اہل بیت کے شیعہ

اہل بیت کے شیعہ0%

اہل بیت کے شیعہ مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 142

اہل بیت کے شیعہ

مؤلف: آیت اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 142
مشاہدے: 39908
ڈاؤنلوڈ: 3068

تبصرے:

اہل بیت کے شیعہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 142 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39908 / ڈاؤنلوڈ: 3068
سائز سائز سائز
اہل بیت کے شیعہ

اہل بیت کے شیعہ

مؤلف:
اردو

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''من أطاعنی فقد أطاع اللّٰه ومن عصانی فقد عصی اللّٰه و من عصی علیاً فقد عصانی'' ۔( ۱ )

جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی( اسی طرح ) جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔

ابن عباس سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی کی طرف دیکھا اور فرمایا: اے علی! میں دنیا و آخرت میں سید و سردار ہوں تمہارا دوست میرا دوست ہے اور میرا دوست خدا کا دوست ہے اور تمہارا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن خدا کا دشمن ہے۔( ۲ )

اسلام میں تولیٰ اور تبری کے مفہوم کے باریک نکات میں سے یہ بھی ہے کہ ہم ولایت خدا اور ولایت اہل بیت کے درمیان جومحکم توحیدی ربط ہے اسے دقیق طریقہ سے سمجھیں اور دونوں ولایتوں کے درمیان توحیدی توازن کو سمجھیں اور یہ جان لیں کہ اسلام میں جو بھی ولایت ہے وہ خد اکی ولایت کے تحت ہی ہوگی ورنہ وہ باطل ہے اور جو بھی اطاعت ہے اسے بھی خدا کی اطاعت ہی کے تحت ہونا چاہئے اور اگر خدا کی طاعت کے تحت نہیں ہے تو وہ باطل ہے اور ہر محبت کو خدا کی محبت کے تحت ہوناچاہئے ورنہ خدا کے میزان میں اس کی کوئی قیمت و حیثیت نہیں ہوگی۔

____________________

(۱) حاکم نے مستدرک الصحیحین ج ۳ ص ۱۲۱و ۱۲۸ پر بیان کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے. ریاض النضرة محب الطبری ج۲ ص ۱۶۷ فیروز آبادی کی فضائل الخمسہ من الصحاح الستہ ج۲ ص ۱۱۸

(۲) مستدرک الصحیحین ج۳ ص ۱۲۷ اور حاکم نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے خطیب نے تاریخ بغداد: ج ۳ ص ۱۴۰ پر ابن عباس سے سے پانچ طریقوں سے اس کی روایت کی ہے. اور لکھتے ہیں :من احبک فقد احبنی و حبی حب اللہ جس نے تم سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور میری محبت خدا کی محبت ہے اور محب نے ریاض النضرة ج۲ ص ۱۶۶ پر فضائل الخمسہ من الصحاح الستہ للفیروز آبادی ج۲ ص ۲۴۴ پر اور اس حدیث کے متعدد طرق نقل کئے ہیں

۸۱

اس سیاق میں یہ بھی ہے کہ اہل بیت خدا کی طرف راہنمائی کرنے والے اور اس کی طرف بلانے والے ہیں اور اس کے امر سے حکم کرنے والے ہیں ، اس کے سامنے سراپا تسلیم ہیں اورخداکے راستہ کی طرف ہدایت کرنے والے ہیں ۔

یہ قضیہ کا ایک پہلو ہے ، اس کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ جو شخص خدا کو چاہتا ہے اور اس کے راستہ، اس کی مرضی اور اس کے حکم و حدود کو دوست رکھتا ہے اسے اہل بیت کے راستہ پرچلنا چاہئے اور انکے عمل کو اختیار کرنا چاہئے ،اس توحیدی معادلہ کے دونوں اطراف کو ملاحظہ فرمائیں:

زیارت جامعہ میں آیا ہے : الیٰ اللّٰہ تدعون و علیہ تدلون و بہ تؤمنون ولہ تسلمون و بأمرہ تعملون و الیٰ سبیلہ ترشدون و بقولہ تحکمون۔

آپ اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور اسی کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی کے سامنے سراپا تسلیم ہیں اور اسی کے امر کے مطابق عمل کرتے ہیں اور اس کے راستہ کی طرف ہدایت کرتے ہیں اور اس کے قول کے مطابق حکم دیتے ہیں ۔

یہ قضیہ کا ایک سرا ہے اور اس کا دوسرا سرا یہ ہے :

''من اراد اللّٰه بدء بکم و من وحده قبل عنکم و من قصده توجه بکم''

اس کی تاکید ایک بار پھر کردوں کہ ہم ولاء کو خدا کی ولایت کے تحت اسی توحیدی طریقہ سے سمجھ سکتے ہیں ، اگر اہل بیت کی ولایت ، طاعت اور محبت ولایت خدا کے تحت نہیں ہے تو وہ اہل بیت کی تعلیم اور ان کے قول کے خلاف ہے ۔

۸۲

سلام و نصیحت

یہ بھی ولاء کے دو رخ ہیں یعنی صاحبان امر کے ساتھ کس طرح پیش آئیں ،سلام اس لگائو کا سلبی رخ ہے اور نصیحت اس لگائو کا ایجابی رخ ہے ،اس کی تشریح ملاحظہ فرمائیں:

صاحبان امر(رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اہل بیت)پر سلام بھیجنا جیسا کہ زیارات کی نصوص میں وارد ہوا ہے یہ سلام مقولہ خطاب سے نہیں ہے بلکہ سلام کا تعلق مقولۂ ارتباط و علاقہ سے ہے اور خطاب کو علاقہ اور ارتباط سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

صاحبانِ امر پر جو سلام بھیجا جاتا ہے اس کے باریک معنی یہ ہیں کہ ہم انہیں اپنے افعال و اعمال کے ذریعہ اذیت نہ دیں کیونکہ وہ ہمارے اعمال کو دیکھتے ہیں جیساکہ سورۂ قدر اور دوسری روایات اس کی گواہی دے رہی ہیں ۔

ان کے دوستوں کے برے اعمال اور ان کا گناہوں اور معصیتوں میں آلودہ ہونا انہیں تکلیف پہنچاتا ہے اسی طرح ان دو فرشتوں کو رنجیدہ کرتا ہے جو ان کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کے دوستوں کے نیک و صالح اعمال انہیں خوش کرتے ہیں ،ہم صاحبان امر پر سلام والی بحث کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتے ہیں ۔

ان پر سلام سے متعلق زیارتیں معمور ہیں ، زیارت جامعہ غیر معروفہ میں ،کہ جس کو شیخ صدوق نے ( کتاب من لا یحضرہ الفقیہ )میں امام رضا سے نقل کیا ہے ، سلاموں کا سلسلہ ہے ہم ان میں سے ایک حصہ یہاں نقل کرتے ہیں :

''السلام علیٰ أولیاء اللّٰه و أصفیائه ، السلام علیٰ أمناء اللّٰه و أحبّائه، السلام علیٰ أنصار اللّٰه و خلفائه، السلام علیٰ محالّ معرفة اللّٰه، السلام علیٰ مساکن ذکر اللّٰه، السلام علیٰ مظهر أمر اللّٰه و نهیه، السلام علیٰ الدعاة الیٰ اللّٰه، السلام علیٰ المستقرّین فی مرضاة اللّٰه، السلام علیٰ المخلصین فی طاعة اللّٰه، السلام علیٰ الأدلاّء علیٰ اللّٰه، السلام علیٰ الذین من والاهم فقد والیٰ اللّٰه، و من عاداهم فقد عادی اللّٰه، و من عرفهم فقد عرف اللّٰه، و من جهلهم فقد جهل اللّٰه، و من اعتصم بهم فقد اعتصم باللّٰه، و من تخلی عنهم فقد تخلیٰ عن اللّٰه ۔''

۸۳

سلام ہو خدا کے دوستوں اور اس کے برگزیدہ بندوں پر، سلام ہو خدا کے امین اور اس کے احباء پر ، سلام ہو خدا کے انصار اور اس کے خلفاء پر ، سلام ہو معرفتِ خداکے مقام پر سلام ہو، ذکرِ خدا کی منزلوں پر ،سلام ہو خدا کے امرو نہی کے ظاہر کرنے والوں پر، سلام ہو خدا کی طرف بلانے والوں پر، سلام ہو خدا کی خوشنودی کے مرکزوں پر، سلام ہو طاعتِ خدا میں خلوص کرنے والوں پر، سلام ہو خدا کی طرف راہنمائی کرنے والوں پر، سلام ہو ان لوگوں پر کہ جو ان سے محبت کرے تو وہ محبت در حقیقت خدا سے ہو اور جو ان سے دشمنی کرے تو اصل میں اس کی دشمنی خدا سے ہو، جس نے انکو پہچان لیا اس نے خد اکو پہچان لیا اور جس نے ان کو نہ پہچانا اس نے خدا کو نہ پہچانا ، جو ان سے وابستہ ہو گیا وہ خدا سے وابستہ ہو گیا اور جس نے ان کو چھوڑ دیا اس نے خدا کو چھوڑ دیا۔

نصیحت

نصیحت صاحبانِ امر سے محبت و عقیدت کا دوسرا رخ ہے صاحبانِ امر کا خیر خواہ ہونا مقولۂ توحید سے ہے یہ بھی خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخلصانہ محبت کے تحت آتا ہے، یہ ان تین سیاسی قضیوں میں سے ایک ہے جن کا اعلان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حجة الوداع کے موقعہ پر عام مسلمانوں کے سامنے مسجد خیف میں کیا تھا۔

شیخ صدوق نے اپنی کتاب خصال میں امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: حجة الوداع کے موقعہ پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منی کے میدان میں مسجدِ خیف میں خطبہ دیا پہلے خدا کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا: خد ا شاداب و خوش رکھے اس بندے کو جس نے میری بات کو سنا اور محفوظ رکھا اور پھر اس بات کو اس شخص تک پہنچایا جس نے وہ بات نہیں سنی تھی کیونکہ بہت سے فقہ کے حامل فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے فقہ کے حامل اس شخص تک اسے پہنچاتے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے ،تین چیزوں سے مسلمان کا دل نہیں تھکتا ہے :

۸۴

۱۔ خدا کے لئے خلوص عمل سے۔

۲۔ مسلمانوں کے ائمہ کی خیر خواہی سے۔

۳۔ اور اپنی جماعت کے ساتھ رہنے سے۔

اس لئے کہ ان کی دعوت انہیں گھیرے ہوئے ہے ۔

اور مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ،ان کا خون ایک ہی ہے اور ان کے ذمہ چیزوں کی ان کا چھوٹا بھی پابندی کرتا ہے اور وہ اپنے مخالف کے لئے ایک ہیں ۔( ۱ )

اور صاحبانِ امر اور مسلمانوں کے ائمہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ مسلمان ان کی مدد کرے، ان کی پشت پناہی کرے ،انہیں محکم و مستحکم کرے، ان کا دفاع کرنے کی کوشش کرے، انہیں خیر خواہانہ مشورہ دے ان کی حفاظت کرے ان کے سامنے مسلمانوں کی مشکلیںاور رنج و غم کو بیان کرے یہ اس کی محبت و لگائو کا مثبت پہلو ہے ۔

____________________

(۱) بحار الانوار: ج۲۷ ص ۶۷۔

۸۵

نمونۂ عمل اور قیادت

ولاء کے مفردات میں سے اہل بیت کی تاسی کرنا بھی ہے۔

بیشک خد اوند عالم نے پہلے ابراہیم کو اور ان کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو لوگوں کے لئے بہترین نمونہ عمل قرار دیا تھا اور لوگ ان دونوں کی اقتداء کرتے تھے اور خود کو ان کے لحاظ سے دیکھتے اور پرکھتے تھے۔ خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( قَد کَانَتْ لَکُمْ أسْوَة حَسَنَة فِی بْراهِیمَ وَ الَّذِینَ مَعَهُ ) ( ۱ )

یقینا ابراہیم میں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں ان میں تمہارے لئے اچھا نمونہ ہے۔ نیز فرماتاہے:

( لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰهِ أُسوَة حَسَنَة ) ( ۲ )

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلفاء ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں ، ہم اپنی زندگی میں ، اپنی محبت میں ،اپنی عائلی زندگی میں ، اپنے اہل و عیال سے محبت کرنے میں اور خود سے محبت کرنے میں اور ان سب سے پہلے خدا سے محبت کرنے میں ہم انہیں کی پیروی کرتے ہیں ۔

واضح رہے کہ تاسی، تعلم نہیں ہے ، اہل بیت ہمارے معلم اور نمونۂ عمل ہیں ، ہم ان کی توجیہات اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں ، ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں ، ان کے راستہ پر گامزن ہوتے ہیں اور زندگی میں انہیں کی رسم و راہ اختیار کرتے ہیں ،ایسی زندگی گزارتے ہیں جیسی انہوں نے گزاری ہے ، عام لوگوں اور اپنے خاندان والوں کے ساتھ ایسے ہی رہتے ہیں جیسے وہ رہتے تھے۔

بیشک ائمہ اہل بیت معصوم ہیں ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ انسانیت کے لئے کامل

____________________

(۱) سورہ ممتحنہ: ۴ (۲)سورہ احزاب: ۲۱

۸۶

نمونہ ہیں ، خدا نے انہیں میزان و معیار قرار دیا ہے ، ہم خود کو انہیں کے معیار پر پرکھتے ہیں پس ہماری جو گفتار و کردار، ہماری خاموشی اور ہماری حرکت و سکون اور ہمارا اٹھنا بیٹھا ان کی گفتار و کردار اور ان کے حرکت و سکون کے مطابق ہوتا ہے وہ صحیح ہے اور جو ان سے مختلف ہے وہ غلط ہے ، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ اس میں کوئی فرق نہیں ہے ، اور زیارت جامعہ میں نقل ہونے والے درج ذیل جملے کے یہی معنی ہیں :

''المتخلف عنکم هالک و المتقدم لکم زاهق واللازم لکم لاحق''

آپ سے روگردانی کرنے والا فانی اور آپ سے آگے بڑھنے والا مٹ جائیگا اور آپ کا اتباع کرنے والا آپ سے ملحق ہوگا ۔

ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اہل بیت کی سیرت اورسنتوں کا مطالعہ کریں تاکہ ہمارا کرداران کے کردار کے مطابق ہو جائے ،حضرت امیر المومنین فرماتے ہیں : تم میں اس کی طاقت نہیں ہے لیکن تم ورع و کوشش سے میری مدد کرو۔

زیارت جامعہ میں ائمہ کی توصیف میں بیان ہوا ہے : وہ بہترین نمونے ہیں اور بہترین نمونے ہی معیار ہیں اور جہاں تک ہو سکے لوگ خود کو ان ہی معیاروں پر پرکھیں۔

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت نے حضرت ابراہیم اور خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اقدار و اخلاق، عبودیت و اخلاص اور طاعت و تقویٰ کی میراث پائی ہے ۔

جو شخص انبیاء کی ہدایت پانا اور ان کے راستہ پر چلنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اہل بیت کی اقتدا ء کرے اور ان کے نقش قدم پر چلے۔

زیارت جامعہ میں یہ دعا ہے :

''جعلنی اللّٰه ممن یقتصّ آثارکم و یسلک سبیلکم و یهتدی بهداکم''

خدا مجھے ان لوگوں میں قرار دے کہ جو آپ کے راستہ پر چلتے ہیں اور آپ کی ہدایت سے ہدایت پاتے ہیں ۔

۸۷

رنج و مسرت

رنج و مسرت ولاء کی دو حالتیں ہیں اور یہ دونوں محبت کی نشانیاں ہیں کیونکہ جب انسان کسی سے محبت کرتا ہے تو وہ اس کے غمگین ہونے سے غمگین ہوتا ہے اور اس کے خوش ہونے سے خوش ہوتا ہے ۔ امام صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے شیعہ ہم ہی میں سے ہیں انکو وہی چیز رنجیدہ کرتی ہے جو ہمیں رنجیدہ کرتی ہے اور انہیں وہی چیز خوش کرتی ہے جو ہمیں خوش کرتی ہے ۔( ۱ )

صحیح روایت میں ریان بن شبیب معتصم عباسی کے ماموں سے نقل ہوا کہ امام رضا نے اس سے فرمایا: اے شبیب کے بیٹے اگر تم جنتوں کے بلند درجوں میں ہمارے ساتھ رہنا پسند کرتے ہو تو ہمارے غم میں غم اور ہماری خوشی میں خوشی منائو اور ہماری ولایت سے متمسک ہو جائو کیونکہ اگر کوئی شخص پتھر سے بھی محبت کرے گا تو خدا قیامت کے دن اسے اسی کے ساتھ محشور کرے گا۔( ۲ )

____________________

(۱)امالی طوسی: ج ۱ ص ۳۰۵

(۲) امالی صدوق: ص ۷۹ مجلس ۲۷

۸۸

مسمع سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: امام جعفر صادق نے مجھ سے فرمایا: اے مسمع! تم عراقی ہو! کیا تم قبرِ حسین کی زیارت کرتے ہو؟ میں نے عرض کی: نہیں ، میں بصری مشہور ہوں ، ہمارے یہاں ایک شخص ہے جو خلیفہ کی خواہش کے مطابق عمل کرتا ہے اورناصبی اور غیر ناصبی قبائل میں سے بہت سے لوگ ہمارے دشمن ہیں مجھے اس بات کا خوف رہتا ہے کہ لوگ سلیمان کے بیٹے سے میری شکایت نہ کر دیں او روہ میرے در پے ہو جائیں، آپ نے مجھ سے فرمایا: کیا تمہیں یاد ہے کہ اس پر کیا احسان کیا ہے ؟ میں نے کہا: ہاں۔ پھر فرمایا: کیا تم اس پر غم کا اظہار کرتے ہو؟ میں نے عرض کی : جی ہاں۔

میں اس پر اس قدر آنسو بہاتا ہوں کہ میرے اہل و عیال میرے چہرہ پر اس کا اثر دیکھتے ہیں ۔ میں کھانا نہیں کھاتاخدا آپ کے آنسوئوں پر رحم کرے

جو ہماری خوشی میں خوشی اور ہمارے غم میں غم مناتے ہیں اور ہمارے خوف میں خوف زدہ ہوتے ہیں اور جب ہم امان میں ہوتے ہیں تو وہ خودکوامان میں محسوس کرتے ہیں ۔ تم مرتے دم دیکھوگے کہ تمہارے پاس میرے آباء و اجدادآئے ہیں اور تمہارے بارے میں ملک الموت کو تاکید کر رہے ہیں اور تمہیں ایسی بشارت دے رہے ہیں کہ جس سے مرنے سے پہلے تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی۔ نتیجہ میں ملک الموت تمہارے لئے اس سے زیادہ مہربان ہو جائے گا کہ جتنی شفیق ماں بیٹے پر مہربان ہوتی ہے۔( ۱ )

ابان بن تغلب سے مروی ہے انہوں نے امام جعفرصادق سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) کامل الزیارات: ص ۱۰۱

۸۹

ہمارے اوپر ہونے والے ظلم پر رنجیدہ ہونے والے کی سانس تسبیح ،ہمارے لئے اہتمام کرنا عبادت اور ہمارے راز کو چھپانا راہِ خدا میں جہاد ہے ۔( ۱ )

ہم اسی خاندان سے ہیں ،ہم عقیدہ ، اصول، محبت، بغض ، ولاء اور برأت میں ان کی طرف منسوب ہوتے ہیں ۔ اور اس محبت و ولاء کی علامت ان کی خوشی و غم میں خوش اور غمگین ہونا ہے ۔لیکن ہم اپنے اس رنج و مسرت کو کیوں ظاہر کرتے ہیں اور اس کو دل و نفس کی گہرائی سے نکال کر نعرہ زنی کی صورت میں کیوں لاتے ہیں اور اس کو معاشرہ میں دوستوں اور دشمنوں کے در میان کیوں ظاہر کرتے ہیں ۔

اور اہل بیت کی حدیثوں میں اس رنج و بکا خصوصاً مصائب حسین کے اظہار کی کیوں تاکید کی گئی ہے ۔

بکر بن محمد ازدی نے امام جعفرصادق سے روایت کی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فضیل سے فرمایا: تم لوگ بیٹھتے اور گفتگو کرتے ہو؟ عرض کی: میں آپ پر قربان، ہاں ہم ایسا ہی کرتے ہیں ۔ فرمایا: میں ان مجلسوں کو پسند کرتا ہوں لہٰذا تم ( ان مجلسوں میں ) ہمارے امر کو زندہ کرو، خدا رحم کرے اس شخص پر جس نے ہمارے امرکو زندہ کیا۔( ۲ )

یہ اظہارغم اور نعرہ زنی ہماری ایمانی کیفیت کا اعلان ہے ( یہ ہماری تہذیبی، سیاسی اور ثقافتی وابستگی کا اظہار ہے ) یہ اعلان و اظہار اور نعرہ زنی اہل بیت سے ہماری وابستگی کا اعلان ہے۔یہ وہ چیز ہے جس کی ہم نے مرور زمانہ میں حفاظت کی ہے جس کو ہم نے سیاسی و ثقافتی حملوں سے آج تک بچایا ہے ۔

____________________

(۱)امالی مفید: ص ۲۰۰ بحار الانوار: ج ۴۴ ص ۲۷۸

(۲)بحار الانوار: ج ۴۴ ص ۲۸۲

۹۰

ہمراہی اور اتباع

شاید لفظ ہمراہی و معیت مکتب اہل بیت سے منسوب ہونے کے لئے بہترین لفظ ہے، خوشحالی و بدحالی ،تنگی و کشادگی،اور صلح و جنگ میں ہم انہیں کے ساتھ ہیں ،یہ لفظ زیارت جامعہ میں وارد ہوا ہے گویا ترانۂ ولاء کا ایک جملہ ہے ''معکم معکم لا مع عدوکم..'' میں آپ کے ساتھ ہوں آپ کے ساتھ، آپ کے دشمن کے ساتھ نہیں ہوں زیارت کا یہ ٹکڑا بعض روایاتوں میں وارد ہوا ہے : لا مع غیرکم -اوریہ جملہ لا مع عدوکم '' کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہے ۔

ثقافتی اتباع

ولاء میں اتباع کا مفہوم زیادہ وسعت رکھتا ہے ۔

یہ مفہوم جنگ و صلح، محبت و عداوت، فکر و ثقافت اور معرفت و فقہ میں اتباع کو شامل ہے۔

ہم اس سلسلہ میں آزاد ہیں کہ مشرق و مغرب میں جہاں بھی ہمیں علم ملے اسے حاصل کریں لیکن یہ بات جائز ہے اور نہ صحیح ہے کہ ہم سر چشمہ وحی کو چھوڑ کر معرفت و ثقافت دو سرے مرکز سے حاصل کریں اور اہل بیت نے معرفت و ثقافت کو وحی کے چشمے سے حاصل کیا ہے، کیوں نہ ہو وہ نبوت کے اہل بیت اور رسالت کی منزل ہیں ، فرشتوں کی آمد و رفت کامرکز ہیں ،وحی کے اترنے کی جگہ ہیں اور علم کے خزینہ دار ہیں جیسا کہ زیارت جامعہ میں وارد ہوا ہے ۔

ثقافت اور علم کے درمیان فرق ہے علم براہ راست انسان کے چال چلن، عقیدہ ، طرز فکر، طریقہ ٔ عبادت، محبت، معاشرت، تحرک، اجتماعی و سیاسی سر گرمی و فعالیت وغیرہ پر اثر انداز نہیں ہوتا ہے ،لیکن ثقافت انسان کے چال چلن اس کے افکار، طریقۂ معیشت و معاشرت اور عبادت، خدا، کائنات اور انسان سے متعلق نظریہ و تصور پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے ۔

۹۱

اورعلوم بے پناہ ہیں ، جیسے ، دوا سازی و دوا فروشی ،تجارت، اقتصاد یات، محاسبہ، ریاضیات، انجینئری و معماری، الکٹرون ، ایٹم ، جراحت، طبابت ، میکانک، فزکس وغیرہ، لوگ آزاد ہیں کہ جہاں بھی انہیں علم ملے اسے حاصل کر لیں، یہاں تک کہ کافر سے بھی حاصل کر سکتے ہیں ، کیونکہ علم ایک قسم کا اسلحہ اور طاقت ہے اور مومنین کو چاہئے کہ وہ کافروں اور اپنے دشمنوں سے اسلحہ و طاقت لے لیں ۔

ثقافت جیسے اخلاق ، عرفان، فلسفہ، فقہ و عقیدہ، دعا، تربیت، تہذیب، طرزمعاشرت اجتماعی معیشت و کردار کے زاوئے اور ادب وغیرہ۔

ثقافت علم کی مانند نہیں ہے اور نہ ہمارے لئے یہ جائز ہے کہ ہم ثقافت (معرفت) وحی کے سرچشمہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ حاصل کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ثقافت انسان کے چال چلن اور کردار، اس کے طرز فکر، اس کی معیشت ، خدا اور لوگوں اوراپنے نفس اور دوسری چیزوں سے محبت و لگائو کی کیفیت پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے ۔ ثقافت علم کو محدود رکھتی ہے خصوصاً جب علم صالح ثقافت سے متصل نہ ہو۔ ممکن ہے علم تخریب و فساد کا آلۂ کار بن جائے۔ جبکہ ہدایت کرنے اور راہ دکھانے والی ثقافت علم کو لگام لگاتی ہے اور اس سے انسان کی خدمت کے لئے مفید و نفع بخش کام لیتی ہے۔

قرآن مجید، انسان کی زندگی میں ،کتاب( ثقافت و معرفت) ہے ، جس کو خدا نے انسان کی فکر و کردار کی ہدایت کے لئے نازل کیا ہے ۔ یہ کتاب علم نہیں ہے، اگر چہ علماء نے قرآن مجید میں فلک ، نجوم ، نباتات ، حیوانات، طب اور فلسفہ سے متعلق بے پناہ علوم پائے ہیں ۔ اس کے باوجود قرآن کتابِ ثقافت و ہدایت ہی رہا ۔ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہم قرآن کے ساتھ کتاب علم کا سا سلوک کریں گو یا وہ علم کی کتاب ہے جس کو خدا نے اس لئے نازل کیا ہے کہ لوگ اس کے ذریعہ فزکس، کیمیا اور نباتات وغیرہ کا علم حاصل کریں۔ بلکہ وہ ثقافت و معرفت کی کتاب ہے ، جس کو خدا نے اس لئے نازل کیا ہے کہ وہ ہمیں طرز زندگی ، خدا، کائنات اور انسان کی معرفت کا طریقہ، تصور خدا اور تصور کائنات و انسان کی کیفیت بتائے کہ ہم خدا، لوگوں ،اپنے نفسوں اور دوسری اشیاء کے ساتھ کس طرح پیش آئیں اور اشیاء کی بلندیوں اور افکار و افراد کا کیسے اندازہ لگائیں۔

۹۲

خداوند عالم فرماتاہے :

( شَهرُ رَمَضَانَ، الَّذِی أُنزِلَ فِیهِ القُرآنُ، هُدًی لِلنَّاسِ، وَ بَیِّنَاتٍ مِّنَ الهُدیٰ وَ الفُرقَانِ ) ( ۱ )

رمضان کا مہینہ ہی ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے ، جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کے ساتھ حق و باطل کے امتیاز کی نشانیاں بھی ہیں ۔

دوسری جگہ فرماتا ہے :

( وَاذْکرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیکُمْ ، وَمَا أنْزِلَ عَلَیکُمْ مِنَ الْکِتَابِ وَ الْحِکْمَةِ، یَعِظُکُمْ بِهِ ) ( ۲ )

اور تمہارے اوپر خدا نے جو نعمتیں نازل کی ہیں ان کو یاد کرو اور تمہارے اوپر کتاب و

____________________

(۱)البقرة : ۱۸۵

(۲)البقرة: ۲۳۱

۹۳

حکمت نازل کی ہے جس کے ذریعہ وہ تمہیں نصیحت کرتاہے۔

نیز فرماتا ہے :

( هٰذا بَیَان لِلنَّاسِ وَ هُدیً وَّ مَوعِظَةً لِلْمُتَّقِینَ ) ( ۱ )

یہ لوگوں کیلئے ایک بیان ہے اور پرہیزگاروں کے لئے ہدایت و نصیحت ہے ۔

نیزفرماتا ہے :

( یَا أیُّهَا النَّاسُ قَد جَائَ کُم بُرهَان مِّن رَّبِّکُم، وَ أنزَلنَا لَیکُم نُورًا مُبِینًا ) ( ۲ )

اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آگئی ہے اورہم نے تمہاری طرف نور مبین نازل کیا ہے ۔

نیز فرماتا ہے:

( وَ لَقَد جِئْنَاهُم بِکِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلیٰ عِلْمٍ، هُدیً وَّ رَحْمَةً لِقَومٍ یُؤمِنُونَ ) ( ۳ )

ہم تمہارے پاس ایسی کتاب لائے جس کی ہم نے علم کے لحاظ سے تفصیل کی ہے اور یہ ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت و رحمت ہے ۔

پھر فرماتا ہے :

( هٰذا بَصَائِر مِن رَّبِّکُمْ وَ هُدیً وَّ رَحْمَة لِقَومٍ یُؤمِنُونَ ) ( ۴ )

یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے دلائل اور ایمان لانے والوں کے لئے

____________________

(۱) آل عمران : ۱۳۸

(۲)سورة النسائ: ۱۷۴

(۳)سورہ الاعراف: ۵۲(۴)سورہ الاعراف: ۲۰۳

۹۴

ہدایت و رحمت ہے۔تو قرآن کتاب ثقافت ہے اور لوگوں کی زندگی میں نور ہے، لوگوں کے لئے دلائل ، ہدایت اور نصیحت ہے اور ہمارے لئے یہ صحیح ہے کہ ہم کسی بھی سر چشمہ سے علم حاصل کر سکتے ہیں اور کسی بھی ذریعہ سے علم حاصل کر سکتے ہیں یہاں تک کہ اپنے دشمنوں سے بھی علم حاصل کر سکتے ہیں لیکن ہمارے لئے یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم معصوم کے سر چشمہ کے علاوہ کسی اور سے ثقافت لیں کہ وہ اس ثقافت کو ہماری طرف وحی کے سر چشمہ سے نقل کرتا ہے کیونکہ ثقافت میں ذرہ برابر بھی خطا مشقت کا باعث ہے جبکہ علم ایسا نہیں ہے ۔

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معصوم، سر چشمہ ہیں ان پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ اسے ہم تک پہنچاتے ہیں ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدوحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اہل بیت کے خلفاء کو ، جو کہ قرآن کے ہم پلہ ہیں ، ہمارے درمیان اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے ، اہل بیت نے ثقافت و معرفت کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی سے لیا ہے اور معرفت و ثقافت، خدا کے حدود و احکام، حلال و حرام، سنن آداب و اخلاق اور اصول و فروع کی میراث آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی سے پائی ہے اور ان چیزوں میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں اپنے بعد نسلاً بعد نسل مسلمانوں کا مرجع اور قرآن کا ہم پلہ قرر دیا ہے یہاں تک کہ خدا وند عالم انہیں زمین اور روئے زمین کی تمام چیزوں کا وارث بنا ئیگا اور اس کا ثبوت حدیث ثقلین ہے جو فریقین کے نزدیک صحیح ہے۔ اس حدیث میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ میرے بعد تم قیامت تک قرآن اور اہل بیت سے رجوع کرنا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان دونوں سے تمسک کرنے کو گمراہی و ضلالت سے امان قرار دیا ہے ۔( ۱ )

____________________

(۱) مسلم نے اپنی صحیح میں فضائل صحابہ کے ذیل میں یہ حدیث نقل کی ہے اور ترمذی نے اپنی صحیح میں ج ۲ ص۳۰۸ احمد نے اپنی مسند میں متعدد مقامات پر اس حدیث کو نقل کیا ہے دارمی نے اپنی سنن کی ج۲ ص۴۳۱ پر کئی سندوں سے نقل کیا ہے حاکم نے مستدرک میں اسے متعدد سندوں سے نقل کیا ہے اور شیخین کی شرط پر اسے صحیح قرار دیا ہے. ج۳ ص ۱۰۹ سنن بیہقی ج۲ ص ۱۴۸ ج۷ ص۳۰ صواعق محرقہ ص ۸۹ اس نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اصحاب اسد الغابہ ج۲ ص ۱۲ وغیرہ نے بھی اس کو نقل کیا ہے اس حدیث کی سند بیان کر کے ہم اپنی بات کو طول نہیں دینا چاہتے کیونکہ امر اس سے کہیں زیادہ اہم ہے. اس سلسلہ میں صحیح مسلم و ترمذی ہی کافی ہیں

۹۵

نص حدیث یہ ہے:

''نی تارک فیکم الثّقلین کتاب اللّٰہ و عترتی أہل بیتی، و أنّھما لن یفترقا، حتی یردا علیّ الحوض، ما ن تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی''۔

میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک کتاب خدا، دوسری میری عترت جو کہ میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جد انہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے جب تک تم ان دونوں سے وابستہ رہوگے اس وقت تک میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔

کتابوں میں اس حدیث کے الفاظ ملتے جلتے ہیں ، جن سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے الفاظ میں اختلاف ہے اس حدیث کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بہت سے موقعوں پر بیان فرمایا ہے انہیں میں سے غدیر خم بھی ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں زید بن ارقم سے نقل ہے،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''مثل أهل بیت مثل سفینة نوح من رکبها نجا، و من تخلّف عنها غرق'' ۔

میرے اہل بیت کی مثال کشتیِ نوح کی سی ہے جو اس پر سوار ہو گیا اس نے نجات پائی اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ ڈوب گیا۔( ۱ )

نیز فرمایا:''اهل بیت امان لأمتي من الإختلاف'' ۔

____________________

(۱) اس کو حاکم نے مستدرک ج۲ ص ۳۴۳ پر نقل کیا ہے اور مسلم کی شرط پر اسے صحیح قرار دیا ہے کنز العمال ج۶ ص ۲۱۶ مجمع الزوائد ہیثمی ج ۹ ص ۱۸ حلیة الاولیاء ابو نعیم ج۴ ص ۳۰۶ تاریخ بغداد خطیب : ج ۱۲ ص ۱۹ درمنثور سیوطی سورہ بقرہ کی درج ذیل آیت: و اذ قلنا ادخلوا ہذہ القریة فکلوا منہا حیث شئتم، کشف الحقائق مناودی ص ۱۳۲ صواعق محرقہ طبری فضائل الخمسہ فیروزآبادی ج۲ ص ۶۷ تا ۷۱

۹۶

میرے اہل بیت میری امت کے لئے اختلاف سے امان میں رہنے کا باعث ہیں ۔( ۱ )

اس کے علاوہ اوربہت سی حدیثیں ہیں جن کی صریح اور واضح دلالت اس بات پر ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کو یہ وصیت فرماتے تھے کہ میرے بعد تم میرے اہل بیت سے رجوع کرنا اور اپنے دین کے دستور و معارف انہیں سے لینا، اسی طرح خداکے بیان کردہ حدود، اس کے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت اور حلال و حرام انہیں سے معلوم کرنا۔

فیروز آبادی نے اپنی گرانقدر کتاب''فضائل الخمسة من الصحاح الستة'' میں ان حدیثوں میں سے کچھ حدیثیں بیان کی ہیں ، بحث طویل ہو جانے کے خوف سے ہم ان سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔

بیشک اہل بیت، مرکز رسالت، ملائکہ کی جائے آمد و رفت، وحی اترنے کی منزل ، علم کے خزینہ دار ،تاریکی میں چراغ، تقوے کی نشانیاں، ہدایت کے امام، انبیاء کے وارث اور دنیا والوں پر خدا کی حجت ہیں ۔ زیارت جامعہ میں وارد ہوا ہے : وہ معروف خدا کے مرکز، حکمتِ خداکے معادن، کتاب خدا کے حامل ، اس کی حجت، اس کی صراط اور اس کا نور و برہان ہیں جیساکہ زیارت جامعہ میں وار دہواہے ۔

اس صورت میں جو بھی ان سے جدا ہوگا وہ لا محالہ بھٹک جائیگا،خواہ وہ ان سے آگے بڑھ جائے یا ان سے پیچھے رہ جائے کیونکہ خدا کی صراط ایک ہے متعدد نہیں ہے، پھر جو ان کے راستہ پر چلے گا وہ خدا کی طرف ہدایت پائے گا اور جو را ہ میں ان سے اختلاف کرے گا وہ اس

____________________

(۱)مستدرک صحیحین ج ۳ ص ۱۴۹ اور انھوں نے اس کو صحیح قرار دیا ہے صواعق محرقہ: ص ۱۱۱۱ مجمع الزوائد ہیثمی: ج ۹ ص ۱۷۴ فیض القدیر مناوی ج۶ ص ۲۹۷ کنز العمال متقی: ج۷ ص ۲۱۷ فیروز آبادی فضائل الخمسة من الصحاح الستہ ج۲ ص ۷۱ تا ۷۳ اس کو بہت سے طریقوں سے نقل کیا ہے.

۹۷

منزل تک نہیں پہونچ پائیگا جس کو خدا چاہتا ہے، اس بات کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کئی موقعوں پر اعلان فرمایا ہے ان میں سے ہم نے ایک حدیث ثقلین میں بیان کیا ہے۔ جب تک تم ان دونوں سے متمسک و وابستہ رہوگے اس وقت تک گمراہ نہ ہوگے۔

یہ کوئی اجتہادی مسئلہ نہیں ہے کہ جس میں بعض لوگ ہدایت پا جاتے ہیں اور بعض لوگ بھٹک جاتے ہیں ،ہدایت یافتہ کو دوہرا ثواب دیتا ہے اورخطا کرنے والے کو ایک ہی دیتا ہے جیسا کہ لوگ کہتے ہیں ۔

نص کے ہوتے ہوئے اجتہاد کرنا صحیح نہیں ہے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سلسلہ میں نص فرمائی ہے کہ میرے بعد جس چیز میں تمہارے درمیان اختلاف ہو اس میں تم میرے اہل بیت سے رجوع کرنا۔ زیارت جامعہ میں آیا ہے ۔

''فالراغب عنکم مارق و اللازم لکم لاحق ، و المقصّر ف حقّکم زاهق، و الحقّ معکم و فیکم و منکم والیکم و أنتم معدنه و فصل الخطاب عندکم، و آیات اللّٰه لدیکم، و نوره و برهانه عندکم'' ۔

آپ سے رو گردانی کرنے والا دین سے خارج ہے اور آپ کا اتباع کرنے والا آپ سے ملحق ہے اور آپ کے حق میں کو تاہی کرنے والا مٹ جانے والا ہے، حق آپ کے ساتھ، آپ کے درمیان ، آپ سے اور آپ کے لئے ہے ، اورآپ حق کے معدن ہیں ، فصل خطاب آپ کے پاس ہے ، ..خدائی آیتیں آپ کے پاس ہیں ، اور اس کا نور و برہان آپ کے پاس ہے ۔

پس جو شخص خدا کی رضا، اس کا طریقہ ، اس کی ہدایت اور اس کا راستہ چاہتا ہے وہ لامحالہ انہیں سے لے گا اور انہیں کے راستہ پر چلے گا، کیونکہ اہل بیت خدا کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف نہیں بلاتے ہیں اور نہ غیر کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اسی زیارت میں وارد ہوا ہے :

''الیٰ اللّٰه تدعون، و علیه تدلون و به تؤمنون، و له تسلمون، و بأمره تعملون، والیٰ سبیله ترشدون، و بقوله تحکمون، سعد من والاکم، و هلک من عاداکم، و خاب من جحدکم، و ضلّ من فارقکم، و فاز من تمسک بکم، و امن من لجأ الیکم، و سلم من صدقکم، و هدی من اعتصم بکم'' ۔

۹۸

آپ خد اکی طرف دعوت دیتے ہیں ، اسی کی طرف راہنما ئی کرتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے سامنے سراپا تسلیم ہیں اور اس کے امر کے مطابق عمل کرتے ہیں اور اس کے راستہ کی طرف ہدایت کرتے ہیں اور اس کے قول کے موافق حکم دیتے ہیں ، جس نے آپ سے محبت کی اس کی قسمت سنور گئی اور جس نے آپ سے دشمنی کی وہ ہلاک ہو گیا، جس نے آپ کا انکار کیا وہ گھاٹے میں رہا اور جس نے آپ کو چھوڑ دیا وہ گمراہ ہو گیا اور جس نے آپ سے تمسک کیاوہ کامیاب ہو گیا اور جس نے آپ کے پاس پناہ لے لی وہ محفوظ رہا، جس نے آپ کی تصدیق کی و ہ صحیح وسالم رہا اور جس نے آپ کا دامن تھام لیا وہ ہدایت پاگیا۔

۹۹

طاعت و تسلیم

طاعت و تسلیم ولاء کا جوہر ہے ۔اگر بر محل طاعت ہوتی ہے تو اس کی بڑی قیمت ہے اور اگر اپنی جگہ نہ ہو تو اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، عصیان و سرکشی اورانکارکی بھی قیمت ہوتی ہے جب کہ ان کا تعلق شیطان سے ہے ،لیکن اگر ان کا تعلق خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اہل بیت اور مسلمانوں کے صاحبانِ امر سے ہو تو یہ قیمت کی ضد قرار پائیں گے۔چنانچہ سورۂ زمر کی آیت ۱۷ میں ان دونوں قیمتوں کو جمع کر دیا گیاہے ۔ ارشاد ہے :

( وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُواْ الطَّاغُوتَ أن یَعبُدُوهَا ، وَ أنَابُوا لیٰ اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشریٰ )

اور جو لوگ طاغوت کی پرستش کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور خدا سے لولگاتے ہیں ان کے لئے بشار ت ہے، اور سورۂ نحل میں ارشاد ہے:

( أنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الْطَّاغُوتَ ) ( ۱ )

تم خدا کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔

طاعت و عبادت، انکار و اجتناب ایک چیز ہے اور خدا نے ہمیں اپنی ، اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اولی الامر کی طاعت کا حکم دیا ہے :

( أطِیعُوا اللّٰهَ وَأطِیعُوا الرَّسُولَ وَ أولِی الأمرِ مِنکُم )

دوسری طرف ہمیں شیطان وطاغوت کی نافرمانی کرنے اور اس کے انکار کرنے کا حکم دیا ہے ۔

( یُرِیدُونَ أن یَّتَحَاکَمُوا لیٰ الطَّاغُوتِ وَقَد أمِرُوا أن یَکفُرُوا بِهِ ) ( ۲ )

وہ لوگ طاغوت کو اپنا حاکم بنانا چاہتے ہیں جبکہ انہیں اس کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ائمہ اہل بیت ہی اولی الامر ہیں لہذا ان کی طاعت واجب ہے اور جو وہ حکم دیں اس کو بجالانا فرض ہے :

''فهم ساسة العباد و أرکان البلاد و هم حجّج اللّٰه علیٰ هل الدنیا''

وہ بندوں کے سر براہ اور شہروں کے ارکان اور وہ دنیا والوں پر خدا کی حجتیں ہیں ۔

____________________

(۱)النحل: ۳۶

(۲)النسائ: ۶۰

۱۰۰