اہل بیت کے شیعہ

اہل بیت کے شیعہ0%

اہل بیت کے شیعہ مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 142

اہل بیت کے شیعہ

مؤلف: آیت اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 142
مشاہدے: 39907
ڈاؤنلوڈ: 3068

تبصرے:

اہل بیت کے شیعہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 142 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39907 / ڈاؤنلوڈ: 3068
سائز سائز سائز
اہل بیت کے شیعہ

اہل بیت کے شیعہ

مؤلف:
اردو

توحید میں طاعت

ہم ہر طریقہ سے اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ طاعت صرف خدا سے مخصوص ہے اور اس کے اذن و حکم کے بغیر کسی کی اطاعت نہیں کی جا سکتی۔ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت کی طاعت در حقیقت خد اہی کی طاعت ہے ۔

''من أطاعکم فقد أطاع اللّٰه و من عصاکم فقد عصی اللّٰه''

جس نے آپ کی اطاعت کی اس نے خد اکی اطاعت کی اور جس نے آپ کی نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی۔

تسلیم

طاعت کے مصداق میں سے ایک تسلیم ہے، یعنی مکمل طور پر خود کو سپرد کر دینا، کسی بات کا انکار نہ کرنااور کسی بات پر اعتراض نہ کرنا۔ اورتسلیم کا بلند ترین مرتبہ دلوں کا جھکنا ہے ۔

''مسلم فیه معکم و قلبی لکم مسلم و رائ لکم تبع'' سر تسلیم کرنے والا ہوں میرا دل آپ کے لئے جھکا ہوا ہے اور میری رائے آپ کی تابع ہے ۔

''سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم''

میں اس سے صلح کرو ںگا جس سے آپ کی صلح ہے اور اس سے جنگ کروں گا جس سے آپ کی جنگ ہوگی۔ صلح و جنگ تولا و تبرا کے دورخ ہیں ، صرف تولا کرنا صاحبان امر کے سامنے تسلیم ہونا نہیں ہے بلکہ اس کے دو پہلو ہیں اور وہ یہ ہیں : میں اس سے صلح کروں گا جس سے آپ کی صلح ہوگی اوراس کا تعلق صرف آپ ہی سے نہیں ہے اور اس سے جنگ کروں گا جس سے آپ کی جنگ ہوگی۔

یہ جملہ تولا اور تبرا کا بہت ہی نازک و دقیق مفہوم ہے۔

۱۰۱

''سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم''

ولاء و برائت کا قیق جملہ صلح اور جنگ کے بارے میں معاشرہ کے سامنے ایک نیا سیاسی نقشہ پیش کرتا ہے ، حرب یعنی جدائی اور بیزاری، اس کو جنگ نہیں کہہ سکتے کیونکہ افتراق وبیزاری اور قتال میں فرق ہے۔

کیونکہ ہمارا اجتماعی لگائو سیاسی و مادی مصلحتوں کی بنا پر وجود میں نہیں آ سکتا وہ تو بس تولا و تبرا ہ سے منظم ہو سکتا ہے ، کبھی ہم اپنے خاندان اور ہمسایوں سے قطع تعلقی کر لیتے ہیں اور ان لوگوں سے اتصال و روابط رکھتے ہیں جو کہ زمان و مکان کے اعتبار سے بہت دور ہیں ۔

زیارت عاشورہ میں آیا ہے :

''إنّی سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم و والّ لمن والاکم و عدولمن عاداکم''

میں اس سے صلح کروں گا جس سے آپ صلح کریں گے اور اس سے جنگ کروں گا جس سے آپ کی جنگ ہوگی میں اس سے دوستی کروں گا جو آپ کا دوست ہوگا اور اس سے دشمنی کروں گا جو آپ کا دشمن ہوگا۔

عمار کی سند سے علی کے بارے میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول نقل ہوا ہے :

''إنه منی و أنا منهحربه حربی وسلمه سلمی و سلمی سلم اللّه''

وہ مجھ سے ہے اورمیں اس سے ہوں اس کی جنگ میری جنگ ہے ، اس کی صلح میری صلح ہے اور میری صلح خدا کی صلح ہے ۔

۱۰۲

ترمذی نے اپنی صحیح میں زید بن ارقم سے روایت کی ہے: رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی ، فاطمہ ، حسن و حسین سے فرمایا:

''أنا حرب لمن حاربتم و سلم لمن سالمتمُ'' ۔( ۱ )

میں اس سے جنگ کروں گا جس سے تمہاری جنگ ہوگی اور اس سے صلح کروں گا جس سے تمہاری صلح ہوگی۔

ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کی ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''أنا سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربتم '' ۔( ۲ )

میں اس سے صلح کروں گا جس سے تمہاری صلح ہوگی اور میں اس سے جنگ کروں گا جس سے تمہاری جنگ ہوگی۔

اسی کو حاکم نے مستدرک الصحیحین میں اورابن اثیر جزری نے اسد الغابہ میں نقل کیا ہے ۔( ۳ )

متقی نے کنز العمال میں( ۴ ) نقل کیا ہے ۔

سیوطی نے در منثور میں آیۂ تطہیر-سورۂ احزاب-کی تفسیر میں اور ہیثمی نے مجمع

الزوائد میں اس کو نقل کیا ہے ۔(۵)

یہ جنگ و صلح، یا قطع تعلقی اور رسم و راہ باقی رکھنے میں اتحاد کے معنی ہیں کیونکہ اہل بیت کی جنگ در حقیقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگ ہے اور ان کی صلح رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صلح ہے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگ و صلح خدا کی جنگ اور صلح ہے اسی طرح تولا اور تبرا کے تمام مفردات توحید کے تحت آتے ہیں ۔

____________________

(۱)صحیح ترمذی: کتاب المناقب باب ۱۶ فضل فاطمہ بنت محمد: ج۲ ص ۳۱۹ طبع ۱۲۹۲

(۲)سنن ابن ماجہ مقدمہ باب ۱۱ ص ۱۴۵

(۳)مستدرک حاکم نیشاپوری: ج ۱۳ ص ۱۴۹ کتاب معرفة الصحابہ مبغض اہل البیت یدخل النار و لوصام و صلی. اہل بیت سے دشمنی رکھنے والا جہنم میں جائے گا خواہ اس نے روزہ رکھا ہو اور نماز پڑھی ہو.

(۴)کنز العمال: ج۶ ص ۲۱۶

(۵)مجمع الزوائد : ج۹ ص ۱۶۹ مذکورہ حوالے فضائل الخمسہ من الصحاح الستہ فیروزآبادی: ج۱ ص ۳۹۶ تا ۳۹۹ سے نقل کئے گئے ہیں

۱۰۳

مدد اور انتقام

ولاء بہت سخت مسئلہ ہے ،صلح میں ، ناچاقی میں ، کشائش و تنگی میں ساتھ رہنا بہت دشوار ہے اگر صرف کشائش میں ہوتا تو ولاء کا مسئلہ آسان ہو جاتا اور پھر اس سخت ولاء کا اقتضا مدد کرنا اور انتقام لینا بھی ہے اور اگر مدد نہ کی جائے تو ولا ء ہی ختم ہو جائے گی خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

( وَالَّذِینَ آوَوْا وَ نَصَرُوا أولٰئِکَ بَعضُهُم أولِیَائُ بَعضٍ ) ( ۲ )

اور جن لوگوں نے پناہ دی اور نصرت کی وہ ایک دوسرے کے سرپرست و ولی ہیں ۔

اسی طرح ولاء ایک حق ہے جو خون خواہی اور انتقام سے جدا نہیں ہو سکتا۔ بیشک جو ولاء اپنے حامل کو جنگ و قتل ،قطع تعلقی ،روابط اور نفع وضرر پر نہ ابھارے در حقیقت وہ ولاء نہیں ہے بلکہ وہ ولاء کی صورت ہے ۔

زیارت عاشورہ میں ہم یہ تمنا کرتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں پاک خونوں کا انتقام لینے والوں میں قرار دے جو کہ ظلم و ستم سے کربلا میں بہائے گئے۔

____________________

(۲) انفال: ۷۲۔

۱۰۴

''فأسأل اللّٰہ الذی اکرم مقامک و اکرمن بک ان یرزقن طلب ثارک مع امام منصور من اہل بیت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''۔

پس میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ جس نے آپ کے مرتبہ کوبلند کیا اور آپ کے ذریعہ مجھے عزت بخشی کہ وہ مجھے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت میں امام منصور کے ساتھ آپ کے خون کا بدلہ لینے والا قرار دے۔

زیارت عاشورہ ہی میں ہے :

''واسأله أن یبلِّغنی المقام المحمود لکم عند الله، و أن یرزقن طلب ثارکم مع مام هدی ظاهر ناطق بالحقّ منکم''

میں اس سے سوال کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس مقام محمود تک پہنچا دے جو خدا کے نزدیک آپ کا مقام و مرتبہ ہے اور مجھے آپ میں سے ہادی ، ظاہر اور حق کے ساتھ بولنے والے امام کے ساتھ انتقام لینے والا قرار دے۔

اور زیارت جامعہ میں مکمل طور پر مدد کرنے کی طاقت کا اعلان کرتے ہیں ، و نصرتی لکم معدَّة، اور میری مدد آپ کے لئے تیار و حاضر ہے ۔

۱۰۵

محبت و مودت

یہ ولاء اہل بیت کی بنیاد ہے۔

اس سلسلہ میں قرآن مجید میں آیت نازل ہوئی ہے جو ہر زمانہ میں لوگوں کے سامنے پڑھی جاتی ہے ۔

( قُل لاَ أسئَلُکُم عَلَیهِ أجرًا لاَّ الْمُوَدَّةَ فِی الْقُربیٰ ) ( ۱ )

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان سے کہدیجئے کہ میں تم سے تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے قرابتداروں سے محبت کرو۔

قرابتداروں سے مراد، بلا اختلاف رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ہی ہیں ۔

اس واجب محبت کی طرف زیارت جامعہ میں وارد نص بھی اشارہ کر رہی ہے :

''ولکم المودة الواجبة و الدرجات الرفیعة''

آپ کے لئے واجب محبت اور آپ کے لئے بلند درجات ہیں ۔

طاعت اور محبت ہی ولاء کی روح یا اور اس کا جوہر ہیں ، امام جعفر صادق سے دریافت کیا گیا :کیا محبت دین کا جزء ہے ؟امام نے فرمایا:کیا دین محبت کے علاوہ کچھ اور ہے ، اگر انسان پتھر سے بھی محبت کرے گا تو خدا اس کو اسی کے ساتھ محشور کرے گا۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ محبت کا تعلق مقولۂ توحید سے ہے۔

پس جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بھی محبت کرتا ہے اور ان کے اہل بیت سے بھی محبت کرتا ہے اور جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اہل بیت سے محبت کرتا ہے وہ خدا سے بھی محبت کرتا ہے ۔

پہلے جملہ کے بارے میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول ہے:

____________________

(۱) سورہ شوریٰ آیت ۲۳ دلائل الصدق ج۲ ص ۱۲۰ تا ۱۲۶ طبع قاہرہ میں ہے کہ یہ آیت اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے، نیز الغدیر ج ۲ ص ۳۰۶ تا ۳۱۰ اور ج ۳ ص تہران.

۱۰۶

''أحبونی بحب اللّٰه و احبوا أهل بیتی بحبی''

خدا کی محبت کے سبب مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے سبب میرے اہل بیت سے محبت کرو۔

دوسرے جملہ کے بارے میں زیارت جامعہ میں وارد ہوا ہے :

''من أحبکم فقد أحب اللّٰه و من أبغضکم فقد أبغض اللّٰه '' ( ۱ )

جس نے آپ سے محبت کی در حقیقت اس نے خدا سے محبت کی اور جس نے آپ سے عداوت رکھی اس نے خدا سے عداوت کی ۔

اسی طرح جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے وہ مومنوں سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ وہ خدا سے محبت کرتے ہیں اور جو مومنین سے محبت کرتا ہے وہ لا محالہ خدا سے محبت کرتا ہے ۔

خدا کی محبت اس بات کا باعث ہوتی ہے کہ نفسِ انسان میں محبت کے درجات کو بلند و قوی کردے، ضروری ہے کہ انسان کی حیات میں یہی محبت حاکم رہے تاکہ انسان خداکے علاوہ اور راہ خدا کے علاوہ کسی سے محبت نہ کرے۔

پہلے نکتہ کے بارے میں خدا فرماتا ہے:

( قُل إن کَانَ آبَاؤُکُم وَ أبناؤکُم أحَبَّ إلَیکُم مِنَ اللّٰهِ وَ رَسُولِهِ وَ جِهَادٍ فِ سَبِیلِهِ، فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَأتِیَ اللّٰهُ بِأمْرِهِ، وَاللّٰهُ لا یَهدِ الْقَومَ الفَاسِقِینَ ) ( ۲ )

اے رسول کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بیٹے تمہیں خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

(۱) یہ فقرہ زیارت جامعہ میں دوبار واردہوا ہے.

(۲)توبہ: ۲۴۔

۱۰۷

سے اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب و عزیزہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ خدا کا حکم آجائے اور خدا بدکاروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے ۔

دوسری جگہ ارشاد ہے :

( وَ الَّذِینَ آمَنُوا أشَدُّ حُباً لِلّٰهِ ) )( ۱ )

اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ خدا سے محبت میں شدید ہیں ۔

اور دعا میں وارد ہوا ہے :

''اللهم اجعل حبک أحب الأ شیاء ل، و اجعل خشیتک أخوف الأشیاء عند، و اقطع عنحاجات الدنیا بالشوق الی لقائک''

اے اللہ! اپنی محبت کو میرے نزدیک تمام اشیاء کی محبت سے زیادہ کر دے اور اپنی خشیت کو میرے نزدیک ہر چیز سے زیادہ خوفناک قرار دے اور اپنی ملاقات کے شوق کے ذریعہ دنیا کی حاجتوں کو مجھ سے بر طرف کر دے۔

دوسرے نکتہ کے بارے میں تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت سے وارد ہونے والی بہت سی حدیثوں میں نص وارد ہوئی ہے ۔ ان ہی میں سے وہ حدیث بھی ہے جس کو امام محمد باقر نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیاہے :

''ألا و احب فی اللّٰه و ابغض فی اللّٰه و أعطیٰ فی اللّٰه ، و منع ف الله، فهو من أصفیاء اللّٰه المؤمنین عند الله، ألا و أن المؤمنین ذا تحابا فی اللّٰه عز و

____________________

(۱)بقرہ: ۱۶۵

۱۰۸

جل، و تصافیا فی اللّٰه کانا کالجسد ذا اشتکی أحدهما من جسده موضعا، وجد الآخر أ لم ذلک الموضع''

دیکھو! جس نے خدا کے لئے محبت کی اور جس نے خدا کے لئے دشمنی کی اور خدا کے لئے دیا اور خدا کے لئے منع کیا تووہ خدا کے برگزیدہ و منتخب بندوں میں سے ہے جو خدا کے نزدیک مومن ہیں اور دیکھو جب دو مومن خدا کے لئے محبت کرتے ہیں اور خدا کے لئے ایک دوسرے سے خلوص رکھتے ہیں تو وہ دونوں ایک بدن کی مانند ہو جاتے ہیں اگر دونوں میں سے کسی کے بدن میں کہیں تکلیف اور درد ہوتا ہے تودوسرا اپنے بدن میں اسی جگہ درد محسوس کرتا ہے ۔

محبت کی دو قسمیں ہیں ، ایک سادہ اور ہلکی پھلکی محبت اوردوسری سوچ و سمجھ کر محبت کرنا یہ خدا کی محبت کے تحت ہوتی ہے ، پہلی محبت کا تاریخ میں کوئی وقار نہیں اور نہ ہی انسان کی زندگی اور اس کی سر نوشت میں اس کاکوئی اثر ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک قسم کی خواہش ہوتی ہے جو انسان کے اندر پیدا ہوجاتی ہے ،ہاں وہ محبت جو خدا کی محبت کے تحت ہوتی ہے یہ وہی محبت ہے جس کو مودت اہل بیت کے ذیل میں بیان کر چکے ہیں ان کی محبت دوسری ہی چیز ہے وہ سادہ محبت نہیں ہے ، یہ ایسی محبت نہیں ہے جس کا انسان اپنی زندگی میں تجربہ کرتا ہے یہ وہ محبت ہے جوخدا کی محبت کے تحت ہوتی ہے، اس محبت کی علا متیں اور خصلتیں مشہور اور نمایاں ہیں ۔

اس محبت کی پہلی خصلت یہ ہے کہ یہ تبریٰ سے جدا نہیں ہوتی ہے ہر محبت کے ساتھ کچھ عداوت و بغض بھی ہوتا ہے اور ہر خوشی کے ساتھ ناراضگی و غضب بھی ہوتا ہے اور ہر تولا کے ساتھ تبریٰ ہوتا ہے اور جو محبت عداوت و بغض کے ساتھ جمع ہوتی ہے وہ سادہ اور ہلکی پھلکی محبت ہے ۔

۱۰۹

ایک شخص امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میں آپ سے بھی محبت کرتا ہوں اور آپ کے مخالف و مد مقابل سے بھی محبت کرتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا: اس صورت میں تم کانے ہو ( تمہیں آدھا نظر آتا ہے) یا تم اندھے ہو یا دیکھتے ہو۔ زیارت میں وارد ہوا ہے''موال لکم ولأولیائکم و مبغض لأعدائکم و معاد لهم'' میں آپ کا دوست ہوں اور آپ کے دوستوں کا دوست ہوں آپ کے دشمنوں سے نفرت کرتا ہوں اور ان کا دشمن ہوں ۔

اس محبت کی دوسری خصلت: یہ محبت لوگوں کی محبت کے تحت ہوتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے پہلی محبت خدا کی محبت کے تحت ہوتی ہے کیونکہ راہ خد امیں محبت کرنے کادائرہ وسیع ہوتا ہے اس میں خود اہل بیت سے بھی محبت ہوتی ہے اور ان کے دوستوں سے بھی محبت ہوتی ہے۔''موال لکم ولأولیائکم'' یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان کسی سے خدا کے لئے محبت کرے اور اس سے محبت نہ کرے کہ جس سے محبوب خدا کے لئے محبت کرتا ہے۔

اس محبت کی تیسری خصلت : یہ جنگ و صلح کے موقعہ پر عملی صورت اختیار کر لیتی ہے ،''سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم''

چوتھی خصلت: محبت خدا کے لئے ہوتی ہے اور عداوت بھی خدا کے لئے ہوتی ہے ،یہ دونوں اجتماعی لگائو کا کامل نقشہ کھینچتے ہیں ۔

۱۱۰

اثبات و ابطال

اہل بیت سے محبت کرنے میں یہ واجب ہے کہ ہم ان کی ثقافت اور ان کے معارف سے دفاع کریں، جس کا انہوں نے اثبات کیا ہے اس کا ہمیں اثبات کرنا چاہئے اور جس کا انہوں نے ابطال کیا ہے ہمیں ا س کا ابطال کرنا چاہئے کیونکہ تاریخِ اہل بیت میں ثقافتی اور علمی روایتوں پر دشمنوں نے ہر چیز سے زیادہ حملے کئے ہیں چنانچہ فقہائے اہل بیت اور ان کے مکتب کے علماء نے ان کے معارف و ثقافت، ان کی فقر اور ان کی اسلام شناسی سے دفاع کیا ہے ۔

اس دائرہ میں اثبات و ابطال بھی ہے جو کہ جہاد و جنگ اور صلح و قطع تعلقی کے میدان میں ہوتا ہے ، زیارت جامعہ میں آیا ہے :

''سلم لمن سالمکم و حرب لمن حاربکم ، محقق لما حققتهم، مبطل ما أبطلتم'' ۔

جس سے آپ کی صلح ہوگی میں اس سے صلح کروں گا اور جس سے آپ کی قطع تعلقی ہوگی میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ جو آپ نے ثابت کیا ہے میں اسی کو ثابت کروں گا اور جس کو آپ نے باطل قرار دیا ہے میں اس کو باطل قرار دونگا۔

میراث و انتظار

کوئی زمانہ ایسا نہیں تھا جس میں ولاء نہ رہی ہو اور یہ مستقبل میں بھی رہے گی، تاریخ کے آغاز سے، حضرت آدم اور حضرت نوح سے لے کر،تاریخ کی انتہاء تک ولاء رہے گی یہاں تک کہ آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ظہور فرمائیںگے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے اور زمین کو ظالموں کے تسلط سے آزاد کرا لیں گے تاکہ خدا کا وہ وعدہ پورا ہو جائے جو اس نے تو ریت و زبور میں کیا ہے۔

( وَلَقَد کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعدِ الذِّکرِأنَّ الأرضَ یَرِثُهَا عِبَادَِ الصَّالِحُونَ ) ( ۱ )

____________________

(۱)انبیاء: ۱۰۵

۱۱۱

ہم نے توریت کے بعد زبور میں یہ لکھ دیا ہے کہ زمین خدا کی ہے ہم اس کو اپنے نیک بندوں کو عطا کریں گے۔

یہ توریت و زبور میں خدا کا وعدہ ہے اور تاریخ میں ہے کہ اہل بیت نے انبیاء اور صالحین سے میراث پائی ہے ، ان سے نماز و ذکر، زکواة ، حج اور خدا کی طرف بلانے کی میراث پائی ہے ۔

زیارت امام حسین ( زیارت وارث) میں اس علمی و ثقافتی اور جہادی میراث کو امام حسین سے مخصوص کیا گیا ہے جو کہ آپ کو انبیاء سے ملی ہے،یہ زیارت تہذیبی اور علمی مفاہیم کی حامل ہے ۔

''السلام علیک یا وارث آدم صفوة اللّٰه ، السلام علیک یا وارث نوح نب اللّه، السلام علیک یا وارث براهیم خلیل اللّه، السلام علیک یا وارث موسیٰ کلیم اللّٰه، السلام علیک یا وارث عیسیٰ روح اللّٰه ''

اے آدم کے وارث آپ پر سلام، اے نبیِ خد انوح کے وارث آپ پر سلام، اے خلیلِ خدا ابراہیم کے وارث آپ پر سلام ، اے کلیمِ خدا موسیٰ کے وارث آپ پر سلام اے روحِ خدا عیسیٰ کے وارث آپ پر سلام

یہ میراث طول تاریخ میں آدم و نوح سے لے کر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور علی مرتضیٰ تک جاری رہی۔

امام حسین نے کربلا میں روز عاشورہ اس علمی ،ثقافتی، تہذیبی اور جہادی میراث کو مجسم کر دیا ،ولایت کی تاریخ بہت عمیق ہے ، تاریخ میں اس کی جڑیں گہری ہیں ، اہل بیت نے انبیاء سے نیک و طویل راستہ میراث میں پایا ہے اور ہم نے ان سے ان کی میراث پائی ہے ۔

ہم نے ان سے نماز، روزہ، حج، زکوٰة ، نیکیوں کی ہدایت کرنا، برائیوں سے روکنا، جہاد، خدا کی طرف بلانا، اور ان سے ذکر و اخلاص اور توحید کے تمام اقدارکی میراث پائی ہے ،چنانچہ ہم خدا کے اس قول( فَخَلَّفَ مِن بَعدِهِم خَلف أضَاعُوا ْالصَّلاةَ ) پس ان کے بعد وہ لوگ جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کر دیا، ہم نماز کی حفاظت کرتے ہیں اور اسے قائم کرتے ہیں ، لوگوں کو اس کی طرف بلاتے ہیں ، بالکل اس طرح جیسا کہ پہلے ہمارے بزرگوں نے حفاظت کی ہے ، انشاء اللہ ہم ان لوگوں میں قرار پائیں جو خدا کے اس قول پر عمل کرتے ہیں :( وَأمُر أهلَکَ بِالصَّلاةِ وَ اصْطَبِر عَلَیْهَا ) اپنے خاندان والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی ادا کرتے رہو۔ چنانچہ ہم اپنے معاشرہ اور اپنے خاندان میں خدا کی اس عظیم میراث کی حفاظت کرتے ہیں کہ جس کو ہم نے اپنے بزرگوں سے نسلا ً بعد نسل میراث میں پایا ہے۔

۱۱۲

یہ ہے طول تاریخ میں ولاء کا سلسلہ اور زمانۂ آئندہ میں ولایت کا سلسلہ ہے، جس کے لئے ہم آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے امام مہدی کے ظہور کے منتظر ہیں اور ان کے ظہور کے ساتھ کشائش و کامیابی کے منتظر ہیں اور اس عالمی انقلاب کے منتظر ہیں جس کی خدا نے ہمیں اپنی کتاب میں اور اس سے پہلے توریت و زبور میں خبر دی ہے ۔

( وَلَقَد کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعدِ الذِّکرِ أنَّ الأرضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ )

ہم نے توریت کے بعد زبور میں یہ لکھ دیا ہے کہ زمین کی میراث صالح بندے پائیں گے۔

انتظار کے معنی منفی و سلبی نہیں ہیں جیسا کہ لوگ چاند و سورج گہن لگنے کا انتظار کرتے ہیں بلکہ انتظار کے معنی مثبت ہیں جیسا کہ انتظار سے متعلق حدیثوں سے سمجھ میں آتا ہے ، اور وہ سیاسی، ثقافتی اور عملی تیاری تاکہ ظہور مہدی اور روئے زمین پر آنے والے عظیم انقلاب کے لئے راہ ہموار کریں۔

انتظار کے معنی اس مثبت مفہوم کے لحاظ سے ، نیک باتوں کا حکم دینا، بری باتوں سے روکنا، خدا کی طرف بلانا، ظالموں سے جہاد کرنا، کلمة اللہ کو بلند کرنا اور روئے زمین پر خدائی تہذیب و ثقافت کو نشر کرنا، نماز قائم کرنا اور بہت سی چیز یں ہیں جو کائنات میں آنے والے انقلاب کی راہ ہموار کرتی ہیں ۔

یہ ہے ولاء کا مستقبل اسی کی طرف زیارت جامعہ میں اشارہ کیا گیا ہے ، منتظر''لأمرکم مرتقب لدولتکم حتی یحیی اللّٰه تعالیٰ دینه بکم، و یردّکم فی أیامه، و یظهرکم لعدله، و یمکنکم فی أرضه'' ۔

آپ کے امر کا منتظر ہوں ، آپ کی حکومت کی طرف آنکھ لگائے ہوئے ہوں یہاں تک کہ خدا آپ کے ذریعہ اپنے دین کو زندہ کر دے اور آپ کو اپنے زمانہ میں واپس لائے اور اپنے عدل کے لئے آپ کو غالب کر دے اور اپنی زمین پر آپ کو قدرت عطا کر دے۔

آخری لفظ سورہ قصص کی ابتدائی آیتوں کی طرف اشارہ ہے:

( وَ نُرِیدُ أن نَمُنَّ عَلیٰ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الأرضِ وَ نَجعَلَهُم أئِمَّةً، وَ نَجعَلَهُمُ الوَارِثِینَ، وَ نُمَکِّنَ لَهُم فِی الأرضِ )

ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر احسان کریں جن کو زمین پر کمزور کر دیا گیا ہے اور انہیں امام بنا ئیں اور انہیں وارث قرار دیں اور زمین پر انہیں قدرت عطا کر دیں۔

۱۱۳

اور یہ انتظار، عمل، جد و جہد، صبر و مقاومت، تعمیر، دین ِ خدا کے لئے زمین ہموار کرنے کی کوشش، روئے زمین پر حکومت خدا کے قائم کرنے کے لئے لوگوں کو حاضر کرنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے نیز:

لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دیں، نیک باتوں کا حکم دیں،بری باتوں سے روکیں ، باطل سے جنگ کریں اور کفر کے سر غنائوں سے جہاد کریں۔

اب ہم آپ کے سامنے دعائے ندبہ کے کچھ جملے پیش کرتے ہیں ،جس کو پڑھ کر مومنین اپنے امام کے فراق اور ان کی کشائش کے انتظار میں آہ و زاری کرتے ہیں ۔

''أین بقیة اللّٰه التی لا تخلو من العترة الهادیة؟

کہاں ہے وہ بقیة اللہ جس سے ہدایت کرنے والی عترت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دنیاخالی نہیں ہو سکتی ۔

أین المعدّ لقطع دابر الظلمة؟

کہاں ہے وہ جس کو ظلم کی جڑکاٹنے کے لئے مہیا کیا گیا ہے ۔

أین المنتظر لاقامة الامت و العوج؟ این المرتجیٰ لازالة الجور و العدوان؟

کہاں ہے وہ جس کا انتظار کجی نکالنے اور انحراف کو درست کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے ۔ کہاں ہے وہ جس سے ظلم و جور کو دفع کرنے کی امیدیں کی جارہی ہیں ۔

أین المدخر لتجدید الفرائض و السنن؟

کہاں ہے وہ جس کو فرائض و سنن کی تجدید کے لئے ذخیرہ کیا گیا ہے۔

أین المتخذ( ۱ ) لعادة الملّة و الشریعة؟

کہاں ہے وہ جس کو مذہب و شریعت کو لوٹانے کے لئے منتخب کیا گیا ہے ۔

____________________

(۱) اکثر نسخوں میں (أین المتخیّر) آیا ہے.

۱۱۴

أین المؤمّل لأحیاء الکتاب و حدوده؟

کہاں ہے وہ کہ جس سے کتاب خدا اور اس کے حدود کو زندہ کر نے کی امید ہے۔

أین محی معالم الدین و أهله؟

کہاں ہے دین اور دینداروں کو زندگی دینے والا۔

أین قاصم شوکة المعتدین؟

کہاں ہے ستمگاروں کی کمر توڑنے والا۔

أین هادم أبنیة الشرک و النفاق؟

کہاں ہے شرک و نفاق کی بنیادیں اکھاڑنے والا۔

أین مبید أهل الفسوق و العصیان و الطغیان؟

کہاں ہے فاسق و عاصی اور سر کشوں کو ہلاک کرنے والا۔

أین قاطع حبائل الکذب و الفترائ؟

کہاں ہے جھوٹ و افتراء کی رسیوں کو کاٹنے والا ۔

أین مبید العتاة و المردة، و مستأصل أهل الفساد والتّضلیل و اللحاد؟

کہاں ہے اختلاف کی شاخیں تراشنے والا، کہاں ہے انحراف و خواہشات کے آثار کو مٹانے والا، ، کہاں ہے سر کشوں اور باغیوں کو ہلاک کرنے والا، کہاں ہے عناد و الحاد و گمراہی کے سر غنائوں کو جڑ سے اکھاڑنے والا۔

أین معزّ الأولیاء و مذلّ الأعدائ؟

کہاں ہے دوستوں کو عزت دینے والا اور دشمنوں کو ذلیل کرنے والا۔

أین جامع الکلمة علیٰ التقویٰ؟

کہاں ہے سب کو تقوے پر جمع کرنے والا۔

۱۱۵

أین باب اللّٰه الذی منه یؤتیٰ؟

کہاں ہے وہ باب خدا کہ جس سے اس کی بارگاہ میں حاضر ہوا جاتا ہے۔

أین صاحب یوم الفتح و ناشر رایة الهدیٰ؟

کہاں ہے چہرۂ خدا کہ جس کی طرف دوست رخ کر تے ہیں ،کہاں ہے وہ سبب جو زمین و آسمان کا اتصال قائم کرتا ہے ،کہاں ہے وہ جوروز فتح کا مالک اور پرچمِ ہدایت کا لہرانے والا.

أین مؤلف شمل الصلاح و الرضا؟

کہاں ہے وہ جو نیکی و رضا کے منتشر اجزا کو جمع کرنے والا ہے۔

أین الطالب بذحول الأنبیاء و أبناء الأنبیائ؟

کہاں ہے انبیاء اور اولاد انبیاء کے خون کا بدلہ لینے والا۔

أین الطالب بدم المقتول بکربلا ؟

کہاں ہے شہید کربلا کے خون کا مطالبہ کرنے والا۔

أین المنصور علیٰ من اعتدی علیه و افتریٰ؟

کہاں ہے وہ کہ جس کی ہر ظالم اور افترا پر داز کے مقابلہ میں مدد کی جائے گی۔

أین المضطر الذی یجاب اذا دعیٰ؟

کہاں ہے وہ مضطر کہ جس کی دعا مستجاب ہے خواہ جب بھی کرے۔

۱۱۶

أین صدر الخلائق ذو البرّ و التقویٰ؟

کہاں ہے ساری مخلوقات کا سر براہ، صاحب صلاح و تقویٰ۔

أین ابن النبیّ المصطفیٰ و ابن علّ المرتضیٰ و ابن خدیجة الغراء و ابن فاطمة الکبریٰ؟

کہاں ہے فرزندرسول مصطفی ، پسر علی مرتضیٰ، نور نظر خدیجہ اور لخت جگرفاطمہ۔( ۱ )

انتظار،آہ و زاری ،نالہ و شیون اورامر بالمعروف، نہی عن المنکر، اور امام مہدی کے ظہور و قیام اور آپ کی کشائش کے لئے زمین ہموار کرنے کے لئے ظالموں سے جہاد کی نہایت کوشش کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔

یہ بین اور آہ و زاری مومنین کے دلوں کو کام و کوشش، قیام و انقلاب، ثابت قدمی و مقاومت ،محاذ لینے، جہاد کرنے، اسلام کی طرف بلانے، بنانے بگاڑنے اور امام زمانہ کے ظہور اور آپ کی آفاقی حکومت کے قیام و تشکیل کے لئے زمین ہموار کرتی ہے کہ جس کا خدا نے اپنی کتاب میں وعدہ کیا ہے :

( وَلَقَد کَتَبنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعدِ الذِّکرِ )

اس میں شک نہیں ہے کہ امام مہدی کا ظہور اس نسل کے گزر جانے کے بعد ہوگا جو آپ کے ظہور و قیام کے لئے زمین ہموار کرے گی کیونکہ اس سلسلہ میں اسلامی نصوص تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں ، یہی وہ نسل ہے کہ امام مہدی کے ظہور و قیام کے لئے زمین ہموار کرے گی، اس صورت میں انتظار کے یہ معنی ہوں گے کہ امر بالمعروف، کوشش و عمل میں جلدی اور تیزی کے ساتھ زمین ہموار کی جائے۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں ، ولاء میراث اور انتظار ہی ہے ، میراث ہمیں انبیاء و صالحین کے راستہ پر چلنے کی ترغیب کرتی ہے اور انتظار ہمیں امیدکی اس درخشاں کرن کو کھولنے پر ابھارتی ہے کہ جس کو خدا ہمارے لئے مستقبل میں کھولے گا۔

لیکن اس امید کے لئے واجب ہے کہ وہ ہمیشہ کوشش وجانفشانی اور تگ ودو سے متصل ہو، یہا ں تک کہ خدا کے اذن سے یہ وعدہ پورا ہو جائے، انتظار و امیدعلامات کانام نہیں ہے ۔

____________________

(۱) دعائے ندبہ

۱۱۷

زیارت

زیارت ولاء کا مظہر اور اس کے آثار میں سے ہے:

زیارت ایک واضح حالت ہے جوہماری اہل بیت سے محبت کے لئے مشہور ہے ہم اس کی پابندی کرتے ہیں ،اس کی طرف دعوت دیتے ہیں ، ولاء کے دائرہ میں زیارت کی ایک تہذیب و ثقافت ہے ، اس کے کچھ آداب ہیں ، کچھ نصوص ہیں جن کی تلاوت کرتے ہیں یہ ولاء کے ثقافتی افکار و مفاہیم سے معمور ہیں اور زندگی میں ا س کا ایک اثر ہے ۔

زیارت کی غرض ، تاریخ میں صالح و ہدایت سے مالامال راستہ کے ذریعہ عضوی و ثقافتی استحکام ہے۔ہم اس کارواںکا جز ہیں جو توحید، اخلاص، تقویٰ، نماز، جہاد، زکواة، امر بالمعروف، ذکر، شکر اور صبر و قوت کے اقدار سے مالا مال ہے ۔ہم اس مبارک راستہ یا قافلہ کا جز لا یتجزا ہیں کہ جس کا سلسلہ تاریخ میں اہل بیت سے لیکر انبیاء کی تحریک تک پھیلا ہوا ہے، آدم سے نوح وابراہیم اور موسیٰ و عیسیٰ وغیرہ تک ہے ، ہم اس راستہ کا جز ہیں اور اس تاریخی جنگ و کشمکش کا جز ہیں جو اس کے راستہ کے ہر مرحلہ میں اسلام و جاہلیت اور توحیدو شرک کے درمیان ہوتی رہی ہیں ، ہم اس شجر طیبہ کا جز ہیں کہ جس کی جڑیں تاریخ کی گہرائیوں میں اتری ہوئی ہیں ۔

ہم اس شجر کی شاخیں ہیں ، اس درخت سے ہمیں نسبت ہے ،اس کی ہمیں حفاظت کرنا چاہئے:

( ألَم تَرَ کَیفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً کَلِمَةً طَیِّبَةً، کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ، أصلُهَا ثَابِت وَ فَرعُهَا فِی السَّمَائِ )

کیا تم نے غور نہیں کیا کہ خدا نے پاک کلمہ کی مثال پاک درخت سے دی ہے، اس کی جڑ ثابت و محکم ہے اور اس کی شاخیں آسمانوں میں ہیں ۔

۱۱۸

اس درخت سے ہمارا رشتہ ہے، اس کے بارے میں ہمیں اپنے ضمیر و وجدان اور عقل و دل میں غور کرنا چاہئے اور جب ہمیں اس شجر طیبہ اور تاریخ کے اس مبارک خاندان سے نسبت کا گہرا احساس ہوگاتو اسی تناسب سے چیلنج کے مقابلہ میں ہماری قوت، صبر و صلابت زیادہ ہوگی اور خوفناک راستوں اور لغزشگاہوں جو راہ زندگی میں ہمارے سامنے آتی ہیں ، ان کے خلاف ہمارے اندر ثبات و استقلال میں اضافہ ہوتا ہے ۔

زیارت اس استحکام کا اہم عامل ہے

زیارت سے ایک قوی پر شفقت فضا پیدا ہوتی ہے جس میں اس مبارک خاندان اور تاریخ کے اس صالح راستہ سے تہذیبی ، ثقافتی اورتحرک کی نسبت کی تاکید کی گئی ہے۔

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا، امیر المومنین ، فاطمہ زہرا، حسن و حسین ، تمام اہل بیت ، انبیاء ،اولیاء خدا اور صالح مومنین کے لئے جو زیارتیں اہل بیت سے نقل ہوئی ہیں وہ اس تہذیبی اور ثقافتی میراث سے معمورہیں اور اس راستہ پر چلنے اور اس مبارک خاندان سے نسبت ا وران کے دشمنوں اور ان سے جنگ کرنے والوں سے اعلانِ برأت کے مفہوم سے بھری ہوئی ہیں ۔

میں نے اپنی کتاب ''الدعا عند اہل البیت'' کی آخری فصل میں زیارت کے بارے میں ایک تحقیق پیش کی ہے، لہٰذا ہم نے جو بات وہاں بیان کی ہے اسی پر اکتفاء کرتے ہیں یہاں اس کی تکرار نہیں کریں گے۔

۱۱۹

مکتب اہل بیت سے منسوب ہونے کے طریقے

اب ہم اس بحث کے آخری نقطہ کو بیان کرتے ہیں اور یہ ولاء و برائت اور اس کے حصول کے طریقوں کی بلندی ہے۔

بیشک ولاء و میراث -تولیٰ و تبرّیٰ-انسان کے لئے معراج ہیں ، تولیٰ و تبریٰ کے ذریعہ انسان خدا تک پہنچ جاتا ہے اور اس کی رضا حاصل کر لیتا ہے۔

تولا و تبریٰ کے بغیر انسان خدا کا تقرّب اور اس کی رضا حاصل نہیں کر سکتا ۔

ذیل میں ہم تولیٰ و تبریٰ کی بلندی کے بارے میں ائمہ اہل بیت سے وارد ہونے والی بعض حدیثوں کا ذکر کر رہے ہیں ۔

دنیا و آخرت میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ

عبد اللہ بن ولید سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: مروان کے زمانہ میں ہم امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے دریافت کیا: آپ لوگ کون ہیں ؟ ہم نے کہا: اہل کوفہ ہیں ، آپ نے فرمایا: اہل کوفہ ہمیں سب سے زیادہ دوست رکھتے ہیں خصوصاً یہ گروہ، بیشک خد انے تمہاری اس چیز کی طرف راہنمائی کی ہے جس سے لوگ جاہل ہیں ، تم نے ہم سے دوستی کی جبکہ دوسروں نے ہم سے عداوت کی، تم نے ہمارا اتباع کیا اور لوگوں نے ہماری مخالفت کی ، تم نے ہماری تصدیق کی، لوگوں نے ہمیں جھٹلایا، خدا تمہیں اس طرح زندہ رکھے جس طرح ہمیں زندہ رکھتا ہے اور اس طرح موت دے جس طرح ہمیں موت دیتا ہے ،میں شاہد ہوں میرے باپ کہتے تھے۔ تم میں سے کسی شخص اور اس چیز کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ آنکھ ٹھنڈی ہوتی ہے یاجس پر غبطہ کیا جاتا ہے مگر یہ کہ اس کا نفس یہاں تک پہنچ جاتا ہے ۔ اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اپنے حلق کی طرف اشارہ فرمایا:

۱۲۰