تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک0%

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 328

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف: غلام حسن محرمی
زمرہ جات:

صفحے: 328
مشاہدے: 86582
ڈاؤنلوڈ: 4745

تبصرے:

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86582 / ڈاؤنلوڈ: 4745
سائز سائز سائز
تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف:
اردو

فرشتے حضرت علی کے لئے طلب مغفرت کرتے ہیں نیز ان کے اور ان کے شیعوں کے لئے باپ کی طرح الفت و محبت اور اظہارہمدردی کرتے ہیں ۔(١)

خود حضرت علی روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اے علی!اپنے شیعوں کو خوش خبری دیدوکہ میں روز محشر(ان کی ) شفاعت کروں گا جس دن میری شفاعت کے علاوہ مال و فرزند کوئی فائدہ نہیں دیں گے ۔(٢)

رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے علی ! سب سے پہلے جنت میں جو چار افراد داخل ہوں گے وہ میں ،تم اور حسن و حسین ،ہیں ،ہماری ذریت ہمارے پیچھے اور ہماری ازواج ہماری ذریت کے پیچھے اور ہمارے شیعہ دائیں ،بائیں ہوں گے۔(٣)

خلاصہ، بہت سے محققین اور مؤرخین اہل سنت، منجملہ ابن جوزی ، بلاذری ، شیخ سلیمان قندوزی حنفی ، خوارزمی اور سیوطی نے نقل کیا ہے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا :

'' یہ اور ان کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہیں ''(٤) حتیٰ بعض شیعہ حضرات

____________________

(١) ینابیع المودة ص ٣٠١

(٢) ینابیع المودة ص ٣٠٢

(٣)مجمع الزوائد ص١٧٨، ھیثمی نور الدین علی بن ابی بکر

(٤) تذکرة الخواص ص ٥٤ ، ابن جوزی ، منشورات المطبعة الحیدریہ نجف ١٣٨٣ ھ، ص ٥٤، بلا ذری انساب الاشراف ،تحقیق محمد باقر محمودی ، موسسہ اعلمی بیروت ، ج ٢ ،ص ١٨٢ ، قندوزی حنفی ینابیع المودة منشورات اعلمی للمطبوعات ،طبع بیروت ،طبع اول ١٤١٨ ھ ج ١، ص٣٠١، اخطب خوارزم المناقب، منشورات المطبعة الحیدریہ ، نجف ، ١٣٨، ص٢٠٦، سیوطی جلا ل الدین ، الدر المنثور فی تفسیر بالمأ ثور ، مکتبة آیة اللہ العظمیٰ مرعشی نجفی ، قم ، ١٤٠٤ھ ، ج ٦، ص ٩ا٣٧

۴۱

کے بارے میں رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایات منقول ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ شیعوں کے مخالفین کی زبانی روایات نقل ہوئی ہیں ،جیسے جناب عائشہ سے حجر بن عدی کے بارے میں روایت منقول ہے ،جب معاویہ حجر اور ان کے دوستوں کے قتل کے بعد حج کرکے مدینہ آیاتو عائشہ نے اس سے کہا:

''اے معاویہ ! جب تم نے حجر بن عدی اور ان کے دوستوں کو قتل کیا توتمہاری شرافت کہاں چلی گئی تھی؟آگاہ ہوجاؤ کہ میں نے رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے ،آنحضرت صلی ٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :ایک جماعت ''مرج عذرائ''نام کی جگہ قتلہوگی، ان کے قتل کی وجہ سے اہل آسمان غضب ناک ہوں گے۔(١)

چونکہ یہ احادیث قابل انکار نہیں ہیں اور انہیں بزرگان اہل سنت نے نقل کی ہیں ، لہٰذا بعض صاحبان قلم نے ان میں بیجا و نارواتاویلیں کی ہیں ،چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں :

''بہت سی روایات میں ان شیعوں سے مراد جن سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے وہ افراد ہیں جو حضرت علی کو تمام مخلوق میں سب سے افضل و برتر سمجھتے ہیں ،اس وجہ سے ہمارے معتزلی علمانے اپنی تصانیف اور کتابوں میں لکھا ہے کہ در حقیقت ہم شیعہ ہیں اور یہ جملہ قریب بہ صحت اور حق سے مشابہ ہے ''(٢)

نیز ابن حجر ہیثمی نے اپنی کتاب'' الصواعق محرقه فی الرد علی اهل البدع والزندقة''م یں جوکہ شیعوں کے اصول و اعتقادکے خلاف لکھی گئی ہے،اس حدیث کو نقل

____________________

(١ ) ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی ، قم ١٤١٤ھ ج٢، ص٢٣١

(٢) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ ۔دار الاحیاء التراث العربی ، بیروت ، ج ٢٠ ، ص ٢٢٦

۴۲

کرتے وقت بیان کیا : اس حدیث میں شیعوں سے مراد موجودہ شیعہ نہیں ہیں بلکہ ان سے مراد حضرت علی کے خاندان والے اوران کے دوست ہیں جو کبھی بدعت میں مبتلا نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے اصحاب کرام کو سب و شتم کیا ''(١)

مرحوم مظفر ان کے جواب میں بیان کرتے ہیں :

بڑے تعجب کی بات ہے کہ ابن حجر نے گمان کیا ہے کہ یہاں شیعوں سے مراد اہل سنت حضرات ہیں مجھے نہیں معلوم کہ یہ مطلب لفظ شیعہ و سنی کے مترادف ہونے کی وجہ سے ہے یا اس وجہ سے کہ یہ دونوں فرقے ایک ہی ہیں ؟یا یہ کہ اہل سنت حضرات شیعوں سے زیادہ خاندان پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت و پیروی کرتے ہیں اور انہیں دوست رکھتے ہیں ۔(٢)

مرحوم کاشف الغطاء کہتے ہیں :

لفظ شیعہ کو شیعیان حضرت علی سے منسو ب کرنے ہی کی صورت میں یہ معنیٰ سمجھ میں آتے ہیں ،ورنہ پھر اس کے علاوہ شیعہ کے کوئی دوسرے افراد ہیں ۔(٣)

احادیث اور اقوال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں شیعہ معنیٰ کا ظہور روز روشن کی طرح واضح وآشکار ہے اور یہ حضرات اس طرح کی بے جا تاویلات کے ذریعہ حقیقت سے روگردانی کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے خود اپنے نفسوں کو دھوکا دیا،کیونکہ لفظ شیعہ کے

____________________

(١)ہیثمی مکی ،ابن حجر ، صواعق محرقہ، مکتبة قاہرة، ١٣٨٤، ص ٢٣٢

(٢)مظفر ، محمد حسین تاریخ الشیعہ ، منشورات مکتبة بصیرتی ، ص٥

(٣) دفاع از حقانیت شیعہ ، ترجمہ غلام حسن محرمی ،مؤمنین، طبع اول ١٣٧٨ھ،ص٤٨۔٤٩

۴۳

مصادیق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں موجود تھے اور کچھ اصحاب پیغمبر اسلام صلی ٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم شیعیان علی کے نام سے مشہورتھے ۔(١)

اصحاب پیغمبر اسلام صلی ٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو شیعہ کہتے تھے ، ہاشم مرقال نے 'حضرت علی سے''محل بن خلیفہ طائی ''نامی شخص کے بارے میں کہا:

''اے امیرالمؤمنین!وہ آپ کے شیعوں میں سے ہیں ۔''(٢)

اور خود شیعہ بھی آپس میں ایک دوسرے کو شیعہ کہتے تھے ،چنانچہ شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ ایک جماعت نے حضرت علی کی خدمت میں شرفیاب ہوکر عرض کی:''اے امیرالمومنین!''ہم آپ کے شیعوں میں سے ہیں ۔

نیز حضرت علی نے فرمایا :

____________________

(١) سعد بن عبد اللہ اشعری اس بارے میں کہتے ہیں :سب سے پہلا فرقہ شیعہ ہے اوریہی فرقہ علی بن ابی طالب کے نام سے مشہورہے کہ جس کے افراد زمانہ ٔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں شیعیان علی کہے جاتے تھے اور وفات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بھی مشہور تھا کہ یہ افرادحضرت علی کی امامت کے معتقد ہیں ،جن میں مقداد بن اسود کندی ، سلمان فارسی اور ابوذر و عمار ہیں ،یہ حضرات حضرت علی کی اطاعت و پیروی کو ہر چیز پر ترجیح دیتے تھے اور آنجناب کی اقتدا کرتے تھے ،دیگر کچھ افراد ایسے تھے کہ جن کا نظریہ حضرت علی کے موافق تھا اور یہ اس امت کا پہلا گروہ ہے ، جس کو شیعیت کے نام دیا گیا،نیز شیعہ ایک قدیم نام ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی لفظ شیعہ کا استعمال ہوا ہے مثلا، شیعۂ نوح ، شیعۂ ابراہیم ، شیعۂ موسیٰ اور شیعۂ عیسیٰ نیزدیگر انبیا کے سلسلہ میں بھی ملتا ہے''المقالات والفرق ، مرکز انتشارات علمی ، فرہنگی ، تہران ص٣۔

(٢)شیخ مفید محمد، بن محمد نعمان ''الجمل ''مکتبة العلوم الاسلامی ، مرکز نشر ط دوم ١٤٢٦ھ ص٢٤٣

۴۴

''ہمارے شیعوں کے چہرے راتوں میں عبادت کی وجہ سے زرد پڑجاتے ہیں اور گریہ و زاری کی وجہ سے ان کی آنکھیں کمزور ہوجاتی ہیں ،(١) مذکورہ بالا روایت کی طرح حضرت علی نے بہت سے مقامات پر اپنی پیروی کرنے والوں کو شیعوں کے نام سے یاد کیا ہے ،مثلا جب طلحہ وزبیر کے ہاتھوں بصرہ میں رہنے والے شیعوں کی ایک جماعت کی خبر شہادت پہنچی تو حضرت نے (ان قاتلوں ) کے حق میں نفرین کرتے ہوئے فرمایا :

خدایا !انہوں نے میرے شیعوں کو قتل کردیا ،تو بھی انہیں قتل کر''(٢)

حتیٰ دشمنان حضرت علی بھی اس زمانہ میں آپ کی پیروی کرنے والوں کو شیعہ کہتے تھے ،چنانچہ جب عائشہ و طلحہ و زبیر نے مکہ سے سفر عراق کی طرف سفر کیا تو آپس میں گفتگوکی اور کہا :

''بصرہ چلیں گے اور حضرت علی کے عاملین کو وہاں سے باہر نکالیں گے اور ان کے شیعوں کو قتل کریں گے۔(٣)

بہر حال حقیقت تشیع وہی حضرت علی سے دوستی و پیروی اور آ پ کو افضل وبرتراور مقدم قرار دینا ہے جوکہ زمانہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مربوط ہے،آنحضر ت صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی احادیث و اقوال میں لوگوں کو حضرت علی اورآپ کے خاندان کی دوستی و پیروی کا حکم دیا ۔

منجملہ غدیر خم کا واقعہ ہے جیسا کہ ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں :یہ روایات، ان

____________________

(١) شیخ مفید ،محمد بن محمد نعمان ، ''الارشاد'' ترجمہ محمد باقر ساعدی خراسانی ، کتاب فروشی اسلامیہ ، طبع دوم ، ص٢٢٨

(٢) شیخ مفید، محمد بن محمد نعمان''الجمل ''ص٢٨٥

(٣) شیخ مفید ،محمد بن محمد نعمان ص٢٣٥

۴۵

لوگوں نے نقل کی ہیں جنہیں رافضی اور شیعہ ہونے سے کسی نے بھی متہم نہیں کیاہے یہاں تک کہ وہ دوسروں کی نسبت حضرت علی کی افضلیت و برتری اور تقدم کے قائل بھی نہیں تھے ۔(١)

ہم اس سلسلہ کی بعض احادیث کی طرف( مزید) اشارہ کرتے ہیں :

بریدہ اسلمی کہتے ہیں :

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : خدائے تعالیٰ نے مجھے چار لوگوں سے دوستی کرنے کا حکم دیا ہے اور مجھ سے فرمایا ہے : میں بھی انہیں دوست رکھتا ہوں ، لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !ان کا نام بتائے؟

آنحضرت نے تین بار فرمایا: ''علی ''اور پھر ابوذر ، مقداد اور سلمان فارسی کا نام لیا۔(٢)

طبری جنگ احد کے سلسلہ میں بیان کرتے ہیں کہ رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہیں ''(٣)

جناب ام سلمہ سے روایت ہے کہ آپ نے کہا :

''جب کبھی حضرت رسو ل خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم غصہ ہوتے تھے تو حضرت علی کے علاوہ کوئی ان سے گفتگو کرنے کی جرأت نہیں کرتا تھا،سعد ابن ابی وقاص نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

____________________

(١)شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید معتزلی ،ج ٢، ص٣٤٩،طبع دار الاحیاء التراث العربی

(٢)ہیثمی مکی صواعق المحرقہ، ص١٢٢، مکتبة القاہرہ، طبع دوم ١٣٥٨

(٣)تاریخ طبری، ج٢ ص٦٥ طبع سوم، دار الکتب العلمیة ، بیروت، تیسری طباعت ١٤٠٨ھ

۴۶

''جس نے علی کو دوست رکھا ، اس نے مجھے دوست رکھا اور جس نے مجھے دوست رکھا ، اس نے خدا کو دوست رکھا اور جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی گویااس نے خدا سے دشمنی کی۔(١)

ابن جوزی بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

''اے علی ! تم جنت اور جہنم کو تقسیم کرنے والے ہو، تم جنت کے دروازہ کوکھولوگے اور بغیر حساب داخل ہوجاؤ گے ،(٢)

کتاب مناقب خوارزمی میں جناب ابن عباس سے نقل ہواہے کہ رسو ل خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

''جب مجھے معراج پر لے جا یا گیا ،تو میں نے جنت کے دروازہ پر لکھا ہوا دیکھا:لااله الااللّه ، محمد رسول اللّه ،علی حبیب اللّه ،الحسن والحسین صفوة اللّه،فاطمة امة اللّه،علیٰ مبغضهم لعنة اللّه ''(١)

زبیر بن بکار جو زبیر کے پوتے ہیں اور حضرت علی سے انحراف اختیار کرنے میں مشہور ہیں ، بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

'' جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور میری نبوت کو قبول کیا ،میں انہیں علی بن ابیطالب علیہماالسلام کی ولایت اور دوستی کی وصیت کرتا ہوں ، جس نے انہیں دوست رکھا، اس نے مجھے

____________________

(١)صواعق محرقہ ص١٢٣، ہیثمی مکی

(٢)ہیثمی مکی الصواعق المحرقہ ، ص ١٢٣،تذکرة الخواص،ص ٢٠٩، سبط ابن جوزی طبع ، منشورات مطبعہ حیدریہ نجف اشرف ١٣٨٣

(٣) مناقب ، ص ٢١٤ ، اخطب خوارزمی ١٣٨٥

۴۷

دوست رکھا اور جس نے مجھے دوست رکھا ،اس نے خدا کود وست رکھا''(١)

ابن ابی الحدید ، زید بن ارقم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

''میں تمہیں اس چیز کی طرف راہنمائی کررہا ہوں کہ اگر جان لو گے تو ہلاک نہیں ہوگے ، تمہارے امام علی بن ابی طالب( علیہماالسلام )ہیں ،ان کی تصدیق کر وکہ جناب جبرئیل نے مجھے اس طرح خبر دی ہے ''۔

ابن ابی الحدید معتزلی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں اگرلوگ کہیں کہ یہ حدیث صریحی طور پر حضرت علی کی امامت پر دلالت کرتی ہے توپھر معتزلہ کس طرح اس اشکال کو حل کریں گے ؟

ہم جواب میں کہتے ہیں :ہوسکتاہے کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد یہ ہو کہ حضرت علی فتویٰ دینے اور احکام شرعی میں لوگوں کے امام ہیں ، نہ کہ خلافت کے سلسلہ میں ، جس طرح ہم نے بغدادی علمائے معتزلہ کے اقوال کی شرح میں جو بات کہی ہے وہ (اس اشکال کا ) جواب ہوسکتی ہے ،جس کا خلاصہ یہ ہے:

در حقیقت امامت و خلافت حضرت علی کا حق تھا ، اس شرط کے ساتھ کہ آنجناب اس کی طرف میل و رغبت کا اظہار کرتے اور اس کی خاطر دوسروں کے مد مقابل آجاتے لیکن چونکہ آپ نے اس عہدہ امامت و خلافت کو دوسروں پر چھوڑکر سکوت اختیار کیا،لہذا ہم نے ان کی ولایت و سر براہی کو قبول کرتے ہوئے ان کی خلافت کے صحیح ہونے کا اقرار

____________________

(١) الاخبار الموفقیات ، انتشارات الشریف الرضی ، قم، ١٤١٦ھ ص٣١٢

۴۸

واعتراف کرلیا ،چنانچہ حضرت علی نے خلفائے ثلاثہ کی مخالفت نہیں کی اور ان کے مقابلہ میں تلوار نہیں اٹھائی اور نہ ہی لوگوں کو ان کے خلاف بھڑ کایا ، پس آپ کا یہ عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے ان کی خلافت کی تصدیق کی، اسی وجہ سے ہم ان کو قبول کرتے ہیں اور ان کے بے قصور ہونے اور ان کے حق میں خیر وصلاح کے قائل ہیں ،ورنہ اگر حضرت علی ا ن حضرات سے جنگ کرتے اور ان کے خلاف تلوار اٹھا لیتے اور ان سے جنگ کرنے کے لئے لوگوں کو دعوت دیتے تو ہم بھی ان کے فاسق و فاجر اور گمراہ ہونے کا اقرار و اعتراف کرلیتے''(١)

شیعوں کے دوسرے نام:

حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے بعد جب تشیع وسیع تر ہوئی تو شیعہ نام کے علاوہ آہستہ آہستہ اور دوسرے عناوین جیسے علوی ،امامی ،حسینی ،اثنا عشری ،خاصہ، جعفری ترابی ، رافضی، خاندان رسالت کے دوستوں کے لئے استعمال ہونے لگے اگر چہ عام طور پر اہل بیت کے دوستوں کو شیعہ ہی کہتے تھے، یہ القاب اور عناوین مختلف مناسبتوں سے شیعوں کے متعلق کہے گئے کبھی مخالفین یہ القاب شیعوں کی سرزنش اور ان کو تحقیر کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے، چنانچہ معاویہ کے زمانے میں بنی امیہ اور اہل شام علی کے القاب اور کنیت میں سے آپ کو ابو تراب اور آپ کے شیعوں کو ترابی کہتے تھے ،معاویہ نے صفین

____________________

(١)شرح نہج البلاغہ ،ج ٣ ، ص ٩٨ ابن ابی الحدید معتزلی ،طبع ، دار الاحیاء الکتب العربیة مصر،طباعت اول، ١٣٧٨ھ ق

۴۹

اورحکمیت کے بعد جب عبداللہ بن خزرمی کو بصرہ بھیجنا چاہاتو تمام قبیلوں کے بارے میں اس نے بہت تاکید کی لیکن قبیلہ ربیعہ کے بارے میں کہا کہ:ربیعہ کو چھوڑواس لئے کہ اس کے تمام افراد ترابی ہیں ۔(١)

مسعودی کے بقول ابو مخنف کے پاس ایک کتاب تھی جسکا نام'' اخبار الترابیین'' تھا، مسعودی اس کتاب سے نقل کرتا ہے کہ جس میں ( عین الورد کے حوادث)کا تذکرہ کیا گیا ہے۔(٢)

رافضی عنوان کو مخالفین، شیعوں پر اطلاق کرتے تھے اور اکثر جب کسی کو چاہتے تھے کہ اس پر دین کو چھوڑنے کی تہمت لگائیں تو اس کورافضی کہتے تھے ۔

چنانچہ شافعی کہتے ہیں :

ان کان رفضاً حب آل محمدٍ

فلیشهد الثقلان انی رافضی

یعنی اگر آل محمد علیہم السلام کی دوستی رفض ہے تو جن وانس گواہ رہیں کہ میں رافضی ہوں ۔(٣)(٤)

تاریخ میں آیا ہے کہ زید بن علی کے قیام کے بعد شیعوں کو رافضی کہا جاتا تھا،

____________________

(١) بلاذری ،انساب الاشراف ،منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات ،بیروت ،١٣٩٤ھ ج ٢ ص٤٢٣

(٢)مسعودی ،مروج الذہب ،منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات،بیروت، ١٤١١ھ ج٣ ص١٥

(٣)ہیثمی مکی ،الصواعق المحرقہ ص ١٢٣،

(٤)الامین ،سید محسن ،اعیا ن الشیعہ،دارالتعارف للمطبوعات ،بیروت ،ج١، ص٢١

۵۰

شہرستانی کہتا ہے: جس وقت شیعیان کوفہ نے زید بن علی سے سنا کہ وہ شیخین پر تبرّا نہیں کرتے اور افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی امامت کو جائز جانتے ہیں تو ان کو چھوڑ دیا اوروہ اسی وجہ سے رافضی کہلانے لگے، کیونکہ رفض کے معنیٰ چھوڑنے کے ہیں ۔(١)

علوی لقب کے بارے میں سید محسن امین لکھتے ہیں :عثمان کے قتل نیز معاویہ کے حضرت علی سے برسر پیکار ہونے کے بعد معاویہ کی پیروی کرنے والوں کو عثمانی کہا جاتا تھا کیونکہ وہ عثمان کو دوست رکھتے تھے اورحضرت علی سے نفرت کرتے تھے اور حضرت علی کے چاہنے والوں پر شیعہ کے علاوہ علوی ہونے کا بھی اطلاق ہوتا ہے اور یہ طریقۂ کار بنی امیہ کے دور حکومت کے آخر تک جاری رہا اور عباسیوں کے زمانے میں علوی اور عثمانی نام منسوخ ہو گئے اور صرف شیعہ اور سنی استعمال ہو نے لگا،(٢) شیعوں کے لئے دوسرا نام امامی تھا جو زیدیوں کے مقابلے میں بولا جاتا تھا۔

چنانچہ ابن خلدون لکھتا ہے: بعض شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ روایات صریح دلالت کرتی ہیں کہ امامت صرف علی کی ذات میں منحصر ہے اور یہ امامت ان کے بعد ان کی اولاد میں منتقل ہو جائے گی ،یہ لوگ امامیہ ہیں اور شیخین سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں کیوں کہ انہوں نے علی کو مقدم نہیں کیا اور ان کی بیعت نہیں کی ،یہ لوگ ابو بکر اور عمر کی امامت کو قبول نہیں کرتے ہیں اور بعض شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی جگہ پر کسی کو معین نہیں کیا بلکہ

____________________

(١)شہرستانی ،ملل و نحل، منشورات شریف الرضی ،قم ،١٣٦٤ ھ ج: ١، ص١٣٩

(٢) امین ،سید محسن ،اعیان الشیعہ ص١٩

۵۱

امام کے اوصاف بیان کردیئے کہ جوصرف امام علی پر منطبق ہوتے ہیں اور یہ لوگوں کی کو تاہی تھی کہ انہوں نے ان کو نہیں پہچانا ،وہ لوگ جو شیخین کو برا نہیں کہتے ہیں وہ فرقہ زیدیہ میں سے ہیں ۔(١)

امام اور ان کے اصحاب کی شہادت کے بعد جوا شعار کہے گئے ہیں اور ابھی تک باقی ہیں ان سے بخوبی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ امام مظلوم کی شہادت کے بعد ان کے شیعوں کو حسینی بھی کہا جاتا تھا، ان لوگوں نے اپنے کو اکثر اشعار میں حسینی اور دین حسین پر اپنے آ پ کو پہچنوایاہے۔(٢)

ابن حزم اندلسی اس بارے میں کہتے ہیں : رافضیوں میں سے کچھ حسینی ہیں کہ جو ابراہیم (ابن مالک)اشتر کے اصحاب میں سے ہیں کہ جو کوفہ کی گلیوں میں گھومتے پھرتے تھے اور ''یا لثارات الحسین'' کا نعرہ لگاتے تھے ان کو (حسینی) کہا جاتا تھا۔(٣)

لیکن قطعیہ کانام امام موسیٰ کاظم کی شھادت کے بعد واقفیہ کے مقابلہ میں شیعوں پر اطلاق ہوتا تھایعنی ان لوگوں نے امام موسیٰ کاظم کی شہادت کا قاطعیت کے ساتھ یقین کرلیا تھا اور امام رضا اور ان کے بعد آنے والے اماموں کی امامت کے قائل ہوگئے تھے جب کہ واقفیہ امام موسیٰ کاظم کی شہادت کے قائل نہ تھے۔(٤)

____________________

(١)ابن خلدون ،مقدمہ ،دار احیاء ا لتراث العربی،بیروت،١٤٠٨ھ ص١٩٧

(٢)ابن شہر آشوب ،مناقب آل ابی طالب ،مؤسسہ انتشارات علامہ ،قم ،ج٤،ص١٠٢

(٣)عبد ربہ اندلسی ،العقد الفرید، دار احیاء التراث العربی، بیروت ،١٤٠٩ھ ج٢ ،ص٢٣٤

(٤)شہرستانی ،ملل و نحل ،ص ١٥٠

۵۲

آج جعفریہ کالقب،فقہی اعتبار سے زیادہ تر اہل سنت کے چار مذاہب کے مقابل میں استعمال ہوتا ہے کیو نکہ فقہ شیعہ امام جعفر صادق کے توسط سے زیادہ شیعوں تک پہنچی ہے اور زیادہ تر روایتیں بھی امام جعفرصادق سے نقل ہوئی ہیں ، لیکن سید حمیری کے شعر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلمۂ جعفری کانہ صرف فقہی لحاظ سے امام صادق کے زمانہ میں شیعوں پر اطلاق ہوتا تھا بلکہ اصولی لحاظ سے بھی تمام فرقوں کے مقابلہ میں یہ نام استعمال ہوا ہے، سیدحمیری اپنے شعر میں کہتے ہیں ۔

''تجعفرت باسم الله والله اکبر''

میں خدا کے نام سے جعفری ہو گیا ہوں اور خدا وند متعال بزرگ ہے ۔(١)

سید حمیری کا مقصد جعفری ہونے سے فرقۂ حقہ شیعہ اثنا عشری کے راستہ پر چلنا ہے کہ جو کیسانیہ کے مقابلہ میں ذکر ہوا ہے۔

صحابہ کے درمیان حضرت علی کا مقام

حضرت علی کا اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان ایک خاص مقام ہے ،مسعودی کہتا ہے: وہ تمام فضائل و مناقب جو اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں تھے جیسے اسلام میں سبقت ، ہجرت ،نصرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ قرابت ،قناعت ،ایثار ، کتاب خدا کا جاننا ،جھاد، تقویٰ، ورع پرہیز گاری ، زہد،قضا،فقہ وغیرہ یہ تمام فضیلتیں حضرت علی میں بدرجہ اتم موجود تھیں بلکہ ان

____________________

(١)مسعودی ،علی بن حسین ،مروج الذھب منشورات مؤسسةالاعلمی،ج:٣،ص٩٢

۵۳

کے علاوہ بعض فضیلتیں صرف آپ کی ذات گرامی سے مختص ہیں جیسے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کابھائی ہونا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آپ کے بارے میں فرمانا: یا علی: تم کومجھ سے و ہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی، اور یہ بھی کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں ، اے اللہ !علی کے دوستوں کودوست رکھ اور علی کے دشمن کو دشمن قراردے اور جب انس بھنے ہوئے پرندے کو لے کر حاضر ہوئے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعاکی: پرور دگار ا!پنی محبوب ترین مخلوق کو بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ کھا نا کھائے اس وقت حضرت علی وارد ہوئے اورآپ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کھانا کھایا ، جب کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام اصحاب ان فضائل سے محروم تھے۔(١)

بنی ہاشم میں بھی حضرت علی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ نزدیک تھے بچپنے ہی سے آپ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر اور انھیں کے زیر نظر تربیت پائی۔(٢)

آپ شب ہجرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر سوئے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امانتوں کو صاحبان امانت تک پہنچایااور مدینہ میں آپ سے ملحق ہوئے ۔(٣)

ان سب سے اہم بات یہ ہے کہ رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا نے اسلام میں حضرت علی کے مقام کو آغاز پیغمبری ہی میں معین فرمادیاتھا، جس وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوحکم ہو ا کہ اپنے قرابت داروں کو ڈرائیں اس جلسہ میں جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کے لئے حاضر ہوئے وہ صرف علی تھے اس کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسی جلسہ میں خاندان کے بزرگوں کے درمیان یہ اعلان کردیا کہ

____________________

(١)مسعودی ، علی بن حسین مروج الذھب ، موسسة الاعلمی ، للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١١ھج ٢ ص٤٤٦

(٢)ابوالفرج اصفہانی ،مقتل الطالبین ،منشورات شریف الرضی ،قم ١٤١٦ھ ص٤١

(٣)مسعودی ،علی بن حسین ، مروج الذہب ،ص٢٩٤

۵۴

علی میرے وصی وزیر ،خلیفہ اور جا نشین ہیں جب کہ حضرت علی کا سن تمام حاضرین سے کم تھا(١)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مختلف مقامات پر مناسبت کے لحاظ سے حضرت علی کی موقعیت اور ان کے مقام کو لوگوں کے سامنے بیان کیا ہے اور ان کے مقام کے لئے خاص تاکید کی ہے، خاص طور پر اسلام کے پھیلنے کے بعد کافی لوگ جو مسلمانوں کے لباس میں آگئے تھے خصوصاًقریش کا حسد خاندان بنی ہاشم و رسالت سے کافی زیادہ ہوچکا تھا ، ابن شہر آشوب نے عمر بن خطاب سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں :

میں علی کو اذیت دے رہا تھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقا ت ہوگئی تو آپ نے فرمایا: اے عمر! تونے مجھے اذ یت دی ہے عمر نے کہا : خدا کی پناہ کہ میں اللہ کے رسول کو اذیت دوں ،آپ نے فرمایا تونے علی کو اذیت دی ہے اور جس نے علی کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ۔

مصعب بن سعدنے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص سے نقل کیا ہے وہ کہتا ہے : میں اور ایک دوسرا شخص مسجد میں علی کو برا بھلا کہہ رہے تھے، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غضب ناک حالت میں ہماری طرف آئے اورفرمایا :کیو ں مجھ کو اذیت دے رہے ہو جس نے علی کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ۔

ہیثمی نقل کرتا ہے: بریدہ اسلمی ان لو گوں میں سے ہے کہ جو حضرت علی کی سپہ سالاری میں یمن گئے تھے وہ کہتا ہے کہ میں لشکر سے پہلے مدینہ واپس آگیا لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا خبر ہے؟میں نے کہا : خبریہ ہے کہ خدا نے مسلمانوں کو کامیاب کردیاہے پھر لوگوں

____________________

(١)یوسفی غروی ،محمد ہادی ،موسوعة التاریخ الاسلامی ،مجمع الفکرالاسلامی ،قم ،طبع اول ١٤١٧ھ ج١ ص٤١٠

۵۵

نے دریافت کیا کہ تو تم کیوں پہلے واپس آگئے؟میں نے کہا : علی نے ایک کنیز خمس میں سے اپنے لئے مخصوص کرلی ہے میں آیاہوں تاکہ اس بات کی خبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوں ، جس وقت یہ خبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہنچی تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ناراض ہوئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: آخرکیوں کچھ لوگ علی کے بارے میں چوں چرا کرتے ہیں جس نے علی پر اعتراض کیا اس نے مجھ پر اعتراض کیا ہے جو علی سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہو ا، علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ،وہ میری سرشت سے خلق ہوئے ہیں اور میں سرشت ابراہیم سے، اگرچہ میں ابراہیم سے افضل ہوں ،اے بریدہ! کیا تم نہیں جانتے کہ علی ایک کنیزسے زیادہ کے مستحق ہیں اور وہ میرے بعد تمہارے ولی ہیں ۔(١)

ابن شہر آشوب نے بھی اس طرح کی حدیث محدثان اہل سنت سے نقل کی ہے جیسے تر مذی ،ابو نعیم ،بخاری و موصلی وغیرہ۔(٢)

ابن شہر آشوب انس بن مالک سے نقل کرتے ہیں :

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں اگر کسی کو پہچاننا چاہتے تھے کہ کون حرام زادہ ہے اور کون حرام زادہ نہیں ہے تو اس کو علی بن ابی طالب کے بغض سے پہچانتے تھے ،جنگ خیبر کے بعد لوگ اپنے بچوں کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے جاتے تھے جب راستہ میں علی کو دیکھتے تھے اوروہ ہاتھوں سے حضرت علی کی طرف اشارہ کرتے تھے اور بچہ سے پوچھتے تھے کہ اس شخص

____________________

(١)ہیثمی ،نورالدین علی بن ابی بکر ،مجمع الزوائد، دار الفکر للطباعةوالنشر التوزیع،بیروت ١٤١٤ھ ، ج٩، ص١٧٣

(٢) ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ،ص،١١ ٢۔٢١٢

۵۶

کو دوست رکھتے ہو اگر بچہ نے کہا: ہاں تو اس کا بوسہ لیتے تھے اور اگروہ کہتاتھا نہیں ، تو اس کو زمین پراتاردیتے اور کہتے کہ اپنی ماں کے پاس چلے جائو،عبادہ بن صامت کا بھی کہناہے: ہم اپنی اولادکو بھی علی بن ابی طالب کی محبت پر آزماتے تھے اگر دیکھتے تھے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی حضرت علی کو دوست نہیں رکھتاتو سمجھ لیتے تھے کہ یہ نجات یافتہ نہیں ہو سکتا ۔(١)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عمر کے آخری سال گزرنے کے ساتھ ساتھ مولا علی کی جانشینی کا مسئلہ عمومی تر ہوتا گیا اور اس قدر عام ہو ا کہ لقب وصی حضرت علی سے مخصو ص ہو گیا جس کو دوست و دشمن سبھی قبول کرتے تھے خاص کر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تبوک جانے سے پہلے حضرت علی سے فرمایا: اے علی !تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لئے تھے لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حجةالوداع کے موقع پر بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منیٰ و عرفات کے میدان میں اپنی تقریر وں کے ذریعہ لوگو ں کے کانوں تک یہ بات پہنچا دی تھی کہ میرے بارہ جانشین ہوں گے جو سب کے سب بنی ہاشم سے ہوں گے۔(٢)

بالآخر مکہ سے واپسی پرغدیر خم کے میدان میں خدا کا حکم آیاکہ تمام مسلمانوں کے درمیان علی کی جانشینی کا اعلان کردیں ،رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ،مسلمانوں کو ٹھہرنے کا حکم دیا اور اونٹ کے کجاؤں کے منبر پر تشریف لے گئے اورمفصل تقریر کے بعد فرمایا:

____________________

(١) ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ،ص،٢٠٧

(٢)مرتضیٰ عاملی ،سید جعفر ،الغدیروالمعارضون ،دار السیر، بیروت ،١٤١٧ھ ص٦٢۔٦٦

۵۷

(من کنت مولاه فهٰذا علی مولاه اللهم وال من والاه و عاد من عاداه وانصر من نصره واخذل من خذله )

اس کے بعد لوگوں کو حکم دیا کہ علی کی بیعت کریں اس مطلب کی تفصیل علامہ امینی نے الغدیر کی پہلی جلد میں بیان کی ہے ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں میں اعلان کر دیا کہ کون میرا جانشین ہے اسی بنا پر لوگوں کو یقین تھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد علی ان کے جانشین ہوں گے، زبیر بن بکار اس سلسلے میں لکھتا ہے :

تمام مہاجرین اور انصار کو اس بارے میں بالکل شک نہیں تھا کہ رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا کی وفات کے بعد حضرت علی خلیفہ اور صاحب الامر ہوں گے۔(١)

یہ مطلب زمانۂ سقیفہ کے اشعار سے بخوبی آشکار ہے اور یہ اشعار اس مطلب پر دلیل ہیں جب کہ ان اشعار میں مختصر سی تحریف ہوئی ہے عتبہ بن ابی لہب نے سقیفہ کے واقعہ کے بعداور ابوبکر کے خلیفہ بن جانے کے بعد اس طرح اشعار پڑھے ہیں ۔

ما کنت احسب ان الأمر منصرف

عن هاشم ثم منها عن ابی حسن

میں نے اس بات کا گمان بھی نہیں کیا تھا کہ خلافت کو بنی ہاشم اور ان کے درمیان ابوالحسن یعنی حضرت علی سے چھین لیں گے۔

الیس اول من صلّی لقبلتکم

و اعلم الناس بالقرآن و السنن

____________________

(١) زبیر بن بکار، الاخبار الموفقیات ،منشورات شریف الرضی،قم ،١٤١٦ھ ،ص٥٨

۵۸

کیاوہ سب سے پہلے شخص نہیں ہیں جنہوں نے تمہارے قبلہ کی طرف نماز پڑھی اور لوگوں میں قرآن و سنت کو سمجھنے میں سب سے دانا ہیں ۔

و اقرب الناس عهداً باالنبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و من

جبرئیل عون له فی الغسل و الکفن

وہ لوگوں میں سب سے آخری شخص ہیں جس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرے پر نگاہ کی ، جبرئیل آنحضرت کے غسل و کفن میں ان کی مدد کر رہے تھے۔

ما فیه ما فیهم لا یمترون به

و لیس فی القوم ما فیه من الحسن

جوکچھ ان کے پاس ہے اور جو کچھ دوسروں کے پاس ہے اس کے بارے میں فکر نہیں کرتے در حالانکہ قوم میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس کی نیکیاں ان کے برابر ہوں

ماذا الذی ردهم عنه فتعلمه

ها ان ذا غبننا من اعظم الغبن

کون سی ایسی چیز ہے جس نے ان کو ان سے برگشتہ کردیا ہے ،جان لو کہ یہ ہمارا ضرر بہت بڑا نقصان ہے ۔

ان اشعار کے کہنے کے بعد حضرت علی نے اس سے سفارش کی کہ دوبارہ ایسا نہیں کرنا اس لئے ہمارے لئے دین کی سلامتی سب سے زیادہ اہم نکلے ۔(١)

____________________

(١)زبیر بن بکار ،الاخبار الموفقیات ،منشورات شریف الرضی قم ،١٤١٦ھ ص ا٥٨

۵۹

ابن ابی عبرہ قرشی نے بھی یہ شعرپڑھے :

شکراً لما هو باالثنا ء حقیق

ذهب الّجاج و بویع الصدیق

اس کا شکر جو تعریف کے لائق ہے ،صدیق کی بیعت کی گئی اور ہمارے درمیان جھگڑا ختم ہو گیا ۔

کنّا نقول لها علی و الرضا

عمر و اولاهم بذاکٔ عتیق

ہم کہتے تھے کہ علی خلافت کے حقدار ہیں اور ہم عمر سے بھی راضی تھے لیکن اس مورد میں ان کے درمیان سب سے بہتر ابو بکر نکلے۔(١)

خلافت کے موقع پر وہ اختلاف جو سقیفہ کی بنا پر قریش و انصار کے درمیان پیدا ہوا اور عمرو عاص نے انصارکے خلاف گفتگو کی نعمان بن عجلان جو انصار کے شعراء میں سے ایک تھے انہوں نے عمرو عاص کے جواب میں اشعار کہے جو علی کے حق کی وضاحت کرتے ہیں ۔

فقل لقریشٍ نحن اصحاب مکة

و یوم حنین والفوارس فی بدر

قریش سے کہو ہم فتح مکہ کے لشکر، جنگ حنین اور بدر کے سواروں میں سے ہیں

____________________

(١) زبیر بن بکار ،الاخبار الموفقیات ،منشورات شریف الرضی، قم ،١٤١٦ھ ص ٥٨٠

۶۰