تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک0%

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 328

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف: غلام حسن محرمی
زمرہ جات:

صفحے: 328
مشاہدے: 86605
ڈاؤنلوڈ: 4745

تبصرے:

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86605 / ڈاؤنلوڈ: 4745
سائز سائز سائز
تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف:
اردو

تصدق خاتمه راکعا

فاحسن بفعل امام الوری

وہ اما م خلق ہیں انہوں نے ہیں رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی زکوٰة میں دے کر کتنا بڑا نیک کارنامہ انجام دیا

ففضّله اللّٰه رب العباد

و انزل فی شأنه هل اتی

اللہ نے ان کو دوسروں پر برتری عطا کی اور ان کی شان میں سورہ ہل اتیٰ نازل کیا۔

حضرت کے شیعوں نے بھی اپنے بعض اشعار میں خود کو علی کے دین پر ہونے کو ثابت کیا ہے عمار یاسر نے جنگ جمل میں عمرو بن یثربی کے سامنے یہ اشعار پڑھے:

لا تبرح العرصة یا ابن یثربی

حتی اقاتلک علی دین عل

نحن وبیت اللّه اولی بالنّبی

اے یثربی کے بیٹے! میدان سے فرار نہ کرناتاکہ میں دین علی کے دین پر رہ کر تجھ سے جنگ کروں ،خانہ کعبہ کی قسم !ہم نبی کے حوالے سے تم سے اولیٰ ہیں ۔

جیسا کہ عمر بن یثربی کہ جو دشمن علی تھا،محبان علی کو قتل کر کے افتخار کرتا تھا وہ شعر میں کہتاہے:

ان تنکرونی فانا ابن یثربی قاتل علبائ

و هند الجملی ثم ابن صوحان علی دین عل

اگر مجھے نہیں پہچانتے تو پہچان لو میں یثربی کا فرزند ہوں اورعلبا و ہندجملی کا قاتل ہوں ( یہ دو لوگ علی کے دوستوں اور شیعوں میں سے تھے ) اور میں نے علی کی دوستی کے جرم میں صوحان کے بیٹے کو بھی قتل کیا ہے ۔(١)

____________________

(١)شیخ مفید ،الجمل ،مکتب الاعلام الاسلامی ، مرکز النشر ، قم ١٤١٦ ھ، ص ٣٤٦

۱۰۱

(٢) شیعہ، بنی امیہ کے زمانہ میں

بنی امیہ کا زمانہ شیعوں کے لئے بہت دشوار زمانہ تھا جو چالیس ہجری سے شروع ہوتا ہے اور ایک سو بتیس ہجری تک جاری رہتا ہے، عمر بن عبد العزیز کے علاوہ تمام خلفائے اموی شیعوں کے سخت ترین دشمن و مخالف تھے، البتہ ہشام اموی کے بعد سے وہ داخلی اختلافات وشورش کا شکار ہوگئے تھے اور عباسیوں سے مقابلہ میں لگ گئے تھے اور گذشتہ سختیوں میں کمی آگئی تھی خلفائے بنی امیہ شام کے علاقہ میں وہاں کے حاکموں کے ذریعہ شیعوں کے اوپر فشار لاتے تھے اور تمام اموی حکام، شیعوں کے دشمنوں میں سے منتخب ہوتے تھے جو شیعوں کو اذیت دینے سے گریز نہیں کرتے تھے لیکن ان کے درمیان زیاد، عبیداللہ بن زیاد اور حجاج بن یوسف نے ظلم کرنے میں دوسروں پر سبقت کی، اہل تسنن کا مشہور دانشمند ابن ابی الحدید لکھتا ہے : شیعہ جہاں کہیں بھی ہو تے تھے ان کو قتل کر دیا جاتا تھا، بنی امیہ صرف شیعہ ہونے کے شبہ کی وجہ سے لوگوں کے ہاتھ پیر کاٹ دیا کرتے تھے جو بھی خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کرتا تھااس کو زندان میں ڈال دیتے تھے یا اس کے مال لوٹ لیا کرتے تھے یا اس کا

۱۰۲

گھر ویران کر دیا جاتا تھا، اس ناگفتہ بہ صورت حال کی شدت اس حدتک پہنچ چکی تھی کہ علی سے دوستی کی تہمت لگانا کفر و بے دینی سے زیادہ بد تر شمار کیا جاتا تھااور اس کے نتائج بڑے سخت ہوتے تھے، اس خشونت آمیز سیاست میں کوفہ کے حالات کچھ زیادہ بدتر تھے کیونکہ کوفہ شیعیان علی کا مرکز تھا معاویہ نے زیاد بن سمیہ کوکوفہ کا حاکم بنادیاتھا، بعد میں بصرہ کی سپہ سالاری بھی اس کے حوالہ کردی گئی، زیادچونکہ پہلے کبھی علی کے دوستوں کی صفوں میں تھاجو شیعیان علی کو اچھی طرح پہچانتا تھا اس نے شیعوں کا تعاقب کیا، شیعہ جہاں کہیں گوشہ و کنار میں مخفی تھے ان کو ڈھونڈکر قتل کردیا ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیئے اور ان کو نا بینا بنادیا اور انہیں کھجور کے درخت پرپھانسی دے دی نیز انہیں شہر بدر کر دیا یہاں تک کہ کوئی بھی مشہور شیعہ شخصیت عراق میں باقی نہیں رہی۔(١)

ابو الفرج عبد الرحمن بن علی بن الجوزی کہتا ہے:

زیادمنبر پر خطبہ دے رہا تھا کچھ شیعوں نے اس پر اعتراض کیا اس نے حکم دیا اسی٨٠ افراد کے ہاتھ پیر کاٹ دیئے جائیں وہ لوگوں کو مسجد میں جمع کرتا تھا اوران سے کہتا تھا کہ علی پر تبر اکرو اور جو بھی تبرانہیں کرتا تھا ،حکم دیتا کہ اس کا گھر کو منہدم کر دیا جائے۔(٢)

زیاد ہ چھ مہینہ کوفہ میں اور چھ مہینہ بصرہ میں حکومت کرتا تھا، سمرہ ابن جندب کو بصرہ میں اپنی جگہ رکھتا تھا تاکہ اس کی غیر موجودگی میں وہ امور حکومت کی دیکھ بھال کرتا رہے ، سمرہ نے اس مدت میں آٹھ ہزار افراد کو قتل کیا تھازیاد نے اس سے کہا :کیا تجھے خوف نہیں

____________________

(١)ابن ابی الحدید ، شرح نہج البلاغہ ، دار احیاء الکتب العربیة ، قاہرہ ، ١٩٦١ ء ، ص ٤٣۔٤٥

(٢)ابن جوزی ،عبد الرحمن بن علی ، المنتظم فی الامم والملوک،دارالکتب العلمیہ، بیروت، طبع اول، ١٤١٢ہجری،ج٥،ص٢٢٧

۱۰۳

ہوا کہ تونے ان میں سے کسی ایک بے گناہ کو بھی قتل کیا ہو؟ سمرہ نے جواب دیا : اگر اس کے دو برابر بھی قتل کرتا تب بھی اس طرح کی کوئی فکرلاحق نہیں ہوتی۔(١)

ابو سوارعدوی کہتا ہے: سمرہ نے ایک دن صبح میں ٤٧ ،افراد کو قتل کیا جومیرے قبیلہ سے وابستہ تھے اور سب کے سب حافظ قرآن تھے۔(٢)

معاویہ نے خط میں اپنے کارندوں کو لکھا کہ شیعیان او رخاندان علی میں سے کسی کی گواہی قبول نہ کرنا ،اور دوسرے خط میں لکھا کہ اگر دو افرادگواہی دیں کہ اس کا تعلق شیعیان علی اور دوستداران علی سے ہے تو اس کانام بیت المال کے دفتر سے حذف کردو اور اس کے وظائف اورحقوق کو قطع کردو۔(٣)

حجاج بن یوسف جو بنی امیہ کا انتہائی درجہ سفاک و بے رحم عامل تھا مکہ و مدینہ میں لوگوں کو بنی امیہ کا مطیع بنانے کے بعد ٧٥ہجری میں خلیفہ اموی عبد الملک بن مروان کی جانب سے عراق کی حکومت پر مامور ہوا جو شیعوں کا مرکز تھا، حجاج چہرہ کو چھپائے ہوئے مسجد کوفہ میں داخل ہوا صفوں کو چیرتا ہوا منبر پر بیٹھ گیا کافی دیر تک خاموش بیٹھا رہا لوگوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں کہ یہ کون ہے؟ایک نے کہا: نیا حاکم ہے دوسرے نے کہا اس پرپتھر مارے جائیں کچھ نے کہا: نہیں صبر سے کام لیا جائے دیکھتے ہیں کہ یہ کیا کہتا ہے؟ جب سب لوگ خاموش ہو گئے تواس نے اپنے چہرہ سے نقاب ہٹائی اور چند جملوں

____________________

(١)طبری،محمدبن جریر، تاریخ الامم والملوک، دار القاموس الحدیث بیروت،ج٦،ص١٢٣

(٢)طبری محمد بن جریر ،تاریخ الامم والملوک ،ج٦،ص١٣٢

(٣)ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ،دار احیاء الکتب العربیہ،قاہرہ،ج١،ص٤٥

۱۰۴

کے ذریعہ سے ایسا ڈرایا کہ جس کے ہاتھ میں مارنے کے لئے پتھر تھے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گئے اس نے اپنے خطبہ کی ابتدا اس طرح کی:

''اے کوفہ والو! برسوں سے آشوب و فتنہ برپا ہے تم نے نا فر مانی کو اپنا شعار بنا لیا ہے میں ایسے سروں کو دیکھ رہا ہوں جو پھلوں کی طرح بالکل تیار ہیں انہیں جسمو ں سے جدا کر دینا چاہئیے، میں اتنے سروں کو قلم کروں گا کہ تم فرمانبرداری کا راستہ یاد کرلو گے''۔(١)

حجاج نے پورے عراق میں اپنی حکومت قائم کی اور کوفہ کے نیک اور بے گناہ بہت سے لوگوں کا قتل کیا ۔

مسعودی حجاج کے مظالم کے بارے میں لکھتا ہے :

حجاج کی بیس سال کی حکومت میں جو لوگ اس کی شمشیر کے ذریعہ شکنجوں میں رہ کر جاں بحق ہوئے ہیں ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے، اس کے علاوہ کچھ وہ افراد ہیں جو حجاج کے ساتھ جنگ میں اس کی فوج کے ہاتھوں قتل کئے گئے حجاج کی موت کے وقت اس کے مشہور زندان میں پچاس ہزار مرد اورتیس ہزار عورتیں قیدتھیں ، ان میں سولہ ہزار عریاں اور بے لباس تھے حجاج مرد اور عورتوں کو ایک جگہ قید کرتا تھا، اس کے تمام زندان بغیر چھت کے تھے اس وجہ سے زندان میں رہنے والے گرمی اور سردی سے امان میں نہیں تھے۔(٢)

____________________

(١)زبیر بن بکار،اخبار الموفقیات ،منشورات شریف رضی ،قم،١٤١٦ہجری ص٩٩،٩٥،ڈاکٹر شہیدی جعفر ،تاریخ تحلیلی اسلام تا پایان اموی ، مرکز نشر ، دانشگاہ ، تہران ، ١٣٦٣ھ ش، ص ١٨٤، پیشوائی ، مہدی، سیرہ پیشوایان ، موسسہ ، امام صادق قم ، طبع ہشتم ، ١٣٧٨ھ ش، ص ٢٤٦

(٢)مروج الذہب،منشورات موسسةالاعلمی،للمطبوعات ،بیروت،١٤١١ہجری ج٣،ص١٨٧

۱۰۵

حجاج معمولاً شیعوں کو زندانی اور شکنجہ کرتا تھا اور انہیں قتل کرتا تھا شیعوں کی دردناک وضعیت کا پتہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے جس کو انہوں نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم کو اموی دور میں امام سجاد سے بیان کیا ہے ،مرحوم علامہ مجلسینے نقل کیاہے :کچھ شیعیان علی امام زین العابدین کے پاس آ ئے اورمصیبتوں پر آہ و گریہ کیا نیز اپنے درد ناک حالات کو بیان کیا: فرزند رسول، ہم کو ہمارے شہر سے نکال دیا گیا قتل و غارت کے ذریعہ ہم کو نابودکردیا گیا امیر المومنین پر شہروں میں مسجد نبوی میں منبروں سے سب و شتم کیا گیالیکن کوئی مانع نہیں ہوا، اور اگرہم میں سے کسی نے اعتراض کیا تو کہتے تھے کہ یہ ترابی ہے جب اس کا علم حاکم کو ہوتا تھاتو اس شخص کے بارے میں حاکم کے پاس لکھ بھیجتے تھے کہ اس نے ابوتراب کی تعریف کی ہے وہ حکم دیتا تھا کہ اس کو زندان میں ڈال دیا جائے اور قتل کردیا جائے۔(١)

____________________

(١)مجلسی،محمد باقر، بحار الانوار،ج٤٦،ص٢٧٥

۱۰۶

اموی دور میں تشیع کی وسعت

اموی خلفا کے دور میں شیعوں پر ظلم و ستم ہونے کے باوجود تشیع کی ترویج و فروغ میں کوئی کمی نہیں آئی پیغمبر و خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مظلومیت لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف کھینچتی رہی اور نئے نئے لوگ شیعہ ہوتے گئے، یہ مطلب اموی حکومت کے آخری زمانہ میں پورے طور سے دیکھا جا سکتا ہے اموی زمانہ میں تشیع کے پھیلنے کے کئی مراحل تھے ہر مرحلہ کی ایک خصوصیت تھی کلی طور پر شیعوں کی کثرت کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔

(الف) ٤٠ھ سے ٦١ھ تک، دوران امام حسن اور امام حسین ۔

(ب) ٦١ھ سے ١١٠ ھ تک، دورا ن امام سجاد و امام باقر علیہما السلام۔

(ج) ١١٠ ھ سے ١٣٢ھ یعنی اموی حکومت کے اختتام تک، دوران اما م صادق

۱۰۷

(الف) عصر امام حسن ١و امام حسین علیہما السلام

امیر المومنین کے زمانہ میں شیعیت نے آہستہ آہستہ ایک گروہ کی شکل اختیار کر لی تھی اور شیعوں کی صف بالکل نمایاں تھی اسی بنیاد پر امام حسن نے صلح نامہ کے شرائط میں ایک شرط شیعوں کی امنیت کی رکھی تھی کہ ان پر تجاوز نہ کیا جائے(١)

شیعہ رفتہ رفتہ عادت ڈال رہے تھے کہ جو امام اور خلیفہ حکومت سے وابستہ ہو اس کی اطاعت ضروری نہیں ہے، اسی وجہ سے جس وقت لوگ دھیرے دھیرے امام حسن کے ہاتھ پر بیعت کررہے تھے حضرت نے ان سے شرط رکھی تھی کہ وہ جنگ و صلح میں آپ کی اطاعت کریں گے اس طرح واضح ہو جاتا ہے کہ امامت لازمی طور پر حاکمیت کے مساوی نہیں ہے اور معاویہ جیساظالم حاکم امام نہیں ہو سکتا اور اس کی اطاعت واجب نہیں ہے ،چنانچہ امام نے جو خطبہ صلح کے بعد معاویہ کے فشار کی وجہ سے مسجدکوفہ میں دیا، اس میں فرمایا :

خلیفہ وہ ہے جو کتاب خدا اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عمل کرے ،جس کا کام ظلم کرناہے وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا بلکہ وہ ایک بادشاہ ہے جس نے ایک ملک کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے

____________________

(١)ابن شہر آشوب ،مناقب آل ابی طالب ،مؤسسة انتشارات علامہ ، قم ،ج ٤ ص ٣٣

۱۰۸

مختصر سی مدت تک اس سے فائدہ اٹھائے گا بعدمیں اس کی لذتیں ختم ہو جائیں گی لیکن بہر حال اسے حساب و کتاب دینا پڑے گا(١)

اس دور کے تشیع کی دوسری خصوصیت شیعوں کے درمیان اتحاد ہے جس کا سرچشمہ بہترین رہبر کا وجود ہے امام حسین کی شہادت تک شیعوں میں کوئی فرقہ نہیں تھاامام حسن اور امام حسین علیہ السلام کو مسلمانوں کے درمیان ایک خاص اہمیت حاصل تھی ان کے بعد ائمہ طاہرین میں سے کسی کوبھی یہ مقام حاصل نہیں ہوسکایہی دونوں فرزندتنہا ذریت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے ، امیر المومنین نے جنگ صفین میں جس وقت دیکھا کہ اما م حسن تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں فرمایا:میرے بجائے تم اس جوان کی حفاظت کرو (ان کو جنگ سے روکومجھے مضطرب نہ کرو مجھے ان دونوں کی بہت فکر ہے) یہ دونوں جوان (امام حسن وامام حسین) قتل نہ ہوں کیونکہ ان کے قتل ہونے سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نسل منقطع ہوجائے گی ۔(٢)

حسنین کا مقام اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان بھی ایک خاص اہمیت کا حامل تھااس کی دلیل یہ ہے کہ لوگوں نے امام حسن کی بیعت کی اور صحابۂ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت کی خلافت کو قبول کیایہی وجہ ہے کہ خلافت امام حسن میں کوئی مشکل دیکھنے میں نہیں آتی کسی نے اعتراض تک نہیں کیا ،صرف شام کی حکومت کی طرف سے مخالفت کی گئی جس وقت حضرت نے صلح کی اور کوفہ سے مدینہ جانا چاہا تو لوگوں نے شدت سے گریہ کیا مدینہ میں

____________________

(١) ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، منشورات الشریف الرضی، قم ، ١٤١٦ھ ص ٨٢

(٢)نہج البلاغہ ،فیض الاسلام ،خطبہ،١٦٨،ص٦٦٠

۱۰۹

قریش کی طرف سے کسی نے معاویہ کو جو خبر دی اس سے حضرت کی اہمیت و عظمت کا اندازہ ہوتا ہے قریش کے کسی آدمی نے معاویہ کو لکھا :یا امیر المومنین!! امام حسن نماز صبح مسجد میں پڑھتے ہیں ، مصلیٰ پر بیٹھ جاتے ہیں اور سورج طلوع ہونے تک بیٹھے رہتے ہیں ، ایک ستون سے ٹیک لگائے ہوتے ہیں اور جو لوگ بھی مسجد میں ہوتے ہیں ان کی خدمت میں جاتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہیں یہاں تک کہ کچھ حصہ دن کا چڑھ جاتا ہے اس کے بعددو رکعت نماز پڑھتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیو یوں کی احوال پرسی کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے گھر تشریف لے جاتے ہیں ۔(١)

امام حسین کا بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح اقبال بہت بلند تھا یہاں تک کہ عبداللہ بن زبیر جو اہل بیت کاسر سخت دشمن تھا وہ بھی امام حسین کی عظمت سے انکار نہ کرسکا،جب تک حضرت مکہ میں تھے لوگوں نے ابن زبیر کی طرف کوئی توجہ نہ دی اسی بنا پر وہ چاہتا تھا کہ امام جلدی مکہ سے چلے جائیں لہذاا مام سے کہتاہے کہ اگر میرا بھی آپ کی طرح عراق میں بلند مقام ہوتا تومیں بھی وہاں جانے میں جلدی کرتا۔(٢)

حضرت کا مرتبہ اس قدر بلند تھا کہ جب آپ نے بیعت سے انکار کردیا تو حکومت یزیدزیر بحث آگئی اور یہی وجہ ہے کہ حضرت سے بیعت لینے کا اصرار و فشار اس قدر زیادہ تھا ،بنی ہاشم کے ان دو بزرگوں کاایک خاص احترام واکرام تھا اس طرح سے کہ ان کے

____________________

(١) بلاذری ،انساب الاشراف، دار التعارف ،للمطبوعات ، بیروت، ١٣٩٤ھ، ج٣، ص ٢١

(٢) ابن عبد ربہ اندلسی ، احمد بن محمد ، عقد الفرید، دار احیاء التراث، العربی ، بیروت، ١٤٠٠ھ، ج٤، ص ٣٢٦

۱۱۰

زمانے میں ، بنی ہاشم میں سے نہ ہی کسی نے رہبری کا دعویٰ کیا اور نہ ہی کوئی (بنی ہاشم کی)سرداری کا مدعی ہوا،جس وقت امام حسن معاویہ کے زہر دینے کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہوگئے تو شام میں معاویہ نے ابن عباس سے کہا :اے ابن عباس !امام حسن وفات کر چکے ہیں اور اب تم بنی ہاشم کے سردار ہو، ابن عباس نے جواب دیا: جب تک امام حسین موجود ہیں اس وقت تک نہیں ۔(١)

ابن عباس بلند مقام ،مفسر قرآن ا ور حبرالامة تھے اور سن میں بھی امام حسن اور امام حسین دونوں سے بڑے تھے اس کے باوجود ان دوبزرگواروں کی خدمت کرتے تھے مدرک بن ابی زیاد نقل کرتا ہے:

ابن عباس امام حسن امام حسین کی رکاب سنبھالتے تھے تاکہ یہ دو حضرات سوار ہوجائیں ، میں نے کہا : آپ ایساکیوں کرتے ہیں توانہوں نے فرمایا: احمق! تو نہیں جانتا کہ یہ کون لوگ ہیں یہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند ہیں کیا یہ ایک عظیم نعمت نہیں ہے جس کی خدانے مجھے توفیق دی ہے کہ میں ان کی رکاب پکڑوں ؟(٢)

تشیع کی وسعت میں انقلاب کربلاکا اثر

امام حسین کی شہادت کے بعد شیعہ اپنی پناہ گاہ کھو دینے کے بعد کا فی خوف زدہ تھے اور دشمن کے مقابلہ میں مسلحانہ تحریک اوراقدام سے نا امید ہو گئے تھے دل خراش واقعۂ

____________________

(١) مسعودی علی بن حسین ، مروج الذھب ، موسسہ ا لاعلمی ،للمطبوعات، بیروت،ج٣ ص ٩

(٢)ابن شہر آشوب،مناقب آل ابی طالب،موسسةانتشارات علامہ،ج٣ ص٤٠٠

۱۱۱

عاشورہ کے بعد مختصر مدت کے لئے انقلاب شیعیت کو کافی نقصان پہونچا،اس حادثہ کی خبر پھیلنے سے اس زمانے کی اسلامی سر زمین خصوصاً عراق و حجاز میں شیعوں پر رعب و وحشت کی کیفیت طاری ہوگئی تھی کیونکہ یہ مسلّم ہو گیا کہ یزید فرزند رسوصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ل کو قتل کرکے نیز ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کرکے اپنی حکومت کی بنیادمستحکم کرنا چاہتا ہے اور وہ اپنی حکومت کوپائیدار کرنے میں کسی بھی طرح کے ظلم سے گریز نہیں کرنا چاہتا ہے اس وحشت کے آثار مدینہ اور کوفہ میں بھی نمایاں تھے ،واقعہ حرّہ کے ظاہر ہوتے ہی لوگوں کی بے رحمانہ سرکوبی میں یزید کی فوج کی جانب سے شدت آگئی تھی عراق و حجازکے شیعہ نشین علاقے خاص کر کوفہ اور مدینہ میں سانس لینابھی دشوارہو گیااور شیعوں کی یکجہتی و انسجام کا شیرازہ یکسر منتشر ہوگیا تھا امام صادق اس ابتر اورناگفتہ بہ وضعیت کے بارے میں فرماتے ہیں : امام حسین کی شہادت کے بعد لوگ خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اطراف سے پرا گندہ ہو گئے ان تین افراد کے علاوہ ابو خالد کابلی، یحییٰ ابن ام الطویل ، جبیر ابن مطعم۔(١)

مورخ مسعودی بھی ا س بارے میں کہتا ہے : ''علی بن حسین مخفی اور تقیہ کی حالت میں بہت دشوار زمانے میں امامت کے عہدے دار ہوئے ،،(٢) یہ وضعیت حکومت یزید کے خاتمہ تک جاری رہی ،یزید کے مرنے کے بعد شیعوں کا قیام شروع ہوا اور اموی

____________________

(١)شیخ طوسی ،اختیار معرفة الرجال ،معروف بہ رجال کشی،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، ١٤٠٤ہجری، ج ١،ص ٢٣٨

(٢) اثبات الوصیة، مکتبة الحیدریة ، نجف ، طبع چہارم ، ٣١٧٣ھ ص ١٦٧

۱۱۲

حکومت کے مضبوط ہونے تک یعنی عبد الملک کی خلافت تک یہ سلسلہ جاری رہا، یہ مدت تشیع کے فروغ کے لئے ایک اچھی فرصت ثابت ہوئی، قیام کربلا کی جو اہم ترین خاصیت تھی وہ یہ کہ لوگوں کے ذہنوں سے بنی امیہ کی حکومت کی مشروعیت یکسرختم ہوگئی تھی اور حکومت کی بدنامی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ خلافت بالکل سے اپنی حیثیت کھوچکی تھی اور لوگ اسے پاکیزہ عنوان نہیں دیتے تھے یزید کی قبر سے خطاب کر کے جو شعر کہا گیا اس سے بخوبی اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے :

ایها القبر بحوارینا

قدضمنت شر الناس اجمعینا(١)

اے وہ قبرکہ جو حوارین کے شہر میں ہے لوگوں میں سے سب سے بد ترین آدمی کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔

اس زمانہ میں سوائے شامیوں کے شیعہ و سنی سب کے سب، حکومت بنی امیہ کے مخالف تھے، شیعہ اور سنی کی جانب سے بغاوتیں بہت زیادہ جنم لے رہی تھیں ۔(٢)

یعقوبی لکھتا ہے:'' عبد الملک بن مروان نے اپنے حاکم حجاج بن یوسف کو لکھا تک تو مجھے آ ل ابی طالب کا خون بہانے میں ملوث نہ کر کیونکہ میں نے سفیانیوں ( ابوسفیان کے

____________________

(١) مسعودی علی بن حسین ، مروج الذھب ، موسسہ ا لاعلمی ،للمطبوعات، بیروت،١٤١١ھ ج٣ ص ٥٦

(٢)مسعودی علی بن حسین ، مروج الذہب ، موسسہ لاعلمی ،للمطبوعات، بیروت، ١٤١١ ھ، ج٣ ، ص٨١۔٩٩

۱۱۳

بیٹے)کا نتیجہ ان کے قتل کرنے میں دیکھا کہ کن مشکلات سے دوچار ہوئے تھے''(١)

آخرکار خون اما م حسین علیہ السلام نے بنی امیہ کے قصر کو خاک میں ملا دیا ۔

مقدسی کہتا ہے :'' جب خدا وند عالم نے خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بنی امیہ کا ظلم و ستم دیکھا تو ایک لشکر کو کہ جو خراسان کے مختلف علاقوں سے اکٹھا ہواتھا شب کی تاریکی میں ان کے سروں پر مسلط کردیا۔(٢)

دوسری طرف سے امام حسین علیہ السلام اور شھداء کربلا کی مظلومیت کی وجہ سے خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گئی اور ان کے مقام کو اولاد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوراسلام کے تنہا سرپرست ہونے کے عنوان سے مستحکم کردیا ،بنی امیہ کے دور میں جگہ جگہ لوگ یالثارات الحسین کے نعرہ کے ساتھ جمع ہوتے، یہاں تک کہ سیستان میں ابن اشعث کاقیام ،(٣) حسن مثنیٰ فرزند اما م حسن علیہ السلام

____________________

(١) ابن واضح تاریخ یعقوبی، منشورات شریف رضی ،قم،١٤١٤ھ ،ص٣٠٤

(٢) مقدسی، احسن التقاسیم ، ترجمہ منذوی ، شرکت مولفان و مترجمان ایرانی، ج ٢ ص ٤٢٦۔٤٢٧

(٣) عبد الرحمن بن محمد بن اشعث حجاج کی جانب سے سیستان میں حاکم تھا ، سیستان کا علاقہ مسلمانوں اور ہندئوں کے درمیان سر حدواقع ہوتا تھا یہاں مسلمانوں اور ہندوستان کے حاکموں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں ، حجاج کو عبد الرحمن سے جو دشمنی تھی اس کی بنا پر اس نے یہ منصوبہ بنایا کہ اسے اس طرح ختم کر دے ، عبد الرحمن جب اس سازش سے آگاہ ہوا تواس نے ٨٢ھ میں حجاج کے خلاف بغاوت کردی ، چونکہ عوام حجاج سے نفرت کرتی تھی لہذابصرہ و کوفہ کے کافی لوگ عبد الرحمن کے ساتھ ہوگئے، کوفہ کے بہت سے قاریان قرآن ا ور شیعہحضرات قیام کرنے والوں کے ساتھ ہوگئے، اس طرح عبد الرحمن سیستانسے عراق کی جانب روانہ ہوا ، اس کا پہلا (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ ہو )

۱۱۴

کے نام سیتشکیل پایا(١) اسی بنیاد پر امام مہدی کی احادیث انتقام آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عنوان سے پھیلی(٢) اور لوگ بنی امیہ سے انتقام لینے والے کا بے صبری اور شدت سے انتظار کرنے لگے(٣) کبھی مہدی کے نام کو قیام اور تحریک کے قائدین پر منطبق کرتے تھے۔(٤)

دوسری طرف ائمہ اطہار اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان والے شہدائے کربلاکی یادوں کو زندہ رکھے ہوئے تھے ،امام سجاد جب بھی پانی پیناچاہتے تھے اور پانی پر نظر پڑتی تھی تو

____________________

(بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ کا ) پروگرام یہ تھا کہ حجاج کو بر طرف کردے پھر خود عبد الملک کو خلافت سے ہٹادے ، عبد الملک نے شام سے بہت بڑا لشکر حجاج کی مدد کے لئے روانہ کیا ،کوفہ سے سات فرسخ کے فاصلہ پر ''دیر الجماجم ''نامی جگہ پر شام کے لشکر نے عبد الرحمن کو شکست دے دی ،وہ ہندوستان بھاگا اور وہاں کے ایک بادشاہ سے پناہ طلب کی لیکن حجاج کے عامل نے اسے قتل کر دیا ، مسعودی ، مروج الذھب ، ج ٣ ص ١٤٨، معجم البلدان ، یاقوت حموی ، ج ٤ ص ٣٣٨

(١)ابن عنبہ ،عمدةالطالب فی انساب آل ابی طالب، انتشارات رضی،قم ، ص ١٠٠

(٢)ابوالفرج اصفہانی مقاتل الطالبین ،منشوارات شریف رضی ، قم ١٤١٦ھ،ص٢١٦

(٣)یعقوبی نقل کرتا ہے : عمر بن عبد العزیز نے اپنی خلافت کے دور میں عامر بن وائلہ کو کہ جس کا نام وظیفہ لینے والوں کی فہرست سے کاٹ دیا گیا تھا ، اس کے اعتراض کے جواب میں کہا: سنا ہے تم نے اپنی شمشیر کو تیز کیا ہے ،نیزہ کو تیز کیا ہے تیر اور کمان کو آمادہ رکھا ہے اور ایک امام قائم کے کہ وہ قیام کریں لہذا انتظار کرو جس وقت بھی وہ خروج کریں گے اس وقت تمہیں وظیفہ دیا جائے گا،( تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی ، قم ، ١٤١٤ ھ، ج ٢ ص ٣٠٧ )

(٤)ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، ج ٢، ص٢١٠

۱۱۵

آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے، جب لوگوں نے اس کا سبب معلوم کیا تو آپ نے فرمایا : کیسے گریہ نہ کروں اس لئے کہ انہوں نے پانی جنگلی جانوروں اور پرندوں کے لئے آزاد رکھاتھا اور میرے بابا کے لئے بند کردیا تھا؛ایک روز امام کے خادم نے دریافت کیا، کیا آپ کا غم تمام نہیں ہوگا؟امام نے فرمایا: ''افسوس تجھ پر یعقوب کے بارہ بیٹوں میں سے ایک آنکھوں سے اوجھل ہوگیا تھا اس کے فراق میں اتنا گریہ کیا کہ نابینا ہوگئے اور شدت غم سے کمر جھک گئی حالانکہ ان کا فرزند زندہ تھا لیکن میں نے اپنے باپ بھائی ،چچا نیز اپنے خاندان کے سترہ افراد کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا ہے ان کے لاشے زمین پر پڑے ہوئے تھے لہذا کس طرح ممکن ہے کہ میرا غم تمام ہوجائے ؟!''۔(١)

امام صادق امام حسین کی مدح میں اشعارکہنے والے شاعروں کی تشویق کرتے تھے اور فرماتے:'' جو بھی امام حسین کی شان میں شعر کہے اور گریہ کرے اور لوگوں کو رلائے اس پر جنت واجب ہے اور اس کے گناہ معاف کر دئے جائیں گے۔(٢)

امام حسین تشیع کی بنیاداور علامت ٹھہرے اسی بنا پربہت سے زمانوں میں جیسے متوکل کے دور میں آپ کی زیارت کو ممنوع قرار دیا گیا۔(٣)

____________________

(١)علامہ مجلسی ،بحار الانوار ، المکتبة الاسلامیہ ،تہران،طبع دوم ،١٣٩٤ھ ق،ج٤٦ص١٠٨

(٢)شیخ طوسی ، اختیارمعرفة الرجال ، معروف بہ رجال کشی ،ج٢ ص ٥٧٤

(٣)طبری، ابی جعفر محمد بن جریر ،تاریخ طبری ، دارالکتب العلمیہ بیروت،طبع دوم،١٤٠٨ھ ج٥،ص٣١٢

۱۱۶

(ب) عصر امام سجّاد علیہ السّلام

امام سجّاد کے دور کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

پہلا مرحلہ: شہادت امام حسین اوربنی امیہ کی حکومت کے متزلزل ہونے کے بعدسے اورسفیانیوں (ابو سفیان کے بیٹوں اور پوتوں ) کے خاتمہ اور مروانیوں کے برسراقتدار آنے نیز بنی امیہ کے آپس میں جھگڑنے اور مختلف طرح کی شورشوں اور بغاوتوں میں گرفتار ہونے تک یہاں تک کہ مروانیوں کی حکومت برقرار ہوگئی۔

دوسرا مرحلہ: حجاج کی حکمرانی اورمکہ میں عبداللہ بن زبیر کی شکست،(١) سے لے کر امام محمد باقر کا ابتدائی زمانہ اور عباسیوں کے قیام تک۔

____________________

( ١ ) مکہ میں عبد اللہ بن زبیر کی حاکمیت ،اس زمانے سے کہ جب اس نے یزید کی بیعت سے انکار کیا اور لوگوں کو اپنی طرف آنے کی دعوت دی ، یہاں تک کہ ٧٢ھ میں حجاج کے سپاہیوں نے اسے قتل کردیا ، یہ کل بارہ سال کا عرصہ ہے ابن عبدر بہ نے اس بارہ سال کے طولانی دور کو ''العقد الفرید ''میں ابن زبیر کے فتنہ کے عنوان سے ذکر کیا ہے، معاویہ کے مرنے کے بعد مدینہ کے حاکم نے ابن زبیر سے یزید کی بیعت طلب کی، یزید کی بیعت سے بچنے کے لئے جس وقت امام حسین مکہ تشریف لے گئے تو ابن زبیر بھی مکہ آگیا لیکن وہاں لوگوں نے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی، اسی بنا پرمکہ میں امام حسین کا رہنا اسے ناگوار لگ رہا تھا لہذا اس نے امام حسین سے کہا : اگر آپ کی طرح لوگ مجھے بلاتے تو میں عراق چلا جاتا ، امام حسین کی شہادت کے بعد یزید کے خلاف پرچم بغاوت بلند کر دیا یزید نے ٦٢ ھ میں مسلم بن عقبہ کو ایک لشکر کے ساتھ مدینہ کی شورش کو دبانے اور ابن زبیر کی سر کوبی کے لئے پہلے مدینہ اور پھر مکہ روانہ کیا لیکن واقعۂ حرّہ کے بعد مکہ جاتے ہوئے راستہ ہی میں وہ مر گیا اس کا جا نشین حصین بن نمیر شام کے لشکر کے ہمراہ مکہ گیا اور ٦٤ ھ میں منجنیق کے ذریعہ کعبہ پر آگ برسائی انہ کعبہ کا پردہ جل گیا اسی جنگ کے دوران یزید کے مرنے کی خبر ملی، شام کی فوج سست پڑ گئی ،حصین نے ابن زبیر سے کہا : بیعت کر لو اور شام چلو وہاں مجھے تخت حکومت پر بٹھادو لیکن ابن زبیر نے قبول نہیں کیا،یزید کے مرنے کے بعد اردن کے علاوہ تمام اسلامی سر زمین نے ابن زبیر کی خلیفہ کے عنوان سے بیعت کر لی اور اس کی حکومت کو تسلیم کر لیا لیکن بنی امیہ نے مروان کو جابیہ میں اپنا خلیفہ منتخب کرلیا اس نے شام میں اپنے مخالفین کو تخت سے اتار دیا، اس کے بعد اس کا بیٹا عبد الملک خلیفہ بنا عبد الملک نے مصعب بن زبیر کو شکست دینے کے بعد اس کے بھائی عبد اللہ ابن زبیر کو شکست دینے کے لئے حجاج ابن یوسف کو عراق سے مکہ روانہ کیا حجاج نے مکہ کا محاصرہ کر لیا ، کوہ ابو قبیس پر منجنیق رکھ کر گولہ باری کر کے کعبہ اور مکہ کو ویران کر دیا اس جنگ میں عبد اللہ بن زبیر کے ساتھیوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا لیکن عبد اللہ نے مقاومت کی اور آخر کار قتل ہو گیا، اس طرح ١٢ سال بعد عبد اللہ ابن زبیر کا کام تمام ہو گیا ( ابن عبد ربہ اندلسی ، احمد بن محمد ، العقد الفرید ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ، ١٤٠٩ھ ج ٤ ص ٢٦٦، مسعودی ، علی ابن الحسین ، مروج الذھب ،منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١١ھ ج ٣ ص ٧٨۔٧٩

۱۱۷

امام حسین کی شہادت کے بعدایک طرف سے تو بنی امیہ عراق و حجاز کے علاقہ میں برپا ہونے والے انقلابات میں گرفتار تھے تو دوسری طرف سے ان کے اندر اندرونی اختلاف تھا جس کی بنا پرحکومت یزید زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکی یزید تین سال کی حکومت کے بعد ٦٤ ھ میں مر گیا،(١) اس کے بعداس کا بیٹا معا ویہ صغیر بر سر اقتدار آیا ا س نے چا لیس روز سے زیادہ حکومت نہیں کی تھی کہ خلافت سے الگ ہو گیا اور بلا فاصلہ دنیاسے رخصت ہو گیا،(٢) اس کے مر تے ہی خاندان بنی امیہ کے درمیان اختلاف

____________________

(١) ابن واضح تاریخ یعقوبی، منشورات شریف رضی ،قم،١٤١٤ھ ،ج ٢،ص٢٥٢

(٢) ابن واضح تاریخ یعقوبی، منشورات شریف رضی ،قم،١٤١٤ھ ،ج ٢،ص٢٥٦

۱۱۸

شروع ہو گیا ، مسعودی نے اس کے مرنے کے بعد پیش آنے والے واقعات کہ جس سے بنی امیہ کی ریاست طلبی کی عکاسی ہوتی ہے یوں بیان کیا ہے: معاویہ دوّم ٢٢ سال کی عمر میں دنیا سے چلا گیااوردمشق میں دفن ہوا ولید بن عتبہ بن ابی سفیان خلافت کی لالچ میں آ گے بڑھا تا کہ معاویہ دوم کے جنازہ پر نماز پڑھے نماز تمام ہونے سے پہلے ہی اسے ایسی ضرب لگی کہ وہیں پر ڈھیر ہوگیا اس وقت عثمان بن عتبہ بن ابی سفیان نے نماز پڑھائی لیکن لوگ اس کی خلافت پربھی راضی نہیں ہوئے اور وہ ابن زبیر کے پاس مکہ جانے پر مجبور ہوگیا ۔(١)

امام حسین کی شہادت کو ابھی تین سال بھی نہ گزرے تھے کہ سفیانیوں کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا، اسلامی سر زمین کے لوگ یہاں تک کہ بنی امیہ کے کچھ بزرگ افراد جیسے ضحاک بن قیس ا و رنعمان بن بشیر،ابن زبیر کی طرف مائل ہو گئے تھے، اسی وقت ابن زبیر نے مدینہ سے اموی ساکنین منجملہ مروان کونکال باہرکیا وہ سب وہاں سے نکل کرر اہی شام ہو گئے چونکہ دمشق میں کوئی خلیفہ نہیں تھا ،امویوں نے جابیہ میں مروان بن حکم کوخلیفہ بنا د یااور خالد بن یزید اور اس کے بعد عمرو بن سعید اشدق کو اس کا ولی عہد قرار دیا ، کچھ مدّت کے بعد مروان نے خالد بن یزید کو بر طرف کر دیا اور اس کے بیٹے عبدالملک کو اپنا ولی عہد بنایا اسی وجہ سے خالد کی ماں جو مروان کی بیوی تھی اس نے اس کو زہر دیا اور مروان مر گیا ، عبدالملک نے بھی عمرو بن سعید کو اپنے راستے سے ہٹاکر اس کے فرزند کو اپنا ولی عہد بنایا۔

دوسری طرف سے امویوں کو بہت سی شورشوں اور بغاوتوں کا سامنا تھا یہ قیام دو

____________________

(١)مسعودی ،مروج الذھب ، منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١١ھ ج٣ ص ٨٥۔٨٦

۱۱۹

حصّوں میں تقسیم ہوتا ہے،ایک وہ قیام جو شیعہ ما ہیت نہیں رکھتا تھا جیسے حرّہ کا قیام اور ابن زبیر کا قیام، ابن زبیرکے قیام کی حقیقت معلوم ہے اس قیام کا قائد ابن زبیر تھا جو خاندان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سخت ترین دشمن تھا ،جنگ جمل میں شکست کے بعدہی اس کا دل (اہل بیت کے ) بغض و کینہ سے بھر گیا تھا لیکن اس کا بھائی مصعب شیعیت کی طرف مائل تھا اس نے امام حسین کی بیٹی سکینہ سے شادی کی تھی، اسی بنا پر عراق میں اس کو ایک حیثیت حاصل تھی، امویوں کے مقابلہ میں شیعہ اس کے ساتھ تھے، جناب مختار کے بعد ابراہیم بن مالک اشتر ان کے ساتھ ہوگئے تھے اور انہیں کے ساتھ شہید ہوئے ۔

دوسر ے وہ قیام جو ماہیت کے اعتبار سے شیعہ فکر رکھتے تھے ۔

قیام حرّہ کو بھی شیعی حمایت حاصل نہیں تھی ،(١) اس قیام میں امام سجاد

کی کسی قسم کی مداخلت نہ تھی جس وقت مسلم بن عقبہ لوگوں سے بیعت لے رہا تھااور یہ کہہ رہا تھا غلام کی سے جنگ کروں گا اس نے مجھے تحفے دئے اکرام کیا میں نے اس کے ہدیہ و تحفہ کو قبول نہیں کیا جگہ یزید کی بیعت کریں اس وقت وہ امام سجاد کا احترام کر رہا تھا اور حضرت پر کسی قسم کا دبائو نہیں ڈالا۔(۲)

____________________

(١)حرّہ کا واقعہ ٦٢ھ میں پیش آیا ، مسعودی اس کی وجہ لوگوں کا یزید کے فسق و فجور سے نا خوش ہونا اور امام حسین کی شہادت جانتا ہے ، مدینہ جو اولاد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مرکز تھا یہاں کے لوگ یزید سے ناراض تھے مدینہ کا حاکم عثمان بن محمد بن ابی سفیان جو ایک نا تجربہ کار نوجوان تھا ، مدینہ کے لوگوں کی نمائندگی میں کچھ لوگوں کو شام روانہ کیا تاکہ یزید کو قریب سے دیکھیں اور اس کی نوازشات سے فائدہ اٹھائیں اور جب مدینہ آئیں لوگوں کو یزید کی اطاعت پر تشویق کریں ، اس عثمانی تجویز میں مدینہ کے بزرگان کہ جن میں عبد اللہ بن حنظلہ جو غسیل الملائکہ کہے جاتے ہیں وہ بھی شامل تھے ، یزید جو اسلامی تربیت سے بالکل بے بہرہ تھا ان لوگوں کے سامنے بھی اس نے اپنے فسق و فجور کو جاری رکھا، لیکن مدینہ سے آنے والوں کی خوب آئو بھگت کی سب کو گراں بہا تحفے دئے تاکہ یہ لوگ واپس جا کر اس کی تعریفیں کریں لیکن اس کا سب کچھ کرنا بیکار ہو گیا یہ لوگ جب مدینہ پلٹے تو مجمع میں یہ اعلان کیا کہ ہم اس کے پاس سے واپس آرہے ہیں جو بے دین ہے شراب پیتا ہے ، ناچ گانا سنتا ہے ، کتے سے کھیلتا ہے ،ان طوائفوں کے ساتھ ناچ گانے کی محفلیں منعقد کرتا ہے، ان سے ہمنشینی کرتاہے کی آواز یں سنتا ہے ، عیش و عشرت میں زندگی گذارتا ہے ، ہم لوگ آپ کو گواہ قرار دیتے ہیں کہ ہم نے اسے خلافت سے معزول کر دیا ہے ، عبد اللہ ابن حنظلہ نے کہا اگر کسی نے بھی میری مدد نہیں کی تو میں صرف اپنے بچوں کے ساتھ یزیدمگر صرف اس لئے لے لیا کہ خود اس کے خلاف استعمال کروں اس کے بعد لوگوں نے عبد اللہ ابن حنظلہ کی بیعت کی مدینہ کے حاکم اور تمام بنی امیہ کو مدینہ سے باہر بھگا دیا ۔جب یزید کو یہ خبر ملی تو اس نے بنی امیہ کے ایک نمک خوار و تجربہ کار شخص مسلم بن عقبہ کو ایک بڑے لشکر کے ساتھ مدینہ روانہ کیا اور کہا: ان لوگوں کو تین دن کی مہلت دینا اگر تسلیم ہو جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ ان سے جنگ کرکے کامیابی کے بعد تین دن تک جتنی لوٹ مار کرنی ہو کر لینا اور سپاہیوں کو کھلی اجازت دے دینا ۔اہل مدینہ اور لشکر شام میں شدید جنگ ہوئی آخر کار اہل مدینہ کو شکست ہوئی بڑے بڑے رہبر مارے گئے مسلم نے تین دن بالکل قتل عام کا حکم صادر کر دیا ،لشکر شام نے وہ کام کیا جسے بیان کرنے سے قلم کو بھی شرم آتی ہے اس ظلم و بربریت کی بنا پر مسلم کو مسرف کہا گیا ،قتل و غارت کے بعد اس نے یزید کے لئے لوگوں سے زبر دستی بیعت لی ۔ابن عبد ربہ اندلسی ، العقد الفرید ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت ، ج ٤ ص ٣٦٢، ابن واضح ، احمد بن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی ، قم ، ١٤١٤ھ ج٢ ص ٢٥٠۔ ٨٢ ، ابن اثیر ، الکامل دار صادر ، بیروت ، ج ٤ ص ١٠٢۔١٠٣۔ ٢٥٥۔٢٥٦

(۲) ابی حنیفہ ، دینوری ، احمد بن دائود ، الاخبار الطوال ، منشورات الشریف الرضی ، قم ، ص ٢٦٦

۱۲۰