے نام ہیں۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ رضاخان کے حکم سے حضرت آیةاللہ آقازادہ صاحب قبلہ کو خلع لباس کردیاگیا، اور پولس کے اعلیٰ افسر ''سرپاس'' کے زمانہ میں(جو اس وقت تھانہ کا انچارج تھا) ڈاکٹر احمدی کے ذریعہ (زہر کا) انجکشن د لواکر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس طرح وہ شہادت کے بلند درجہ پر فائز ہو گئے ۔ ''مترجم فارسی''

۳۶

امان اللہ خاں

افغانستان کا حاکم جو ١٩١٩ء سے ١٩٢٩ء تک وہاں کا بادشاہ تھا۔ اس (امان اللہ خان) نے مغربی ممالک میں اپنی آمد و رفت برقرار کئے ہوئے تھا۔

١٩٢٧ئ، یعنی حکومت اسلامی کے ٹوٹنے کے پانچ سال بات اس کی حکومت کے زوال اور اس کے مغربی ممالک کی طرف فرار کرنے کا سبب بنی۔(١) مشہور ہے کہ یہ حکمران مغربی ممالک کی طرف شدید تمایل و رجحان رکھتے تھے اور ان کی ساری کوشش اس پر ہوتی تھی کہ فوراً سے پیشتر موقع ملتے ہی اسلامی علامتوں اور اس کی بنیادوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر پھینک دیں اور دنیا میں اسلام کی سیاسی موجودگی اور اس کی حیثیت کو بالکل سے ختم کرکے اس کی جگہ پر مغربی تمدن اور تہذیب کو اپنے ممالک میں لاکر اسے رواج دیدیں۔ اس طرح علاقائی اور چھوٹی چھوٹی قوم پرست ( Nationalist ) کٹھ پتلی حکومتوں کو اسلامی حکومتوں کا قائم مقام بناکر اپنا اُلّو سیدھا کر لیں۔

زمانہ کے اس حصہ میں، دور حاضر کی سیاسی تاریخ میں، نمودار ہونے والے بہت سے حادثات رونما ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک حادثہ کا وجود میں آنا، خود مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا بیج ڈالنے میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اور ان

____________________

(١)اس لئے کہ اس کا ( امان اللہ کا)اصرار اورسارا زور افغانستان کے مسلمانوں کی مقاومت اور صلابت کے مقابلہ میں بے اثرہو کر رہ گیا اور اس کے منحوس منصوبے، نقش برآب ہو گئے، یعنی بے اثر ہو گئے۔ اس اعتبار سے

اُس(امان اللہ خاں) کو زیادہ موقع نہ ملا اور اپنے منحوس اہداف ومقاصد کو حاصل نہ کر سکا۔ (مترجم)

۳۷

میں سے ایک ''سائکس پیکو''(١) کا معاہدہ ہے جس نے دنیائے اسلام کو بہت سی چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں تبدیل کردیا۔ اور دوسرا معاہدہ ''بالفور معاہدہ''(٢) ( Balfur treaty )

____________________

(١) یہ قرار اور معاہدہ ، صیغۂ راز اور خفیہ قرار تھی جس کو ١٩١٦ء میں پہلی عالمی جنگ کے شورشرابہ کے دوران برطانیہ اور فرانس نے آپس میں طے کرکے ایک دوسرے کی موافقت حاصل کرلی جائے اور اپنے اپنے دستخط کردئے اور اس کو قانونی مان لیا۔ اسی سبب یہ دونوںممالک (برطانیہ اور فرانس) پہلی عالمی جنگ ختم ہونے سے پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں عثمانی بادشاہت کی وراثت کو دونوں نے صیغۂ راز میں رکھکر آپس میں تقسیم کرلیا۔ اس قرار اور معاہدہ کے تحت سوریہ، لبنان اور ترکی کا کچھ فی الوقت جنوبی حصہ، فرانس کے حصہ میں، فلسطین، خلیج فارس کے آس پاس اور گرد ونواح کے علاقے، جو فی الحال سر زمین عراق میں بغداد کے نام سے موسوم ہے وہ برطانیہ کے حصہ میں آگیا ، ا س طرح اس کو اپنی ملکیت میں لے لیا۔ برطانیہ اور فرانس نے عثمانی حکومت کے باقی ماندہ تحت انتظام علاقوں کو تحت نفوذ علاقوں کے عنوان سے آپس میں اس طرح تقسیم کرلیا؛ کردستان اور ارمنستان کے کچھ حصہ کو اپنے ذھن میں روس کے لئے طے کرلیا تھا۔ اس قرار کا ایک نسخہ بطور صیغۂ رازکے روس کے حوالہ کردیاگیا۔ جو ''بال شویکی'' قوموں کے انقلاب کی کامیابی کے بعد یہ خفیہ سندیں سب پر آشکارہوگئیں، جس پر اس کے (روس) دوسرے متحدوں، برطانیہ اور فرانس اپنے واقعی مقاصد کا راز کھل جانے کی وجہ سے اِن متحدوں کی بد گمانی میںاضافہ ہوا۔ اس معاہدہ پر ہونے والی شدید مخالفت کے باوجود معاہدہ پر عمل درآمد ہوگیا۔ برطانیہ اور فرانس نے عملی طورپر (سائکس۔ پیکوکے) معاہدہ کے متن پر بر محل اور بروقت اجراء کردیا۔ اور عثمانی شہنشاہیت کی وراثت، جنگ کے بعد، سرپرستی یا پھر برطانیہ اور فرانس کے تسلط کے سبب انھیں دونوں کے ہاتھ لگ گئی۔ صرف بین النہرین کا وہ علاقہ جو بعد میں برطانیہ کی حمایت سے ایک مستقل ملک ''عراق'' کے نام سے وجود میں آگیا۔ اسی وجہ سے برطانیہ اور فرانس کے درمیان شدید اختلاف وجود میں آگیا، لیکن برطانیہ نے فرانس کو عراقی مٹی کے تیل کی کمپنی میں٢٥٪ حصہ دیکر فرانسوی اعلیٰ عہدہ داروں کے اختلاف کو کسی طرح رفع و دفع کردیا۔ (مترجم: فرہنگ جامع سیاسی، ص٥٤٨ و ٥٤٩)

(٢) اعلان بالفور جو دنیا میں پہلی یہودی حکومت تشکیل پانے والے دن کے عنوان سے ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اور وہ برطانیہ کے وزیرخارجہ( Lord Balfur ) کاایک خط ہے جو پہلی عالمی جنگ میں بعنوان ( Lord Roathslead ) جو برطانیہ کے صہیونی ادارہ کا صدر ہے، جس کے ضمن میں برطانیہ کے وزیر خارجہ نے (فلسطین میں یہودیوں کے لئے وطن کی داغ پیل ڈال دی) اور اس غاصب حکومت کا اعلان کردیا۔ اس خط کے روانہ کرتے ہی بلا فاصلہ مورخہ ٢ نومبر ١٩١٧ء کو لارڈ روتھسلیڈ نے ( Lord Roathslead ) یہودیوں کی فلسطین میں منظم طور پر منتقلی شروع کردی۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں ان دونوں جنگوں کے فاصلہ کے دوران، اس وقت فلسطین میں بسنے کے بعد، یہودیوں کی تعداد ستّر ہزار سے بڑھ کر ساڑھے چار لاکھ افراد تک پہونچ گئی۔ آخر کار ١٩٤٨ء میں اسرائیل کے حکومت بننے پر تمام ہوئی (یعنی اسرائیل کی نامشروع غاصب حکومت وجود میں آگئی) ''مترجم: جامع سیاسی، ص١٦٤ و ١٦٥''

۳۸

١٩١٧ء میں وجود میں آیا، اوراس معاہدہ پر استوار ہے کہ فلسطین میں صیہونی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔

اگر ہم یہ تصور کریں کہ رونما ہونے والے یہ تمام کے تمام حوادث پہلے سے بغیر کسی سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت یہ سب حادثات اچانک وجود میں آگئے ہیں، تو یہ بہت ہی بچکانہ اور بیوقوفی محسوب ہوگی اور ہماری سادہ لوحی اور نا سمجھی کہی جائے گی۔ اگر ہم یہ تصور کریں کہ ان کی ساری کوششیں صرف اس بات پر رہی ہیں کہ اپنے ملک میں صنعت اور ٹکنالوجی کو لانا ہے اور صرف ترقی یافتہ علمی مہارت کا قیام عمل میں لانا مقصود ہے۔ اور اپنی تحقیق و مہارت کو بروئے کار لا کر اس سے صحیح استفادہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ بات بہت ہی نا مناسب ہوگی۔

یہ حکومت کے اعلیٰ عہدہ دار لوگ، تبدیلی و تحول نیز جدت پسندی کے بہانہ سے درج ذیل چیزوں کو نابود کرنا چاہتے ہیں:

(١) عربی رسم الخط اور اس کے حروف۔

(٢) فصیح عربی زبان۔ (چونکہ عوامی زبان لکھی اور پڑھی نہیں جاتی، اس سے کوئی خطرہ بھی لاحق نہیں تھا، لہٰذا اس زبان کو ختم نہیں کیا۔)

(٣) اسلامی پردہ۔

(٤) قضاوت شرعی اور اس کے مطابق حکم دینا۔

(٥) حلال و حرام میں اقامۂ حدود الٰہی۔

(٦) اخلاق اور آداب (اسلامی)۔

اور دوسرے بہت سارے امور کے خلاف کمر بستہ ہو کر ساری طاقت کے ساتھ عملی طور سے مقابلہ کرنا شروع کردیا۔

انتظامی صلاحیتوں کے مالک افراد مختلف اسلامی ممالک کے دانشوروں اور ادیبوں کی ایک جماعت بھی انھیں حکام اور اعلیٰ عہدہ داروں کی جی حضوری میں مشغول ہو گئی اور آشکارا طور پر مسلمانوں کو مغربی بنانے، عالم اسلام کو مغربی سامری کے بچھڑے سے وابستہ کرنے اور ملت اسلامیہ کو اپنے ماضی اور اپنی تاریخ سے بالکل جدا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمدن اور تہذیب و ثقافت سے بالکل محرومیت کا احساس کر رہے تھے، اس کے نتیجہ میں یہ لوگ احساس کمتری کا شکار ہو گئے تھے۔ (بالکل ویسے ہی جیسے ان کے پاس سے تہذیب و ثقافت نام کی کسی چیز کا گذر تک نہ ہوا ہو جب کہ اسلامی تہذیب تمام تہذیبوں سے بہتر اور بہت ہی اعلیٰ ثقافت کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ وائے ہو! ایسی عقلوں پر جو اسلامی ثقافت کو برا اور ناکافی سمجھتے ہیں۔ مغربی تہذیب کی طرف ترجیح دینے کی ہوڑ اور علانیہ طور پر مغربی تہذیب کی دعوت دینے میں پیش پیش رہنے والے لوگوں میں سر فہرست ایسے افراد موجود ہیں جن کا شمار مفکرین، مصنفین، صاحبان نظر اور صاحبان قلم میں ہوتا ہے۔ مترجم)

۳۹

صاحبان قلم اور مفکرین مغرب پرستی میں پیش پیش

مغربی تہذیب کی طرف جھکاؤ اور اس کی طرف دعوت دینے اور ان کے دامن میں پناہ لینے کی تشویق کرنے والے قافلہ میں، صاحبان قلم اور ادباء کے ایسے محترم چہرے سامنے آئے جنھوں نے اپنی دعوت کو کتابوں، تصنیفوں، تحریروں اور اپنے ادبی آثار کے ذریعہ قوت بخشی (بلکہ اپنی تحریروں کو اجانب کے نام وقف کر دیا۔) میں اس مقام پر (اس بحث میں) ان افراد میں سے کچھ کی طرف اشارہ کر رہا ہوں: تاکہ اس نسل کے جوان، اس بات سے بخوبی آگاہ ہو جائیں، کہ کس قدر رہبران کفر، عالمی استکبارا ور سامراج کے کالے کرتوت، ان کی قدرت اور حیثیت کتنی زیادہ ہے جس کو امت اسلامیہ اور اس کی تہذیب و ثقافت کے خلاف، اس نسل سے پہلے والی نسلوں کے لئے، کن کن دسیسوں، حیلوں اور اپنی چالوں کو بروئے کار لائے اُن سب کو اچھی طرح سے پہچان لیں۔ (سوچ سمجھ کر کوئی مناسب قدم اُٹھائیں۔ مترجم)

ڈاکٹر طہ حسین اور مغربی تہذیب کی دعوت

عرب سماج میں کچھ مصنفین اور قلم کاروں نے مغربی تہذیب کی طرف میلان کا اظہار کیا، جن میں ڈاکٹر طہ حسین کا نام پیش پیش اور سر کردہ لوگوں میں لیا جاتا ہے؛ ڈاکٹر طہ حسین کی شخصیت اتنی عظیم اور بلند ہے کہ عربوں کے درمیان اس مصری صاحب قلم کا نام ادبیات عرب میں تکیہ گاہ اور ریڑھ کی ہڈی نیز سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

''ڈاکٹر طہ حسین'' نے مغربی (انگریزی)تہذیب و تمدن اور ثقافت کے متعلق اپنے اشتیاق اور عشق کو بڑی ہی بے صبری سے ظاہر کرنا چاہا ہے، اس حد تک کہ جب یہ اپنے وطن یعنی اپنے ملک مصر پلٹ کر آئے تو اپنے یہاں کے لوگوں کو اسلامی تہذیب و ثقافت یعنی اپنی ہی تہذیب سے دوری اختیار کرنے پر زور دینے لگے۔ مغربی تہذیب کے اختیار اور اس کے قبول کرنے نیز ان (انگریزوں) کے قدموں میں پناہ لینے کی تلقین کرنے میں مشغول رہے؛ اچھے برے اور تلخ و شیریں غرض کہ انگریزوں کی تمام چیزوں کو قبول کرنے اور ان سب کو اپنانے کی مستقل دعوت دیا کرتے تھے۔

۴۰