اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار0%

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 103

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

مؤلف: آیت اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 103
مشاہدے: 35326
ڈاؤنلوڈ: 3327

تبصرے:

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 103 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 35326 / ڈاؤنلوڈ: 3327
سائز سائز سائز
اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

اسلام اور مغربی تمدن کی یلغار

مؤلف:
اردو

ترکی زبان کے قدیم علمی ذخائر بھی ایسے ہی حالات، نتائج اور سرنوشت سے دوچار ہوئے؛ جس کے بعد پھر ان ذخائر تک کسی کی رسائی ممکن نہ ہوسکی، یعنی پھر اس کو کوئی سمجھ ہی نہ سکے اور اس کی ضرورت ہی باقی نہ رہ جائے۔ ایسا ہی ہوا کہ لوگ اس کے درک و فہم سے عاجز ہوگئے، پھر آہستہ آہستہ ان زبانوں سے دور ہوگئے۔ اور اس طرح علمی ذخائر یعنی قدیمی کتابوں کو آگ لگانے کی ضرورت بھی باقی نہ رہ گئی؛ اس لئے کہ عربی زبان کے حروف تہجی کی بساط ہی الٹ دی گئی تھی۔ یہ کارروائی اس نتیجہ کے حصول اور اس سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کرنے، کتابوں کو غسل خانوں کے پانی گرم کرنے کے مقصد سے نذر آتش کردینا ایک بہانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ (اس کے علاوہ) اپنے اس اقدام کے ذریعہ (مصنفین، اہل قلم حضرات اور ان کے دیوان) لوگوں کے احساسات اور جذبات یہ سب مردہ عجائب گھر اور میوزیم کی زینت بن گئے اور ان کو طاق نسیاں کے حوالہ کر دیا۔ اور اب اس کا حا صل کرنا ضروری نہیں رہ گیا، چونکہ ان افکار اور شائعات کے اوپر مکڑی نے جالے تن دیئے یعنی یہ سب باتیں ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئیں۔ اب ان کتابوں کو کچھ بوڑھے مولویوں کے علاوہ کوئی پڑھنے والا نہ تھا۔''(١) (یعنی ان کے علاوہ کوئی بھی شخص اس کے پڑھنے پر قادر نہیںتھا، اور کوئی ایسی پرانی اور بوسیدہ تحریروں کو پڑھنے کے لئے راغب و مائل بھی نہیں ہوتا تھا۔مترجم)

____________________

(١)الصراع بین الفکرة الاسلامیة والفکرة الغربیة، الندوی، ص٦٢۔

۸۱

فصیح زبان کی نابودی

اِن اقدامات کے گذر جانے کے بعد، تہذیب و ثقافت کو مسخ کرنے کے دعوے دار لوگوں نے قرآن کی زبان کو اپنا نشانہ بنایا، یومیہ اخباروں، ادبی اور ہنری آثار، تحریریں، ریڈیو کے نشریات، قصہ گوئی، خطابت و تقریر میں ان ساری چیزوں کے ذریعہ کوشش کر ڈالی کہ ہماری روز مرہ کی زندگی سے فصیح زبان کو ختم کردیں اور قرآن کی زبان کی ان وسعتوں کے باوجود (فصیح عربی زبان) لوگوں کی محدود معاشرتی زندگی اور عوامی زبان (یعنی بازاری اور مقامی زبان) سے تبدیل کر دیں۔ یہ لوگ یہ کہتے ہیں: ''جس قدر یہ لوگ خدا اور رسول کے کلام اور شریعت کے مصادر اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے جڑے رہیں گے، تو کم سے کم عربوں کے لئے اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ ان کی فصیح زبان خاص علاقہ اور محدود لوگوں کے درمیان بولی جا تی ر ہے، اس طرح یہ زبان قدرے محدود ہو جائے گی اس حدتک کہ اس کے لکھنے، پڑھنے اور بولنے والے بہت کم رہ جائیں گے، کہ اگر کم و بیش یہ زبان بولی جاتی رہی، تب بھی وہ اس کے ذریعہ اپنی تہذیب و ثقافت کو محفوظ کر سکتے ہیں۔''

ڈاکٹر طہٰ حسین صاحب (اس بات کی دعوت دینے والوں میں پیش پیش نظر آتے ہیں کہ قرآن کی زبان کو روز مرہ او ر بول چال کی زندگی سے جدا کردیا جائے) وہ اس سلسلہ میں کہتے ہیں: ''کرہ زمین پر (جیسا کہ کہا جاتا ہے) ایسے دیندار پائے جاتے ہیں جو ایثار و قربانی اور جانبازی کے لحاظ سے ہرگز ہم سے کم نہیں ہیں، مگر یہ کہ ان لوگوں نے بغیر کسی زحمت اور تکلیف کے یہ قبول کر لیا ہے کہ فطری طور پر اپنی پسندیدہ اور خاص زبان ضرور ہونی چاہئے لیکن دینی حمایت اور اس کی پابندی کے اعتبار سے وہ اس طرح سوچتے ہیں کہ زبان و ادب ہماری دنیاوی ضروریات کو پورا کرتی ہیں ایسی زبان بھی ان کے پاس ہونی ضروری ہے، ٹھیک اسی طرح بہترین اور خالص دینی زبان ہونا بھی بہت ضروری ہے؛ جس کے ذریعہ وہ اپنی مقدس دینی کتاب کی تلاوت کرتے اور نمازوں کو ادا کرتے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں: دینی زبان کو بھی اپنائے رہیں اور زمانہ کے ساتھ ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتے رہیں۔

۸۲

مثال کے طور پر: لاتین ( Latin ) زبان عیسائیوں میں سے بعض لوگوں کی زبان، یونانی زبان عیسائیوں کے دوسری جماعت اور گروہ کی زبان، قبطی زبان(١) عیسائیوں کے تیسرے گروہ کی ایک زبان اور سریانی زبان عیسائیوں ہی کے چوتھے گروہ کی زبان ہے، اسی طرح سے مسلمانوں کے درمیان کچھ افراد ہیں جو عربی زبان میں بات نہیں کرتے یعنی ان کی مادری زبان عربی نہیںہے اور وہ اس زبان کو سمجھتے بھی نہیں ہیں، یہ زبان اُن کے سمجھنے اور سمجھانے کا ذریعہ بھی نہیں ہے، اس کے باوجود ان کی دینی زبان عربی ہی ہے۔ بغیر کسی شک و شبہہ کے یہ لوگ اور ان کے احترام کا طریقہ، اپنے دین کی حمایت، پائبند اور دین سے ان کی والہانہ محبت اور اس کے ساتھ لگاؤ ہم سے کم نہیں ہے۔''(٢)

____________________

(١)زبان گروہی از مردم مصر (مصری لوگوں کے بعض گروہ کی زبان)

(٢)الصراع بین الفکرة الاسلامیة والفکرة الغربیة، الندوی، ص٢٢٩و ٢٣٠۔

۸۳

پس پردہ سازش(١)

صرف اپنے ذوق و شوق اور اس کے متعلق اپنے جوش و ولولہ کو ثابت کرنے اور دکھاوے کیلئے ہمارے بارے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کے بہی خواہ اور ان کی زندگی کو مرفہ وآسان تر بنانا چاہتے اور ان کی سطح زندگی کو بلند کرنا چاہتے ہیں، (جیسا کہ اسلامی ثقافت اور تہذیب و تمدن کو مٹانے اور بدلنے والوں کا یہ کہنا ہے) لیکن ان لوگوں کی ان چکنی چوپڑی باتوں سے کوئی فائدہ مسلمانوں کا ذرہ برابر نہیں ہے، بے شک فصیح عربی زبان (زبان قرآن) ان لوگوں کے مقصد کے حصول کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ اور سد راہ محسوب ہوتی ہے اسی وجہ سے یہ لوگ اسلامی ثقافت کو سرے سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔

اِن چودہ صدیوں کے اندر، فصیح زبان نے مسلمانوں کی ادبی اور فکری (نہ یہ کہ صرف عربوں کی زندگی بلکہ تمام لوگوں کے بارے میں) زندگی، غور و فکر کے لئے اسلحہ، اور ایک دوسرے کی باتوں کو سمجھنے، مسلمانوں کے آپس میں ایک دوسرے سے قریب ہونے

____________________

(١)وہ عنوان جس کو اس صاحب قلم نے کتاب کے اس حصہ کے لئے قرار دیا ہے ''ملت اسلامیہ سے اس کی وراثتوں کو ختم کرنے کی سازش رچی جارہی ہے ۔ اور یہ سازش صرف فصیح عربی زبان کی نابودی کے ذریعہ ہی عملی جامہ پہن سکتی تھی'' اور چونکہ بحث کے طولانی ہونے کا خطرہ لاحق تھا اس وجہ سے مندرجہ بالا عنوان پر ہی اکتفا کر لی گئی ہے اور اس بحث نے اس کی جگہ لے لی۔ (مترجم فارسی)

۸۴

اور فصیح عربی زبان لکھنے اور بولنے میں، خواہ نظم و نثر قدیم ہوں یا جدید، اس طولانی عرصہ میں مجموعی طور پر علم و دین نے ان کی ہمراہی کی اور بہت ساتھ دیا ہے۔ ادب کی تمام اصناف سخن میں سنجیدہ اور مزاحیہ کلام سے لیکر حماسہ، غزل، مرثیہ اور ادب کے تمام اصناف سخن میں فصیح عربی ادب و زبان نے تعمیری خدمت کی ہے۔ عربی زبان اپنی چُھپی ہوئی لطافت و شیرینی اور نرمی کے سبب، جو اس زبان میں مضمر ہے۔ ہر زمانہ میں لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے میں پیچھے نہیں رہی ہے؛ اور ہرہر موڑ ہر ہر قدم پر انسانوں کی مشکل کشائی میں آگے آگے اور پیش پیش رہی ہے۔

اس بنا پر فصیح زبان کے ناتواں ہونے اور افہام و تفہیم میں سختی اور زحمت کا شاخسانہ! بنایا گیا اور لوگوں کو آسان عربی زبان کا سبز باغ دکھانے کا مظاہرہ اور جوش و ولولہ کسی ایک اہل زبان یعنی عربوں پر مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے۔ بازاری عامیانہ لہجہ (غیر فصیح یعنی دیہاتی اور محلی لہجہ) اس دور میں اہل عرب کی عقلی، ادبی، سیاسی نیز اقتصادی زندگی کے حوالے سے عرب کے اس فصیح لہجہ کے مقابلہ میں، زیادہ لطیف اور شیرین نہیں ہے۔ (اگر ہم اس کے بر عکس تصور نہ بھی کریں، تب بھی اس سے شیرین کو ئی ا ور زبان نہیں ہو سکتی ہے۔)

زبان کو بہت ہی آسان و شیریں بنا کر پیش کر نے کے سبز باغ دکھانے میں در پردہ ایک سازش کار فرما ہے، جس میں پورا زور اس بات پر لگایا جا رہا ہے کہ عوام کی نظر میں فصیح عربی زبان کی تاثیر کو ختم کر دیا جائے، جو عربوں کی عقلی، ادبی اور سیاسی زندگی میں پوشیدہ (مضمر) ہے۔ اس کو عامیانہ لہجہ میں تبدیل کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ کا قانونی منابع سے مستقیم اور سیدھا رابطہ بالکل ختم کرکے ان (عربوں) کو آپسی میل ملاپ اور ان کے باہمی ارتباط سے محروم کر دیا جائے، اور اسی طرح غور و فکر کے اعتبار سے بھی عربوں کو اسلامی تہذیب و تمدن سے دور کرنے کا ان لوگوں کا مقصد پورا ہو جا ئے گا۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ امت مسلمہ اپنی گذشتہ وراثتوں اور اسلامی ثقافت و تمدن سے دور ہو جائے، قرآن و احادیث سے مستقیم اور سیدھے فائدہ اٹھانے سے محروم ہوجائے۔ اور پھر اپنی سابقہ زندگی سے عاجز ہوکر مشرق یا مغرب کے قدموں میں پناہ لے لے یا پھر زمانہ والوں کی طرح جاہلی تہذیب و تمدن (فرعونی، زرتشتی، عاشوری، کلدانی وغیرہ) کی طرف پلٹ جائیں؛ اور پھر انھیں کے رنگ میں رنگ جائیں۔

۸۵

مختلف دبستان ادب میں عوامی لہجہ کی تعلیم پر زور

اپنے اس مقصد کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے کے لئے عربی زبان کے مختلف مکاتب اور مراکز، دانشگاہ اور اعلیٰ تعلیم گاہوں میں تدریس کی کرسیوں اور اسی طرح عربی دنیا میں اسلام کے بڑے بڑے علمی اور ادبی جرائد کو اپنا زر خرید غلام بنا لیا تھا۔ (اس طرح ان کو اپنی خدمت میں لے لیا؛ ان تمام جرائد اور متعدد ادبی حلقوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا تھا اور وہ بے زر خریدہ غلام بن کر ان کے تابع محض ہوگئے تھے۔ مترجم)

احمد حسن الزیات ''رسالہ اور روایہ'' نامی جرائد کے ایڈیٹر اور مدیر اعلیٰ اس طرح کہتے ہیں: ''وہ قاہرہ کے عربی زبان کے مکاتب کی تأسیس کے ابتدائی دور میں بڑے بڑے منتظمین (عربی اور اسلامی مفاد کے محافظ) اور اہل قلم ادبی مکاتب پر مسلط ہوگئے اس کے بعد بھی مصنفین اور صاحبان جرائد نے ان امور کا نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں لے لیا؛ یہ وہی لوگ تھے جو عوامی زبان کو اہمیت دینے کے حوالے سے اور اس وجہ سے کہ کہیں زبان جمود کے سبب زمانہ کی رفتار سے پیچھے نہ رہ جائے، اس سلسلہ میں ''مجمع'' یعنی زبان و ادب کے امورِ سے متعلق انتظامیہ کو متعدد مواقع پر ٹوکا اور اس امر پر توجہ دلائی۔''(١)

____________________

(١)اللغة العربیة بین الفصحی و العامیة، ص٨١و ص٨٢۔ جیسا کہ ڈاکٹر محمد محمد حسین نے بھی اپنی کتاب

''حصوننا مھددة من داخلھا'' کے ص٢٠٤ میں اس مطلب کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔

۸۶

''آخر کار عربی زبان کی حفاظت کی دعوت دینے والے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ مختلف وسائل اور ذرائع کے سبب، وہ دروس جن کو ''عوامی (عامیانہ) ادبیات'' کے نام سے جانا جاتا ہے، عربی زبان کے ادبیات کی جانچ پڑتال اور تحقیقات کرکے وہ لوگ دانشگاہ (یونیورسٹی) کے تمام شعبوں میں مثلاً شعبۂ ادبیات شعبۂ سماجیات وغیرہ میں دخیل ہو گئے۔ یہاں تک کہ عربی ''الازھر'' کالج کی بنا ڈال دی، اور اُن کو یہ بھی توفیق ہو گئی کہ قاہرہ (یونیورسیٹی) میں اس کے اساتید کی تدریس کے لئے بھی ادبیات کا ایک شعبہ قائم کر لیا جائے، اور انہوں نے ایسا ہی کر دکھایا۔

جب اکثر ماہرین تدریس عربی دبستان ادب میں جمع ہوگئے اس وقت چند صاحبان قلم محققین نے عوامی اور دیہاتی زبان (خاص طور سے قصوں اور بالاخص دیہاتی زبان) پر نکتہ چینی کی اور اعتراض کا بازار گرم کردیا۔ انھیں ''عامیانہ ادب'' میں سے ''ڈاکٹر محمد حسین ہیکل'' کا معروف قصہ ''زینب'' ہے اور اس کے علاوہ دوسرے قصوں کا بھی نام پیش کیا جاسکتا ہے جن پر شدید اعتراض کئے گئے۔ اس دعوت کا زیادہ اثر ادب نو کے حلقوں پر پڑا یعنی شعبۂ ادبیات اور اس سے مربوط کالج اور بڑے مراکز میں تبدیل ہوگئے۔

''قاضی ویلمور'' نے اس بارے میں ''لغة القاہرة'' نامی ایک کتاب تحریر کی انھوں نے اس کتاب میں عوامی زبان کے قواعد و ضوابط وضع کئے اور یہ پیشکش بھی کی کہ اس زبان کو علم و ادب کی زبان قرار دی جائے۔ اور اس نے یہ بھی پیشکش کی کہ عوامی زبان کی تحریر لاتینی رسم الخط میں ہونی چاہئے اور لوگوں کو اسی زبان کے لکھنے پر شوق دلایا جائے۔

۸۷

''مُقتَطِف'' نامی جریدہ نے اسی رسم الخط میں اس زبان کو لکھنے کی پیشکش کے علاوہ اس کی تعریف بھی بہت کی، لیکن یومیہ اخبار نے لکھ ڈالا کہ اس دعوت کے ذریعہ اسلام کی زبان سے مبارزہ کرنا مقصود ہے اور اس کے علاوہ ان لوگوں کا کوئی مقصد نہیں ہے۔''(١)

مدارس پر قبضہ

(دشمن نے) مدارس کی مختلف سطحوں کی تدریس کے حوالے سے منظم اور مستحکم تحریک چلادی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنی اس مہم میں تسلط حاصل کرکے اس کو بھی سر کر لیا۔ اور انھوں (اسلام دشمن طاقتوں) نے دنیا میں بہت سے مدارس، اسکول اور کالج کا قیام عمل میں لائے (اور ان کی تاسیس کی) اور ان مدارس کو چلانے کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا، تاکہ نسل نو کو ماضی کی تاب ناک تاریخ اور گذشتہ وراثتوں سے یکسر جدا کردے؛ ساتھ میں یہ بھی کہ ان مدارس میں مشغول طالب علموں کو بہت ہی سطحی، عمومی اور معمولی تعلیم دی جائے۔ تاکہ یہ لوگ ہمیشہ ہمارے دست نگر اور محتاج رہیں۔

اس اقدام کے ذریعہ عیسائیت کو اپنی تبلیغ و ترویج کا بہترین موقع مل گیا، نوجوانوں اور جوانوں میں اپنی اس تبلیغ سے اس کا کوئی اور مقصد نہیں تھا سوائے یہ کہ یہ لوگ عیسائیت کے بیج کو نوجوانوں اور جوانوں کے دلوں میں ڈال کر اس کو بار آور کرنا چاہتے تھے، تاکہ نسل نو کو ان کی بنیادوں، ماضی کے مستحکم تاریخی حقایق اوران کی پختہ مذہبی اور گہری جڑوں والی ثقافت سے ان کو دور کردیں اور یہی ان کا اصلی مقصد تھا۔

____________________

(١)الاتجاہات الوطنیة ف الادب المعاصر، ج٢، ص١٣٥۔

۸۸

بعض تبلیغی اجتماعات میں، عیسائیت کے مبلغین دین اسلام کے خلاف اپنے مقصد کے حصول کے لئے (تبلیغی ساز و کار اور طور طریقہ کو بتاتے ہوئے کہ تبلیغ اس طرح کی جانی چاہئے) وہ لوگ حقیقی اور خفیہ طور پر مسلمانوں کو عیسائی بنانا چاہتے ہیں، اسی بارے میں وہ آپس میں شکوہ شکایت اور اس سے بہتر کار روائی اور طریقۂ کار کی تلاش کے لئے فکر مند تھے کہ دین اسلام اور مسلمانوں سے کیسے نمٹا جائے۔

اس اجتماع کے اختتام پر، عیسائیوں کے پادری یا کشیش جس کا نام ''سموئیل زایمر'' تھا، وہ اپنی جگہ پر اٹھ کھڑا ہوا؛ اور اس طرح اپنا اختتامیہ بیان دیا۔ وہ اس طرح کہتا ہے: اس اجتماع کے مقررین نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ عیسائیت کی ترویج اور اس کی تبلیغ کا واقعی مقصد، مسلمانوں کو عیسائی بنانا ہرگز نہیں ہے، بلکہ ان کا اصلی مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اُن کے دین اور مذہب سے دور کر دیاجائے؛ ان (مسلمانوں) کو اپنی ثقافت اور تہذیب سے دور کرکے لا مذہب بنا دیا جائے۔ اس بارے میں ہم اپنے ذاتی اور پرائیویٹ اسکولوں اور اسی طرح (دنیائے اسلام کے) سرکاری اسکولوں کے ذریعہ جو کہ ہمارے تعلیمی طریقہ کار کی پیروی کر رہے ہیں ہم یہ کام بہ آسانی انجام دے سکتے ہیں؛ اس لئے کہ ہم نے اُنہیں لوگوں کے درمیان بہت واضح کامیابی حاصل کی ہے۔''(١)

اس موقع پر اسلام پر چھپ کر گھات لگانے اور مخفیانہ حملے کرنے والے (عالمی سامراج، اور استعمار) لوگوں نے اسکولوں، مذہبی اور ثقافتی تعلیم گاہوں میں اپنے نفوذ کے ذریعہ، بہت وسیع پیمانہ پر اسلامی سرزمین پر قبضہ جمانے کی قدرت حاصل کر لی ہے۔

____________________

(١)معرکة التقا لید، ص١٨٠۔

۸۹

''جنرل پی یرکلیر'' نے لبنان میں فرانس کے طور طریقہ پر ادارہ ہونے والی تعلیم گاہوں اور اسکولوں کے بارے میں اپنی نظر کا اس طرح اظہار کیا ہے:

تقریباً پہلی عالمی جنگ کی ابتدا میں (١٩١٤۔ ١٩١٨ء کے دوران) تعلیم و تربیت کا پورا انتظام واہتمام ہمارے ہاتھوں میں رہا ہے یعنی ہم نے اس کا ادارہ کیا ہے۔(١)

مغربی حملہ آوروں اور چھپ کر گھات لگانے والوں نے باقاعدہ جان لیا ہے کہ یہ اسکول، تعلیم گاہیں اور اعلیٰ تعلیمی مراکز (دانشکدے) یہ سب چیزیں نسل حاضر کو ان کی وراثتوں سے دور کرنے کا بہترین اور مناسب ذریعہ ہیں۔ لہٰذا پہلے نسل نو کو ان کی دینی اور مذہبی وراثتوں اور اسلامی تہذیب وثقافت سے جدا کرکے مغربی (انگریزی) افکار اور یورپ کی تہذیب و ثقافت اور تمدن میں غرق کردیں۔

''لارڈلویڈ'' نے (مصر میں وقت کا عالی رتبہ برطانوی نمائندہ) وکٹوریہ اسکندریہ کالج ( College ) ١٩٢٦ء کی ایک تقریر کے دوران اپنے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے یوں کہتا ہے:

ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم مصریوں اور برطانوی شخصیات کے درمیان طرفینی افہام و تفہیم کے تمام ذرایع، جو فی الحال ہمارے اختیار میں ہیں، فراہم کرکے ان میں مزید استحکام پیدا کریں۔ عموماً آپس کا یہی تفاہم اور باہمی تعلقات ہی ہم کو ہمارے مقصد میں کامیاب بناسکتے ہیں۔ وکٹوریہ کالج کی تأسیس سے ''لارڈکرامر'' کا مقصد بھی یہی تھا۔ دو ملکوں کے درمیان تعلقات بڑھانے اور اس کے استحکام میں دانشکدوں اعلیٰ

____________________

(١)الاتجاہات الوطنیة ف الادب المعاصر، ج٢، ص٢٦٦۔

۹۰

تعلیم گاہوں یا کالجوں میں پڑھنے والے جوان لڑکے اور لڑکیوں کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل اور تمام ذرائع سے کہیں زیادہ بہتر، مؤثر اور مناسب وسیلہ ہے، کوئی اور وسیلہ اس کی برابری نہیں کر سکتا ہے۔(١)

وہ (کالج کے) طالب علموں کے بارے میں اس طرح اظہار خیال کرتا ہے: ''وہ وقت زیادہ دور نہیں جب طلباء و اساتذہ کے پاس اٹھنے بیٹھنے اور حشر و نشر کے سبب برطانوی نظریات متأثر ہو جائیں گے۔''

مناسب یہ ہے کہ اب اس موضوع پر زیادہ طول نہ دوں اور اس سے زیادہ اس موضوع کے سلسلہ میں بحث نہ کروں؛ اس لئے کہ محترم قاری حضرات خود بھی ڈاکٹر محمد محمد حسین کی تصانیف ''الغارة علیٰ العالم الاسلام'' اور ''الاتجاھات الوطنیة ف الادب المعاصر'' کے ایسی کتابوں سے استفادہ کرسکتے ہیں؛ اسی طرح ڈاکٹر مصطفی خالدی اور عمر فرّوخ کی کتابیں ''التبشیر و الاستعمار،، جس میں نسل حاضر کی افکار اور تہذیب و ثقافت پر نشانہ سادھا گیا ہے، استعمار کی ان خطرناک سازشوں کو بڑی ہی آسانی سے پہچان سکتے ہیں۔

مندرجہ بالا مذکورہ عبارت میں مغربی رجحان کی دعوت دینے والوں اور اسلامی تہذیب و ثقافت پر حملہ کرنے والے لوگوں کے بارے میں سرسری اور غائرانہ تذکرہ کیا جا رہا ہے جس کو انھوں نے نسل حاضر کی تہذیب اور ان کی ماضی کی وراثتوں اور اسلامی ثروت پر ڈاکہ ڈالنے، نیز ان کو منحرف ا ور گمراہ کرنے کی غرض سے اسلامی ممالک میں داخل ہو گئے ہیں۔

____________________

(١)الاتجاہات الوطنیة ف الادب المعاصر، ج٢، ص٢٦٧ و٢٦٨۔

۹۱

ایک عظیم سازش کے نتائج اور اثرات

ان تمام کدّ و کاوش اور زحمتوں کی اصلی وجہ صرف ایک قضیہ ہے اور وہ یہ کہ ثقافتی اور مذہبی ارتباطی پلوں کا توڑنا اور ان کامنہدم کرنا، جو امت مسلمہ کی نسلوں کو آپس میں اور ان سبھی لوگوں کو دین کے ابتدائی سرچشموں سے جوڑتا ہے۔

یہ وہ پل ہیں جو مذہبی اور ثقافتی میراث کو اخلاق اور افکار کے قالب میں ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرتے ہیں اور اگر یہ پل منقطع اور منہدم ہو جائیں تو ان نسلوں کے درمیان اخلاقی و فکری، مذہبی و ثقافتی رشتے اور تعلقات باقی نہیں رہ جائیں گے۔

مغربی تہذیب کی دعوت دینے والے اور اسلامی تہذیب و ثقافت پر حملہ کرنے والے لوگ، یکے بعد دیگرے انسلوں کو آپس میں جوڑنے والے پلوں کو برباد کرنے کے لئے نشانہ سادھا ہے اور ان کو بالکل سے ختم اور منہدم کر دیا ہے یا پھر ان کو پوری طرح اپنے قبضہ میں لے لیا ہے اور اس پر تسلط جما لیا ہے:

عربی رسم الخط کو اپنے حملہ کا نشانہ بنایا، یہ لوگ لگاتار اس بات کی کوششوں میں مشغول ہوگئے تاکہ عربی رسم الخط کو لاتینی رسم الخط میں تبدیل کردیں۔ اس کے بعد اپنے حملہ کا رخ فصیح زبان کی طرف موڑ دیا اور بہت سارے اقدام کے ذریعہ اس بات کی کوشش کی فصیح عربی زبان کی جگہ عربی زبان کے مختلف عامیانہ لہجوں کو بروئے کار لائیں۔ (اور جب اس میدان میں بھی مخفیانہ حملہ کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی تو) اس کے بعد اپنی توجہات کا مرکز اسکول اور کالجوں اور اعلیٰ تعلیم گاہوں کو بنالیا اور ان پرتسلط حاصل کرنے کے لئے تعلیمی طور طریقوں اور ان میں، اساتذہ کی تقرری اور ان کی فراہمی اور ان کی درسی کتابوں کے ا نتخاب اور نصاب میں اپنے منشا کے مطابق تبدیلی کی تمام کوششیں کر ڈالیں۔

۹۲

اس کے بعد مسجدوں دینی مدارس اور اعلیٰ اسلامی تعلیم گاہوں ( Islamic Universities ) پر تسلط حاصل کرنے کی غرض سے بہت سے اقدامات کر ڈالے اور اپنی مختلف چالوں اور حیلوں کو بروئے کارلائے اور نوبت یہاں تک پہونچ گئی کہ ''شیخ الازہر'' کا انتخاب بھی (یعنی شیخ الاسلام ایسا عہدہ ہے جو دینی اعتبار سے خاص عظمت اور اہمیت کا حامل ہے) یہ بھی صدر جمہوریہ کے دستور کے مطابق منصوب ہونے لگا۔(١)

یہاں تک کہ شیخ الازہر کا گھر اور ان کے گھر والے بھی اس طوفان کی لپیٹ سے نہ بچ سکے اور اس بات کی انتھک کوشش میں مشغول ہوگئے کہ آزادی بنام آوارگی اور بے بندوباری اور لاابالی گری کو رواج دیں اور ایک نسل سے دوسری نسل میں ان کے مقدسات اور مذہبی وراثتوں اور تاریخی حقائق کو ان تک منتقل ہونے سے روک دیں۔

اور اسی طرح یہ حملہ کرنے والے اسلام و مسلمین کو مغربی تمدن کے قدموں میں

ڈال دینے والوں یعنی در حقیقت اسلام و مسلمین کے جانی دشمنوں نے بہت کوشش کر ڈالی کہ نسلوں میں اسلامی وراثتوں، مذہبی تہذیبوں، نیز تابناک ماضی کی تاریخ سے اُن کو بالکل دور کر دیں اور ایک ایسے معیار پر ان کی تربیت کریں جو ان کی تمام مذہبی اور ثقافتی بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ (نسل نو کو اس سے دور کردے، اس طرح سے کہ وہ لوگ دوبارہ کبھی اس کی طرف مائل نہ ہوں اور اس طرح سے نسلوں کے باہمی روابط بالکل ختم ہوجائیں۔مترجم

____________________

(١) ١٩٦١ء میں پاس ہونے والے بل اور قوانین کی دفعہ ١٠٣ کے ٥ویں اور ٧ویں شق کے بموجب طے پاگیاہے کہ الازہر کی انتظامیہ کو منظم کرنے کے لئے ایسا کیا گیاہے۔

۹۳

جاہلی تہذیب و تمدن کو خرابات سے باہر لانا

ان تمام امور کا اصلی سبب، تہذیب کہنہ اور نو کے درمیان کا اختلاف ہرگز نہیں ہے، جیسا کہ جدت پسندی اور مغرب مآبی کی دعوت دینے والے یہ چاہتے ہیں کہ ان مسائل کی ایسی ہی تفسیر کریں، بلکہ ان کی تمام کدّ و کاوش اور اس کی کار کردگی کا اصلی راز، خاص طور سے اس نسل کو اسلام و دین سے روکنے کی طرف ہی پلٹتا ہے؛ مجموعی طور سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ''تہذیب کہنہ اور نو'' کا یہاں پر یکسر کوئی تصور بھی نہیں ہے بلکہ اُن کا اصلی مقصد دین اسلام سے مقابلہ کرنا اور اس کو نیست و نابود کردینا ہے۔

اس دعوت (قدامت پسندی اور جدت پسندی میں کوئی جنگ اور اختلاف بھی نہیں ہے) کی دلیل یہ ہے کہ خود جدت پسندی اور تہذیب نو کی دعوت دینے والے لوگ مذہبی اور ثقافتی پلوں کو ایک خاص طرز کے ذریعہ نسل نو کو قدیم جاہلی تہذیبوں سے تال میل کے لئے مصر، عراق، ایران، ترکی، شام اور اسلامی دنیا کے دوسرے ممالک میں (دین بزرگ اسلام سے بے توجہی کرتے ہوئے اس) پروگرام بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا سارا اختلاف اور بنائے مخاصمت نسل نو کو دین مبین اسلام سے دور رکھنا ہے، جس کو وہ لوگ بیخ و بُن سے اُکھاڑ دینا چاہتے ہیں۔

اگر جدت پسندی اور فکر نو کو رواج دینے کے دعوے داروں کے ساتھ، مغرب مآبی اور جدت پسندی ہی کے دعوے دار مصر میں فرعونی ثقافت، ایران میں سامانی ثقافت، عراق میں بابلی ثقافت، ترکی میں بربری ثقافت اور دوسری بہت سی ثقافتوں کے احیا اور اس کے رواج دینے کے حامی اور اس پر مصر بھی ہیں۔... کیا ہمارے پاس ایسے حالات فراہم نہیں تھے؟ کہ ہم لوگ یہ سمجھ سکیں کہ فطری طو ر پر یہ اختلاف قدیم و جدید ثقافت کے درمیان ہے یا چپقلش اور اختلاف کی بنیاد کوئی اور چیز ہے؟ جس کے ارد گرد تمام اختلافات چکر کاٹ رہے ہیں۔

اس زمانہ میں ہم بالوضوح یہ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ جدت پسندی کی دعوت دینے والے بڑی ہی جلد بازی کرکے اس بات کے درپے ہیں کہ تمام حالات اور وسائل سے استفادہ کرکے فرعونی، ہِخامَنشی، ساسانی، بابلی اور بربریت کے دور قدیم کی جاہلی ثقافتوں تہذیبوں اور تمدنوں کوا مت مسلمہ کی زندگی اور تمام ادبی حلقوں میں، شعر و نثر سے لیکر مجسمہ سازی، قصہ گوئی، تھیٹر، سینما، مطبوعات، تعلیمی اور درسی کتابیں، پوشاک اور معماری کے ہنر میں قدیم جاہلی تہذیبوں کا جلوہ دیکھنے کو ملتا ہے، اسی طرح چوراہوں، میدانوں، سڑکوں، محلہ جات اور پارک وغیرہ کے نام رکھنے میں قدیم جاہلی تہذیب و ثقافت کو از سر نو زندہ کر رہے ہیں۔

۹۴

قدیم جاہلی ثقافتوں کے احیا میں ''فولکلور''(١) کا کردار

قدیم جاہلی تمدن کے احیا کرنے کے مختلف وسائل میں سے ایک وسیلہ ''فولکلور'' ہے، جس سے اُن (قدیم جاہلی تمدن) کے احیا میں استفادہ کیا جاتا ہے۔ واقعاً ''فولکلور'' اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے احیا، نشر اور توسعہ دینے، باہمی روابط پیدا کرنے، عقائد، آئین اور آداب کو بیان کرنے، افسانوں اور قدیم جاہلی خرافات حتی ناچ گانے لباس اور اس کے پہننے کے طور طریقے مقامی گیت اور وہ گانے جو قدیم جاہل امتوں میں دس صدیوں کے درمیان رائج اور حاکم تھے۔ زمانہ نے اس کو اور اس کے کردار کو طاق نسیاں کے حوالہ کر دیا تھا(٢) اور ایسا کیونکر ہے؟

(صدحیف) اس زمانہ میں ''فولکلور'' کے بارے میں مطالعات اور تحقیق و جستجو، جانچ پڑتال اور چھان بین ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ہنر، عقائد و آداب اور عوامی رسم و رواج نے اس طرح اپنے ہاتھ پیر پھیلا لئے ہیں کہ لوگ اس کے سبب دیوانگی اور بے حیائی پر اتر آئے

____________________

(١)''فولکلور'' تودہ شناسی،یعنی مختلف النوع اور بہت سی معلومات کا خزانہ اور یہ ایک ایسے مجموعہ کا نام ہے، جس میں عقائد، افسانہ اور کہانی، آداب اور رسم و رواج، دیہاتی ترانے، گیت وغیرہ پائی جاتی ہیں۔

(٢)مؤلف محترم نے ان چیزوں میں اکل و شرب کو بھی درج کیا ہے۔

۹۵

ہیں، جن کی وجہ سے دل و دماغ میں بہت زیادہ تشویش ہوگئی ہے۔ اس صدی (قرن) میں ذہن و دماغ کی پر یشانی اور آزار کا اصلی سبب صرف یہی بتایا ہے۔

ہمارے ممالک کے ذمہ دار لوگ (عربی سرزمین کے حکّام مراد ہیں) فراعنہ اور شاہدان جاہلیت کے چہروں کو آشکارا طور پر مسلمانوں کے معاشرہ میں قابل توجہ رونق دیکھنے کو ملتی ہے، میدانوں، سڑکوں، ہوٹلوں، قمارخانے اور دوسرے ثقافتی مراکز، سینیما، پیٹرول پمپ یہاں تک کہ تعمیر گاہوں میں انکی تصاویر لگانے میں اپنے اشتیاق و خوش بختی کا اظہار کرتے ہیں۔ جہاں تک سڑکوں کے نام کی بات ہو بطور مثال ''امسیس اور کورش'' کے نام میں ہوٹلوں کو ضرور مشاہدہ کیا ہوگا ''حمورابی سگریٹ'' اور انھیں کے ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو ظاہراً بہت ہی معمولی لگتی ہیں؛ حالانکہ ''ابوذر سلمان فارسی صھیب رومی عمار یاسر مصعب ابن عمیر'' اور انھیں کے ایسے بہت سے اسلامی نام موجود ہیں، ہمارے معاشرہ میں جن کی طرف کوئی توجہ بھی نہیں کی جاتی ہے، اور اس کے مقابلہ میں قدیمی جاہلی ثقافت کے احیا پر اتنا زور دیا جاتا ہے۔

''گِب'' ( Gibb ) نے اپنی کتاب ''وجھة الاسلام،، میں لکھا ہے: عالم اسلام میں مغرب نوازی کا سب سے اہم مظہر قدیم جاہلی تمدن کے احیا اور اس کے اہتمام و انتظام میں ہے۔ اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے؛ جن کو مختلف اسلامی ممالک میں بھی بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ اب بھی وہ تمام آثار قدیمہ مسلمانان عالم کے اختیار اور ان کی دیکھ ریکھ میں ہیں۔ اگر آپ اس اہتمام اور انتظام کو بطور محسوس دیکھنا چاہیں تو مثال کے طور پر ترکی، مصر، عراق، انڈونیشیا اور (ماقبل انقلاب اسلامی) ایران میں ان سب چیزوں کا بآسانی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔''

مغربی حملہ آوروں نے جن اسلحوں سے فائدہ اٹھایا ہے اُن میں سے ایک جاہلی تمدن کو ملبوں کے نیچے دبے ہوئے اور زمین کی پرتوں کے اندر سے باہر نکالنا ہے جس سے امت مسلمہ کی زندگی میں دوبارہ پیش کیا جاتا ہے اور ان خرافات کو ''آثار قدیمہ'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

۹۶

جاہلی تمدن کے احیا میں آثار قدیمہ کا کردار

مغرب نوازی اور جدت پسندی کے دعوے دار لوگ عالمی سامراج اور استعمار گروں کی توجہات کو غیر معمولی طور پر آثار قدیمہ کی مختلف اشیا اور مسائل کی طرف مبذول کرائی ہے۔ ہمارے ممالک میں بین الاقوامی ہیئتوں اور یونسکو کے ساتھ تعاون کے ذریعہ عجائب گھروں اور چڑیا گھروں کے قیام میں کثیر مال خرچ کیا جارہا ہے، دور جاہلیت کے آثار قدیمہ کے احیا کو اپنے ملبوسات اور پہناوے کے نئے نئے رسم و رواج اور جدید فیشن کی صورت میں ہم نے جاہلی تمدن کو پھر سے زندہ کرلیا ہے۔

''فولکلور ''کی طرف ہماری جی توڑ توجہ، قلبی لگاؤ، قدیمی ہنر اور قدیم جاہلی خرافی عقائد کا احیا، ہماری زندگی میں پوری طرح غیر فطری اور پر اسرار و مرموز لگتا ہے۔ اسی طرح مبالغہ کی حدتک آثار قدیمہ کی حفاظت کا اہتمام اور اس قدر اس کا انتظام و انصرام (اس تعجب خیز اور افراطی رویہ کے ساتھ) ان (قدیمی آثار) کو اکٹھا کرنے کے لئے اتنے کثیر مال و دولت کا صرف کرنا، اس کرّوفر کے ساتھ اسکے اقدار کی حفاظت اور اس طرح سے ان کا پیش کرنا، یہ سب کچھ غیر فطری اور مشکوک نظر آتا ہے۔ ہم جب ان کار روائیوں کی تہہ میں جاکر دیکھتے اور بغور ملاحظہ کرتے ہیں تو اُن کی جڑوں میںیہودیت اور صلیبیت کے تانے بانے بخوبی نظر آتے ہیں۔

محمد غزال کہتا ہے: اس دعوت کو تجسس اور تحقیق، آثار قدیمہ کی شناخت اور باقی رہنے والی تبلیغ کی دعوت کے ذریعہ آثار قدیمہ کی تحقیق و جستجو میں ہمراہی اور ان کو تلاش کیا ہے۔ جیسا کہ دنیا کو ''توت آنخ آمون''(١) کی کشف قبر کی تبلیغ، جس کو ''لارڈ کارنفون'' نے انجام دیا، مشہور کروڑپتی ''راکفلّر'' نے دسیوں ملین ڈالر بغیر کسی عوض کے خرچ کردیئے اور ان کو مردہ عجائب گھر میں فرعونی آثار کی حفاظت کے لئے لگا دیئے، جس نے آثار قدیمہ سے متعلق ایک تعلیم گاہ (کالج) کی بنیاد بھی ڈالی۔ جیسا کہ معروف ہے کہ ''راکفلّر'' یہودی الاصل، بلکہ شدت پسند یہودی تھا، اس کا اتنی زیادہ رقم خرچ کردینا نیز بے دریغ سخاوت کا مظاہرہ کرنا اس بنا پر ہے کہ اس میں صیہونیت کے زبردست اور متعدد مفاد وابستہ اور پوشیدہ تھے۔(٢)

____________________

(١)فرعونی سلسلہ کا ١٨واں (١٣٥٠۔ ١٣٤٢ قبل مسیح) اس نے شہر ''بتس'' آمون ( Ammon ) کی پرستش کو لازم قرار دیا تھا، اس کا مقبرہ جس میں بہت سی گرانقدر اور قیمتی اشیا موجود تھیں، جن کو ١٩٢٢ء میںکشف کیا گیا۔ (مترجم فارسی)

(٢)حقیقة القومیة العربیة، محمد غزال، ص٢٠٥۔اسلام نے آثار قدیمہ پر کافی توجہ مبذول کرائی ہے اور اس کا حامی بھی رہا ہے۔ لیکن یہ توجہ قدیمی جاہلی تمدن پر فخرومبا ہات کے لئے نہیںبلکہ اس سے درس عبرت حاصل کر نے، غرور دنیا اور اس کے فریب سے بچنے کیلئے ہے۔

۹۷

عراق میں، عراقی حکومت نے ١٩٩١ء میں ''بابل اور آشور'' جیسی قدیم جاہلی ثقافتوں کے احیا کے لئے بہت بڑا اجتماع برپا کیا، جس میں ملک اور بیرون ملک سے بہت سے آثار قدیمہ کے ماہرین کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ شہر موصل میں ''آشور'' اور حلہ میں''بابل'' کے آثار کی تجدید بنا کا نقشہ بنا کر اس کا لائحہ پیش کرکے فورا ًتعمیر نو اور مرمت کا کام شروع کردیا گیا۔ صرف بابل کی مرمت کے لئے بارہ ملین ڈالر کا تخمینہ لگاکر اس کا بجٹ پاس کیا گیا، جس کو عراقی حکومت نے خود ہی ادا کیا؛ اسی وجہ سے عراقی حکومت نے شہروں کے نام تک بدل دیئے اور قدیمی جاہلیت کے نام پر ان شہروں کے نام رکھ دیئے، جیسا کہ موصل کا نام ''نینویٰ'' اور شہر ''حلّہ'' کا نام بابل رکھ دیا اور پرانی تاریخ کے منوں ملبے سے کھینچ کر باہر لے آئے؛ اسے پھر سے زندہ کر دیا۔

ایران میں، شاہ ایران نے لوگوں کی توجہ دین محمدی سے ہٹانے نیز اسلام سے لوگوں کے تعلق کو ختم کرنے کے لئے، ان کو زرتشتی گری، ہِخامَنشی اور ساسانیت سے جوڑنے میں بہت دلچسپی دکھائی؛ اور ان سے خصوصی لگاؤ کا اظہار کیا۔ اس کے متعدد کارناموں میں سے ایک یہ ہے کہ ہجری تاریخ کا خاتمہ کرکے اس کی جگہ شہنشاہی سَنِ تاریخ کو رائج کیا؛ اس جگہ شاہ ایران کے بطور خاص دو کارناموں کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔

۹۸

شاہ کی حکومت نے، ایرانی سال کے اعتبار سے ١٣٢٠ ہجری شمسی کو، جس دن محمد رضا پہلوی نے ایرانی حکومت کو اپنے اختیار میں لیا تھا، اسی دن کو ٢٥٠٠سالہ ''شہنشاہی شمسی سال'' میں تبدیل کردیا۔ مشورتی مجلس کو نسل نیز عوامی مجلس (سینٹ) نے بھی مشترکہ نشست میں اس (شہنشاہی شمسی سال) کی منظوری دے دی۔(١)

شاہ ملعون نے ٢٥٠٠سال گذرنے پر قدیم زرتشتی تمدن کی یاد تازہ کرنے کے لئے شیراز میں پرسپولیس جس کو آج کل'' تخت جمشید'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، وہاں پر ایک بہت بڑا عالمی جشن برپا کیا؛ اس میں دنیا بھرکی بڑی بڑی سیاسی شخصیتوں اور بادشاہوں کو شرکت کرنے کی دعوت دی۔ ١٠٠ملین ڈالر قدیمی پوشاک اور قدیم گھوڑا گاڑی (بگھیوں) زیورات اور مصنوعی داڑھی، موچھوں (اس زمانہ میں رائج) اور دوسرے لوازمات پر خرچ کردئے۔

آپ کی اطلاع کے لئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ شاہی حکومت نے ''کورش کبیر'' نامی فلم بناکر اس کو (یورپ کے ممالک میں بھیجنے کی غرض سے)(٢) ١٠٠ملین تومان(٣) امریکی فلم لکھنے والے کو ادا کئے۔ اس مقام پر بہت زیادہ شواہد موجود ہیں، جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہ شخصیتیں اس بات کی طرف مائل تھیں کہ دنیائے اسلام میں ہر ممکن مختلف طریقوں کے ذریعہ قدیم جاہلی تمدنوں کو پھر سے احیا کیا جائے۔

اسی لئے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کہنہ اور نو کے درمیان کا اختلاف، علم کے دروازوں کو کھولنے اور مغربی پیش رفتہ مہارت (ہمارے لئے) کے حصول نیز علم اور تکنیک تک دست رسی کے لئے نہیں تھیں، بلکہ یہ سب کچھ اسلامی تعلیم کی مخالفت میں انجام دی جارہی تھیں۔ ان تمام اقدامات اور دھوکہ ڈھڑیوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ نسل حاضر کو گذشتہ

____________________

(١)تاریخ سیاسی ایران، ڈاکٹر سید جلال الدین مدنی، ج٢، ص٢٣٣۔

(٢)تقریباً ١٤ میلین ڈالر۔(٣)تاریخ نیم قرن جنایت (٥٠ سالہ جرم و جنایت کی تاریخ) سرہنگ احمد ودّی ص١٨٠۔

۹۹

تمدن اور ان کی مذہبی اور ثقافتی نیز تاریخی اور قدیمی وراثتوں اور اس کے حقائق سے بالکل عاری کردیا جائے اور انہیں صرف سطحی اور سرسری معلومات فراہم کی جائے؛ یہی ان کا اصلی مقصد ہے۔

اِن تمام اقدامات کی دو مقام پر تطبیق کی جاسکتی ہے:

پہلی صورت: ابتدا میں تہذیب و ثقافت پر حملہ کرنے والے لوگ اس امت کو ان کے گذشتہ مذہب، ثقافت اور تمدن سے جدا کرنے میں بہت زیادہ دلچسپی دکھاتے۔ (اور بڑے ہی انہماک کے ساتھ اس تخریب میں لگے ہوئے ہیں، ہماری دینی وراثتوں کی طرف للچائی نظروں سے اپنی نظریںجمائے ہوئے ہیں اورہر آن اس کو ہڑپ لینے کی تاک میں ہیں۔مترجم)

دوسری صورت: دوسرے موقع پر یادوسرے مرحلہ میں اپنی دعوت کے رخ کو جوانوں کی ثقافت اور مذہب کی واقعی صورت کو مسخ کر کے قدیمی جاہلی تمدنوں اور ثقافتوں سے جوڑنا چا ہتے ہیں، جو صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں، اور دوبارہ ان تمدنوں کو زندہ کرکے ملبے کے اندر سے نکال کر منظر عام پرلانا چاہتے ہیں، تاکہ واقعی اسلام کے مقابلہ میں انھیں پیش کریں۔

حکومتیں، حکام اور وہ لوگ جو ان کا اتباع کرتے ہیں اور تمام امور میں ان کے پیچھے پیچھے چلتے اور ان کے تابع محض ہیں، اپنے بہت سے مال و دولت کو صرف انھیں امور میں خرچ کرتے ہیں۔ اپنے اس ہدف کو بروئے کارلانے کے لئے، بڑے بڑے جشن اوراجتماعا ت کو برپا کرنے کی غرض سے بہت سے امدادی ساز و سامان کو اپنے ذاتی اخراجات میں شامل کر لیا۔ اور اس امت کو مختلف سازش کے ذریعہ ثقافت، مذہب اور اس کی قدیم وراثتوں سے جدا کرنے کی ٹھان لی ہے۔ ان لوگوں نے یہ بات طے کرلی ہے کہ اس امت کو اس کی ثقافت اور وراثتوں سے جدا کرکے شرم آور اور گھناؤنے میل جول اور ناجائز تعلقات قائم کرنے کے ذریعہ یہ اقدام کیا ہے کہ ان کو گذشتہ جاہلی اور فرعونی ثقافتوں کے درمیان ایک قسم کا رابطہ قائم کرکے اس باہمی ارتباطی پل کے ذریعہ فرعونی، زرتشتی، کسرائی، بابلی، آشوری اور بربری قدیم جاہلی تہذیب و تمدن سے ان کو پھر سے جوڑ دیں۔

حقیقتاً، تعجب کا مقام ہے کہ انسان اس بات پر افسوس کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ کہ ایسی شرمناک حرکتوں، فریب اور دھوکہ دھڑیوں کے ذریعہ دن دہاڑے امت اسلامی کی ذہنیت کو مسخ کرنا چاہتے ہیں، قدیمی وراثتوں کی بربادی اور اسی طرح آہستہ آہستہ ثقافت اور تمدن کو غارت کرنے میں مشغول ہیں، اس طرح حیلہ گری کا موقف اختیار کر نے کے سبب مقابلہ اور ٹکراؤ کی بھی نوبت نہیں آئی اور وہ لوگ اپنے مقصد تک پہنچ گئے۔ لیکن ''جس کواللہ رکھے اس کو کون چکھے'' کے تحت، اگرچہ اس قوم کو بہت مشکلات اور خطروں میں گھیر دیا گیا ہے، اور وہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اس امت کو صفحۂ ہستی سے مٹادیں؛ لیکن خدا وند عالم نے ارادہ کر لیا ہے کہ اس قوم کو خواب گراں سے بیدار کردے اور اس نے اپنی اس عزیز اسلامی امت پر نظر لطف و کرم فرما دی ہے؛ بحمد اللہ اب مسلمان لوگ بیدار ہو گئے ہیں۔

۱۰۰