تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں0%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه  اسلام کی نگاہ میں

مؤلف: غلام مرتضي انصاری
زمرہ جات:

صفحے: 336
مشاہدے: 79106
ڈاؤنلوڈ: 2552

تبصرے:

تقيه اسلام کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79106 / ڈاؤنلوڈ: 2552
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

اللهِ أَلَا وَ إِنَّ اللَّه يَغْفِرُ كُلَّ ذَنْبٍ بَعْدَ ذَلِكَ وَ لَا يَسْتَقْصِي فَأَمَّا هَذَانِ فَقَلَّ مَنْ يَنْجُو مِنْهُمَا إِلَّا بَعْدَ مَسِّ عَذَابٍ شَدِيدٍ إِلَّا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ مَظَالِمُ عَلَى النَّوَاصِبِ وَ الْكُفَّارِ فَيَكُونَ عَذَابُ هَذَيْنِ عَلَى أُولَئِكَ الْكُفَّارِ وَ النَّوَاصِبِ قِصَاصاً بِمَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ مِنَ الْحُقُوقِ وَ مَا لَهُمْ إِلَيْكُمْ مِنَ الظُّلْمِ فَاتَّقُوا اللَّه وَ لَا تَتَعَرَّضُوا لِمَقْتِ اللهِ بِتَرْكِ التَّقِيَّةِ وَ التَّقْصِيرِ فِي حُقُوقِ إِخْوَانِكُمُ الْمُؤْمِنِينَ ۔(۱)

آگاہ رہو ! ہمارے ساتھ دوستی اور ہمارے دشمنوں کے ساتھ نفرت اور دشمنی کے بعد خدا تعالی کے واجبات میں سے سب سے بڑا واجب تقیہ کرتے ہوئے اپنی اور اپنے دوستوں کی حفاظت کرو اور اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرو ، آخر میں فرمایا: تقوی الہی کو اپنا پیشہ قرار دو اور اپنے آپ کو تقیہ نہ کرکے اور اپنے مؤمن بھائیوں کے حقوق ادا نہ کرکے غضب الہی کےمستحق نہ بنو ۔

۳ ـ آپ کے اصحاب میں سے ایک چاہتا تھا کہ آپ اعلانیہ طور پر حجت خدا کی حیثیت سے معرفی ہوجائیں۔لیکن امامعليه‌السلام نے فرمایا:خاموش رہو ! یا اسے چھپا ئے رکھو یا آشکار کرکے موت

____________________

۱:۔ بحار الانوار ، ج ۷۵، ص۴۰۹ ۔

۱۰۱

کیلئے تیار ہوجاؤ ۔(۱)

امامعليه‌السلام زندان میں بھی آزاد نہیں تھے بلکہ وہاں بھی جمحی نامی ایک شخص جاسوس رکھا گیا تھا امام ؑ نے جس سے زندانیوں کے سامنے خلیفہ کے لئے تیار کیا گیا خط نکالا جس میں زندانیوں کے خلاف رپورٹ تیار کیا گیا تھا۔(۲)

آپ کے ایک صحابی کہتا ہے کہ ہم ایک گروہ سامرہ میں امام ؑ کی ملاقات کرنے گئے ہمیں امام ؑ نے ایک خط لکھا جس میں حکم دیا گیا تھا :کوئی مجھے سلام نہ کرے اور نہ ہاتھوں سے اشارہ کرے،کیونکہ تمہاری جانیں خطرے میں ہیں۔(۳)

عبدالعزیز بلخی کہتا ہے ہم نے دیکھا کہ امام ؑ شہر کے دروازہ کی طرف تشریف لارہے ہیں۔،میں نے دل میں سوچا کہ اونچی آواز میں لوگوں کو بتادوں : لوگو! یہ حجت خدا ہیں انہیں پہچان لو۔پھر سوچا ایسی صورت میں تو مجھے قتل کیا جائے گا۔ جب امام ؑ میرے

____________________

۱:۔ بحار الانوار ، ج ۵۰، ص ۲۹۰۔

۲: ۔ ابن صباغ مالکی،الفصول المھمۃ،ص۳۰۴،ابن شہر آشوب،مناقب آل ابیطالب ،ج۴ ،ص۴۳۷۔

۳: ۔ مجلسی،باقر؛بحار الانوار،ج۵۰،ص۲۶۹۔

۱۰۲

نزدیک پہنچے تو ہاتھوں سے اشارہ کیا کہ خاموش رہو ورنہ مارے جاؤگے ، اس رات کو میں امام ؑ کی خدمت میں شرف یاب ہوا تو فرمایا: راز فاش کرکے اپنے آپ کو خطر میں نہ ڈالو ورنہ مارے جاؤگے۔(۱)

حضرت حجت(عج) اور تقيه

آنحضرت(عج) کی امامت کاپہلا دور جو غيبت صغري کا دورکہلاتا ہے اور سنہ ( ۲۶۰ ـ ۳۲۹) ھ پر مشتمل ہے ۔اس دوران میں امام ؑ اپنے چار خاص نائبین کے ساتھ رابطہ رکھتے تھے ۔ ان چار نائبین کے نام لیتے ہوئے امام ؑ کے ساتھ ان کا رابطہ اور تقیہ کے موارد کو بیان کریں گے:

____________________

۱: ۔ مسعودی،اثبات الوصیہ،نجف،المکتبۃ الحیدریۃ،ص۲۴۳۔

۱۰۳

۱۔ ابو عمرو عثمان ابن سعيد عمري

وہ امام حسن العسكريعليه‌السلام کے وكيل بھی تھے جو روغن فروشي کے شغل کو اپنی فعاليتوں کیلئے وسیلہ قرار دیتے ہوئے امام ؑ تک ان کے اموال کو پہنچاتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ ابوعمرو عثمان عمری ”سمان“ يعني روغن فروش کے نام سے معروف تھے۔(۱)

۲۔ ابو جعفر محمد بن عثمان

اس زمانے میں شیعیان حیدر کرار کا زیادہ اصرار تھا کہ امامعليه‌السلام کا نام مبارک معلوم ہوجائے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ اس قدرپوشیدہ تھا کہ بہت سارے شیعوں کو ان کا نام بھی معلوم نہ تھا ۔ لیکن آنحضرت نے ایک خط میں جو محمد بن عثمان کے ذریعے بھیجا ؛ جس میں یوں لکھا تھا :

____________________

۱:۔ بحار الانوار ، ج ،۵۱،ص۳۴۴۔

۱۰۴

ليخبر الذين يسالون عن الاسم،امّا السكوت و الجنة و امّا الكلام و النارفانهم اوقفوا علي الاسم اذاعوه و ان وقفوا علي المكان دلواً عليه ۔(۱)

ضروری ہے کہ ان لوگوں کو جو میرا نام جاننا چاہتے ہیں ،بتادوں کہ اس بارے میں خاموش رہیں تو ان کے لئے بہشت ہے اور اگر اس بارے میں بات کریں تو ان کے لئے جہنم ہے ۔ کیونکہ جو میرا نام جاننے کے بعد اسے افشا کرے اور اگر اسے میرے رہنے کی جگہ معلوم ہوجائے اور دوسروں کو خبر دے تو وہ عذاب جہنم کا مستحق ہے ۔

۳۔ ابو القاسم حسين بن روح

حسين بن روح جو بہت ہی محتاط انسان تھے، امنیت اور حفاظت کے تمام اصول اور قواعد وضوابط کو بروئے کار لاتے تھے ۔ چنانچہ محمد بن عثمان کے بعد نائب امام ؑ آپ ہی کو بننا تھا، جب ایک مؤمن نے آپ سے سوال کیا کہ کیوں یہ نیابت آپ کو نہیں ملی ؟

تو کہا : میں ایک ایسی حالت میں تھا کہ اگر اس بارے میں مجھ پر سختی کرتے تو شاید میں

____________________

۱۔ بحار الانوار ، ج ،۵۱،، ص ۳۵۱۔

۱۰۵

آنحضرت کے مكان اور جائیگاہ کا راز فاش کر دیتا ۔(۱)

ان کے تقیہ کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے کہ ایک مجلس میں تینوں خلیفوں کو عليعليه‌السلام سے افضل اور برتر توصیف اور تمجید کرنے لگے اور لوگوں کو اپنے اوپر راضی کرنے لگے تو ایک صحابی جو آپ کے عقیدے سے باخبر تھا ، ہنسنے لگا ۔ جب مجلس اختتام پذیر ہوا تو اس شخص کے پاس گئے اور اسے خوب ڈانٹا اور اسے کہا اگر دوبارہ کبھی ایسا کیا تو رابطہ قطع کردوں گا۔(۲)

۴ ـ علي ابن محمد السمري 

ان کی وفات کے وقت ایک خط جو آنحضرت(عج)نے آپ کو دیا تھا جس میں نائب خاص کے منقطع اور اس کے دعوی کرنے والوں کی تکذیب کی ہوئی تھی ۔ اسی طرح آپ کے سیاسی تقیہ کے موارد میں شیعوں سے خمس وزکوۃ لینے کے بعد ان کو کوئی رسید نہ

____________________

۱:۔ بحار الانوار ، ج ،۵۱، ، ص۳۵۹۔

۲:۔ بحار الانوار ، ج ،۵۱،، ص۳۵۶۔

۱۰۶

دینا بھی شامل ہے ۔(۱)

____________________

۱: بحار الانوار ، ج ،۵۱، ، ص۳۵۴۔

۱۰۷

تیسری فصل

مذاہب اہل سنت اورتقيه

۱۰۸

تیسری فصل:مذاہب اہل سنت اورتقيه

گذشتہ مباحث سے معلوم ہو ا کہ بيشتر اسلامي فرقے تقيه کو قبول کرتے ہیں ۔لیکن بعض کہتے ہیں کہ جائز نہیں ہے جیسے :

o فرقه ازارقه کہتا ہے ،تقيه نه قولاً جائزہے ا ور نه فعلاً۔

o فرقه صفريه کہتا ہے ، تقيه قولاً جائز ہے لیکن فعلاً جائز نہیں ۔

o فرقه زيديه کہتا ہے ، تقيه اهل عصمت کیلئے جائز ہے ليکن عصمت کے نااہل کیلئے جائز نہیں ہے ۔

۱۰۹

تمام مفسّران مذاهب مختلف اسلامی مشروعیت تقیه کو قرآن ہی سے درج ذیل آیات کی روشنی میں ثابت کرتے ہیں:

۱:( لاَ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ فِى شَىْء إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ) ۔۔۔(۱)

مذاهب اسلامی کے سارے مفسّرین کا اتفاق نظر ہے کہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے اور جب مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی کفر قریش انہیں اذیت و آزار پہنچاتے تھے جس سے پچنے کے لئے یہ لوگ تقیہ کرتے تھے۔حسن بصری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:مسیلمہ کذاب کے دو جاسوسوں نے دو مسلمان کو پکڑ کر اس کے پاس لے آئے اور اس نے ایک سے

____________________

۱: سوره آل عمران، آيه ۲۸۔

۱۱۰

کہا:کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے جواب دیا:ہاں ۔مسیلمہ نے اسے قتل کرنے کا جلاد کو حکم دیا۔ دوسرے سے یہی سوال دہرایا۔ اس نے منفی میں جواب دیا۔ تو اسے چھوڑ دیاگیا۔

اس شخص نے رسول خدا کی خدمت میں جاکر ماجرا بیان کیا تو آپ نے فرمایا:تمہارے ساتھی نے اپنے ایمان پر استقامت کا مظاہرہ کیا اور تم نے اس راستے کا انتخاب کیا ،جس کی اسلام نے اجازت دی ہے۔(۱)

امام شافعی نے اس آیۃ کے ذیل میں لکھا ہے :شرعی لحاظ سے مجبور کیا ہوا انسان کی بات ناگفتہ تلقی ہوتی ہے اور وہ اگر قسم بھی کھائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔(۲)

شیخ محمد فواد عبدالباقی نے اس آیت کے ذیل میں ابن ماجہ سے ایک حدیث نقل کی ہے:۔۔۔چند مسلمانوں کو مشرکوں نے گرفتار کر لیا تو جو بھی انہوں نے کہا اس پر عمل کیا۔ اور ایسی حالات

____________________

۱:۔ تفسیر الحسن البصری، ج ۲، ص ۷۶۔

۲: ابوعبدالله محمدبن ادریس شافعی، احکام القرآن، ج ۲، ص ۱۱۴۔

۱۱۱

میں تقیہ ضرور کرنا چاہئے۔کیونکہ خدا تعالی نے فرمایا ہے:الا من اکره و قلبه مطمئن بالایمان ۔(۱) اسی طرح بہت سارے علمائے اہل سنت نے ایسی صورت میں تقیہ کو جائز مانے ہیں، جن میں سے کچھ کا نام یہ ہیں:

ابن جوزی(۲) ، فخر رازی(۳) ، بیضاوی(۴) و امام شوکانی(۵)

۲:( وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلا أَنْ يَقُولَ رَبِّى اللهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ ) ۔(۶)

تمام مذاہب اسلامی کے مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مومن آل فرعون ،فرعون کا چچا

____________________

۱۔ سنن ابن ماجه، ج ۱، ص ۱۵۰۔

۲۔ المحرر الوجر فی تفسیر الکتاب الغریز، ج ۱۰، ص ۲۳۵۔

۳۔ زاد المیسی، ج ۴، ص ۴۹۶۔

۴۔ تفسیر الکبیر، ج ۲، ص ۱۳۲۔

۵۔ انوار التنزیل و اسرار التأویل، ج ۱، ص ۵۷۱۔

۶۔ سوره غافر، آيه ۲۸

۱۱۲

زاد بھائی تھا جس نے حضرت موسی پر ایمان لایا ہوا تھا۔جب فرعون نے موسی کو قتل کرنا چاہا تو انہوں نے کہا:کیا ایسے شخص کو قتل کروگے جو کہتا ہے کہ میرا خدا اللہ ہے؟جبکہ وہ اپنے پروردگار کی طرف سے معجزات لے کر آیا ہے۔اگر وہ جھوٹا ہے تو یہی جھوٹ اس کے لئے باعث ہلاکت ہے۔اور اگر سچا ہے تو کچھ عذاب تو تم تک بھی پہنچنے والا ہے ،جن کا وہ وعدہ دے رہا ہے۔بے شک خدا کسی اسراف کرنے اور زیادہ طلبی کرنے اور جھوٹ بولنے والے کی ہدایت نہیں کرتا۔ پس ان کا ایمان کا چھپانا اور فرعونیوں کے ساتھ ہمدردی اور دل سوزی کا اظہار کرنا تقیہ کے علاوہ کیا کچھ اور ہوسکتا ہے؟جن کے مشورے سے موسی کلیم اللہ کی جان بچ گئی۔

محدّثان اهل سنّت نےابن عباس اور دوسرے محدثین سے ایک روایت نقل کی ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا:صدیقین چار لوگ ہیں:حبیب نجار، مؤمن آل یاسین، مؤمن آل فرعون که جنہوں نے کہا: «اتقتلون رجلاً ان یقول ربی الله»اور علی بن ابیطالب ،جو ان سب میں افضل ہیں۔(۱)

____________________

۱:۔ متقی هندی، کنزالعمال، ص ۱۱؛ قرشی، مسند شمس الاخبار، ص ۹۸؛ محمد بن حرین جلال، حاشیه کشف الاستار، ص ۹۸۔

۱۱۳

۳:( فَابْعَثُواْ أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَاذِهِ إِلىَ الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيهُّا أَزْكىَ‏ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَ لْيَتَلَطَّفْ وَ لَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا إِنهَّمْ إِن يَظْهَرُواْ عَلَيْكمُ‏ يَرْجُمُوكمُ‏ أَوْ يُعِيدُوكُمْ فىِ مِلَّتِهِمْ وَ لَن تُفْلِحُواْ إِذًا أَبَدًا ) ؛(۱)

"اب تم اپنے سکے دے کر کسی کو شہر کی طرف بھیجو وہ دیکھے کہ کون سا کھانا بہتر ہے اور پھر تمہارے لئے رزق کا سامان فراہم کرے اور وہ آہستہ جائے اورکسی کو تمہارے بارے میں خبر نہ ہونے پائے یہ اگرتمہارے بارے میں باخبر ہوگئے تو تمہیں سنگسار کردیں گے یا تمہیں بھی اپنے مذہب کی طرف پلٹا لیں گے اور اس طرح تم کبھی نجات نہ پاسکو گے"

کے ذیل میں مفسرین اہل سنت لکھتے ہیں کہ اصحاب کہف نے اس زمانے کے بت پرست بادشاہ کے سامنے اپنا ایمان چھپا کر تقیہ کرتے رہے ،یہاں تک کہ غار میں پناہ لیں۔

شیعہ مفسرین نے امام جعفر صادق ؑ سے اس بارے میں روایت کی ہے:اصحاب کہف سے بڑھ کر کسی نے تقیہ نہیں کیا ہے کیونکہ ان لوگوں کے گلے میں طوق پہنائے جاتے تھے۔ اسی

____________________

۱۔ کهف ۱۹ – ۲۰۔

۱۱۴

لئے اللہ تعالی نے انہیں دو بار اس کا اجر عطا کیا ہے۔(۱)

فخر رازی شافعی، و قرطبی مالکی نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے۔(۲)

تقيه اور احاديث اهل سنت

اہل سنت کی بہت سی روایتوں میں تقیہ کے جواز کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔جیسا کہ سیوطی نے رسول خدا کی ایک حدیث نقل کی ہے، آپ نے فرمایا:بدترین قوم وہ قوم ہے جن کے درمیان مومنین تقیہ کرنے پر مجبور ہوں۔

ابن عربی مالکی لکھتا ہے کہ رسول اللہ تین ہجری میں ایک گروہ کو کعب ن اشرف طائی جو یہودی قبیلہ بنی نصر کا سردار تھا،جن میں محمد بن مسلمہ تھا ۔ اس نے اپنے ساتھیوں سمیت کہا:یا رسول اللہ کیا ہمیں اجازت دیتے ہیں کہ مجبوری کے وقت آپ کو ناسزا کہیں؟ رسول

____________________

۱۔ اصول کافی، ج ۲، ص ۱۷۴۔

۲۔ تفسیر الکبیر، ج ۲۱، ص ۱۰۳۔

۱۱۵

خدا نے انہیں اجازت دے دی۔(۱)

شیعہ سنی دونوں کی کتابوں میں مشہور حدیث "لا ضرر و لا ضرار فی الاسلام "نقل ہوئی ہے ۔جس کی تفصیل میں لکھتے ہیں :اس کی مشہور ترین مصداق ، اجبار اور اضطرار کے موقع پر تقیہ کو ترک کرکے جانی اور مالی نقصان پہنچانے سے روک دینا ہے۔(۲)

امام شافعی اور ان کے پیروکاروں نے آیہ شریفہ:"الا مااضطررتم " کے ذیل میں لکھا ہے کہ مجبور شخص کا طلاق دینا اور آزاد کرنا حیثیت نہیں رکھتا۔(۳) یعنی نہ طلاق جاری ہوگا اور نہ غلام کو آزاد کرنے سے آزاد ہوگا۔کیونکہ اس پر حکم ساقط ہے۔اس لئے کہ اس نے اپنی جان بچانے کے لئے طلاق جاری کیا ہے اور غلام کو آزاد کیا ہے،اور اپنی جان بچانا اس پر واجب ہے۔اسی طرح اگر وہ کفر آمیز کلمات زبان پر لائے تو اس پر مرتد کا حکم بھی نہیں لگا سکتا،کیونکہ اس کا مقصد اپنے دین کی حفاظت کرنا تھا۔

____________________

۱۔ احکام القرآن، ج ۲، ص ۱۲۵۷۔

۲۔ سنن ابن ماجه، ج ۲، ص ۷۸۴؛ السنن الکبری بیهقی، ج ۶، ص ۶۹؛ معجم الکبیر طبرانی، ج ۲ ، ص ۸۱؛ المستدرک حاکم، ج ۲، ص ۵۸۔

۳۔ احکام القرآن، ج ۳، ص ۱۹۴۔

۱۱۶

اس بحث میں ہم ثابت کریں گے کہ اهل سنت والجماعت اور ان کے آئمہ نے بھی تقيه کیا ہے ، چنانچہ وہ احادیث جنہیں مسلم ا ور بخاري نے ذکر کیا ہے اہل سنت صحیح مانتے ہیں ۔ اوریہ دونوں اس بات کے قائل ہیں کہ اپنی جان بچانے کیلئے کفر کا اظہار کرنا جائز ہے ،اور اسی ضمن میں عمار بن یاسر کا قصہ نقل کرتے ہیں :الا من اكره و قلبه مطمئن بالايمان ۔

آگے کہتے ہیں کہ جب بھی اپنی جان خطرے میں پڑ جائے تو عمار بن یاسر کی پیروی کرنا کوئی بدعت نہیں ہے ۔ کیونکہ سب جانتے تھے کہ عمار، سر سے لیکر پیر تک سارا وجود ایمان سے لبریز تھا ۔(۱)

ذهبي نے اسی قصے کو اپنی کتاب میں نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اگر مسلم اور بخاری نے اسے صحیح اور جائز مانا ہے تو جائز ہے ۔

____________________

۱۔ تقیہ از دیدگاہ مذاہب و فرقہ ہای اسلامی ، ص ۹۵۔

۱۱۷

تقیہ اور صحابہ کانظریہ

عمر بن خطاب (ت ۲۳ ھ) اور تقیہ

بخاری روایت کرتا ہے کہ عمر بن خطاب نے جب اسلام قبول کیا تو مشرکوں سے خوف زدہ ہوکرگھر میں چھپا رہا ، اس قصہ کو عبداللہ بن عمر خطاب نے یحیی بن سلیمان کے ذریعے " عمر بن خطاب کا اسلام "کے باب میں نقل کیا ہے :وه لکھتا ہے کہ عمر ابن خطاب بہت ہي خوف زدہ ہوگیا تھا ، ابو عمر و عاص بن وائل سھمی جو دور جاہلیت میں اس کے ساتھ ہم پیمان ہو چکاتھا عمر کے پاس آیا ، عاص بن وائل نے عمر سے کہا : تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ تو عمر نے جواب دیاتیری قوم کا کہنا ہے کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤ ں تو مجھے قتل کیا جائیگا۔تو اس نے کہا : وہ لوگ تمہار ا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ جب اس سے یہ

۱۱۸

بات سنی تو اس کے بعد سے امان محسوس کرنے لگا ۔

اس کے بعد عاص باہر آیا اور دیکھا کہ لوگ درّے سے نیچے آرہے ہیں ، ان سے پوچھا کہ کہاں جارہے ہو ؟ تو کہنے لگے : خطاب کے بیٹے کو قتل کرنے جارہے ہیں۔

اس نے کہا: نہیں تم ایسا نہیں کروگے؛ تو وہ لوگ وہاں سے واپس چلے گئے ۔(۱)

مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث پوری صراحت کے ساتھ بیان کررہی ہے کہ عمر نے تقیہ کے طورپر اپنے آپ کو گھر میں چھپائےرکھا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر نے اپنی اسلامی زندگی کا آغاز هي تقیہ سے کیا ۔اور اس کی کوئی عاقل انسان مذمت بھی نہیں کر سکتا ؛ کیونکہ یہ ایک فطری عمل ہے ،اس کے برخلاف اگر کوئی دشمن کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرلے تووہ قابل مذمت ہے ۔

____________________

۱۔ صحیح بخاری ۵: ۶ باب اسلام عمر بن خطاب۔

۱۱۹

عبد اللہ ابن مسعود(ت ۳۲ ھ)اور تقیہ

عبداللہ ابن مسعود کہتا ہے : جب بھی مجھے کوئی ظالم و جابر اپنی مرضی کے مطابق الفاظ زبان پر لانے پر مجبور کرے جو ایک یا دو کوڑے لگنے سے بچنے کا سبب ہو تو ضرور وہ الفاظ زبان پر جاری کروں گا ۔

اسی کے ذیل میں ابن حزم کہتا ہے:اس بارے میں کسی بھی صحابی کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ بلکہ سب کا اتفاق ہے ۔(۱)

یہ بات تقیہ کے جائز ہونے اورسارے صحابہ کا اتفاق ہونے پر دلیل ہے اگر چہ جابر حکمران کے ایک یا دو تازیانے سے بچنے کیلئے ہی کیوں نہ کیا جائے ۔

ابن مسعود کا تقیہ کرنے کا دوسرا مورد ولید بن عقبہ کے پیچھے نماز پڑھنا ہے کہ

____________________

۱۔ المحلی ابن حزم ج ۸ ص ۳۳۶،مسالہ ۱۴۰۹۔

۱۲۰