تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک0%

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک مؤلف:
زمرہ جات: تاریخ شیعہ
صفحے: 328

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف: غلام حسن محرمی
زمرہ جات:

صفحے: 328
مشاہدے: 86593
ڈاؤنلوڈ: 4745

تبصرے:

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86593 / ڈاؤنلوڈ: 4745
سائز سائز سائز
تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک

مؤلف:
اردو

حضرت علی کے کلام سے خاموشی کے دوسرے اسباب کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے (اگرچہ وہ اسباب جزئی ہیں جیسے :)

(١)مسلمانوں کے درمیان تفرقہ

امیر المومنین فرماتے ہیں : جب خدا نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روح قبض کی قریش نے اپنے کو ہم پر مقدم کیا اور ہم (جو امت کی قیادت کے لئے سب سے زیادہ سزاوار تھے)کو ہمارے حق سے بازر کھا لیکن میں نے دیکھا کہ اس کام میں صبر و برد باری کرنا مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور ان کے خون بہنے سے بہتر ہے کیونکہ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے دین کی مثال بالکل دودھ سے بھری ہوئی اس مشک کی سی تھی کہ جس میں جھاگ بھر گیا ہوکہ جس میں ذرا سی غفلت اور سستی اسے نابود کر دے گی اور تھوڑا سا بھی اختلاف اسے پلٹ دے گا۔(١)

____________________

(١)انّ اللّه لمّا قبض نبیّه استاثرث علینا قریش بالامر ودفعتنا عن حقٍّ نحن احقُّ به مِن النّاسِ کافّةً فرایْتُ انَّ الصّبر علیٰ ذلکٔ افضَلُ مِن تفیقِ کلمةِ المُسلمین َ و سفْکِٔ دِمائِهم و النّاسُ حد یثو عهدٍ بالاسلام والدین ِ یُمخَص مخْصَ الوطب ، یُفسَدهُ ادنیٰ و هَنٍ و یعکسه خُلفٍ

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ،دار الجیل بیروت،طبع اول،١٤٥٧ہجری ،ج١،ص٣٠٨

۸۱

(٢)مرتد ہونے کا خطرہ

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد، عرب قبائل کی بڑ ی تعداد کہ جنہوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آخری زندگی میں اسلام قبول کیا تھا وہ دین سے پلٹ گئے اور مرتد ہوگئے تھے

کہ جس کی وجہ سے ،مدینہ کے لئے خطرہ بہت بڑھ گیا تھاان کے مقابلہ میں مدینہ کی حکومت کمزورنہ ہو نے پائے اس لئے حضرت علی نے سکوت اختیار کیا حضرت علی نے فرمایا: خدا کی قسم! میں نے یہ کبھی نہیں سوچا اور نہ میرے ذہن میں کبھی یہ بات آئی کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدعرب منصب امامت اور رہبری کو ان کے اہل بیت سے چھین لیں گے اور خلافت کو مجھ سے دور کر دیں گے تنہا وہ چیز کہ جس نے مجھے نا راض کیا وہ لوگوں کا فلاں (ابو بکر ) کے اطراف میں جمع ہوجانا اور اس کی بیعت کرنا تھا میں نے اپناہاتھ کھینچ لیامیں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کچھ گروہ اسلام سے پھر گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کونابودکردیں ، میں نے ا س بات کا خوف محسوس کیا کہ اگر اسلام اور اس کے اہل کی مددد نہ کروں نیز اسلام میں شگاف اور اس کے نابود ہونے پر شاہد رہوں تو میرے لئے اس کی مصیبت حکومت اور خلافت سے محروم ہونے سے زیادہ بڑی تھی کیونکہ دنیا کا فائدہ چند روزہ ہے جو جلدہی ختم ہوجائے گا جس طرح سراب تمام ہوجاتا ہے یا بادل چھٹ جاتے ہیں پس میں نے اس چیز کو چاہا کہ باطل ہمارے درمیان سے چلا جائے اور دین اپنی جگہ باقی رہے۔(١)

____________________

(١)فواللّه ما کان یلقی فی روعی و لا یخطر ببالی ، انّ العرب تزعج هذا الامر من بعده عن اهل بیته ولا انهم منحّوه عنّی من بعده فما راعنی الّا انثیال النّاس علی فلان یبایعونه، فامسکت یدی حتّی رایت رجعة النّاس قد رجعت عن الاسلام یدعون الی محق دین محمد ٍ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فخشیتُ ان لم انصر الاسلام و اهله ان اری فیه ثلماً او هدماً تکون المصیبة به علیَّ اعظم من قوت ولا یتکم الّتی انّما هی متاع ایّام قلائل یزول منها ما کان یزول السَّراب او کما یتقشّع السحاب فنهضت فی تلکٔ الاحداث حتی زاح الباطل و زهق ،واطمانّ الدین و تنهنه ( نہج البلاغہ ، فیض الاسلام، مکتوب ٦٢

۸۲

امام حسن نے بھی معاویہ کو خط میں لکھا :میں نے منافقوں اور عرب کے تمام گروہ کہ جو اسلام کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے ان کی وجہ سے اپنے حق سے چشم پوشی کی(١) حتیٰ کہ ان لوگوں میں کچھ ایسے تھے جن کے لئے قرآن نے شہادت دی ہے: ان کے قلوب میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا تھا اور انہوں نے زبردستی اسلا م قبول کیا تھا اور اپنے نفاق کی وجہ سے علی کی ولایت کے منکر تھے حتیٰ کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دور میں بھی اس مطلب پر اعتراض کرتے تھے۔

طبرسی نے آیۂ ''سئل سائل بعذاب واقع'' کی تفسیرمیں حضرت امام صادق سے نقل کیا ہے : غدیر خم کے واقعہ کے بعد نعمان بن حارث فھری پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:آپ کے حکم کے مطابق ہم نے خداکی وحدانیت اور آ پ کی رسالت کی گواہی دی اورآپ نے جہاد ، روزہ ،حج ، زکوٰ ة، نماز کا حکم دیا ہم نے قبول کیا ان تمام باتوں پر آپ راضی اور خوش نہیں ہوئے اور کہہ رہے ہیں کہ جس کامیں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں ، کیا یہ آپ کی طرف سے ہے یا خداکی جانب سے ؟تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے یہ حکم خدا کی طرف سے ہے ،نعمان بن حا رث وہاں سے یہ کہتا ہوا واپس ہوا کہ اگر یہ مطلب حق ہے تو آسمان سے میرے اوپر پتھر نازل فرما ،اسی وقت آسمان سے اس کے اوپر پتھر نازل ہو ااور وہ وہیں پر ہلا ک ہوگیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔(٢)

____________________

(١)ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، منشورات الشریف الرضی ، قم ١٤١٦ھ ص ٦٥

(٢)مجمع البیان ،دارالمعرفة للطباعة ،١٤٠٨ھ ،ج١٠،ص٥٣٠

۸۳

سقیفہ میں بھی یہ لوگ قریش کے حامی اورطرف دار تھے جیسا کہ ابو مخنف نے نقل کیا ہے کہ کچھ صحرائی عرب مدینہ کے اطراف میں کار وبار کے لئے آئے ہوئے تھے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے دن مدینہ میں موجود تھے ان لوگوں نے ابو بکر کی بیعت کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔(١)

(٣) عترت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصلی وارث اور دین کے سچے حامی نیز خیر خواہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خا ندان والے تھے یہ لوگ قرآن کے ہم پلہ اورہم رتبہنیز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسری عظیم یاد گارنیز قرآن وشریعت کی تفسیر کرنے والے تھے انہوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اسلام کا صحیح چہرہ لوگوں کے سامنے پیش کیاتھا ان لوگوں کا قتل ہوجانا ناقابل تلافی نقصان تھا امیر المؤمنین فرماتے ہیں : میں نے سوچا اور فکر کی کہ اس وقت اہل بیت کے علاوہ کوئی میرا مدد گار نہیں ہے میں راضی نہیں تھا کہ یہ لوگ قتل کر دئیے جائیں ۔(٢)

سقیفہ کے بعد شیعوں کے سیاسی حالات

اگرچہ سقیفہ تشکیل پانے کے بعد حضرت علی سیاسی میدان سے دور ہوگئے تھے، شیعہ مخصوص گروہ کی صورت میں سقیفہ کے بعدسیاسی طور پر وجود میں آئے اور انفرادی یا جماعت

____________________

(١) شیخ مفید ، محمد بن محمد بن نعمان ،الجمل ،مکتب الاعلام الاسلامی، مرکز نشر ،ص١١٨،١١٩

(٢)فَنَظَرتُ فاِذَا لَیْسَ لِی مُعِینُ اِلّا اَهل بَیْتِی فَضَنَنْتُ بِهِمْ عَن المُوْت ( نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، خطبہ : ٢٦ )

۸۴

جماعت کی صورت میں حضرت علی کی حقانیت کادفاع کرتے رہے پہلے حضرت فاطمہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زہراکے گھر جمع ہوئے اور بیعت سے انکار کیا اور سقیفہ کے کارندوں سے روبروہوئے۔(١)

لیکن حضرت علی تحفظ اسلام کی خاطر خشونت اور سختی کا رویہ ان کے ساتھ اپنانا نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ چاہتے تھے کہ بحث و منا ظرہ کے ساتھ مسئلہ کا تصفیہ کریں چنانچہ براء بن عازب نقل کرتا ہے:میں سقیفہ کے قضیہ سے دل برداشتہ رات کے وقت مسجد نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں گیا اور دیکھا: مقداد، عبادہ بن صامت ، سلمان فارسی ،ابوذر ، حذیفہ اور ابوالہیثم بن تیہان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد رونما ہونے والے حالا ت کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں ہم سب ایک ساتھ ابی بن کعب کے گھر گئے تو اس نے کہا: جو بھی حذیفہ کہیں اس کی رائے بھی وہی ہوگی۔(٢)

آخر کار شیعان علی نے جمعہ کے دن مسجد نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ابو بکر کے ساتھ مناظرہ کیا اور اس کو ملامت کیا ، طبرسی نقل کرتے ہیں :

ابا ن بن تغلب نے امام صادق سے پوچھا : میں آپ پر فدا ہو جاؤں ،جس وقت ابو بکر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جگہ پر بیٹھے تو کیا کسی نے اعتراض نہیں کیا ؟امام نے فرمایا : کیوں نہیں انصار و مہاجرین میں سے بارہ افرادنے مثلاًخا لد بن سعید ،سلمان فارسی ، ابوذر ، مقداد، عمار، بریدہ اسلمی ،ابن ا لہیثم بن تیھان ، سہل بن حنیف ،عثمان بن حنیف ،خزیمہ بن ثابت (ذوالشہادتین)،ابی بن کعب ،ابو ایوب انصاری ایک جگہ پر جمع ہوئے اور

____________________

(١)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی،منشورات شریف رضی ،قم، ١٤١٤ھ، ج٢،ص١٢٦

(٢)ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ ، دار احیاء التراث العربی ،بیروت ،ج٢ص٥١

۸۵

انہوں نے سقیفہ کے متعلق آپس میں گفتگو کی، بعض نے کہا : مسجد چلیں اور ابوبکر کو منبر سے اتارلیں لیکن بعض لوگوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا یہ لوگ امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہا چلتے ہیں اور ابوبکر کو منبر سے کھینچ لیتے ہیں حضرت نے فرمایا: ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اگرسختی کرو گے اور یہ کام انجام دوگے تو وہ لوگ آئیں گے اور مجھ سے کہیں گے کہ بیعت کرو ورنہ تمہیں قتل کردیں گے بلکہ اس کے پاس جائوجو کچھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے اس سے بیان کرو، اس طرح سے اتمام حجت ہوجائے گی ،وہ لوگ مسجد میں آئے اور سب سے پہلے خالد بن سعید اموی نے کہا : اے ابوبکر! آپ جانتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بنی نضیر کے بعد کیاکہا تھا : یاد رکھو! اور میری وصیت کو حفظ کرلو تمہارے درمیان میرے بعد میرے جانشین اور خلیفہ علی ہیں ، اس کے بعد جناب سلمان فارسی نے اعتراض کیا اس کے بعد جب دوسرے لوگوں نے احتجا ج کیا تو ابوبکر منبر سے نیچے اترے اور گھر چلے گئے اور تین دن تک گھر سے باہر نہیں نکلے ،خالد بن ولید ، ابو حذیفہ کا غلام سالم اور معاذبن جبل کچھ افراد کے ساتھ ابو بکر کے گھر آئے اور اس کے دل کو قوت دی، عمر بھی اس جماعت کے ساتھ مسجد میں آئے اور کہا کہ اے شیعیان علی اور دوستداران علی، جان لو اگر دوبارہ ان باتوں کی تکرار کی تو تمہاری گردنوں کو اڑا دوں گا۔(١)

اسی طرح وہ چند صحابہ جو وفات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وقت زکوٰ ة وصول کرنے پر مامور تھے جب وہ اپنی ماموریت سے واپس آئے جن میں خالد بن سعید اوراس کے دو بھائی

____________________

(١) طبرسی،ابی احمد منصور بن علی بن ابی طالب ،الاحتجاج ، انتشارات اسوہ،ج١ ،ص٨٦ا ٢٠٠١ئ

۸۶

ابان اور عمر وتھے، ان حضرات نے ابو بکر پر اعتراض کیا اور دوبارہ زکوٰ ة وصول کرنے سے انکار کیا اور کہا: پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ہم کسی دوسرے کے لئے کام نہیں کریں گے۔(١)

خالد بن سعید نے حضرت علی سے یہ درخواست کی آپ آئیے تاکہ ہم آپ کی بیعت کریں کیونکہ آپ ہی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جگہ کے لائق و سزاوار ہیں ۔(٢)

خلفاء ثلاثہ کی حکومت کے پورے ٢٥ سالہ دور میں شیعیان علی آپ کو خلیفہ اور امیر المومنین کے عنوان سے پہچنواتے رہے،عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں : قرآن کی فرمائش کے مطابق خلیفہ چار ہیں آدم،داؤد ،ہارون اور علی ۔(٣)

____________________

(١) ابن اثیر، ابی الحسن علی بن ابی اکرام ،اسد الغابہ فی معرفةالصحابہ،قاہرہ، ،دار احیاء التراث العربی بیروت ،ج٢،ص٨٣

(٢) ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ، منشورات مؤسسةا لاعلمی للمطبوعات ،بیروت ،طبع اول ،ج٢ ص١١

(٣)خدا وند عالم حضرت آدم کے لئے قرآن میں فرماتا ہے ،(انّی جاعل فی الارضِ خلیفة )(سورہ بقرہ ، آیت ٣٠)

۸۷

خدا وند عالم حضرت دائود کے لئے فرماتا ہے :(یا داؤد انّا جعلناکٔ خلیفة فی الارض )سورہ ص ٣٨،آیت: ٣٦

خدا وند عالم حضرت ہارون کے لئے موسیٰ کی زبانی نقل فرماتا ہے (اخلفنی فی قومی ) سورہ اعراف آیت ١٤٢

خدا وند عالم حضرت علی کے لئے فرماتا ہے :(وعد اللّه الذین آمنوا منکم و عملوا الصّالحات لیستخلفنّهم فی الارض کما استخلف الذین من قبلهم )سورہ نور : ٢٤،آیت ٥٥، ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ، دارالاضواء ، بیروت ، ١٤٠٥ھ، ج ٣ ،ص ٧٧۔٧٨

حذیفہ بھی کہتے تھے: جو بھی امیر المومنین بر حق کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے وہ علی سے ملاقات کرے۔(١)

حارث بن خزرج جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگوں میں انصار کے علمدار ہواکرتے تھے نقل کرتے ہیں : نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی سے فرمایا : اہل آسمان آپ کو امیر المومنین کہتے ہیں ۔(٢)

یعقوبی لکھتا ہے: عمر کی چھ رکنی کمیٹی کی تشکیل اور عثمان کے انتخاب کے بعد کچھ لوگوں نے یہ ظاہر کیا کہ ہم علی کی طرف رجحان رکھتے ہیں اور عثمان کے خلاف باتیں کرتے تھے، ایک شخص نقل کرتا ہے کہ میں مسجدالنبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں داخل ہوا دیکھا ایک آدمی دوزانو بیٹھا ہے اور اس درجہ بیتاب ہو رہا ہے جیسے تمام دنیا اس کی تھی اور اب پوری دنیا اس سے چھن گئی ہے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے: قریش پر تعجب ہے کہ خلافت کو خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خارج کردیا حالانکہ ان کے درمیا ن سب سے پہلا مومن اوررسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چچا زاد بھائی دین خدا کا دانا ترین عالم ا ور فقیہ ترین شخص صراط مستقیم موجود تھا ،خدا کی قسم! امام ہادی و مہدی اور طاہر و نقی سے خلافت کو لے لیا گیاکیونکہ ان کا ہدف اصلاح امت و دین داری نہ تھا بلکہ انہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی'' راوی کہتا ہے:میں نزدیک ہوا اور دریافت کیا خدا آپ پر رحمت نازل کرے آپ کون ہیں ؟ اور یہ شخص جس کے بارے میں بیان کر رہے ہیں وہ کون ہے؟ فرمایا :میں مقداد بن عمر وہوں اور وہ علی بن ابی طالب

____________________

(١) بلاذری ،محمد بن یحیی ، انساب الاشراف ،منشورات مؤسسة الاعلمی للمطبوعات بیروت ،١٢٩٤ھ ، ج٣،ص١١٥

(٢)ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ، موسسہ انتشارات علامہ ، قم ، ج٣، ص ٥٤

۸۸

ہیں ، میں نے کہا : آپ قیام کریں میں آپ کی مدد کرو ں گا ،مقداد نے کہا: میرے بیٹے یہ کام ایک دو آدمی سے ہونے والا نہیں ہے۔(١)

ابوذر غفاری بھی عثمان کی خلافت کے روز مسجد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دروازہ پر کھڑے کہہ رہے تھے جو مجھے پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ مجھے پہچان لے میں جندب بن جنادہ ابوذر غفاری ہوں ، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علم آدم کے وارث اور تمام فضائل انبیاء کے حامل ہیں اور علی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین اور ان کے علم کے وارث ہیں ، اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد سرگرداں امت! آگاہ ہوجاؤ جس کو خدانے مقدم کیا تھا اس کو اگر تم مقدم رکھتے اور ولایت کو خاندان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں رہنے دیتے تو خداکی نعمتیں اوپر اور نیچے سے نازل ہوتیں جو بھی مطلب تم چاہتے اس کا علم کتاب خدا اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کرلیتے لیکن اب تم نے ایسا نہیں کیا تو اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھنا۔(٢)

ہاں شیعیان علی کے پہلے گروہ میں یہی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب با وفا تھے انہیں کے ذریعہ تشیع تابعین تک منتقل ہوئی اور انہیں کی تلاش و کوشش کی وجہ سے عثمان کی حکومت کے آخری دور میں سیاسی حوالہ سے حضرت علی کی خلافت کے اسباب فراہم ہوئے۔

____________________

(١) ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ، ص ٥٧

(٢)تاریخ یعقوبی ، ابن واضح ، ص ٦٧

۸۹

شیعہ صحابی

ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ جس نے سب سے پہلے پیروان علی کو شیعہ کہا وہ حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی تھی، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کچھ صحابہ شیعیان علی کے نام سے مشہور تھے ،محمدکرد علی خطط الشام میں لکھتا ہے :رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں اصحاب میں سے چند بزرگ، دوستداران علی کے نام سے معروف تھے جیسے سلمان فارسی جوکہتے ہیں ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں پر بیعت کی تاکہ مسلما نوں کے ساتھ خیرخواہی کریں اور علی کے دوستوں اور ان کی اقتدا کرنے والوں میں سے رہیں ، ابوسعید خدری کہتے ہیں : ہم کو پانچ چیزوں کا حکم ہو الوگوں نے چار پر عمل کیا اور ایک کو چھوڑدیا پوچھا گیا وہ چار چیزیں کون سی ہیں ؟ ا نہوں نے کہا: نماز ،زکوٰة ،روزۂ ماہ رمضان اور حج ،پھر پوچھا گیا کہ وہ کیا ہے جس کو لوگوں نے ترک کردیا؟ تو انہوں نے کہا : وہ علی بن ابیطالب کی ولایت ہے لوگوں نے کہا: کیا یہ بھی انہیں چار چیزوں کی طرح واجب ہے؟ کہا: ہاں یہ بھی اسی طرح واجب ہے،یا ابوذر غفاری ، عمار یاسر ، حذیفہ بن یمان ، خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین ابو ایوب انصاری ، خالد بن سعید قیس بن سعدوغیرہ شیعۂ علی کے عنوان سے جانے جاتے تھے۔(١)

ابن ابی الحدید کاپہلے دور کے شیعوں کے بارے میں کہناہے علی کی افضلیت کا قول پرانا قول ہے اصحاب اور تابعین میں سے اکثر اس کے قائل تھے جیسے عمار، مقداد، ابوذر، سلمان، جابر، ابی بن کعب، حذیفہ، بریدہ ،ابو ایوب ،سہل بن حنیف، عثمان بن

____________________

(١)خطط الشام ، مکتبة النوری، دمشق، طبع سوم ، ١٤٠٣ھ ١٩٨٣ئ ، ج ٦ ص ٢٤٥

۹۰

حنیف ابولہیثم بن تیھان، خزیمہ بن ثابت ،ابوالطفیل عامر بن واثلہ، عباس بن عبد المطلب اور تمام بنی ہاشم اور بنی مطلب، شروع میں زبیر بھی حضرت علی کے مقدم ہونے کے قائل تھے بنی امیہ میں سے بھی کچھ افراد جیسے خالد بن سعید اور اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز بھی علی کی افضلیت کے قائل تھے۔(١)

سید علی خان شیرازی نے درجات الرفیعةفی طبقات الشیعہ میں ایک حصہ شیعہ صحابیوں سے مخصوص کیا ہے، سب سے پہلے بنی ہاشم کا ذکر کیا ہے اس کے بعد تما م شیعہ صحابیوں کوپیش کیا ہے، پہلا حصہ جو بنی ہاشم سے مربوط شیعہ اصحاب سے ہے اس طرح ذکر کیا ہے: ابوطالب، عباس بن عبدالمطلب، عبداللہ بن عباس ، فضل بن عباس ، عبیداللہ بن عباس، عبدالرحمن بن عباس ، تمام بن عباس، عقیل بن ابی طالب ، ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب ،نوفل بن حارث بن عبدالمطلب عبداللہ بن زبیر بن عبد المطلب ،عبداللہ بن جعفر ،عون بن جعفر ،محمدبن جعفر ،ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب ،طفیل بن حارث بن عبدالمطلب، مغیرہ بن نوفل بن حارث بن عبدالمطلب ،عباس بن عتبہ بن ابی لھب عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب ،جعفر بن ابی سفیان بن حارث بن عبدالمطلب ۔(٢)

سید علی خان نے دوسرے باب میں شیعیان بنی ہاشم کے علاوہ اصحاب شیعہ کا اس طرح تذکرہ کیا ہے عمربن ابی سلمہ، سلمان فارسی ،مقداد بن اسود ،ابوذر غفاری ، عماربن

____________________

(١)ابن ابی الحدید ، شرح نہج البلاغہ ، دار احیاء التراث العربی ،بیروت ج٢٠ ص ٢٢١،٢٢٢

(٢)سید علی خان شیرازی ، الدرجات الرفیعة فی طبقات الشیعة مؤسسة الوفا، بیروت ص١٤١۔١٩٥

۹۱

یاسر ، حذیفہ بن یمان ،خزیمہ بن ثابت، ابو ایوب انصاری، ابوالہیثم مالک بن تیہان ، ابی ابن کعب ،سعد بن عبادہ ،قیس بن سعد ،سعدبن سعدبن عبادہ ، ابو قتادہ انصاری ،عدی بن حاتم عبادہ بن صامت، بلال بن رباح ، ابوالحمرا ، ابو رافع، ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص ، عثمان بن حنیف ، سہل بن حنیف ،حکیم بن جبلہ العدوی، خالد بن سعید بن عاص، ولید بن جابربن طلیم الطائی، سعد بن مالک بن سنان ، براء بن مالک انصاری ،ابن حصیب اسلمی کعب بن عمرو انصاری ،رفاعہ بن رافع انصاری، مالک بن ربیعہ ساعدی ،عقبہ بن عمربن ثعالبہ انصاری، ہند بن ابی ہالہ تمیمی ،جعدہ بن ہبیرہ ، ابو عمرہ انصاری ، مسعود بن اوس ، نضلہ بن عبید ،ابو برزہ اسلمی ،مرداس بن مالک اسلمی ، مسور بن شدا دفہری، عبداللہ بن بدیل الخزاعی ، حجر بن عدی کندی ، عمر وبن الحمق خزاعی ، اسامہ بن زید ،ابو لیلیٰ انصاری ، زید بن ارقم اوربراء بن عازب اوسی ۔(١)

مؤلف رجال البرقی نے بھی شیعیان ا ورمحبان علی جو اصحاب پیغمبر سے تھے انہیں اپنی کتاب کے ایک حصہ میں اس طرح ذکرکیا ہے:

سلمان ، مقداد،ابوذر، عمار،اور ان چار افراد کے بعد ابولیلیٰ ،شبیر ،ابو عمرة انصاری ابو سنان انصاری ،اور ان چار افراد کے بعدجابر بن عبداللہ انصاری، ابو سعید انصاری جن کا نام سعد بن مالک خزرجی تھا،ابو ایوب انصاری خزرجی ، ابی بن کعب انصاری ابوبرزہ اسلمی خزاعی جن کا نام نضلہ بن عبید اللہ تھا،زید بن ارقم انصاری بریدہ بن حصیب اسلمی ،عبدالرحمن بن قیس جن کا لقب سفینہ راکب اسد تھا،عبداللہ بن سلام ،عباس بن

____________________

(١)سید علی خان شیرازی ، الدرجات الرفیعة فی طبقات الشیعة مؤسسة الوفا، بیروت ص١٩٧ ،٤٥٥

۹۲

عبد المطلب،عبد اللہ بن عباس ،عبد اللہ بن جعفر ، مغیرہ بن نوفل بن حارث بن عبد المطلب ،حذیفة الیمان جو انصار میں شمار کئے جاتے تھے، اسامہ بن زید ، انس بن مالک ابو الحمرائ،براء بن عا زب انصاری اور عرفہ ازدی ۔(١)

بعض شیعہ علماء رجال عقیدہ رکھتے ہیں کہ شیعہ صحابہ کی تعداد اس سے زیادہ تھی جیسا کہ شیخ مفید نے وہ تمام اصحاب جنہوں نے مدینہ میں حضرت کے ہاتھوں پر بیعت کی خصوصاًوہ اصحاب جو جنگوں میں حضرت کے ساتھ تھے انہیں شیعیان و معتقدین امامت حضرت علی میں سے جاناہے جنگ جمل میں اصحاب میں سے پندرہ سو افراد حاضر تھے۔(٢)

رجال کشی میں آیا ہے :شروع کے اصحاب جو حق کی طرف آئے اور حضرت علی کی امامت کے قائل ہوئے وہ یہ ہیں : ابو الہیثم بن تیہان،ابو ایوب،خزیمہ بن ثابت،جابر بن عبد اللہ ،زید بن ارقم، ابو سعید،سہل بن حنیف،برا ء بن مالک،عثمان بن حنیف،عبادہ بن صامت،ان کے بعد قیس بن سعد ،عدی بن حاتم،عمرو بن حمق،عمران بن حصین،بریدہ اسلمی، اور بہت سے دوسرے جن کو'' بشر کثیرة''سے تعبیر کیا ہے۔(٣)

____________________

(١) احمد بن محمد بن خالدبرقی، رجال البرقی ،مؤسسةقیوم ص٢٩ ،٣١

(٢)شیخ مفید ، محمدبن محمدبن نعمان ،الجمل ،مکتب الاعلام الاسلامی ، مرکز النشر ، قم ، ص ١٠٩۔١١٠

(٣)شیخ طوسی ، ابی جعفر ، اختیار معرفة الرجال ، رجال کشی ، موسسہ آل البیت التراث،قم ،١٤٠٤ھ ج١، ص١٨١۔١٨٨

۹۳

مرحوم میر داماد تعلیقہ رجال کشی میں بشر کثیر کی وضاحت و شرح میں کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے بہت سے بزرگان اور تابعین کے چنندہ افراد ہیں ۔(١)

سید علی خان شیرازی نے کہا ہے کہ اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیشتر تعداد امیر المومنین کی امامت کی طرف واپس آگئی تھی کہ جس کا شمار کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے اور اخبار نقل کرنے والوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اکثر صحابہ جنگوں میں حضرت علی کے ساتھ تھے ۔(٢)

محمد بن ابی بکر نے معاویہ کو خط لکھا کہ جس میں علی کی حقانیت کی طرف اشارہ اس بات سے کیا ہے کہ اکثر اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علی کے ارد گرد جمع ہیں ۔(٣)

محمدبن ابی حذیفہ جو حضرت علی کے وفادارساتھی تھے اور معاویہ کے ماموں کے بیٹے تھے حضرت علی سے دوستی کی بنا پرمدتوں معاویہ کے زندان میں زندگی بسر کی اور آخر کار وہیں دنیا سے رخصت ہوگئے ،معاویہ سے مخاطب ہوکر کہا : جس روز سے میں تجھ کو پہچانتا ہوں چاہے وہ جاہلیت کا دور ہو یا اسلام کا تجھ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اسلام نام کی کوئی چیز تیرے اندر نہیں پائی جاتی، اس کی علامت یہ ہے کہ تو مجھے علی سے محبت کی بناپر ملامت کرتا ہے حالانکہ تمام زاہد و عابد، مہاجر وانصار علی کے ساتھ ہیں اور تیرے ساتھ آزاد کردہ غلام اور منافقین ہیں ۔(٤)

____________________

(١)شیخ طوسی ، ابی جعفر ،ا ختیار معرفة الرجال ، رجال کشی ، موسسہ آل البیت التراث ، قم ، ١٤٠٤ھ ج ١ ،ص ١٨٨

(٢)امین،سید محسن،اعیان الشیعہ،دارالتعارف للمطبوعات،بیروت،ج٢،ص٢٤

(٣) بلاذری ، انساب الاشراف، منشورات موسسہ الاعلمی ،للمطبوعات، بیروت،١٣٩٤ھ ج ٢ ، ص٣٩٥

(٤)شیخ طوسی ابی جعفر،رجال کشی،ص٢٧٨

۹۴

البتہ جو لوگ امیر المومنین کی فوج میں تھے ان سب کا شمار آپ کے شیعوں میں نہیں ہوتا تھا لیکن چونکہ آپ قانونی خلیفہ تھے اس لئے آپ کا ساتھ دیتے تھے اگر چہ یہ بات تمام لوگوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے سوائے ان صحابیوں کے جو علی کے ساتھ تھے اس لئے کہ وہ اصحاب جو حضرت امیر کے ساتھ تھے کہ جن سے وہ اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لئے مد د لیتے تھے ان کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہے جیسا کہ سلیم ابن قیس نقل کرتا ہے: امیر المومنین صفین میں منبر پر تشریف لے گئے اور مہاجر و انصار کے سبھی افراد جو لشکر میں تھے منبرکے نیچے جمع ہوگئے حضر ت نے اللہ کی حمد و ثنا ء کی اور اس کے بعد فرمایا: اے لوگو!میرے فضائل و مناقب بے شمار ہیں میں صرف اس پر اکتفا کرتا ہوں کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے اس آیت کے بارے میں ''السابقون السابقون اولئک المقربون '' پوچھا گیا توآپ نے فرمایا : خدا نے ا س آیت کو انبیا و اوصیا کی شان میں نازل کیا ہے اور میں تمام انبیا و پیغمبروں سے افضل ہوں اور میرا وصی علی ابن ابی طالب تمام اوصیاء سے افضل ہے اس موقع پر بدر کے ستّر اصحاب جن میں اکثر انصار تھے کھڑے ہو گئے اور گواہی دی کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے ہم نے ایساہی سنا ہے۔(١)

____________________

(١)سلیم ابن قیس العامری ، منشورات دار الفنون ، للطبع والنشر والتوزیع ، بیروت ،١٤٠٠ھ ص ١٨٦، طبری، ابی منصور احمد ابن علی ابن ابی طالب ، الاحتجاج ، انتشارات اسوہ ، ج ١ ص ٤٧٢

۹۵

تیسری فصل

شیعی تاریخ میں تحول وتغیر

(١)شیعہ خلفا کے زمانے میں

شیعہ پہلے تینوں خلیفہ ،ابوبکر،عمر، عثمان کے زمانے میں حسب ذیل خصوصیات کے حامل تھے ۔

(الف)شیعہ ان تین خلفا کے دور میں سقیفہ کے ابتدائی دنوں کے علاوہ بہت زیادہ فشار میں نہیں تھے اگر چہ کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے شیعہ، شیعہ ہونے کی وجہ سے اہم منصبوں سے محروم تھے۔(١)

(ب)سقیفہ کے بعد مسلمانوں کی قیادت کا مسئلہ انتشار کا شکار ہوگیا اور مسلمان دو اہم گروہوں میں تقسیم ہوگئے، اہل سنت علمی فقہی و اعتقادی مشکلات میں خلفاء زمانہ کی طرف اور شیعہ حضرت علی کی طرف رجوع کرتے تھے، شیعہ اپنے علمی اور فقہی مشکلات بلکہ بطورکلی معارف اسلامی سے متعلق امور میں حضرت علی کی شہادت کے بعد

____________________

(١)ابو بکر نے پہلی بارخالد بن سعید کو شام کی جنگ کا سردار بنایا عمر نے ان سے کہا: کیا آپ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ خالد نے بیعت نہیں کی ہے اور بنی ہاشم کے ساتھ اتحاد کرلیا ہے؟ اس وجہ سے ابو بکر نے خالد سے سرداری اور فرمان روائی کو واپس لے لیا اور خالد کی جگہ کسی اور کو معین کردیا،ابن واضح ،احمد بن ابی یعقوب تاریخ یعقوبی،منشورات الشریف الرضی،قم، ١٤١٤ہجری، ج٢، ص١٣٣

۹۶

ائمہ طاہرین کی طرف رجوع کرتے رہے اورشیعہ و اہل سنت کے درمیان فقہ و حدیث و تفسیر کلام وغیر ہ میں اختلاف کی وجہ یہی ہے کہ ان دونوں گروہوں کی دینی درسگاہ اورپناہ گاہ ایک دوسرے سے علیحدہ تھی۔

(ج) اسی طرح حضرت علی نے قانونی طور پر خلفاء وقت کے ساتھ فوجی اور سیاسی شعبہ میں عالم اسلام کی حفا ظت اور مصلحت کی خاطر کافی حد تک طرفداری وحمایت کی(١) چند بزرگ شیعہ صحابہ نے بھی امام کی موافقت سے فوجی او رسیاسی منصوبوں کو قبول کرلیا تھا مثلاً حضرت علی کے چچازاد بھائی فضل بن عباس جو سقیفہ میں حضرت علی کے مدافع تھے شام میں فوجی منصب پر فائز تھے اور ١٨ ھ میں فلسطین میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔(٢)

____________________

(١)جیسے حضرت علی کی رائے ابو بکر کے لئے ،فوج کو شام کی طرف بھیجنے کے بارے میں ، ابن واضح ، احمد بن ابی یعقوب ،تاریخ یعقوبی،منشورات الشریف الرضی،قم، ١٤١٤ہجری، ج٢، ص١٣٣ ،اور حضرت علی کا عمر کو رہنمائی کرناکہ جب انہوں نے رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے جانے پر آپ سے مشورہ کیا تو آپ نے فرمایا : اگرآپ خود ان دشمنوں کے مقابلے میں جائیں گے تو مغلوب ہوجائیں گے اورمسلمانوں کے لئے کسی دور دراز شہر میں بھی کوئی پناہ گاہ نہیں ہوگی نیز آپ کے بعد کوئی نہیں ہے کہ جس کی طرف لوگ رجوع کریں ، لہٰذا جنگ کے ماہر اور بہادرافراد کو ان کی طرف بھیجیں اور ایسے لوگوں کو ساتھ انہیں بھیجیں کہ جو سختی کو برداشت کر سکیں اور نصیحت کو قبول کریں ، اگر خدا وند متعال نے کامیاب و کامران کر دیا تو یہ وہی ہے کہ جس کی آپ آرزو رکھتے ہیں اور اگر کوئی دوسرا واقعہ پیش آگیا توآپ مسلمانوں کے مددگار اور پناہ دینے والے ہوں گے ( نہج البلاغہ ، ترجمہ فیض الاسلام ، خطبہ : ١٣٤) ونیز جب عمر نے بنفس نفیس ایرانیوں سے جنگ کرنے کے بارے میں آپ سے پوچھا

(٢)احمد بن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی، قم ١٤١٤ھ ج٢ص١٥١

۹۷

حذیفہ ا ور سلمان ترتیب وار مدائن کے حاکم تھے،(١) عمار یاسر ،سعد بن ابی وقاص کے بعد خلیفہ دوم کی طرف سے کوفہ کے حاکم ہوئے( ٢)ہاشم مرقال جو حضرت علی کے مخلص شیعوں میں تھے اور جنگ صفین میں علی کے لشکرمیں شہید ہوئے(٣) تینوں خلفا کے زمانے میں بڑے افسر تھے ٢٢ ھمیں آذر بائیجان کو فتح کیا(٤) عثمان بن حنیف اور حذیفہ بن یمان عمر کی طرف سے عراق کی زمین کی پیمائش پر مامور تھے(٥) عبداللہ بن بدیل بن ورقہ خزاعی،شیعیان علی میں سے تھے جن کا بیٹا جنگ جمل میں سب سے پہلے شہید ہوا(٦) یہ فوجی افسروں میں سے تھا اور اس نے اصفہان اور ہمدان کو فتح کیاتھا۔(٧)

اسی طرح سے دوسرے افراد بھی جیسے جریر بن عبد اللہ بجلی(٨) قرظہ بن کعب

____________________

(١)مسعودی ، علی بن الحسین ، مروج الذھب ، منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١٤ھ ج٢ ص ٣٢٣

(٢)احمد بن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی، قم ١٤١٤ھ ج٢ص١٥٥

(٣)مسعودی علی ابن الحسین ، ، مروج الذھب ، منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١٤ھ ج٢ ص ٤٠١

(٤)احمد بن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی، قم ١٤١٤ھ ج٢ص١٥٦

(٥)احمد بن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی، قم ١٤١٤ھ ج٢ص١٥٢

(٦)شیخ مفید، محمد بن محمد بن النعمان ، الجمل ، مکتب الاعلام الاسلامی ، مرکز النشر ، قم ، ص ٣٤٢

(٧)احمد بن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی، قم ١٤١٤ھ ج٢ص١٥٧

(٨)بلاذری ، احمد بن یحیی بن جابر ، انساب الاشراف ، منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات بیروت ١٣٩٤ ج ٢ ص ٢٧٥

۹۸

انصاری(۱) یہ لوگ امیر المومنین کی خلافت میں اہم افراد شمار کئے جاتے تھے جب کہ تینوں خلفا کے زمانے میں ملکی اور لشکری عہدوں پر فائز تھے جریر نے کوفہ کا علاقہ فتح کیا(٢) اور زمانۂ عثمان میں ہمدان کے حاکم تھے(٣) قرظہ بن کعب انصاری نے بھی عمر بن خطاب کے زمانے میں شہر ری کو فتح کیا۔(٤)

____________________

(١)ابن اثیر ، عز الدین علی بن ابی الکرم ، اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت، ج٤ ص ٢٠٢

(٢) ابن واضح ، احمد بن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی ، ج ٢ ص ١٤٣

(٣) ابن قتیبہ ، ابی محمد عبد اللہ بن مسلم ، المعارف ، منشورات الشریف الرضی ، قم ، ١٤١٥ھ، ص ٥٨٦،

(٤) ابن واضح ، احمد بن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی ، ج ٢ ص ١٥٧

۹۹

اظہار تشیّع ( امیرالمومنین کی خلافت میں )

اگر چہ تشیّع کا سابقہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ سے ہے، لیکن قتل عثمان کے بعد خلافت علی کے دورمیں علی الاعلان اظہار ہو ااس زمانہ میں صف بندی ہوئی اور پیروان علی نے آشکار ا اپنے شیعہ ہونے کا اعلان کیا ،شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ ایک جماعت حضرت علی کے پاس آئی اور کہا:

''اے امیر المومنین! ہم آپ کے شیعہ ہیں ،حضرت نے ان کو غور سے دیکھا اور فرمایا :آخرمیں تمہارے اندر شیعہ ہونے کی علامت کیوں نہیں دیکھ رہا ہوں ؟اس جماعت نے کہا:اے امیرالمومنین شیعوں کی کیاعلامت ہونی چاہیے حضرت نے فرمایا:

راتوں میں کثرت عبادت سے ان کارنگ زردپڑ جائے،(خوف خدا میں ) گریہ

کرنے سے ان کی بینائی ضعیف ہوگئی ہومسلسل قیام عبادت سے ان کی کمر خمیدہ ہوگئی ہو اور ان کا پیٹ روزہ رکھنے کی وجہ سے پیٹھ سے لگ گیا ہو اور خضوع اور خشوع میں ڈوبے ہوئے ہوں(١)

اسی طرح بہت سے اشعار حضرت علی کی خلافت کے دور میں کہے گئے ہیں کہ جو امام کے بر حق نیز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین اور بلا فصل خلیفہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ،قیس بن سعد نے کہا :

و علی امامنا و امام

لسوانااتیٰ به التنزیل(٢)

علی ہمارے اورہمارے علاوہ لوگوں کے امام ہیں اس بات کو قرآن نے بیان کیا ہے ۔

خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین کہتے ہیں :

فدیت علیاً امام الوری

سراج البریّه مأوی التّقیٰ

میں علی پر قربان ہو جاؤں وہ لوگوں کے امام اور چراغ خلق اور متقین کی پناہ گاہ ہیں ۔

وصی الرّسول وزوج البتول

امام البریّه شمس الضّحی

وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی اورحضرت فاطمہ زہرا کے شوہرنیز خلائق کے امام اور خورشید تاباں ہیں ۔

____________________

(١)شیخ مفید، ارشاد ،ترجمہ شیخ محمد باقر ساعدی خراسانی ،کتاب فروشی اسلامیہ ١٣٧٦ھ ش،ص ٢٢٧،٢٢٨

( ٢)ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ،موسسہ انتشارات علامہ ، قم ج٣ ص ٢٨

۱۰۰