تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک0%

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 328

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف: غلام حسن محرمی
زمرہ جات:

صفحے: 328
مشاہدے: 86552
ڈاؤنلوڈ: 4745

تبصرے:

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86552 / ڈاؤنلوڈ: 4745
سائز سائز سائز
تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف:
اردو

ا س موقع پر ان اشعار کا جواب فضل بن عباس بن عبدالمطلب نے اس طرح دیا:

اتطلب ثاراًلست منه ولا له

وما لابن ذکر ان الصفوری والوتر

کیا تم اس کے خوں خواہ ہو جس کے ساتھ تمہاری کوئی رشتہ داری نہیں ہے ابن ذکران صفوری کہاں ؟ اور خوں خواہی عثمان کہاں ؟!

کما افتخرت بنت الحمار بامّها

وتنسی اباها اذا تسامی اولو الفخر

تمہاری مثال اس خچر کی طرح ہے جو مقام فخر میں اپنے باپ گدھے کوتو بھول گیا ہے مگر اپنی ماں گھوڑی پر افتخار کرتا ہے۔

الا ان خیرالناس بعد نبیهم

وصی النبی المصطفی ٰعند ذی الذکر

آگاہ ہو جائو!پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد خدا کے نزدیک نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین سب سے افضل ہیں ۔

واول من صلی وصفو نبیه

واول من اردی ا لغواه لدی بدر(١)

وہ پہلا نماز گزار اور نبی کا بھائی ہے اور اسی نے سب سے پہلے بدر میں ظالموں کو بھگایا۔

____________________

(١)ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ، ج ٢،ص١١٤

۳۰۱

جنگ جمل میں بنی امیہ کے طرفدار اور عثمانی افراد اپنی تحریک کی تائید میں اور اپنے دوستوں کو جوش دلانے کے لئے رجز پڑھتے تھے اصحاب امیرالمومنین بھی ان کے مقابلہ میں جواب دیتے تھے جواب دینے والوں میں عمار یاسر اور مالک اشتر تھے ، مثلاً قبیلۂ بنی ضبہ کے چند افرادجو عائشہ کے اونٹ کو گھیرے میں لئے ہوئے اونٹ کی لگام پکڑے تھے اور قتل ہورہے تھے آخری آدمی نے جب اونٹ کی لگام پکڑی تو اس طرح کہا:

نحن بنو ضبه اصحاب الجمل

ننعی ابن عفان باطراف الاسل

ہم بنی ضبہ یاران جمل ہیں اور اپنے نیزوں کے ذریعہ عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں ۔

ردوّا علینا شیخنا ثم بجل (١)

ہمارے بزرگ کوہماری طرف صحیح و سالم پلٹادو۔

مالک اشتر اس کی طرف دوڑے اور اس طرح کہا:

کیف نردّ نعثلاً وقد قخل

سارت به ام المنایا ورحل(٢)

ہم کس طرح نعثل کو پلٹائیں جب کہ وہ سڑ گیاہے اور بدن پر تلواریں لگنے کی وجہ سے مرگیا ہے یہ کہہ کر اس کو ضربت لگائی اور اس کو قتل کر دیا۔

____________________

(١)کتاب الجمل ، شیخ مفید ، مکتب الاعلام الاسلامی مرکز نشر ، ص ١١٨،

(٢)کتاب الجمل ، شیخ مفید ، مکتب الاعلام الاسلامی مرکز نشر ، ص ١١٨

۳۰۲

جنگ صفین میں جنگ کی مدت طولانی ہونے کی وجہ سے فوجی تصادم و پیکار کے علاوہ دونوں فوجوں میں شعری مقابلہ بر قرار تھا،نصر بن مزاحم نے مالک اشتر،خزیمہ بن ثابت، فضل بن عباس، قیس بن سعد ،عدی بن حاتم ،عمرو بن حمق خزاعی،حجر بن عدی کندی،نعمان بن عجلان انصاری،محمد بن ابی سبرہ قریشی،مغیرہ بن حارث بن عبد المطلب جندب بن زہیر ابو زبید طائی،احمر شاعر عراق،ابو حبة بن غزیہ انصاری وغیرہ جیسے بزرگوں کے اشعار کو نقل کیا ہے کہ جنہوں نے اہل شام کے شعرا ء کے مقابلہ میں شعرکہے:

خود امیر المومنین نے عمرو عاص جیسے افراد کے جواب میں شعر کہا ہے،ابن ابی الحدید کا کہنا ہے ،صفین میں اہل عراق کے منجملہ شاعروں میں سے ایک نجاشی تھا کہ جس کو حضرت علی نے حکم دیا تھا کہ اہل شام کے شعراء مثل کعب بن جعیل اور اسی کے مانند دوسروں کا مقابلہ کرے۔(١)

____________________

(١)ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ ،ج ٤،ص٨٧

۳۰۳

(٣ )مرثیہ گوئی

دوسرے اہم ترین موضوعات جس پر شیعہ شعرانے اپنی سخنوری میں بہت ہی وسیع پیمانہ پر طبع آزمائی کی ہے اور شعر کہے ہیں وہ خاندان پیغمبر کی مصیبت کویاد دلانا اور شہداء کے

لئے مرثیہ ہے یہ موضوع ٦١ ھ امام حسین کی شہادت کے بعد وجود میں آیا اسسلسلہ میں دو حصہ میں گفتگو کی گئی ہے ۔

(الف) امام حسین اور شہدائے کربلا کے مراثی

آغاز اسلام سے آج تک تا ریخ اسلام میں واقعہ کربلا سے زیادہ درد ناک واقعہ پیش نہیں آیا چودہ سو سال گذرنے کے بعد بھی ابھی تک مومنین کے دلوں میں اس کی تاثیر موجودہے اس زمانے سے اہل بیت کے چاہنے والوں نے اپنی توا نائی کے مطابق اس سلسلے میں اشعار کہے ہیں ۔

حادثۂ کربلا کے بارے میں بہت زیادہ اشعار پہلی صدی ہجری کے اختتام بعد اور بنی امیہ کا زوال کے دور میں کہے گئے ہیں جیساکہ ابو الفرج اصفہانی کا بیان ہے کہ بہت سے متاخرین شعراء نے امام حسین کے لئے مرثیہ کہے ہیں ، بحث کے طویل ہونے کی وجہ سے ہم ان اشعارکوذکر نہیں کرسکتے، لیکن بنی امیہ کے دور میں بنی امیہ کی طرف سے سختی کی بنا پراس وقت کے شعراء نے امام حسین کے بارے میں بہت کم مرثیے کہے ہیں ۔(١)

جیسے عبیداللہ بن حربہ امام حسین کا مرثیہ کہنے کی وجہ سے ابن زیاد کی زیادتی کا نشانہ بنے اور فرار کرنے پر مجبور ہوئے۔(٢)

اگر چہ پہلی صدی ہجری ہی میں امام حسین کے بارے میں کافی اشعار کہے گئے

____________________

(١)مقاتل الطالبین،منشورات الشریف الرضی،طبع دوم،١٤١٦ھ،١٣٧٤ ھ ش،ص١٢١

(٢)ابی مخنف ،مقتل الحسین ،تحقیق حسن غفاری ،قم،طبع دوم ،١٣٦٤ھ،ش،ص٢٤٥

۳۰۴

ہیں لیکن ان کا حجم دوسری صدی ہجری میں کہے گئے اشعار کی بہ نسبت بہت کم ہے ، سب سے پہلے بنی ہاشم کی داغ دیدہ خواتین نے اپنے عزیزوں کے بارے میں مرثیہ کہے ہیں ،جس وقت امام حسین کی خبر شہادت مدینہ پہنچی بنی ہاشم زینب بنت عقیل سے نالہ و شیون کرتی ہوئی باہرنکل آئیں ان کی زبان پر یہ اشعار تھے :

ماذا تقو لون اذ قال النبی لکم

ماذا فعلتم وانتم آخر الامم

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کیا جواب دوگے جب تم سے پوچھیں گے کہ اے آخری امت! تم نے کیا کیا؟

بعترتی وباهلی بعد مفتقدی

نصف اساری و نصف ضرٍّوجوابدم

میرے مرنے کے بعد میرے اہل بیت کے ساتھ تم نے کیاسلوک کیا؟ ان میں سے نصف کو اسیر کیا اور نصف کو خون میں نہلا یا۔

ما کان هذا جزائی اذ نصحت لکم

ان تخلفونی بشر فی ذوی رحمی(١)

کیا میری یہی جزا تھی؟! کہ میں تمہاری ہدایت کروں اور تم میرے اہل بیت کے ساتھ بد رفتاری کرو۔

من جملہ دل خراش مراثی میں سے شہدائے کربلا کے بارے میں سب سے زیادہ

دل خراش مرثیہ جناب ابو الفضل العباس کی والدہ ٔگرامی جناب ام البنین کا مرثیہ ہے ابوالفرج اصفہانی نقل کرتے ہیں : حضرت عباس کے فرزند عبید اللہ کا ہاتھ پکڑ کر جناب

ام البنین بقیع جاتی تھیں ،مدینہ کے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہو جاتے تھے اور ان کے مرثیہ پڑھنے سے رو تے تھے ،مروان بن حکم جیسا شخص بھی اس بانو کے مرثیہ پر رو پڑا۔(٢)

____________________

(١) مقتل الحسین،ص٢٢٧۔٢٢٨

(٢)ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین،منشورات شریف الرضی ، قم ، طبع دوم ، ١٤١٦ھ ١٣٧٤ھ ش، ص٩٠

۳۰۵

جناب ام البنین کے مرثیہ کے اشعار یہ تھے:

یامن رای العباس کر

علی جماهیر النقد

اے وہ لوگو! کہ جس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میرا عباس کس طرح پست صفت لوگوں پر حملہ کرتا تھا۔

و کل لیث ذی لبد

ورائه من ابناء حیدر

اس کے پیچھے فرزندان حیدر شیر کے مثل کھڑے رہتے تھے ۔

انبئت ان ابنی اصیب

براسه مقطوع ید

مجھے خبر دی گئی ہے کہ جب اس کے ہاتھ قلم ہوگئے تب سر پر گرز لگا ۔

ویل علیٰ شبلی اما

لبراسه ضر ب العمد

افسوس میرے بیٹے کے سر پر گرزگراں پڑا۔

لوکان سیفکٔ فی ید

یکٔ لمادنا منکٔ احد(١)

(اے عباس! )اگر تیرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو تیرے پاس کوئی نہیں آتا۔

____________________

(١)غفاری،حسن ،ذیل کتاب مقتل الحسین ابی مخنف،قم،١٣٦٤،ص١٨١

۳۰۶

جس وقت کربلا کے اسیروں کا کارواں مدینہ کی جانب چلا اور مدینہ کینزدیک پہنچا تو امام زین العابدین نے پہلے بشیر بن جذلم کو مدینہ بھیجا اور بشیر نے ان اشعار کے ساتھ اسیران اہل بیت علیہم السلام کے مدینہ میں داخلہ کی خبردی :

یا اهل یثرب لا مقام لکم بها

قتل الحسین فاد معی مدرار

اے اہل مدینہ! اب یہ جگہ تمہارے رہنے کے قابل نہیں رہی حسین قتل کردئیے گئے ان پر آنسو بہاؤ ۔

ا لجسم منه بکربلامضرّج

والرأس منه علیٰ ا لقناة یدار(۱)

ان کا جسم کربلا کی زمین پر خون میں غلطاں اور ان کا سر نیزہ کے اوپر بلند تھا۔

شاعروں کے درمیان خالدبن معدان،عقبہ بن عمرو،ابو الرمیح خزاعی،سلیمان بن قتہ عدوی ،عوف بن عبد اللہ احمر ازدی اور عبید اللہ بن حرّ پہلی صدی ہجری کے شعرا ء ہیں جنہوں نے مرثیہ گوئی کی ہے اور امام حسین کی مصیبت میں اشعار کہے ہیں جس وقت خالد بن معدان نے شام میں حضرت کاسر نیزہ پر دیکھا تو یہ اشعارپڑھے:

جائو ا براسک یا ابن بنت محمّد

مترملاً بد ما ئه تر میلا

اے نواسہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! آپ کے سر کو خون میں ڈوبا ہوا لائے۔

____________________

(۱)ابن طائوس ،لھوف،ترجمہ محمد دز فولی،موسسہ فرہنگی وانتشاراتی انصاری،قم،طبع اول ١٣٧٨،ص٢٨٤

۳۰۷

و کانّمابک یا ابن بنت محمّد

قتلوا جهاراًعامدین رسولا

اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نواسے! تمہیں علی الاعلان قتل کرکے چاہتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے انتقام لیں ۔

قتلوک عطشاناًو لم یترقبوا

فی قتلک التنزیل والتاویلا

آپ کو پیاسا قتل کیا اور آپ کے قتل میں قرآن کی تاویل و تنزیل کی رعایت نہیں کی ۔

ویکبرون بان قتلت وانّما

قتلو بک التکبیر و التهلیلا(١)

جب آپ قتل ہوئے تو تکبیریں بلند کیں حالانکہ آپ کے قتل ساتھ تکبیرو تہلیل کو بھی قتل کر دیا۔

گزشتہ شعرا ء میں عبید اللہ بن حر ہیں کہ جنہوں نے امام حسین کی مصیبت میں مرثیہ کہا ان کے مرثیہ کا پہلا شعر یہ ہے :

یقو ل امیرغادر ای غادر

ألا کنت قاتلت الشهید بن فاطمه

خائن کاامیر ،خائن کا بیٹا مجھ سے کہتا ہے کہ تم نے کیوں فاطمہ کے شہید فرزند کے ساتھ جنگ نہیں کی؟

ابن زیاد نے جس وقت ان اشعار کو سنا عبید اللہ کے پیچھے بھاگااس نے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنی جان بچائی۔(١)

سلیمان بن قتة من جملہ اہم ترین مرثیہ کہنے والوں میں سے تھے ان کے اشعار یہ ہیں :

مررت علیٰ ابیات آل محمّد

فلم أرهاکعهدهایوم حلّّت

میں آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھروں کی جانب سے گزرا اور ان کو پہلے کی طرح بھرا ہوا نہیں پایا۔

____________________

(١)الامین،سیدمحسن،اعیان الشیعہ،دارالتعار ف للمطبوعات،بیروت ( بی تا) ج١ ص ٦٠٢٣

(١)ابی مخنف،مقتل الحسین ،ص٢٤٥

۳۰۸

و کانوا رجائً ثمّ صاروا رزیّة

و قد عظمت تلکٔ الرّزایا وجلّت

آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امید کا گھر تھے اور بعد میں مصیبت کا محل بن گئے اور وہ بھی بزرگ اورعظیم مصیبتیں ۔

الم ترانّ الشمس اضحت مریضه

لفقد حسین والبلاد اقشعرّت

کیا تم نہیں دیکھتے سورج شہادت حسین سے مریض ہو گیا ہے اور شہرافسر دہ ہوگئے ہیں ۔

و قد اعولت تبکی السماء لفقده

وانجمها ناحت علیه و صلّت(١)

کیا تم نہیں دیکھتے آسمان نے امام حسین پر گریہ ونالہ کیا اور ستاروں نے نوحہ پڑھااور درود بھیجا ۔

پہلی صدی ہجری کے بعد اموی حُکّام کادبائو عبّاسیوں کے ساتھ اختلاف و ٹکرائو کی وجہ سے کم ہوا اور آخر کارامیوں کا عباسیوں کے ہاتھوں خاتمہ ہوا ائمّہ اطہار نے امام حسین کی مرثیہ گوئی کو زندہ کیا اور بزرگ شعرا جیسے کمیت اسدی،سید حمیری،سفیان بن مصعب عبدی،منصور نمری اوردعبل خزاعی ائمہ کے حضور میں امام حسین کی مصیبت میں اشعار پڑھتے تھے ۔

جیسا کہ سفیان بن مصعب عبدی نے نقل کیا ہے کہ میں امام صادق کی خدمت میں حاضر ہو اامام نے خادموں سے فرمایا: امّ فروہ سے کہو وہ آئیں اور سنیں ان کے جدامجد پر کیاگزری، امّ فروہ آئیں اور پشت پردہ بیٹھ گئیں ، اس وقت امام صادق نے مجھ سے فرمایا:پڑھو میں نے قصیدہ پڑھنا شروع کیاقصیدہ اس بیت سے شروع ہوتا ہے:

فرو جودی بدمعکٔ المسکوب

اے فروہ اپنی آنکھوں سے آنسو بہاؤ

اس موقع پر ام فروہ اور تمام عورتوں کی آواز گریہ بلند ہو گئی ۔(۲)

____________________

(١) ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین، ص ١٢١

(۲)علامہ امینی ، عبد الحسین ، الغدیر، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران ، ج٢ ص ٢٩٤۔٢٩٥

۳۰۹

اسی طرح ابوالفرج اصفہانی،اسماعیل تمیمی سے نقل کرتے ہیں کہ میں امام صادق کی خدمت میں تھا کہ سید حمیری امام سے اجازت لے کر داخل ہو ئے امام نے اہل خانہ سے فرمایا: پشت پردہ بیٹھ جائیں ، اس کے بعد سید حمیری سے امام حسین کی مصیبت میں مرثیہ پڑھنے کو کہا، سید نے ان اشعار کو پڑھا :

امرر علیٰ جدث الحسین

فقل لا عظمه الزکیه

امام حسین کی قبر کی طرف سے گذروتوان کی پاک ہڈیوں سے کہو ۔

یا اعظماًلازلت من

وظفاًوساکبه رویّه

اے ہڈیو سلامت رہو اور مسلسل سیراب ہوتی رہو۔

فاذا مررت بقبره

فاطل به وقف المطیّه

جس وقت ان کی قبرکے پاس سے گذرنا اونٹوں کے مانند دیر تک ٹھہرنا ۔

وابکٔ المطهرللمطهر

والمطهرة النقیه

امام مطہّر کو حسین مطہّرپر گریہ کراؤ ۔

کبکاء معوله اتت

یوماًلواحدها المنیة

اور تمہاراگریہ ایسا ہو جیسے ماں اپنے فرزند کی لاش پر روتی ہے۔

۳۱۰

راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ امام کی آنکھ سے آنسو جاری ہیں اور گھر سے بھی

رونے کی آوازیں بلند ہیں ۔(١)

کبھی کبھی دوسرے لوگ بھی جیسے فضیل رسان،ابو ہارون مکنوف وغیرہ سیدحمیری کے اشعار امام جعفر صادق کی خدمت میں پڑھتے تھے اور حضرت کو رلاتے تھے،ابن قولویہ کے مطابق امام صادق نے اپنے صحابی ابو عمار سے کہا: عبدی کے مرثیہ کے اشعار جو امام حسین کے بارے میں ہیں میرے سامنے پڑھو۔(٢)

دعبل خزاعی نے امام حسین کے لئے بہت سے مرثیہ کے اشعار کہے ہیں امام رضا علیہ السلام اپنے جد کا مرثیہ پڑھنے کے لئے ان کو بلاتے تھے۔(٣)

____________________

(١)علامہ امینی ، عبد الحسین ، الغدیر، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران ، ج٢ ص٢٣٥

(٢)علامہ امینی ، عبد الحسین ، الغدیر، دار الکتب الاسلامیہ ، تہران ، ج٢ ص٢٩٥

(٣) مسعودی ، علی ابن الحسین ،مروج الذہب،منشورات لاعلمی للمطبوعات ، طبع اول ١٤١١ھ، ج٣ ص ٣٢٧، رجال ابن دائود ، منشورات رضی ، قم ، ص ٩٢

۳۱۱

(ب)اولاد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دیگر تمام شہداء کے لئے مراثی

دل سوختہ شیعہ شاعر جس وقت جناب مسلم بن عقیل اور ھانی بن عروہ کے حالات کا مشاہدہ کرتا ہے تو یہ اشعار اس کی زبان پر جاری ہو جاتا ہے:

اذا کنت لا تدرین ما الموت فانظری

الیٰ هانی فی السوق وابن عقیل

اگر نہیں جانتے کہ موت کیا ہے تو ابن عقیل اور ھانی کے ساتھ بازار کی سیر کرواور دیکھو۔

الیٰ بطل قد هشّم السیف وجهه

وآخریهوی فی طمارقتیل

ایک جوان مرد کی صورت کو تلواروں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اوردوسرے کو بالاخانہ سے گرا کرشہید کردیاگیا۔

اصابها امر الامیر فاصبها

احادیث من یسعیٰ بکل سبیل

امیر کے حکم سے وہ ان مصیبتوں میں مبتلا ہیں اور ان کی خبریں مسافروں کی زبان پر جاری ہے۔

تریٰ جسداًوقد غیّر الموت لونه

ونضج دم قد سال کل مسیل

تم جس جسم کودیکھ رہے ہو موت نے ان کا رنگ بدل دیا ہے اور ہر طرف سے خون بہہ رہا ہے

ایترک اسماء المهایج آمناً

وقد طلبته مذ حج بذحول(١)

کیاقبیلۂ اسما ء مہاج امان میں رہ سکتے ہیں ؟ حالانکہ قبیلہ مذحج قصاص کے درپے ہیں ۔

____________________

(١) مسعودی ، علی بن الحسین ،مروج الذھب، ج٣ ص ٧١

۳۱۲

شاعر ا عشی حمدان نے طولانی قصیدہ کے ضمن میں شہدا ء توابین کے بارے میں اس طرح کہا ہے:

توجه من دون ثنیة سائرا

الیٰ ابن زیاد فی الجموع الکتائب

تمام فوجی دستہ ثنیہ کی طرف سے ابن زیاد کی طرف روانہ ہوئے ۔

فیاخیر جیش للعراق واهله

سقیتم روایا کل اسحم ساکب(١)

اے عراق کے بہترین سپاہ! تم نے ہر ابرباراں کو سیراب کیا ہے ۔

اسی طرح شیعہ شعراء نے زید بن علی کے بیٹے یحٰ اور امام حسن کے فرزند کہ جنہوں نے عباسیوں کے دور میں قیام کیا تھا اور شہید ہو گئے تھے،ان کے بارے میں شعر کہے ہیں ، اسی طرح علی بن عبداللہ خوافی،مشیع مدنی،اشجع بن عمر وسلمی اور ابو طالب قمی جیسے شعرا ء نے امام رضا کے بارے میں مرثیہ لکھا ہے۔(٢)

لیکن امام حسین کے بعد آل ابو طالب کے شہدا ء میں سب سے زیادہ اشعار یحٰ بن عمر طالبی کے بارے میں کہے گئے ہیں انہوں نے ٢٤٨ھ میں قیام کیا اور محمد بن عبداللہ ابن طاہر کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔(٣)

مسعودی کا بیان ہے : دور اور نزدیک والوں نے ان کے حال میں مرثیہ کہا ہے چھوٹے اور بڑے ان پر روئے ہیں ۔(٤)

____________________

(١)مسعودی ، علی بن الحسین ،مروج الذھب، ج٣ ص ١١٠

(٢)الامین، سید محسن ،اعیان الشیعہ، ص ١٧٠

(٣)مسعودی ، علی بن الحسین ،مروج الذہب، ج٤ ص ١٥٩۔١٦٠

(٤)مسعودی ، علی بن الحسین ،مروج الذہب، ج٤ ص ١٦٢

۳۱۳

ابو الفرج اصفہانی کا بیان ہے کہ آل ابی طالب کے فرزندوں میں کہ جو عباسیوں کے دور میں قتل ہوئے ہیں یحٰ بن عمر طالبی سے سے زیادہ کسی کے بارے میں اشعار ومرثیہ نہیں کہے گئے ہیں ۔(١)

(٤) خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فضائل و مناقب

دوسری صدی ہجری کے بعد شیعہ شعرا ء زیادہ تر فضائل امیر المومنین میں شعر کہتے تھے اور اس کے ذریعہ مذہب تشیع کی ترویج اور حضرت علی کی جانشینی اور امامت سے لوگوں کو آگاہ کرتے تھے،اس سلسلہ میں فر زدق ،کمیت اسدی ،حمیری،سفیان بن مصعب عبدی اور دعبل خزاعی سب سے آگے تھے ۔

سید حمیری نے اپنی زندگی کو فضائل علی بیان کرنے لئے وقف کردیا تھایہ اپنے دور میں مکتب تشیع کے بزرگ ترین مبلغ تھے ،اسی وجہ سے شیعوں کے نزدیک ان کا بہت زیادہ احترام ہے،ابو الفرج اصفہانی کے بقول انہوں نے تئیس سو، ٢٣٠٠ قصید ے بنی ہاشم کی مدح میں کہے ہیں اورکوئی بھی شعر اہل بیت کی مدح اور دشمنوں کی سر زنش سے خالی نہیں ہے، اسی طرح ابو الفرج اصفہانی کہتے ہیں : سیدحمیری کوفہ میں سلیمان بن مہران معروف بہ اعمش کے گھر جاتے تھے اور ان سے فضائل علی سنتے تھے اور ان کو لکھنے کے بعد شعر میں قلم بند کرتے تھے ۔

ابن معتزکا بیان ہے:سید حمیری نے حضرت علی کے تمام فضائل کو شعر میں تبدیل

____________________

(۱) ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، ص ٥١١

۳۱۴

کردیا ہے اور جس مجلس میں آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ذکر نہیں ہوتا تھاوہاں جلدی خستہ ہوجاتے تھے ، چنانچہ ایک شخص نے نقل کیا ہے کہ میں عمرو بن علاء کے پاس بیٹھا تھا کہ سید حمیری تشریف لائے ہم لوگ روز مرہ کی گفتگو میں سر گرم تھے سید اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اورجانے لگے اور جب ان سے اس کا سبب معلوم کیا گیا تو اس طرح جواب دیا :

انی لأکره ان اطیل بمجلس

لا ذکر فیه لفضل آل محمد

میں جس مجلس میں رہوں اس میں اگر آل نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ذکر نہ ہو تو وہاں میرے لئے بیٹھناباعث کراہت ہے ۔

لا ذکر فیه لأحمد و وصیه

و بنیه ذلکٔ مجلس نطف ردی

جس مجلس میں احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوران کے جانشین نیزان کی اولاد کا ذکر نہ ہو وہ مجلس بے ارزش ہے ۔

ان الذی ینساهم فی مجلس

حتی یفارقه لغیر مسدد(١)

جس نے ان کو اپنی مجلس میں بھلا دیا ہے وہ بغیر فائدہ کے اس مجلس سے جائے گا۔

اسی طرح ایک روز کوفہ کے امرا ء میں سے کسی نے ان کو گھوڑا اور کچھ تحفہ عطا کیا انہوں نے ہدیہ لیا اور گھوڑے پر سوار ہوئے اور کوفہ کے محلہ کنا سہ آئے اور شیعوں کو مخاطب

____________________

(١)ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ، ص ٢٤٢

۳۱۵

کرکے کہا: اے علی والو! اگر کوئی علی کے فضائل میں سے ایسی فضیلت پیش کرے کہ جس کے بارے میں میں نے شعر نہ کہا ہو تومیں یہ گھوڑا اور یہ تحفہ اس کو بخش دوں گا لوگوں نے ہر طرف سے مولا علی کی فضیلت کوبیان کرنا شروع کیا اورانہوں نے اس فضیلت کے بارے میں جو شعر کہا تھااسے پڑھ کر سنایا ان میں سے کسی نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا اور کہا: ایک روز علی نے چاہااپنی نعلین پہن کر گھر سے با ہر تشریف لے جا ئیں ایک نعلین پہنی تھی کہ عقاب(ایک پرندہ)آیا اور اپنی منقار(چونچ )سے دوسرے پیر کی نعلینلے کر آسمان کی طرف چلاگیا اور دوبارہ وہاں سے اس نعلین کو نیچے گرایا کہ جس ایک کالا سانپ نکلا اور سوراخ میں چلا گیا ،پھر حضرت نے اس نعلین کو پہنا،اس وقت سید حمیری نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا: میں نے اس کے متعلق ابھی تک کوئی شعر نہیں کہا ہے اس وقت اس شخص کو گھوڑا اورتحفہ بخش دیا اور یہ اشعار کہے:

الا یا قوم للعجب العجاب

لخفّ ابی الحسن وللحباب

اے لوگو! آ گاہ ہوجائو ابو الحسن کی نعلین کا یہ عجیب و غریب کارنامہ ہے۔

عدوّمن عدا ة الجن وغد

بعید فی المراد ه من صواب

کہ علی دشمنوں میں سے ایک جن نے کہ جو کم عقل اور راستے سے منحرف ہے۔

اتی خفاًله انساب فیه

لینهش رجله منه بناب

علی کی نعلین میں خود کو چھپایا تاکہ انہیں گزندپہنچائے۔

۳۱۶

لینهش خیر من رکب المطایا

امیر المؤمنین ابا تراب

اس بہترین شخص کو گز ند پہنچائے جو چار پایوں پر سوار ہوتا ہے یعنی امیر المومنین ابو تراب کو۔

فخرّمن السما له عقاب

من العقبان او شبه العقاب

اس وقت آسمان سے ایک عقاب یا عقاب کی شبیہ کوئی پرندہ نیچے آیا۔

ودوفع عن ابی حسن علی

نقیع سمامه بعد انسیاب(١)

اور اس پر حملہ آور ہوااس طرح سے ابوالحسن علی سے زہرا ورشر دفع ہوگیا۔

سفیان بن مصعب عبدی کا شمار منجملہ ان شعراء میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنی عمر کو ذکر علی میں صرف کر دیا ،علامہ امینی ان کے بارے میں کہتے ہیں :آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ کسی کی مدح میں میں نے ان کے ایک شعر بھی نہیں دیکھے، خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فضائل و مناقب کی حدیثیں امام صادق سے یاد کرتے تھے اور فوراً ان کو شعر کے قالب میں ڈھال لیتے تھے۔(١)

ابن شہر آشوب نقل کرتے ہیں : امام صادق نے فرمایا :اے گروہ شیعہ! اپنی اولاد کو عبدی کے اشعار کی تعلیم دو کیونکہ وہ دین خدا پر ہیں ۔

____________________

(١)ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین، ص ٢٤١۔٢٤٢

(٢)ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین، ص ٢٩٥

۳۱۷

(٥)خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دشمن کی ہجو

دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک راستہ تبلیغ ہے جو آج کی دنیا میں ارتباط کی صورت میں پورے طور پر رائج اور معمول ہے،گذشتہ زمانے میں بھی شعر کے دائرے میں تبلیغ کے سلسلہ میں مہم ترین تاثیر قائم تھی ،شیعہ شعرانے بھی اپنے اشعار کے ذریعہ اصل تشیع کا دفاع کیا ہے اور دشمنان اہل بیت کی ہجو کی ہے نیز موقع و مناسبت سے کچھ شعر کہہ کر اپنے دشمن کو ذلیل کیا اور ان کی کمر توڑ دی ہے ،معاویہ،ولید بن عقبہ و عمرو بن عاص جیسے لوگ جو دشمن خدا ورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے بارہشعراءے بنی ہاشم کی طرف سے مورد ہجو قرار پائے ہیں ، ایسے شعراء کہ جو نہیں چاہتے تھے کہ ان کے نام آئیں کہ جس کی وجہ سے منظر عام پربنی امیہ انہیں نقصان پہنچائیں انہوں نے یزید کی موت کے بعد یزید کی ہجواور مذمت کر کے شیعوں کے دل کو ٹھنڈا کیا اور اس طرح کہا:

یا ایها القبر بحوّارینا

ضممت شرّ الناس اجمعینا(١)

اے وہ قبر! جو حوارین میں ہے! دنیا کے سب سے بد ترین آدمی کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے،(حوارین ایک شہر ہے جہاں یزید کی قبر ہے)

____________________

(١)مسعودی ، علی بن الحسین ،مروج الذھب، منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات بیروت طبع اول ، ١٤١١ھ ،ج٣ ص ٦٥

۳۱۸

منجملہ بنی امیہ کی مذمت اورہجو میں بہترین اشعار کمیت بن زید اسدی کے ہیں

جوانہوں نے بنی امیہ کے بارے میں کہے ہیں :

فقل لبنی امیه حیث حلوّا

وان خفت المهندّوالقطیعا

بنی امیہ جہاں کہیں بھی ہوں ان سے کہوکہ تلوار، تازیانہ سے ڈریں ۔

اجاع اللّٰه من اشبعتموه

واشبع من بجورکم اجیعا

خدا اسے بھوکا رکھے جسے تو نے سیر کیا ہے اور خدا انہیں اسیر کرے جو تمہارے ظلم کی وجہ سے بھوکے رہے ہیں ۔

مبرضیّ السیاسة هاشمی

یکون حیالأمّته ربیعاً(١)

بنی ہاشم کی پسندیدہ سیاست امت کے لئے بہار زندگی فراہم کرنا ہے ۔

ڈاکٹر شوقی ضیف کا بیان ہے:شیعہ عراق، خراسان اور حجاز میں کمیت کے اشعار کو ایک دوسرے تک منتقل کرتے تھے اسی سبب سے امویوں اور ان کے حاکم یوسف بن عمر ثقفی نے کمیت کی جانب سے شدید خطرہ کا احساس کیا۔(٢)

ابو الفرج اصفہانی نے کمیت کے بارے میں کہا ہے:بنی امیہ کے طرف سے سختی اورپابندی کے دور میں ہر لحاظ سے کمیت اسدی شیعوں میں بہت بڑے شاعر تھے، وہ شعرا ء

____________________

(١)حافظ ابی عثمان عمر وبن بحر،البیان والتبیین،مطبعةلجنة التالیف والترجمة والنشر ، قاہرہ، طبع اول ، ١٣٦٧ھ،ق ١٩٤٨ ج٣ ص ٣٦٥

(٢)الشعر و طوابعہ الشبعیہ علی مرّ العصور، دار المعارف ، قاہرہ ،ص٣٦

۳۱۹

جو علی کے دشمن تھے اور بنی امیہ کے طرفدار تھے اور خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف شعر کہتے تھے، ان کا جواب دینے سے باز نہیں آتے تھے ۔

حکیم بن عباس کلبی جس نے علی کی ہجو کی تھی ا ور قحطانیوں میں اس کا شمار ہوتا تھا، کمیت نے اس پر شدت سے حملہ کیا اور اس کے اشعار کو بزرگان قریش اور عدنانیوں کے مدمقابل قرار دیااور اس طرح اس کی ہجو کی اور اس کو مغلوب کیا۔(١)

کبھی کبھی شعراء بغیر نام لئے حکومتی شعراکا جواب دیتے تھے اور ان کو ذلیل ورسوا کرتے تھے ،سعید بن حمید جو مستعین کے دور حکومت میں تھا اور حضرت علی و خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دشمن تھا مختلف مواقع پر شیعہ شعراء کی جانب سے مورد ہجو قرار پا یا ۔

اسی طرح شاعری کے اس دور میں علی بن جہم جو ناصبی اور امیر المومنین کا دشمن تھا، علی بن محمد بن جعفر علوی جو شیعہ شاعر تھے، انہوں نے اس کی ہجو کی اور اس کے نسب سے انکار کیا اور کہا: سامة بن لوی کی جانب اس کی نسبت صحیح نہیں ہے ۔

ابن زیاد کی ہجو میں ابو الاسود دوئلی کہتے ہیں :

اقول وذاک من جزع و و جد

ازل اللّٰه ملکٔ بنی زیاد

غم واندوہ کی بنیاد پر کہتا ہوں خدا ابن زیاد کی حکومت کو نیست و نابود کرے ۔

وابعدهم بما غدروا و خانوا

کما بعدت ثمود و قوم عاد(٢)

اور ان کو ان کی حیلہ و خیانت کی وجہ سے اس طرح ہلاک کرے جس طرح قوم عاد و ثمود ہلاک ہو گئی ۔

____________________

(١)ابو الفرج اصفہانی ،الا غانی،ج١٧، ص ٣٦

(٢)مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذہب ، ج٣ ص ٨١

۳۲۰