تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک0%

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 328

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف: غلام حسن محرمی
زمرہ جات:

صفحے: 328
مشاہدے: 86561
ڈاؤنلوڈ: 4745

تبصرے:

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86561 / ڈاؤنلوڈ: 4745
سائز سائز سائز
تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف:
اردو

عصر صحابہ و تابعین میں فقہ کی موقعیت و وضعیت

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی وفات کے بعدحقیقی اسلام کا راستہ متغیرو منحرف ہو گیا اور لوگ بر حق جانشین پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دور ہو گئے، مسائل شرعی میں اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رجوع کرنے لگے البتہ چنداصحاب ان میں سے پیش قدم تھے، جیسا کہ ابن سعد کا بیان ہے کہ ابوبکر، عمر، عثمان کے دور خلافت میں حضرت علی علیہ السلام، عبد الرّحمن بن عوف ،معاذ بن جبل ابی بن کعب اور زید بن ثابت فتویٰ دیتے تھے ۔(١)

اگر چہ ائمہ اطہار اور کچھ بزرگان شیعہ جیسے ابن عبّاس، ابو سعید خدری بھی فقیہ اور قانون شریعت سے واقف ہونے کی وجہ سے عامہ اور اہل سنّت کے لئے مورد توجہ قرار پائے اور ان کی طرف لوگ رجوع بھی کرتے تھے ۔(٢)

البتہ اس دور میں شیعہ افراد فقہی مسائل اور اسلامی معارف کے بارے میں اپنے معصوم امام نیز اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب مراجعہ کرتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں فقہی اصول آج کی طرح بیان نہیں ہوئے تھے لیکن صحابہ کا دور ختم ہونے کے بعد تابعین کی کچھ تعداد نے جدیدفقہی مسائل کے لئے فقہ میں کاوش کی اور فقیہ کا عنوان ان پرمنطبق ہوا منجملہ ا نہیں میں سے وہ سات فقہائے مدینہ ہیں ۔(٣)

____________________

(١)ابن سعد، طبقات الکبری، دار احیاء التراث ، العربی ، بیروت ، طبع اول ،ج ٢ ص ٢٦٧

(٢)ابن سعد،طبقات الکبری، ج ٢ ص ٢٧٩۔٢٨٥

(٣) ابن سعد کہتا ہے : مدینہ میں جو لوگوں کے فقہی مسائل کا جواب دیتے تھے اور ان کا قول قابل اعتماد تھا وہ یہ ہیں : سعید بن مسیّب، ابو بکر بن عبد الرحمن ، عروة بن زبیر ، عبد اللہ بن عبد اللہ بن عتبة، قاسم بن محمد، خارجة بن زید اور سلیمان بن سیّار ،طبقات الکبری، ج ٢ ص ٢٩٣

۲۶۱

شیعو ں کے درمیان فقہ کی وضعیت وحیثیت

فقہ کی وضعیت شیعوں کے درمیان حضور ِمعصوم کے سبب فرق کر تی ہے اور اس طرح کا اجتہاد جو اہل سنّت کے درمیان رائج تھا وہ شیعوں کے درمیان معنی نہیں رکھتا ہے بلکہ کلّی طور پرکہا جا سکتا ہے کہ فقہ شیعہ اماموں کے حضور کے دوران غیبت صغریٰ کے ختم ہونے تک ایک فرعی چیز تھی جو اجتہاد کے لئے راستہ ہموار کر رہی تھی۔(١)

____________________

(١)آیة اللہ ابراہیم جنّاتی معتقد ہیں کہ ابتدائے اسلام سے اب تک فقہ شیعہ آٹھ دور گذار چکی ہے :

(١) اجتہاد کی ابتدا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت سے ١١ھ تک ہوتی ہے ۔

(٢)تمہیدی دور یا اجتہادی مقدمات کا دور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت سے غیبت صغریٰ تک ہے

(٣) اصول قوانین کی تدوین یا مشترک عناصر اجتہادی کی تدوین کا دور جو ابن ابی عقیل ٣٢٩ھ سے شروع ہوتا ہے اور شیخ طوسی ٤٦٠ھ پر ختم ہوتا ہے ۔

(٤) اجتہاد کے مشترک عناصر کے یاد کرنے کا دور جو شیخ طوسی سے شروع ہوتا ہے اور ان کے پوتے ابن ادریس ٥٩٨ھ پر ختم ہوتا ہے ۔

(٥) اجتہادی مسائل کے استدلال کے پھیلنے کا دور جو ابن ادریس سے شروع ہو کر وحید بہبہائی ١٢٠٥ھ پر ختم ہوتا ہے ۔

(٦) اجتہاد کے تکامل وارتقا کا دور جو وحید بہبہائی سے شروع ہوتا ہے اور شیخ انصاری ١٢٨١ھ پر ختم ہوتا ہے ۔

(٧) اجتہادی مباحث میں عمیق غور و فکر کا دور جو شیخ انصاری سے شروع ہوتا ہے اور آقای خمینی پر ختم ہوتا ہے ۔

(٨) جدید طرزو روش سے اجتہاد سے فائدہ اٹھانے کا دور جس کے موجد آقای خمینی ہیں ۔

(ادوار اجتہاد ، سازمان انتشارات کیہان ، طبع اول ، ١٣٧٢ھ ش،فصل دوم کے بعد سے)

۲۶۲

معصوم کے ہوتے ہوئے اور علم کا دروازہ کھلا رہنے کے ساتھ نیز نص تک دسترسی کی بنا پر اجتہادجو اکثر دلائلی ظنّی سے وابستہ ہے اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ،فقہ شیعہ میں اجتہاد کی بنیاد سب سے پہلے ابن ابی عقیل عمانی کے ذریعہ قرن چہارم کے اوائل میں رکھی گئی ،جو شیخ کلینی کے ہم عصر تھے، ان کے بعد محمد بن جنید اس کافی نے ان کے مقصد کوجاری رکھااور اجتہاد و فقہ کی بنیادوں کو مستحکم کیا یہ لوگ قد یمین سے معروف ہیں ،شیخ مفید متوفی ٤١٣ ھ ، اورسید مرتضیٰ علم الھدیٰ متوفی ٤٣٦ھ ان لوگوں نے بھی اجتہاد کے راستہ کو ہموار کیا پھر نوبت شیخ طوسی ٤٦٠ھتک پہنچی ، شیعہ فقہ کو اس فقیہ بزرگ کے ذریعہ رونق اورترقی ملی انہوں نے حدیث کی دو معتبر کتا ب، تہذیب و استبصار کے علاوہ فقہی کتابیں بھی تالیف کی ہیں اور نہایہ، مبسوط اور خلاف جیسی کتا بیں انہیں کی قلم سے معرض وجود میں آئی ہیں ۔

البتہ ایسا نہیں ہے کہ اجتہاد، فقہ و اصول حضورائمہ میں اصلاًرائج ہی نہیں ہوئے تھے بلکہ بُعد مکانی کی وجہ سے ائمہ تک لوگوں کی رسائی نہیں تھی اس وجہ سے ائمہ معصومین ان موارد میں ان افراد کے ساتھ تعاون کر تے تھے اور فقہا کی شناسائی اورمعیار کو جن کے ذریعہ ان تک رسائی ہوسکے ان کی نشاندہی کر تے تھے اور وہ اجتہاد کے ذریعہ لوگوں کے سوالات کے جوابات دیتے تھے ۔

۲۶۳

جیسا کہ مقبو لہ عمر بن حنظلہ میں ہے کہ امام صادق سے سوال کیا گیا اگر شیعوں میں سے دو افراد کے درمیان کسی مسئلہ شرعی سلسلہسے متعلق مثلاً قرض او رمیراث میں اختلاف ہوجائے توکیا کہا جائے،امام نے فرمایا: اس کی طرف رجوع کرو جو ہماری احادیث کو نقل کر تا ہے اور ہمارے حلال و حرام پر نظر رکھتا ہے اور ہمارے احکام سے واقف ہے کہ میں نے ایسے شخص کو تمہارے لئے قاضی اور حاکم قرار دیا ہے۔(١)

ائمہ طاہرین بھی کبھی کبھی بعض اشخاص کو شیعو ں کے مسائل شرعی کا جواب دینے کے لئے منتخب کرتے تھے جیسا کہ شیخ طوسی نے کہا: علی بن مسیب نے امام رضا سے عرض کی راستہ بہت دور ہے اور میں جب چاہوں ا پ کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکتا ایسی حالت میں میں احکام دین خُدا کے بارے میں کس سے سوال کروں ؟ امام نے فرمایا: زکریا بن آدم قمی سے کیونکہ وہ دین و دنیا میں امین ہیں ۔(٢)

اسی طرح امام محمد باقر نے ابان بن تغلب کو حکم دیا کہ مسجد نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بیٹھ کر لوگوں کو فتویٰ دیں ۔(٣)

آغاز اجتہاد:

اس دور میں أئمہ طاہر ین علیہم السلام اصول فقہ اور استنباط کے قواعد اپنے شاگردوں کو سکھاتے تھے، اسی وجہ سے وہ کتابیں جو شیعہ دانشمندوں کے ذریعہ لکھی گئی ہیں ،ان کی نسبت اماموں کی جانب دی جاتی ہے ، مثلاً کتاب آل الرسول ہاشم خوانساری کی تالیف ہے اصول اصلیہ، سیّدعبداللہ بن محمد رضا حسین کی تالیف ہے، کتاب فصول المہمہ در اصول ائمہ محمد بن حسن حر عاملی کی تالیف ہے۔(٤)

____________________

(١)حر عاملی ، وسائل الشیعہ، ج ١٨، ص ٩٩، کتاب القضا ابواب صفات قاضی ، باب ١١، حدیث ١

(٢) شیخ طوسی، اختیار معرفة الرجال،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث ، قم ج٢ ،ص ٨٥٧

(٣)احمد بن علی ، رجال نجاشی ،النشر الاسلامی، الطابعة جامعة المدرسین، قم ، ١٤٠٧،ص١٠

(٤)صدر سید حسین، تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام،منشورات، الاعلمی ، تہران، ٣١٠

۲۶۴

رجال کی کتابوں میں ائمہ طاہرین کے بعض بزرگ اصحاب، فقہا میں شمار کئے گئے ہیں جیسا کہ فضل بن شاذان کے بارے میں نجاشی کا بیان ہے،''کا ن ثقة احد اصحابنا الفقها والمتکلمین ''۔(١)

____________________

(١)رجال نجاشی،ص ٣٠٧۔

۲۶۵

فقہاء اصحاب ائمہ

شیخ طوسی نے امام باقر ـ،امام صادق ـ، امام کاظم ـاور امام رضا ـکے اصحاب میں سے اٹھارہ اصحاب کو فقیہ بزرگ کے عنوان سے پہچنوایاہے اورانہیں فقہائے اصحاب ابی جعفر فقہائے اصحاب ابی عبداللہ اور فقہائے اصحاب ابی ابراہیم اور ابی الحسن الرضا سے تعبیر کیا ہے،پھر مزیدفرماتے ہیں کہ شیعہ ان حضرات کی روایات کی صحت پر اجماع رکھتے ہیں اور اصحاب أئمہ کے درمیان ان کے افقہ ہونے کا اعتراف کرتے ہیں ، شیخ نے ان کو تین طبقوں میں تقسیم کیا ہے:

پہلاطبقہ :

فقہائے اصحاب امام باقر،جیسے زرارہ ،معروف بن خربود ،بریدہ ابوبصیر اسدی ، فضیل بن یسارا ور محمد بن مسلم طائفی کہ زرارہ ان سب میں افقہ تھے یعنی سب سے بڑے فقیہ تھے ان لوگوں کا اصحاب امام صادق علیہ السلام میں بھی شمار ہو تا ہے

دوسرا طبقہ:

فقہائے امام صادق علیہ السلام ،جمیل بن درّاج ،عبداللہ بن مسکان، عبداللہ بن بکیر ، حماد بن عیسیٰ ا و رحماد بن عثمان ۔

۲۶۶

تیسرا طبقہ:

فقہائے امام کاظم اور امام رضا علیہما السلام ،یو نس بن عبدالرحمن، صفوان بن یحٰ ، بیاع السابری، محمد بن ابی عمیر ، عبداللہ بن مغیرہ ،حسن بن محبوب، احمد بن محمد بن ابی نصر۔(١)

ابن ندیم نے بھی چند شیعہ فقہا اور ان کی تالیف کردہ کتابوں کا تذکرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ وہ بزرگان ہیں کہ جنہوں نے فقہ کو امامو ں سے نقل کیا ہے کہ اس کے بعدابن ندیم نے ان کے نامو ں کا تذکرہ کیا ہے جو حسب ذیل ہیں :

صالح بن ابی الاسود ،علی بن غرّاب ، ابی یحییٰ لیث مرادی ، زریق بن زبیر، ابی سلمہ بصری ،اسماعیل بن زیاد ، ابی احمد عمربن الرّضیع ،دائود بن فرقد ، علی بن رئاب ، علی بن ابراھیم معلی،ہشام بن سالم ، محمد بن حسن عطار، عبدالمومن بن قاسم انصاری سیف بن عمیرہ نخعی ، ابراھیم بن عمر صنعانی ، عبداللہ بن میمون قداح، ربیع بن ا بی مدرک، عمر بن ابی زیاد ابزاری، زیکار بن یحیی واسطی، ابی خالد بن عمرو بن خالد واسطی ، حریزبن عبدللہ ازدی سجستانی ، عبداللہ حلبی، زکریا ی مومن ثابت ضرری ، مثنیٰ بن اسد خیاط، عمر بن اذینہ، عمّار بن معاویہ دہنی عبدی کوفی ، معاویہ بن عمّار دہنی، حسن بن محبوب سراد، ان بزرگوں میں سے ہر ایک نے فقہ میں کتاب تحریر کی ہے۔(٢)

____________________

(١)شیخ طوسی، رجال کشی،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، قم، ج ٢ ص ٥٠٧۔ ٣٧٦۔٨٣٠

(٢) طوسی، ابی جعفر محمد بن حسن ، بن علی،الفہرست ،دار المعرفة للجماعة والنشر ، بیروت، ص ٣٠٨

۲۶۷

علم کلام

ان اعتقاد کے مجموعہ کا نام علم کلام ہے جن پر ہر مسلمان کو یقین رکھناضروری ہے،دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ علم کلام ایک ایسا علم ہے جو اصول دین میں تحقیق و گفتگو کا متکفل ہوتا ہے اصول دین میں پہلا اختلاف مسئلہ امامت میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے فوراً بعد وجود میں آیا ، شہر ستانی کاکہناہے: اسلام میں اہم ترین اختلاف امامت کے سلسلہ میں ہے امامت کی طرح کسی دوسرے دینی مسئلہ میں تلواریں نہیں کھینچی گئی۔(١)

نوبختی کا بھی بیان ہے:رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خُداربیع الاوّل ١٠ ھ(١) میں دنیا سے گئے آپ کی عمر ترسٹھ سال تھی ا ور مدّت نبوت تیئس سال تھی ، اس وقت امّت اسلام تین فرقوں میں تقسیم ہو گئی ، ایک فرقہ کا نام شیعہ یعنی شیعان علی ابن ابی طالب تھا،شیعوں کی تمام قسمیں ان سے وجود میں آئی ہیں ،دوسرا فرقہ جس نے حکومت وامارت کا دعویٰ کیا وہ انصار تھے ، تیسرا فرقہ ابو بکر بن ابی قحافہ کی طرف مائل ہو گیا اور کہا: پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی کو اپنا جانشین نہیں بنایا ہے اور اس کا اختیار امت کو دے دیا ہے۔(٣)

اس بناپراس وقت سے مسلسل شیعوں اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان امر امامت کے سلسلہ میں احتجاج بحث و مباحث نیز گفتگو کا سلسلہ جاری ہے لیکن دوسرے اصول اور مبانی میں اختلاف پہلی صدی کے آخر اور دوسری صدی کے اوائل

____________________

(١) ملل ونحل، شہرستانی ، منشورات الشریف الرضی قم ، طبع دوم ١٣٦٤ھ ج ١ ص ٣٠

(٢) مشہور یہ ہے کہ رسول خدا نے اٹھائیس صفر کو رحلت فرمائی

(٣)نو بختی ابن ابی محمد حسن بن موسیٰ، فرق الشیعہ، مطبع حیدریہ نجف ١٣٥٥ ، ١٩٣٦ ص ٢۔ ٣

۲۶۸

میں وجود میں آیا ہے ، جیسا کہ شہرستانی کا بیان ہے: اصول میں اختلاف صحابہ کے آخری ایّام میں ہوا ،معبد جہنی، غیلان دمشقی اور یونس اسواری نے خیر و شر کے سلسلہ میں قدر جیسے قول کی بدعت جاری کی ہے اورو اصل بن عطا جوحسن بصری کا شاگرد ہے اور عمر بن عبید نے قدر میں کچھ چیزوں کا اضافہ کیا ہے۔(١)

وہ کلامی فرقے جو اس دور میں تھے حسب ذیل ہیں :

وعیدیہ ، خوارج،مرجئہ اور جبریہ، البتہ کلامی بحث اس وقت عروج پر پہنچی جب واصل بن عطا، حسن بصری سے علیحدہ ہوگیااور مذہب معتزلہ کی بنیاد رکھی ،(٢) مکتب معتزلہ کہ جو زیادہ تر عقلی استدلال پر مبنی تھا اہل حدیث کے مقابلہ میں قرار پایا کہ جسے حشویہ کہا جاتا ہے ابوالحسن اشعری تیسری صدی ہجری کے آخر میں مکتب معتزلہ سے جدا ہو گیا اور مذہب اہل حدیث کا عقلی بنیادوں پردفاع کیا اور اس کا مذہب ،مذہب اشعری کے نام سے موسوم ہو گا ۔(٣)

اس کے بعد معتزلی مذہب نے پیشرفت نہیں کی اور اہل حدیث کے مقابلے میں عقب نشینی اختیار کی اس حد تک کہ اس وقت اہل سنّت کے درمیا ن رائج کلام اشعری کاکلام ہے، کلام شیعہ مسلمانوں کے درمیان سابق ترین کلامی مکتب ہے، شیعوں کے پہلے امام معصوم حضرت علی نے اعتقادی مسائل جیسے توحید قضاو قدر ، جبرو اختیار کے بارے میں گفتگو کی اور اس طریقے کے مطالب حضرت کی زبان سے نہج البلا غہ میں جمع ہوئے

____________________

(١) شہرستانی، ملل و نحل ، منشورات الشریف الرضی ، قم طبع دوم ١٣٦٤ ھ ج ١ ص ٣٥

(٢)ملل ونحل، شہرستانی ، ص ٥٠٠

(٣)شہرستانی، ملل و نحل ، ص ٨٥۔٨٦

۲۶۹

ہیں ، لیکن شیعوں کے درمیان امامت کے سلسلہ میں کلامی گفتگو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے فوراًبعد حضرت علی کی حقانیت کے دفاع میں شروع ہو گئی تھی ،شیخ صدوق کے مطابق جنہوں نے سب سے پہلے سقیفہ کے مقابلہ میں حضرت علی کے حق سے دفاع کیا وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بزرگ اصحاب میں سے بارہ افراد ہیں کہ جنہوں نے سقیفہ کے چند روز بعد مسجد نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ابو بکر کے خلاف احتجا ج کیا اور ابو بکر ان کے جواب میں عاجز و نا تواں نظرآئے۔(١)

ان کے بعد بھی ابوذر غفّاری جیسے شخص، امیرالمومنین کے حق کے غاصبوں کے مقابلہ میں خاموش نہیں بیٹھے، عثمان نے خوف کی وجہ سے ان کو شام اور ربذہ شہر بدر کردیا ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ابن عم حضرت علی کے شاگرد ابن عباس (مفسر قرآن، عظیم دانشور اوربر جستہ ہاشمی سیاست مدار)مکتب تشیع کے مدافعین میں سے تھے اور مستقل حقانیت علی کی جانبداری کرتے تھے یہاں تک کہ عمر نے ان پر اشکال واعتراض کیا کیوں آپ کہتے رہتے ہیں کہ ہمارا حق غصب ہوا ہے ؟وہ آخر عُمر میں نا بینا ہوگئے تھے، ایک روز سنا کہ کچھ لوگ کہیں پر علی کو برا کہہ رہے ہیں اپنے بیٹے علی سے کہا میر ا ہاتھ پکڑ کر وہاں لے چلو ،جس وقت وہاں پہنچے ان کو مخاطب کر کے کہا تم میں سے کون خُدا کو بُرا کہہ رہا تھا: سب نے کہا: کوئی نہیں ، پھر سوال کیا تم میں سے کون رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو برا کہہ رہا تھا ؟سب نے کہا:کوئی نہیں پھر کہا :تم میں سے کون علی کو بُرا کہہ رہا تھا؟اس بار ان لوگوں نے کہا : ہم کہہ رہے تھے، ابن عباس نے کہا گواہ رہنا میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خُدا سے سنا ہے کہ جس نے

____________________

(١)شیخ صدوق، الخصال، منشورات جماعة المدرسین ، فی الحوزہ العلمیہ قم ١٤٠٣ ص ٤٦١، ٤٦٥

۲۷۰

علی کو برا کہا اس نے مجھ کو برا کہا اور جس نے مجھ کو برا کہا اس نے خُدا کو برا کہا اور خُدا کو برا کہنے والا جہنّم میں جائے گا، وہاں سے پلٹتے وقت راستے میں بیٹے سے کہا ان کو کس حال میں دیکھ رہے ہو،بیٹے نے یہ شعر پڑھا :

نظروا الیکٔ بأ عین محمره

نظرا لیتو س الیٰ شفار الجارز

آپ کو سُرخ آنکھوں سے دیکھ رہے تھے جیسے قربانی کے جانورکی نگاہ قصّا ب کی چھری پر ہو تی ہے، ابن عبّاس نے کہا :آگے پڑھو ، کہا:

خزر الحواجب نا کسی اذقا نهم

نظرالذلیل الیٰ العزیز القادر

ان ابرواوران کی بھویں چڑھی ہوئی تھیں منہ پچکا ہوا تھا، اس طرح آپ کو دیکھ رہے تھے جیسے ذلیل قدرتمند کودیکھتا ہے ۔

ابن عبّاس نے کہا: مزید کہو،بیٹے نے جواب دیا: دوسری چیزیں بیان نہیں کرسکتا، ابن عبّاس نے خود یہ شعر پڑھے:

احیا ؤ هم خزی علیٰ امواتهم

والمیّتون فضیحة للغابر(١)

ان کے زندہ ان کے مرنے والوں کے لئے ذلت کا باعث ہیں اور ان کے مرنے والے گزشتہ لوگوں کے لئے توہینکا سبب ہیں ۔

____________________

(١)شیرازی سید علی خان ، الدرجات الرفیعہ، منشورات مکتبہ بصیرتی ،قم ، (بی تا)ص ١٢٧

۲۷۱

اصحاب امیر المو منین میں سے بعض بزرگان جیسے صعصعة بن صوحان، میثم تمّار،کمیل بن زیاد ، اویس قرنی ، سلیم بن قیس ،حارث حمدانی اور اصبغ بن نباتہ نے بھی امیرالمومنین کے حق کا دفاع کیا اور اس بارے میں حضرت کے دشمنوں سے احتجاج کیا ، لیکن شیعوں میں سب سے پہلے علم کلام میں کس نے کتاب لکھی یہ تحقیقی موضوع ہے، ابن ندیم و ابن شہر آشوب کے مطابق علی بن اسماعیل بن میثم تمّار کلام شیعہ کے پہلے مصنف ہیں ،انہوں نے اس بارے میں کتاب امامت اور کتاب استحقاق لکھی ہے۔(١)

لیکن مرحوم سیّد حسن صدر علم کلام میں پہلے مصنف عیسیٰ بن روضہ کو جانتے ہیں ۔(٢)

البتہ کلام شیعہ کی قدیم ترین کتاب جوآج بھی دسترس میں ہے، کتاب ''الایضاح '' ہے جس کے مصنف فضل بن شاذان متوفی ٢٦٠ھ ہیں جو امام ہادی اور امام حسن عسکری کے صحابی تھے ،امام صادق کے دور میں علم کلام نے بھی دوسرے تمام علوم کی طرح ترقی پائی اور حضرت کے چند شاگرد جیسے ہشام بن حکم ،ہشام بن سالم، مومن طاق ، فضال بن حسن ، جابر بن یزید جعفی وغیرہ اس موضوع میں سب زیادہ برجستہ اورنمایاں تھے اور اس سلسلہ انہوں نے میں اپنی کتابیں چھوڑی ہیں ان کا دوسرے مکاتب کے دانشمندوں سے مناظرہ ہوتا تھا ، فضل بن شاذان نیشاپوری متوفی ٢٦٠ھ ممتاز ترین شیعہ متکلم تھے، انہوں نے امام رضا امام جواد اور امام ہادی کے زمانے کو درک کیا ہے اور کلام و عقائد اور منحرف مذاہب

____________________

(١) ابن ندیم گزشتہ حوالہ ، ص ٢٤٩، اور ابن شہر آشوب ، معالم العلماء ، منشورات مکتبة الحیدریہ ، نجف ١٣٨٠ھ ١٩٦١م ص ٦٢

(٢)تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام، منشورات الاعلمی ، تہران ص ٣٥٠

۲۷۲

کے خلاف کافی کتابیں لکھی ہیں ۔(١)

حسن بن نو بختی متوفی ٣١٠ ھ شیعہ متکلمین میں سے تھے ان کی جملہ کتابوں میں سے ایک فرق الشیعہ ہے ۔(٢)

____________________

(١)نجاشی، فہرست اسماء مصنفی الشیعہ، نجاشی موسسة الاسلامی تابعة لجماعة المدرسین ، قم ١٤٠٧ھ ، ص٣٠٦

(٢) فہرست اسماء مصنفی الشیعہ، نجاشی موسسة الاسلامی التابعة لجماعة المدرسین ، قم ١٤٠٧ھ ص ٦٣

۲۷۳

آٹھویں فصل

شیعیت کے فروغ میں شیعہ شاعروں کا کردار

شیعہ شعرا ء اور اشعار کی اہمیت

گزشتہ زمانے میں شعر کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی اشعار اپنے ادبی اور فنی پہلوئوں سے قطع نظر تبلیغی امور کا اہم ترین ذریعہ ہوا کرتے تھے اورجو کام آج اخبار ریڈیو ٹیلی ویژن انجام دیتے ہیں وہ کام اشعار کے ذریعہ لیا جاتا تھا، زمانۂ جاہلیت میں عرب قوموں کے درمیان یہ چیز بہت زیادہ قابل اعتناء تھی کیونکہ وہ فصاحت و بلاغت اورحُسن کلام کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے،یہی وجہ ہے کہ قرآن کے اہم ترین اعجاز کا ایک پہلو اس کی فصاحت و بلاغت ہے، اسی وجہ سے عربوں کے درمیان شعرکو ایک خاص اہمیت حاصل تھی ،جیسا کہ یعقوبی کا اس بارے میں کہنا ہے :

عرب لوگ شعر کو علم وحکمت کے برابر اور ہم پلہ جانتے تھے جس وقت کسی قبیلہ میں کوئی نکتہ سنح شاعر اورسخنور ظاہر ہوتا تھاتو اس کے لئے سالانہ کے بازاروں اور مراسم حج جیسے اجتماعات میں شرکت کا موقع فراہم کرتے تھے تاکہ وہ شعر پڑھے اور اس کے شعر کو دوسرے قبیلہ والے سنیں اور اس پر فخر کریں ، عرب اپنے تمام امور کے لئے شعر کا سہارا لیتے تھے شعر کے ذریعہ دشمنی کرتے تھے شعر کے ذریعہ مثال پیش کرتے تھے شعر کے ذریعہ ایک دوسرے پر افتخار کر تے تھے،ایک دوسرے کی عیب جوئی کرتے

۲۷۴

تھے اور ایک دوسرے کی مدح وثنا کرتے تھے۔(١)

سقیفہ کی تشکیل اور تشیع کی صف علیحدہ ہونے کے بعد عربی اشعار نے اپنی حیثیت محفوظ کر لی اور شیعیان علی نے اپنے امر امامت وولایت میں اپنے نظریات کی وسعت کے لئے اس سے فائدہ اٹھایا اور شیعہ مدافعین ولایت مکتب تشیع کی حقانیت میں کہ جس کا اصلی مقصد خلافت کے باب میں امیر المومنین کی حقانیت کوثابت کرنا ہے، اشعار کہااور اس نے تشیع کی وسعت اورفروغ میں اہم رول ادا کیا،زبیر بن بکار جوشیعہ مخالف رجحان رکھتا تھااس کے باوجود اس نے کچھ اشعار کو ذکر کیا ہے منجملہ اشعار میں سے عتبہ بن ابی لہب کے اشعار ہیں :

ما کنت احسب ان الامر منصرف

عن هاشم ثم منها عن ابی حسن

میں نے سو چا بھی نہیں تھا کہ خلافت کو بنی ہاشم سے اور ان کے درمیان ابوالحسن(علی )سے چھین لیا جائے گا۔

الیس او لیٰ من صلّی لقبلتکم

واعلم الناس بالقرآن والسّنن

کیا وہ پہلا شخص نہیں ہے کہ جس نے تمہارے قبلہ کی طرف نماز پڑھی اور قرآن و سنت کو سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔

____________________

(١)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی،منشورات شریف الرضی،قم،ج١،ص٢٦٢

۲۷۵

واقرب الناس عهداًبالنبی ومن

جبریل عون له فی الغسل والکفن

کیا وہ آخری فرد نہیں ہے جس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا؟کیا وہ شخص وہ نہیں ہے کہ جبرئیل نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غسل و کفن میں جس کی مدد کی ہے؟

ما فیه وما فیهم لا یمترون به

ولیس فی القوم مافیه من الحسن

کیوں نہیں اپنے اور علی کے درمیان فرق قائل ہوتے لوگو ں کے درمیان کوئی ایسا نہیں ہے جوعلی کے مانند فضائل رکھتا ہو۔

ماذا الذی ردهم عنه فتعلمه

ها ان ذاغبنا من اعظم الغبن(١)

اس سے منصرف ہونے کی علت کیا ہے؟ ان کو اس مطلب سے آگاہ کرو کہ یہ ہمارا بہت بڑا نقصان ہے۔

ائمہ طاہرین بھی شعر کے استعمال کی ضرورت اوراس کے نفوذ سے کاملاً آگاہ تھے اور شیعہ شعراء کا بے حد احترام و اکرام کرتے تھے، ایک روز کمیت اسدی امام باقرکی خدمت میں حاضر ہوئے اور قصیدہ میمیّہ پڑھنا شروع کیا جس وقت اس شعر پر پہنچے :

وقتیل با لطف غودر منهم

بین غوعاء امة وطغام

سر زمین طف (کربلا)میں ذلیل اور پست صفت لوگوں کے درمیان انہیں شہیدکردیا گیا جو عظیم تھے۔

____________________

(١)زبیر بن بکار،الاخبار الموفقیات،منشورات الشریف الرضی،قم،١٤١٦ھ ،ص ٥٨١

۲۷۶

امام باقرعلیہ السلام نے گریہ کیا اور فرمایا ،اے کمیت! اگر ہمارے پاس ثروت ہوتی ہم تمہیں عطا کرتے لیکن جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حسان بن ثابت کے لئے فر مایاتھا وہی میں تم سے کہتا ہوں جب تک تم ہم اہل بیت کا دفاع کرو گے اس وقت تک روح القدس کے ذریعہ تمہاری تائید ہوتی رہے گی ۔(١)

اسی طرح امام صادق فرماتے ہیں : اے شیعو! اپنی اولاد کو عبدی(٢) کے اشعار سکھائو کیونکہ وہ خدا کے دین پر ہیں ۔(٣)

اسی وجہ سے حقیقت گو شعراء شیعوں اور دوستداران پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک قابل احترام و اعتبار تھے جیسا کہ ابن المعتز نے نقل کیا ہے قم کے لوگ پچاس ہزار درہم سا لانہ شیعہ شاعر دعبل خزاعی کو ا دا کرتے تھے۔(٤)

____________________

(١)مسعودی علی بن الحسین،مروج الذہب،منشورات مو سسہ الاعلمی للمطبوعات بیروت، ج٣، ص٢٥٤

(٢)عبدی امام صادق کے اصحاب میں سے تھے ان کا نام رجال کشی میں سفیان بن مصعب اور ان کی کنیت ابو محمدذکر ہوتی ہے ،شیخ طوسی، اختیار معرفة الرجال ،مئوسسة الآل البیت لاحیاء التراث قم، ١٤٠٤ھ، ج٢،ص٧٠٤،ابن شہرآشوب نے صفیان بن مصعب کو اہل بیت کے شعرا ء کے طبقہ میں ذکر کیا ہے اور شعرا کے طبقہ میں (مجاہر)اس کے نام کوغلطی سے علی بن حماد عبدی کے نام سے ذکرکیاہے) (معالم العلما،منشورات المطبعةالحیدریہ،النجف،١٣٠٨ہجری،١٩٦١م،ص١٤٧و١٥١)

(٣)ابن شہرآشوب ، گزشتہ حوالہ ،ص١٤٧

(٤)ڈاکٹر شوقی ،ضیف تاریخ الادب العربی العصر العباسی الاول،دارالمعارف ،مصر،ص٣٢١

۲۷۷

اسی بنا پر شیعہ شعرا ء بنی عباس اور بنی امیہ جیسے دشمن حاکموں کی طرف سے مستقل آزارو اذیت کا شکارتھے ،کمیت بن زیدی اسدی نے جو اشعار اہل بیت کی مدح اور ان کے غم میں کہے تھے اس کی بنا پر بنی امیہ نے ان کوزندان میں ڈال دیا(١) سدیف بن میمون(٢) نے محمد نفس زکیہ کی مدح میں اشعار کہے تھے۔(٣) جس کی بنا پر منصور عباسی کے غضب کانشانہ بنے مدینہ کے حاکم عبد الصمد بن علی نے منصور کے حکم سے سدیف کو زندہ در گور کر دیا۔(٤)

اسی طرح ابراہیم بن ہرمہ جو شیعوں کے شیرین سخن شعرا ء میں سے تھے اور اہلبیت کی مدح میں کافی اچھے اشعارکہے تھے جس وقت وہ منصور عباسی کے در بار میں داخل ہوئے منصور نے ان سے تند لہجہ میں کہا :اگر اس کے بعد ایسے اشعار کہے جو ہماری پسندکے نہ ہوئے تو تم کو قتل کردوں گا۔(٥)

____________________

(١)ابو الفرج اصفہانی ،الاغانی،دار احیاء التراث العربی،بیروت،ج١٧،ص١۔٨

(٢)سدیف بن میمون امام سجاد کے مدّاح اور ماننے والوں میں سے تھے، ابن شہر آشوب نے آپ کو اہلبیت کا چاہنے والا اورمیانہ رو لوگوں کی فہرست میں قرار دیا ہے انہوں ہی نے پہلے عباسی خلیفہ سفاح کو بنی امیہ کے باقی افراد کے قتل پراپنے اشعار کے ذریعہ تحریک کیا تھا ،امین ،سید محسن ، اعیان الشیعہ دارالتعارف للمطبوعات، بیروت، ج١ ص١٦٩

(٣)یہ امام حسن کے پوتوں میں سے تھے اور آپ کے باپ عبد اللہ بن حسن مثنیٰ تھے بنی امیہ کے آخری دور میں بنی ہاشم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی لیکن امام صادق کاخیال یہ تھا کہ ان کا کام انجام کو نہیں پہنچے گا ،عباسیوں کے خلافت پر آنے کے بعد عباسی خلیفہ کے دوسرے دور میں منصور نے مدینہ میں قیام کیا لیکن عباسی طاقت کے سامنے وہ شکست کھا گئے اور قتل ہو گئے )

(٤) ابن عبدربہ اندلسی،العقدالفرید،دار احیاء التراث العربی ،بیروت،ج٥،ص ٧٢۔٧٣

(٥)اسد حیدر ،امام صادق و مذاہب اربعہ،دار الکتاب عربی بیروت ، طبع سوم ،١٤٠٣ ھ ج١،ص٤٥٢

۲۷۸

ہاں بہت سے شاعر ایسے بھی تھے جو جان کی پراوا نہیں کرتے تھے جان کو خطرے میں ڈال کر اشعار کہتیتھے،جیسے دعبل کہتے ہیں پچاس سال سے پھانسی کے پھندے کو گلے میں ڈالے پھر رہا ہوں کوئی نہیں ہے جو مجھے پھانسی دے۔(١)

غیبت صغریٰ تک کے شیعہ شعراء

جیسا کہ پہلے اشارہ کر چکے ہیں کہ سقیفہ کی تشکیل کے پہلے ہی روز سے شعراء کے درمیان ایسے حقیقت گو شعرا ء پیدا ہوئے کہ جنہوں نے اپنی نوک زبان کے ذریعہ مکتب تشیع کا دفاع کیاامیرالمو منین کے دور حکومت میں جنگ جمل و صفین میں ان عراقی شعرا کے علاوہ کہ جوپیروان علی میں سے تھے حضرت کے بہت زیادہ اصحاب جیسے ،عمار یاسر،خزیمہ بن ثابت،ابو ایوب انصاری،ابن عباس وغیرہ نے امیرالمومنین کے حق کے دفاع میں اشعار پڑھے۔

بنی امیہ کے دور میں بھی چند شعرا نے خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنی وا بستگی کا ثبوت دیا لیکن بنی امیہ کے زمانے میں بنی عباس کے زمانے کی بہ نسبت کم شعراء تھے کیونکہ بنی امیہ کے زمانہ میں شیعہ معاشرہ پر شدیدگھٹن کاچھایا ہوا حاکم تھا جیسا کہ ابوالفرج اصفہانی کا بیان ہے:وہ شعراء جو بنی امیہ کے دور میں تھے انہوں نے امام حسین کے مرثیہ میں کم اشعار کہے ہیں ۔(٢)

____________________

(١)الشکعة ،ڈاکٹرمصطفیٰ ،الادب فی موکب الحضارةالاسلامیہ کتاب الشعراء،دار الکتاب اللبنانیہ، ص ١٦٢۔٣٦٣

(٢)ابوالفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین،منشورات شریف الرضی ،قم ص١٢١

۲۷۹

جس وقت کمیت اسدی نے قبیلۂ بنی ہاشمکی مدح و ثنا کی تو عبداللہ بن معاویہ نے کہ جو جعفر طیّار کی اولاد میں سے تھے بنی ہاشم کو مخاطب کر کے کہا: اے بنی ہا شم !جس وقت لوگ تمہاری فضیلت بیان کرنے سے سکوت اختیار کئے ہوئے تھے اس وقت کمیت نے تمہارے بارے میں اشعار کہے اور بنی امیہ کے مقابلہ میں اپنی جان کی بازی لگا دی یہی اشعار ان کے گرفتاری کا باعث بنے اور انہیں شہید کر دیا گیا ۔(١)

ان سے پہلے فرزدق بھی امام سجادکی مدح و ثنا کرنے کی بنا پر بنی امیہ کے زندان میں گرفتار ہو چکے تھے۔ ( ٢)

بنی عباس کا دور میں حقیقت گو شعراء کے لئے بہت زیاد ہ حساس تھا لیکن چونکہ شیعہ معاشرہ بنی عباس کے دور میں وسیع ہو چکا تھالہذا بنی امیہ کے زمانہ کی بہ نسبت ان پر کم کنٹرول ہوسکا آہستہ آہستہ جب بنی عباس کمزور ہوگئے تومکتب تشیع کے دفاع میں بہت سے شعرا ئظاہر ہوئے جیسا کہ ڈاکٹر شوقی ضیف کا کہنا ہے:''عباسیوں کے دوسرے دور میں بہت سے شیعی اشعار کہے گئے، اور شیعہ شعراء اس دور میں دو گروہ میں بٹے ہوئے تھے ایک علوی شعرا ء دوسرے غیر علوی شعراء۔(٣)

شیعہ شعراء کی تعداد کے بارے میں بزرگ دانشور ابن شہر آشوب ،علی خان شیرازی اور مرحوم علامہ امینی نے تحریرکیا ہے،لیکن اس سلسلے میں جامع ترین کارنامہ سید محسن

____________________

(١) ابو الفرج اصفہانی ،الاغانی،دا راحیاء التراث العربی ،بیروت،ج١٧،ص١۔٨

(٢)قطب الدین راوندی الخرائج والجرائح مؤسسہ امام المہدی ،قم،طبع ١،١٤٠٩ھ ،ج١ ص٢٦٧

(٣) ضیف ،شوقی ،تاریخ الادب العربی العصرالعباسی الثانی ،دار المعارف بمصر،ص٣٨٦

۲۸۰