بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک0%

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد علی چنارانی
زمرہ جات: مشاہدے: 12575
ڈاؤنلوڈ: 3850

تبصرے:

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 16 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12575 / ڈاؤنلوڈ: 3850
سائز سائز سائز
بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کا سلوک

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

چوتھی فصل

جوانوں کے خصوصیات

''اگر جوانی میں کوئی شخص زاہدو عابد بن جائے تو مستقبل میں اس کے معنوی درجات دسیوں گنا بڑ ھ جائیں گے۔''

( حضرت علی علیہ السلام)

حقیقت میں انسان اپنی پوری زندگی کے دوران دوسروں کی ہدایت وراہنمائی اورنصیحت کا محتاج ہو تاہے۔ حتی کہ عمر رسید ہ افراد کہ جن کی عقل کامل ہوچکی ہوتی ہے اور اپنی زندگی کے دوران تجربات بھی حاصل کرچکے ہوتے ہیں ، وہ بھی ہمیشہ گمراہی اور انحراف کے دہانے پر ہوتے ہیں اور دوسروں کی وعظ و نصیحت کے محتاج ہوتے ہیں ، جوانوں کی بات ہی نہیں ، جو ہر وقت عقل و فکر کی ناپختگی کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں ۔ اسی لئے جوان دوسروں کی راہنمائی اور ہدایت کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں ۔ اس دعوی کو ثابت کرنے کے لئے مندرجہ ذیل روایت پر غور کیجئے:

محمد ابن مسلم زہری اپنے زمانہ کا ایک عظیم شخص اور دانشوروعقلمند تھا۔ دولت اورمقام کی لالچ نے اسے فضیلت و پاکی کے راستہ سے منحرف کردیا تھااور بوڑھا پے میں وہ بدبخت اورذلیل و رسوا ہوا۔

اس زمانہ کے نفسیاتی طبیب یعنی حضرت امام سجاد نے ہدایت اور وعظ و نصیحت کی غرض سے اس کے نام ایک خط لکھا اور اس کے ذیل میں ایک چھوٹے سے جملہ میں عقل کی ناپختگی کی وجہ سے جوانوں کو درپیش خطرا ت سے آگاہ کیا :

ٍٍ''جب دنیا پرستی تم جیسے سن رسیدہ ،تعلیم یافتہ اور موت سے قریب لوگوں کو ایسی ذلت وپستی میں ڈال سکتی ہے توایک نوجوان نفسانی خوا ہشات سے کیسے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے ؟کہ جو ایک طرف سے تو ابھی جوانی کے دور سے گزر رہا ہے اور دوسری طرف علم ودانش سے بھی خالی ہے اور اس کے علاوہ اس کی فکر کمزور اور عقل ناپختہ ومنحرف ہے۔(۱۶۶) ''

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

'' جوان کی نادانی کا عذر قابل قبول ہے ،کیونکہ اس کا علم ودانش محدود اور نا پختہ ہو تا ہے۔(۱۶۷) ''

اس لئے نا پختگی اور نادانی جوا نوں کے خصو صیات میں سے ایک ہے کہ تربیت کے وقت اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے ۔یہی وجہ ہے کہ خدا وند متعال نے اپنے تمام بندوں کے لئے توبہ کا راستہ کھلا رکھا ہے اور سب سے زیادہ جوانوں کو توبہ کرنے کی تاکید فرمائی ہے کیونکہ ممکن ہے جوانی کی جہالت اور جنون ان کی بہت سی غلطیوں اور خطائوں کا سبب ہوں اور نجات کا تنہا راستہ توبہ ،خدا کی طرف راغب ہو نا اور دینی احکام کی پیروی کرنا ہے۔

جوان گوناگوں مسائل کے انتخاب میں مستقل مزاج نہیں ہوتے اور ان کی رائے ہمیشہ بدلتی رہتی ہے ۔ان کا رجحان ہمیشہ بدلتا رہتا ہے اور ہر لمحہ مختلف خطرات سے دوچار ہوتے رہتے ہیں ۔اس لئے دشمن بھی جوانوں کی اس کمزوری سے ہمیشہ فائدے اٹھاتے ہیں ۔

جوانوں کے دوسرے خصوصیات ،ان کی طاقت،توانائی،نشاط،تحرک اور سر گرمی ہے کہ اگر ان سے صحیح استفادہ نہ کیا جائے تو وہ ایسی بہت سی غلطیوں کے شکار ہو سکتے ہیں کہ جن کی تلافی ناممکن ہے ۔اس لئے جوانوں کی اس طاقت اور توانائی کو علم،تجربہ اور فکر سے ہم آہنگ کیا جانا چاہئے تاکہ مطلوب اور قابل قدر نتیجہ حاصل ہو سکے۔

علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''میں عمر رسیدہ لوگوں کی واضح اور روشن فکر کو جوانوں کی طاقت اور توانائی سے زیادہ پسند کرتا ہوں ۔(۱۶۸) ''

مومن جوانوں کی نشانیاں

تاریخ اورائمہ دین کی احادیث کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مومن جوانوں کی کچھ خصوصیات اور نشانیاں ہیں ۔ہم یہاں پر ان میں سے بعض کی طرف اختصار کے ساتھ اشارہ کرتے ہیں :

۱۔دینی احکام سے آگاہی

بنیادی اور اہم ترین علم،جو ایک جوان کو حاصل کرنا چاہئے،دین کی آگاہی ہے ،

کیونکہ دین سے نا آگاہ جوان اپنی جوانی کو برباد کرتے ہیں ۔ دین کے احکام کا فہم و ادراک جوانوں کی سعادت و خوشبختی کی ضمانت ہے۔

امام محمد باقر فرماتے ہیں :

''اگر میں شیعوں کے کسی جوان کو پاؤں کہ جو دینی احکام نہیں سیکھتا ہے اور دین کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا ہے ، تو میں اسے سزا دوں گا''(۱۶۹)

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :

''اگر میں کسی ایسے شیعہ جوان کو پاؤں کہ جو دین سیکھنے کی کوشش نہیں کرتاہے تو میں اسے بیس کو ڑے ماروں گا''(۱۷۰)

۲۔ قرآن مجید سے آشنائی

چونکہ قرآن مجید خداوند متعال کا کلام ، رسول خدا(ص) کا لافانی معجزہ اور ایک گرانقدر کتاب ہے کہ جس میں انسان کی ہدایت کا پیغام اور الہی معارف موجود ہیں ، اس لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ قرآن مجید اور اس کے علوم سے آشنائی حاصل کرے اور اس مقدس کتاب کے ساتھ انس و محبت رکھے ۔ چنانچہ اس مضمون کی ایک روایت بیان ہوئی ہے:

جب بچہ جوانی کے دور میں قرآن مجید سے آشنا ہوتا ہے اور اسے بار بارپڑھتا ہے ، تواسے قرآن مجید سے زیادہ معنویت حاصل ہوتی ہے، گویا اس کے گوشت و خون کے ساتھ قرآن مجید مل جاتاہے اور اس کے وجود کے تمام اعضاء پر اثر اندازہوتا ہے۔(۱۷۱)

۳۔ ائمہ اطہار علیہم السلام کے ارشادات سے آشنایی

جوانوں کو شیعوں کے ائمہ اطہار اور دینی پیشوا ؤں کے ارشادات سے آشنا ہونا چایئے، تا کہ اپنے پاک دلوں کو ان گرانقدر اور قیمتی گوہر سے منور کریں ۔ ایک حدیث میں یوں بیان ہوا ہے:

''جوانوں کو اپنے دل دینی پیشواؤں کی احادیث سے نورانی کرنا چاہئے اپنی زبان اور بیان کو ان سے لطافت بخشنا اور اپنے کانوں کو ان کے احادیث سننے سے شائستہ بنانا چاہئے''(۱۷۲)

۴۔ علم سیکھنا

حضرت علی علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں :

''تجرباتی علوم جو انسان کی مادی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں او رمعاشرے کے لیئے بھی مفید ہو تے ہیں اور دوسرے ادبی وانسانی علوم، جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی صورت میں معاشرے کے لوگوں کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں ، جوانوں کو ان سب کو سیکھنا چاہئے''(۱۷۳)

۵۔ عبادات کا بجا لانا

شائستہ جوانوں کے خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ خداوند متعال کی عبادت اور پرستش کا خیال رکھیںاور اس کے ذریعہ اپنی روح کے زنگ کو دور کریں اور خدا کی عبادت و پرستش کے سایہ میں پروان چڑھیں ۔ چنانچہ نقل کیا گیا ہے:

''اگر جوانی کے دور میں کوئی شخص زاہد و عابد بن جائے تو مستقبل میں اس کے معنوی درجات دسیوں گناہ بڑھ جائیں گے ''(۱۷۴)

۶۔ توبہ کرنا

مو من جوانوں کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اسے اپنی غلطیوں اور خطائوں سے توبہ کرنا چاہئے ، کیونکہ جوانوں میں تغیر و تبدل ہو تا رہتا ہے ، کبھی معنوی ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں او رکبھی جاہلانہ کام انجام دیتے ہیں ۔ اس لحاظ سے اگر ہم جوانی کو زندگی کا ناپایدار دور کہیں تو کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ،با عقیدہ جوان ہمیشہ توبہ کر تا رہتا ہے ۔ یہ طریقہ اسے تباہی اور بدبختی سے نجادت دیتا ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں :

''خداوندمتعال کے نزدیک محبوب ترین شخص وہ جوان ہے جو اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور بارگاہ الہی میں مغفرت کی دعا کرتا ہے''(۱۷۵)

۷۔ کوشش و جانفشانی

جوانی کا دور، جو اٹھارہ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے، یہی انسان کے کام کرنے اور سعی وکو شش کا دور ہوتا ہے او ر کاموں کی انجام دہی میں اپنے نشاط و تحرک سے استفادہ کرتا ہے اور اگر سستی و کاہلی سے کام لیتا ہے تو اس کے وجود میں بیہودگی جڑپکڑ لیتی ہے ۔ ایک روایت میں اس طرح نقل ہوا ہے:

''اگر اس (جوان ) نے اپنی جوانی کے دوران ( جب کہ وہ بے انتہا جسمانی اور معنوی توانائیوں کا مالک ہوتا ہے)اپنی نفسانی خواہشات سے مقابلہ نہیں کیا ہے تووہ بڑھا پے میں اپنی ذہنیت کو کیسے سنوار سکتا ہے؟ اسے اپنی توانائیوں کو بیہودہ صرف کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ کیونکہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو بڑھا پے میں اس کے لئے مشکل ہے کہ اپنی اصلاح کے لئے کوئی کام انجام دے سکے ''(۱۷۶)

۸۔ اپنے آپ کو سنوارنا

اسلام میں زینت اورآراستگی کو خاص اہمیت دی گئی ہے او ردینی پیشواؤں نے اس سلسلہ میں بھی کچھ باتیں بیان کی ہیں جو انسان کی زندگی میں اس چیز کی اہمیت کی دلیل ہے۔ یہ خصوصیت ، دوسروں کی نسبت ، جوانوں میں زیادہ پایی جاتی ہے اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے بھی اس قسم کے رجحانات کو ممنوع قرارنہیں دیا ہے، بلکہ عملی طور پر ان کی تائید کی ہے ۔

حضرت اما م جعفر صادق اپنے بالوں پر تیل لگاتے ہوئے فرماتے تھے:

''خداوندا ! میں تجھ سے زیبایی و زینت کی درخواست کرتا ہوں ''(۱۷۷)

اما م جعفر صادق سے یہ بھی نقل ہو ا ہے:

''ایک شخص رسول خدا (ص) کے گھر آیا اور آپ (ص) سے ملاقات کی درخواست کی۔ جب آپ(ص) اپنے گھر سے باہر نکل کر اس شخص سے ملنا چاہتے تھے،تو ایک آئینہ یا پانی کے برتن کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے سر اور چہرہ کو آراستہ فرمایا۔

عائشہ نے یہ کام دیکھ کر تعجب کیا اور آنحضرت (ص) کے واپس تشریف لانے پر آپ (ص) سے پوچھا: یا رسول اللہ (ص)! آپ (ص) باہر نکلتے وقت کیوں پانی کے برتن کے سامنے کھڑے ہوگئے اور اپنے بال اور چہرے کو آراستہ کیا؟ آپ(ص) نے جواب میں فرمایا: اے عائشہ ! خداوندمتعال دوست رکھتا ہے ، جب ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے ملنے کے لئے جائے تو و ہ اپنے آپ کو سنوار کے اس کے پاس جائے ''(۱۷۸)

اگر چہ اسلام نے ظاہری زیبایی اور لباس کو اہمیت دی ہے ، لیکن معنوی قدروں اور روحانی زیبائیوں کو اسے نقصان نہیں پہنچنا چاہئے، کیونکہ معنوی زیبایی درحقیقت وہی حقیقی زیبایی ہے او رظاہری زیبایی اسی صورت میں اچھی ہوتی ہے جب باطنی خوبصورتی اور نیک اخلاق کے ساتھ ہو۔

جوانی کے آفات

اگر چہ جوانی خداوند متعال کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے، لیکن اسے بعض آفات کا خطرہ لاحق ہو تا ہے، ان میں سے چند آفتوں کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں :

۱۔ جوانی کی طاقت سے غفلت

جوانی کی طاقت کو در پیش آفات میں سے ایک اس طاقت سے صحیح طور پر استفادہ نہ کرنا اوراس کا بیجا استعمال بھی ہے۔ چنانچہ اسلامی روایات میں اس امر کی طرف اشارہ ہوا ہے:

''جس جوان نے اپنی فرصت کے او قات سے مناسب استفادہ نہ کیا ہو، وہ بوڑھاپے میں خداوند متعال کے احکام اوردستورات کی اطاعت کرنے کی توانائی سے محروم رہے گا''(۱۷۹)

۲۔ جوانی کی ناپائیداری

جوانی کی آفتوں میں سے ایک آج کا کام کل پر چھوڑنا اور فرصت اور موقع کو کھودینا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

''عقلمند اور با شعور جوان اپنی اسی ناپائیدار جوانی سے جلد اور بہتر استفادہ کرتا ہے اور اپنے نیک اعمال و برتاؤ کو بڑھا وادیتا ہے۱ور علم حاصل کرنے کی سعی و کوشش کرتا ہے ''(۱۸۰)

خطاکار جوانوں سے برتاؤ کا طریقہ

جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ، پیغمبر اسلام (ص) جوانوں کے تئیں خاص احترام کے قائل تھے

۱ورہمیشہ ان سے محبت کرتے تھے اور ان کی عزّت کرتے تھے۔لیکن گہری تحقیق کے بعد پیغمبر اسلام (ص)کی سیرت میں ایک اور موضوع ملتا ہے،جو قابل غور واہمیت کا حامل ہے اور وہ موضوع گناہگار اور خطا کار جوانوں سے آپ(ص) کے برتائو کا طریقہ ہے ۔ہم اس کے چند نمونے ذیل میں بیان کرتے ہیں :

امامحمد باقر علیہ السلام نے فر مایا:

''فضل ابن عباس ایک خوبصورت جوان تھے۔عید قربان کے دن پیغمبر اکرم (ص)کے ساتھ( آپ (ص)کے مرکب پر)سوار تھے۔اسی اثناء میں قبیلہء خثعم کی ایک خوبصورت عورت اپنے بھائی کے ہمراہ پیغمبر اسلام (ص)سے احکام شرعی سے متعلق چند مسائل پوچھنے کے لئے آپ(ص)کے پاس آئی۔اس عورت کا بھائی شرعی مسائل پوچھ رہاتھا اورفضل ابن عباس اس عورت کو دیکھ رہا تھا!

رسول خدا (ص)نے فضل کی ٹھوڑی پکڑ کر اس کے رخ کواس عورت سے موڑ دیاتاکہ اس پر نگاہ نہ کر سکے۔لیکن اس جوان نے دوسری طرف سے دیکھنا شروع کیا،یہاں تک کہ پیغمبر (ص)نے اس طرف سے بھی اسے موڑ دیا۔

جب رسول خدا (ص)اس عرب کے سوالات کا جواب دے چکے ،توفضل ا بن عباس کے شانوں کو پکڑ کر فر مایا:''کیا تم نہیں جانتے ہوکہ وقت گزرنے والا ہے ،اگر کوئی اپنی آنکھ اور زبان پر کنٹرول کرے،تو خداوند متعال اس کے اعمال نامہ میں ایک قبول شدہ حج کا ثواب لکھتا ہے(۱۸۱) !!

ایک دوسری روایت میں نقل ہوا ہے:

''پیغمبر اسلام (ص)کے چچا،عباس نے(آنحضرت(ص) سے مخاطب ہو کر)کہا:کیا آپ(ص) نے اپنے چچا زادبھائی کا رخ موڑ دیا؟رسول خدا (ص)نے فرمایا:میں نے ایک جوان عورت اور ایک جوان مرد کو دیکھا کہ گناہ سے محفوظ نہیں تھے(اسی لئے یہ کام انجام دیا)۔(۱۸۲) ''

منقول ہے:

''ایک دن ایک جوان رسول خدا (ص)کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی :اے رسول خدا (ص)!مجھے زنا کرنے کی اجازت دیجئے۔لوگ یہ سن کرمشتعل ہوئے اور بلند آواز میں اعتراض کیا ،لیکن رسول خدا (ص)نے نرمی سے فر مایا:

نزدیک آئو۔وہ جوان رسول خدا (ص)کے نزدیک گیا اور آپ(ص)کے روبرو بیٹھا۔پیغمبراسلام (ص)نے محبت سے اس سے پوچھا:کیا تم یہ پسند کروگے کہ کوئی تیری ماںسے ایساہی فعل انجام دے؟جوان نے کہا:آپ(ص)پر قربان ہو جائوں نہیں !آنحضرت (ص)نے فرمایا:لوگ بھی اسی طرح تیرے اس فعل پر راضی نہیں ہوں گے!

اس کے بعد آنحضرت(ص) نے یہی سوال اس جوان کی بہن اور بیٹی کے بارے میں کیا اور جوان نے اسی طرح جواب دیا۔

اس کے بعدرسول خدا (ص)نے اس جوان سے فر مایا :کیا تم پسند کروگے کہ لوگ تیری بہن سے یہی فعل انجام دیں؟اس نے جواب دیا :نہیں ۔رسول خدا (ص)نے فر مایا:لوگ بھی ایسا ہی سو چتے ہیں ۔اس کے بعد پیغمبر (ص)نے پو چھا:کیا تم پسند کروگے کہ کوئی تیری بیٹی کے ساتھ یہی فعل انجام دے؟

اس نے کہا:نہیں ۔پیغمبر (ص)نے فرمایا:اگر کوئی ان کی بیٹی سے ایسا فعل انجام دے تو لوگ بھی تیری طرح ناراض ہو ںگے۔''

اس جوان اور رسول خدا (ص)کے در میان گفتگو کے بعد آنحضرت (ص) نے اس جوان کے سینہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر فر مایا :

''پر ور دگارا!اس کے دل کوگناہ سے پاک کر دے اور اس کے گناہوں کو بخش دے اور اسے زنا سے محفوظ رکھ۔پیغمبراکرم (ص)کے اس بر تائو کے نتیجہ میں اس کے بعد اس جوان کی نظر میں سب سے برا کام زنا تھا۔(۱۸۳) ''

پیغمبر اسلام (ص)کا گناہگار جوان سے بر تائو ،مسلما نوں کے لئے بذات خود ایک بہترین مثال ہے ۔لیکن پیغمبر اکرم (ص)کی اس سیرت میں ایک نکتہ قابل غور ہے کہ صحیح طریقے پر گناہ کو روکنا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سے ہے۔

جوانوں کو امام خمینی کی حکیما نہ نصیحتیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی نے مختلف مو قعوں پر جوانوں کے بارے میں کچھ وعظ و نصیحتیں کی ہیں ،ہم ذیل میں ان میں سے چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

''ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے جوان انسانی تر بیت،یعنی اسلامی تر بیت حاصل کریں ۔ان جوا نوں کو مستقبل میں اس مملکت کی حفاظت کرنا چاہئے اور اس مملکت کے امور کو انجام دیناچا ہئے۔ان کی صحیح تر بیت اور اصلاح کی جانی چاہئے۔

اسلام نے جس قدرہمارے ان بچوں اور جوانوں کی تربیت کے سلسلے میں کوشش کی ہے ،کسی اور چیز کی نہیں کی ہے۔''

''میں جوان لڑکیوں اور لڑ کوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ استقلال،آزادی اورانسانی اقدار کو عیش وعشرت،بے راہ روی ،مغربی ممالک اور وطن دشمن عناصر کی طرف سے قائم کئے گئے فحاشی کے اڈوں میں جانے پر کسی قیمت پر تیار نہ ہوں ۔جو ہمیں لوٹنا چاہتے تھے،انہوں نے پوری تاریخ میں اور گزشتہ پچاس سال سے زائد عرصہ میں کوشش کی ہے کہ ہمارے جوانوں کے اختیارات سلب کر لیں ۔''

''تم مسلما ن جوانوں کی ذمہ داری ہے کہ سیاسی ،اقتصادی،اجتماعی جیسے شعبوں میں حقا ئق اسلام کی تحقیق کو مد نظر رکھتے ہوئے ،اس امتیاز کو فراموش نہ کرو ،جس کی وجہ سے اسلام دوسرے تمام مکاتب فکرپر بالا دستی رکھتا ہے ۔ہمارے جوانوں کو جاننا چاہئے کہ،جس شخص میں معنویت اور توحید پر عقیدہ نہ ہو ،اس کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ امت کی فکر کرے۔''

''اے میرے عزیز جوانو!یاس وناامیدی کو چھوڑدو،حق کامیاب ہے۔اس مملکت کی،تم جوانوں کی صلاحیتوں کے ذریعہ اصلاح ہونی چاہئے ۔یہ کس قدر فخر ومباہات کا مقام ہے کہ ہمارے ملک میں دلاور جوان اسلام کی خدمت کرتے ہیں !تم جوان،جو میری امید ہو ،اتحاد ویکجہتی قائم رکھو ۔''

''جوان نسل کی ذمہ داری ہے کہ مغرب پرستوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کریںاور انسان دشمن حکومتوں کے المیوں اور ظلم وجبر کوطشت ازبام کرکے رکھدیں''

''ہمارے بعض جوانوں نے اپنی پوری قومی حیثیت کومغرب پر قر بان کر دیا ہے اور یہ ایک معنوی شکست تھی جو ہمارے لئے تمام ناکامیوں سے بدتر تھی۔ہمارے جوان یہ تصور نہ کریں کہ جو کچھ ہے وہ صرف مغرب میں ہے اور خود ان کے پاس کچھ نہیں ہے !''

''اس وقت جب تم جوان ہو اور جوانی کی طاقتیں محفوظ ہیں نفسانی خواہشات کو سنجیدگی کے ساتھ کچلنے کی سعی وکوشش کرو۔توبہ کی بہار جوانی کے ایام ہے،اس دوران گناہوں کابوجھ ہلکا ،دل کی کدورت اور باطنی ظلمت کم اور توبہ کے شرائط سہل وآسان ہوتے ہیں ۔(۱۸۴) ''

انشاء اللہ وہ دن دور نہیں ہے جب مملکت اسلامی کے جوان،عظیم رہبر فقید اسلام حضرت امام خمینی کی ان پدرانہ نصیحتوں پر عمل کرکے اسلامی انقلاب کے عظیم بانی کی راہ پر گامزن ہو ں گے اور اسلام اور ایران کے دشمنوں کونا امید کردیں گے۔

حواشی

____________________

۱۔''باتربیت مکتبی آشنا شویم''،ص۷۷۔۷۸

۲۔''روانشناسی کودک''،ص۷۷

۳۔''راہ و رسم زندگی''،ص۱۱۸

۴۔غرر الحکم،ص۶۱۰۷

۵۔''کودک ازنظر وراثت وتر بیت''،ص ۲۲۳و۲۲۴

۶۔المحجةالبیضا ج۳،ص۳۶۶

۷۔بحارالانور ج۳۵،ص۳۵۰،البدایة ج۸ص۳۷

۸۔بحارالانوار ج۱۰۴ص ۱۰۵،ح۴۴

۱۰۔بحار الانور،ج۷۲،ص۲۱۰۵،امالی صدوق ص۲۵۲

۱۰۔مستدرک الوسائل،ج۲،ص۶۲۶،وسائل الشیعہ ج۵،ص۱۲۶طبع قدیم

۱۱۔وسائل الشیعہ ج۵،ص۱۲۶

۱۲۔اصول کافی،ج۶،ص ۵۰

۱۱۳۔بحار الانوار،ج۱۵،ص۳۷۶

۱۴۔مجمع الزوائد،ج۱۰،ص۲۸۶

۱۵۔بحارالانورج۴۳،ص۲۸۵ح۵۱،مناقب ابن شہرآشوب ج۳،ص۳۸۸

۱۶۔السیرةالحلبیہ ج۳ص۴۸

۱۷۔بحارالانوارج۴۳،ص۲۵،ح۲۲

۱۸۔قرب الا سناد،ص۳۱

۱۱۰۔وسائل الشیعہ ج۲،ص۳

۲۰۔مستدرک الوسائل ج۱،ص۱۷۱

۲۱۔مکارم الاخلاق،طبرسی،ص۱۱۵

۲۲۔نہج البلاغہ،فیض،خط نمبر۳۱،ص۱۰۰۳

۲۳۔تاریخ المدینة المنورہ ج۳،ص۷۱۰۱۰

۲۴۔بحار الا نور ج۵۰،ص۱۰۱،کشف الغمہ ج۴ ،ص۱۸۷

۲۵۔عیون اخبار الرضاج۱،ص ۲۱۰۵،بحار الانوار ج۱۰۶،ص۳۵۶،وسائل الشیعہ ج۵،ص۱۲۶

۲۶۔مجموعہ ورام ج۱،ص۳۴،المحجةالبیضاء ج۳،ص۳۶۵

۲۷۔وسائل الشیعہ ج۵،ص۱۲۶،من لایحضرہ الفقیہ ج۳،ص۳۱۱،فروع کافی ج۶،ص۴۱۰،بحارج۱۰۴ص ۱۰۳

۲۸۔بحار الانور ج۴۲،ص۲۰۳،امالی مفید،ص۱۲۱۰

۲۱۰۔نہج البلاغہ فیض،ص۵۳۱

۳۰۔مکارم الاخلاق طبرسی،ص۱۱۵

۳۱۔نہج البلاغہ ،ملا فتح اللہ،ص۴۰۶

۳۲۔مستدرک الوسائل ج۲،ص۶۲۶،مکارم الاخلاق،ص۱۱۳ ۳۳۔بحارالانوارج۲۰ص۵۲و۶۷،تفسیر قمی ج۱ص۱۱۵

۳۴۔شرف النبی،خرگوشی ج۱،ص۱۱۵

۳۵۔سیرہ دحلان،حاشیہ سیرہ حلبیہ ج۳،ص ۵۲۵،السیراةالنبویہ،ابن کثیرج۴ص۶۱۲

۳۶۔بحارالانورج۴،ص۱۰۱۰،عدةالداعی ص۶۱

۳۷۔المجحةالبیضاج۳،ص۳۶۶

۳۸۔بحارالانوارج۴۴ص۲۴۲ح۳۶

۳۱۰۔بحار الانوار،ج۱۰۴،ص۱۰۷و۱۰۵

۴۰۔احقاق الحق ج۱۰،ص۵۱۰۵اہل سنت کے منابع سے نقل کرکے

۴۱۔احقاق الحق،ج ۱۰،ص ۶۵۵مختلف منابع سے نقل کرکے

۴۲۔احقاق الحق ج۱۰،ص۶۰۱۰ ،۶۲۱،۶۱۱۰و ۶۲۳ بے شمارمنابع سے نقل کرکے

۴۳۔ملحقات احقاق الحق ج۱۱،ص۳۱۶

۴۴۔ملحقات احقاق الحق ج۱۱،ص۳۱۱ تا۳۱۴

۴۵۔مجمع الزوائد،ج۱۰ ،ص۲۶۶

۴۶۔بحارالانور،ج۸۰ ،ص۱۰۴،اللہوف ابن طاوس ،ص۱۲،ھدیة الاحباب ،ص۱۷۶

۴۷۔معانی الاخبار،ص۲۱۱،مکارم الاخلاق ص۱۵ ،بحار الانور ج۶،ص۲۴۰

۴۸۔سنن ابن ماجہ،ج ۲ ،ص۱۳۰۳

۴۱۰۔مجمع الزوائد،ج۱۰،ص۲۵۴

۵۰۔بحارالانوار،ج۴۳،ص۳۱۲

۵۱۔مجمع الزوائد ج ۸،ص۱۶۱

۵۲۔سیرئہ ابن ہشام ج۲،ص۳۸۱

۵۳۔مسند احمد حنبل ج۱،ص۳۳۴ ،صحیح مسلم ج۱۵ ،ص۱۱۰۶ ،السیرةالحلبیة ج۳،ص۶۱۰

۵۴۔سیرئہ ابن ہشام ،ج۲ ص ۲۵۲۔(ترجمہ)

۵۵۔المحجة البیضاج۳،ص۳۶۶

۵۶۔مستدرک حاکم ج۳،ص۱۶۵،مستدرک احمدحنبل ج۳،ص۶۱۰۳

۵۷۔مقتل الحسین خوارزمی،ص۱۳۰،الارشادمفیدج۲،ص۲۵،ملحقاق احقاق الحق ج۱۰،ص۶۱۵وج۱۱ص۵۰

۵۸۔بحار الانورج۴۳،ص۲۱۰۴تا۲۱۰۶

۵۱۰۔کافی ج۶،ص۴۱۰،مکارم الاخلاق،ص۱۱۳،بحارالانوارج۳۳،ص۱۱۳

۶۰۔صحیح بخاری ج۸ ص۱۰

۶۱۔بحار الانوارج۱۰۴ ص۱۰۱۰،وسائل الشیعہ ج۱۵،ص۲۰۲ ،کافی ج۶ ص۵۰

۶۲۔بحارالانوار ج۱۰۴ ،ص۱۰۳

۶۳۔ وسائل الشیعہ ج۱۵ ،ص۱۲۶

۶۴۔وسائل الشیعہ ج۱۵،ص ۱۲۶

۶۵۔بحار الانوار ج۴۳ ،ص۱۶۱ وج۲۲ ،ص۱۵۳ ،مناقب ابن شہر آشوب ج۳ص۲۳۴

۶۶۔مجمع الزوائدج۱۰،ص۱۷۱

۶۷۔مجمع الزوائدج ۸ ،ص۱۵۸ ،مکارم الاخلاق،ص۱۱۳

۶۸۔بحار الانوار،ج۱۰۴ ،ص۱۰۲ ،ح۱۶

۶۱۰۔بحار الانوار ،ج۸،ص۱۴۲

۷۰۔بحارالانوارج۴۳ ،ص ۴۲ تا۵۵

۷۱۔ذخائر العقبی ،ص۳۶ ،ینابیع المودة،ص۲۶۰

۷۲۔مکارم الاخلاق،ص۱۱۵

۷۳۔مستدرک حاکم ج۳،ص۱۷۰،الادب المفرد،بخاری ص۳۴

۷۴۔بحارالانوارج ۳۶،ص۲۴۱،کمال الدین وتمام النعمةص۱۵۲ ،الخصال ج۲،ص۷۶ ،کفایةالاثرص ۷

۷۵۔الصواعق المحرقہ ص۱۱۰۶ ،احقاق الحق ج۱۰ ،ص۷۴۶

۷۶۔ربیع الابرار ،ص۵۱۳

۷۷۔''ماوفرزندان،''ص۴۵

۷۸۔ماو فرزندان،ص۲۲

۷۱۰۔وسائل الشیعہ ج۱۵،ص۲۰۳،من لایحضرہ الفقیہ ج۳،ص۳۱۲،کنز العمال،خ۴۵۴۱۳

۸۰۔مستدرک الوسائل ج۲ص۶۲۶

۸۱۔کافی ج ۶،ص۴۷

۸۲۔کافی ج ۶ ،ص۴۷

۸۳۔وسائل الشیعہ ج۵ ،ص۱۲۶

۸۴۔سنن النبی،ص۲ ۱۵،رحمت عالمیان،ص۶۵۸،بحارالانوار،ج۴۳ ،ص۲۸۵

۸۵۔بحار الانوار ج۴۳ ،ص۳۰۶

۸۶۔بحار الانوار،ج ۴۴ ،ص۲۶۰۔کامل الزیارہ،ص۶۸۔حیاة الحیوان ج ۱،ص۱۱۱

۸۷۔شرف النبی خرگوشی ،ص۱۰۲۔نہایة المسئوول فی روایة الرسول،ج۱ ،ص۳۴۰

۸۸۔صحیح بخاری ،ج۸ ،ص۳۷ و۵۵۔دلائل النبوة بیہقی ،ص۱۵۴ تر جمہ دامغانی،نقل ازصحیح مسلم۔

۸۱۰۔السیرةالحلبیة ج۳،ص۳۴۰ ۔اسدالغابہ ج۵،ص۲۱۰۔مجمع الزوائد الرسول ج۱۰ ص۲۸۵

۱۰۰۔مجمع الزوائد ج۱۰ ،ص۲۸۵۔مسند احمد ج۱،ص۳۳۷

۱۰۱۔احقاق الحق ج۱۰ ،ص۷۱۴ ۔بحار الانوار ج۴۳ ،ص۲۸۵ ۔سنن نسائی ج۲،ص۲۲۱۰۔مستدرک حاکم ج۳،ص۱۶۶۔مجمع الزوائد ،ج۱۰ ،ص۱۸۲

۱۰۲۔بحار الانوارج۴۳ ،ص۲۸۶

۱۰۳۔مسند احمد حنبل ج۱،ص۳۳۵،صحیح مسلم ج۱۵ ،ص۱۱۰۷

۱۰۴۔المجحة البیضا ج۳،ص۳۶۶

۱۰۵۔بحارالانوار،ج۷۷،ص۱۳۵۔امالی صدوق ج۲ ،ص۲۸۷

۱۰۶۔مجمع الزوائدج۱۰ ،ص۲۷۵،مسند احمدج ۱،ص۳۳۷

۱۰۷۔مناقب ابن شہرآشوب ج۳،ص۳۸۷۔بحار الانورج ۴۳،ص۲۸۵

۱۰۸۔مجمع الزوائد ج۱۰،ص۱۶۱۰

۱۰۱۰۔بحارالانوار ج۳۶ ،ص۳۰۴،ح۱۴۳۔کفا یة الاثرص۷

۱۰۰۔مکارم الاخلاق،ص۱۴و۳۱۔بحارالانوار ج۶،ص۲۲۱۰

۱۰۱۔سنن ابن ماجہ ج۲،ص۲۲۲۰

۱۰۲۔مستدرک الوسائل ج۲،ص۱۰۶۔امالی صدوق،ص۴۴۔اعیون اخبار الرضا علیہ السلام ص۳۳۵۔الخصال ج ۱،ص۱۳۰۔علل الشرائع ص۵۴۔بحار الانوار ج۱۶ ،ص۶۶۳

۱۰۳۔مستدرک الوسائل ج۲،ص۶۱۰

۱۰۴۔رحمت عالمیان،ص۲۱۵،ح۲

۱۰۵۔عفایةالمسئوول فی روایة الرسول ج۱ ،ص۳۴۱ ۔مکارم اخلاق ج۱ص۲۳۔

۱۰۶۔وسائل الشیعہ ج۳،ص۲۰۱۰

۱۰۷۔بحار الانوار ج ۱۰۴ ص ۱۰۱۰ ،ح۷۴۔عدةالداعی ص ۶۱

۱۰۸۔بحار الانوار ج۷۴ ،ص۱۴۲،ح۱۲

۱۰۱۰۔بحار الانوار،ج ۷۴،ص۱۴۳،ح۱۵

۱۱۰۔اسلام وتر بیت کود کان ج۱،ص۲۲۴

۱۱۱۔شرح غررالحکم ج۱ ،ص۱۰،ح۸۱

۱۱۲۔مستدرک الوسائل ج۳،ص۲۲۳

۱۱۳۔''باتر بیت مکتبی آشنا شویم''،ص۳۲۰

۱۱۴۔شرح غرر الحکم ج۴،ص۱۸۳

۱۱۵۔کافی ج ۲،ص۱۶۳

۱۱۶۔بحا رالانوار ج۷۷،ص۷۵،ج۸۱،ص۱۸۰۔الحضال ج۱،ص۱۱۳

۱۱۷۔روضہ کافی،ص۱۰۳

۱۱۸۔سفینہ البحار،مادہ قلب ج۲،ص۲۴۲

۱۱۱۰۔''گفتار فلسفی،جوان''ج۱ ص۷۱

۱۲۰۔وسائل الشیعہ ج ۴ ص۳۰

۱۲۱۔مستدرک الوسائل ج۲،ص۳۵۳

۱۲۲۔مذکورہ آیت کے ذیل ہیں ،تفسیر البرہان

۱۲۳۔''شاد کامی''،ص۴۱

۱۲۴۔وسائل الشیعہ ، ج ۲،ص ۱۲۰

۱۲۵۔ کافی ، ج ۶، ص ۴۷

۱۲۶۔ سفینہ البحار ، ج ۱، ص ۶۸۰، مادہ شبب

۱۲۷۔ اعلام الوریٰ، ص ۶۸

۱۲۸۔ اسد الغابہ ، ج ۲، ص ۲۱۰۰

۱۲۱۰۔ تاریخ طبری ج ۲، ص ۶۲۔ الکامل ، ج ۲، ص ۴۰۔ مسند احمد ، ج ۱، ص ۱۱۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، ج ۳، ص ۲۱۰

۱۳۰۔ تاریخ انبیاء ج ۱، ص ۷۶بحار الانوار ج ۳۵، ص ۶۸، شرح نہج البلاغہ حدیدی، ج ۱، ص ۶

۱۳۱۔ مستدرک حا کم، ج ۳، ص ۴۸۳۔ کفایہ المطالب، ص۲۶۰، الغدیر ، ج ۶، ص ۲۲

۱۳۲۔ اصول کافی، ج ۱، ص ۴۴۔ الغدیر، ج ۷، ص ۳۳۰۔ بحار الانوار ، ج ۳۵، ص ۶۸ تا ۱۸۳

۱۱۳۳۔ تاریخ طبری، ج ۲، ص ۲۱۲۔ الغدیر،ج ۳،ص ۲۲۶۔ بحار الانوار ، ج ۳۸، ص ۲۶۲۔احقاق الحق، ج ۲، ص ۱۵۳

۱۳۴۔ شعرائ۲۱۴، تفسیر فرات ، ص ۱۱۲

۱۳۵۔ احقاق الحق ج ۶، ص ۴۴۱۰، بحار الانوار، ج ۳۸، ص ۲۴۴، مناقب ابن شہر آشوب ، ج ۲،ص ۱۸۰، کنزالعمال ، ج ۶، ص ۳۱۰۷

۱۳۶۔ احقاق الحق، ج ۳، ص ۲۶ و ج ۶، ص ۴۷۱۰۔ بحار الانوار ج ۱۱۰، ص ۶۰۔ سیرہ حلبیہ ج ۲، ص ۲۶

۱۳۷۔ احقاق الحق، ج ۸، ص ۳۵۲۔ بحار الانوار ، ج ۴۱ ، ص ۸۰۔ ارشادمفید ، ج ۱، ص ۶۲

۱۳۸۔ احقاق الحق، ج ۸، ص ۳۵۱۰۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج ۳، ص ۴۰۱۔ تذکرة الخواص، ص ۳۰، تاریخ طبری ، ج ۳، ص ۳۷

۱۳۱۰۔احقاق الحق ج۸،ص۳۷۸ ،مستدرک حاکم ج ۳ص۳۲۔تاریخ بغداد ج۱۳،ص۱۱۰ ۔مقتل الحسین خوارزمی ص۴۵

۱۴۰۔احقاق الحق ج۵،ص ۴۲۰۔کنز العمال ج۵ ،ص۲۸۳۔ارشاد مفید ج۱،ص۱۱۴ ۔مستدرک الصحیحین ج۳ ص۳۷

۱۴۱۔احقاق الحق، ج ۸، ص ۶۸۲۔ سیرہ ابن ہشام ج ۲، ص ۴۲۱۰۔ اسد الغابہ ، ج ۳، ص ۱۰۲۔ الاصابہ ، ج ۱، ص ۳۱۸

۱۴۲۔ الاعلام زرکلی ، ج ۲، ص ۱۲۵، الاصابہ، ج ۱، ص۲۳۷، صفة الصفوہ،ج ۱، ص ۲۰۵، مقاتل الطالبین،ص ۳

۱۴۳۔ الاستیعاب فی ھامش الاصابہ، ج ۱، ص ۲۱۲۔ حلینہ الاولیاء ، ج ۱، ص ۱۱۴، طبقات ابن سعد ، ج ۴، ص ۱۲۵

۱۴۴۔ الاصابہ ، ج ۱، ص ۲۳۱۰، سیرہ حلبیہ، ج ۲، ص ۷۸۶، معجم البلدان ، ج ۵، ص ۲۱۱۰، الاعلام زرکلی، ج ۳، ص ۱۲۵

۱۴۵۔ الاعلام زرکلی ، ج ۷، ص ۲۴۸

۱۴۶۔حلیة الاولیاء ج۱ ،ص۱۰۶

۱۴۷۔طبقات ابن سعدج۳،ص۸۲۔الاصابة ج۳،ص۴۰ حلیة الاولیاء ج۱،ص۱۰۶

۱۴۸۔سیرةابن ہشام ج ۲،ص۲۱۰۴ ۔اسد الغابہ ج ۴، ص۳۶۱۰۔صفة الصفوہ ج۱،ص۱۲۵ ۔بحار الانوار ج ۶،ص۴۰۵

۱۴۱۰۔تاریخ اسلام ذھبی ج ۱،ص۳۸۰۔شذرات الذہب ج۱ ،ص۲۶۔سیرہ حلبیہ ج۳،ص۱۲۰

۱۵۰۔اسد الغابہ ج ۳ ص۳۵۸۔الاعلام زرکلی ج ۴،ص۲۰۰

۱۵۱۔ناسخ التواریخ،حالات پیامبر (ص)ص۳۷۸

۱۵۲۔الاعلام زرکلی،ج۴ ص۲۰۰۔الاصابہ ج۲ ،ص۴۵۱

۱۵۳۔اسد الغابہ ج۴ ،ص۳۷۶۔طبقات ابن سعد ج۳ ،ص۱۲۰ ،القسم الثانی

۱۵۴۔سیرہ حلبیہ ج۳ ،ص۱۲۰

ًًًً ۱۵۵۔حلیة الاولیاء ج۱ ص۲۲۸

۱۵۶۔الاصا بة ج۲ص۳۵۷

۱۵۸۔مجمع الزوائد ج۱۰ ،ص۳۱۰۔غایة النھایة ج۲ ،ص۳۰۱ صفة الصفوة ج۱،ص۱۱۰۵

۱۵۱۰۔طبقات ج ۳،ص۱۲۰ ۔الاستیعاب در حاشیہ الاصابة،مادئہ ''معاذ''

۱۶۰۔الاعلام زرکلی ج ۱،ص۲۱۰۱۔الاصابہ ج۱،ص ۲۱۰

۱۶۱۔طبقات ج۴ ،ص۴۲۔بحار الانوار ج۲۱،ص۵۰۔اسعد الغابہ ج۱،ص۶۴

۱۶۲۔بحار الانوار ،ج۲۱ ،ص۵۰۔اسد الغابہ ج۲،ص۸۱

۱۶۳۔طبقات ابن اسد ج۲ ،ص۴۲ ۔تہذیب تاریخ ابن عساکر ج ۲ ص۳۱۰۱

۱۶۴۔اعلام الوری ص۱۴۵

۱۶۵۔الاعلام زرکلی ج۱،ص۲۱۰۱۔الاصابہ ج۱،ص۲۱۰

۱۶۶۔تحف العقول ص۲۷۷

۱۶۷۔غرر الحکم ص۳۷۲

۱۶۸۔ نہج البلاغہ ، فیض ص ۱۱۱۴

۱۶۱۰۔ بحار الانوار ، ج ۱، ص ۲۱۴

۱۷۰۔ سفینہ البحار، ج ۱، ص ۶۸۰

۱۷۱۔ کافی ، ج ۶، ص ۴۷

۱۷۲۔ کافی ، ج ۶، ص ۴۷

۱۷۳۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ص ۲۰، حکمت نمبر ۸۱۷

۱۷۴۔ مجمع البیان، ج ۲، ص ۳۸۵

۱۷۵۔ مجموعہ ورام ، ج ۲، ص ۱۱۸، مشکاة الانوار ، ص ۱۵۵

۱۷۶۔ مستدرک الوسایل، ج ۲ ، ص ۳۵۳، تفسیر برہان، ص ۸۸۲۔ غرر الحکم ، ص ۶۴۵

۱۷۷۔ مکارم الاخلاق، ص ۵۱

۱۷۸۔ ''با تربیت مکتبی آشناشویم'' ، ص ۱۱۳

۱۷۱۰۔ کافی ، ج ۲، ص ۱۳۵، تاریخ یعقوبی ، ج ۲، ص۵۱۰

۱۸۰۔ نہج البلاغہ ، فیض، خطبہ نمبر ۸۲

۱۸۱۔بحار الانوارج ۱۰،ص۳۵۱،ح۳۔فقہ الرضا،ص۷۳

۱۸۲۔اسلام وتر بیت کودک ،ص۳۸۳

۱۸۳۔روش تبلیغ،ص۶۳

۱۸۴۔کلمات قصار،پندہا وحکمتہای امام خمینی ،ص۲۱۶