تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک0%

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 328

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف: غلام حسن محرمی
زمرہ جات:

صفحے: 328
مشاہدے: 86740
ڈاؤنلوڈ: 4747

تبصرے:

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86740 / ڈاؤنلوڈ: 4747
سائز سائز سائز
تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف:
اردو

دوسری اور تیسری صدی ہجری میں بھی طالبیوں کے چند افراد نے کوفہ میں قیام کیا تھا ، عباسیوں کے دور میں عراق میں بغداد ایک اہم شہر بن چکا تھا اس کے باوجود بھی کوفہ نے اپنی سیاسی اہمیت کو ہاتھوں سے نہ جانے دیا اوردوسری صدی ہجری کے آخری نصف میں ابوالسرایا کی سپہ سالاری میں ابن طبا طبا کا قیام اس شہر میں عمل میں آیا ۔(١)

اسی وجہ سے بنی امیہ کی طرف سے کوفہ کی سخت نگرانی ہونے لگی اور سفّاک و ظالم افراد جیسے زیاد، ابن زیاداور حجّاج بن یوسف اس شہر کے حاکم بنادیئے گئے وہاں کے حکاّم علویوں کے مخالف تھے اور اگر اتفاق سے کوئی حاکم مثل خالد بن عبداللہ قسری اگر تھوڑاسا شیعوں پر رحم بھی کرتا تھا تو فوراً اس کو ہٹا دیا جاتاتھا حتیٰ کہ اس کو زندان میں ڈال دیا جاتا تھا۔(٢)

کوفہ سیاسی حیثیت کے علاوہ علمی اعتبار سے بھی ایک اہم شہر شمار ہوتا تھا اور شیعہ تہذیب وہاں پرحاکم تھی، اس شہر کاعظیم حصّہ ائمہ کے شیعہ شاگردوں پر مشتمل تھا ، شیعوں کے بہت سے بزرگ خاندان اس شہر کوفہ میں زندگی گذارتے تھے کہ جنہوں نے شیعہ تہذیب کی بے حد خدمت کی ،جیسے آل اعین امام سجاد کے زمانے سے غیبت صغریٰ تک اس خاندان کے افراد ائمہ طاہرین کے اصحاب میں سے تھے، اس خاندان سے ساٹھ جلیل القدر محدثین پیدا ہوئے جن میں زرارہ بن اعین،حمران بن اعین ، بکیر بن اعین ، حمزہ بن حمران ،محمد بن حمران ،عبید بن زُرارہ کہ یہی عبید امام صادق کی شہادت کے بعد

____________________

(١)ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین، منشورات شریف الرضی ، قم، ١٤١٦ ھ ق ، ص٤٢٤ ۔ ٤٣١

(٢) بلاذری ، ، انساب الاشراف، دار التعارف للمطبوعات ، بیروت ، ٣٩٧ ھ ج ٣، ص ٢٣٣

۲۰۱

اہل کوفہ کی طرف سے نمائندہ بن کر مدینہ آئے تھے تاکہ امامت کے متعلق پیدا ہونے والے شبہات کو دور کریں اور کوفہ پلٹ جائیں ۔( ١)

آل ابی شعبہ بھی کوفہ میں شیعوں کا ایک بڑا خاندان تھا کہ ان کے جد ابو شعبہ نے امام حسن اور امام حسین سے حدیثیں نقل کی ہیں ،نجّاشی کا بیان ہے کہ وہ سب کے سب قابل اطمینان ا ور موثق ہیں ۔(٢)

اسی طرح آل نہیک جیسے شیعوں کے بڑے خاندان کوفہ میں رہتے تھے ،عبداللہ بن محمد اور عبد الرّحمن سمری انہیں میں سے ہیں ۔(٣)

کوفہ کی مساجد بالخصوص وہاں کی جامع مسجد میں ائمہ طاہرین کی احادیث کی تدریس ہوتی تھی ،امام رضا علیہ السلام کے صحابی حسن بن علی وشّا کہتے ہیں : کوفہ کی مسجد میں میں نے نوسو افراددیکھے کہ وہ سب امام صادق سے حدیث نقل کر رہے تھے۔(٤)

____________________

(١) بلاذری،ابو غالب ، رسا لة فی آل اعین،مطبعہ ربانی، اصفہانی ، ص ٢ ۔١٨

(٢) نجاشی ، ابو العباس احمد بن علی ، فہرست اسمأ مصنفی شیعہ،دفتر نشر اسلامی ،وابستہ جامعہ مدرسین ، قم ١٤٠٧ھ ، ص ٢٣٠

(٣) نجاشی ، ابو العباس احمد بن علی ، فہرست اسمأ مصنفی شیعہ،دفتر نشر اسلامی ،وابستہ جامعہ مدرسین ، قم ، ٠٧ ١٤ھ ، ص٢٣٢

(٤) نجاشی ، ابو العباس احمد بن علی ، فہرست اسمأ مصنفی شیعہ،دفتر نشر اسلامی ،وابستہ جامعہ مدرسین ، قم ، ٠٧ ١٤ھ ، ص ٣٩ ۔ ٤٠ ) ۔

۲۰۲

بصرہ:

بصر ہ و ہ شہر ہے کہ جس کی مسلمانو ں نے کوفہ کے ساتھ ہی ١٧ ھ

میں بنیاد رکھی ،(١) اگر چہ بصرہ کے لوگ عائشہ،طلحہ وزبیر کی حمایت کی وجہ سے عثمانی حوالے سے شہرت رکھتے تھے جس زمانے میں جمل کی فوج بصرہ میں مقیم تھی شیعیان امیر المومنین بھی وہاں زندگی بسر کرتے تھے اور امیر مومنین کے بصرہ پہنچنے سے پہلے ان کے شیعوں نے دشمنوں سے جنگ بھی کی کہ جس میں کافی تعداد میں لوگ شہید ہوئے جیسا کہ شیخ مفید نے نقل کیا ہے کہ فقط عبدالقیس قبیلہ سے پانچ سو شیعہ افراد شہید ہوئے۔(٢)

بلاذری کے نقل کے مطابق ربیعہ قبیلہ کے تین ہزار شیعہ محل ذی قار میں حضرت سے ملحق ہوئے ۔(٣)

جنگ جمل کے بعد بصرہ میں عثمانی رجحان بڑھنے کے باوجود کافی تعداد میں شیعہ وہاں زندگی بسر کر تے تھے ،اسی وجہ سے جب معاویہ نے ابن حضرمی کو فتنہ ایجاد کرنے کے لئے وہاں بھیجا تو اس کواس بات کی تاکید کی کہ بصرہ میں رہنے والے کچھ لوگ شیعہ ہیں بعض قبائل جیسے ربیعہ سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی، بہر حال عثمانی خیال وہاں پر زیادہ تھے اور اگرحضرت علی علیہ السّلام کوفہ سے فوج نہیں بھیجتے تو ابن حضرمی کی فتنہ پردازیوں سے بصرہ عثمانیوں کے ذریعہ ان کے کنٹرول سے نکل جاتا ۔(٤)

____________________

(١) یاقوت حموی ، شہاب الدین ابی عبداللہ ، معجم البلدان،دار احیا ء التراث العربی ، بیروت طبع اوّل ، ١٤١٧ ھ، ج ٢ ، ص ٣٤٠

(٢) شیخ مفید، الجمل، مکتب الاعلام الا سلامی ،مر کز نشر ، قم ، ١٤١٦ھ،ص٢٧٩

(٣)انساب الاشراف،منشورات موسسئہ الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٣٩٤ ھ ، ج ٢ ، ص ٢٣٧

(٤) ثقفی کوفی ، ابراھیم بن محمد ، الغارت ،ترجمہ محمد باقر کمرہ ای ، فرہنگ اسلامی ،ص١٦٦

۲۰۳

واقعہ کربلا کے وقت بھی امام حسین نے بصرہ کے چند بزرگوں کو خط لکھا ان میں سے یزید بن مسعود نہشلی نے امام کی دعوت کو قبول کیااور لبیک کہا اورکچھ قبائل بنی تمیم ، بنی سعد، اور بنی حنظلہ کو جمع کرکے ان کو امام حسین کی مدد کے لئے دعوت دی ، اس وقت ان قبیلوں نے اپنی آمادگی کا خط امام کو لکھا ،لیکن جب امام حسین سے ملحق ہونے کے لئے آمادہ ہوئے توان کو حضرت کی خبر شہادت ملی۔( ١)

مسعودی کے نقل کے مطابق توابین کے قیام میں بھی بصرہ کے کچھ شیعہ مدائن کے شیعوں کے ساتھ فوج میں ملحق ہوئے لیکن جس وقت وہاں پہنچے جنگ تمام ہو چکی تھی۔(٢)

بنی امیہ کے دور میں بصرہ کے شیعہ زیاد اور سمرہ بن جندب جیسے ظالموں کے ظلم کا شکار تھے، زیاد ٤٥ھ میں بصرہ آیا اور خطبہ بتراء پڑھا ،(٣) کیونکہ زیاد نے اس خُطبہ کو بغیر نام خدا کے شروع کیا اس لئے اس کو بتراء کہا جانے لگا اس نے اس طرح کہا: خدا کی قسم میں غلام کوآقا، حاضر کو مسافر ، تندرست کو بیمار کے گناہ کی سزا د وں گا یہاں تک کہ تم ایک دوسرے کا منھ دیکھو گے اور کہو گے سعد خود کو بچائو کہ سعید تباہ ہو گیا،آگاہ ہو جائواس کے بعد اگر کوئی بھی رات میں باہر نکلاتومیں اس کا خون بہادوں گا اپنے ہاتھوں اور

____________________

(١)امین ، سید محسن ، اعیان الشیعہ ،دارالتعارف للمطبوعات ، بیروت ،( بی تا ) ج ١ ،ص ٥٩٠

(٢)مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذھب، منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١١ ج٣ ، ص ١٠٩

(٣) بتراء ابتر کا مؤنث ہے جس کے معنی بریدہ اور ناقص کے ہیں حدیث میں ہر وہ گفتگو جو خُدا کے نام سے شروع نہ ہو اس کو ابتر کہا جاتا ہے۔

۲۰۴

زبان کو بند رکھنا تاکہ میرے ہاتھ اور زبان سے امان میں رہو،(١) بعد میں کوفہ بھی زیادکے کنٹرول میں آگیا، زیاد چھ ماہ کوفہ میں رہتاتھا اور چھ ماہ بصرہ میں جس وقت کوفہ جاتا تھا سمرة بن جندب کو بصرہ میں اپنی جگہ معین کر دیتا تھا، سمرہ ایک ظالم شخص تھا جو خون بہانے میں ذرہ برابر بھی اعتنانہیں کرتا تھا اس نے زیاد کی غیر موجود گی میں آٹھ ہزار افراد کو قتل کیا(٢) وقت کے ساتھ ساتھ بصرہ میں شیعیت بڑھتی گئی یہاں تک کہ حکومت عباسی کے آغاز میں دوسرا علوی قیام جو محمد نفس زکیہ کے بھائی ابراہیم کانے کیا بصرہ میں واقع ہوا ۔(٣)

مدائن :

کوفہ اور بصر ہ کے بر خلاف مدائن ایساشہر ہے کہ جو اسلام سے پہلے بھی موجود تھا اور سعد بن ابی وقاص نے ١٦ھ میں عمر بن خطاب کی خلافت کے زمانہ میں اس کو فتح کیا، ایک قول کے مطابق نوشیرواں نے اس شہر کی بنا رکھی اور فارسی میں اس کانام تیسفون تھا جو ساسانیان کے پائے تخت میں شمار ہوتا تھا طاق کسریٰ بھی اسی شہر میں واقع ہے اس شہر میں سات بڑے محلے تھے ہر محلہ ایک شہر کے برابر تھا اسی بنا پر عربوں نے اسے مدائن کہا جو مدینے کی جمع ہے البتہ کوفہ بصرہ ،بغداد ،واسط اور سامرہ جیسے جدید شہروں کی بناکے بعد یہ شہر ویران ہوتاگیا۔(٤)

____________________

(١) شہیدی ڈاکٹر سید جعفر ، تاریخ تحلیل اسلام تا پایان امویان،مر کز نشر دانشگاہ علمی ، تہران ، ص ١٥٦

(٢)طبری ، محمد بن جریر ، تاریخ الامم والملوک،دار القاموس الحدیث ، بیروت ، ج ٦ ، ص ١٣٢

(٣)ابوالفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ، منشورات شریف الرضی ، قم ١٤١٦ ھ ، ص٢٩٢

(٤)یاقوت حموی ، شہاب الدین ابی عبد اللہ ،معجم البلدان، طبع اول ، ١٤١٧ھ ، ج٧ ص ٢٢١۔٢٢٢، مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذہب ، ج١ ص ٢٦٧

۲۰۵

پہلی دوسری وتیسری صدی ہجری تک مدائن شیعہ نشین شہروں میں شمار ہوتا تھا اور یہ جلیل القدرشیعہ اصحاب جیسے سلمان فارسی ،حذیفہ بن یمان کی حکمرانی کی وجہ سے تھا اسی وجہ سے مدائن کے لوگوں نے اسلام کوشروع میں شیعہ اصحاب سے قبول کیا تھا قیام توابین میں شیعیان مدائن کے نام واضح و روشن ہیں ،مسعودی کا بیان ہے سلیمان بن صرد خزاعی اور مسیب بن نجبہ فزاری کی شہادت کے بعد توابین کی قیادت کی ذمہ داری عبداللہ بن سعد بن نفیل نے اپنے ذمہ لے لی ،اس وقت مدائن و بصرہ کے شیعوں کی تعداد تقریباً پانچ سو افرادتھی اور مثنیٰ بن مخرمہ اور سعد بن حذیفہ ان کے سردار تھے ، تیزی سے آگے آئے اور اپنے کو توابین تک پہنچانے کی کوشش کی لیکن نہیں پہنچ سکے،(١) یاقوت حموی کے قول کے مطابق اکثر اہل مدائن شیعہ تھے ۔(٢)

جبل عامل:

پہلی صدی ہجری میں شیعہ نشین مناطق میں سے ایک جبل عامل تھا یہاں شیعیت اس وقت سے وجودمیں آئی جب عثمان نے جناب ابوذرکو ملک شام شہربدرکیا مرحوم سید محسن امین کہتے ہیں :

معاویہ نے بھی ابوذر کو جبل عامل کے دیہاتوں میں شہر بدرکردیا ابوذر وہاں لوگوں کی ہدایت اور تبلیغ کرتے رہے، لہذا وہاں کے لوگوں نے مذہب تشیع اختیار کر لیا جبل عامل کے دو گائوں صرفند ،اور میس میں دو مسجدیں ہیں ، جو ابوذر سے منسوب ہیں یہاں تککہ امیر المومنین کے زمانے میں اسعار نام کے گائوں میں شیعہ مذہب کے

____________________

(١)مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذھب ، ج٣ص ١٠٩

(٢)یاقوت حموی ، شہاب الدین ابی عبد اللہ ،معجم البلدان، طبع اول ، ١٤١٧ھ ، ج٧ ص٢٢٢

۲۰۶

لوگ تھے۔(١)

مرحوم مظفر نے بھی وہاں کے تشیع کے بارے میں کہا ہے جبل عامل میں تشیع کی ابتدا ابوذر غفاری کے فضل سے ہے ،(٢) کرد علی کا بھی کہنا ہے :دمشق ،جبل عامل اور شمال لبنان میں تشیع کا آغازپہلی صدی ہجری سے ہی ہے۔(٣)

____________________

(١)اعیان الشیعہ،دار التعارف للمطبوعات ، بیروت ،ج١، ص ٢٥

(٢)تاریخ الشیعہ، منشورات مکتبة بصیرتی ، ص ١٤٩

(٣)خطط الشام ، مکتبة النوری ، دمشق ،طبع سوم ،١٤٠٣ھ ١٩٨٣ ج ٦ ص ٢٤٦

۲۰۷

(ب)دوسری صدی ہجری میں شیعہ نشین علاقے

دوسری صدی ہجری کی ابتدا میں تشیع جزیرةالعرب اور عراق کی سرحدوں سے عبور کر کے تمام اسلامی مناطق میں پھیل گیا ،شیعوں اور علویوں کے اسلامی سرزمینوں میں پھیلنے سے یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ حجاج بن یوسف کے زمانہ سے شیعوں اور علویوں کی مہاجرت شروع ہوئی دوسری صدی ہجری کے شروع میں علویوں کی تبلیغ اور قیام سے اس ہجرت میں تیزی آ گئی کوفہ میں قیام زید کے شکست کھانے کے بعد ان کے بیٹے یحییٰ نے اپنے چند چاہنے والوں کے ساتھ خراسان ہجرت کی،(۱) اس کے بعد عبد اللہ بن معاویہ کاقیام عمل میں آیا،یہ جعفر طیار کے بیٹوں میں سے ہیں انہوں نے ہمدان ،قم، ری،قرمس،اصفہان اورفارس جیسے مناطق کو اپنے قبضہ میں کیا اور خود اصفہان میں زندگی گذاری۔

____________________

(۱)ابوالفرج اصفھانی ،مقاتل الطالبین ،منشورات شریف الرضی ،قم ،١٤١٦ھ ص١٤٦

۲۰۸

ابوالفرج اصفہانی کا بیان ہے : بنی ہاشم کے بزرگ اس کے پاس جاتے تھے اور وہ ہر ایک کے لئے کو اطراف میں حکومت فراہم کرتا تھایہاں تک کہ منصور اور سفاح عباسی نے بھی اس کا ساتھ دیا ،مروان حمار اورابو مسلم کے زمانہ تک وہ اپنی جگہ پر مستحکم تھا۔(١)

عباسیوں کے دور میں مسلسل علوی قیام وجود میں آتے رہے ان قیام کا ایک حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف علاقہ میں علوی افرادپھیل گئے جیسا کہ منصور کی حکومت میں محمد نفس زکیہ کے قیام کی شکست کے بعد امام حسن کی اولاد مختلف منا طق میں پھیل گئی، مسعودی کا اس بارے میں کہنا ہے :

محمد بن عبداللہ (نفس زکیہ )کے بھائی مختلف ملکوں میں پھیل گئے علی بن محمد مصر چلے گئے اور وہیں پر قتل کر دیئے گئے دوسرے بیٹے عبداللہ بن محمد نے خراسان اور وہاں سے سندھ مہاجرت کی اور وہاں مار دیئے گئے تیسرے بیٹے حسن بن محمدنے یمن کا سفر کیا وہاں زندان میں ڈال دئے گئے اور زندان ہی میں دنیا سے رخصت ہوگئے ا ن کے بھائی موسیٰ نے جزیرہ کا رخ کیا اور دوسرے بھائی یحٰ نے ری اور وہاں سے طبرستان کا سفر کیا، ان کے تیسرے بھائی مراقش چلے گئے اور چوتھے بھائی ابراہیم نے بصرہ کا رخ کیا اور نے وہاں پر اہواز ،فارس اور دوسرے شہروں کے لوگوں کے ساتھ ملکرلشکر بنایا لیکن ان کاقیام شکست کھاگیا۔(٢)

اگر چہ ان میں سے زیادہ تر عباسی مامورین کی نگرانی میں تھے اور ایک جگہ

____________________

(١)ابوالفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ،منشورات شریف الرضی ،قم ،١٤١٦ھ،ص :١٥٧

(٢)مسعودی ،علی بن حسین، مروج الذھب،منشورات مؤسسةالاعلمی للمطبوعات ،بیروت ١٤١١ھ، ج٣،ص٣٢٦

۲۰۹

قیام نہیں کر سکتے تھے اورقتل ہوجاتے تھے لیکن اپنے اثرات چھوڑ جاتے تھے کبھی ان کے بیٹے ان علاقوں میں رہتے تھے، جیسا کہ عبداللہ نفس زکیہ کا بیٹا ،مسعودی کے نقل کے مطابق وہ خراسان میں نہیں رہ سکے اور سندھ کی طرف چلے گئے،( ١)لیکن صاحب کتاب ''منتقلة الطالبیین'' کے نقل کے مطابق عبداللہ بن ابراہیم خراسان میں رہتے تھے اور ان کے قاسم اور محمد نام کے دو بیٹے تھے،(٢) اسی طرح ماوراء النہرمیں کچھ ایسے گروہ تھے کہ جو اپنے کو ابراہیم بن محمد نفس زکیہ سے نسبت دیتے تھے۔(٣)

اب ہم ان شہراورعلاقوں کے حالات کی تحقیق کریں گے جہاں دوسری صدی ہجری میں شیعہ کثیر تعداد میں زندگی بسر کررہے تھے۔

خراسا ن :

دوسری صدی کے شروع ہو نے کے ساتھ ساتھ بنی ہا شم کے مبلغین کی تحریک اور کوشش سے خراسا ن کے اکثرلوگ شیعہ ہوگئے ۔(٤)

____________________

(١)مسعودی ،علی بن حسین، مروج الذھب،منشورات مؤسسةالاعلمی للمطبوعات ،بیروت ١٤١١ھ،ج٣،ص٣٢٦

(٢)ابن طباطبا،ابو اسماعیل بن ناصر ،منتقلةالطالبیین ،ترجمہ محمد رضا عطائی انتشارات آستانہ قدس رضوی ۔طبع اول١٣٧٢ش ھ،ص٢٠٧

(٣)ابن طباطبا،ابو اسماعیل بن ناصر ،منتقلةالطالبیین ،ترجمہ محمد رضا عطائی انتشارات آستانہ قدس رضوی ۔طبع اول١٣٧٢ش ھ:ص٤٠٣

(٤) اس بات پر توجہ رہے کہ بنی ہاشم کی اصطلاح اس زمانہ میں عباسیوں کو بھی شامل تھی کیونکہ ہاشم ان کے بھی جد تھے۔

۲۱۰

یعقوبی نقل کرتا ہے: زید کی شہا دت کے بعد خراسان کے شیعہ جوش و خروش میں آگئے اور اپنے شیعہ ہونے کابرملہ ا ظہارکرنے لگے نیزمبلغوں اور خطیبوں نے بنی امیہ کی جانب سے خا ندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ہونے والے مظالم کا کھلم کھلا اعلان کرنا شروع کردیا۔(١)

یحییٰ بن زید خراسا ن چلے گئے اور اور چند دنوں تک مخفی زندگی گزاری جس وقت خروج کیا کافی لوگ ان کے ارد گر دجمع ہو گئے ،(٢)

مسعودی کے نقل کے مطابق جس سال یحٰ کا قتل ہو ا اس سال جوبچہ بھی خراسان میں پیدا ہوا اس کا نا م یحٰ رکھا گیا۔(٣)

البتہ خراسان کے شیعوں پر زیدیوں اور عباسیوں کے مبلغین کے سبب زیدیت اور کیسانیت کارنگ چڑھا ہو اتھاخاص کر عباسیوں نے اپنی خلافت کے آغاز میں محمد حنفیہ کے بیٹے محمد بن علی ابو ہاشم کی جانشینی کا اعلان کیا ،جیسا کہ ابو الفرج اصفہانی نے عبد اللہ بن محمد حنفیہ کے حالات کے ذیل میں لکھا ہے : یہ وہی ہیں جن کے بارے میں خراسان کے لوگوں کا گمان تھا کہ ان کے والد امام تھے اور یہ ان کے وارث ہیں اور ان کے وارث محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس ہیں اور محمد بن علی نے ابراہیم کو اپنا وصی بنایا ہے اس طرح سے عباسیوں میں جانشینی استوار ہوئی ،(٤) خراسانی مسلسل عباسیوں کے طرفدار تھے علویوں او ر عباسیوں کے درمیان ہونے والے نزاع کے دوران عباسیوں کی طرفداری

____________________

(١)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ،منشورات شریف الرضی ،قم ، ١٤١٤ھ، ج٢ ص ٣٢٦

(٢)ابوالفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ،منشورات شریف الرضی ،قم ،١٤١٦ھ،ص ١٤٩

(٣)مسعودی ، علی بن حسین ،مروج الذھب، ص٣٣٦

(٤) ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، ص ١٢٣

۲۱۱

کرتے تھے چنانچہ محمد نفس زکیہ کے ساتھ جنگ میں اکثر عباسی سپاہی خراسانی تھے اور فارسی میں گفتگو کرتے تھے، ابوالفرج اصفہا نی نقل کرتے ہیں : جس وقت محمد نفس زکیہ کے سرداروں میں سے ایک سردار بنام خضیر زبیری مدینہ سے فوجی چھائونی کی طرف آرہا تھاخراسانی فارسی میں کہہ رہے تھے :

خضیرآمدخضیر آمد۔(١)

قم:

دوسری صدی ہجری کے بعد قم اہم ترین شیعہ نشین شہرشمار ہوتا تھا اور اس شہرکی بنیاد نہ صرف یہ کہ اسلامی ہے بلکہ شیعوں کے ہاتھوں سے رکھی گئی ہے اور اس میں شروع سے ہی شیعہ آباد تھے اور ہمیشہ شیعہ اثنا عشری رہے کہ جو کبھی راستہ سے منحرف نہیں ہوئے ،نہ صرف یہ کہ سنیوں نے اس شہر میں کبھی سکونت نہیں کی بلکہ غالیوں کے لئے بھی یہاں آنا ممکن نہیں ہوااور اگرکبھی اس شہر میں آبھی جاتے تھے تو قم کے لوگ ان کو بھگادیتے تھے۔(٢)

یہاں کے بہت سے لوگوں نے ائمہ اطہار کی خد مت میں حاضری دی ہے اور ان بزرگوں سے کسب فیض کیا ہے اور مسلسل ائمہ سے رابطہ میں رہے ہیں ٨٢ ھ میں ابن اشعث کی شورش حجاج کے مقابلہ میں ناکام ہوگئی اور وہ کابل کی جانب فرار کر گیا ،(٣) ا س کی

____________________

(١) ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، ص ٢٣٨

(٢) رجال بن داؤد ،منشورات الرضی ، ص ٢٤٠۔٢٧٠

(٣)مسعودی علی بن حسین ،مروج الذھب ، منشورات موسسہ الاعلمی مطبوعات ، بیروت ، ١٤١١ھ ، ج٣ص ١٤٩

۲۱۲

فوج میں بعض شیعہ بھی موجود تھے ،منجملہ عبداللہ ،احوص،نعیم ،عبدالرحمٰن اوراسحاق ،سعد بن مالک بن عامر اشعری جو ابن اشعث کی شکست کے بعد قم کی طرف آگئے ،وہاں سات گاؤں تھے ان میں ایک گاؤں کا نام کمندان تھا یہ سارے بھائی اس گاؤں میں ساکن ہو گئے اور ان کے رشتہ داراور رفقا ان سے ملحق ہوتے گئے اور رفتہ رفتہ یہ تمام دہات آپس میں مل گئے اور سات محلوں کی طرح ہو گئے ان سب کو کمندان کہا جانے لگا آہستہ آہستہ آگے کے حروف کم ہوتے گئے اورترخیم ہوکر عربی میں قم ہو گیا۔(١)

اس کے بعد قم شیعوں کا ایک اہم مرکز ہو گیا اور شیعہ خصوصاًعلوی ہر جگہ سے یہاں آئے اور قم میں ساکن ہوگئے ،(٢) دوسری صدی ہجری کے آخر میں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی تشریف آوری سے اس شہر کی تاریخی عظمت بڑھ گئی اور معصومہ(س)کے آنے کی برکت سے اس شہر کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ۔

بغداد:

دوسری صدی ہجری ١٤٥ ھ میں خلیفہ عباسی کے دوسرے خلیفہ منصور کے ذریعہ اس شہر کی بنا رکھی گئی اور بہت جلدی شیعوں کا مرکز ہو گیا ،(٣) اس چیز کو امام کاظم کی تشییع جنازہ میں پوری طرح ملاحظہ کیا جاسکتا ہے،شیعوں کے ازدہام اور جم غفیر کی

____________________

(١)یاقوت حموی ، شہاب الدین ابی عبد اللہ ، معجم البلدان ،دار احیاء التراث العربی ، بیروت، طبع اول ، ١٤١٧ھ، ج٧ ص ٨٨

(٢)ابن طبا طبا ، ابو اسماعیل بن ناصر ، منتقلةالطالبین ،ترجمہ ، محمد رضا عطائی ، انتشارات آستان قدس رضوی ، طبع اول ، ١٣٧٢ھ ص ٣٣٣۔٣٣٩

(٣)حموی ،یاقوت بن عبد اللہ ،معجم البلدان،دار احیاء التراث ، بیروت ج ٢ ص ٣٦١

۲۱۳

بناپر عباسی خوف زدہ ہو گئے،سلیمان بن منصور، ہارون کا چچا لوگوں کے غصہ کو کم کرنے کے لئے پا برہنہ تشییع جنازہ میں شریک ہوا ۔(١)

بغدادکی بنیاد عراق میں رکھی گئی اور عراق کے اکثر لوگ شیعہ تھے اگر چہ ابتدا میں یہ ایک فوجی و سیاسی شہر تھا ،مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ جہان اسلام کی علمی مرکز یت یہاں منتقل ہوگئی اور کوفہ بصرہ مدائن کے شیعہ یہاں ساکن ہو گئے، اور مختصر سا زمانہ گزرنے کے بعد یہاں کی آبادی بہت زیادہ ہو گئی رفتہ رفتہ غیبت صغریٰ کے بعد شیعہ مذہب کی علمی مرکزیت بھی یہاں منتقل ہو گئی اور آل بویہ کی شیعہ حکومت کے سائے میں وہاں تشیع نے مزیدرونق حاصل کی، اس کے بعد شیخ طوسی نے شیعی مرکزیت کو نجف منتقل کیا ۔

(ج)تیسری صدی ہجری میں شیعہ نشین علاقے

تیسری صدی ہجری میں شیعوں کی جغرافیائی صورت حال کو دو طریقہ سے مورد بحث قرار دیا جا سکتا ہے :

اسلامی سر زمین میں شیعہ حکومتوں کی تشکیل،٢٥٠ھمیں علویوں نے طبرستان میں حکومت تشکیل دی،(٢) تیسری صدی ہجری کے اواخر میں سادات حسنی نے یمن میں زیدیوں کی حکومت تشکیل دی،٢٩٦ھمیں فاطمی حکومت شمال افریقہ میں تشکیل پائی،(٣) اگرچہ یہ حکومتیں شیعہ اثنا عشری کے مبانی اور اصولوں پر استوار نہیں تھیں اس

____________________

(١)امین سید محسن ،اعیان الشیعہ، دار التعارف للمطبوعات ، بیروت ،ج١ ص ٢٩

(٢) ابی محمد بن جریر طبری ،تاریخ طبری، دار الکتب العلمیہ ، بیروت، طبع دوم ، ١٤٠٨ھ ج٥ ص ٣٦٥

(٣) جلال الدین سیوطی ، تاریخ الخلفائ،منشورات الرضی ، طبع اول ، ١٤١١ھ ،ج ص ٥٢٤

۲۱۴

کے باوجود ان حکومتوں کا وجود ان علاقوں اور سر زمینوں پر فروغ شیعیت کے لئے ایک سنگ میل قرار پایا،زیدیوں اور اسماعیلیوں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا ۔

دوسرا راستہ ان مناطق کی فہرست ہے جہاں ائمہ اطہار کے وکیل تھے، وکالت کا نظام امام صادق کے دور سے شروع ہوا اور امام ہادی و امام حسن عسکری کے زمانے میں یہ نظام اپنے عروج پر تھا اور پوری طرح سے اس کی فعالیت جاری و ساری تھی جن مناطق میں ائمہ کے وکلاتھے وہ حسب ذیل ہیں : اہواز، ہمدان، سیستان، بست،ری، بصرہ،واسط، بغداد ،مصر، یمن،حجاز،مدائن۔(١)

البتہ تیسری صدی ہجری کے آخر میں کوفہ،قم ،سامرہ اور نیشاپور اہم ترین شیعہ شہروں میں شمار ہونے لگے، ان جگہوں پر شیعہ فقہ کی تدریس ائمہ معصومین کی احادیث کی بنیاد پر ہوتی تھی، ہاں تیسری صدی ہجری کے بعد کوفہ کی رونق کم ہو گئی اور آہستہ آہستہ بغداد نے اس کی جگہ لے لی آل بویہ کے وہاں آنے سے نیز بزر گان شیعہ جیسے شیخ مفید سید مرتضیٰ،سید رضی ،شیخ طوسی کے وجود سے بغداد کے حوزۂ علمیہ کو مزید فروغ ملا۔

بغداد میں شیعہ نفود کے بارے میں آدام متزچوتھی صدی ہجری کے حوالہ سے لکھتا ہے : بغداد جو تمام جہت سے اسلام کا پایہ تخت تھا اورہر طرح کے فکری نظریات کا دریا وہاں موجزن تھا ،تمام مذاہب کے طرفدار وہاں موجود تھے جن میں دو گروہ سب سے زیادہ قوی اور حد سے زیادہ متعصب تھے، ایک حنبلی دوسرے شیعہ، طرفداران تشیع بازار کرخ کے اطراف میں منظم طریقہ سے مقیم تھے اور چوتھی صدی ہجری کے آخر میں پل

____________________

(١)پور طباطبائی ، مجید،تاریخ عصر غیبت، مرکز جہانی علوم اسلامی ، ص ١١٩

۲۱۵

کے اس طرف باب الطاق میں بھی آباد ہوگئے دجلہ کے غرب میں خصوصاًباب بصرہ میں ہاشمیوں (سادات عباسی) نے ایک طاقتور اور قوی دستہ تشکیل دیا تھا، جو شیعوں سے شدید دشمنی رکھتا تھا یاقوت لکھتا ہے :

باب البصرہ کے محلے میں رہنے والے کرخ و قبلہ کے درمیان سب سنی حنبلی ہیں بائیں ہاتھ اور جنوب کے محلے میں بھی سبھی سنی ہیں لیکن کرخ کے تمام افراد شیعہ امامیہ ہیں اور ان کے در میان سنیوں کا وجود نہیں ہے۔

مؤرخین کے مطابق بغداد کے شیعوں نے ٣١٣ھ میں سب سے پہلے مسجد براثا میں اجتماع کیا وہاں کے خلیفہ کو یہ خبر ہوگئی کہ ایک گروہ خلفا پر لعنت کرنے کے لئے وہاں جمع ہوا ہے حاکم کے حکم کے مطابق روز جمعہ نماز کے وقت اس جگہ کا محاصرہ کرلیا گیا اور تیس نمازیوں کو گرفتار کرکے ان کے بارے میں چھان بین کی گئی ،ان کے پاس ایک سفید مٹی کی سجدگاہ برآمد ہوئی کہ جس پر امام کا نام منقوش تھا ،٣٢١ھ سردار ترک میں علی بن یلبق نے حکم دیا کہ معاویہ اور یزیدپر منبروں سے لعنت کی جائے، سنیوں نے اس کے خلاف شورش برپا کی، جن کی عنان حنبلیوں کے پیشوا اور ان کے دوستوں کے ہاتھ میں تھی، حنبلیوں کی فتنہ انگیزی کی وجہ سے ٣٢٣ھ میں بغداد میں یہ قانون پاس کیا گیا کہ دوحنبلی ایک جگہ جمع نہ ہوسکتے اور خلیفہ نے ایک خط لکھا جس میں حنبلیوں کی غلطیوں کی سزا معین کی(١) اور یہ چیز مشہور ہو گئی۔

____________________

(١)آدم متزتمدن اسلامی درقرن چہارم ہجری،ترجمہ علی رضا ذکاوتی قرا گز لو، انتشارات امیر کبیر،تہران،طبع دوم ،١٣٦٤ہجری،ص٨٥،٨٦

۲۱۶

قبائل کے درمیان تشیّع

اصولی طور پر عدنانیوں کے مقابلہ میں قحطانی قبائل میں حضرت علی کے چاہنے والے اور ان کے شیعہ زیادہ تھے اور قحطانیوں کے درمیان تشیع کو زیادہ فروغ ملا امیرالمؤمنین کے دور خلافت میں آنحضرت کے سر کردہ افراد اور سپاہی نیزاہل شیعہجنوب عرب کے قبائل اور قحطانی تشکیل دیتے تھے، جیسا کہ حضرت نے ایک رجز میں صفین کے میدان میں اس طرح فر مایا :

انا الغلام القرشی المؤتمن

الماجد الابیض لیث کالشطن

میں امین اور بزرگوار قریش کا ایک جوان ہوں سفید رو اور مثل شیر ہوں ۔

یرضی به السادة من اهل الیمن

من ساکنی نجد ومن اهل عدن(١)

اہل یمن کے بزرگ اور عدن کے رہنے والے اس سے راضی ہیں ۔

اسی طرح پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان علی کے طرفداروں میں سب سے زیادہ انصار تھے جو اصل میں قحطانی تھے اور علی کے ساتھی مدینہ سے جمل تک انصار ہی تھے۔(٢)

ابن عباس نے بھی امام حسین سے کوفہ کی جانب کوچ کرتے وقت کہاتھا:'' اگر اہل عراق آپ کے خوا ہاں ہیں اور آپ کی مدد کے لئے آمادہ ہیں تو ان کو لکھ بھیجے کہ میرے دشمن

____________________

(١)ابن شہر آشوب ،مناقب آل ابی طالب ،موسسہ انتشارات علا مہ ،قم ،ج٣،ص١٧٨

(٢)بلاذری ،انساب الاشراف،ج٣،ص١٦١

۲۱۷

کو باہر نکال دیں ، اس کے بعد آپ وہاں جائیں ورنہ آپ یمن کی جانب رحلت کریں کیونکہ وہاں ایسے پہاڑ اور قلعے ہیں جو عراق میں نہیں ہیں یمن ایک بزرگ سر زمین ہے اوروہاں آپ کے والد کے شیعہ موجود ہیں ،اس جگہ آپ اپنے مبلغین کو اطراف میں بھیجئے تاکہ لوگ آپ کی طرف آئیں ''امام حسین کے اصحاب بھی بنی ہاشم اورچند غفاریوں کے علاوہ سب یمنی قبائل میں سے تھے۔(١)

جیساکہ مسعودی کا بیان ہے:

اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں صرف چار افراد حضرت امام حسین کے ساتھ شہید ہوئے اور یہ چاروں افرادانصارمیں سے تھے۔(٢)

انصار کا انتساب بھی قبائل یمن کے ساتھ معلوم ہے اس کے برخلاف اشراف قریش، علی اور خاندان علی کے دشمن تھے (جس طرحسے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دشمن تھے )ان کے درمیان دوست بہت کم تھے یہاں تک وہ قبائل جن کاقریش کے ساتھ نزدیکی رابطہ تھا وہ بھی ہمیشہ علی کے مخالفین کی صف میں کھڑے ہوتے تھے مثل قبیلۂ ثقیف اور اہل طائف کہ جو جنگ صفین میں اور اس کے بعد معاویہ کے طرفدار تھے ، جس وقت معاویہ نے بسر بن ارطاة کو حجاز اور یمن کی غارت گری کے لئے بھیجا اور جس وقت وہ طائف کے نزدیک پہنچا تو مغیرہ بن شعبہ اس کے استقبال کے لئے آیا اور کہا : خدا تجھے جزائے خیر دے، تو دشمن کے ساتھ سخت گیر اور دوستوں کے ساتھ احسان کرنے والا ہے اس کی خبر مجھ کو ملی ہے'' بسر نے کہا : اے مغیرہ !میں چاہتا ہوں کہ اہل طائف پردبائوڈالوں تاکہ معاویہ کی بیعت

____________________

(١)کلبی،جمہرة النسب،عالم الکتب ،بیروت ،ص٨٨

(٢)مسعودی،علی بن الحسین،مروج الذھب ، بیروت،١١١٤ھ ج :٣، ص ٧٤

۲۱۸

کریں ،مغیرہ نے کہا : جو برتائو تو نے دشمنوں کے ساتھ کیا وہی برتائو تو دوستوں کے ساتھ کیوں کرنا چاہتا ہے ایسا کام انجا م نہ دے ورنہ سب تیرے دشمن ہو جائیں گے۔(١)

بنی ہاشم کے علاوہ قریش کے معدودے چند افراد حضرت علی کے ساتھ تھے جیسے محمد بن ابی بکر اور ہاشم مرقال اگر چہ قریش کے ان اندھیروں اور ظلمتوں کے درمیان کچھ لوگ حضرت علی کے ساتھ تھے۔ مثلاًخالد بن ولید جو دشمن امیرالمومنین میں سے تھا اس کابیٹا مہاجر بن خالد صفین میں حضرت کے سپاہیوں میں تھا، یا عبداللہ بن ابو حذیفہ معاویہ کے ماموں کا بیٹا حضرت علی کے مخلص شیعوں میں سے تھا اور آخر میں معاویہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں شہید ہو گیا،یمن کے تمام قبیلوں میں علی کے دوست اور طرفدار موجود تھے مثلاً قبائل کندہ ، نخع ،ازد جہینہ ،حمیر بجیلہ، خثعم، خزاعہ، حضرموت ،مذحج ،اشعر ،طی،سدوس،حمدان اور ربیعہ،(٢) لیکن ان میں دو قبیلہ حمدان اور ربیعہ سب سے آگے تھے ۔(٣)

حمدانی زمانہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ہی حضرت علی کے ذریعے اسلام لائے اور مسلمان ہوگئے تھے اور حضرت کے دوست نیز ان کے مخلص شیعوں میں شمار ہوتے تھے ،مسعودی کہتا ہے: صفین میں ان میں سے ایک آدمی بھی معاویہ کی فوج میں نہیں تھا۔(٤)

حضرت علی نے حمدان کے بارے میں فرمایا:

____________________

(١)شہیدی ، دکتر سید جعفر ،تاریخ تحلیل اسلام تا پایان امویان ،مرکز نشر دانش گاہی ، تہران ١٣٦٣ھ، ص١٣٧

(٢)احمد بن محمد بن خالد البرقی،رجال برقی،موسسہ القیوم ص٣٧ج٤٠ ، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ،دار احیاء الکتب العربیة،قاہرہ ،ج ٣،ص١٩٣

(٣)ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب،موسسہء انتشارات علامہ، قم ،ج٣،ص١٧٨

(٤)مسعودی مروج الذھب،منشورات موئسسة الاعلمی للمطبوعات، بیروت،ج٣، ص٩٩

۲۱۹

و لوکنت بواً باًعلیٰ باب الجنة

لقلت لحمدان ادخلوا بسلام( ١)

اگر میں بہشت کا دربان رہا تو قبیلہء حمدان سے کہوں گا کہ سلامتی کے ساتھ داخل ہو جائیں ۔

معاویہ حمدانیوں سے دلی دشمنی رکھتا تھا وہ صفین میں ایک دن میدان میں آیا اور یہ اشعار پڑھے :

لاعیش الا فلق الهام

من ارحب ویشکر شبام

زندگی نہیں چاہئے مگراس لئے کہ حمدان کے قبیلوں میں سے یشکر و شبام اور ارحب کے سروں کو جدا نہ کر دوں ۔

قوم هم اعداء اهل الشام

کم من کریم بطل همام

وہ لوگ جو شام والوں کے دشمن ہیں ان میں بہت سے لوگ کریم النفس بلند مرتبہ نیز شجاع و بہادرہیں ۔

و کم قتیل و جر یح ذام

کذلکٔ حرب السادة الکرام

اگر چہ ان میں سے کتنے مر گئے ہیں اور مجروح و معلول ہو گئے ہیں لیکن

____________________

(١)بلاذری ،انساب الاشراف،منشورات موئسسة الاعلمی بیروت،ج٢،ص٣٢٢

۲۲۰