بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک0%

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد علی چنارانی
زمرہ جات: مشاہدے: 12571
ڈاؤنلوڈ: 3849

تبصرے:

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12571 / ڈاؤنلوڈ: 3849
سائز سائز سائز
بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نام کتاب : بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

مؤلف : محمد علی چنارانی

مترجم :سید قلبی حسین رضوی

مصحح : کلب صادق اسدی

پیشکش :ادارۂ ترجمہ،معاونت فرہنگی ، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

ناشر : مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پرنمودار ہوتاہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ ونکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کا فور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کاسورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کی تمام الہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عر صے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماندپڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہب عقل و آگہی ہے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام او ر ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کے بے توجہی اورناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کاشکار ہوکراپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمہ فیض جاری رکھا اورچودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکارو نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگیں تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیاہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن او رمکتب اہل بیت علیہ السلام کی طرف اٹھی او رگڑی ہوئی ہیں ، دشمنان اسلام اس فکر و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اوردوستداران اسلام سے اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں ، یہ زمانہ عملی اور فکری مقابلے کازمانہ ہے اورجو مکتب بھی تبلیغ او رنشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیاتک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کو نسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایاہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر اندازسے اپنا فریضہ ادا کرے، تا کہ موجود دنیا ئے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف وشفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوت (ص) و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق وانسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواراں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کیعالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققیں ومصنفیں کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفیں و مترجمیں کا ادنی خدمتگار تصور کرتے ہیں ، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل مولف محمد علی چنارانی کی گرانقدر کتاب ''بچوں اورنوجوانوں کے ساتھ نبی اکرم (ص) کا حسن سلوک '' کو فاضل جلیل مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیاہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں او رمعاونیں کا بھی صمیم قلب سے شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنی جہاد رضائے مولی کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

پیش لفظ

آج کل کی دنیا میں بچوں کی تربیت،سماج کاایک بنیادی ترین مسئلہ اور بشریت کی سعادت کا اہم ترین عامل شمار ہوتی ہے۔اس لئے دانشوروں نے بچوں کے نفسیات اور تربیت کے بارے میں کافی مطالعہ اورتحقیق کی ہے اوراس موضوع پر بہت سی کتابیں بھی تالیف کی ہیں ۔

اسی طرح بڑے ممالک میں ،بچوں کے جسم وروح کی صحیح تربیت کی غرض سے وسیع پیمانے پرانجمنیں بنائی گئی ہیں اور بچوں کی علمی اور عملی لحاظ سے نگرانی کی جارہی ہے۔

لیکن چودہ سو سال قبل،جب بشریت جہل و نادانی کے اندھیرے میں بھٹک رہی تھی،اس وقت پیغمبر اسلام (ص)نے بچوں کی قدر ومنزلت اور تربیت کوخاص اہمیت دی، اور اس سلسلہ میں اپنے پیرئوں کوضروری ہدایات دیں۔

اگرچہ آج دانشور اور ماہرین بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی تربیت کو اہمیت دیتے ہیں ،لیکن اسلام نے ازدواجی زندگی کے بنیادی اصول،شریک حیات کے خصوصیات،نسل کی پاکیزگی،دودھ پلانے اور بچوں کے جسم وروح کی تربیت کے سلسلہ میں لوگوں کی ذمہ داریوں کو قدم بہ قدم بیان کیا ہے۔

اگر آج دنیا کے دانشوروں نے بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں بہت سے نفسیاتی اور تربیتی مسائل کو دقیق انداز میں اپنی علمی کتابوں میں درج کیا ہے،تواسلام کے پیشوائوں نے بہت پہلے ہی میں ان نکات کو مذہبی روایات کی صورت میں بیان کر دیا تھا اور خود بھی اپنی زندگی میں اس کوعملی جامہ پہنا یا ہے۔

اس کتاب میں ہمارا مقصددو بنیادی اصولوں پر استوار ہے:

اول یہ کہ تمام مسلمان،بالخصوص نوجوان اور طلبہ،کہ جو معاشرہ کی بڑی تعداد کو تشکیل دیتے ہیں ،دین مقدس اسلام کے منصوبوں اور دستورات کی ہمہ گیری اور اس آسمانی دین کے عملی اقدار سے آگاہ ہو جائیںاور قوی و مضبوط ایمان واعتقاد سے اس کی پیروی کریں اور دشمنوں کے فریب میں نہ آئیں۔

دوسرے یہ کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں اپنی مذہبی اور قومی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو جائیںتاکہ اس اہم اورسنگین ذمہ داری کو بہتر صورت میں انجام دے سکیں۔کیونکہ بہت سے اجتماعی مشکلات اور اخلاقی برائیاںاپنی ذمہ داریوں سے ناواقفیت کی بنا پر ہی وجود میں آتی ہیں ۔

اس لئے ہم نے یہ فیصلہ کیاکہ ان لو گوں کے لئے ایک عملی نمونہ پیش کریںکہ جو اپنے بچوں کی جسمانی و روحانی لحاظ سے صحیح تر بیت کرنا چاہتے ہیں ۔مسلمانوں کے لئے بہترین نمونہ پیغمبر اسلام حضرت محمدمصطفے (ص)اور آپ (ص)کے حقیقی جانشین ہیں کہ ہم اپنی زندگی کے تمام مراحل میں انھیں اطمینان بخش نمونہ قرار دیں اوران کی پیروی کر یںچنانچہ ان کامل انسانوں کی پیروی واطاعت میں کسی قسم کی قباحت نہیں ہے، کیونکہ ان شخصیتوں کوخداوند متعال نے ہر برائی سے پاک قرار دیا ہے اوران کی اطاعت کہیں بھی اور کبھی بھی

مشکل پیدا نہیں کرسکتی ہے۔دعا ہے کہ بشریت آگاہ ہو جائے اورحقیقی پیشوائوں کی پیروی کرے ،جھوٹے اور شیطانی نمونوں کی اطاعت نہ کریں تاکہ اس طرح وہ دنیاوآخرت کی سعادت سے ہمکنار ہو جائے۔

یہ کتاب دوحصوں پر مشتمل ہے:

۱۔پیغمبر اسلام (ص)کا بچوں کے ساتھ سلوک، اس میں پانچ فصلیں ہیں اور ہر فصل چند موضوعات پر مشتمل ہے۔

۲۔پیغمبر اسلام (ص) کانوجوانوں کے ساتھ سلوک،اس میں چار فصلیں ہیں اور ہرفصل چند عناوین پرمشتمل ہے

آخر پر میں ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں ،جنہوں نے اس کتاب کی تالیف میں میری مدد فر مائی۔

مؤلف

پہلا حصہ:

بچوں کے ساتھ

پیغمبر اسلام (ص)کا سلوک

بچوں کے ساتھ پیار ومحبت سے پیش آنا پیغمبر اکرم (ص)کے نمایاں خصوصیات میں سے تھا۔

پہلی فصل:

تر بیت

اپنے بچوں کااحترام کرواوران کے ساتھ ادب سے پیش آؤ۔

( پیغمبر اکرم (ص))

تربیت کی اہمیت

بچہ پیدائش کے بعداپنے خاندان سے جدا ہونے اور دوسروں کے ساتھ مشترک زندگی گزارنے تک تربیت کے دودور سے گزرتا ہے:

۱۔بچپنے کا دور،یہ دورایک سال کی عمرسے سات سال تک ہوتا ہے۔اس دور میں بچہ کے اندر براہ راست تر بیت حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ،کیونکہ وہ اس دور میں اپنی دنیا سے بے خبر ہوتا ہے۔

۲۔سات سے چودہ سال کی عمر تک کا دور۔اس دور میں عقل تدریجاً بڑ ھتی ہے اور فکری فعالیتوں کے لئے آمادہ ہوتی ہے۔اس دور میں انسان سیکھ سکتا ہے اور تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔

پہلے دور میں تربیت،براہ راست نہیں ہونی چاہئے اور ہر گز اس کو کسی چیز سے روکنے اور کسی چیز کے حکم دینے میں سختی نہیں کر نا چاہئے بلکہ بچہ اپنے ماحول سے تربیت پاتا اور ادب سیکھتا ہے اس طرح اس کے وجود میں اخلاق کی پہلی بنیاد پڑتی ہے اور وہ اپنے ماحول کے بارے میں اچھی یاد داشتیں اور مناسب طرز عمل کو اپنے ذہن میں محفوظ کرلیتا ہے۔

دوسرے دور میں بھی بچے کو آزادنہیں چھوڑنا چاہئے اور اس کی غلطیوں سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے، بلکہ اس کو اس کی بے ادبیوں سے روکنا چاہئے، اسے نظم وضبط سکھانا اورحد سے زیادہ کھیل کود وغیرہ میں وقت ضائع کرنے سے روکنا چاہئے،عبادت اور نیک کاموں کی طرف اسے رغبت دلانا چاہئے۔(۱)

افسوس کہ اکثر لوگ یہ نہیں جانتے ہیں کہ اپنے بچوں کی تربیت کب سے شروع کریں۔بعض والدین یہ تصور کرتے ہیں کہ بچو ں کی تربیت چھ سال تمام ہونے کے بعدکی جانی چاہئے اور بعض تربیت کا آغازتین سال کی عمر ہی سے کر دیتے ہیں ۔

لیکن یہ خیال غلط ہے،کیونکہ جب بچے کی عمرتین سال مکمل ہوتی ہے تو اس میں ۷۵فیصد صفات اچھے اور برے صفات پیدا ہو جاتے ہیں ۔

بعض ماہرین نفسیات کا یہ خیال ہے کہ بچے کی تربیت پیدائش سے ہی شروع کی جانی چاہئے،لیکن بعض دوسرے ماہرین کسی حد تک احتیاط کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بچے کی تر بیت پیدائش کے بعد دوسرے مہینے کی پہلی تاریخ سے ہی ہوناچاہئے ۔لیکن ''شکا گو''یونیور سٹی میں اس موضوع پردقیق تحقیق کرنے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:

''ایک صحیح وسالم بچے کی فکری سطح چار سال کی عمرمیں ۵۰فیصد،آٹھ سال کی عمر میں ۳۰ فیصد اور سترہ سال کی عمر میں ۲۰ فیصد مکمل ہوتی ہے۔لہذا ہر چار سالہ بچہ۵۰فیصد سوجھ بوجھ کی صلاحیت رکھتاہے،اسی طرح۲اور۳ سال کے درمیان

بچے میں رونماہونے والی تبدیلیاں ۸اور۹ سال کے درمیان رونما ہونے والی تبدیلیوں سے کئی گنا زیادہ اوراہم ہوتی ہیں ۔(۲) ''

بچے کی تربیت کہاں سے شروع کریں؟

تعلیم وتربیت کو مفیدبنانے کے لئے ضروری ہے کہ آج کل کے تصور کے برخلاف مذکورہ مدت سے پہلے ہی بچے کی تربیت اس کی پیدائش کے ابتدائی ہفتوں سے ہی شروع کرنا چاہئے ،پہلے صرف جسمانی مسائل اور پھر ایک سال کی عمر سے نفسیاتی مسائل کی طرف توجہ کی جانی چاہئے۔

یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ بچے کے لئے وقت کی اہمیت یکساں نہیں ہوتی،کیونکہ ایک سال کی عمر میں ایک دن کی مدت،تیس سال کی عمر میں ایک دن کی مدت سے کئی گنا طولانی ہوتی ہے۔شاید یہ مدت جسمانی اور نفسیاتی حوادث کے لحاظ سے چھ گنا زیادہ ہو۔لہذا بچپن کے اس گرانقدر دور سے پھر پورا فائدہ اٹھانے میں غفلت نہیں کرنی چاہئے۔اس بات کا قوی احتمال ہے کہ بچے کی ابتدائی چھ سال کی عمر کے دوران زندگی کے قواعد وضوابط کے نفاذ کانتیجہ یقینی ہے۔(۳)

اسی لئے حضرت علی فرماتے ہیں :

''من لم یتعلّم فی الصّغر لم یتقدّم فی الکبر'' ۔(۴)

''جوبچپن میں کچھ نہ سیکھے وہ بڑا ہو کرآگے نہیں بڑھ سکتا ۔''

لہذا بچپن کا دور زندگی کے صحیح طور طریقے سیکھنے کا بہترین وقت ہو تا ہے۔کیونکہ اس زمانے میں بچے میں تقلید اور حفظ کی توا نائی بہت قوی ہوتی ہے۔اس دور میں بچہ اپنے معاشرہ کے افراد کے حرکات وسکنات اور ان کے چال چلن کو پوری توجہ کے ساتھ دیکھتا ہے اور ان کا عکس،کیمرے کے مانند،اپنے ذہن میں کھینچ لیتاہے۔

اس لئے،بچے کے جسم کی نشو ونما اور تکامل کے ساتھ اس کی روح کی بھی صحیح راستے کی طرف ہدایت ہونی چاہئے تاکہ اس میں نیک اور شائستہ صفات پیدا ہو جائیں۔ کیونکہ جن بچوں کی بچپن میں صحیح طریقے سے تربیت نہیں ہوتی ہے،ان میں بڑے ہو نے کے بعد اخلاقی تبدیلی کا آنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

خوش قسمت اورکامیاب وہ لوگ ہیں ،جو ابتدائے زندگی سے ہی صحیح وسالم تربیت کے ساتھ نشو ونما پاتے ہیں اور نمایاں اورگرانقدر صفات ان کی زندگی کا جزولا ینفک بن جاتے ہیں ۔

بعض ماہرین نفسیات نے بچے کوایک ننھے پودے سے تشبیہ دی ہے،جس کی حالت کو ایک باغبان صحیح طریقہ کار کے تحت بدل سکتاہے۔لیکن جو لوگ ایک پرانے درخت کے مانند گندے اور نا پسندماحول میں پلے بڑھتے ہیں ،ان کی اصلاح کرنا بہت دشوار ہوتا ہے،اور جو شخص ایسے افراد کے کردارو طرز عمل کو بدلنا چاہے گا،اسے بہت سی مشکلات کا سامناکر ناپڑے گا۔(۵)

پیغمبر اکرم (ص) لو گوں کے لئے نمونہ عمل ہیں

خدا وند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:

( لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوة حسنة ) (احزاب۲۱)

''بیشک رسول خدا (ص) تمہارے لئے بہترین نمونہ ہیں ،لہذا تم لوگ ان کے وجودمبارک سے مستفید ہو سکتے ہو۔''

پیغمبر اسلام (ص) پوری تاریخ میں بشریت کے لئے سب سے بڑے نمونہ عمل تھے،کیونکہ آپ (ص) اپنے بیان کے ذریعہ لوگوں کے مربیّ وراہنما ہونے سے پہلے اپنی سیرت اور طرز عمل سے بہترین مربیّ اور رہبر تھے،

پیغمبر اسلام (ص) کی شخصیت صرف کسی خاص زمانہ،کسی خاص نسل ،کسی خاص قوم،کسی خاص مذہب اورکسی خاص علاقہ کے لئے نمو نہ نہیں تھی،بلکہ آپ (ص) عالمی اورابدی لحاظ سے تمام لوگوں اورتمام ادوار کے لئے نمونہ تھے۔

ہم یہاں پرمعتبر اسناد وشواہد کی روشنی میں بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اسلام (ص) کے حسن سلوک اور طرز عمل کو بیان کر رہے ہیں ۔

بچے کو اہمیت دینا

دور حاضر میں بچوں کوبہت اہمیت دی جارہی ہے۔خاندانوں اور معا شروں کے بچوں کی شخصیت کے احترام پرحکومت اور قوم کافی توجہ دے رہی ہے۔اس کے باوجود پیغمبر اسلام (ص) بچوں کی تربیت پرجتنی توجہ دیتے تھے،اتنی توجہ آج کی دنیا بھی نہیں دے پا رہی ہے ۔

اگرچہ،کبھی کبھی تہذیب و ترقی یافتہ ممالک کے زمامدار اور حکمران یتیم خانوں اور نرسریوں میں جاکرایک دو گھنٹے بچوں کے ساتھ گزار تے ہیں اور ان میں سے بعض تو بچوں کو گود میں لیکرتصویریں کھنچاتے ہیں اور ویڈیوفلم بناتے ہیں ،ان کے بارے میں مقا لات بھی لکھتے ہیں اور اس طرح بچوں کے تئیں اپنے احترام کولو گوں پر ظاہر کر تے ہیں ،لیکن آج تک کوچہ و بازار میں کسی شخص نے بھی پیغمبر اسلام (ص) کے مانندنہایت سادگی کے ساتھ بچوں کو گود میں لے کرپیار نہیں کیا ۔اس طرح پیغمبر اکرم (ص)اپنے اور غیروں کے تمام بچوں ،سے خاص محبت فرماتے تھے۔اس سلسلہ میں آنحضرت (ص) کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ:

''والتّلطف بالصبیان من عادةالرّسول'' (۶)

''بچوں سے پیار ومحبت کرنا پیغمبر اسلام (ص)کی عادت تھی ''

شیعوں کے ائمہ اطہار علیہم السلام دوسرے دینی پیشوائوں نے بھی اسی پر عمل کیا ہے اور وہ بھی بچوں کی اہمیت کے قائل تھے۔ذیل میں ہم چند نمونے پیش کر رہے ہیں :

۱۔بچے سے سوال کرنا

حضرت علی علیہ السلام ہمیشہ لوگوں کے سامنے اپنے بچوں سے علمی سوالات کر تے تھے اور بعض اوقات لوگوں کے سوالات کا جواب بھی انھیں سے دلوا تے تھے۔

ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزندامام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سے چند موضوعات کے بارے میں کچھ سوالات کئے چنانچہ ان میں سے ہر ایک

نے مختصر لفظوں میں حکیمانہ جواب دئے۔اس کے بعدحضرت علی علیہ السلام نے مجلس میں موجودحارث اعور نامی ایک شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا:

ایسی حکیمانہ باتیں اپنے بچوں کو سیکھاؤ ،کیونکہ اس سے ان کی عقل وفکر میں استحکام وبالیدگی پیدا ہوتی ہے ۔(۷)

اس طرح حضرت علی علیہ السلام نے ان کا بہترین انداز میں احترام کیا اور ان کے وجود میں ان کی شخصیت کو اجاگر کیا اور خود اعتمادی پیدا کی ۔

۲۔حسن معاشرت

بچے میں شخصیت پیدا کرنے کاایک بنیادی سبب اس کے ساتھ اچھا برتاؤبھی ہے۔رسول خدا (ص) نے مختصرلفظوں میں فرمایا اور اپنے پیروئوں کوآشکار طور پر اسے نافذ کرنے کاحکم دیا ہے:

''اپنے فرزندوں کا احترا م کرواور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ(۸) ''

لہذاجو لوگ اپنے بچوں کی با عزت وبا حیثیت شخص بنانا چاہتے ہیں ،انھیں چاہئے کہ اپنے بچوں کواچھی تعلیم وتر بیت کے ساتھ رہنمائی کریں۔ اور برے، ناپسند اور توہین آمیز سلوک سے پر ہیز کر یںکیو نکہ نا پسنداور برے طرز عمل سے اپنے بچوں کی ہر گز صحیح تربیت نہیں کی جا سکتی ۔

۳۔وعدہ پورا کرنا

وعدہ پورا کرنا ان عوامل سے ایک ہے کہ جن کے ذریعہ بچے میں اعتماد پیدا کیا جاسکتا ہے اور یہ ان کی شخصیت کے نشو ونما میں کافی موثرہے۔ائمہ اطہار علیہم السلام نے بچوں سے وعدہ وفائی کرنے کے سلسلہ میں بہت تاکید کی ہے اس سلسلہ میں ہم ائمہ معصومین کے چند اقول پیش کرتے ہیں :

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''جائزنہیں ہے کہ انسان سنجیدگی سے یا مذاق میں جھوٹ بولے۔

جائز نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنے بچے سے وعدہ کرلے اور اسے پورا نہ کرے(۹) ''

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے فرما یا:

''اگر تم میں سے کسی نے اپنے بچے سے کوئی وعدہ کیا ہے۔تو اسے پورا کرنا چاہئے اور اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہئے۔(۱۰) ''

شیعوں کی احادیث کی کتابوں میں ائمہ اطہار علیہم السلام سے والدین کے وعدہ وفائی کے بارے میں بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہیں ،لیکن ہم اختصار کے پیش نظر یہاں پر انھیں ذکر کر نے سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔

۴۔بچے کو مشکلات سے آگاہ کرنا۔

اپنے بچوں ، خاص کر بیٹوں کو شخصیت اور حیثیت والابنانے کا مالک سبب یہ بھی ہے

کہ انھیں مشکلات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ مستقبل میں مشکلات سے مقا بلہ کرسکیں،کیونکہ بچوں کو عملی طور پر یہ سمجھنا چاہئے کہ ہر چیز کو حاصل کرنے کے لئے کوشش و زحمت کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر کوئی بچہ مشکلات اور سختیوں سے آگاہ نہ ہو تووہ مستقبل میں زندگی کے گوناگوں مشکلات کے مقابلہ میں گھبرا جائے گا۔یہ حقیقت ہمارے ائمہ اطہار علیھم السلام کی روایات میں بھی بیان ہوئی ہے۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

''بہتر ہے کہ بچہ بچپنے میں زندگی میں پیش آنے والی سختیوں اور مشکلات سے دو چارہو،جوکہ حقیقت میں زندگی کا کفارہ ہے،تاکہ جوانی اور بوڑھاپے میں صبروبرد باری سے کام لے ۔(۱۱) ''

یہ یاد دہانی کرا دینا ضروری ہے کہ،بچوں کو مشکلات سے آشناکرنا بچے کی ناراضگی کا سبب نہیں بنناچاہئے۔یعنی بچے کے ذمہ کئے جانے والے کام اس کی توانائی اور طاقت سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں،اس لئے بچے کی طاقت و توانائی کومد نظر رکھنا ضروری ہے۔

رسول خدا (ص) نے اس سلسلہ میں درج ذیل چار نکات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے:

۱۔بچہ نے اپنی طاقت بھر جو کام انجام دیا ہے اسے قبول کرنا۔

۲۔جو کام بچے کی طاقت سے باہر ہو بلکہ اس کے لئے نا قا بل برداشت ہو اس کام کا اس سے مطالبہ نہ کرنا۔

۳۔بچے کوگناہ اور سر کشی پر مجبور نہ کرنا۔

۴۔اس سے جھوٹ نہ بولنااور اس کے سامنے فضول اور احمقانہ کام انجام نہ دینا۔(۱۲)

دوسری ر وایتوں میں یوں نقل ہوا ہے:

''جب رسول خدا (ص) سات سال کے تھے،ایک دن اپنی دایہ(حلیمہء سعدیہ)سے پو چھا:میرے بھائی کہاں ہیں ؟(چونکہ آپ (ص)حلیمہ سعدیہ کے گھر میں تھے،اس لئے ان کے بیٹوں کو بھائی کہتے تھے)انہوں نے جواب میں کہا:پیارے بیٹے!وہ بھیڑبکریاں چرانے گئے ہیں ،جو خداوند متعال نے ہمیں آپ (ص) کی بر کت سے عطا کی ہیں ۔آپ(ص)نے کہا:اما جان آپ نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا ! ماں نے پو چھا:کیوں ؟

جواب میں کہا:کیایہ مناسب ہے کہ میں خیمہ میں بیٹھ کر دودھ پیوں اور میرے بھائی بیا بان میں تپتی دھوپ میں ہوں ۔(۱۳) ''

۵۔بچے کے کام کی قدر کر نا

رسول خدا (ص) نے بچوں کی تربیت و پرورش اور انھیں اہمیت دینے کے بارے میں اپنے پیروئوں کو جوحکم د یا ہے، پہلے اس پر خود عمل کیا ہے۔پیغمبر اکرم (ص) کی ایک سیرت یہ بھی تھی کہ آپ (ص)بچوں کے کام کی قدر کرتے تھے۔

عمرو بن حریث نے یوں روایت کی ہے:

''ایک دن رسول خدا (ص) عبداللہ ابن جعفرا بن ابیطالب کے نزدیک سے گزرے۔جبکہ وہ بچے تھے ،آنحضرت (ص) نے ان کے حق میں یہ دعا کی:خدا وندا! اس کی تجارت میں برکت عنایت فرما۔(۱۴) ''

۶۔بچوں کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا

رسول اکرم (ص)کی یہ بھی سیرت تھی کہ کبھی آپ(ص) اپنے بچوں کی تعظیم کے لئے نماز کے سجدہ کو طول دیتے تھے یا لوگوں کے بچوں کی تعظیم کے لئے نماز کو جلدی تمام کرتے تھے اور ہر حال میں بچوں کا احترام کرتے تھے اور اس طرح عملی طور پرلوگوں کو بچوں کی تعظیم کرنے کا درس دیتے تھے۔

ایک دن پیغمبر اکرم (ص)بیٹھے تھے کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام داخل ہوئے۔آنحضرت (ص) ان کے احترام میں اپنی جگہ سے اٹھ کرانتظار میں کھڑے رہے۔چونکہ دونوں بچے اس وقت صحیح طریقے سے چل نہیں پاتے تھے،اس لئے آنے میں کچھ دیر ہوئی۔لہذا پیغمبر اسلام (ص) نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا ۔دونوں بچوں کو گود میں لے لیا اور دوش مبارک پر سوار کر کے چلے اور فر مایا کہ میرے پیارے بیٹو!تمہاری کتنی اچھی سواری ہے اور تم کتنے اچھے سوار ہو۔(۱۵) ؟!''

آنحضرت (ص)حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی تعظیم کے لئے بھی کھڑے ہوتے تھے۔(۱۶)

۷۔بچوں کے مستقبل کا خیال رکھنا

ایک دن حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام نے اپنے بچوں اور بھتیجوں کو اپنے پاس بلاکر فرمایا:تم آج معاشرہ کے بچے ہو لیکن مستقبل میں معاشرہ کی بڑی شخصیت ہوگے،لہذاعلم حاصل کرنے کی کوشش کرو،تم میں سے جو بھی علمی مطالب کو حفظ نہ کر سکے،وہ انھیں لکھ ڈالے اوراپنی تحریروں کو اپنے گھرمیں محفوظ رکھے تاکہ ضرورت کے وقت ان سے استفادہ کرے۔(۱۷)

اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام بچوں کے مستقبل کو ملحوظ رکھتے تھے اور بچوں کے والدین کواس حقیقت سے آگاہ فرماتے تھے۔اس لئے دین کے پیشوا بچوں کے مستقبل کے بارے میں خاص توجہ رکھتے تھے۔چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے:

''انصار میں سے ایک شخص چند بچوں کوچھوڑ کر دنیا سے اٹھا۔اس کے پاس تھوڑا سا سرمایہ تھاکہ جسے اس نے اپنی عمر کے آخری دنوں میں عبادت اور خدا کی خوشنودی کے لئے خرچ کر دیا۔جبکہ اسی زمانے میں اس کے بچے تنگ دستی کی وجہ سے دوسروں سے مدد طلب کرتے تھے۔یہ ماجرا پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں نقل کیا گیا۔آنحضرت(ص)نے سوال کیا:تم نے اس شخص کے جنازہ کو کیا کیا؟کہا گیاکہ اسے ہم نے دفن کردیا۔آنحضرت (ص) نے فرمایا:اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا تواسے مسلما نوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ دیتا!!کیونکہ اس نے اپنی دولت کوضائع کردیا اور اپنے بچوں کودوسروں کا محتاج بنا کرچھوڑ دیا ۔(۱۸)

۸۔دینی احکام کی تعلیم دینا

بارگاہ خدا میں بچے کی عبادت،دعااور حمدوثنا کی تمرین سے اس کا باطن روشن ہوتا ہے،اگر چہ ممکن ہے بچہ نماز کے الفاظ کے معنی نہ سمجھتاہو ،لیکن خدا وند متعال کی طرف توجہ،راز ونیاز،پروردگار عالم سے مدد کی درخواست،دعا اور بارگاہ الہٰی سے التجا کو وہ بچپنے سی ہی سمجھتا ہے اور اپنے دل کوخدا وند متعال اور اس کی لا محدودرحمت سے مطمٔن بنا تا ہے اور اپنے اندرایک پناہ گاہ کا احساس کرتا ہے اور مشکلات وحوادث کے وقت اپنے دل کو تسکین دیتا ہے،چنانچہ خدا وند متعال فرماتا ہے:

( الذین آمنوا وتطمٔن قلو بهم بذکرا ﷲلا بذکراﷲتطمٔن القلوب ) (رعد۲۸)

ٍٍ''یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دلوں کویاد خدا سے اطمینان حاصل

ہو تا ہے اور آگاہ ہو جائوکہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ہو تا ہے۔''

بچوں کوابتداء سے ہی مئومن اور خدا پرست بنانے کی تربیت کے لئے ضروری ہے کہ ان کے جسم وروح ایمان کے لحاظ سے یکساں ہوں ۔اسی لئے اسلام نے والدین پرذمہ داری ڈالی ہے کہ اپنے بچوں کوخدا کی طرف متوجہ کریں اور انھیں خدا پرستی اور دین کی تعلیم دیں اور دوسری طرف حکم دیا ہے کہ بچوں کو نماز اور عبادت کی مشق کرائیں۔

معاویہ ابن وہب نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیاکہ ہم بچہ کو کس عمر میں نماز پڑھنے کے لئے کہیں ؟ آپ نے فر مایا:چھ سے سات سال کی عمر میں انھیں نماز

پڑھنے کے لئے آمادہ کرنا چاہئے۔(۱۹)

رسول خدا (ص) نے ایک حدیث میں فرما یا:''اپنے بچوں کوسات سال کی عمر میں نمازپڑھنے کا حکم دو۔(۲۰) ''

امام محمدباقرعلیہ السلام نے ایک دوسری روایت میں بچوں کی عمر کے مختلف دور میں اعتقادی تر بیت کے سلسلہ میں والدین کی ذمہ داریوں کو اس طرح بیان فر ما یا ہے:

''تین سال کی عمر میں بچہ کو کلمہ لا الہ الا اللہ سکھا ئیں،چار سال کی عمر میں محمدرسول اللہ سکھائیں،پانچ سال کی عمر میں اسے قبلہ کی طرف رخ کرنا سکھا ئیں اور اسے حکم دیں کہ سجدہ میں جائے،چھ سال کی عمر میں اسے مکمل طور پر رکوع و سجود سکھا ئیں اور سات سال کی عمر میں منہ ہاتھ دھونا(وضو)اور نماز پڑھنا سکھا ئیں۔(۲۱) ''

والدین اور مربیّ کومعلوم ہوناچاہئے کہ مذہب ان کا سب سے بڑا معاون ومدد گار ہے،کیونکہ ایمان ایک روشن چراغ کے مانند ہے جو تاریک راہوں کو روشن کرتا ہے اور ضمیروں کو بیدار کرتا ہے اورجہاں کہیں انحراف ہوگا اسے آسانی کے ساتھ اس انحراف وکجروی سے بچاکر حقیقت وسعادت کی طرف رہنمائی کرے گا ۔

بچے میں صحیح تربیت کے آثار

بچوں کی صحیح تربیت ان میں استقلال اور خود اعتمادی کا سبب بنتی ہے اوران کا احترام

انھیں با حیثیت انسان بنا تا ہے،کیونکہ جو بچہ ابتداء سے اپنی قدر ومنزلت کو پہچانتا ہے وہ بڑا ہوکراپنے اندر احساس کمتری کاشکار نہیں ہو تا ۔چنانچہ اسلامی روایتوں میں آیا ہے کہ بچہ اوراس کا دل ایک صاف وخالی زمین کے مانند ہے کہ جوبھی بیج اس میں بویا جائے گا اسے قبول کر کے اس کی پرورش کرتی ہے۔(۲۲)

مثال کے طور پرحضرت علی علیہ السلام کی شخصیت رسول خدا (ص) کی آغوش میں تربیت پانے کے نتیجہ میں رشد و کمال تک پہنچی۔اگرچہ علی علیہ السلام جسم وروح کے اعتبار سے عام بچہ نہیں تھے،بلکہ ان کے وجود مبارک میں مخصوص قابلیتیں موجود تھیں، لیکن ان کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) کی خصو صی نگرا نیوں اور توجہ سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔

بچے کی صحیح تربیت کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ وہ شجاع اوربہادر بنتا ہے۔اس چیز کوحضرت امام حسین علیہ السلام کی تر بیت میں بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

ابن شہاب کہتا ہے:

''ایک مرتبہ جمعہ کے دن خلیفہ دوم منبرپر تھے۔حضرت امام حسین علیہ السلام بچہ تھے مسجد میں داخل ہوئے اور کہا:اے عمر!میرے باپ کے منبر سے نیچے اترو!عمر نے روتے ہو ئے کہا:سچ کہا،یہ منبر آپ کے جدامجد کا ہے، بھتیجے !ذرا ٹھہرو !! امام حسین علیہ السلام عمر کا دامن پکڑے ہوئے کہتے رہے کہ میرے جد کے منبر سے اتر و،عمر مجبور ہو کر اپنی گفتگو روک کر منبر سے اتر آئے اور نماز پڑھنے میں مشغول ہو گئے۔نماز کے بعد کسی کوبھیجا تاکہ امام حسین علیہ السلام کو بلاکر لا ئے۔جوں ہی امام حسین علیہ السلام تشریف لائے،عمر نے پوچھا:بھتیجے! میرے ساتھ اس طرح

گفتگو کرنے کاآپ سے کس نے کہا تھا؟

امام حسین علیہ السلام نے فر ما یا:مجھے کسی نے یہ حکم نہیں دیا ہے۔اورآپ نے یہی جملہ تین بار دہرایا،جبکہ امام حسین علیہ السلام اس وقت بالغ بھی نہیں ہوئے تھے۔(۲۳)

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی زندگی کے حالات کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی رحلت کے بعد،خلیفہ وقت ،مامون بغداد آیا۔ایک دن شکار کے لئے نکلا راستہ میں ایک ایسی جگہ پر پہنچا جہاں چند بچے کھیل رہے تھے۔امام رضا علیہ السلام کے فرزند امام محمد تقی علیہ السلام ، کہ جن کی عمراس وقت تقریباً گیارہ سال تھی ، ان بچوں کے درمیان کھڑے تھے۔جوں ہی مامون اور اس کے ساتھی وہاں پہنچے تو سب بچے بھاگ گئے۔ لیکن امام محمد تقی علیہ السلام وہیں کھڑے رہے۔جب خلیفہ نزدیک پہنچا حضرت پر ایکنظر ڈالی اورآپ کا نورانی چہرہ دیکھتا ہی رہ گیا۔ اورآپ سے سوال کیا کہ آپ دوسرے بچوں کے ساتھ کیوں نہیں بھاگے؟

امام محمدتقی علیہ السلام نے فوراًجواب دیا:اے خلیفہ! راستہ اتنا تنگ نہیں تھا کہ میں خلیفہ کے لئے راستہ چھوڑ کر بھاگتا ۔میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے کہ میں سزا کے ڈر سے بھاگتا۔میں خلیفہ کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوں اور تصور کرتا ہوں کہ وہ بے گناہوں کو کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا۔اسی لئے میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا اور نہیں بھاگا۱ ! مامون آپ کے منطقی اور محکم جواب اور آپ کے پر کشش چہرہ سے حیرت زدہ رہ گیا اور کہنے لگا آپ کانام کیا ہے؟امام نے جواب دیا:محمد۔پوچھا:کس کے بیٹے ہو؟ آپ نے فر مایا:علی بن موسی رضا علیہ السلام کا۔(۲۴)