تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک0%

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 328

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف: غلام حسن محرمی
زمرہ جات:

صفحے: 328
مشاہدے: 86602
ڈاؤنلوڈ: 4745

تبصرے:

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86602 / ڈاؤنلوڈ: 4745
سائز سائز سائز
تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف:
اردو

ہاں بہادروں کی جنگ اسی طرح ہوتی ہے۔

اس وقت سعد بن قیس نے اس رجز کو پڑھتے ہوئے کہا:

لا هم رب الحل والحرام

لا تجعل الملکٔ لأهل الشام

اے حل و حرام کے پرور دگار !حکومت کو اہل شام کے لئے قرار نہ دے''

ہاتھ میں نیزہ لئے آگے بڑھے اور معاویہ پر حملہ کیا معاویہ وہاں سے فرار ہوکر لشکر شام میں داخل ہو گیااور ذوالکلاع (جو شام کے لشکر کا ایک کمانڈر تھا)کو سعد بن قیس کے مقابلہ کے لئے بھیجا ،تمام شب ان کے درمیان جنگ جاری رہی، آخر میں اہل شام نے اپنی شکست قبول کرلی اور فرار ہو گئے اس وقت امیرالمؤمنین نے ان کی تشویق کے لئے یہ اشعار پڑھے:

فوارس من حمدان لیسوا بعزل

غداة الوغیٰ من شاکر وشبام

حمدان کے شہ سوار جو شاکر و شبام کے قبائل میں سے تھے وہ جنگ کی صبح تک سست نہیں ہوئے ۔

یقودهم حامی الحقیقة ماجد

سعید بن قیس والکریم محام

حقیقت کے حامی و طرفدار عظیم شخص سعد بن قیس ان کی کمانڈری کرتے ہیں اور شریف لوگوں کی انہیں حمایت حاصل ہوتی ہے۔

۲۲۱

جزی الله حمدان الجنان فانهم

سهام العدی فی کل یوم حمام(١)

خدا قبیلۂ حمدان کو بہشت عطا کرے اس لئے کہ جنگ کے دنوں میں یہ دشمنوں کے قلب کے لئے نیزہ و تیر ہیں ۔

اس طرح فوج شام کی جانب سے حمدان کے خلاف جنگ صفین میں پڑھے جانے والے اشعار کوملاحظہ کریں ، مثلاًعمرو عاص صفین کے دن قبیلہء حمدان کو مخاطب کرکے کہتا ہے:

الموت یغشاه من القوم الانف

یوم لحمدان ویوم للصدف

موت کواس قوم کے ذریعہ دعوت دینا ہے ایک روز قبیلہء حمدان کامیاب ہیں اور ایک روز صدف۔

و فی سدوس نحوه ماینحرف

نضربها بالسیف حتیٰ ینصرف

قبیلہ سدوس بھی انہیں کی طرح ہیں جب تک وہ بوڑھے نہ ہوجائیں ہم ان کو تلوار سے قتل کرتے رہیں گے یہاں تک کہ حالات بدل جائیں ۔

____________________

(١)ابن شہر آشوب ،مناقب آل ابی طالب، موسسۂ انتشارات علامہ،قم،ج٣،ص١٧٠ ،١٧١

۲۲۲

و لتمیم مثلها اویعترف (١)

تمیم کے ساتھ بھی ایسا برتائو کریں گے مگر یہ کہ وہ اطاعت قبول کرلیں ۔

قبیلہ حمدان کی چند عورتوں نے بھی صفین میں امیرالمومنین کے سپاہیوں کو معاویہ کے مقابلہ میں جوش دلایا،جیسے سودہ حمدانیہ ،زرقاء حمدانیہ جو عدی بن قیس کی بیٹیاں ہیں ۔(٢)

سودہ نے اپنے باپ کومخاطب قرار دے کر کہا :

شمرکفعل ابیکٔ یابن عمارة

یوم الطعان و ملتقی الاقران

اے عمارہ کے فرزند! میدان کار زاراور جنگ کے دنوں میں اپنے باپ کے مانند آستین ہمت چڑھا اور اپنے دشمن سے جنگ کر۔

وانصر علیاًوالحسین و رهطه

واقصد لهندوابنها بهوان

علی اورحسین نیز ان کی قوم کی مدد ونصرت کر ،ہنداورا س کے بیٹوں کوذلت اور اہانت کا مزا چکھا۔

انّ الامام اخاالنبی محمد

علم الهدیٰ و منارةالایمان

بیشک حضرت علی نبی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھائی ہیں جو ہدایت کی علامت اور ایمان کے روشن منارہ ہیں ۔

____________________

(١)بلاذری ،انساب الاشراف ، ج٢، ص٣٢٣

(٢) ابن عبدریہ العقد الفرید ،دار احیاء التراث العربی ،بیروت،١٤٠٩ھ ج١ ص١٣٥۔٣٣٧

۲۲۳

فقدم الجیوش و سر امامهم لوائه

قدماًبابیض صارم وسنان(١)

لشکر کے آگے بڑھو اورآگے بڑھ کر چمکتے نیزوں اور خون آشام تلواروں کے پرچم لہرائو۔

معاویہ ان سے دشمنی رکھتا تھا حضرت علی کی شہادت کے بعد معاویہ نے ان کو شام بلایا اور ان کے اشعار کی وضاحت چاہی اور ان کی سر زنش کی۔(٢)

دوسرا یمنی قبیلہ کہ جس میں شیعیان علی بہت زیادہ تھے قبیلہ ربیعہ تھا جیسا کہ برقی نے یاران و شیعیان علی کو شمار کیا ہے اور بعض اصحاب علی کو قبیلہ ربیعہ سے مخصوص کیا ہے جبکہ باقی یمنی شیعوں کو ایک دوسر ے حصہ میں ذکر کیا ہے۔(٣)

حضرت علی نے جس وقت سناکہ قبیلۂ ربیعہ کے چند افراد عائشہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے تو آپ نے فرمایا:

یالهف نفسی علیٰ ربیعة

ربیعةالسّامعةالمطیعة(٤)

ربیعہ پر افسوس کہ ربیعہ فرمانبر دار اور مطیع ہیں ۔

____________________

(١)ابن عبدریہ العقد الفرید ،دار احیاء التراث العربی ،بیروت،١٤٠٩ھ ج١ ص ٣٣٢

(٢)ابن عبدربہ العقد الفرید ،دار احیاء التراث العربی ،بیروت،١٤٠٩ھ ج١ ص ٣٣٥

(٣) احمد بن محمد بن خالد البرقی ،رجال برقی ،موسسة القیوم،ص ٣٧

(٤)زبیر بن بکار الاخبار الموفقیات ،منشورات شریف الرضی ،قم ،١٤٦١ھ ص ١٥٩

۲۲۴

مسعودی کا بھی بیان ہے کہ ربیعہ کی تعریف کے بارے میں حضرت علی کی بہت سی تقریریں ہیں کیونکہ وہ حضرت علی کے انصار ،مددگار ، اور ان کے ارکان میں شامل تھے جنگ صفین میں ربیعہ کے بارے میں حضرت نے فرمایا :

لمن رایة سوداء یخفق ظلها

اذا قیل قدمها حضین تقدماً

اگر کوئی سیاہ پرچم لہرارہا ہو توان سے کہا جاتاہے کہ پرچم لیکر آگے بڑھو ۔

فیوردها فی الصف حتیٰ یعلها

حیاض المنا یا تقطر الموت والدما

پھروہ اس کوصف میں شامل کرتے ہیں تاکہ وہ نیزوں سے آگے بڑھ جائیں کہ جس سے موت اورخون کے قطرے ٹپکتے ہیں ۔

جزی اللّٰه قوماًقاتلوا فی لقا ئه

لدی الموت قدماًما اعروا کرما

خدا س قوم کو جزا دے جو جنگ کے وقت لڑتی ہے اور موت کا سامنا کرتی ہے، اور کبھی بھی نیکیوں سے منھ نہیں موڑتی۔

واطیب اخباراًو اکرم شیمة

اذا کان اصوات الرجال تغمغما

لباس کے اعتبار سے، اچھی علامت کے اعتبار سے خوب صورت ہیں جب میدان جنگ میں ان کی للکار گونجتی ہے۔

۲۲۵

ربیعه اعنی انهم اهل نجدة

وبأس اذا لاقو ا خمیساًعر مر ما(١)

میری مراد ربیعہ ہے وہ لوگ طاقتور پہلوان کے مقابلہ میں شجاع اور بہادر ہیں ۔

ربیعہ کے بزرگان میں سے ایک جمیل بن کعب ثعلبی تھے جن کا علی کے شیعوں میں شما ر ہوتا تھا ،جب معاویہ نے ان کواسیر کیا تو ان سے کہا کہ یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ خدانے مجھ کو ایسے انسان پر مسلط کیا کہ جس نے ایک گھنٹہ کے اندر میرے بہت سے ساتھیوں کو قتل کیا تھا۔(٢)

شقیق بن ثور سدوسی نے بھی قبیلۂ ربیعہ کو صفین میں اس طرح سے خطاب کیا۔

اے گروہ ربیعہ !تمہارے لئے کوئی عذر نہیں ہے اگر علی قتل کردیئے جائیں اور تم میں سے ایک شخص زندہ رہ جائے۔(٣)

یزید کی موت کے بعد بھی اہل کوفہ نے عاملین بنی امیہ کو شہرسے نکا ل دیا، انہوں نے چاہا کہ کسی کو اپنا قائد اور امیر معین کریں ،بعض نے مشورہ دیا کہ عمر بن سعدکو امیر قرار دیا جائے ، مسعودی نقل کرتا ہے : اس موقع پر حمدان ،کہلان ،انصار ،ربیعہ اور نخع کی عورتیں آئیں اور مسجدجامع میں داخل ہوگئیں وہ امام حسین پر گریہ کر رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں :

____________________

(١) مسعودی ، مروج الذھب ، ج٣ ص ٥٩

(٢)مسعودی ، مروج الذھب ، ج٣ ص ٦٠

(٣)بلاذری ،انساب الاشراف ،منشورات موسسة الاعلمی للمطبو عات ،ج٢ ص٣٠٦

۲۲۶

کیا یہ کافی نہیں ہے کہ عمر بن سعد نے امام حسین کوقتل کیا ہے اور اب وہ ہما را امیر بننا چاہتا ہے'' یہ باتیں بین کرکے لوگوں کو رلا رہی تھیں اورمردوں کو اس بات پر آمادہ کررہی تھیں کہ عمر بن سعد کی حمایت نہ کریں ۔(١)

____________________

(١)بلاذری ،انساب الاشراف ، ج٢، ص٣٠٦

۲۲۷

چھٹی فصل

تشیع کے اندر مختلف فرقے

شیعوں کے اہم ترین گروہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں پیدا ہوئے ہیں اور دوسری صدی ہجری کے تمام ہونے تک کوئی خاص تفریق نظر نہیں آتی اسی وجہ سے صاحبان ملل ونحل نے واقفیہ کے مقابلہ میں شیعہ امامیہ کو کہ جو امام رضا کی امامت کے قائل ہیں انہیں قطعیہ اور اثنا عشری کانام دیا ہے نیز وہ امام رضا کے بعد امام زمانہ تک کی امامت کے قائل ہیں ۔(١)

البتہ پہلی صدی ہجری میں بھی ٦١ھ تک یعنی امام حسین کی شہادت تک کوئی بھی نیا فرقہ تشیع میں پیدا نہیں ہوا،اگرچہ شہرستانی نے فرقہ غلات سبئیہ کو شیعہ فرقہ کی ایک شاخ جانا ہے کہ جو امام امیر المومنین کے زمانہ میں پیداہو ا ہے(٢) جبکہ خود ابن سبا نام کے شخص کے بارے میں شک و تردید کا اظہار کیا گیا۔(٣)

____________________

(١)شہرستانی ،کتاب ملل ونحل ،منشورات الشریف الرضی قم،١٣٦٤ھ ش، ج١ص١٥٠

(٢) شہرستانی ،کتاب ملل ونحل ،منشورات الشریف الرضی قم،١٣٦٤ھ ش، ج١ص١٥٥

(٣)عسکری ، سید مرتضی ،عبد اللہ بن سباء و اساطیر اخری ، طبع ہشتم١٤١٣ھ ج ٢، ص ٣٢٨۔٣٧٥

۲۲۸

جب کہ خود رجال کشی نے کہا ہے: کچھ غالی افراد حضرت علی کے زمانہ میں بھی موجود تھے امام نے انہیں توبہ کرنے کا حکم دیاجب انہوں نے توبہ نہیں کی توآپ نے ان کوپھانسی دے دی۔(١)

امام حسن اور امام حسین مسلمانوں کے درمیان ایک خاص مقام ومنزلت رکھتے تھے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یکتا ذریت شمار ہوتے تھے ، شیعوں کے علاوہ عام مسلمان بھی انہیں خلافت کا سزاوار جانتے تھے ،اس وجہ سے ان دو بزرگ شخصیتوں کے زمانہ میں امر امامت سے متعلق کوئی شبہ پیش نہیں آیا اور کسی قسم کا فرقہ بھی وجود میں نہیں امام حسین کی شہادت کے بعد شیعوں کے درمیان ہم بہت سے فرقوں کا مشاہدہ کرتے ہیں اور جو فرقہ نکلے ہیں وہ حسب ذیل ہیں ۔

کیسانیہ:یہ فرقہ محمد حنفیہ کی امامت کا معتقدہے ۔

زیدیہ :یہ فرقہ زید بن علی کی امامت کامعتقد ہے۔

ناووسیہ :یہ فرقہ امام صادق کی غیبت اوران کی مہدویت کا قائل ہے ۔

فطحیہ:امام صادق کے فرزند عبداللہ افطح کی امامت کا قائل ہے ۔

اسماعیلیہ:امام صادق کے فرزند اسماعیل کی امامت کا قائل ہے۔

طفیہ :یہ لوگ معتقد ہیں کہ امام صادق نے موسیٰ بن طفیّ کی امامت کی تاکیدو سفارش کی ہے۔

اقمصیہ :یہ لوگ قائل ہیں کہ امام صادق نے موسیٰ بن عمران اقمص کی امامت کی

____________________

(١)شیخ طوسی ،اختیار معرفة الرجال ، موسسہ آل البیت ، الاحیاء التراث ، قم ، ١٤٠٤ھ ج١ ص ٣٢٥

۲۲۹

تاکید کی ہے ۔

یرمعیہ:یہ لوگ کہتے ہیں کہ امام صادق نے یرمع بن موسیٰ کی امامت تاکید کی ہے۔

تمیمیہ: یہ لوگ قائل ہیں کہ امام صادق نے عبد اللہ بن سعد تمیمی کی امامت کی تاکید فرمائی ہے ۔

جعدیہ :یہ لوگ کہتے ہیں کہ امام صادق کاجانشین ابی جعدہ نامی شخص تھا ۔

یعقوبیہ:یہ لوگ موسیٰ بن جعفر کی امامت کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ فرزندان امام صادق کے علاوہ بھی امامت کا پایا جانا ممکن ہے ا ن کے بڑے لیڈر کانام ابویعقوب تھا ۔

ممطورہ:یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے امام کاظم پرتوقف کیا اور کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ حضرت دنیاسے گئے یا نہیں ؟۔(١)

واقفیہ :یہ لوگ قائل ہیں کہ امام کا ظم با حیات ہیں اور قیامت تک با حیات رہیں گے۔(٢)

البتہ ان فرقوں میں سے بعض چھوٹے فرقے اور بھی نکلے ہیں مثلاًکیسانیہ کہ جو محمد حنفیہکی امامت کے قائل تھے ان میں دو گروہ تھے ،کچھ قائل ہیں کہ محمد حنفیہ امام حسین کی امامت کے بعدامام ہو ئے اور کچھ کہتے ہیں محمد حنفیہ اپنے والد حضرت علی کے بعد امام تھے ، ان کے بعد امامت کو ان کے بیٹے ابو ہاشم کی طرف نسبت دیتے ہیں ، اس میں بھی چند گروہ

____________________

(١)ابن ہیثم البحرانی ، حیثم بن علی ، النجاة فی القیامة فی تحقیق امر الامامة،مجمع الفکر الاسلامی ، قم طبع اول ، ص١٧٢۔١٧٤

(٢)شہرستانی ،کتاب ملل ونحل ،منشورات الشریف الرضی قم،١٣٦٤ھ ش، ج١،ص١٥٠

۲۳۰

ہیں ،ایک گروہ معتقد تھا کہ ابو ہاشم نے محمد بن علی عباسی کی امامت کی تاکید کی تھی، دوسراگروہ یہ کہتاہے کہ ابو ہاشم نے اپنے بھائی علی بن محمد حنفیہ کی امامت کی تاکید کی تھی، تیسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ابو ہاشم نے اپنے بھتیجے حسن بن علی کو اپنا جانشین بنایا تھا،چوتھا گروہ معتقد تھا کہ ابو ہاشم نے عبداللہ بن عمرو کندی کی امامت کے بار ے میں تاکیدکی تھی۔(١)

زیدیہ بھی تین بنیادی گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں :(٢)

جارودیہ :یہ لوگ حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کے بعد حضرت علی کو خلافت کا مستحق جانتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو ان کے اوصاف کے ساتھ لو گوں کو پہچنوایا نہ کہ نام کے ساتھ لوگوں نے ان کو پہچاننے میں کو تاہی کی اور ابو بکر کو اپنے اختیار سے چنا اور کفر اختیار کیا۔

سلیمانیہ:یہ لوگ قائل ہیں کہ امام کا انتخاب شوری کے ذریعہ ہوتا ہے یہ لوگ فاضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی امامت کو جائز جانتے ہیں ، اسی بنا پر ابو بکر و عمر کی خلافت کو جائز جانتے ہیں ان کا خیال ہے کہ امت نے حضرت علی کا انتخاب نہ کر کے خطا کی ہے لیکن فسق کی مرتکب نہیں ہوئی یہ لوگ عثمان کو بھی کافر جانتے ہیں ۔(٣)

____________________

(١)شہرستانی ،کتاب ملل ونحل ،منشورات الشریف الرضی قم،١٣٦٤ھ ش، ج١ص١٣١۔ ١٣٥

(٢)وہ ابی جارود کے اصحاب زیاد بن ابی زیاد تھے اس وجہ سے ان کو جارودیہ کہتے ہیں

(٣)ان کا رہنما ایک شخص سلیمان بن جریر تھا ، اس وجہ سے اس فرقہ کو سلیمانیہ کہا گیا۔

۲۳۱

بتریہ:ان کے عقائد بھی سلیمانیہ کی طرح ہیں ، صرف اس فرق کے ساتھ کہ عثمان کے بارے میں یہ توقف کے قائل ہیں ۔(١)

فرقۂ اسماعیلیہ بھی تین گروہ میں تقسیم ہوگیا:

ایک فرقہ قائل ہے کہ امام صادق کے بعد ان کے فرزنداسماعیل امام ہیں اور وہ ابھی تک زندہ ہیں اور وہی مہدی موعود ہیں ۔

دوسرا فرقہ قائل ہے کہ اسماعیل دنیا سے جا چکے ہیں ان کے بیٹے محمد امام ہیں اور وہ غائب ہیں ایک دن ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔

تیسرا فرقہ بھی دوسرے فرقہ کی طرح محمد بن اسماعیل کی امامت کا قائل ہے فرق صرف یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ محمد دنیا سے رخصت ہوگئے اور امامت ان کی نسل میں باقی ہے۔(٢)

ان میں سے بہت سے فرقے زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہے بلکہ ان پر فرقہ ہونے کا اطلاق بھی مشکل سے ہوگا جو اپنے قائد کی موت کے بعد نابود ہوگئے اور انہیں سیاسی و اجتماعی میدانوں میں ان کا کوئی خاص کردار نہیں رہا ان فرقوں میں سے تین فرقہ کیسانیہ زیدیہ،اسماعیلیہ پہلی دوسری اور تیسری صدی ہجری میں پائدار تھے البتہ فرقہ اسماعیلیہ اگرچہ دوسری صدی میں امام صادق کی شہادت کے بعد پیکر تشیع سے جدا ہو گیا تھا لیکن تیسری صدی ہجری کے نصف تک ان میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی تھی ان

____________________

(١)کثیر النویٰ ابتر نام کا شخص ہے اس وجہ سے یہ ابتریہ کہلائے(شہرستانی ،کتاب ملل ونحل منشورات الشریف الرضی قم،١٣٦٤ھ ش، ج١،ص١٤٠۔١٤٢)

(٢)خراسانی،تاریخ و عقائد فر قہ آقا خانیہ:ص ٢۔٣

۲۳۲

کیپیشوا خفیہ زندگی بسر کر رہے تھے۔(١)

پہلی صدی ہجری میں شیعہ امامیہ کے بعد زید کے خروج تک کیسانیہ ایک موثر ترین شیعہ فرقہ شمار ہوتا تھا، کیسانیہ فرقہ کا قیام مختار میں اہم کردار رہا ہے اگر مختار کو کیسانیہ سے وابستہ نہ بھی جانیں تو بھی ان کی فوج میں بہت سے افراد کیسانیہ فرقہ پرقائم تھے۔(٢)

اس فرقہ نے پہلی صدی ہجری کے آخر تک اپنی سیاسی کوشش کو جاری رکھا اور ابوہاشم عبد اللہ بن محمد نفس زکیہ جو اس فرقہ کے قائد تھے انہوں نے پہلی مرتبہ لفظ داعی اور حجت کے لفظ کا اطلاق اپنے مبلغین کے لئے کیا اور بعد میں دوسرے فرقوں نے ان الفاظ سے فائدہ اٹھا یاجیسے عباسی، زیدی، اسماعیلی اسی طرح سب سے پہلے انہوں نے ہی خفیہ تبلیغ و مبلغین کا نظام قائم کیااس کے بعد عباسیوں نے اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا ۔(٣)

اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے جس وقت اس کی طرف سے خطرہ کا احساس کیااس کو شام بلاکر زہر دے دیا جب ابو ہاشم کو معلوم ہوا کہ ان کی زندگی کا خاتمہ ہونے والا ہے تو خفیہ طور پر بنی عباس میں سے اپنے چچازاد بھائیوں کی رہائش (مقام حمیمہ) پر گئے اوراپنے چچا زاد بھائی محمد بن علی عباسی کو اپنا جانشین بنادیا اور اپنے مبلغین اور فوج سے ان کی شناسائی کرائی۔(٤)

____________________

(١)خراسانی ، محمد کریم ،تاریخ و عقائد فرقہ آقا خانیہ، تلخیص و تنظیم ، حسین حسنی ، نشر الہادی ، ص٤٣

(٢) مسعودی علی بن الحسین ، مروج الذھب ، منشورات لاعلمی ،للمطبوعات ،بیروت ١٤١١ھ ج٣ ص ٩١

(٣)مختار لیثی ڈاکٹرسمیرة ،جہاد الشیعہ،دار الجبل ، بیروت ، ١٣٩٦ھ ،ص ٨٧

(٤)مقاتل الطالبین،ابو الفرج اصفہانی، منشورات شریف الرضی ، قم ١٤١٦ھ ،ص ١٢٤، ابن عبدربہ اندلسی، احمد بن محمد ، العقد الفرید ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت،١٤٠٩ھ ج ٤ ص ٤٣٨

۲۳۳

اس کے بعد بنی عباس نے کیسانیہ کی قیادت کو اپنے کاندھوں پر لے لیا اور اپنی فعالیت وسرگرمی کو خراسان میں متمرکز کر دیا جیسا کہ ابوالفرج اصفہانی کا بیان ہے :

اہل خراسان معتقد ہیں کہ ابو ہاشم اپنے باپ کاجانشین تھا اور اس کے باپ نے وصایت کو اپنے باپ (حضرت علی )سے ارث کے طور پر لیا تھااورانہوں نے بھی محمد بن علی عباس کو اپناجانشین قرار دیا تھا اور محمد بن علی نے اپنے بیٹے ابراہیم کو امام بنایااس طرح سے وہ بنی عباس میں اپنی جانشینی کو ثابت کرتے ہیں ۔(١)

شہرستانی یہاں تک معتقد ہے کہ ابو مسلم خراسانی ابتدا میں کیسانی تھا لیکن بعد میں جب عباسی کامیاب ہوگئے تو اپنی مشروعیت کویعنی اپنے جد عباس کی جانشینی کورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وابستہ اورمنسلک کردیا ،کیسانیوں کی سیاسی اور اجتماعی فعالیت کو عبد اللہ بن معاویہ (کہ جو جعفر طیار کی نسل سے تھے)کے قیام میں تلاش کیا جاسکتا ہے شہرستانی کاکہنا ہے: کیسانیوں میں سے کچھ عبداللہ بن عمرو کندی کی جانشینی کے معتقد تھے اور جب لوگوں نے اس کی خیانت اور جھوٹ کودیکھ لیا تو عبد اللہ بن معاویہ بن عبداللہ بن جعفر طیار کی امامت کے قائل ہوگئے عبد اللہ بن معاویہ اور محمد بن علی کے ماننے والوں کے درمیان امامت کے سلسلے میں شدید اختلاف تھا ۔(٢)

فرقہ کیسانیہ کے بعد جو فرقہ سیاسی اور اجتماعی میدان میں بہت زیادہ فعال و سرگرم تھا وہ فرقہ زیدیہ ہے کہ جو قیام زید کے بعدوجو د میں آیا یہ فرقہ شیعہ فرقوں میں سب سے زیادہ سیاسی رہا ہے اور تمام شیعہ فرقوں کی بہ نسبت اہل سنت کے اصول سے

____________________

(١)ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین ، ص١٢٥

(٢)شہرستانی، کتاب ملل و نحل ، ج١،ص١٣٥

۲۳۴

بہت زیادہ نزدیک تھا چنانچہ فرقہ زیدیہ بتریہ ابو بکر و عمر و عثمان کی خلافت کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ عائشہ ،طلحہ ،زبیر کی تکفیر بھینہیں کرتے تھے۔(١)

اسی وجہ سے فقہائے اہل سنت کی کافی تعداد نے محمد نفس زکیہ (کہ جو زیدی تھے) کے قیام کی تائید کی ہے ۔(٢)

فرقہ مرجئہ کے بزرگ مسعر بن کدام نے محمد نفس زکیہ کے بھائی ابراہیم کو کوفہ آنے کے لئے خط بھی لکھا تھا۔(٣)

ابو حنیفہ مذہب حنفی کے امام محمد نفس زکیہ کے قیام میں شریک تھے اور لوگوں کو ان کی مدد کرنے کی تشویق کرتے تھے۔(٤)

سعد بن عبداللہ اشعری قمی فرقہ زیدیہ بتریہ کے بارے میں کہتا ہے: انہوں نے ولایت علی ـ کو ولایت ابو بکر و عمر کے ساتھ مخلوط کردیا ہے،(٥) خاص کر اصول دین میں معتزلہ کے پیرو ہیں اور فروع دین میں ابو حنیفہ اور کچھ حد تک شافعی کی پیروی کرتے ہیں ۔(٦)

مذہب زیدی یعنی تشیع بمعنی اعم بہت زیادہ، سنی عقائد سے معارض نہیں تھا اسی

____________________

(١)شہرستانی، کتاب ملل والنحل ، ج١،ص١٤٢

(٢)ابوالفرج اصفہانی،مقاتل الطالبین،ص ٢٤٧

(٣)ابوالفرج اصفہانی،مقاتل الطالبین،ص ٣١٤

(٤)ابوالفرج اصفہانی،مقاتل الطالبین،ص ٣١٤

(٥)اشعری سعد بن عبد اللہ ،المقالات والفرق،مرکز انتشارات علمی و فرھنگی ، تہران ، طبع دوم ١٣٦٠ھ ص١٠

(٦)شہرستانی کتاب ملل و نحل ،منشورات الشریف الرضی ،قم ١٣٦٤ھ ،ج١ص١٤٣

۲۳۵

بناپر زیدیوں کے بعض قیام جیسے محمد نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم کے قیام میں بہت سے علماء اہل سنت بھی شریک تھے اور جو شیعہ ان کے قیام میں ساتھ تھے ان کا خیال تھا کہ منجملہ سبھی علوی قیام کے قائد و رہنماامام معصوم کی طرف سے منصوب ہیں ، شاید شیعوں کے ان کے ارد گرد سے منتشر ہونے کی علت یہی ہو خلاصہ یہ کہ صرف زیدی پوری طرح ان رہبروں کے ساتھ باقی رہ گئے تھے مثلاً محمد نفس زکیہ کے بھائی براہیم بن عبد اللہ نے مسعودی کے بقول زیدیوں کے چارسو افراد ہمراہ جنگ کی اور یہ چند لوگ ان کے ساتھ قتل ہوئے۔(١)

تیسرا فرقہ جو اجتماعی اورسیاسی میدان میں فعال و سرگرم تھا وہ فرقہ اسماعیلیہ ہے یہ فرقہ دوسری صدی کے دوسرے نصف میں پیکر تشیع سے جدا ہوگیا لیکن تیسری صدی ہجری کے آخر تک اسے معاشرے میں کوئی خاص اہمیت ومقبولیت حاصل نہیں ہوتی اور اس کے قائدین ٢٩٦ھ یعنی مراقش میں پہلے فاطمی خلیفہ عبید اللہ مہدی تک خفیہ زندگی بسر کرتے رہے اس وجہ سے اس فرقہ کے تشکل کے مراحل کا پوری طرح سے علم نہیں ہے نو بختی جو تیسری صدی ہجری میں موجود تھا اس نے ان کی پہلی فعالیت اور سرگرمیوں کو غلات اور ابن الخطاب کی پیروی سے ربط دیا ہے۔(٢)

ان کے عقائد بھی ابہام کی شکل میں باقی رہ گئے۔

مسعودی اس بارے میں لکھتا ہے مختلف فرقوں کے متکلمین مثلاًشیعہ،معتزلہ

____________________

(١)مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذھب ، منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ١٤١١ھ، ج٣ ص ٣٢٦

(٢)فرق الشیعہ المطبعةالحیدریہ ،نجف ١٣٥٥ ١٩٣٦ھ ص٧١

۲۳۶

مرجئہ او رخوارج نے اپنے فرقوں کی موافق میں اوراپنے مخالفین کی رد میں کتابیں لکھی ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی فرقہ قرامطہ کے عقائدکے بارے میں کچھ نہیں لکھا اور جنہوں نے ان کی ردبھی کی ہے جیسے قدامہ بن یزید النعمانی ،ابن عبد الجرجانی،ابی الحسن زکریا الجرجانی ،ابی عبداللہ محمد بن علی بن الرزام الطائی الکوفی اور ابی جعفر الکلابی ،ان میں سے ہر ایک اہل باطن کے عقائد کی شرح کرتا ہے کہ جس کودوسرے بیان نہیں کرتے ہیں اور خود اس فرقہ والوں نے ان مطالب سے انکار کیا ہے اور ان کی تائید نہیں کی ہے،(١) یہ چیز علت بنی کہ یہ لوگ مختلف مناطق میں متفاوت ناموں سے یاد کئے گئے۔

خواجہ نظام الملک نے اس بارے میں لکھا :ان کو ہر شہر میں ایک الگ نام سے یاد کیا جاتا تھا ،حلب و مصر میں اسماعیلی ،قم ،کاشان ،طبرستان اور سبزوار میں سبعی، بغداد اور ماوراء النہر میں قرمطی، ری میں خلفی اوراصفہان میں(٢)

فاطمی حکومت بننے سے پہلے اسماعیلیوں نے سیا سی کو ششیں کم کردیں زیادہ تر توجہ تبلیغ و تر بیت پر مرکوز رکھی اسی وجہ سے اسماعیلی قائدین منجملہ محمد بن اسماعیل، عبد اللہ بن محمد، احمد بن عبد اللہ و حسین بن احمدنے ان علاقوں میں جیسے ری،نہاوند، دماوند،سوریہ ،جبال، قندھار، نیشاپور،دیلم ،یمن،ہمدان،استانبول ،اور آذر بائیجان گئے انہوں نے ان مناطق میں اپنے چاہنے والوں اور مبلغین کو بھیجا(٣) یہ وہ جگہیں تھیں جس کی بنا پر

قرمطیو ں اپنے کوفرقہ اسماعیلیہ سے منسوب کیا اور اتنی وسعت اختیار کی کہ عباسیوں کا لشکر بھی ان کے آشوب کو خاموش نہیں کر سکا ۔(۴)

٢٩٦ھ میں فاطمی حکومت مراقش میں اسماعیلی مذہب کی بنیاد پر وجود میں آئی اور بہت سی اسلامی سر زمینوں کوعباسیوں کے ہاتھوں سے چھین لیا۔

____________________

(١)التنبیہ والاشراف ،دار الصاوی لطبع والنشر والتالیف،قاہرہ ،ص٣٤١

(٢)سیاست نامہ،انتشارات علمی و فرہنگی تہران ١٣٦٤ھ ص٣١١

(٣)جعفریان،رسول،تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا قرن ہفتم ہجری،سازمان تبلیغات اسلامی، طبع٥،١٣٧٧ہجری،ص٢٠٧،٢٠٩

(۴)مسعودی ، علی ابن الحسین ، مروج الذہب ،منشورات موسسہ الاعلمی مطبوعات ، بیروت ، طبع اول ، ١٤١١ھ ، ١٩٩١ج٤ ص ٢٩٧

۲۳۷

شیعہ فرقوں کے وجود میں آنے کے اسباب

بارہ اماموں کے اسماء مبارک احادیث نبوی میں وارد ہوئے ہیں اورپہلے دور کے شیعہ ان حضرات کو دیکھنے سے پہلے ان کے نا م جانتے تھے ،جیسا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وفا دار صحابی جابر بن عبداللہ انصاری نقل کرتے ہیں کہ جس وقت قرآن مجید کی یہ آیت:( یا ایّهاالّذین آمنوااطیعوااللّٰه و اطیعوا الرّسول و اولی الامر منکم ) (۱)

اے ایمان لانے والو! اللہ کی ، اس کے رسول کی اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔

ناز ل ہوئی تو میں نے عرض کی: یارسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ! میں خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہچانتا ہوں اور ان کی اطاعت بھی کرتا ہوں لیکن اولی الامرسے مراد کون لوگ ہیں جن کی اطاعت کو خدا وند عالم نے اپنی اور آپ کی اطاعت کے ساتھ ذکر کیا ہے؟ حضرت نے

____________________

(۱) سورہ نساء ،٤آیت٥٩

۲۳۸

فرمایا: اولی الامرسے مراد میرے جانشین اور میرے بعدکے پیشوا ہیں ، ان میں سب سے پہلے علی بن ابی طالب اور ان کے بعدحسن ان کے بعد حسین ان کے بعد علی بن حسین ان کے بعد محمد بن علی جو توریت میں باقر کے نام سے معروف ہیں تم ان کی زیارت بھی کرو گے جس وقت تم ان کو دیکھنا میراسلام کہنا ، ان کے بعد جعفربن محمد ان کے بعد موسیٰ بن جعفر ان کے بعدعلی بن موسی ان کے بعد محمد بن علی ان کے بعد علی بن محمدپھران کے بعد حسن بن علی اور ان کے بعدان کا فرزندجو میرا ہمنام اورجس کی کنیت میری کنیت ہوگی وہ امام ہو گا، اسی کے ذریعہ شرق وغرب فتح ہوں گے وہ لوگوں کی آنکھوں سے غائب ہو گا اس کی غیبت اتنی طولانی ہوگی جس کی وجہ سے لوگ اس کی امامت میں شک کریں گے سوائے ان لوگوں کے جن کے دلوں کو خدا وندعالم نے ایمان کے ذریعہ پاک کیا ہے۔(١)

یہی جابر مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھ کر کہتے تھے اے باقرالعلم !آپ کہاں ہیں ؟ لوگ کہتے تھے: جابر ہذیان بک رہا ہے۔ جابر کہتے تھے کہ میں ہذ یان نہیں بک رہا ہوں بلکہ مجھ کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم نے خبر دی ہے کہ میرے خاندان میں سے ایک شخص جو میرا ہم نام اور میرا ہم شکل ہو گا تم اس کی زیارت کرو گے وہ علم کو شگافتہ کرے گا۔(٢)

ائمہ معصومین نے بھی دلیلوں اور معجزوں کے ذریعہ اپنی حقا نیت ثابت کی ہے اس

کے باوجودبعض اسباب و وعوامل اس بات کا باعث بنے کہ بعض شیعوں پر حقیقت مشتبہ ہوگئی اور وہ راہ (حق )سے منحرف ہوگئے ان عوامل کو ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں ۔

____________________

(١)پیشوائی ،مہدی ،شخصیت ہای اسلامی،انتشارات توحید۔قم١٣٥٩ ص٦٣،تفسیر صافی سے نقل کیا ہے ، ج١،ص٣٦٦،کمال الدین وتمام النعمة،ج١،ص٣٦٥،طبع تہران،فارسی ترجمہ

(٢)شیخ طوسی اختیارمعرفةالرّجال،(رجال کشی)موسسہ آل البیت لاحیا التراث قم،١٤٠٤ھ ج :١، ص٢١٨

۲۳۹

(١) اختناق(گھٹن، اضطراب)

٤٠ھ کے بعد خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے چاہنے والوں پراس قدرگھٹن کا ماحول چھایا ہواتھا کہ شیعہ کے لئے ممکن نہیں ہوسکا کہ وہ ا پنے اماموں سے رابطہ برقرار کریں اورا ن کی ضروری معرفت حاصل کر تے پہلی صدی میں ٧٢ ھ اور ابن زبیر(جو شیعوں کا دشمن تھا) کی شکست کے بعد حجاج بن یوسف بیس سال تک عراق و حجازپر حاکم رہا اور شیعوں کو بہت زدو کوب کیا ان کو قتل کیا زندان میں ڈالااور عراق و حجاز سے انہیں فرار ہونے پر مجبورکیا۔(١)

امام سجاد تقیہ میں تھے اورشیعہ معارف کو دعائوں کی شکل میں بیان کرتے تھے فرقہ کیسانیہ اسی زمانہ میں رونما ہوا ،امام باقراور امام صادق کواگرچہ نسبتاًآزادی ملی تھی، انہوں نے شیعہ معارف کو وسعت بخشی لیکن جب منصور عباسی کوحکومت ملی تو شیعوں کی طرف متوجہ ہوا اور جس وقت اس کوامام صادق کی خبر شہادت ملی تو اس نے مدینہ میں اپنے والی کو خط لکھا کہ امام صادق کے جانشین کی شناسائی کرکے ان کی گردن اڑادے، امام جعفر صادق نے پانچ لوگوں کو اپنا جانشین بنایا تھا، ان میں ابو جعفرمنصور (خلیفہ)محمد بن سلیمان، عبداللہ، موسیٰ اور حمیدہ تھے۔(٢)

____________________

(١)زین عاملی ، محمد حسین، شیعہ در تاریخ، ترجمہ محمد رضا عطائی، انتشارات آستانہ قدس رضوی،طبع دوم،١٣٧٥ھ ش،ص١٢٠

(٢)طبرسی،بو علی فضل بن حسن، اعلام الوریٰ،موسسہ آل البیت، لاحیاء التراث، قم ١٤١٧ھ ج٢ ص١٣

۲۴۰