تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک0%

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 328

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف: غلام حسن محرمی
زمرہ جات:

صفحے: 328
مشاہدے: 86608
ڈاؤنلوڈ: 4745

تبصرے:

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86608 / ڈاؤنلوڈ: 4745
سائز سائز سائز
تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف:
اردو

امام کاظم کی عمر کا زیادہ حصہ زندان میں گذرا سب سے پہلے موسیٰ ہادی عباسی نے حضرت کو زندان میں ڈالا اور کچھ مدت کے بعد آزاد کر دیا ہارون نے چار بار امام کو گرفتارکیا اور شیعوں کوآپ کے پاس آنے جانے اور دیدار سے منع کیا ۔(١)

شیعہ حیران وسرگردان اور بغیر سرپرست کے رہ گئے ، اسماعیلیہ اور فطحیہ کے مبلغین کے لئے راستہ ہموار ہو گیا ،اس زمانہ میں کوئی ایسا نہیں تھا جو شیعوں کو ان کے شبہ کا جواب دیتا،عباسی حکومت اور اس کے جاسوسوں کی نظرامام کاظم کی کوششوں کے بارے میں اس حد تک تھی کہ علی بن اسماعیل جو آپ کے بھتیجے تھے وہ بھی اپنے چچا کی مخالفت میں چغلخوری کرتے تھے(٢) اکثر شیعہ اس وقت یہ نہیں جانتے تھے کہ امام موسیٰ کاظم زندہ ہیں یا نہیں ؟

چنانچہ یحییٰ بن خالد برمکی کا بیان ہے:

میں نے رافضیوں کے دین کو ختم کر دیا اس لئے کہ انکا خیال ہے کہ دین بغیر امام کے زندہ اور استوار نہیں ر ہ سکتاآج وہ نہیں جانتے کہ ان کے امام زندہ ہیں یا مردہ۔(٣)

حضرت کی شہادت کے وقت ایک بھی شیعہ حاضر نہیں تھا اسی لئے واقفیہ نے آپ کی موت( شہادت )سے انکار کردیا اگرچہ مالی مسائل واقفیہ کے وجود میں زیادہ مؤثر تھے ،ائمہ معصومین مسلسل عباسی حکومت کے زیر نظر تھے ،یہاں تک کہ امام ہادی اور

____________________

(١) مظفر،محمد حسین ،تاریخ شیعہ،منشورات مکتب بصیرتی،قم،(بی تا) ص٤٧

(٢)ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ، منشورات الشریف الرضی ،قم ١٤١٦ھص ٤١٤

(٣)زین عاملی(،محمد حسین)شیعہ در تاریخ: ج ١، ص٢٣

۲۴۱

امام عسکری کوسامرہ کی فوجی چھاونی میں رکھاگیاتا کہ ان دو نوں اماموں پرکڑی نظر رکھ سکیں ،امام حسن عسکری کی شہادت کے بعد آپ کے جانشین ( حضرت ولی عصر)کو پہچاننے کے لئے امام حسن عسکری کی کنیزوں اور بیویوں کوقید خانوں میں ڈال دیا، یہاں تک کہ جعفر بن علی (جو جعفر کذاب کے نام سے مشہور ہیں )نے اپنے بھائی امام حسن عسکری کے خلاف جد و جہد کی اسی وجہ سے غلات کے عقائدنصیری یعنی محمد ابن نصیر فہری کے ذریعہ پھیل گئے چند لوگ جعفر کے ارد گرد جمع ہوگئے اورانہوں نے امامت کا دعویٰ کردیا۔(١)

(٢)تقیہ

یعنی جب جان کا خوف ہو تو حقیقت کے خلاف اظہار کرنا، شیعوں نے اس طریقہ کار کو گذشتہ شریعتوں اور شریعت اسلام کی پیروی میں عقل وشرع سے اخذ کیا ہے جیسا کہ مومن آل فرعون نے فرعو ن اور فرعونیوں کے خوف سے اپنے ایمان کو چھپایا ،اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے عمار یاسر نے بھی مشرکین کے شکنجہ اور آزار کی وجہ سے تقیہ کیا اور کفر کا اقرار کیا اور روتے ہوئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے تو حضرت نے فرمایا : اگرد وبارہ تم کو شکنجہ کی اذیت دیں تو پھر ا س کام کو انجام دینا۔(٢)

شیعہ چونکہ بہت ہی کم مقدار میں تھے اس لئے اپنی حفاظت کے لئے تقیہ

____________________

(١)شیخ طوسی،اخبار معرفت الرجال(رجال کشی)موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، قم ١٤٠٤ھ ج ٢

(٢)امین ،سید محمد،اعیان الشیعہ،دارالتعارف للمطبوعات،بیروت(بی تا)ج١،ص١٩٩

۲۴۲

کرتے تھے اور اس روش کی بنا پر مکتب تشیع باقی رہاجیسا کہ ڈاکٹر سمیرہ مختار اللیثی نے لکھا ہے: شیعہ تحریک جاری رہنے کے عوامل میں سے ایک عامل تقیہ اور مخفی دعوت ہے کہ جس نے یہ فر صت دی کہ شیعوں کی نئی تحریک خلفائے عباسی اور ان کے حاکموں کی آنکھوں سے دور رہ کر ترقی کرے ۔(١)

لیکن دوسری طرف تقیہ شیعو ں کے مختلف گروہوں میں تقسیم ہونے کا سبب بنا کیونکہ شیعہ وقت کے ظالموں کے خوف سے اپنے عقائد کو مخفی رکھتے تھے اور ہمارے ائمہ بھی ایسا کرتے تھے چنانچہ اس دور کی خفقانی کیفیت اور گھٹن اور سختی کی وجہ سے اپنی امامت کو ظاہر نہیں کرتے تھے یہ بات امام رضا اور واقفیوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سے روشن ہوجاتی ہے۔

علی بن ابی حمزہ کہ جس کا تعلق واقفی مذہب سے تھا اس نے امام علی رضا سے سوال کیا کہ آپ کے والد کیا ہوئے؟امام نے فرمایا: انتقال کرگئے، ابن ابی حمزہ نے کہا:انہوں نے اپنے بعد کس کو اپنا جانشین قرار دیا؟ امام نے فرمایا : مجھ کو، اس نے کہا :تو پس آپ واجب الاطاعت ہیں ؟ امام نے فرمایا: ہاں ، واقفیوں کے دو افراد ، ابن سراج اور ابن مکاری نے کہا : کیاآپ کے والد نے امامت کے لئے آپ کو معین کیا ہے؟ امام رضا نے فرمایا : وای ہو تم پریہ لازم نہیں ہے کہ میں خود کہوں کہ مجھے معین کیا ہے، کیا تم چاہتے ہوکہ میں بغداد جائوں اور ہارون سے کہوں کہ میں اما م واجب الاطاعت ہوں ؟ خدا کی قسم یہ میرا وظیفہ نہیں ہے ،ابن ابی حمزہ نے کہا :آپ نے ایسی چیز کا اظہار

____________________

(١)جھادالشیعہ،دارالجیل،بیروت ،١٣٩٦ھ،ص٣٩٤

۲۴۳

کیا کہ آپ کے آبائو اجدا دمیں سے کسی نے بھی ایسی چیز کا اظہار نہیں کیا ،امام نے فرمایا: خدا کی قسم میں ان کا بہترین جانشین ہوں یعنی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جس وقت آیت یہ نازل ہوئی اور خدا وند متعال نے حکم دیاکہ تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائو تو آپ نے اس کا اظہار کیا۔(١)

امام محمد باقر نے اپنے زمانہ میں کئی مسئلہ کے جواب میں تقیہ سے کام لیا جس کی وجہ سے کچھ شیعہ آپ کی امامت سے منحرف ہو کر فرقۂ زیدیہ بتریہ کے پیروں ہوگئے۔(٢)

دوسری طرف بعض افراد تقیہ کی مصلحت کو نہیں سمجھ سکے اور ائمہ اطہارکا اپنی امامت کے بارے میں کھل کر اظہار نہ کرنے کو خطا سے تعبیر کیا یعنی وہ لوگ تند خو اور افراطی تھے یہ بات بھی زیدیہ مذہب کے وجود میں آنے کا سبب بنی ،جس وقت فشار و گھٹن کا ماحول کم ہوا اور حالات کچھ بہتر ہوئے اور ائمہ نے اپنی حجت تمام کی تو شیعوں کے اندر فرقہ بندی بھی کم ہوگئی امام صادق کے زمانہ میں امویوں اور عباسیوں کے درمیان کشمکش کی وجہ سے ایک بہترین موقع فراہم ہوگیا تھا اور امام صاد ق کو عملی اعتبار سے آزادی حاصل تھی اس بنا پر شیعہ فرقہ بندی میں کمی واقع ہوگئی تھی، لیکن آپ کی شہادت کے بعد منصور خلیفہ مقتدر عباسی کادبائو بہت زیادہ تھا،فرقۂ ناؤسیہ،اسماعیلیہ ، خطابیہ ،قرامطہ، سمطیہ اور فطحیہ وجود میں آئے ۔(٣)

____________________

(١)جہادالشیعہ،دارالجیل،بیروت ،١٣٩٦ھ، ص ٧٦٣

(٢)اشعر ی قمی،سعد بن عبداللہ،مقالات والفرق،مرکز انتشارات علمی فرہنگی،تہران ص٧٥

(٣)اشعر ی ،قمی ، سعد بن عبد اللہ المقالات والفرق،مرکز انتشارات علمی و فرھنگی تہران، ص٧٩

۲۴۴

امام رضا کے زمانہ میں حالات بہتر ہو گئے یہاں تک کہ ہارون کے زمانہ میں

حضرت نسبتاًعمل میں آزاد تھے اور اس زمانہ میں واقفیہ کے چند بزرگ مثلاًعبدالرحمٰن بن حجاج ،رفاعةبن موسیٰ،یونس بن یعقوب ،جمیل بن دراج،حماد بن عیسیٰ،وغیرہ اپنے باطل عقیدہ سے پھر گئے اور حضرت کی امامت کے قائل ہو گئے، اسی طرح امام رضا کی شہادت کے بعد باوجود اس کے کہ امام جواد سن میں چھوٹے تھے لیکن امام رضا کی کوششوں اور اپنے فرزند کو جانشین کے عنوان سے پہچنوانے کی بنا پر شیعوں کے اندر فرقہ بندی میں کمی آگئی تھی۔

(٣)ریاست طلبی اورحب دنیا :

جس وقت گھٹن کا ماحول ہوتاتھاتو ائمہ اطہار اساس تشیع کے تحفظ نیز شیعوں کی جان کی حفاظت کے لئے تقیہ کرتے تھے، اس وقت مطلب پرست اور ریاست طلب افراد جوشیعوں کی صفوں میں شامل ہوتے تھے لیکن دیانت پر بالکل اعتقاد نہیں رکھتے تھے وہ اس وضعیت سے غلط فائدہ اٹھاتے تھے جیسا کہ امام جعفرصادق نے ایک صحابی کے جواب میں کہ جس نے احادیث کے اختلاف کے بارے میں پوچھا تھاتو آپ نے فرمایا :کچھ لوگ ایسے ہیں جو ہماری حدیثوں کی تاویل کرکے دنیا اور ریاست تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔(١)

اس بنیاد پر دوسری صدی ہجری میں اور اس کے بعد جب شیعیت پھیل گئی تھی امام صادق،امام کاظم اور امام عسکری کی شہادت کے بعد مطلب پرست اور ریاست طلب افراد شیعوں کے درمیان کچھ زیادہ پیدا ہوگئے تھے، مال ا ور ریاست کی بنیاد پر

____________________

(١) شیخ طوسی ،اختیار معرفة الرجال، رجال کشی،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، قم ١٤٠٤ ج ١ ص ٣٧٤

۲۴۵

فرقوں کو ایجاد کرتے تھے امام باقرکی شہادت کے بعد مغیرہ بن سعید نے اپنی امامت کادعویٰ کیا اور کہا : امام سجاد اور امام باقرنے میرے بارے میں تاکید کی ہے اس وجہ سے اس کے طرفدار مغیریہ کہلائے ۔

امام صادق کی شہادت کے بعد نائوسیہ اور خطابیہ فرقے پیدا ہوئے جن کے رہبروں نے لوگوں کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے امام صادق اور ان کے فرزند اسماعیل کے نام سے فائدہ اٹھایا ،فرقۂ نائوسیہ کا رہبر ابن نائوس ہے اس نے امام صادق کی رحلت کا انکار کیا اور ان کو مہدی مانا ہے او ر خطابیہ امام صادق کے فرزند اسماعیل کی موت کے منکر ہیں اور ان کے رہبروں نے ان دو بزرگوں کے بعد خود کو امام کے عنوان سے مشہور کیا ۔(١)

امام موسیٰ کاظم کی شہادت کے بعدمال کی وجہ سے کثرت سے فرقے وجود میں آئے یونس جو امام کاظم کے صحا بی ہیں نقل کرتے ہیں : جس وقت امام موسیٰ کاظم دنیا سے گئے ان کے نوابین ووکلا کے پاس بہت سے مال اور رقوم شرعیہ موجودتھی اسی وجہ سے انہوں نے حضرت پر توقف کیا اور حضرت کی شہادت کے منکر ہوگئے، نمونہ کے طور پر زیاد قندی انباری کے پاس ستر ہزار دینار اور علی بن حمزہ کے پاس تیس ہزار دینار تھے یونس کا بیان ہے : جس وقت میں نے ان کی اس وضعیت کو دیکھا تو میرے لئے حقیقت روشن ہوگئی اور حضرت امام رضا کی امامت کا قضیہ بھی مرے لئے واضح ہو گیا تھا،میں نے حقائق بیان کرنا شروع کردیئے اورلوگوں کو حضرت کی جانب دعوت دی، ان دونوں نے میرے پاس پیغام کہلوایا کہ تم کیوں لوگوں کو امام رضا کی امامت کی طرف دعوت دیتے

____________________

(١)شیخ طوسی ،رجال کشی ،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث ، قم ، ١٤٠٤ھ ج١،ص٨٠

۲۴۶

ہواگر تمہارا مقصد مال حاصل کرنا ہے تو ہم تم کو بے نیاز کردیں گے اورانہوں نے دس ہزار دینار کی مجھے پیش کش کی لیکن میں نے قبول نہیں کیا لہذاوہ غصہ ہوئے اورانہوں نے مجھ سے دشمنی اور عداوت کا اظہار کیا ۔(١)

سعد بن عبداللہ اشعری کا بیان ہے : امام کاظم کی شہادت کے بعد فرقۂ ہسمویہ کا یہ عقیدہ تھاکہ امام موسیٰ کاظم کی وفات نہیں ہوئی ہے اور وہ زندان میں بھی نہیں رہے ہیں بلکہ وہ غائب ہو گئے ہیں اور وہی مہدی ہیں ، محمد بن بشیر ان کا رہبر تھا اس نے دعوٰی کیا کہ ساتویں امام نے خوداس کواپنا جانشین بنایا ہے، انگوٹھی اور وہ تمام چیزیں جن کی دینی او ردنیوی امور میں احتیاج ہوتی ہے اسے میرے حوالے کیا ہے اور اپنے اختیارات بھی مجھے دیئے ہیں اور مجھے اپنی جگہ بٹھایا ہے لہذا میں امام کاظم کے بعد امام ہوں محمد بن بشیر نے اپنی موت کے وقت اپنے فرزند سمیع بن محمد کو اپنی جگہ بٹھایا اور اس کی اطاعت کو امام موسیٰ کاظم کے ظہور تک واجب قرار دیا اور لوگوں سے کہا کہ جوبھی خدا کی راہ میں کچھ دیناچاہتا ہے وہ سمیع بن محمد کو عطا کرے ان لوگوں کانام ممطورہ پڑا۔(٢)

____________________

(١)زین عاملی ،محمد حسین ،شیعہ در تاریخ ،ص١٢٣،شیخ طوسی کی غیبت سے نقل کی ہے ص٤٦

(٢)اشعری قمی،سعد بن عبد اللہ،المقالات والفرق،ص٩١

۲۴۷

(٤)ضعیف النفس افراد کا وجود :

شیعوں میں کچھ ضعیف النفس افراد موجود تھے جس وقت امام سے کوئی کرامت دیکھتے تھے تو ان کی عقلیں اس کو تحمل نہیں کرپاتی تھیں اور وہ غلو کر نے لگتے تھے اگرچہ خود

ائمہ طاہرین نے شدت سے اس طرح کے عقائد کا مقابلہ کیا ہے ،رجال کشی کے نقل کے مطابق بصرہ کے سیاہ نام لوگوں میں سے ستّر لوگوں نے جنگ جمل کے بعد حضرت علی کے بارے میں غلو کیا۔(١)

مفاد پرست اور ریاست طلب افرادان لوگوں کے عقید ے سے سو ء استفادہ کرتے تھے ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو منحرف کرتے تھے اور اپنے مفاد میں ان سے کام لیتے تھے جیسا کہ ابی خطاب نے فرقۂ خطابیہ کو ایجاد کیا اور امام صادق کو مقام پیغمبری میں قرار دیا اورکہا : خدا ا ن میں حلول کر گیا ہے اور خود کو ان کا جانشین بتایا۔(٢)

امام زمانہ کی غیبت صغریٰ میں بھی ابن نصیر نے خود کو پہلا باب اور احکام کے نشر کرنے اور اموال جمع کرنے میں خود کوامام کا وکیل مشہور کیا ، اس کے بعد پیغمبری کا دعویٰ کیا اور آخر میں خدائی کا دعویٰ کیا،(٣) اس کے چاہنے والوں نے اس کو قبول بھی کرلیا بلکہ اپنے چاہنے والوں کے ایمان کی بنا پر ہی اس نے یہ دعوے کئے تھے اور اسی طرح فرقہ غلات وجود میں آئے ۔

____________________

(١)جب امیر المومنین جنگ جمل سے فارغ ہوئے ٧٠لوگ جو سیاہ پوست جوبصرہ میں رہتے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے نے اپنی زبان میں علی سے بات کرنا شروع کی علی نے ان کی زبان میں ان کو جواب دیا انہوں نے آپ کے بارے میں غلو کیا علی نے فر مایا: میں خدا کی مخلوق اور اس کا بندہ ہوں انہوں نے قبول نہیں کیاانہوں نے کہا: آپ ہی خدا ہیں ، آپ نے ان سے توبہ کرنے کی در خواست کی لیکنانہوں نے توبہ نہیں کی اس وجہ سے آپ نے ان کو پھانسی دی،شیخ طوسی،اختیار معرفة الرجال، رجال کشی،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث،قم،١٤٠٤ھ،ج١، ص ٣٢٥

(٢)شہرستانی ،کتاب ملل ونحل،منشورات شریف رضی،قم ،ج١،ص١٦٠

(٣)شیخ طوسی، رجال کشی،ج٢،ص٨٠٥

۲۴۸

غالیوں کے خلاف ائمہ کا مبارزہ

اہم ترین خطروں میں ایک خطرہ جو طول تاریخ میں شیعوں کے لئے چیلنج کا سبب بنا رہا وہ غالیوں کامسئلہ اور عقائد کا شیعوں کی ظرف نسبت دیناہے ہمیشہ شیعوں کے دشمن شیعوں کو ان کے اماموں کے متعلق غلو اور زیادہ روی سے متہم کرتے تھے ہم یہاں غلات کے مختلف فرقوں اور ان کے عقائد کو بیان نہیں کریں گے لیکن قابل توجہ مطلب یہ ہے کہ اہم ترین خصوصیت اور غلات کے تمام فرقوں کے درمیان نقطئہ اشتراک ائمہ اطہار کے بارے میں غلو کرنا ہے اور ان کوخدا کے مرتبہ تک پہنچانا ہے مسلمانوں کے درمیان غلات کاوجود داخلی عوامل سے زیادہ خارجی عوامل کی بنیاد پر ہے جب دشمنان اسلام براہ راست مقابلہ نہیں کرسکے اوروہ تمام تر کوششوں کے باوجود اسلام کو خاطر خواہ نقصان نہ پہنچاسکے تو انہیں یہ حربہ اپنایا ،چونکہ اسلام ان کی سر زمینوں میں داخل ہوچکا تھا اور ان کی پوری طرح سے شکست ہوچکی تھی لہٰذا ان کی یہ کوشش یہ رہی کہ اسلام کو داخلی طریقہ سے نقصان پہنچایا جائے اسی وجہ سے انہوں نے اسلام کے پہلے اصول کو مورد ہد ف قرار دیا، سیاسی حکومتیں بھی اس جانب مائل تھیں کہ اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چاہنے والوں اور ان کے شیعوں کے درمیا ن ایسے افراد پیدا ہوں جن کے عقائد کی نسبت شیعوں کی طرف دی جائے اور اس طریقہ سے اہل بیت کے چاہنے والوں کو غالی اور مسلمانوں کے زمروں سے علیحدہ کردیا جائے ،اگر چہ یہ سلسلۂ خلافت امیرالمومنین کے دور سے شروع ہو گیا تھااور کچھ غیر فعّال لوگ آپ کے بارے میں افراطی عقیدہ رکھنے لگے تھے جب وہ اپنے عقیدہ سے نہیں پلٹے توحضرت نے ان کو ختم کر دیا۔(١)

____________________

(١)شیخ طوسی ،رجال کشی ،ج١،ص٣٢٥

۲۴۹

عبداللہ بن سبا جو ایک موہوم اور خیالی شخص ہے جس نے سب سے پہلے اس کا نام لیا وہ طبری ہے اس نے ابن سبا کی داستان کو سیف ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ تمام علمائے رجال ابن سیف کے کذاب ہونے پر متفق ہیں ،(١) ائمہ اطہار مسلسل اس طرح کے مسائل سے دوچار تھے اورانہوں نے شدت سے اس کا مقابلہ کیا ہے اور ہمیشہ ان پر لعنت کی ہے اور لوگوں کو ان کے خطرات سے آگاہ کیا ہے اور شیعوں کو حکم دیا ہے کہ ان کے پاس نہ بیٹھیں اور ان سے رابطہ برقرار نہ کریں ۔(٢)

امام صادق نے چندغالی لیڈروں کا نام لیا ہے، جیسے مغیرہ بن سعید ،بیان، صائدنہدی ،حارث شامی ،عبداللہ بن حارث، حمزہ بن عمار بربری، اور ابوالخطاب وغیرہ اور ان افراد پر لعنت بھی کی ہے ۔(٣)

یہ لوگ ائمہ طاہرین کی نفرین اور لعنت کی وجہ سے سخت عذاب میں مبتلا ہوتے تھے اور بری حالت میں مارے جاتے تھے جیسا کہ امام رضا نے فرمایا :بنان نے امام سجاد پر جھوٹ کا الزام لگایا خدا نے اس کوتیز تلوار کا مزہ چکھایا ،مغیرہ بن سعید نے امام باقر پر جھوٹ کا الزام لگایا کہ اس کو بھی خدا نے تیز تلوار کا مزہ چکھایا ،محمد بن بشیر نے امام کاظم کی طرف جھوٹی نسبت دی اس کو بھی خدانے تلوار کے ذریعہ ختم کر دیا ابوالخطاب نے امام صادق کی نسبت جھوٹ الزام لگایا وہ بھی شمشیر کی زد میں آیا اور جو مجھ پر جھوٹ کا الزام لگاتاہے وہ محمد بن فرات ہے۔(٤)

____________________

(١)رجوع کیا جائے ،عسکری ،سید مرتضیٰ، عبداللہ بن سبا و اساطیر اخریٰ،طبع ششم،١٤١٣ ھ ١٩٩٢ ج٢ ص ٣٢٨۔٣٧٥

(٢)شیخ طوسی،رجال کشی ،ج٢،ص٥٨٦

(٣)شیخ طوسی،رجال کشی ،ص٥٧٧

(٤)شیخ طوسی،رجال کشی ،ص٥٩١

۲۵۰

امام حسن عسکری کے دور میں غلات کاسلسلہ بہت زیادہ وسیع ہوگیاتھا اس وجہ سے امام نے قاسم یقطینی ،علی بن حسکہ قمی ،ابن باباقمی فہری،محمد بن نصیر نمیری و فارس بن حاتم قزوینی وغیرہ غلات کے رہبر اور سردار تھے ان لوگو ں پرآپ نے لعنت بھیجی ہے ۔(١)

شیعہ نشین علاقہ جیسے قم کہ جوہمیشہ غالیوں کا مخا لف تھا اور غالیوں کو یہاں سکونت کی اجازت نہیں تھی اس بنا پر ابن دائود نے حسین بن عبداللہ محررکی سوانح حیات کے ضمن میں یہ تحریر کیا ہے :روایت میں ہے کہ اس کو کسی غالی کے ساتھ ہونے کی بنا پر قم سے نکال دیا گیاتھا ۔(٢)

ابن جزم کے نقل کے مطابق ابوالحسن محمد بن احمد جو امام کاظم کے فرزند وں میں سے ہیں اورجنہوں نے تیسری صدی ہجری میں آذر بائیجان میں زندگی بسرکی ہے، وہاں ان کا ایک بلندمقام تھاانہوں نے غلات کے مبلغین پر بہت سختی کی یہاں تک کہ ان کے قتل کے اسباب فراہم کئے اور آذر بائیجان کے حاکم ابن ابی ساج کے غلام مفلح کواس بات پر وارد کیا کہ وہ تمام مبلغینِ غلاف کو قتل کردے۔(٣)

____________________

(١)شیخ طوسی،رجال کشی ،ص٨٠٥

(٢)رجال ابن دائود،منشوارت رضی،قم، ص٢٤٠

(٣)جمہرة انساب العرب،بیروت،طبع اول،١٤٠٣ھ،ص٦٣

۲۵۱

ساتویں فصل

شیعوں کی علمی میراث

شرع مقدس اسلام میں تالیف وتصنیف کی اہمیت کسی پر مخفی نہیں ہے کیونکہ علم وآگاہی کے منتقل کرنے کے راستوں میں ایک راستہ لکھنا ہے، عرب کے معاشر ے میں اسلام سے پہلے اس نعمت سے بہت کم لوگ بہرہ مند تھے اور صرف چند افراد لکھنے اور پڑھنے کی توانائی رکھتے تھے۔( ١)

لیکن بعثت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور نزول وحی کے بعدتعلیمات اسلامی سے واقفیت کے لئے قرآنی آیات کے لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ،جیسا کہ ابن ہشام نے نقل کیا ہے کہ عمر بن الخطاب کے مسلمان ہونے سے پہلے ان کی بہن فاطمہ بنت خطاب اور ا ن کے شوہر سعید بن زید مسلمان ہوئے،خباب ابن ارث نے ایک نوشتہ کے ذریعہ کہ جسے صحیفہ کہتے ، عمر کی نظروں سے مخفی ہوکر انہیں سورہ طہ کی تعلیم دی۔(٢)

مدینہ میں بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں میں سے بعض افراد کو کہ جو لکھنے پر قادتھے وحی لکھنے کے لئے انتخاب کیا اس کے علاوہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امیرالمومنین کو کہ جو دائمی وحی لکھنے والے تھے

____________________

(١)ابن خلدون،عبد الرحمن بن محمد،(مقدمہ)دار احیاء التراث، بیروت، ١٤٠٨ھ ص ٤١٧

(٢)ابن ہشام ،سیرة النبوة،دار المعرفة ،بیروت،(بی تا) ج١ ،ص٣٣٤

۲۵۲

مسلسل آیات محکمات ومتشابہات اور ناسخ ومنسوخ آیات کے بارے میں وضاحت پیش کرتے تھے جس کی بنا پر صحیفۂ جامعہ کے نام سے ایک کتاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے املا کرایا جو حلال و حرام ، احکام و سنن اور وہ احکام جن کی دنیا و آخرت میں لوگوں کو ضرورت ہے ان سب کو شامل تھی۔(١)

دوسری دو کتابیں جن میں سے ایک دیات کے بارے میں تھی جس کا نام صحیفہ تھا اور دوسری کتاب جس کا نام فریضہ تھا اس کی نسبت بھی حضرت کی طرف دی گئی ہے۔(٢)

بعض دوسرے صحابہ نے بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداکی تقاریر اور احادیث کو جمع کیا تھا اس کو بھی صحیفہ کہتے تھے جیسا کہ بخاری نے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے: اصحاب پیغمبر میں سے سب سے زیادہ میں احادیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نقل کرتا ہوں سوائے عبد اللہ بن عمر کے کیونکہ وہ جوچیز بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنتے تھے اس کو لکھ لیتے تھے لیکن میں نہیں لکھتا تھا۔(٣)

____________________

(١)نجاشی احمد بن علی ، فہرست اسماء مصنفی الشیعہ ، موسسة النشر الاسلامی التابع لجماعة المدرسین ، قم ١٤٠٧ھ ص ٣٦٠، اور طبرسی ، اعلام الوری باعلام الھدی ، موسسة آل البیت لاحیاء التراث، قم طبع اول ، ١٤١٧ھ ج١ ص ٥٣٦

(٢) شیخ طوسی ، محمد بن حسن،تہذیب الاحکام،مکتبة الصدوق،طبع اول،٣٧٦ ھ ق ١٤١٨ھ ج١ ، ص٣٣٨۔٣٤٢

(٣) صحیح بخاری،دارالفکر،للطباعة والنشر والتوزیع،بیروت،ج١،ص٣٦

۲۵۳

لیکن وفات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد دوسرے خلیفہ ،عمر نے احادیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کولکھنے سے منع کر دیا۔(١)

عمر بن عبدالعزیز نے پہلی صدی ہجری کے آخر میں اس ممانعت کو ختم کر دیا اور ابو بکر بن حزم کو احادیث لکھنے کے لئے خط لکھا۔(٢)

لیکن دوسری صدی ہجری کے شروع تک یہ کام عملی طور پر نہیں ہو سکا کیونکہ غزالی کے نقل کی بنا پر جن لوگوں نے اہل سنت کے درمیان حدیث کی کتاب کو سب سے پہلے تالیف کیا ہے وہ یہ ہیں : ابن جریح ،معمر بن راشد ،مالک بن انس اور سفیان ثوری،(٣) یہ لوگ دوسری صدی ہجری کے نصف دوم میں تھے، ان کی وفات کے سال ان کے نام کی ترتیب کے ساتھ اس طرح ہیں ١٥٠ھ، ١٥٢ھ،١٧٩ھ،١٦١ھ لیکن خلیفہ دوم کی طرف سے کتابت احادیث پر پابندی اور روک ٹوک شیعوں کے درمیان مؤثر نہ ہوئی اور شیعوں کے بزرگ اصحاب جیسے سلمان فارسی ،ابو ذر غفاری،ابو رافع قبطی نے تالیف و تصنیف کی راہ میں پہلے قدم بڑھائے، ابن شہر آشوب کا بیان ہے ،غزالی معتقد ہے کہ سب سے پہلی کتاب جو جہان اسلام میں لکھی گئی وہ ابن جریح کی کتاب ہے جو تفاسیر کے حروف اور آثار کے بارے میں ہے کہ جس کو مجاہد اور عطا نے مکہ میں نقل کیا ہے، اس کی کتاب کے بعد یمن میں معمر بن راشد صنعانی کی کتاب ہے اس کے بعد مدینہ میں موطا مالک بن انس کی کتا ب ہے نیز اس کتا ب کے بعدسفیان ثور ی کی کتاب جامع ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ عالم اسلام میں سب سے پہلی کتاب

____________________

(١)حیدر،اسد ، امام صادق و مذاہب اربعہ، دارالکتاب عربی، بیروت،١٤٠٣ھ،ج١ ص٥٤٤

(٢) صحیح بخاری ،دار الفکر ،للطباعة والنشر والتوزیع،بیروت،ج١،ص٢

(٣) ابن شہر آشوب ،معالم العلمائ،منشورات المطبعة الحیدریہ،نجف ١٣٨٠ھ،ص٢

۲۵۴

امیرالمومنین نے لکھی ہے کہ جس میں قرآن کو جمع کیا ہے حضرت کے بعد سلمان فارسی ، ابو ذر غفاری اصبغ بن نباتہ عبیداللہ بن ابی رافع نے تصنیف و تالیف کی راہ میں قدم اٹھایا اور ان کے بعد امام زین العابدین نے صحیفۂ کاملہ تالیف کی۔(١)

ابن ندیم نے بھی شیعی تالیفات کو پہلی صدی سے مربوط جانتا ہے۔(٢)

شیعو ں کی تالیف و تصنیف اور آثار نبوی کی جمع آوری میں مقدم ہونے کی وجہ سے ذہبی نے ابان بن تغلب کی سوانح حیات میں کہاہے: اگر ابان جیسے شخص کی وثاقت تشیع کی طرف جھکائو اور میلان کی وجہ سے ختم ہو جائے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی حدیثیں اور آثار ہمارے درمیان سے ختم ہو جائیں گے۔(٣)

اہل سنت کے گذشتہ فقہا اور محدثین خصوصاً ائمہ اربعہ نے امام صادق سے بلا واسطہ یا با لواسطہ استفا دہ کیا ہے نیز اس کے علاوہ مستقل طور پر شیعہ محدثین کی شاگردی بھی کی ہے اور ان سے احادیث دریافت کی ہیں ۔(٤)

____________________

(١)ابن شہر آشوب ،معالم العلمائ، ص ٢

(٢)الفہرست،دار المعرفة،للطباعة والنشر،بیروت، ص٣٠٧

(٣)ذہبی ، میزان الاعتدال، دار الفکر للطباعة والنشرو التوزیع، بیروت ، ج١ ص ٤

(٤)ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغة،دار الاحیاء التراث العربی،بیروت ،ج١، ص١٨

۲۵۵

لیکن ان کتا بوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے جو شیعوں کے درمیان تیسری صدی ہجری تک لکھی گئی ہیں ، صاحب وسائل نے کہا ہے : ائمہ اطہار کے ہم عصر دانشمندوں اور محدثوں نے امام امیر المومنین کے زمانہ سے لے کر امام حسن عسکری

کے زمانہ تک چھ ہزار چھ سو کتابیں تحریر فر مائی ہیں ۔(١)

شیعوں نے اس دور میں روز مرّہ کے مختلف علوم جیسے ادبیات، لغت ،شعر ،علوم قرآن ،تفسیر ،حدیث، اصول فقہ ،کلام ،تاریخ، سیرت،رجال ، اخلاق کے بارے میں بے حد کوششیں کی ہیں اور کثیر تعداد میں اپنی تالیفات چھوڑی ہیں نیز بیشترعلوم میں وہ سبقت رکھتے ہیں ۔

ابوالاسود دوئلی نے علم نحو کی بنیاد رکھی ،(٢) انہوں نے ہی سب سے پہلی مرتبہ قرآن پر نقطہ گذاری کی۔(٣)

مسلمانوں کی سب سے پہلی لغت کی کتاب، کتاب العین ہے جس کو خلیل بن احمد نے مرتب کیا ہے(٤) ان کا شمار شیعہ دانشوروں میں ہوتا ہے ۔(٥)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگوں اور سیرت کے بارے میں سب سے پہلی کتاب ابن اسحاق نے لکھی اور ابن حجر نے اس کے شیعہ ہونے کی گواہی دی ہے۔(٦)

اس مختصر سی روشنی ڈالنے کے بعد ہم یہاں علم فقہ و حدیث اور کلام کی مختصر وضاحت پیش کرتے ہیں جن کو مکتب تشیع نے اپنے مبانی اور اصول کی بنیاد پر اپنے سے مخصوص کیا ہے ۔

____________________

(١)شیخ حرعاملی،محمد بن حسن،وسائل الشیعہ،مکتبةالاسلامیہ ، تہران، طبع ششم ج ٢٠، ص ٤٩

(٢)ابن ندیم،وہی کتاب ص٦١

(٣)بستانی،دائرةالمعارف،دار المعرفة،بیروت،ج١،ص٧٨٨

(٤)ابن ندیم،وہی کتاب،ص٦٣

(٥)اردبیلی الغربی الحائری ،محمد بن علی ،جامع الرواة،منشورات مکتبة آیةاللہ مرعشی نجفی،قم، ١٤٠٣ھ قمری،ج١،ص٢٩٨

(٦)ابن حجر عسقلانی، تحریر تقریب التہذیب ،موسسة الرسالة ،بیروت ،طبع اول ،١٤١٧ھ ١٩٩٧ئ، ج٣،ص٢١١۔٢١٢

۲۵۶

علم حدیث:

حدیث یا سنت:

قرآن کے بعد اسلامی فقہ کا دوسرا منبع و ماخذہے یعنی معصوم کا قول،فعل اور تقریر،(تقریر یعنی معصوم کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور معصوم خاموش رہیں اس کی رد میں کچھ نہ کہیں ) اہل سنت حضرات سنّت یاحدیث کوپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول و فعل و تقریر میں منحصرجانتے ہیں لیکن شیعہ اما م معصوم کے قول،فعل اور تقریر کو بھی حجت قراردیتے ہیں اور حدیث کا حصہ شمار کرتے ہیں(١) اب ہم ائمہ کے زما نے میں حدیثوں کی تحقیق کے چار طبقہ جو چار مرحلوں کو شامل ہے انجام دیں گے :

پہلا طبقہ :

نجاشی کے مطابق پہلے حدیث لکھنے والے حسب ذیل ہیں :

ابو رافع قطبی ، علی ابن ابی رافع ، ربیعہ بن سمیع ، سلیم بن قیس ہلالی، اصبغ بن نباتہ مجا شعی ، عبید اللہ بن حر جعفی یہ افراد امیرالمومنین علیہ السّلام اور امام حسن و امام حسین کے اصحاب میں سے ہیں ۔(٢)

____________________

(١)شہید ثانی،شیخ زین الدین،ذکری الشیعہ فی احکام الشریعہ،طبع سنگی،ص٤،اور الرعایة فی علم الدرایة،شہید ثانی،مکتبة آیةاللہ مرعشی نجفی،طبع اول ١٤٠٨،ص٥٠۔٥٢

(۲)رجال نجاشی،موسسہ نشر اسلامی التابعہ لجامعة المدرسین ، قم ، ١٤٠٧ھ ، قم ، ١٤٠٧ھ ق ص ٤۔ ٩

۲۵۷

دوسراطبقہ :

بعض محققین کے مطابق امام سجّاد اور امام باقر کے اصحاب کے درمیان بارہ افرادصاحب تالیف ا ورصاحب کتاب تھے۔(١) ان میں ابان بن تغلب کا نام لیا جا سکتا ہے کہ جن کو ائمہ کے نزدیک ایک خاص مقام و مرتبہ تھا امام باقر نے ان سے فرمایا : مسجد نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بیٹھ کر لوگوں کو فتوی دوکیونکہ میں تم جیسے افرد کو اپنے شیعوں کے درمیان دیکھنا چاہتا ہوں ۔(٢)

نجاشی کا بیان ہے :ابان بن تغلب مختلف فنون و علوم میں ماہر تھے ، ابان نے ان فنون کے بارے میں کتابیں تحریر کی ہیں ،ان میں سے تفسیر غریب القرآن اور کتاب الفضائل وغیرہ ہیں ۔(٣)

اسی طرح ابو حمزہ ثمالی جن کے بارے میں امام صادق علیہ السّلام نے فرمایا: ابوحمزہ اپنے زمانے میں سلمان کی طرح تھے،(٤) ان کی تالیف کردہ کتابیں درج ذیل ہیں کتاب نوادر ، کتاب زھد اور تفسیر قرآن ۔(٥)

____________________

(١)ان بارہ افراد کے نام یہ ہیں ، برد الاسکاف ، ثابت بن ابی صفیہ ابو حمزہ ثمالی ، ثابت بن ہرمز ، بسام بن عبد اللہ صیرفی ، محمد بن قیس بجلی ، حجر بن زائد حضرمی ، زکریا بن عبد اللہ فیاض، ابو جہم کوفی ، حسین بن ثویر ، عبد المومن بن قاسم انصاری ، عبد الغفار بن قاسم انصاری ،اور ابان بن تغلب ،رجوع کریں مقدمۂ وسائل الشیعہ، مکتبة الاسلامیہ ، طبع تہران ،ج ٦ ،١٤٠٣ھ ق ص

(٢) نجاشی ، فہرست اسماء مصنفی الشیعة، ص ١٠

(٣) نجاشی ،احمد بن علی ، فہرست اسماء مصنفی الشیعة،موسسہ النشر الاسلامی لجماعة المدرسین،قم، ص ١١

(٤)احمد بن علی ، نجّاشی ، فہرست اسماء مصنفی الشیعة، ص١٥

(٥)ابن شہر آشوب ،معالم العلماء ،منشورات مطبعة الحیدریہ، نجف ،١٣٨٠ھ ص ٣٠

۲۵۸

تیسرا طبقہ :

امام صادق کا زمانہ اسلامی معاشرہ میں علوم کی پیشرفت اور رشد کا زمانہ تھا اور شیعہ بھی نسبتاً آزاد تھے ،شیخ مفید کے مطابق امام صادق کے موثق اورمعتبر شاگردوں کی تعداد چار ہزارسے زائد ہے ۔(١)

امام رضا کے صحابی حسن بن علی وشاکا بیان ہے میں نے مسجد کوفہ میں نو سو افراد کو دیکھا جو امام صادق سے حدیث نقل کر رہے تھے ،(٢) اس وجہ سے حضرت سے کئے گئے سوالات کے جوابات میں چارسو کتابیں تالیف کی گئیں ،(٣) کہ جن کو اصل کہتے ہیں ان کتابوں کے علاوہ بھی دوسری کتابیں مختلف علوم و فنون میں امام صادق کے اصحاب اور شاگردوں کے ذریعہ تحریر میں آئی ہیں ۔

چوتھا طبقہ :

یہ دور امام صادق کے بعد کا دور ہے اس دور میں بہت سی حدیثوں کی کتابیں لکھی گئیں مثلاً امام رضا کے صحابی حسین بن سعید کوفی نے تیس کتابیں حدیث میں لکھی ہیں ۔(٤)

امام رضا کے دوسرے صحابی محمدبن ابی عمیر نے چورانوے٩٤کتابیں لکھی ہیں اور امام رضا و امام جواد کے صحابی صفوان بن بجلی نے تیس٣٠ کتابیں تالیف کی

ہیں ان کتابوں میں اکثر پرجامع کا عنوا ن منطبق ہوتا ہے محدّ ثین جیسے ثقة الاسلام کلینی شیخ صدوق، شیخ طوسی نے اپنی کتابوں کی تالیف میں ان لوگوں کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ۔

____________________

(١)شیخ مفید،الارشاد،ترجمہ ، محمد باقر ساعدی ، خراسانی ، کتاب فروشی اسلامی ، تہران ، ١٣٧٦ھ ش، ص ٥٢٥

(٢) نجاشی ، فہرست اسماء مصنفی الشیعة، ص ٣٩۔٤٠

(٣) اعلام الوریٰ با علام الہدیٰ ،موسسة آل البیت الاحیاء التراث ، قم طبع اول ج١ ص ٥٣٥

(٤)معالم العلماء ، ص ٤٠

۲۵۹

علم فقہ :

مجموعی طور پر انسان کے اعمال کا رابطہ خُدا اور اس کی مخلوق سے ہے کہ جس کے لئے کچھ اصول اورقوانین کی ضرورت ہے اسی اصول اورقوانین کا نام علم فقہ ہے اسلامی قوانین خُدا کی جانب سے ہیں اور خُدا کے ارادے سے ظاہر ہوتے ہیں ، البتہ ارادئہ خُدا کہیں بھی فقط قرار دادی اور اعتباری نہیں ہیں بلکہ مصالح و مفاسد تکوینی کی بنیاد پر استوارہوتے ہیں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خُدا کے بھیجے ہوئے نبی ہیں ان کا حکم خُدا کا حکم ہے :

( ما ینطق عن الهویٰ اِن هواِلّا وحی یوحی ) (١)

اور آیۂ( اطیعوا اللّٰه و اطیعوا الرّسول و اولی الأمر منکم ) (٢)

کی بنیاد پر خُدا نے ان کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے ساتھ ذکر کیا ہے، ائمہ معصومین علیہم السلام کی باتیں وحی کے سوا کچھ نہیں ہیں اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح ان کی بھی اطاعت واجب ہے۔

____________________

(١)سورہ نجم ،٥٣، آیت ٣۔٤

(٢)سورہ نسائ، آیت ٥٩

۲۶۰