اہل بیت کے شیعہ

اہل بیت کے شیعہ0%

اہل بیت کے شیعہ مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 142

اہل بیت کے شیعہ

مؤلف: آیت اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 142
مشاہدے: 39927
ڈاؤنلوڈ: 3068

تبصرے:

اہل بیت کے شیعہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 142 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39927 / ڈاؤنلوڈ: 3068
سائز سائز سائز
اہل بیت کے شیعہ

اہل بیت کے شیعہ

مؤلف:
اردو

خداوند عالم نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا:

( وَلَقَد أرسَلنَا رُسُلاً مِن قَبلِکَ وَ جَعَلنَا لَهُم أزوَاجاً وَ ذُرِّیَّةً )

و نحن ذریة رسول اللّه ۔( ۱ )

''اور ہم نے آپ سے پہلے بھی رسول بھیجے ہیں ان کے لئے بھی ہم نے بیویاں اور ذریت قرار دی تھی'' اور ہم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت ہیں ۔

زیارت معروفۂ عاشورہ میں ہے:

''واحینا محیا محمد و آل محمد و امتنا ممات محمد و آل محمد''

ہمیں محمد و آل محمد کی حیات عطا فرما اور ہمیں محمد و آل محمدکی موت دے۔

خدا ان پر کرم کرتا ہے

رسول اللہ سے روایت ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

____________________

(۱) بحار الانوار: ج۶۵ ص ۲۰ ۔ ۲۱ ح ۳۴

۱۲۱

''یقول اللّٰه عزّ و جلّ لشیعتی و شیعة أهل بیت یوم القیامة هلمّ یا عبادی لیّ لأنشر علیکم کرامتی، فقد أوذیتم فی الدنیا'' ۔

روز قیامت خدا وند عالم میرے اور میرے اہل بیت کے شیعوں سے فرمائیگا، میرے بندو! میرے پاس جلدی آئو تاکہ میں تمہیں اپنے کرم سے سر فراز کروں ، یقینا تمہیں دنیا میں اذیت دی گئی ہے۔( ۱ )

وہ ہم سے اور ہم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک رکھتے ہیں

امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:میرے والدفرمایا کرتے تھے:

''ان شیعتنا آخذون بحجزتنا، و نحن آخذون بحجزة نبینا، و نبینا آخذ بحجزة الله'' ۔( ۲ )

ہمارے شیعوں نے ہمارا دامن ، ہم نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دامن اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا کا دامن تھام رکھا ہے، مجلسی لکھتے ہیں :

''اخذت بحجز الرّحمان '' کا مطلب یہ ہے کہ میں خدا سے وابستہ ہوں ۔( ۳ )

امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اذا کان یوم القیامة أخذ رسول اللّٰه بحجزة ربه (اعتصم به) و أخذ علـ بحجزة رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،، و أخذنا بحجزة عل، و أخذ شیعتنا بحجزتنا، فأین ترون یوردنا رسول الله''

____________________

(۱)بحار الانوار: ج۶۵ ص ۱۹ ح۲ عیون اخبار الرضا سے مختلف ہے، ج ۲ ص ۶۰

(۲)بحار الانوار: ج۶۵ ص ۳۰ ح ۶۰ محاسن ۱۸۳

(۳)بحار الانوار: ج۶۵ ص ۳۰

۱۲۲

جب قیامت کا دن ہوگا تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،خدا سے لولگا ئیں گے اور علی رسول کے دامن سے وابستہ ہوں گے اور ہم علی کا دامن تھام لیں گے اور ہمارے شیعہ ہمارے دامن سے وابستہ ہوں گے پس دیکھنا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیں کہاں پہنچائیں گے۔( ۱ )

علی بن الحسین سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ورع و اجتہاد کا زیادہ حقدار وہ ہے جو خدا کیلئے محبت کرتا ہے اور خدا کیلئے راضی ہوتا ہے اوصیاء اور ان کا اتباع کرنے والا ہے کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ اگر آسمان سے کوئی خوفناک چیز ظاہر ہو تو ہر گروہ اپنی پناہ کی طرف دوڑتا ہے اور تم ہماری طرف پناہ لیتے ہو اور ہم اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پناہ لیتے ہیں ، ہم اپنے نبی کے دامن کو تھام لیتے ہیں اور ہمارے شیعہ ہمارے دامن سے وابستہ ہو جاتے ہیں ۔

____________________

(۱)بحار الانوار: ج۶۸ ص ۳۰ ح ۶۱ محاسن ۱۸۳

۱۲۳

جو چیز خدا انہیں آخرت میں عطا کرے گا

جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ایک روز میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی بن ابی طالب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے ابو الحسن ! کیا میں تمہیں بشارت دوں ؟ عرض کی: اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ضرور دیجئے ،فرمایا: یہ جبریل ہیں جو خدا کی طرف سے یہ خبر لائے ہیں کہ اس نے تمہارے شیعوں اورمحبوں کو نو خصلتیں عطا کی ہیں :

۱۔ موت کے وقت، نرمی و شفقت

۲۔ وحشت و تنہائی میں ، انس

۳۔ تاریکی میں نور

۴۔ خوف و خطر کے وقت امن

۵۔ اعمال تولتے وقت وافر حصہ

۶۔ صراط سے گزرنا

۷۔ تمام لوگوں سے پہلے جنت میں داخل ہونا

۸و۹۔ ان کے نور کا ان کے سامنے اور دائیں طرف چمکنا

علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

۱۲۴

ہماری ولایت کے قائل لوگ روزِ قیامت اپنی قبروں سے اس حال میں اٹھیں گے کہ ان کے چہرے درخشاںہوں گے، ان کی شرم گاہیں چھپی ہوئی ہوں گی، ان کے دل مطمئن ہوں گے، سختیاں ان سے برطرف کر دی جائیں گی، ان کے وارد ہونے کو آسان کر دیا جائیگا، لوگ خوف زدہ ہوں گے لیکن انہیں کوئی خوف نہیں ہوگا ،لوگ رنجیدہ ہوں گے لیکن انہیں کوئی غم نہیں ہوگا۔( ۱ )

ابن عباس سے روایت ہیکہ انہوں نے کہا: میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خدا کے اس قول( وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أولٰئِکَ الْمُقَرَّبُونَ فِ جَنَّاتِ النَّعِیمٍ ) کے معنی دریافت کئے تو آپ نے فرمایا: جبریل نے کہا ہے کہ وہ علی اور ان کے شیعہ ہیں وہی جنت کی طرف سبقت کرنے والے ہیں اور وہ خدا سے اس کرامت کے ذریعہ قریب ہوں گے جو خدا نے انہیں عطا کیا ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱)بحار الانوار: ج۶۸ ص ۱۵ ح ۱۷(۲)بحار الانوار: ج۶۸ ص ۲۰ ح ۳۳

۱۲۵

ہمارے ساتھ اور ہم میں سے

امام رضا سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں اور یہ یعنی علی ان دو انگلیوں کی مانند ایک ساتھ ہوں گے اور اپنی دونوں انگلیوں کو متصل کر لیا، اور ہمارے شیعہ ہمارے ساتھ رہیں گے اور اس طرح وہ شخص بھی ہمارے ساتھ رہے گا جس نے کسی مظلوم کی مدد کی ہوگی۔( ۱ )

عمر بن یزید سے روایت ہے کہ اس نے کہا: امام جعفر صادق فرماتے ہیں ۔ اے یزید کے بیٹے! خدا کی قسم تم ہم اہل بیت میں سے ہو، راوی کہتا ہے ، قربان جائوں !میں آل محمد میں سے ہوں ؟ فرمایا: ہاں خدا کی قسم انہیں میں سے ہو۔ کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں پڑھا ہے :

( إنَّ أولیٰ النَّاسِ بِإبرَاهِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوهُ وَ هٰذا النَّبِی ) ( ۲ ) یا خدا کا یہ قول نہیں پڑھا( فَمَن تَبِعَنِی فَإنَّهُ مِنِّی ) ۔( ۳ )

ابراہیم سے ملحق ہونے کے وہ لوگ زیادہ حقدار ہیں کہ جنہوں نے ان کا اور اس نبی کا اتباع کیا۔ پھر جس نے میرا اتباع کیا وہ مجھ سے ہے۔

امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

ہمارے شیعہ ہمارا جز ہیں ، انہیں وہی چیز غمگین کرتی ہے جو ہمیں رنجیدہ کرتی ہے اور انہیں اسی چیز سے مسرت ہوتی ہے جس سے ہمیں مسرت ہوتی ہے پھر اگر ان میں سے کوئی ہمیں چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ ان کے پاس جائے کیوں کہ وہ اس کے ذریعہ ہم سے وابستہ ہے۔( ۴ )

____________________

(۱)بحار الانوار: ج۶۸ ص ۱۹ عیون اخبار الرضا: ج ۲ ص ۵۸ امالی طوسی: ج ۱ ص ۷۰

(۲)آل عمران: ۶۸

(۳)ابراہیم: ۳۶

(۴)بحار الانوار: ج۶۸ ص ۲۴ امالی طوسی: ج ۱ ص ۳۰۵

۱۲۶

امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: جس نے آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کی اور ان کو اس طرح تمام لوگوں پر مقدم کیا جس طرح خدا نے انہیں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قرابت کے سبب سب پر مقدم کیا ہے تووہ آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہے کہ اسے آل محمد سے نسبت ہے ، وہ ان سے تولا رکھتا ہے اور ان کا اتباع کرتا ہے خدا وند عالم نے اپنی کتاب میں اسی طرح حکم فرمایا ہے :

( وَ مَن یَّتَوَلَّهُ مِنکُم فَنَّهُ مِنهُمْ ) ( ۱ )

فلاح و کامیابی

جابر بن یزید سے انہوں نے امام محمد باقر سے اور آپ نے زوجۂ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے :( ''إ ) ن علیّاً و شیعته هم الفائزون'' ( ۲ ) علی اور ان کے شیعہ کامیاب ہیں ۔

تولیٰ و تبریٰ کے سبب شہیدوں میں شرکت

معتصم کے ماموں ریان بن شبیب سے صحیح حدیث میں آیا ہے کہ انہوں نے کہا: میں پہلی محرم کو ابو الحسن امام رضا کی خدمت میں حاضر ہواآپ نے -ایک طویل حدیث کے بعد-مجھ سے فرمایا: اے شبیب کے بیٹے اگر تم کسی چیز پر رونا چاہو تو حسین بن علی بن ابی طالب پر روئوکیونکہ انہیں بے دردی سے ذبح کیا گیا ہے اور ان کے اہل بیت سے ایسے اٹھارہ مرد قتل ہوئے ہیں جن کی مثال روئے زمین پر نہیں ہے ۔

____________________

(۱) بحار الانوار: ج۶۸ ص ۳۵ تفسیر عیاشی: ج ۲ ص ۳۲

(۲) ارشاد: یہ روایت ہم پہلے سیوطی کی درمنثور سے نقل کرچکے ہیں

۱۲۷

اے شبیب کے بیٹے اگر تم جنت میں بنے ہوئے محل میں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو قاتلان حسین پر لعنت کرو۔

اے شبیب کے بیٹے اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تم کو اس شخص کے برابرثواب ملے جو امام حسین کے ساتھ شہید ہوئے ہیں تو جب بھی تمہیں حسین کی یاد آئے تو یہ کہنا:''یا لیتنی کنت معهم فافوز فوزاً عظیماً'' ۔

اے شبیب کے بیٹے اگر تم جنت کے بلند درجوں میں ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو ہمارے غم میں غم منائو اور ہماری خوشی میں خوشی منائو اور ہماری دوستی و ولایت سے تمسک رکھو کیونکہ اگر کوئی شخص پتھر سے محبت کرے گا تو قیامت کے روز خدا اسے اسی کے ساتھ محشور کرے گا۔( ۱ )

یہ حدیث صحیح ہے ، اس چیز پر انسان کو ٹھہر جانا چاہئے اور اگر اس حدیث کی سند صحیح بھی نہ ہو تو ہم اس کوایک قسم کے مبالغہ پر حمل کریں گے جو کہ مرسل و ضعیف حدیثوں میں عام طور پر پایا جاتا ہے ۔

آپ کے سامنے ہم حدیث کا ایک عجیب فقرہ پھر پڑھتے ہیں :

''یابن شبیب أن سرّک أن یکون لک من الثواب مثلها لمن استشهد مع الحسین، فقل متیٰ ما ذکرته: (یا لیتن کنت معهم فأفوز فوزاً عظیماً )''۔

اے شبیب کے بیٹے اگر تم اس شخص کے برابر ثواب حاصل کرنا چاہتے ہو کہ جو امام حسین کے ساتھ شہید ہوا ہے تو جب تم انہیں یاد کرو تو یہ کہو: اے کاش میں ان کے ساتھ ہوتا اور عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوتا۔

____________________

(۱)امالی صدوق: ص ۷۹ مجلس ۲۷

۱۲۸

بیشک جب یہ آرزوسچی اور حقیقی ہوگی اور امام حسین اور آپ کے اصحاب کے فعل سے خوشی اور بنی امیہ اور ان کے طرف داروں سے ناراضگی کے ساتھ ہوگی تو سچی ہوگی اور راضی و نا راضگی کی تمنا کرنے والے کو ، امام حسین کے محبوں میں قرار دے گی اور اسے ان لوگوں کے ثواب میں شریک قرار دے گی جو آپ کے ساتھ شہید ہو ئے ہیں نتیجہ میں نیت خداوند کے نزدیک عمل میں بدل جائیگی اور جب نیت صحیح اور عزم محکم ہوگا تو خدا کے نزدیک قیامت کے دن یہی نیت عمل سے ملحق ہو جائیگی ،یہ نیت و عمل کے درمیان لگائو میں عجیب ترین انقلاب ہے اور نیت کے عمل سے بدل جانے میں اجر و ثواب ہے ، اور یہ ایک قانون ونظام ہے ، بالکل ایسے ہی جیسے مادہ طاقت میں بدل جائے فزکس میں اس کا نظام و قانون ہے، یہ ایجاب و سلب اور اثبات و نفی میں عجب قانون ہے ایسے ہی اجر و ثواب میں ہے۔

جس طرح نیک عمل کی نیت صاحب نیت کو صالحین کے ثواب میں شریک کر دیتی ہے ، اسی طرح ظلم کرنے کی نیت یا ظالم کے عمل سے خوش ہونا انسان کو عذاب و ظلم میں شریک کر دیتا ہے۔

محمد بن الارقط کہتے ہیں : میں مدینہ میں امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ نے فرمایا:

کیاتم کوفہ سے آئے ہو؟ عرض کی : ہاں!

فرمایا: تم حسین کے قاتلوں کو دیکھتے ہوگے۔

میں نے عرض کیا: میں قربان، ان میں سے میں نے کسی کو نہیں دیکھا ہے۔

فرمایا: اگر تم ان کے قاتل کو نہیں دیکھتے تو کیا قتل کے ذمہ دار کو بھی نہیں دیکھتے ؟

۱۲۹

کیا تم نے خدا کا قول نہیں سنا :( قَد جَائَ کُم رُسُل مِن قَبلِی بِالبَیِّنَاتِ وَ بِالَّذِی قُلتُم فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُم إن کُنتُم صَادِقِینَ ) ( ۱ )

ان لوگوں نے کسی رسول کو قتل کیا تھا کہ جن کے درمیان محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رہتے تھے جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اور عیسیٰ کے درمیان کوئی رسول نہیں تھا یہاں یہ لوگ رسول کے قتل سے راضی تھے اس لئے ان کو قاتل و ظالم کا نام دیا گیا ہے ۔

آیتوں میں سے جس آیت کی طرف امام جعفر صادق نے اشارہ فرمایا ہے وہ ہے سورہ آل عمران کی ۸۳ ۱ویں آیت:

( اَلَّذِینَ قَالُوا نَّ اللّٰهَ عَهَدَ اِلَینَا إلاَّ نُؤمِنَ بِرَسُولٍ حَتَّی یَأ تِیَنَا بِقُربَانٍ تَأکُلُهُ النَّارُ قُل قَد جَائَ کُم رُسُلُ مِن قَبلِی بِالبَیِّنَاتِ وَ بِالَّذِی قُلتُم فَلِمَ قَتَلتُمُوهُم إن کُنتُم صَادِقِینَ ) )

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم سے خدا نے یہ عہد لیا ہے کہ کسی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ ہمارے سامنے ایسی قربانی پیش نہ کر دے کہ جس کوآگ کھا جائے، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ ان سے کہہ دیجئے مجھ سے پہلے بھی واضح دلیلوں اور تمہاری مطلوب قربانی کے ساتھ تمہارے پاس رسول آئے تھے اگر تم سچے ہو تو پھر تم نے انہیں کیوں قتل کر دیا؟

اس میں شک نہیں ہے کہ اس آیت( فَلِمَ قَتَلتُمُوهُم إن کُنتُم صَادِقِین ) میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاصر یہودی مخاطب ہیں اور اس میں بھی شک نہیں ہے کہ ان یہودیوں نے کسی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل نہیں کیا تھا اور ان یہودیوں اور ان قاتلوں کے درمیان چھہ سو سال کا فاصلہ ہے لیکن قرآن اس کے باوجود حقیقت میں ان کی طرف قتل کی نسبت دیتا ہے ۔اور یہ نسبت مجازی طریقہ سے نہیں جیسے:( فَسألُوا اْلقَرْیَةَ )

____________________

(۱)آل عمران: ۱۸۳

۱۳۰

قتل کی اس نسبت کی کوئی توجیہ و تفسیر بھی نہیں ہے سوائے یہ کہ ہم اس قاعدہ کلیہ کو جانتے ہیں کہ نیت کے لحاظ سے راضی و ناراض ہونے سے نیت عمل سے بدل جاتی ہے ۔

بیشک سچی نیت و آرزو اور صداقت پر مبنی رضا و ناراضگی عمل کی قیمت رکھتی ہے اور اس نیت کے حامل کی طرف عمل کی نسبت دینا صحیح ہے ، اس نے خلوص کے ساتھ اس کی تمنا کی تھی اور خلوص کے ساتھ اس سے خوش ہوا تھا جیسا کہ کتاب خدا میں وارد ہوا ہے ۔

سید رضی نے نہج البلاغہ میں روایت کی ہے:

جب خدا نے آپ کو جمل والوں پر فتح عطا کی تو آپ کے کسی صحابی نے آپ کی خدمت میں عرض کی میں اس بات کو دوست رکھتا تھا کہ میرا فلاں بھائی موجود ہوتااور وہ آپ کی اس فتح کو دیکھ لیتاجو خدا نے آپ کے دشمنوں پر آپ کو عطا فرمائی ہے ۔

فرمایا: کیا تمہارا بھائی ہمیں دوست رکھتا ہے ؟

اس نے کہا: ہاں

فرمایا: وہ ہمارے پاس موجود تھا ، وہ تنہا نہیں تھا، ہمارے اس لشکر میں وہ بھی موجود تھے جو ابھی مردوں کے صلب اور عورتوں کے رحموں میں ہیں ، عنقریب زمانہ انہیں ظاہر کرے گا اور ان سے ایمان کو تقویت ملے گی۔

یہ قانون اور سنت الٰہی ہمیں صالحین کے اعمال میں شریک کر دیتی ہے اور ثواب میں ہمیں ان سے ملحق کر دیتی ہے اس اعتبار سے ہم انبیاء، اولیاء اور صالحین کے اعمال میں شریک ہیں ، کیونکہ ہم نے ان اعمال کی نیت کی تھی اور اس سے راضی تھے اور اس کو دوست رکھتے تھے اور سچے دل سے اس کی تمنا کرتے تھے ، جیسا کہ اس کے بر عکس بھی صحیح ہے۔

پس جو شخص ظالموں کے اعمال سے راضی ہوگا اور انکے ظلم و جور اور برے اعمال سے خوش ہوگا اور ان کی تمنا کرتا ہوگا ان کی نیت رکھتا ہوگااور ان سے دفاع کرتا ہوگا تو خدا اسے انہیں کے ساتھ محشور کرے گا اگر چہ وہ وہاں موجود بھی نہیں تھا اور اس کو انہیں کا عذاب دیا جائیگا۔

۱۳۱

یہ روایت جو وارد ہوئی ہے کہ آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حضرت مہدی ظہور فرمائیں گے تو حسین کے قاتلوں کو قتل کریں گے ان سب کو جمع کریں گے اور انہیں ان سے ملحق کریں گے اور قتل کر دیں گے اس کے معنی یہ ہیں کہ امام مہدی اس شخص کو قتل کریں گے ، جو امام حسین کے قاتلوں کو دوست رکھتا ہے ، تاکہ ان کے رجس و ظلم سے زمین کو پاک کر دیں۔

زیارت امام حسین ،جو کہ زیارت وارث کے نام سے مشہور ہے ، میں اس قانون کی دقیق تشخیص ہوئی ہے ۔ جو امام حسین کے قاتلوں اوران پر ظلم کرنے والوں اور ان کے قتل سے خوش ہونے والوں پر لعنت کرتا ہے ۔

زیارت کے جملے یہ ہیں :''لعن اللّٰه أمة قتلتکم و لعن اللّٰه أمة ظلمتکم، و لعن اللّٰه أمة سمعت بذلک فرضیت به''

خدا لعنت کرے اس گروہ پر جس نے آپ کو قتل کیا، خد العنت کرے اس گروہ پرجس نے آپ پر ظلم کیا ، خدا لعنت کرے اس گروہ پر جس نے یہ سب کچھ سنا اور اس سے راضی ہوا۔

اس میں پہلا گروہ قتل کاذمہ دار ہے ۔

دوسر ے گروہ نے پہلے گروہ کی تائید و تقویت کی ہے ۔

تیسرا گروہ وہ ہے جو قتل حسین سے خوش ہوا ، یہ گروہ پہلے گروہ سے زیادہ بڑا ہے ۔

اس کا حلقہ تاریخ و جغرافیہ سے زیادہ وسیع ہے۔

مجھے یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس گفتگو کو عطیہ عوفی کی اس روایت پر ختم کردوں جو انہوں نے جلیل القدر صحابی جابر بن عبد اللہ انصاری سے کی ہے ، جب جابر نے سانحہ

کربلا کے بعد امام حسین کی قبر کی زیارت کی۔

بشارت مصطفیٰ میں عطیہ عوفی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:

۱۳۲

میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ قبرِ حسین بن علی بن ابی طالب کی زیارت کیلئے گیا، جب ہم کربلا پہنچے تو جابر فرات پر گئے اور غسل بجالائے پھر ایک چادر کو لنگی کی طرح باندھ لیا اور دوسری کو اوڑھ لیا ایک خوشبو کی تھیلی نکالی اور اس کو اپنے بدن پر ملا اور قدم قدم پر ذکرِ خدا کرتے ہوئے چلے جب قبرِ حسین کے قریب پہنچے تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے قبر سے مس کرو تو میں نے انہیں قبر سے مس کیا ، جابر بیہوش ہو کر قبر پر گر پڑے میں نے ان پر پانی چھڑکا جب وہ ہوش میں آئے تو تین مرتبہ کہا: یا حسین! دوست، دوست کا جواب نہیں دیتا؟

پھر کہا: آپ کیسے جو اب دیں گے جب کہ آپ کو پسِ گردن سے ذبح کیا گیا ہے آپ کے سر کو بدن سے جد اکر دیا گیا ہے ۔ اے سید النبیین کے بیٹے، اے سید المومنین کے فرزند، اے حلیف تقویٰ کے پسر، ہدایت کی نسل اور اے خامس آل عبا ،اے سید النقباء کے لخت جگر، اے فاطمہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور نظر، آپ ایسے کیوں نہ ہوں ،جب کہ آپ کو سید المرسلین نے کھانا کھلایا، سید المتقین کے سایہ میں تربیت ہوئی، ایمان کا دودھ پلایا گیا ،اسلام کے ذریعہ دودھ بڑھائی ہوئی آپ زندگی میں بھی طیب وطاہر رہے اور موت کے بعد بھی پاک و پاکیزہ رہے لیکن آپ کے فراق میں مومنوں کے دلوں کو سکون نہیں ہے اور آپ نے جو راستہ اختیار کیا اس کی شکایت نہیں کی جا سکتی،آپ پر خدا کا سلام اور اس کی رضا ہو۔

آپ نے وہی راستہ اختیار کیا جس کو آپ کے بھائی یحیٰی بن زکریا نے اختیار کیاتھا۔

پھر جابر بن عبد اللہ انصاری نے قبر کے چاروں طرف دیکھا اور کہا: سلام ہو تم پر اے روحو! کہ جو بارگاہ امام حسین میں پہنچیں اور میں نے اپنا سامان سفر اتار دیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی زکواة ادا کی، نیکی کا حکم دیا، برائیوں سے روکا، آپ نے ملحدوں سے جہاد کیا اور آخری سانس تک خد اکی عبادت کی، قسم اس ذات کی جس نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق کے ساتھ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بنا کر بھیجا ،یقینا ہم بھی اس چیز میں آپ کے شریک ہیں جس میں آپ داخل ہوئے ہیں ۔

۱۳۳

عوفی نے کہا: میں نے کہا: کیسے !نہ ہم کسی وادی میں اترے نہ کسی پہاڑ پر چڑھے اور نہ ہم نے تلوار چلائی اور ظالموں نے ان کے سر و بدن میں جدائی کر دی، ان کی اولاد کو یتیم کر دیا او ران کی بیویوں کو بیوہ کر دیا ۔

جابر نے کہا: اے عطیہ! میں نے اپنے حبیب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے: جو شخص کسی قوم سے محبت کرتا ہے وہ اسی کے ساتھ محشور ہوگا اور جو شخص کسی قوم کے عمل کو دوست رکھتا ہے اس کو اس کے عمل میں شریک کیا جائیگا۔ قسم اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ محمد کو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بنا کر بھیجا میری نیت اورمیرے ساتھیوں کی نیت وہی راستہ ہے جس سے امام حسین اور انکے اصحاب گزرے ہیں مجھے کوفیوں کے گھروں کی طرف لے چلو۔

ہم راستہ طے کر رہے تھے کہ جابر نے کہا: اے عطیہ! کیا میں تمہیں وصیت کروں ؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس سفر کے بعد تم سے میری ملاقات نہیں ہوگی، دیکھو، ان لوگوں سے محبت کرنا جو آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کرتے ہیں اور ان لوگوں کو دشمن سمجھنا جو آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دشمن سمجھتے ہیں خواہ کتنے ہی نماز اور روزہ دار ہوں ، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے محب کے رفیق بن جائو، کیونکہ اگر کسی گناہ میں لغزش ہو جائیگی تو ان کی محبت کی وجہ سے وہ صحیح ہو جائیگا بیشک آپ کا محب اور دوست جنت میں اور ان کا دشمن جہنم میں جائیگا۔

۱۳۴

استدراک و الحاق

اہل بیت کون ہیں

اس گفتگو کے آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ سوال پیش کئے جائیں جو کہ گذشتہ بحث سے پید اہوتے ہیں ۔

اور وہ یہ کہ اہل بیت کون ہیں کہ جن کو سیاسی امامت اور فقہ و ثقافت کی مرجعیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قیامت تک کیلئے میراث ملی ہے؟

جواب: مسئلہ اس سے کہیں واضح ہے کہ انسان اس کے بارے میں غور و فکر کرے، بیشک رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ حلال و حرام، اصول و فروع میں امت کی مرجعیت قیامت تک کے لئے غیر معین جماعت کے حوالے کر دیں ا س جماعت کو معین ، واضح اور مشہور ہوناچاہئے اور ہمیں پوری تاریخ میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت میں سے ائمہ اثنا عشر، کہ جن کو شیعہ امام مانتے ہیں ،کے علاوہ کوئی ایسی مشہور جماعت نہیں ملتی کہ جس نے تاریخ میں اپنی امامت اور مسلمانوں کی مرجعیت کا اعلان کیا ہو اور تاریخ اسلام میں ہی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت مشہور ہیں ، انہیں کا علم و جہاداورفہم و میراث ہم تک سینکڑوں جلدوں میں پہنچی ہے ، جس کو اس مکتب کے بلند مرتبہ علما ء ایک دوسرے سے نسلاً بعد نسل میراث میں لیتے رہے ہیں ، یہی سیاسی و فقہی امامت میں خود کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وارث سمجھتے ہیں اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد یہی معصوم ہیں ۔

۱۳۵

رسول کے بارہ امام ہوں گے

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایسے صحیح طریقوں سے کہ جن میں شک نہیں کیا جا سکتا یہ بیان ہوا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد امامت راشدہ بارہ امیروں میں منحصر ہوگی اور وہ سب قریش سے ہوں گے اور یہ روایتیں محمد بن اسماعیل بخاری کے نزدیک صحیح ہیں ۔( ۱ ) اورمسلم بن حجاج نیشاپوری نے بھی اپنی صحیح میں( ۲ ) ترمذی نے اپنی صحیح میں ۔( ۳ ) حاکم نے مستدرک الصحیحین( ۴ ) اور احمد بن حنبل نے مسند میں متعدد مقامات پر اور بہت سے حدیث نبوی کے حفاظ نے بھی ان حدیثوں کو نقل کیا ہے اور تاریخ اسلام میں ہمیں ایسے بارہ عادل امام و امیر نہیں ملتے ہیں کہ جو ایک دوسرے کے بعد ہوئے ہیں :

یہ امر ختم نہیں ہوگا یہاں تک کہ ان کی تعداد مکمل ہو جائیگی اور دین ایسے ہی قائم رہے گا ، یہاں تک کہ ان میں سے بارہ ہوں گے، ان کی تعداد اتنی ہی ہوگی کہ جتنی بنی اسرائیل کے نقباء کی تعداد تھی اس کے علاوہ اور بھی صحیح روایتیں وارد ہوئی ہیں ۔

میں کہتا ہوں کہ تاریخ اسلام میں اس واضح صفت کے حامل ہمیں بارہ امام و امیر، ائمہ اہل بیت کے ان مشہور بارہ اماموں کے علاوہ نہیں ملتے ہیں کہ جن کی امامت سے شیعیان اہل بیت وابستہ ہیں ،اگر ہم ان کی امامت کا انکار کر دیں تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث صحیح نہیں رہے گی اور اس کا کوئی مصداق نہیں ملے گا اور ایسی بات قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے والا نہیں کہے گا۔

آیت تطہیر

ہماری اس بات کا دوسرا ثبوت سورۂ احزاب کی آیت تطہیر ہے:( اِنَّمَا یُرِیدُ اﷲ ُ ُلِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَهلَ البَیتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطهِیرًا ) ( ۵ )

____________________

(۱)صحیح بخاری: کتاب الاحکام

(۲)صحیح مسلم: کتاب الامارة : ج۱۲ ص ۲۰۱ ۲۰۴ شرح نووی طبع ۱۹۷۲

(۳)صحیح ترمذی: ج۷ ص ۳۵ کتاب الفتن

(۴)مستدرک الصحیحین: ج۴ ص ۵۰۱ (۵)احزاب: ۳۳

۱۳۶

اہل بیت خدا کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم کوہر رجس سے پاک رکھے اور ایسے پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے۔

اس میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی ، فاطمہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حسن و حسین کو کساء کے نیچے جمع کیا ان کے علاوہ کسی غیر کو آنے کی اجازت نہیں دی، تو یہ آیت:( اِنَّمَا یُرِیدُ اﷲ ) نازل ہوئی۔( ۱ )

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیثیں اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں کو اہل بیت قرار دیا ہے ،چنانچہ آیت تطہیر کے نزول کے وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی، فاطمہ ، حسن و حسین کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا:''اللّهم هولاء أهل بیتی، فاذهب عنهم الرّجس و طهّر هم تطهیرً '' اے اللہ یہی میرے اہل بیت ہیں ، ان سے رجس کو کثافت کو دور رکھ اور ان کو اس طرح پاک رکھ جیسے پاک رکھنے کا حق ہے ۔ ام سلمہ نے کہا: اے اللہ! کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بھی ان میں سے ہوں ۔تو آپ نے فرمایا: تم اپنی جگہ پر رہو، تم خیر پر ہو۔( ۲ )

جو روایتیں اہل بیت کو پنج تن پاک میں محدود و منحصر کرتی ہیں ان کے غیر کو نہیں ، ان روایات میں بہت سی صحیح بھی ہیں ، ان میں چون و چرا کی گنجائش نہیں ہے، ان کو ترمذی ، طہاوی، ابن اثیر جزری نے اور حاکم نے مستدرک میں اور سیوطی نے در منثور میں بہت سے طریقوں سے نقل کیا ہے، یہ صحیح روایات ان اہل بیت کی تعیین و تشخیص میں ہیں جن کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جن کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کساء کے نیچے جمع کیا تھا۔

اس کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب صبح کی نماز کیلئے نکلتے تو فاطمہ زہرا کے دروازہ پر جاتے اور فرماتے تھے:

____________________

(۱) صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، باب فضائل الحسن و الحسین، مستدرک الصحیحین: ۳ سنن بیہقی:۱۴۹۲ وغیرہ

(۲)صحیح ترمذی: ۲ ۲۰۹

۱۳۷

''الصلوٰة یا أھل البیت،( اِنَّمَا یُرِیدُ اﷲ ُلِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَهلَ البَیتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطهِیرًا ) ''۔( ۱ )

سیوطی نے اپنی کتاب در منثور میں اس آیت:( وَأمُر أهلَکَ بِالصَّلوٰةِ ) ) کی تفسیر کے سلسلہ میں ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: جب یہ آیت :( اِنَّمَا یُرِیدُ اﷲ ) نازل ہوئی تو حضرت رسالت مآب آٹھ ماہ تک نماز صبح سے پہلے حضرت علی کے دروازہ پر آتے اور کہتے تھے:''الصلاة رحمکم اللّہ''۔

نماز، خد اتم پر رحم کرے:( إنَّمَا یُرِیدُ اﷲ ُلِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَهلَ البَیتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطهِیرًا ) ( ۲ ) اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل کو اصحاب دیکھ رہے تھے۔

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ چاہتے تھے کہ وہ اہل بیت معین ہو جائیں کہ جن سے خد انے رجس کو دور رکھا اور ایسے پاک رکھا جیسا پاک رکھنے کا حق ہے ، چنانچہ جب ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ اہل بیت کون ہیں ؟اور ان سے خد انے رجس کو دور رکھا ہے اور اس طرح پاک رکھا ہے جس طرح پاک رکھنے کا حق ہے ،تو ہمیں یہ معلوم ہوجائیگاکہ اہل بیت کون ہیں اور امامت اور فقہی مرجعیت آخری زمانہ تک انہیں میں محدود رہی، یہی پنجتن ہیں جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا ہے جیسا کہ قرآن گواہ ہے وہ حق اور سچ کہتے ہیں جیسا کہ قرآن گواہ ہے اور امامت اور فقہی و ثقافتی مرجعیت ان سے ہی متصل رہے گی، جیسے زنجیر کی کڑیاں ایک دوسرے سے جڑی رہتی ہیں ، امام سابق کی وصیت سے، یہاں تک کہ اس کا سلسلہ پہلے امام حضرت علی تک پہنچ جائیگا ۔ اس سے بارہ ائمہ معین ہو جاتے ہیں جن کے بارے میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث میں اشارہ ہو اہے۔

____________________

(۱)صحیح ترمذی: ۲ ۲۰۹

(۲) تفسیر درمنثور میں سورہ طٰہٰ ، آیت: ۱۳۲ کے ذیل میں

۱۳۸

فہرست

حرف اول ۴

اجمالی فہرست ۸

پیش گفتار ۹

اہل بیت کے شیعہ کون ہیں ۹

۱۔اہل بیت کی سیاسی امامت ۹

۲۔ اہل بیت ، فقہی و ثقافتی مرجعیت ۱۳

اہل بیت سے نسبت اور محبت کی قدر و قیمت ۱۷

محبت اہل بیت کی اہمیت خدا و رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر میں ۱۷

علی کے شیعہ ہی کامیاب ہیں ۱۷

علی اور ان کے شیعہ بہترین خلائق ہیں ۱۸

اسلام میں محبت اہل بیت کا مقام ۲۰

رافضی کون ہیں ۲۱

ہرمحبت کا دعویدار شیعہ نہیں ہے ۲۳

مومنین اہل جنت کے لئے ایسے ہی درخشاں ہیں جیسے آسمان پر ستارے ۲۳

وہ اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں ۲۴

شیعہ اہل بیت کی نظر میں ۲۵

اہل بیت اپنے شیعوں سے محبت کرتے ہیں ۲۵

اہل بیت کے شیعوں پر اور شیعوں کے اہل بیت پر حقوق ۳۰

اہل بیت سے محبت اور نسبت کے شرائط ۳۱

۱۳۹

اہل بیت خدا سے شفاعت کریں گے اور اس سے بے نیاز نہیں ہیں ۳۳

تقویٰ اور ورع ۳۵

تعبدو بندگی ۳۹

رات کے عابد دن کے شیر ۴۴

شب و روز میں اکیاون رکعت نماز پڑھتے ہیں ۴۵

آپس میں ملاقات و محبت ۵۲

ایک دوسرے پر مومنین کے حقوق ۵۴

مومن کی حرمت اور اس کی محبت و خیر خواہی ۶۰

مومن، مومن کے لئے ایک بدن کی مانندہے ۶۱

عام مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک ۶۲

اعتدال و میانہ روی اور موازنہ ۶۶

حفاظتی اور سیاسی ضوابط ۶۷

اہل بیت کی محبت و عقیدت سے متعلق کچھ باتیں ۷۰

مفہوم ولاء ۷۰

تصدیق ۷۲

عضوی نسبت ۷۲

برات و بیزاری ۷۶

ولاء اور توحید کا ربط ۷۷

سلام و نصیحت ۸۳

نصیحت ۸۴

۱۴۰