تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک0%

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 328

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف: غلام حسن محرمی
زمرہ جات:

صفحے: 328
مشاہدے: 86598
ڈاؤنلوڈ: 4745

تبصرے:

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86598 / ڈاؤنلوڈ: 4745
سائز سائز سائز
تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف:
اردو

جانب سے فشار بڑھا تو مجبور ہوئے کہ کوفہ چھوڑ کر خراسان کی طرف چلے جائیں یہی فشار قیام کا باعث بنا ،جیسا کہ مسعودی کا بیان ہے اس سال یعنی ٢١٩ھ میں معتصم نے محمد بن قاسم کو ڈرایا وہ بہت زیادہ زاہد اور پر ہیز گار تھے جس وقت معتصم کی جانب سے جان کا خطرہ ہوا تو آپ نے خراسان کی طرف کوچ کیا اور خراسان کے مختلف شہروں جیسے مرو، سرخس طالقان اور نسا میں گھومتے رہے۔(١)

ابوالفرج کے نقل کے مطابق ٤٠ ہزار کے قریب افراد ان کے اطراف میں جمع ہوگئے تھے ایسے حالات میں بھی ان کا قیام کسی نتیجہ کو نہیں پہنچا اور یہ جمعیت ان کے اطراف سے منتشر ہوگئی آخر میں طاہر یوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے اور اس کے بعد سامرہ کی جانب روانہ ہوئے اور وہیں پران کو زندان میں ڈال دیا گیا۔(٢)

البتہ شیعوں اور اپنے چاہنے والوں کی وجہ سے آزاد ہوگئے لیکن اس کے بعد کوئی خبر ان کے بارے میں نہیں ملتی اور گمنام طریقہ سے دنیا سے چلے گئے۔(٣)

____________________

(١)مسعودی،علی بن حسین ،مروج الذہب ،موسسة الاعلمی للمطبوعات ،بیروت،طبع اول ١٤١١ھ: ج٤:ص٦٠

(٢)ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، منشورات الشریف الرضی، قم طبع دوم ، ١٤١٦ھ ص،٤٦٤۔ ٦٤٧

(٣)مسعودی،علی بن حسین ،مروج الذہب ،موسسة الاعلمی للمطبوعات بیروت،طبع اول : ١٤١١ھ، ج٤،ص١٦٠

۱۸۱

(ج)قیام یحییٰ بن عمر طالبی

یحییٰ بن عمر جعفر طیار کے پوتوں میں سے تھے آپ نے کوفہ کے لوگوں میں اپنے زہد و تقویٰ کی وجہ سے بلند مقام حاصل کرلیاتھا ،متوکل عباسی اور ترکی فوجیوں کی طرف سے جو ذلت آمیز مظالم آپ پر ہوئے اس کی وجہ سے مجبور ہوئے کہ کوفہ میں ان کے خلاف قیام کریں ، جب تک امور کی زمام آپ کے ہاتھ میں تھی آپ نے عدل و انصاف سے کام لیا یہی وجہ ہے کہ کوفہ کے لوگوں میں آپ کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوگئی لیکن آپ کا قیام محمد بن عبداللہ بن طاہر کے ہاتھوں شکست کھا گیا اورلوگوں نے آپ کی مجلس عزا میں بہت زیادہ رنج وغم کا مظاہرہ کیا۔(١)

جیسا کہ مسعودی کاکہنا ہے : دور اور نزدیک کے لوگوں نے ان کے لئے مرثیہ کہا چھوٹے بڑوں نے ان پر گریہ کیا ۔(٢)

ابوالفرج اصفہانی کے مطابق وہ علوی جو دوران عباسی شہید ہوئے تھے ان میں کسی ایک کے لئے بھی اتنے مرثیہ نہیں کہے گئے ۔(٣)

____________________

(١)مسعودی، علی بن حسین ، مروج الذہب، منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات ، بیروت، طبع اول ١٤١١ھ ج ص١٦٠

(٢)مسعودی، علی بن حسین ، مروج الذہب، منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات ، بیروت، طبع اول ، ١٤١١ھ ج ص١٦٠

(٣)ابو الفرج اصفہانی،مقاتل الطالبین،منشورات الشریف الرضی،قم،طبع دوم،١٤١٦ھ،ص٥١١

۱۸۲

قیام و انقلاب کے شکست کے اسباب

ان قیام کی شکست کے اسباب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

ایک تو قیادت اور رہبری کا سُست ہونااور دوسرے فوج کا ہم آہنگ نہ ہونا غالباً اس طرح کے انقلاب کے اکثررہنما اور قائد صحیح طریقہ سے پلاننگ نہیں کرتے تھے اور ان کے قیام صحیح طرح سے اسلامی اصول وطریقہ پراستوار نہیں تھے اسی وجہ سے ان میں سے بہت سے انقلاب ایسے تھے کہ جسے امام معصوم کی طرف سے حمایت اور تائید حاصل نہیں تھی، دوسرے بعض قیام کی ناکامی، اگر چہ ان کے رہنما قابل اطمینان اور مؤثق افراد تھے، سبب یہ تھا کہ ان کی پلاننگ ایسی تھی کہ جن کی شکست پہلے سے قابل ملاحظہ تھی ایسی صورت میں اگر امام واضح طور پر ان کی تائید کر دیتے تو قیام کی شکست کے بعد تشیع کی بنیاد اور امامت خطرہ میں پڑ جاتی۔

دوسری طرف یہ قیام آپس میں ہم آہنگ نہیں تھے اگر چہ ان کے درمیان حقیقی اور مخلص شیعہ موجود تھے جو آخری دم تک اپنے مقصدکے حصول کی کوشش کرتے رہے ان میں سے اکثر لوگوں کا ہدف ایمانی نہیں تھا یاتو ان کا علوی رہبروں کے ساتھ توافق نہ ہوسکایازیادہ تر لوگوں نے میدان جنگ میں اپنے کمانڈروں کا ساتھ چھوڑ دیا، علامہ جعفر مرتضیٰ اس بارے میں لکھتے ہیں : ان کی شکست کی علت اس کے علاوہ کچھ نہیں تھی کہ زیدیوں کے قیام سب سے پہلے سیاسی محرکات رکھتے تھے ان کی خصوصیت صرف یہ تھی کہ خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے جس نے بھی حکومت کے مقابلے میں تلوارکھینچی اس کو دعوت دیتے تھے، ان کے اندرایمانی فکر اوراعتمادی وجدان نہیں تھا بغیر سوچے سمجھے اٹھ جاتے تھے،اپنے مردہ احساسات اور خشک و فرسودہ ثقافت پراس قدر بھروسہ کرتے تھے کہ احساسات اور وجدان میں ہم آہنگی باقی نہیں رہ گئی تھی کہ ایک مضبوط ومحکم سر چشمہ سے اپنی رسالت و پیغام کو اخذکر سکیں انہیں وجوہ کی بنا پران کی کشتی شکشت کے گرداب میں پھنس جاتی تھی اور جانیں مفت میں تلف ہو جاتی تھیں ، بلکہ خود اندرونی طور پر انقلاب سے روکنے کا جذبہ ان میں ابھرتا تھا، ایسی طاقتوں پر اتنا ہی اعتماد تھا جتنا پیاسے کو سراب پر ہوتا ہے ، یہ وہ نکتہ ہے جو واضح کرتا ہے کہ لوگ حادثات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے تھے اور جب پانی سر سے گذر جاتا تھا اور پھل تیار ہو جاتے تھے تو وہ عیش و آرام کی زندگی گزارتے تھے۔(١)

____________________

(١) زندگی سیاسی امام جواد علیہ السلام ، ترجمہ سید محمد حسینی ، دفتر انتشارات اسلامی ، قم ، طبع ہشتم ، ١٣٧٥ھ ، ص ١٩

۱۸۳

پانچویں فصل

جغرافیائی اعتبار سے تشیع کی وسعت

یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے تشیع کا مرکزمدینہ تھا اور اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان سب سے پہلے شیعہ اسی شہر میں رہتے تھے تینوں خلفاکے زمانے میں شیعہ اصحاب مختلف مناطق و شہروں میں پھیل گئے اور ان میں سے بعض سیا سی اور فوجی عہدوں پر فائز تھے، علامہ محمد جواد مغنیہ اس بارے میں لکھتے ہیں :

شیعہ اصحاب کاتشیع کے پھیلانے میں ایک اساسی کردار رہا ہے جہاں بھی گئے لوگوں کو قرآن و حدیث اور صبرو تحمل کی طرف دعوت دی اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب ہونے کی بنا پر لوگوں کے درمیان ان کابے حد احترام تھا اور ان کی تقاریربہت زیادہ اثر انداز ہوتی تھیں ۔(١)

حتی ایسی جگہیں جیسے جبل عامل جو شام کا ایک حصہ تھا اور وہاں پر معاویہ کا نفوذ زیادہ تھا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بزرگ صحابی ابوذر کے جانے کی برکت سے وہ شیعوں کا اصلی مرکز ہوگیا۔(٢)

____________________

(١)الشیعہ فی المیزان ،منشورات شریف رضی ،قم،١٤١٣ہجری،ص٢٦،٢٨

(٢)امین ،سید محسن،اعیان الشیعہ،دار التعارف للمطبوعات ،بیروت،ج١،ص٢٥

۱۸۴

عثمان کی خلافت کے آخری زمانے میں بہت زیادہ شیعہ اسلامی سر زمینوں میں رہتے تھے، اس طرح سے کہ مسلسل حضرت علی کا نام خلافت کے لئے لیا جانے لگا، اسی وجہ سے مدینہ میں جب مخالفین نے اجتماع کیا توعثمان نے علی سے تاکیدکی کہ وہ کچھ مدت کے لئے مدینہ سے نکل جائیں اوراپنی کھیتی جو ینبع میں ہے وہاں چلے جائیں تاکہ شاید شورش کرنے والوں کی تحریک میں کمی آجائے۔(١)

خصوصاً عراق میں عثمان کے زمانے میں شیعہ کا فی تعداد میں تھے مثلاً بصرہ کے شیعہ باوجود اس کے کہ یہ شہر ،سپاہ جمل کے تصرّف نیز ان کے تبلیغ کی وجہ سے ان کے زیر اثرآگیا تھا لیکن جس وقت انہیں یہ خبر ملی کہ امیر المومنین مہاجر اور انصار کے ہمراہ ان کی جانب آرہے ہیں تو صرف قبیلئہ ربیع سے تین ہزار افرادمقام ذی قارمیں حضرت سے ملحق ہو گئے،(٢) علی کے ساتھ ان کی ہمراہی عقیدت کی بنا پر تھی اور علی کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے منصوب خلیفہ کے عنوان سے مانتے تھے ۔

بلا ذری نے انہیں شیعیان علی اور قبیلہ ربیع سے تعبیر کیا ہے۔(٣)

اورجب علی خود بر سر حکومت آگئے اور عراق تشریف لے گئے تو تشیع کی وسعت میں عجیب وغریب اضافہ ہوا، اسی طرح حضرت کے حکام اوروالیوں کی اکثریت شیعہ ہونے کی وجہ سے ان مناطق میں شیعیت کو بہت زیادہ فروغ ملا، جیسا کہ سید محمد امین کا بیان ہے جہاں بھی والیان علی جاتے تھے وہاں کے لوگ شیعہ ہوجاتے تھے ۔(٤)

____________________

(١)نہج البلاغہ ، فیض اسلام ،خطبہ٢٣٥

(٢)بلاذری ، انساب الاشراف ، منشورات الاعلمی ، للمطبوعات ، بیروت ١٣٩٤ھ ج٢ ص ٢٣٧

(٣)بلاذری ، انساب الاشراف ، منشورات الاعلمی ، للمطبوعات ، بیروت ١٣٩٤ھ ج٢ ص ٢٣٧

(٤)اعیان الشیعہ ، دار التعارف ، للمطبوعات ، بیروت ، ج١ ص ٢٥

۱۸۵

البتہ اس دور میں شام کے ساتھ ساتھ دوسرے علاقہ میں بھی عثمان کی طرف میلان بڑھ گیا تھا ،شام تو پورے طور پر بنی امیہ کے زیر اثر تھامثلاً بصرہ اور شمالی عراق کے علاقہ میں عثمان کے قریبی افراد ا کے مستقر ہونے کی بناپر اس علاقے کے لوگ عثمان کی طرف مائل ہو گئے تھے،(١) اور شمال عر اق میں یہ میلان دوسری صدی ہجری کے آخر تک باقی تھا۔

مکہمیں بھی زمانہ ٔجاہلیت سے ہاشمیوں اور علویوں کے خلاف ایک فضا قائم تھی اسی طرح طائف میں بھی دورجاہلیت کی طرح اسلام کے بعد بھی قریش کو بنی ہاشم سے رقابت تھی اور وہ بنی ہاشم کی سر براہی کو قبول نہیں کرتے تھے اور یہ قریش کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ مخالفت کے اسباب میں سے ہے طائف والوں نے بھی قریش کی ہم آہنگی سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت قبول نہیں کی تھی اگر چہ اسلام کے طاقتور ہونے کے بعد تا خیر سے سہی وہ لوگ بھی تسلیم ہو گئے۔

حجّاج کے زمانے میں شیعیت عراق و حجاز کی سرحدوں سے عبور کر کے تمام علاقے میں پھیل گئی،اسی دور میں شیعہ حجّاج کی طرف سے سختی اور فشار کی بنا پر عراق سے نکل کر منتشرہوگئے اور دوسری اسلامی سرزمینوں میں ساکن ہوگئے ،خاص کر اسلامی شرق جیسے ایران کہ جہاں پہلی صدی کے ختم ہونے کے ساتھ ساتھ شیعہ مرکز قائم ہو گیا، خراسان میں عباسیوں نے ان سے خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نسبت کی وجہ سے استفادہ کیا اور ''الرّضا من آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''کے نعرہ کے ساتھ اپنے ارد گرد جمع کر لیا اور امویوں کے خلاف جنگ میں ان سے فائدہ اُٹھایا ۔

____________________

(١)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ، منشورات الرضی ، قم ١٤١٤ھ ج٢ ص ١٧٨

۱۸۶

عباسیوں کے دور میں تشیع کی وسعت میں معتدبہ اضافہ ہوا شیعہ مشرق میں ایران، ہندوستان، قفقازوغیرہ کی طرف ہجرت کرگئے اوردولت اموی کے خاتمہ پرغرب یعنی یورپ کی سمت (مراقش )میں بھی شیعوں کا نفوذ ہو گیا،خصوصاً افریقہ میں دوسری صدی میں ادریسیوں کی شیعہ حکومت قائم ہوگئی اگر چہ یہ حکومت زیدیوں کی تھی لیکن شیعیت کے پھیلنے کا پیش خیمہ تھی البتہ اس کا ارتباط مصر میں اغلبیوں کی حکومت کی وجہ سے کہ جو اس کے مقابلہ میں قائم ہوئی تھی مرکز یعنی مدینہ میں بہت کم اثر تھا۔(١)

اس طرح دوسری صدی ہجری میں مذہب تشیع، جہانِ اسلام کے شرق وغرب میں پھیل گیا اس کے علاوہ خوزستان جبل مرکزی ایران نیز مشرق وسطی کے دور دراز علاقے ، افغانستان ،آذر بائیجان ، مراقش ہندوستان اور طبرستان تک پھیل گیا۔(٢)

شیعہ اجتماعی مراکز

جیسا کہ اشارہ ہو چکا ہے پہلی تین صدی ہجری میں شیعہ اسلامی سر زمین کے کافی علاقوں میں زندگی بسرکرتے تھے اور تمام جگہ منتشرہو گئے تھے لیکن شیعوں کی بھاری

____________________

(١)امیر علی ، تاریخ عرب اسلام ، انتشارات گنجینہ ، طبع سوم ، ١٣٦٦ھ ص ٢٤١۔٢٤٥، ابوالفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، منشورات الشریف الرضی ، ق، ١٤١٦ھ ،ص ٤٠٨

(٢) ائمہ اطہار کے اصحاب کے درمیان حلب ، مصر ، مدائن ، قزوین ، ری ، کاشان ، ارمنستان ، ساباط ، اصفہان ، ہمدان ، سمرقند ،کابل وغیرہ کے رہنے والے بھی موجود تھے ، رجال نجاشی ، دفتر نشر اسلامی ص ٨۔ ٩۔ ٦٦۔١٣٠۔١٦١۔٢٠٨۔٢٣٣۔٢٣٦۔٢٩٠۔٣٤٤۔٣٦٧،اور ابن شہر آشوب ، معالم العلماء ، منشورات مطبعة الحیدریة، نجف ، ١٣٨٠ھ ش، ص ٣١

۱۸۷

اکثریت اورعظیم اجتماع چند ہی مناطق میں تھا پہلی صدی ہجری میں شیعہ اجتماعی مراکز یہ تھے :مدینہ یمن،کوفہ، بصرہ، مدائن ، جبل عامل ، دوسری صدی میں ان مراکز کے علاوہ قم، خراسان، طبرستان، بغداد،جبل عامل، افریقہ وغیرہ میں بھی شیعہ مراکز قائم ہو گئے تھے ، اب ہم یہاں ان جگہوں کی وضاحت کریں گے۔

(الف )پہلی صدی ہجری میں شیعہ نشین علاقے

پہلی صدی ہجری میں شیعہ نشین علاقے زیادہ تر حجاز ویمن وعراق کی حد تک محدود تھے، ان علاقے میں رہنے والے افراد عرب تھے اور پہلے دور کے مسلمانوں میں ان کاشمار ہوتا تھا، حجاز ویمن میں تشیع کی بنیاد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے دور میں پڑ چکی تھی، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد عراق کا اضافہ ہوا جو یمنی قبائل کا محل زندگی قرار پایا اورحضرت علی علیہ السّلام کے دور حکومت میں وہاں کے تشیع کی وسعت میں مزید اضافہ ہوا۔(١)

مدینہ :

ہجرت سے پہلے مدینہ کا نام یثرب تھا یہاں یمن کے دو قبیلے آباد تھے جنہیں اوس و خزرج کہا جاتا تھا جنہیں بعد میں انصار کہا گیا اور تین یہودی قبیلے بنام بنی قینقاع ،بنی نضیراور بنی قریظہ یہاں آبادتھے، جب رسالت مآب نے ہجرت فرمائی تو اس شہر کا نام مدینة النبی یعنی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شہر پڑ گیا ،کثرت استعمال اور تکرار کی وجہ سے نبی حذف ہو گیا،اور صرف مدینہ مشہور ہو گیا تینوں خلفاکا مرکز

____________________

(١)شہیدی ، دکتر سید جعفر ،تاریخ تحلیل اسلام تا پایان اموی، مرکز نشر دانشگاہ ، تہران ج ٢ ،ص ١٣٧۔ ١٣٨

۱۸۸

حکومت مدینہ رہا ،اہل بیت کے سر سخت دشمن قریش یہیں رہتے تھے اس کے باوجود مدینہ کی بیشتر آبادی انصار سے مربوط تھی جو اہل بیت کے محب تھے اور سیاسی کشمکش کے وقت اہل بیت کا ساتھ دیتے تھے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہت سے جلیل القدر صحابی یہاں رہتے تھے اور لوگوں کو حقیقت حال سے آگاہ کرتے تھے ، چنانچہ آپ کے عظیم صحابی جناب جابربن عبد اللہ انصاری اپنے عصا کا سہارا لے کر مدینہ کی گلیوں میں گھومتے اور اعلان کرتے :

(علی خیرُ البَشَرِ مَن انکَرَهٰا فَقَدْ کَفَر )

یعنی حضرت علی بہترین مخلوق ہیں جس نے انکار کیا وہ کافر ہو گیا ۔

اے انصار !تم اپنے بچوں کو علی کی محبت کا عادی بنائو اور جو بھی علی کی محبت قبول نہ کرے اس کے نطفہ کے بارے میں اس کی ماں سے پوچھو!(١)

یہی جابر مسجد النبی کے دروازے پر بیٹھ جاتے تھے اور آواز دیتے تھے :

اے باقر العلوم! آپ کہاں ہیں ؟ بہت سے لوگ کہتے تھے جابر ہذیان بک رہے ہیں ،جابر کہتے تھے میں ہذیان نہیں بک رہا ہوں بلکہ میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے : میرے بعد میری نسل سے ایک بچے کی زیارت کرو گے جس کا نام میرا نام ہوگا وہ مجھ سے مشابہ ہوگا وہ لوگوں کے سامنے علم کے دروازے کھولے گا ۔(٢)

جناب جابر نے جب امام پنجم کی زیارت کی تو اپنا معمول بنا لیا تھاکہ ہر روز دو بار آنحضرت کی زیارت سے مشرف ہوں ۔(٣)

____________________

(١)شیخ طوسی ، اختیار معرفة الرجال ( رجال کشی ) تحقیق سید مہدی رجائی ، ج ١ ص ٢٣٧

(٢) شیخ طوسی ، اختیار معرفة الرجال ( رجال کشی ) تحقیق سید مہدی رجائی ، ج ١ ص ٢١٨

(٣)شیخ طوسی ، اختیار معرفة الرجال ( رجال کشی ) تحقیق سید مہدی رجائی ، ج ١ ص ٢٢٢

۱۸۹

حضرت ابوذر غفاری مسجد نبی کے دروازہ پر کھڑے ہو کر کہتے تھے:جو مجھے پہچانتا ہے وہ پہچانتاہے اور جو مجھے نہیں پہچانتا وہ پہچان لے میں ابو ذرغفاری جند ب بن جنادہ ہو ں ، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علم آدم اور تمام انبیاء کے فضائل کے وارث ہیں اور علی ابن ابی طالب محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی اور ان کے وارث ہیں ۔(١)

اکثر بنی ہاشم اسی شہر میں زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے جد کے حرم کا احترام کرتے تھے، اس کے علاوہ ائمہ معصومین بھی اس شہر میں ساکن تھے لہذا یہاں کے لوگ ان کی تعلیمات سے بہرمندہوتے تھے ، خاص طور پر امام باقر اور امام صادق کے زمانے میں ان کے حلقۂ درس نے لوگوں کو مسجد نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب کھینچ لیا تھا ۔

ابو حمزہ ثمالی کا بیان ہے : میں مسجد نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بیٹھا ہوا تھا میرے نزدیک ایک شخص آیا اور سلام کیا اور امام محمدباقر کے متعلق پو چھا میں نے دریافت کیا کہ کیا کام ہے؟ اس نے جواب دیا :میں نے چالیس مسئلہ آمادہ کئے ہیں تاکہ امام محمدباقر سے سوال کروں اس کی بات ابھی تمام بھی نہ ہونے پائی تھی کہ امام محمدباقر مسجد میں داخل ہوئے، کچھ اہل خراسان نے ان کو گھیر رکھا تھا اور مناسک حج کے بارے میں حضرت سے سوالات کررہے تھے ۔(٢)

ان دو بزرگوار کے بعض شاگرد جیسے ابان بن تغلب بھی مسجد نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں درس دیتے تھے ، ابان جس وقت مسجد میں داخل ہوتے تھے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جگہ بیٹھتے تھے اور لوگ ان کے

____________________

(١)تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی ،١٤١٢ھ، ج٢ ص ١٧١

(٢)بحار الانوار، ج ٤٦، ص ٣٥٧

۱۹۰

اردگرد جمع ہو جاتے تھے، ابان ان کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث بیان کرتے تھے،امام صادق ان سے فرماتے تھے: آپ مسجد نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بیٹھ کر فتو یٰ دیا کیجئے میں چاہتا ہو ں کہ میرے شیعوں کے درمیان آپ جیسے افرادظاہر ہوں ۔(١)

یمن:

عراق کی فتح اور کوفہ کی بناء سے پہلے شیعہ یمن میں زندگی بسر کرتے تھے یمن مدینہ کے بعد دوسرا علاقہ تھا جہاں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد شیعیان علی موجود تھے،اس لئے کہ وہا ں کے لوگ سب سے پہلی مرتبہ حضرت علی کے ذریعے مسلما ن ہوئے تھے ، ابن شہر آشوب لکھتا ہے: رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم نے خالدبن ولید کو یمن کی جانب روانہ کیا تاکہ ان کو اسلام کی دعوت دے، براء بن عازب بھی خالد کی فوج میں موجود تھا خالد وہاں چھ مہینے رہا لیکن کسی کو مسلمان نہ کر سکا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اس بات سے بہت ناراض ہوئے اور خالد کو بر طرف کر کے اس کی جگہ امیر المو منین علی کو بھیجا،حضرت جس وقت وہاں پہنچے ،نماز صبح بجالائے اور یمن کے لوگوں کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خط پڑھ کر سنایا،قبیلہ حمدان کے تمام لوگ ایک ہی دن میں مسلمان ہو گئے اورحمدان کے بعد یمن کے تمام قبائل نے اسلام قبول کر لیا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اس خبر کو سننے کے بعد سجدئہ شکر بجا لائے ۔(٢)

یمن میں جس جگہ سب سے پہلے حضرت علی نے سکونت اختیار کی وہ ایک خاتون بنام امّ سعدبر زخیہ کا گھر تھا ،حضرت علی نے وہاں قرآن کی تعلیم دینا شروع کی، بعد میں یہ گھر مسجد ہو گیا اور اس کا نام مسجد علی رکھ دیا گیا ،خاص طور پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آخری عمر میں

____________________

(١)نجاشی ، احمد بن علی ،فہرست اسماء مصنفی الشیعة ، رجال نجاشی ، دفتر نشر اسلامی ، قم، ص ١٠

(٢)مناقب آل ابی طالب ، موسسہ انتشارات علامہ ، قم ، ج٢ ص ١٢٢

۱۹۱

یمن کے مختلف قبائل نے مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دیدار کیا اور درمیان میں ہونے والی گفتگومیں حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی وصایت اور جانشینی کو بیان کیا،(١) اس بنا پر ان کے ذہن میں یہ مطلب موجود تھا ۔(٢)

____________________

(١)مظفر، محمد حسین ،تاریخ الشیعہ،منشورات مکتبہ بصیرتی ، ص ١٢٢

(٢)جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیں : یمن کے مختلف قبیلہ کے لوگ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: لوگوں میں ایسے نرم دل اورقوی الایمان افراد پیدا ہوں گے ، کہ جو میرے جانشین ( امام مہدی ) کی نصرت کرنے کے لئے سترّہزار افراد ان کے درمیان اٹھ کھڑے ہوں گے وہ سب کے سب اپنی تلواروں کو خرمے کی چھال سے حمائل کئے ہوں گے ، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کا وصی کون ہے ؟ فرمایا: میرا وصی وہ ہے جس سے متمسک ہونے کا حکم خدا وند عالم نے دیا ہے اور آیت پڑھی: (واعتصموا بحبل اللّہ جمیعا ولا تفرقوا )( آل عمران ، آیت : ١٠٣) اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور انتشار کا شکار نہ بنو ، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! اللہ کی رسی کیا ہے ؟ یہ رسی وہی اللہ کا فرمان ہے : (الا بحبل من اللّٰہ و من الناس) ( آل عمران ، آیت : ١١٢) خدا کی جانب سے رسی قرآن ہے اور لوگوں کی جانبسے رسی میرا وصی ہے ، پوچھا یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! آپ کا وصی کون ہے ؟ فرمایا : میرا وصی وہ ہے جس کے بارے میں خدا وند عالم فرماتا ہے : (ان تقول نفس یا حسرتی علی ما فرطت فی جنب اللّٰہ )( سورہ زمر آیت : ٥٦) لوگ کہیں گے کے امر خدامیں کتنی کوتاہی کی ہے ، لوگوں نے سوال کیا یہ امر خدا کیا ہے ؟ فرمایا : وہ میرا وصی ، لوگوں کا رہبر ہے جو میرے بعد لوگوں کی میری جانب ہدایت کرے گا ، لوگوں نے کہا :یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !آپ کو اس خدا کی قسم جس نے آپ کو مبعوث کیا ہے آپ اپنے وصی کوہمیں دکھا دیں ،ہم ان کی زیارت کے مشتاق ہیں ، فرمایا : خدا نے اسے لوگوں کے لئے علامت قرار دیا ہے دل سے دیکھو گے تو پہچان لوگے کہ کون میرا وصی ہے جس طرح تم نے اپنے پیغمبر کو پہچان لیا ہے ، جائو مسجد میں لوگوں کو دیکھو ( )

جس کی طرف تمہارا قلب مائل ہو جائے سمجھ لووہی میرا وصی ہے ، اس لئے کہ خدا فرماتا ہے : (فاجعل افئدة من الناس تھوی الیھم) ( ابراہیم ، آیت : ٣٧) خدایا! لوگوں کے دلوں کو اسی کی طرف مائل کر دےاسی وقت اشعریوں میں سے ابو عامر اشعری ،خولانیوں میں سے ابو عزہ خولانی ، بنی قیس سے عثمان بن قیس ، قبیلہ دوس سے غریہ دوسی اور لاحق بن علافہ کھڑے ہوئے اور مسجد النبی میں لوگوں کو دیکھنا شروع کیا اور حضرت علی کا ہاتھ پکڑکر خدمت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں آئے اور کہا: یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !ہمارا دل ان کی جانب کھنچتاجارہا ہے ، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : خدا کا شکر ہے تم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی کو پہچان لیا شاید اس کے پہلے تم نے انہیں دیکھا ہو یمنی لوگ رونے لگے کہا :یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !ہم کسی چیز کی بنا پر نہیں رورہے ہیں بلکہ ہمارے دل رو رہے ہیں ہم نے جیسے ہی انہیں دیکھا ہمیں سکون حاصل ہوگیا ایسا لگا جیسے ہم نے اپنے باپ کو پا لیا ہے۔ ( مظفر ، محمد حسین ، تاریخ الشیعہ مکتبة بصیرتی ، قم ، ص ١٢٤۔١٢٥

۱۹۲

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفا ت کے بعد انہوں نے مدینہ کی حکومت کو رسمیت نہیں دی اور خلیفہ وقت ابو بکر کو زکوٰة دینے سے انکار کیا جیسا کہ ان کے اشعار میں آیا ہے:

اطعنارسول اللّه ما دام وسطنا

فیا قوم شأنی وشان ابی بکر

أیورثها بکراً اذا کان بعده

فتلکٔ لعمر اللّه قاصمة الظهر

جس وقت تک رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ہمارے درمیان تھے ہم ان کی اطاعت کرتے تھے اے لوگو !ہم کہاں اور ابو بکر کہاں ؟!

اگر ابو بکر کے پاس بکر نام کا فرزند ہو تاتوکیا وہ اس کے بعد خلافت کا وارث

۱۹۳

ہوتا؟میری جان کی قسم یہ سوال کمر شکن ہے ۔(١)

حضرت علی کے دور خلافت میں یمن کے رہنے والے لاکھوں افراد عراق میں رہتے تھے(٢)

اور ہزاروں آدمی حضر ت کے لشکر میں تھے ،یمن میں رہنے والے، اکثر شیعہ تھے عثمانی اور بنی امیہ کے طرفداروں کی تعداد بہت کم تھی اس کے لئے بطور شاہد معاویہ کا وہ رویہ ہے کہ جو اس نے بسرابن ارطاة کو جس کے بار ے میں تاکید کی تھی ،(٣) کہ جس علاقہ میں لوگ قریش اور بنی امیہ کے طرف دارہوں ان سے کوئی سرو کار نہیں رکھناچنانچہ جب وہ مکہ اور طائف کے نزدیک سے گذرا تو ان دو شہروں کو ہاتھ تک نہیں لگایا ۔(٤)

لیکن جس وقت یمن کے شہر'' ارحب ''، صنعا اور حضر موت پہنچا توقتل و غارت گری شروع کردی ،صنعا میں تقریبا سو افراد کہ جن کا شمار ایرانی بزرگوں میں ہوتا تھا ان کا سر قلم کردیا اور مأرب کے نمائند ہ جو امان لینے کے لئے آئے تھے ان پر رحم نہیں کیا اور سب کو قتل کردیا اور جس وقت حضر موت پہنچا تو اس نے کہا :میں چاہتا ہوں کہ اس شہر کے ایک چو تھائی لوگوں کو قتل کردوں ۔(٥) خصوصاًجیشان میں یعقوبی کے کہنے کے مطابق وہاں کے تمام افراد شیعہ تھے

____________________

(١)یاقوت حموی ، شہاب الدین ابی عبداللہ ، معجم البلدان ، احیاء التراث العربی ، بیروت ، طبع اوّل ، ١٤١٧ھ ، ج٣ ، ص ١٥٨

(٢)یاقوت حموی ، شہاب الدین ابی عبداللہ ، معجم البلدان ، احیاء التراث العربی ، بیروت ، طبع اوّل ، ١٤١٧ھ ، ج ٧ ، ص ١٦١

(٣) ابن واضح ، تاریخ یعقوبی ،ص ١٩٧

(٤) ابن واضح ، تاریخ یعقوبی ،ص :١٩٧

(٥) ثقفی کوفی، ابراھیم بن محمد ،الغارات،محمد باقر کمرہ ای کا ترجمہ ، فرہنگ اسلام ص ٣٢٥ ۔ ٣٣١

۱۹۴

اس نے وہاں پر بہت زیادہ قتل وغارت کیا۔(۱)

ابن ابی الحدید نے بسربن ارطاة کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی تعداد تیس ہزار بیان کی ہے، ان میں سے زیادہ تر یمن کے رہنے والے تھے ،(۲) یہ بات اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس زمانے میں وہاں پر شیعوں کی آبادی قابل ملاحظہ تھی بہر حال بسر نے جو ہنگامہ کر رکھا تھا اسے کچلنے کے لئے امیر المومنین نے جاریہ بن قدامہ کو بھیجا یہ سنکر بسر یمن سے بھا گ کھڑا ہوا یمن کے لوگ اور وہاں کے شیعہ جہاں بھی عثمانیوں اور بنی امیہ کے طرفداروں کو پاتے تھے قتل کر دیتے تھے۔(۳)

حضرت علی کی شہادت کے بعد بھی یمن شیعوں کا عظیم مرکز تھا اور جس وقت امام حسین علیہ السلام نے مکہ سے کوفہ کی جانب کوچ کیا توابن عباس نے امام حسین کو مشورہ دیاکہ وہ عراق نہ جائیں بلکہ یمن کی طرف روانہ ہوں کیونکہ وہاں آپ کے والد کے شیعہ ہیں ۔(۴)

البتہ اس بات کو ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ابتدائی کامیابی اور اسلامی سرزمین کی سر حدوں کے پھیلنے کے ساتھ یمن اور پوری طرح سے جزیرئہ عرب کا علاقہ ٹھپ نظر آیا یہی وجہ ہے کہ سپاہی اورفوجی لحاظ سے وہاں کا کوئی نقش نظر نہیں آتا اگر چہ دو شہر مکہ،اور مدینہ مذہبی وجہ سے ایک اجتماعی حیثیت رکھتے تھے لیکن یمن جو پیمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں ایک مہم ترین اسلامی

____________________

(١)ابن واضح ، تاریخ یعقوبی،ص١٩٩

(٢)شرح نہج البلاغہ ، دارالکتاب العربیہ ، قاہرہ ، ج ٢ ، ص ١٧

(٣)ثقفی کوفی ،ابراھیم بن محمد ،الغارت،ص ٣٣٣

( ٤)بلاذری، انساب الاشراف، منشورات الا علمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٣٩٤ھ ق، ج ٣ ،ص ١٦١

۱۹۵

حکومت شمارہوتاتھا مسلمانوں کے وسیلہ سے قریب کے ملکوں پر فتح حاصلکرنے کے بعد تقریباً اسلامی سر زمینوں کے ایک گوشہ میں واقع ہوگیا تھا اوروہ جنوب کا آخری نقطہ شمار ہوتا ہے اس کے با وجود روح تشیع وہاں پر حاکم تھی دوسری صدی کے اختتام پر ابو سرایا ابراہیم بن موسیٰ وہاں پربغیر مزاحمت کے داخل ہوگیا اور اس نے اس علاقہ کو اپنے کنٹرول میں لے لیا،(١) آخرکار مذہب زیدیہ کو سر زمین یمن میں کامیابی حاصل ہوئی آج بھی وہاں کے رہنے والے اکثر زیدی ہیں ۔(٢)

کوفہ:

کو فہ وہ شہر ہے جو اسلام کے بعد وجود میں آیا اور مسلمانوں نے اس کی بنیاد رکھی کوفہ سے قریب قدیمی شہر حیرہ تھا جو لخمیوں کی حکومت کا مرکز تھا۔(٣)

١٧ھ میں سعد بن وقاص جو ایران محاذ کا کمانڈر تھا اس نے خلیفۂ دوّم کے حکم پر اس شہر کی بنیادرکھی اس کے بعد اصحاب میں سے اسّی لوگ وہاں پر ساکن ہو گئے،(٤) ابتدامیں شہر کوفہ میں زیادہ تر فوجی چھاونی تھی جو شرقی محاذپر فوجیوں کی دیکھ ریکھ کرتی تھی اس شہر کے اکثر رہنے والے مجاہدین اسلام تھے جس میں اکثر قحطانی اور یمن کے قبائل تھے، اس و جہ سے کوفہ میں قحطانی اور یمنی ماحول زیادہ تھا ،(٥) اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے اکثر

____________________

(١)ابو الفرج اصفہانی،علی بن حسین،مقاتل الطالبین،منشورات الشریف الرضی،قم ١٤١٦ہجری، ص٤٣٥

(٢)مظفر ،محمد حسین،تاریخ شیعہ ،ص١٣٢

(٣) یاقوت حموی ، شہاب الدین ابی عبداللہ ، معجم البلدان،دار احیاء التراث العربی ، بیروت ، طبع اوّل ، ١٤١٧ھ، ص ١٦٢

(٤)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی، منشورات شریف الرضی ، قم ، ١٤١٤ھ ،ج ٢ ، ص ١٥٠

(٥) یاقوت حموی ،شہاب الدین ابی عبداللہ، معجم البلدان ،ص ١٦١

۱۹۶

انصار وہاں رہنے لگے جودر اصلیمنی تھے، انصار کے دو قبیلوں میں سے ایک خزرج تھا جن کا کوفہ میں اپنا مخصوص محلہ تھا ،یا قوت حموی کا بیان ہے: زیاد کے زمانے میں زیادہ تر جو گھر اینٹ کے بنے ہوئے تھے وہ خزرج ا و رمرادکے تھے ،(١) البتہ کچھ موالی اور ایرانی بھی کوفہ میں زندگی بسر کرتے تھے جو امیر المومنین علیہ السلام کے دور خلافت میں کوفہ کے بازار میں خرید و فروخت کیا کرتے تھے،(٢) جناب مختارکے قیام کے وقت ان کی فوج میں زیادہ تر یہی موالی تھے۔(٣)

کوفہ کی فضیلت کے بارے میں اہل بیت سے کافی احادیث وارد ہوئی ہیں کہ جن میں سے بعض یہ ہیں : حضرت علی نے فرمایا:

کوفہ کتنا اچھا شہر ہے کہ یہاں کی خاک ہم کو دوست رکھتی ہے اور ہم بھی اس کو دوست رکھتے ہیں ، کوفہ کے باہر قبرستان (وہ قبرستان کوفہ جو شہر سے باہر واقع تھا ) سے روز قیامت ستّر ہزار افراد ایسے محشور ہوں گے جن کے چہرے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے، کوفہ ہمارا شہر اور ہمارے شیعوں کے رہنے کی جگہ ہے ۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: خُدایا !جو شخص بھی کوفہ سے دشمنی رکھے توبھی اسے دشمن قرار دے،(٤) کوفہ میں شیعیت حضرت علی کی ہجرت سے بھی پہلے موجود تھی

____________________

(١)یاقوت حموی ،شہاب الدین ابی عبداللہ، معجم البلدان ،ص ١٦١

(٢)بلاذری، انساب الاشراف، منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات، بیروت، ١٣٩٤ھ ،ج٢ ص١٢٦

(٣)جعفریان ،رسول،تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا ہفتم ہجری، شرکت چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی ، ١٣٧٧ھ ، ص٧١

(٤)ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ،دار الاحیاء کتب العربیہ،طبع قاہرہ ،ج٣،ص١٩٨

۱۹۷

جس کے دوعوامل بیان کئے جاتے ہیں ۔

ایک یمنی قبائل کا وہاں پر ساکنہونا جیسا کہ پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ زیادہ تر افراد وہاں خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوست رکھنے والے تھے۔

دوسرے بزرگ شیعہ اصحاب کا وجود جیسے عبداللہ بن مسعود ، عمّار یاسر،عمر نے عمّار کووہاں کا حاکم بناکر اور ابن مسعود کو معلّم قرآن کے عنوان سے بھیجا تھاابن مسعود نے برسوں وہاں لوگوں کو فقہ او رقرآن کی تعلیم دی۔(١)

ان دو بزرگو ں کی تعلیمات کے اثرات حضرت علی کی خلافت کے آغاز میں قابل مشاہدہ ہیں ،آنحضرت کی بیعت کے وقت مالک اشتر کا وہ خطبہ جو کوفہ کے لوگوں کے درمیان روح تشیع کی حکایت کرتا ہے ا س وقت مالک اشتر کہہ رہے تھے: اے لوگو! وصی ا وصیاء اوروارث علم انبیا وہ شخص ہے جس کے ایمان کی گواہی کتاب خُدا نے دی ہے اور اس کے جنّتی ہونے کی گواہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دی ہے تمام فضائل اس پر ختم ہوجاتے ہیں ، اس کے سابقہ علمی اور فضل و شرف کے سلسلہ میں اولین اور آخرین میں کسی نے شک نہیں کیاہے۔(٢)

جس وقت حضرت علی نے اپنے بیٹے امام حسن اور عمار کواہل کوفہ کے پاس ناکثین کے مقابلہ میں جنگ کرنے کے حوالے سے بھیجا تو ابو موسیٰ اشعری وہاں کا حاکم تھا اور لوگوں کو حضرت علی کا ساتھ دینے سے منع کر رہاتھا ،اس کے باوجود نو ہزار افراد حضر ت

____________________

(١)ابن اثیر ، ابی الحسن علی بن ابی کرم، اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ ، دار الاحیاء التراث العربی بیروت ، ج٣ ، ص ٢٥٨

(٢) ابن واضح، تاریخ یعقوبی،ص١٧٩

۱۹۸

علی سے ملحق ہوگئے۔(١)

حضرت علی کی ہجرت کے وقت سے تیسر ی صدی ہجری کے آخر تک کوفہ شیعوں کا اہم ترین شہر تھا ،ڈاکٹر حسین جعفری اس سلسلے میں کہتے ہیں : جس وقت حضرت علی سن ٣٦ھ میں کوفہ منتقل ہوئے اس وقت سے بلکہ اس سے بھی پہلے یہ شہر در واقع بہت سی تحریکوں ، آرزؤں ، الہامات اوربسا اوقات شیعوں کی ہم آہنگ کوششوں کا مرکز تھا اور کوفہ کے اندر اور باہر بہت سے نا گوار حادثات رونما ہوئے جو تشیع کے آغاز کے لئے تاریخ ساز تھے ،ان حوادث میں جیسے جنگ جمل وصفّین کے لئے حضرت علی کا فوج کو آراستہ کرنا، امام حسن علیہ السّلام کا خلافت سے دورہونا ۔حجر بن عدی کندی کا قیام ، امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی در ناک شہادت ،انقلاب توابین اور قیام مختارمنجملہ انہیں حوادث میں سے ہیں ، اس کے باوجود کوفہ نا امّیدی و محرومیت کا مرکز تھا،حتی کہ شیعوں کے ساتھ خیانت، اور ان کی آرزوں کی پامالی ان لوگوں کی طرف سے تھی جو خاندان علی کواسلامی سماج میں قیادت کے عنوان سے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔(٢)

اگر چہ امام حسین کو قتل کرنے والے اہل کوفہ تھے،(٣) شیعوں کی بزرگ ہستیاں اس وقت ابن زیادکے زندان میں مقید تھیں ،(٤) دوسری طرف حضرت مسلم اور ہانی کی

____________________

(١) بلاذری ،انساب الاشراف،ص ٢٦٢

(٢) ڈاکٹر سید حسین جعفری ،تشیع در مسیر تاریخ، ترجمہ ڈاکٹر سید محمد تقی آیت اللھی، دفتر نشر فر ہنگ اسلامی، طبع قم ، ١٣٧٨ھ، ص ١٢٥

(٣) مسعودی ، علی بن حسین، مروج الذھب،منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ١٤١١ھ، ج٣، ص٧٣

(٤) مظفر محمد حسین تاریخ الشیعہ،منشورات مکتب بصیرتی ، ص٦٧

۱۹۹

شہادت سے شیعہ ابن زیاد جیسے قوی خونخوار دشمن کے مقابلے میں بغیررہبر کے سر گردان و پریشان تھے لیکن امام حسین کی شہادت کے بعدوہ خواب غفلت سے بیدار ہوئے، توابین اور مختارکا قیام عمل میں آیا ،کوفہ اہل بیت کے ساتھ دوستی اور بنی امیہ کے ساتھ دشمنی میں مشہور تھا یہاں تک کہ مصعب بن زبیر نے اہل کوفہ کے دلوں کو اپنی طرف موڑنے کے لئے محبت اہل بیت کا اظہار کیا اور اسی وجہ سے امام حسین کی بیٹی سے شادی کی۔(١)

پہلی صدی ہجری کے تمام ہونے تک اگر چہ نئے شیعہ نشین علاقے قائم ہوچکے تھے پھر بھی کوفہ شیعوں کا اہم ترین شہرشمار کیا جاتا تھا ۔

جیسا کہ عباسی قیام کے رہنما محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس نے دوسری صدی کی ابتدا اور بنی امیہ کے خِلاف قیام کے شروع میں بطور شفارش اپنی طرف دعوت دینے والوں سے کہا:یادرہے کوفہ اور اس کے اطراف میں شیعیان علی ابن ابی طالب رہتے ہیں ۔(٢)

____________________

(١) ابن قتیبہ ، ابی محمد عبداللہ بن مسلم ، المعارف ، منشورات الشریف الرضی ، قم ، طبع اوّل ، ص ٢١٤

(٢) فخری نقل کرتا ہے: محمد بن علی نے اپنے چاہنے والوں اور مبلغوں سے کہا : کوفہ اور اس کے اطراف میں علی بن ابی طالب کے شیعہ رہتے ہیں ،بصرہ کے لوگوں نے عُثمانی جماعت کے ہاتھوں پر بیعت کی ہے لیکن جزیرہ کے لوگ حروری مسلک اور دین سے خارج ہیں ، شام کے لوگ آلِ ابوسُفیان کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے اور بنی مروان کے علاوہ دوسرے کی اطاعت نہیں کرتے لیکن مدینہ اور مکہ کے لوگ ابو بکر اورعمر کی سیرت پر ہیں اس بنا پر خُراسان کے لوگوں سے غفلت نہ کرو کیونکہ وہاں کے لوگ بہت ہوشیار ، پاک دل اور آسودہ خاطر ہیں ، انہیں کسی چیز کی فکر نہیں ہے نہ تو مختلف مذاہب میں بٹے ہوئے ہیں اور نہ ہی دین و دیانت کے پابند ہیں ۔( ابن طباطبا ،الفخری فی اٰداب السُلطانیہ،طبع مصر ،ص ١٠٤

۲۰۰