تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک0%

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 328

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف: غلام حسن محرمی
زمرہ جات:

صفحے: 328
مشاہدے: 86618
ڈاؤنلوڈ: 4745

تبصرے:

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86618 / ڈاؤنلوڈ: 4745
سائز سائز سائز
تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف:
اردو

و قلتم حرام نصب سعد و نصبکم

عتیق بن عثمان حلال ابا بکر

تم نے کہا سعد کو خلافت پر منصوب کرنا حرام ہے اور تمہارا عتیق بن عثمان، (ابوبکر) کو نصب کرنا جائز ہے۔

و اهل ابو بکر لها خیر قائم

و ان علیاً کان اخلق بالامر

اور تم نے کہا ابو بکر اس کے اہل ہیں اور اس کو انجام دے سکتے ہیں جبکہ علی لوگوں میں سب سے زیادہ خلافت کے حقدارو سزاوار تھے۔

وکان هوانا فی علیّ و انه

لاهل لها یا عمرو من حیث لاتدری

ہم علی کے طرفدار تھے اور وہ اس کے اہل تھے لیکن اے عمر و !تو اس بات کو نہیں سمجھتا

فذاکٔ بعون اللّه یدعواالی الهدیٰ

و ینهیٰ عن الفحشاء و البغی و النّکر

یہ علی ہیں جو خدا کی مدد سے لو گوں کی ہدایت کرتے ہیں ،علی ہیں جو ظلم و فحشا سے روکتے ہیں اور نہی عن المنکر کرتے ہیں ۔

۶۱

وصی النبی المصطفیٰ وابن عمه

وقاتل فرسان الضلالة والکفر

یہ علی ہیں جو وصی مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے بھائی ہیں جو کفر و ضلالت کے پہلوانوں کو قتل کرنے والے ہیں ۔(١)

حسان بن ثابت نے بھی فضل بن عباس کے شکریہ کی وجہ سے کہجنہوں نے حضرت علی کے حکم سے انصار کا دفاع کیا، ان اشعار کو پڑھا:

جزیٰ اللّه عنا و الجزابکفّه

ابا حسن عنا و من کان کابی حسن

خدا ہماری طرف سے ابوالحسن کو جزائے خیر دے کیوں کہ جزا اسی کے ہاتھ میں ہے اور کون ہے جو کہ علی کے مانند ہے؟

سبقت قریش بالذی انت اهله

فصدرکٔ مشروح و قلبک ممتحن

علی ہی اس کے اہل تھے قریش پر سبقت لے گئے آپ کا سینہ کشادہ اور قلب امتحان شدہ (پاک و پاکیزہ )ہے ۔

حفظت رسول اللّه فینا و عهده

الیکٔ و من اولیٰ به منکٔ من و من

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سفارش کو ہمارے بارے میں حفظ کیا آپ کے علاوہ کون ہے جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ولی اور جانشین ہو؟

الست اخاه فی الهدیٰ و وصیّه

واعلم منه باالکتاب و السّنن

____________________

(١)زبیر بن بکار ،الاخبار الموفقیات ،منشورات شریف الرضی، قم ،١٤١٦ھ ص٥٩٢

۶۲

کیا آپ وہ نہیں ہیں جو ہدایت میں پیمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھائی اور ان کے وصی اور لوگوں میں کتاب و سنت کے سمجھنے میں سب سے زیادہ جاننے والے ہیں ؟(١)

ابو سفیان بھی شروع میں (سقیفہ کی) خلافت کا مخالف تھا اور حضرت علی کی طرف سے دفاع کرتا تھا ،تقریر کے علاوہ جو اس نے سلسلہ میں کہے ہیں وہ ذیل کے اشعار کہ جس کی نسبت اس کی طرح دی گئی ہے :

بنی هاشم لاتطمعوا الناس فیکم

ولا سیّما تیم بن مرّة اوعدی(٢)

اے بنی ہاشم! تم اس بات کی اجازت نہ دو کہ دوسرے تمھارے کام میں لالچ کریں بالخصوص تیم بن مرہ یا عدی ۔

فما الأمر الأ فیکم و الیکم

و لیس لها الّا ابوالحسن علیّ

خلافت فقط تمہارا حق ہے اور صرف ابوالحسن علی اس کے اہل اور سزاوار ہیں ۔(٣)

غدیر کے دن حسان بن ثابت جو شاعر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہے جاتے تھے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت مانگی اور غدیر کے واقعہ کو اپنے اشعار میں اس طرح پیش کیا :

____________________

(١)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ،منشورات شریف الرضی ،قم ،طبع اول ١٤١٤ ھ ج ٢ ص ١٢٨

(٢)تیم ابو بکر کا اور عدی عمر کا قبیلہ تھا ۔

(٣)ابن واضح، تاریخ یعقوبی ص١٢٦

۶۳

ینادیهم یوم ا لغدیر نبیهم

بخم واسمع بالنبی منادیاً

مسلمانوں کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غدیر خم کے دن ان کو آواز دیتا ہے لوگو آئو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آواز کو سنو

وقد جاء جبرئیل عن امر ربه

بانکّ معصوم فلاتکٔ وانیا

جبرئیل خدا کی طرف سے پیغام لائے کہ(اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) تم خدا کی حفظ و امان میں ہو لہذا اس سلسلہ میں سستی وغفلت نہ برتو۔

و بلّغهم ما انزل اللّه ربهم

الیکٔ ولا تخش هناکّ الاّ عادیا

جو کچھ تمہارے خدا نے تم پر نازل کیا ہے اس کو پہنچا دواور اس موقع پر دشمنوں سے نہ ڈرو۔

وتقام به اذ ذاکٔ رافع کفّه

بکف علیّ معلن الصوت عالیا

علی کو اپنے ہاتھوں سے اٹھایااس طرح سے کہ علی کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر بلندکیا اور بلند آواز سے اعلان کیا۔

فقال فمن مولاکم و ولیکم

فقالوا ولم یبدوا هناکّ تعامیا

اس کے بعد لوگوں سے کہا: کون ہے تمہارا مولا و ولی؟ پس انہوں نے بے توجہی کا ثبوت دئے بغیر کہا۔

الهک مولانا وانت ولینا

ولن تجدن فینا لکٔ الیوم عاصیا

آپ کا خدا ہمارا مولا ہے اور آپ ہمارے ولی ہیں ؟ ہم میں سے کوئی بھی سرکش نہیں ہے۔

فقال قم یا علی فاننی

رضیتک من بعدی اماماً و هادیاً

اس کے بعد آپ نے فرمایا: اے علی ! اٹھو میں راضی ہوں اس بات سے کہ تم میرے بعد امام اور ہادی ہوگے۔

فمن کنت مولا ه فهذا ولیّه

فکونو له انصار صدق موالیاً

اس کے بعد کہا جس شخص کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی بھی مولا ہیں تم لوگ ا ن کے حقیقی اور سچے دوست بنو۔

۶۴

هناک دعا اللهم وال ولیه

وکن للذی عادی علیاً معادیاً

اس مقام پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا کی: خدایا !علی کے دوست کو دوست رکھ اور علی کے دشمن کو دشمن قرار دے۔

فیارب انصر ناصریه لنصرهم

امام هدی کالبدر یجلوا الدیا جیا(١)

پرور دگارا!علی کی مدد کرنے والوں کی مدد کرکیونکہ جس طرح تاریک شب میں چاند ہدایت کرتا ہے اسی طرح وہ اپنے چاہنے والوں کی ہدایت کرتے ہیں ۔

ان اشعارمیں حسان نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تقریر جو علی کے بارے میں تھی ان کو امام، ولی اور ہادی جاناکہ جو امت کی رہبری اور زعامت کی وضاحت کرتی ہے

ہاں !عام مسلمان اس بات کا گمان نہیں کرتے تھے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدکوئی بھیپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانشینی اور خلافت کے بارے میں علی سے جھگڑا کرے گاجیسا کہ معاویہ نے محمد بن ابی بکر کے خط کے جواب میں تحریر کیا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں میں اور تمہارے باپ ابوطالب کے بیٹے کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم سمجھتے تھے اور ان کے فضل کو اپنے اوپر آشکار جانتے تھے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد تمہارے باپ اورعمر سب سے پہلے وہ شخص تھے کہ جنہوں نے علی کے مرتبہ کو گھٹا یا اور لوگوں سے اپنی بیعت لی ۔(٢)

یہی وجہ ہے وہ لوگ جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے آخری مہینوں میں مدینہ میں نہیں تھے انہیں بعد وفات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بعض انجام دی جانے والی سازشوں کا علم نہیں تھا، جیسے خالدبن سعید

____________________

(١)امینی ، عبد الحسین،الغدیر ،دارالکتب الاسلامیہ ،تہران،١٣٦٦ہجری شمسی ج،١ ص١١،و ج٢،ص ٣٩

(٢)بلاذری ،احمد بن یحییٰ بن جابر ،انساب الاشراف ،منشورات مؤسسة الاعلمی للمطبوعات بیروت ١٣٩٤ھ ،ج٢،ص٣٩٦

۶۵

اور ابوسفیان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد جب مدینہ آئے تو انے دیکھاکہ ابوبکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جگہ بیٹھے ہیں اور خود کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خلیفہ بتا رہے ہیں تو ان لوگوں کو بہت تعجب ہوا ۔( ١)

حتیٰ کہ جب ابو سفیان سفر سے واپس آیا اور ان حالات کو دیکھا تو عباس بن عبدالمطلب اور علی کے پاس گیا اور ان سے درخواست کی کہ اپناحق لینے کے لئے قیام کریں لیکن انہوں نے اس کی بات کو قبول نہیں کیا، البتہ ابو سفیان کی نیت میں خلوص نہیں تھا۔(٢)

اگر چہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اکثر صحابہ نے ابو بکر کی خلافت کو قبول کرلیا لیکن علی کے کی فضلیت وبرتری کو نہیں بھولے جب آپ مسجد میں ہوتے تھے شرعی مسائل میں آپ کے علاوہ کوئی فتویٰ نہیں دیتا تھا کیونکہ آپ کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی صاف و صریح حدیث کی بنا پر امت میں سب سے زیادہ صحیح فیصلہ کرنے والا جانتے تھے۔(٣)

حضرت عمر کا کہنا تھا کہ خدانہ کرے کوئی مشکل پیش آئے اور ابوالحسن نہ ہوں ۔(٤)

نیزاصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہتے تھے ؛ جب تک علی مسجد میں موجودر ہیں ان کے علاوہ کوئی بھی فتویٰ دینے کا حق نہیں رکھتا۔(٥)

____________________

(١)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی منشورات شریف الرضی، قم ،طبع اول ،١٤١٤ھ، ج٢، ص١٢٦

(٢) ابن اثیر، عزالدین ابی الحسن علی بن ابی الکرم ،اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ ، داراحیاء التراث العربی بیروت ،ج٣ ،ص١٢، ابن واضح، تاریخ یعقوبی ۔ج٢ ،ص١٢٦

(٣)بلاذری ،انساب الاشراف ،ص٩٧

(٤)ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ ،دار احیاء التراث االعربی ،ج ١ ،ص١٨

(٥)ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ ،دار احیاء التراث االعربی ،ج ١ ،ص١٨

۶۶

اگر چہ علی نے پیغمبر کی وفات کے بعد سیاسی اقتدارحاصل نہیں کیالیکن آپ کے فضائل ومناقب کویہی اصحا ب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بیان کرتے ہیں ، ابن حجر ہیثمی جو اہل سنت کے متعصب عالموں میں سے ہیں انہوں نے حدیث غدیر کے راویوں کی تعداد تیس افراد بتائی ہے۔(١)

لیکن ابن شہر آشوب نے حدیث غدیر کے اصحاب میں راویوں کی تعداد اسی(٨٠) بیان کی ہے۔(٢)

لیکن علامہ امینی نے حدیث غدیر کے راویوں کی تعداد جو صحابہ سے نقل ہوئی ہے ایک سو دس ذکر کی ہے کہ جس کی تفصیل یوں ہے:۔(٣)

ابو ہریرہ، ابو لیلیٰ انصاری ،ابو زینب انصاری، ابو فضالہ انصاری، ابو قدامہ انصاری، ابو عمرہ بن عمرو بن محصن انصاری، ابوالہیثم بن تیّہان، ابو رافع، ابو ذؤیب، ابوبکر بن ابی قحافہ، اسامہ بن زید،ا بی بن کعب ،اسعد بن زراۂ انصاری، اسماء بنت عمیس،ام سلمہ، ام ہانی، ابو حمزہ انس بن مالک انصاری، براء بن عازب، بریدہ اسلمی، ابوسعید ثابت بن ودیعہ انصاری، جابر بن سمیرہ، جابر بن عبد اللہ انصاری، جبلہ بن عمرو انصاری، جبیر بن مطعم قرشی، جریر بن عبد اللہ بجلی ، ابوذر جندب بن جنادہ، ابو جنیدہ انصاری ،حبہ بن جوین عرنی، حبشی بن جنادہ سلولی ،حبیب بن بدیل بن ورقاء خزاعی، حذیفہ بن اسید غفاری، ا بو ایوب خالد زید انصاری، خالد بن ولید مخزومی، خزیمہ بن

____________________

(١)صواعق المحرقہ ،مکتبہ قاہرہ ،طبع١٣٨٥،ص١٢٢

(٢)مناقب آل ابی طالب ،مؤسسہ انتشارات علامہ ،ج٣،ص٢٥و٢٦

(٣)الغدیر ،دارالکتب الاسلامیہ ،تہران،ج١،ص١٤۔٦١

۶۷

ثابت، ابو شریح خویلد بن عمرو خزاعی، رفاعہ بن عبد المنذر انصاری، زبیر بن عوام، زید بن ارقم ،زید بن ثابت ،زید بن یزید انصاری ،زید بن عبداللہ انصاری، سعد بن ابی وقاص، سعد بن جنادہ،سلمہ بن عمرو بن اکوع، سمرہ بن جندب، سہل بن حنیف، سہل بن سعد انصاری، صدی بن عجلان، ضمیرة الاسدی، طلحہ بن عبید اللہ، عامر بن عمیر، عامر بن لیلیٰ، عامر بن لیلیٰ غفاری،عامر بن واثلہ،عائشہ بنت ابی بکر ،عباس بن عبدالمطلب، عبد الرحمن بن عبدربہ انصاری،عبد الرحمن بن عوف قرشی، عبدالرحمن بن یعمر الدیلی ، عبداللہ بن ابی عبد الاثر مخزومی، عبد اللہ بن بدیل، عبد اللہ بن بشیر، عبد اللہ بن ثابت انصاری،عبد اللہ بن ربیعہ، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن ابی عوف، عبد اللہ بن عمر،عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن یامیل، عثمان بن عفان، عبید بن عازب انصاری، ابو طریف عدی بن حاتم، عطیہ بن بسر، عقبہ بن عامر، علی بن ا بی طالب، عمار بن یاسر، عمارہ الخزرجی، عمر بن عاص، عمر بن مرہ جہنی، فاطمہ بن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فاطمہ بنت حمزہ، عمربن ابی سلمہ، عمران بن حصین خزاعی ،عمر و بن حمق خزاعی، عمر و بن شراحیل، قیس بن ثابت انصاری ،قیس بن سعد انصاری، کعب بن عجرہ انصاری، مالک بن حویرث لیثی،مقداد بن عمرو، ناجیہ بن عمرو خزاعی، ابو برزہ فضلہ بن عتبہ اسلمی، نعمان بن عجلان انصاری، ہاشم مرقال، وحشی بن حرب، وہب بن حمزہ، ابو جحیفہ، وہب بن عبد اللہ و یعلی بن مرہ۔(١)

حدیث غدیر کے راویوں کے درمیان وہ لوگ جو علی سے دشمنی رکھتے تھے جیسے ابوبکر،عمر،عثمان،طلحہ،عبدالرحمن بن عوف،زیدبن ثابت،اسامہ بن زید،حسان بن ثابت،

____________________

(١) الغدیر، درالکتب الاسلامیہ،تہران،ج١،ص١٤ـ ٦١۔

۶۸

خالد بن ولید،اور عائشہ کا نام لیا جاسکتا ہے حتیٰ کہ یہی صحابہ جوحضرت علی کے موافق بھی نہیں تھے لیکن اس کے باوجودکبھی آپ کی طرف سے آپ کے دشمن کے مقابلے میں دفاع بھی کرتے تھے جیسے سعد بن وقاص ،یہ ان چھ لوگوں میں سے تھے جو عمر کے مرنے کے بعد انتخاب خلافت کے لئے چھ رکنی کمیٹی بنی تھی اورانہوں نے علی کے مقابلے میں عثمان کو ووٹ دیا نیز خلافت کے مسئلہ میں حضرت علی کی طرفداری اور حمایت بھی نہیں کی اور بے طرفی اختیار کی، وہ باتیں جو ان کے اور معاویہ کے درمیان ہوئیں تو انہوں نے معاویہ سے کہا: تونے اس شخص سے جنگ و جدال کیا ہے جو خلافت میں تجھ سے زیادہ سزاوار تھا، معاویہ نے کہا: وہ کیسے؟ اس نے جواب دیا : میرے پاس دلیل یہ ہے کہ ایک تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی کے بارے میں فرمایا جس کا میں مولاہوں اس کے علی مولاہیں بارالہاٰ! علی کے دوستوں کو دوست اورعلی کے دشمنوں کو دشمن رکھ اوردوسرے ان کے فضل و سابقہ کی وجہ سے(١)

اسی طرح عمرو عاص کا بیٹا عبد اللہ جنگ صفین میں اپنے باپ کے ساتھ معاویہ کی طرف تھا ،جب عمارقتل ہوگئے اور ان کے سر کو معاویہ کے پاس لایا گیا تو دو شخص آپس میں جھگڑنے لگے ہر ایک یہ دعویٰ کرنے لگا کہ عمار کو اس نے قتل کیا ہے عبد اللہ نے کہا :بہتر یہ ہے کہ تم میں سے ایک اپنا حق دوسرے کو بخش دے اس لئے کہ میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: عمار کو ایک ظالم گروہ قتل کرے گا معاویہ نا راض ہوا اور اس نے کہا:

____________________

(١)بلاذری،انساب الاشراف،موسسة الاعلمی للمطبوعات، بیروت، طبع اول، ١٣٩٤ ہجری، ج٢،ص ١٠٩،اخطب خوارزمی ،المناقب، منشورات، المکتبة الحیدریہ، نجف، ١٣٥٨، ہجری ص٥٩۔٦٠

۶۹

تو یہاں پر کیا کر رہا ہے عبد اللہ نے کہا :کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ کو باپ کی اطاعت کا حکم دیا ہے اس لئے میں تمہارے ساتھ ہوں لیکن جنگ نہیں کروں گا۔(١)

جناب عمار کا امیر المومنین کی رکاب میں موجود ہونا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے عمار کے قاتلوں کو ایک ستم گار گروہ بتایا ہے اس پر آشوب دور میں یہ علی کی حقانیت کی بہترین گواہی تھی جس کا عمرو عاص کے بیٹے نے بھی اعتراف کیا ۔

سقیفہ کی تشکیل میں قریش کاکردار

علی کی جانشینی کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام کوششوں اور واقعہ غدیرکے باوجودسقیفہ کا اجتماع واقع ہوا خدا کافرمان زمین میں دھرارہ گیا اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خانوادہ خانہ نشین ہو گیا ، اس سلسلہ میں ضروری ہے کہ قریش کے کردارکی نشاندہی کی جائے اس لئے کہ قریش ہی چاہتے تھے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عترت کا حق غصب کریں ،حضرت علی نے مختلف مقامات پر قریش کے مظالم اور خلافت حاصل کرنے کی کوشش کو بیان کیا ہے ۔(٢)

اس طرح اپنے بھائی عقیل کے خط کے جواب میں فرماتے ہیں :قریش سخت گمراہی میں ہیں ، ان کی دشمنی اور نا فرمانی معلوم ہے انہیں سر گردانی میں ہی چھوڑ دو اس لئے کہ انہوں نے مجھ سے جنگ ٹھان لی ہے جس طرح رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ پر تلے ہوئے تھے مجھ کو سزا دینے سے پہلے ،

____________________

(١)بلاذری،انساب الاشراف،ص٣١٢۔٣١٣

(٢)بطور نمونہ نہج البلاغہ ، خطبہ ١٧،میں فرماتے ہیں خدایا قریش اور ان لوگوں کے مقابلے میں جو ان کی مدد کرتے ہیں تجھ سے مدد چاہتا ہوں کیوں کہ انہوں نے میرے مرتبہ کو کم کیا اور وہ خلافت جو مجھ سے مخصوص تھی اس کے بارے میں میرے خلاف متفق ہوگئے، نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، ص ٥٥٥،

۷۰

انہیں چاہئے کہ وہ قریش کو سزا دیں اورانہیں مزہ چکھائے کیونکہ انہوں نے رشتہ داری توڑ دی اور میرے بھائی کی حکومت مجھ سے چھین لی۔

امام حسن نے جو خط معاویہ کو لکھا تھا اس میں سقیفہ کی تشکیل میں قریش کے کردار کو اس طرح بیان فرمایا : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد قبیلۂ قریش نے اپنے آپ کواس حیثیت سے پہچنوایا کہ ہم لوگ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ نزدیک ہیں اور اسی دلیل کی بنا پر تمام عربوں کوکنارے کردیا اور خلافت کواپنے ہاتھ میں لے لیا ہم اہل بیت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی یہی کہاتو ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا اور ہم کو ہمارے حق سے محروم کردیا۔(١)

امام باقر نے بھی اپنے ایک صحابی سے فرمایا : قریش نے جو ستم ہمارے اور ہمارے دوستوں اور شیعوں پر کئے ہیں اس کے بارے میں کیا کہوں ؟ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات ہوئی جب کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا تھاکہ لوگوں کے درمیان(خلافت کے لئے) اولیٰ ترین فردکون ہے؟ لیکن قریش نے ہم سے روگردانی کی اور خلافت کو اس کی جگہ سے منحرف کردیا ہماری دلیلوں کے ذریعہ انصار کے خلاف احتجاج کیا اور اس کے بعد خلافت کو ایک دوسرے کے حوالے کرتے رہے اور جس وقت ہمارے پاس واپس آئی توبیعت شکنی کی اور ہم سے جنگ کی ۔(٢)

قریش کافی مدت پہلے ایسا عمل انجام دے چکے تھے جس سے لوگ سمجھ گئے تھے کہ یہ

____________________

(١) ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ، منشورات شریف الرضی ، قم ١٤١٦ھ ص ٦٥

(٢)کتاب سلیم بن قیس العامری، منشورات دار الفنون ، بیروت ، ١٤٠٠ھ ص ١٠٨، شیرازی السید علی خان، الدرجات الرفیعة فی طبقات الشیعة ، مؤسسة الوفاء ، بیروت ،ص ٥

۷۱

خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہیں اسی لئے انصار سقیفہ کی طرف دوڑے تاکہ قریش تک حکومت پہنچنے سے مانع ہوں ، اس لئے کہ قریش فرصت طلب تھے۔

خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریش کی دشمنی کے اسباب

اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیوں قریش خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنی رکھتے تھے؟ کیاان کا دین اور ان کی دنیا اس خاندان کی مرہون منت نہیں تھی؟ کیاانہوں نے اسی خاندان کی برکت کی وجہ سے ہلاک ہونے سے نجات نہیں پائی تھی ؟اس سوال کا جواب دینے کے لئے چند امور کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

١) قریش کی ریاست طلبی

قریش زمانہ جاہلیت میں پورے جزیرة العرب پر تمام عربوں میں ایک امتیاز رکھتے تھے، ابوالفرج اصفہانی کا اس بارے میں کہنا ہے : تمام عرب قومیں قریش کو شعر کے علاوہ ہر چیز میں مقدم جانتی تھی(١) یہ موقعیت اورحشیت ان کو دوجہتوں سے حاصل ہوئی تھی۔

(الف) اقتصادی قوت : قریش نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جد جناب ہاشم کے زمانہ ہی سے پڑوسی ممالک جیسے یمن، شام ،فلسطین ، عراق، حبشہ سے تجارت کرنی شروع کردی تھی اور اشراف قریش اس تجارت کی وجہ سے بہت زیادہ ثروتمند ہو گئے تھے۔(٢)

____________________

(١) اصفہانی، الاغانی، دار الاحیاء تراث العربی ، ج ١ ص ٧٤

(٢) مہدی پیشوائی، تاریخ اسلام ، دانشگاہ آزاد اسلامی ،واحد اراک ، ص ٥٠۔٥١

۷۲

خداوند عالم اس تجارت کو قریش کے لئے سرمایہ افتخار اور عیش و مسرت قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے :ایک دوسرے سے محبت و الفت پیدا کرنے گرمیوں اور سردیوں میں آپس میں رابطہ رکھنے کے لئے اللہ کی عبادت کریں وہی پروردگارکہ جس نے بھوک سے انہیں نجات دی اورخوف و ہراس ان سے دور کیا۔(١)

(ب) معنوی حیثیت :قریش کعبہ کے وجود کی بنا پر کہ جو عرب دنیامیں ، عرب قبائل کے درمیان ایک مشہورزیارت گاہ تھی نیز اسے عربوں کے درمیان ایک خاص معنوی حیثیت حاصل تھی خاص طور پر ہاتھیوں کے لشکر ابرہہ کی شکست کے بعد قریش کا احترام لوگوں کی نظر میں زیادہ ہو گیاتھا اور یہ کعبہ کے کلید دار بھی تھے،قریش نے اس واقعہ سے فائدہ اٹھایا اور خود کو آل اللہ ، جیران اللہ اور سکان حرم اللہ کہلواناشروع کر دیا ، اسی وسیلہ کی بنیاد پر انہوں نے اپنے مذہبی مقام کو استوار کرلیا ۔(٢)

اسی احساس برتری و اقتدار کی وجہ سے قریش نے کوشش شرو ع کی کہ اپنی برتری کو ثابت کریں چونکہ مکہ کعبہ کی وجہ سے عرب کے لئے مرکز تھا جزیرةالعرب کے اکثر ساکنین وہاں آتے جاتے تھے،قریش اپنی رسومات کو مکہ آنے والوں پرتھوپتے تھے طواف کعبہ کے وقت لوگوں کو متوجہ کرتے تھے کہ حاجی ان سے خریدے ہوئے لباس میں طواف کریں(٣) لیکن رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ظاہر ہونے کے بعد انہوں نے احساس کیا کہ تعلیمات اسلامی ان کی برتری اور انحصار طلبی کے منافی ہے ،قریش نے ان کو قبول نہیں کیا اور اپنی تمام

____________________

(١)سورہ قریش

(٢)تاریخ اسلام ،مہدی پیشوائی ، ص ٥٢

(٣)ابن سعد ، الطبقات الکبری ، دار صادر ، بیروت ، ج١ ،ص ٧٢

۷۳

طاقت کے ساتھ مخالفت میں کھڑے ہوگئے اور جو بھی اسلام کی نابودی کے لئے ممکن تھا اس کوانجام دیا لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا چاہتا ہے، آخر کار پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش پرکامیابی حاصل کرلی ،آٹھویں ہجری میں قریش کے کچھ افراد مدینہ آئے اور مسلمانوں سے مل گئے لیکن دشمنی سے باز نہ آئے مثلاًحکم بن عاص نے پیمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مذاق اڑایا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ا سے طائف کی جانب شہر بدر کردیا۔(١)

جب قریش میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مقابلے کی طاقت نہیں رہی تو انہوں نے ایک نیا فارمولہ بنا یاکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین سے مقابلہ کریں عمر نے ہمیشہ ابن عباس سے کہا: عرب نہیں چاہتے کہ نبوت اور خلافت تم بنی ہاشم کے درمیان جمع ہواسی طرح مزید کہا:(٢) اگر بنی ہاشم میں سے کوئی امر خلافت کا ذمہ دار بن گیا تو اس خاندان سے خلافت باہر نہیں جائے گی اور ہمارا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا لیکن اگر بنی ہاشم کے علاوہ کوئی اس کا ذمہ دار ہوگیا تو وہ لوگ اپنے ہی درمیان ایک دوسرے کو منتقل کرتے رہیں گے۔(٣)

اس زمانے کے لوگ بھی قریش کے اس رویہ سے آگاہ تھے جیسا کہ براء بن عازب نے نقل کیا کہ میں بنی ہاشم کے چاہنے والوں میں سے تھا جس وقت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دنیا سے گئے تو مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ قریش بنی ہاشم سے خلافت کو نہ چھین لیں اور میں کافی حیران وسر گردان تھا۔(٤)

____________________

(١) ابن اثیر، اسد الغابة فی معرفة الصحابہ،دار احیا التراث العربی،ج٢،ص٣٤

(٢) ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،دار احیا التراث العربی،ج١،ص١٩٤

(٣)ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،دار احیا التراث العربی،ج١،ص١٩٤

(٤) ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،دار احیا التراث العربی،ج٢،ص٥١

۷۴

قریش کا ابو بکر اور عمر کی خلافت پر راضی ہونا خود ان کے فائدے میں تھا جیساکہ ابوبکر نے مرتے وقت قریش کے کچھ لوگوں سے کہ جو اس کی عیادت کے لئے آئے تھے کہا: میں جانتا ہوں کہ تم میں سے ہر ایک یہ خیال کرتا ہے کہ میرے بعد خلافت اس کی طرف منتقل ہوگی لیکن میں نے تم میں سے بہترین شخص کو اس کے لئے چنا ہے۔(١)

ابن ابی الحدید کہتا ہے: قریش عمر کی طولانی خلافت کی وجہ سے ناراض تھے اور عمربھی اس بات سے آگاہ تھے لہذاوہ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ مدینہ سے باہر جائیں ۔(٢)

(٢) قبیلوں کی رقابت و حسادت

عربوں میں قبیلوں کے درمیان رقابت اور حسادت بہت تھی خدا وند عالم نے قرآن مجید میں سورہ تکاثر(٣) اور سورہ سبائ(٤) میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے، زمانۂ جاہلیت

____________________

(١) ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،دار احیا التراث العربی،ج١،ص١١٠

(٢) ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،دار احیا التراث العربی،ج٢ ،ص١٥٩

(٣)تمہاری سرگرمی کا باعث زیادہ طلبی ہے یہاں تک کہ تم اپنے مرنے والوں کی قبروں سے ملاقات کرو۔

(٤)تم نے کہا : ہمارے پاس مال اور بیٹے زیا دہ ہیں اسی وجہ سے ہم سزا نہیں پاسکتے ان سے کہہ دوکہ میراخدا جب کسی کو چاہے گا اس کی روزی کم کردے اور جب چاہے زیادہ کردے گا لیکن زیادہ تر لوگ نہیں جانتے ہیں کہ اولاد اور مال کا زیادہ ہونا ان کو مجھ سے نزدیک نہیں کرے گا مگر یہ کہ وہ لوگ جو ایمان لائیں اور عمل صالح انجام دیں ۔

۷۵

میں بنی ہاشم اور دوسرے تمام قبائل کے درمیان رقابت موجود تھی، زمزم کھودتے وقت جناب عبدالمطلب کے مقابلہ میں قریش کے تمام قبائل جمع ہوگئے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ افتخار صرف عبد المطلب کو حاصل ہو ۔(١)

یہی وجہ ہے کہ ابو جہل کہتا تھا ہم بنی ہاشم سے ان کے شرف کی وجہ سے رقابت کرتے تھے وہ بھی لوگوں کو کھانا دیتے تھے توہم بھی لوگوں کو کھانا دیتے تھے ، وہ لوگوں کو سواری مہیاکرتے تھے تو ہم بھی لوگوں کو سواری مہیا کرتے تھے تو وہ لوگوں کو پیسے دیتے تھے ہم بھی لوگوں کو پیسے بانٹتے تھے اور ہم ان کے ساتھ اس طرح شانہ بشانہ بڑھ رہے تھے جیسے گھوڑوں کی دوڑمیں دو گھوڑے ساتھ چل رہے ہوں ، یہاں تک کہ ان لوگوں نے کہا : ہم میں ایک ایسا پیغمبرمنتخب ہوا ہے کہ جس پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے اب ہم ان تک کیسے پہونچتے ؟ خدا کی قسم !ہم اس پر ہرگز ایمان لائے اور نہ ہی ان کی تصدیق کی۔(٢)

امیہ بن ابی ا لصلت جو طائف کے اشراف میں سے تھا اس نے اسی وجہ سے اسلام قبول نہیں کیااور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موعودکا سالہا سال انتظار کرتا رہاتاکہ اس انتطارمیں خود کو اس منصب تک پہنچا دے جب اس کو بعثت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خبر ملی پیروی کرنے سے اجتناب کیا اور اس کی علت یہ بتائی کہ مجھ کو ثقیف کی عورتوں سے شرم آتی ہے، اور اس کے بعد کہتا ہے : کافی عرصہ تک میں ان سے یہ کہتا رہاکہ وہ پیغمبر موعود میں ہوگااب کس طرح تحمل کروں کہ وہ مجھے بنی عبد مناف کے ایک جوان کا پیرو دیکھیں ۔(٣)

____________________

(١)ابن ہشام ،السیرة النبویہ ،دارالمعرفة،بیروت ،ج ١ ،ص١٤٣،١٤٧

(٢)ابن ہشام ،سیرةالنبویہ، دار المعرفة ، بیروت (بی تا) ج١ ص ١٤٣۔١٤٧

(٣) ابن قتیبہ، المعارف ، منشورات الشریف الرضی ، قم ١٤١٥ھ ص ٦٠، اور تاریخ اسلام ، مہدی پیشوائی ، زمانہ جاہلیت سے حجة الوداع تک ، دانشگاہ آزاد اسلامی ، واحد اراک ، ص ٨٨

۷۶

لیکن اس حسد ورقابت کے باوجود خدا نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کامیاب کیا اور قریش کی شان و شوکت کو خاک میں ملادیا ،آٹھویں ہجری کے بعد اکثر اشراف قریش مدینہ منتقل ہو گئے اور وہاں بھی خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تکلیف دینے سے باز نہ آئے۔

ابن سعد نے نقل کیا ہے کہ مہاجرین میں سے ایک نے عباس بن عبدالمطلب سے چند بار کہا : آپ کے والد عبدالمطلب اور بنی سہم کاہنہ غیطلہ دونوں جہنم میں ہیں ، آخر کار عباس غصہ ہو گئے اور اس کے منھ پر طمانچہ مارا اور اس کی ناک سے خون نکل آیا، اس شخص نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آکر عباس کی شکایت کی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے چچا عباس سے اس با ت کی وضاحت چاہی ،عباس نے سارا قضیہ بیان کیا تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : کیوں عباس کو اذیت دیتے ہو؟(١)

حضرت علی اپنے مخصوص کمال کی بنا پر زیادہ مورد حسد قرار پائے امام باقر فرماتے ہیں کہ جب بھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی ـ کے فضا ئل بیان کرناچاہتے تھے یا اس آیت کی تلاوت کرنا چاہتے تھے جو علی کی شان میں نازل ہوئی تھی تو کچھ لوگ مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے تھے، اس طرح کی روایت نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بہت زیا دہ وارد ہوئی ہیں ۔(٢)

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جس نے علی سے حسد کیا اس نے مجھ سے حسد کیا اور جس نے مجھ سے حسد کیا وہ کافر ہوگیا ۔(٣)

____________________

(١)طبقات الکبریٰ داربیروت ١٤٠٥ھ ، ج ٤ ،ص٢٤

(٢)ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ، مؤسسہ انتشارات ١٤٦،قم ،ج ٣ ،ص٢١٤

(٣)ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ، مؤسسہ انتشارات ١٤٦،قم ،ج ٣ ص، ٢١٣۔٢١٤

۷۷

یہاں تک کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں بعض افراد علی سے حسد کرتے تھے اور آ پ کو اذیت پہونچاتے تھے جیسا کہ سعد بن وقاص سے نقل ہواہے کہ میں اور دوسرے دو آدمی مسجد میں بیٹھے علی کی برائی کر رہے تھے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غصہ کی حالت میں ہم لوگو ں کی طرف آئے اورفرمایا : علی نے تمہارا کیا بگاڑاہے؟ جس نے علی کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی ۔(١)

(٣)حضرت علی سے قریش کی دشمنی

علی کی محرومیت اورمظلومیت کی اہم ترین دلیل قریش کی مخالفت اور دشمنی تھی کیونکہ وہ حضرت علی سے زک کھا چکے تھے حضرت نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے زمانے میں جنگوں میں ان کے باپ،بھائیوں اور عزیزوں کو قتل کیا تھا ،چنانچہ یعقوبی حضرت علی کی خلافت کے شروع کے حالات کے بارے میں لکھتا ہے :قریش کے مروان بن حکم ،سعید بن عاص اور ولید بن عقبہ کے علاوہ تمام لوگوں نے حضرت علی کے ہاتھوں پر بیعت کی ، ولید نے ان لوگوں کی طرف سے حضرت علی سے کہا:آپ نے ہم لوگوں کو نقصان پہنچایا ہے، بدرکے بعد میرے باپ کی گردن اڑائی سعیدکے باپ کو جنگ میں قتل کیا اور جب عثمان نے مروان کے باپ کو مدینہ واپس بلا نا چاہا تو آپ نے اعتراض کیا ۔(٢)

اسی طرح خلافت علی کے وقت عبید اللہ بن عمر نے امام حسن سے سفارش کی

____________________

(١)ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ، مؤسسہ انتشارات ١٤٦،قم ،ج :٣ ،ص٢١١

(٢)ابن واضح ، احمد بن ابی یعقوب ،تاریخ یعقوبی ،منشورات شریف رضی ، قم ،٤١٤١ھ، ج٢،ص ١٧٨

۷۸

کہ آپ مجھ سے ملاقات کریں مجھے آ پ سے کام ہے، جس وقت دونوں کی ملا قات ہوئی تو عبید اللہ بن عمرنے امام حسن سے کہا : آپ کے والد نے شروع سے آخر تک قریش کو نقصان پہنچایا لوگ ان کے دشمن ہو گئے ہیں آپ میری مدد کریں تاکہ ان کو ہٹا کر آ پ کو ان کی جگہ بٹھادیا جائے۔(١)

جب ابن عباس سے سوال کیاگیا: کیوں قریش حضرت علی سے دشمنی رکھتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : پہلے والوں کو حضرت علی نے واصل جہنم کیا اور بعد والوں کے لئے باعث عار ہو گئے ،حضرت علی کے دشمن قریش کی اس ناراضگی سے فائدہ اٹھاتے تھے اورقضیہ کو مزید ہوا دیتے تھے۔(٢)

عمر بن خطاب نے سعد بن عاص سے کہا : تومجھے اس طرح دیکھ رہا ہے جیسے میں نے ہی تیرے باپ کو قتل کیا ہو میں نے اس کو قتل نہیں کیا بلکہ علی نے ان کو قتل کیا ہے۔(٣)

خود حضرت علی نے بھی ابن ملجم کے ہا تھوں سے ضربت کھانے کے بعد ایک شعر کے ضمن میں قریش کی دشمنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

تکلم قریش تمنا ی لتقتلنی

فلا و ربکٔ ما فازوا وما ظفروا(٤)

قریش کی خود تمنا تھی کہ وہ مجھے قتل کریں لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے ۔

____________________

(١) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلا غہ ،ج١،ص٤٩٨

(٢) ابن شہر آشوب ،مناقب آل ابی طالب ، ص ٢٢٠

(٣) ابن سعد ، طبقات الکبریٰ ، دار بیروت ، ١٤٠٥ھ ، ج ٥ ،ص ٣١

(٤)ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ،ص٣١٢

۷۹

(٤)حضرت علی کا سکوت :

اب یہ دیکھناچاہیے کہ حضرت علی نے سقیفہ اور ابوبکر کی حکومت کے آغا ز کے بعد کیوں اپنے حق سے صرف نظر کیا ؟چند ماہ کے استدلال اور احتجاجات کے بے اثر ہونے کا یقین کر لینے کے بعد حکومت کے خلاف مسلحانہ جنگ کیوں نہیں کی؟ جب کہ بعض بزرگ اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کے واقعی طرفداروں میں تھے اور عمومی طور سے مسلمان بھی آپ سے مخالفت نہیں رکھتے تھے، بہ طورکلی کہا جا سکتا ہے کہ امیر المومنین نے اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کو مد نظر رکھا اور سکوت اختیار کیا جیساکہ خطبہ شقشقیہ میں آپ نے فرمایا:

''میں نے خلافت کی قباکو چھوڑ دیا اور اپنے دامن کو اس سے دور کر لیا حالانکہ میں اس فکر میں تھا کہ آیا تنہا بغیر کسی یاورومدد گار کے ان پر حملہ کردو ں یا اس دم گھٹنے والی تنگ و تاریک فضا میں جوان کی کار ستانیوں کانتیجہ تھی اس پر صبر کروں ایسی فضاجس نے بوڑھوں کو فرسودہ بنادیا تھا، جوانوں کو بوڑھا اور با ایمان لوگوں کو زندگی کے آخری دم تک کے لئے رنجیدہ کردیا تھامیں نے انجام پر نگاہ کی تو دیکھا کہ بردباری اور حالات پر صبر کرنا ہی عقل و خرد سے زیادہ نزدیک ہے اسی وجہ سے میں نے صبر کیا لیکن میں اس شخص کی طرح رہا کہ جس کی آنکھ میں کانٹا اور گلے میں کھردری ہڈی پھنسی ہوئی ہو میں اپنی میراث کو اپنی آنکھ سے لٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔(١)

____________________

(١)نہج البلاغہ ،فیض الا سلام، خطبہ ، ٧٤((فَسَد َلْتُ دُونها ثوباً و طَویتُ عنها کَشحاً و طفِفتُ ارتئی بین ان اصُول بِیَدٍ جذّٰائَ اَو أَصبِرَ علیٰ طَخیَةٍ عَمیٰا ء یَهْرَمُ فیها الکبیر ، و یَشِیبُ فیها الصّغیرُ ، و یَکْدَحُ فیها مُوْمِن حتّیٰ یلقی ربَّه ! فَرَاَیْتُ انَّ الصَّبْرَ علیٰ هٰاتا اَحجیٰ فَصَبَرتُ وَ فی المعین قَذیٰ ، و فی الحلْقِ شجی ٰأَرَیٰ تُراثِی نَهْباً))

۸۰