تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں17%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86720 / ڈاؤنلوڈ: 3148
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

اللهِ أَلَا وَ إِنَّ اللَّه يَغْفِرُ كُلَّ ذَنْبٍ بَعْدَ ذَلِكَ وَ لَا يَسْتَقْصِي فَأَمَّا هَذَانِ فَقَلَّ مَنْ يَنْجُو مِنْهُمَا إِلَّا بَعْدَ مَسِّ عَذَابٍ شَدِيدٍ إِلَّا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ مَظَالِمُ عَلَى النَّوَاصِبِ وَ الْكُفَّارِ فَيَكُونَ عَذَابُ هَذَيْنِ عَلَى أُولَئِكَ الْكُفَّارِ وَ النَّوَاصِبِ قِصَاصاً بِمَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ مِنَ الْحُقُوقِ وَ مَا لَهُمْ إِلَيْكُمْ مِنَ الظُّلْمِ فَاتَّقُوا اللَّه وَ لَا تَتَعَرَّضُوا لِمَقْتِ اللهِ بِتَرْكِ التَّقِيَّةِ وَ التَّقْصِيرِ فِي حُقُوقِ إِخْوَانِكُمُ الْمُؤْمِنِينَ ۔(۱)

آگاہ رہو ! ہمارے ساتھ دوستی اور ہمارے دشمنوں کے ساتھ نفرت اور دشمنی کے بعد خدا تعالی کے واجبات میں سے سب سے بڑا واجب تقیہ کرتے ہوئے اپنی اور اپنے دوستوں کی حفاظت کرو اور اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرو ، آخر میں فرمایا: تقوی الہی کو اپنا پیشہ قرار دو اور اپنے آپ کو تقیہ نہ کرکے اور اپنے مؤمن بھائیوں کے حقوق ادا نہ کرکے غضب الہی کےمستحق نہ بنو ۔

۳ ـ آپ کے اصحاب میں سے ایک چاہتا تھا کہ آپ اعلانیہ طور پر حجت خدا کی حیثیت سے معرفی ہوجائیں۔لیکن امامعليه‌السلام نے فرمایا:خاموش رہو ! یا اسے چھپا ئے رکھو یا آشکار کرکے موت

____________________

۱:۔ بحار الانوار ، ج ۷۵، ص۴۰۹ ۔

۱۰۱

کیلئے تیار ہوجاؤ ۔(۱)

امامعليه‌السلام زندان میں بھی آزاد نہیں تھے بلکہ وہاں بھی جمحی نامی ایک شخص جاسوس رکھا گیا تھا امام ؑ نے جس سے زندانیوں کے سامنے خلیفہ کے لئے تیار کیا گیا خط نکالا جس میں زندانیوں کے خلاف رپورٹ تیار کیا گیا تھا۔(۲)

آپ کے ایک صحابی کہتا ہے کہ ہم ایک گروہ سامرہ میں امام ؑ کی ملاقات کرنے گئے ہمیں امام ؑ نے ایک خط لکھا جس میں حکم دیا گیا تھا :کوئی مجھے سلام نہ کرے اور نہ ہاتھوں سے اشارہ کرے،کیونکہ تمہاری جانیں خطرے میں ہیں۔(۳)

عبدالعزیز بلخی کہتا ہے ہم نے دیکھا کہ امام ؑ شہر کے دروازہ کی طرف تشریف لارہے ہیں۔،میں نے دل میں سوچا کہ اونچی آواز میں لوگوں کو بتادوں : لوگو! یہ حجت خدا ہیں انہیں پہچان لو۔پھر سوچا ایسی صورت میں تو مجھے قتل کیا جائے گا۔ جب امام ؑ میرے

____________________

۱:۔ بحار الانوار ، ج ۵۰، ص ۲۹۰۔

۲: ۔ ابن صباغ مالکی،الفصول المھمۃ،ص۳۰۴،ابن شہر آشوب،مناقب آل ابیطالب ،ج۴ ،ص۴۳۷۔

۳: ۔ مجلسی،باقر؛بحار الانوار،ج۵۰،ص۲۶۹۔

۱۰۲

نزدیک پہنچے تو ہاتھوں سے اشارہ کیا کہ خاموش رہو ورنہ مارے جاؤگے ، اس رات کو میں امام ؑ کی خدمت میں شرف یاب ہوا تو فرمایا: راز فاش کرکے اپنے آپ کو خطر میں نہ ڈالو ورنہ مارے جاؤگے۔(۱)

حضرت حجت(عج) اور تقيه

آنحضرت(عج) کی امامت کاپہلا دور جو غيبت صغري کا دورکہلاتا ہے اور سنہ ( ۲۶۰ ـ ۳۲۹) ھ پر مشتمل ہے ۔اس دوران میں امام ؑ اپنے چار خاص نائبین کے ساتھ رابطہ رکھتے تھے ۔ ان چار نائبین کے نام لیتے ہوئے امام ؑ کے ساتھ ان کا رابطہ اور تقیہ کے موارد کو بیان کریں گے:

____________________

۱: ۔ مسعودی،اثبات الوصیہ،نجف،المکتبۃ الحیدریۃ،ص۲۴۳۔

۱۰۳

۱۔ ابو عمرو عثمان ابن سعيد عمري

وہ امام حسن العسكريعليه‌السلام کے وكيل بھی تھے جو روغن فروشي کے شغل کو اپنی فعاليتوں کیلئے وسیلہ قرار دیتے ہوئے امام ؑ تک ان کے اموال کو پہنچاتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ ابوعمرو عثمان عمری ”سمان“ يعني روغن فروش کے نام سے معروف تھے۔(۱)

۲۔ ابو جعفر محمد بن عثمان

اس زمانے میں شیعیان حیدر کرار کا زیادہ اصرار تھا کہ امامعليه‌السلام کا نام مبارک معلوم ہوجائے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ اس قدرپوشیدہ تھا کہ بہت سارے شیعوں کو ان کا نام بھی معلوم نہ تھا ۔ لیکن آنحضرت نے ایک خط میں جو محمد بن عثمان کے ذریعے بھیجا ؛ جس میں یوں لکھا تھا :

____________________

۱:۔ بحار الانوار ، ج ،۵۱،ص۳۴۴۔

۱۰۴

ليخبر الذين يسالون عن الاسم،امّا السكوت و الجنة و امّا الكلام و النارفانهم اوقفوا علي الاسم اذاعوه و ان وقفوا علي المكان دلواً عليه ۔(۱)

ضروری ہے کہ ان لوگوں کو جو میرا نام جاننا چاہتے ہیں ،بتادوں کہ اس بارے میں خاموش رہیں تو ان کے لئے بہشت ہے اور اگر اس بارے میں بات کریں تو ان کے لئے جہنم ہے ۔ کیونکہ جو میرا نام جاننے کے بعد اسے افشا کرے اور اگر اسے میرے رہنے کی جگہ معلوم ہوجائے اور دوسروں کو خبر دے تو وہ عذاب جہنم کا مستحق ہے ۔

۳۔ ابو القاسم حسين بن روح

حسين بن روح جو بہت ہی محتاط انسان تھے، امنیت اور حفاظت کے تمام اصول اور قواعد وضوابط کو بروئے کار لاتے تھے ۔ چنانچہ محمد بن عثمان کے بعد نائب امام ؑ آپ ہی کو بننا تھا، جب ایک مؤمن نے آپ سے سوال کیا کہ کیوں یہ نیابت آپ کو نہیں ملی ؟

تو کہا : میں ایک ایسی حالت میں تھا کہ اگر اس بارے میں مجھ پر سختی کرتے تو شاید میں

____________________

۱۔ بحار الانوار ، ج ،۵۱،، ص ۳۵۱۔

۱۰۵

آنحضرت کے مكان اور جائیگاہ کا راز فاش کر دیتا ۔(۱)

ان کے تقیہ کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے کہ ایک مجلس میں تینوں خلیفوں کو عليعليه‌السلام سے افضل اور برتر توصیف اور تمجید کرنے لگے اور لوگوں کو اپنے اوپر راضی کرنے لگے تو ایک صحابی جو آپ کے عقیدے سے باخبر تھا ، ہنسنے لگا ۔ جب مجلس اختتام پذیر ہوا تو اس شخص کے پاس گئے اور اسے خوب ڈانٹا اور اسے کہا اگر دوبارہ کبھی ایسا کیا تو رابطہ قطع کردوں گا۔(۲)

۴ ـ علي ابن محمد السمري 

ان کی وفات کے وقت ایک خط جو آنحضرت(عج)نے آپ کو دیا تھا جس میں نائب خاص کے منقطع اور اس کے دعوی کرنے والوں کی تکذیب کی ہوئی تھی ۔ اسی طرح آپ کے سیاسی تقیہ کے موارد میں شیعوں سے خمس وزکوۃ لینے کے بعد ان کو کوئی رسید نہ

____________________

۱:۔ بحار الانوار ، ج ،۵۱، ، ص۳۵۹۔

۲:۔ بحار الانوار ، ج ،۵۱،، ص۳۵۶۔

۱۰۶

دینا بھی شامل ہے ۔(۱)

____________________

۱: بحار الانوار ، ج ،۵۱، ، ص۳۵۴۔

۱۰۷

تیسری فصل

مذاہب اہل سنت اورتقيه

۱۰۸

تیسری فصل:مذاہب اہل سنت اورتقيه

گذشتہ مباحث سے معلوم ہو ا کہ بيشتر اسلامي فرقے تقيه کو قبول کرتے ہیں ۔لیکن بعض کہتے ہیں کہ جائز نہیں ہے جیسے :

o فرقه ازارقه کہتا ہے ،تقيه نه قولاً جائزہے ا ور نه فعلاً۔

o فرقه صفريه کہتا ہے ، تقيه قولاً جائز ہے لیکن فعلاً جائز نہیں ۔

o فرقه زيديه کہتا ہے ، تقيه اهل عصمت کیلئے جائز ہے ليکن عصمت کے نااہل کیلئے جائز نہیں ہے ۔

۱۰۹

تمام مفسّران مذاهب مختلف اسلامی مشروعیت تقیه کو قرآن ہی سے درج ذیل آیات کی روشنی میں ثابت کرتے ہیں:

۱:( لاَ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ فِى شَىْء إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ) ۔۔۔(۱)

مذاهب اسلامی کے سارے مفسّرین کا اتفاق نظر ہے کہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے اور جب مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی کفر قریش انہیں اذیت و آزار پہنچاتے تھے جس سے پچنے کے لئے یہ لوگ تقیہ کرتے تھے۔حسن بصری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:مسیلمہ کذاب کے دو جاسوسوں نے دو مسلمان کو پکڑ کر اس کے پاس لے آئے اور اس نے ایک سے

____________________

۱: سوره آل عمران، آيه ۲۸۔

۱۱۰

کہا:کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے جواب دیا:ہاں ۔مسیلمہ نے اسے قتل کرنے کا جلاد کو حکم دیا۔ دوسرے سے یہی سوال دہرایا۔ اس نے منفی میں جواب دیا۔ تو اسے چھوڑ دیاگیا۔

اس شخص نے رسول خدا کی خدمت میں جاکر ماجرا بیان کیا تو آپ نے فرمایا:تمہارے ساتھی نے اپنے ایمان پر استقامت کا مظاہرہ کیا اور تم نے اس راستے کا انتخاب کیا ،جس کی اسلام نے اجازت دی ہے۔(۱)

امام شافعی نے اس آیۃ کے ذیل میں لکھا ہے :شرعی لحاظ سے مجبور کیا ہوا انسان کی بات ناگفتہ تلقی ہوتی ہے اور وہ اگر قسم بھی کھائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔(۲)

شیخ محمد فواد عبدالباقی نے اس آیت کے ذیل میں ابن ماجہ سے ایک حدیث نقل کی ہے:۔۔۔چند مسلمانوں کو مشرکوں نے گرفتار کر لیا تو جو بھی انہوں نے کہا اس پر عمل کیا۔ اور ایسی حالات

____________________

۱:۔ تفسیر الحسن البصری، ج ۲، ص ۷۶۔

۲: ابوعبدالله محمدبن ادریس شافعی، احکام القرآن، ج ۲، ص ۱۱۴۔

۱۱۱

میں تقیہ ضرور کرنا چاہئے۔کیونکہ خدا تعالی نے فرمایا ہے:الا من اکره و قلبه مطمئن بالایمان ۔(۱) اسی طرح بہت سارے علمائے اہل سنت نے ایسی صورت میں تقیہ کو جائز مانے ہیں، جن میں سے کچھ کا نام یہ ہیں:

ابن جوزی(۲) ، فخر رازی(۳) ، بیضاوی(۴) و امام شوکانی(۵)

۲:( وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلا أَنْ يَقُولَ رَبِّى اللهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ ) ۔(۶)

تمام مذاہب اسلامی کے مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مومن آل فرعون ،فرعون کا چچا

____________________

۱۔ سنن ابن ماجه، ج ۱، ص ۱۵۰۔

۲۔ المحرر الوجر فی تفسیر الکتاب الغریز، ج ۱۰، ص ۲۳۵۔

۳۔ زاد المیسی، ج ۴، ص ۴۹۶۔

۴۔ تفسیر الکبیر، ج ۲، ص ۱۳۲۔

۵۔ انوار التنزیل و اسرار التأویل، ج ۱، ص ۵۷۱۔

۶۔ سوره غافر، آيه ۲۸

۱۱۲

زاد بھائی تھا جس نے حضرت موسی پر ایمان لایا ہوا تھا۔جب فرعون نے موسی کو قتل کرنا چاہا تو انہوں نے کہا:کیا ایسے شخص کو قتل کروگے جو کہتا ہے کہ میرا خدا اللہ ہے؟جبکہ وہ اپنے پروردگار کی طرف سے معجزات لے کر آیا ہے۔اگر وہ جھوٹا ہے تو یہی جھوٹ اس کے لئے باعث ہلاکت ہے۔اور اگر سچا ہے تو کچھ عذاب تو تم تک بھی پہنچنے والا ہے ،جن کا وہ وعدہ دے رہا ہے۔بے شک خدا کسی اسراف کرنے اور زیادہ طلبی کرنے اور جھوٹ بولنے والے کی ہدایت نہیں کرتا۔ پس ان کا ایمان کا چھپانا اور فرعونیوں کے ساتھ ہمدردی اور دل سوزی کا اظہار کرنا تقیہ کے علاوہ کیا کچھ اور ہوسکتا ہے؟جن کے مشورے سے موسی کلیم اللہ کی جان بچ گئی۔

محدّثان اهل سنّت نےابن عباس اور دوسرے محدثین سے ایک روایت نقل کی ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا:صدیقین چار لوگ ہیں:حبیب نجار، مؤمن آل یاسین، مؤمن آل فرعون که جنہوں نے کہا: «اتقتلون رجلاً ان یقول ربی الله»اور علی بن ابیطالب ،جو ان سب میں افضل ہیں۔(۱)

____________________

۱:۔ متقی هندی، کنزالعمال، ص ۱۱؛ قرشی، مسند شمس الاخبار، ص ۹۸؛ محمد بن حرین جلال، حاشیه کشف الاستار، ص ۹۸۔

۱۱۳

۳:( فَابْعَثُواْ أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَاذِهِ إِلىَ الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيهُّا أَزْكىَ‏ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَ لْيَتَلَطَّفْ وَ لَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا إِنهَّمْ إِن يَظْهَرُواْ عَلَيْكمُ‏ يَرْجُمُوكمُ‏ أَوْ يُعِيدُوكُمْ فىِ مِلَّتِهِمْ وَ لَن تُفْلِحُواْ إِذًا أَبَدًا ) ؛(۱)

"اب تم اپنے سکے دے کر کسی کو شہر کی طرف بھیجو وہ دیکھے کہ کون سا کھانا بہتر ہے اور پھر تمہارے لئے رزق کا سامان فراہم کرے اور وہ آہستہ جائے اورکسی کو تمہارے بارے میں خبر نہ ہونے پائے یہ اگرتمہارے بارے میں باخبر ہوگئے تو تمہیں سنگسار کردیں گے یا تمہیں بھی اپنے مذہب کی طرف پلٹا لیں گے اور اس طرح تم کبھی نجات نہ پاسکو گے"

کے ذیل میں مفسرین اہل سنت لکھتے ہیں کہ اصحاب کہف نے اس زمانے کے بت پرست بادشاہ کے سامنے اپنا ایمان چھپا کر تقیہ کرتے رہے ،یہاں تک کہ غار میں پناہ لیں۔

شیعہ مفسرین نے امام جعفر صادق ؑ سے اس بارے میں روایت کی ہے:اصحاب کہف سے بڑھ کر کسی نے تقیہ نہیں کیا ہے کیونکہ ان لوگوں کے گلے میں طوق پہنائے جاتے تھے۔ اسی

____________________

۱۔ کهف ۱۹ – ۲۰۔

۱۱۴

لئے اللہ تعالی نے انہیں دو بار اس کا اجر عطا کیا ہے۔(۱)

فخر رازی شافعی، و قرطبی مالکی نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے۔(۲)

تقيه اور احاديث اهل سنت

اہل سنت کی بہت سی روایتوں میں تقیہ کے جواز کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔جیسا کہ سیوطی نے رسول خدا کی ایک حدیث نقل کی ہے، آپ نے فرمایا:بدترین قوم وہ قوم ہے جن کے درمیان مومنین تقیہ کرنے پر مجبور ہوں۔

ابن عربی مالکی لکھتا ہے کہ رسول اللہ تین ہجری میں ایک گروہ کو کعب ن اشرف طائی جو یہودی قبیلہ بنی نصر کا سردار تھا،جن میں محمد بن مسلمہ تھا ۔ اس نے اپنے ساتھیوں سمیت کہا:یا رسول اللہ کیا ہمیں اجازت دیتے ہیں کہ مجبوری کے وقت آپ کو ناسزا کہیں؟ رسول

____________________

۱۔ اصول کافی، ج ۲، ص ۱۷۴۔

۲۔ تفسیر الکبیر، ج ۲۱، ص ۱۰۳۔

۱۱۵

خدا نے انہیں اجازت دے دی۔(۱)

شیعہ سنی دونوں کی کتابوں میں مشہور حدیث "لا ضرر و لا ضرار فی الاسلام "نقل ہوئی ہے ۔جس کی تفصیل میں لکھتے ہیں :اس کی مشہور ترین مصداق ، اجبار اور اضطرار کے موقع پر تقیہ کو ترک کرکے جانی اور مالی نقصان پہنچانے سے روک دینا ہے۔(۲)

امام شافعی اور ان کے پیروکاروں نے آیہ شریفہ:"الا مااضطررتم " کے ذیل میں لکھا ہے کہ مجبور شخص کا طلاق دینا اور آزاد کرنا حیثیت نہیں رکھتا۔(۳) یعنی نہ طلاق جاری ہوگا اور نہ غلام کو آزاد کرنے سے آزاد ہوگا۔کیونکہ اس پر حکم ساقط ہے۔اس لئے کہ اس نے اپنی جان بچانے کے لئے طلاق جاری کیا ہے اور غلام کو آزاد کیا ہے،اور اپنی جان بچانا اس پر واجب ہے۔اسی طرح اگر وہ کفر آمیز کلمات زبان پر لائے تو اس پر مرتد کا حکم بھی نہیں لگا سکتا،کیونکہ اس کا مقصد اپنے دین کی حفاظت کرنا تھا۔

____________________

۱۔ احکام القرآن، ج ۲، ص ۱۲۵۷۔

۲۔ سنن ابن ماجه، ج ۲، ص ۷۸۴؛ السنن الکبری بیهقی، ج ۶، ص ۶۹؛ معجم الکبیر طبرانی، ج ۲ ، ص ۸۱؛ المستدرک حاکم، ج ۲، ص ۵۸۔

۳۔ احکام القرآن، ج ۳، ص ۱۹۴۔

۱۱۶

اس بحث میں ہم ثابت کریں گے کہ اهل سنت والجماعت اور ان کے آئمہ نے بھی تقيه کیا ہے ، چنانچہ وہ احادیث جنہیں مسلم ا ور بخاري نے ذکر کیا ہے اہل سنت صحیح مانتے ہیں ۔ اوریہ دونوں اس بات کے قائل ہیں کہ اپنی جان بچانے کیلئے کفر کا اظہار کرنا جائز ہے ،اور اسی ضمن میں عمار بن یاسر کا قصہ نقل کرتے ہیں :الا من اكره و قلبه مطمئن بالايمان ۔

آگے کہتے ہیں کہ جب بھی اپنی جان خطرے میں پڑ جائے تو عمار بن یاسر کی پیروی کرنا کوئی بدعت نہیں ہے ۔ کیونکہ سب جانتے تھے کہ عمار، سر سے لیکر پیر تک سارا وجود ایمان سے لبریز تھا ۔(۱)

ذهبي نے اسی قصے کو اپنی کتاب میں نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اگر مسلم اور بخاری نے اسے صحیح اور جائز مانا ہے تو جائز ہے ۔

____________________

۱۔ تقیہ از دیدگاہ مذاہب و فرقہ ہای اسلامی ، ص ۹۵۔

۱۱۷

تقیہ اور صحابہ کانظریہ

عمر بن خطاب (ت ۲۳ ھ) اور تقیہ

بخاری روایت کرتا ہے کہ عمر بن خطاب نے جب اسلام قبول کیا تو مشرکوں سے خوف زدہ ہوکرگھر میں چھپا رہا ، اس قصہ کو عبداللہ بن عمر خطاب نے یحیی بن سلیمان کے ذریعے " عمر بن خطاب کا اسلام "کے باب میں نقل کیا ہے :وه لکھتا ہے کہ عمر ابن خطاب بہت ہي خوف زدہ ہوگیا تھا ، ابو عمر و عاص بن وائل سھمی جو دور جاہلیت میں اس کے ساتھ ہم پیمان ہو چکاتھا عمر کے پاس آیا ، عاص بن وائل نے عمر سے کہا : تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ تو عمر نے جواب دیاتیری قوم کا کہنا ہے کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤ ں تو مجھے قتل کیا جائیگا۔تو اس نے کہا : وہ لوگ تمہار ا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ جب اس سے یہ

۱۱۸

بات سنی تو اس کے بعد سے امان محسوس کرنے لگا ۔

اس کے بعد عاص باہر آیا اور دیکھا کہ لوگ درّے سے نیچے آرہے ہیں ، ان سے پوچھا کہ کہاں جارہے ہو ؟ تو کہنے لگے : خطاب کے بیٹے کو قتل کرنے جارہے ہیں۔

اس نے کہا: نہیں تم ایسا نہیں کروگے؛ تو وہ لوگ وہاں سے واپس چلے گئے ۔(۱)

مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث پوری صراحت کے ساتھ بیان کررہی ہے کہ عمر نے تقیہ کے طورپر اپنے آپ کو گھر میں چھپائےرکھا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر نے اپنی اسلامی زندگی کا آغاز هي تقیہ سے کیا ۔اور اس کی کوئی عاقل انسان مذمت بھی نہیں کر سکتا ؛ کیونکہ یہ ایک فطری عمل ہے ،اس کے برخلاف اگر کوئی دشمن کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرلے تووہ قابل مذمت ہے ۔

____________________

۱۔ صحیح بخاری ۵: ۶ باب اسلام عمر بن خطاب۔

۱۱۹

عبد اللہ ابن مسعود(ت ۳۲ ھ)اور تقیہ

عبداللہ ابن مسعود کہتا ہے : جب بھی مجھے کوئی ظالم و جابر اپنی مرضی کے مطابق الفاظ زبان پر لانے پر مجبور کرے جو ایک یا دو کوڑے لگنے سے بچنے کا سبب ہو تو ضرور وہ الفاظ زبان پر جاری کروں گا ۔

اسی کے ذیل میں ابن حزم کہتا ہے:اس بارے میں کسی بھی صحابی کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ بلکہ سب کا اتفاق ہے ۔(۱)

یہ بات تقیہ کے جائز ہونے اورسارے صحابہ کا اتفاق ہونے پر دلیل ہے اگر چہ جابر حکمران کے ایک یا دو تازیانے سے بچنے کیلئے ہی کیوں نہ کیا جائے ۔

ابن مسعود کا تقیہ کرنے کا دوسرا مورد ولید بن عقبہ کے پیچھے نماز پڑھنا ہے کہ

____________________

۱۔ المحلی ابن حزم ج ۸ ص ۳۳۶،مسالہ ۱۴۰۹۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

المؤمن،حرز المؤمن » کہا گیا ہے جس کے ذریعےاپنی جان اور دوسروں کی جان بچائی جاتی ہے۔

۳ ـ دوسروں کی حفاظت کرنا

کبھی اپنے عقیدے کا اظہار کرنا اپنے اثر رسوخ کی وجہ سے اپنی ذات کیلئے تو کوئی ضرر یا ٹھیس پہنچنے کا باعث نہیں بنتا، لیکن ممکن ہے یہی دوسروں کیلئے درد سر بنے ۔ ایسی صورت میں بھی عقیدہ کا اظہار کرنا صحیح نہیں ہے ۔

اهل بيت اطہار کے بعض اصحاب اور انصار کی حالات زندگی میں ایسے موارد دیکھنے میں آتےہیں کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم و جابر حکمرانوں کی طرفسے لوگ ان کا پیچھا کررہے تھے ، ان کا اپنے اماموں سے ملنا جابر حکمرانوں کا ان کی جانی دشمنی کا باعث بنتا تھا۔ان میں سے کچھ موارد یہ ہیں :

۱۸۱

ایک دن زرارہؓ نے جو امام باقراور امام صادقعليه‌السلام کے خاص صحابیوں میں سے تھے ؛ امام جمعہ کو امام کی طرف سے ایک خط پہنچایا ، جس میں امام نے جو لکھا تھا اس کا مفہوم یہ تھا : میری مثال حضرت خضرعليه‌السلام کی سی ہے اور تیری مثال اس کشتی کی سی ہے جسے حضرت خضرعليه‌السلام نے سوراخ کیا تاکہ دشمن کے شرسے محفوظ رہے ۔اور تیرے سر پر ایک ظالم اور جابر بادشاہ کھڑا ہے ، جو کشتیوں کو غصب کرنے پر تلا ہوا ہے ، جس طرح حضرت خضرعليه‌السلام نے اس کشتی کو سوراخ کیا تاکہ غاصب اس کو نہ لے جائے، اسی طرح میں بھی تمہیں محفلوں میں کبھی کبھی ڈراتااور مذمت کرتا رہوں گا ، تاکہ تو فرعون زمان کے شر سے محفوظ رہے ۔

تقيه کے حدود کو سرکرنے والوں کےسردار امام حسينعليه‌السلام فرماتے ہیں :

انّ التقية يصلح اﷲ بها امّة لصاحبها مثل ثواب اعمالهم فان تركها اهلك امّة تاركها شريك من اهلكهم ۔(۱)

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه، ج۴ ،باب ۲۷ ۔

۱۸۲

ایسا تقيه کرنے والاجوامت کی اصلاح کا سبب بنے تواسے پوری قوم کے اچھے اعمال کا ثواب دیا جائے گا ۔ کیونکہ اس قوم کی طاقت اور قوت کو زیادہ خدمت کرنے کیلئے اس نے محفوظ کیا ۔ لیکن اگرایسے موارد میں تقیہ کو ترک کرے اور ایک امت کو خطرے میں ڈالے تو ظالموں کے جرم میں یہ بھی برابر کا شریک ہوگا۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے موارد میں تقیہ کا تر ک کرنے والا قاتلوں کے جرم میں برابر کا شریک بنتا ہے۔(۱)

وہ روایات جو وجوب تقيه پردلالت کرتی ہیں

۱ ـ راوی امام صادقعليه‌السلام سے نقل کرتا ہے کہ آپ نے اس آیہ شریفہ« اوليك يؤتون اجرهم مرّتين بما صبروا »" وہ لوگ جنہیں ان کے صبر کے بدلے دو مرتبہ ثواب دیا جائے گا " کے ذیل میں فرمایا:

____________________

۱ ۔ تقيه سپري عميقتر، ص ۸۲۔

۱۸۳

بما صبروا علي التقية و يدرؤن بالحسنة السيّئة، قال : الحسنة التقية و السيّئة الاذاعة ۔(۱)

تقیہ پر صبر کرنے پر دوگنا ثواب دیا جائے گا اور یہ لوگ حسنات کے ذریعے اور سیئات کو دور کرتے ہیں اور حسنہ سے مراد تقیہ ہے اور سیئات سے مراد آشکار کرنا ہے ۔

۲ ۔ حسن كوفي نے ابن ابي يعفورسے اور اس نے امام صادقعليه‌السلام سے روایت کی ہے کہ امام ؑ نے فرمایا:

قال اتقوا علي دينكم احجبوه بالتقيه فانّه لا ايمان لمن لا تقية له انّما انتم في الناس كالنحل في الطير ولو انّ الطير يعلم ما في اجواف النحل ما بقي منها شيء الّا اكلته ولو ان الناس علموا ما في اجوافكم انّكم تحبونا اهل البيت عليهم‌السلام لاكلو كم بالسنتهم و لنحلوكم في السرّ والعلانية رحم الله عبدا منكم كان علي ولايتنا ۔(۲)

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ، باب امر بالمعروف، ص۴۶۰ ۔

۲ ۔ وسائل الشيعه ، باب امر بالمعروف ، ص ۴۶۱۔

۱۸۴

امامعليه‌السلام نے فرمایا: اپنے دین اور مذہب کے بارے میں هوشيار رہو اور تقیہ کے ذریعے اپنے دین اور عقیدے کو چھپاؤ ، کیونکہ جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئي ایمان نہیں ۔ اور تم لوگوں کے درمیان ایسے ہو جیسے پرندوں کے درمیان شہد کی مکھی ۔ اگر پرندوں کو یہ معلوم ہو کہ شہد کی مکھی کے پیٹ میں میٹھا شہد ہے تو کبھی شہد کی مکھی کو زندہ نہیں چھوڑتے ۔اسی طرح اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ تمہارے دلوں میں ہم اہل بیت کی محبت موجود ہے ، تو زخم زبان کے ذریعے تمہیں کھا جائیں گے ۔اور تم پر مخفی اور علانیہ طور پر لعن طعن کریں گے ۔خدا ان لوگوں پر اپنی رحمت نازل کرے جو ہماری ولایت کے پیروکار ہیں ۔

۳ ۔عن ابي جعفر عليه‌السلام : يقول لاخير فيمن لا تقية له، ولقد قال يوسف عليه‌السلام : ايّتها العير انّكم لسارقون و ما اسرقوا لقد قال ابراهيم عليه‌السلام : انّي سقيم و اﷲ ما كان سقيما ۔(۱)

امام باقرعليه‌السلام نے فرمایا : جس میں تقیہ نہیں اس میں کوئی خیر نہیں ۔ بہ تحقیق حضرت یوسفعليه‌السلام

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ، باب امر بالمعروف ، ص ۴۶۴۔

۱۸۵

نے فرمایا: ايّتها العير! بیشک تم لوگ چور ہو ۔ جبکه انہوں نے کوئی چیز چوری نہیں کی تھی ۔ اور حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے فرمایا میں بیمار ہوں۔خدا کی قسم !حالانکہ آپ بیمار نہیں تھے ۔

کیابطورتقیہ انجام دئے گئے اعمال کی قضا ہے؟

ہمارے مجتہدین سے جب سوال هوا : هل يجب الاعاده و القضاء في مقام التقيه أم تقول بالاجزاء؟ کيا تقيه کے طور پر انجام دئے گئے اعمال کا اعاده يا قضا کرناواجب هے يا نهيں ؟مجتہدین اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ علم فقہ کی دو قسم ہے :

الف: عبادات

ب: معاملات

عبادات سے مراد یہ ہے کہ ان کا انجام دینا تعبدی ہے کہ جن میں قصد قربت شرط ہے جیسے نماز ، روزہ اورحج وغیرہ۔ جب عبادت ایک زمانے سے مختص ہو جیسے نماز ظہر و عصر جو مقید ہے زوال شمس اور غروب شمس کے درمیان ادا کی جائے ، ورنه قضا ہوجائے گی۔

۱۸۶

پس خود عبادت کی دو قسمیں ہیں: ( ادائيه و قضائيه)

اگر عبادات ناقص شرائط يا اجزاء کے سا تھ ہوں تو وقت کے اندر ان کا اعادہ اور وقت کے بعدقضاء واجب ہے ۔

اب جو فعل تقیہ کے طور پر انجام پایا ہو وہ اگر عبادت ہے تواعادہ لازم نہیں ہے کیونکہ تقیہ میں ادا اور قضاء کی بحث ہی نہیں ہے ۔

شيخ مرتضیٰ انصاري اس سؤال کے جواب میں کہ کیا اعاده يا قضاء واجب ہے ؟ فرماتے ہیں اگر شارع اقدس نے واجب موسع کےتقیہ کے طور پر انجام دینے کی اجازت دی ہے ، تویہ اجازت یا کسی خاص مورد میں ہے یا عام موارد میں ۔ بعنوان مثال شارع اقدس نے اجازت دی ہے کہ نماز یا مطلق عبادات تقیہ کے طور پر انجام دی جائیں ، وقت ختم ہونے سے پہلے تقیہ کی علل و اسباب دور ہوجائیں تو یہ سزاوار ہیں کہ وہ اجزاء جو تقیہ کی وجہ سے ساقط ہوئے تھے انجام دیے جائیں لیکن اگر شارع نے واجب موسع کو تقیہ کی حالت

۱۸۷

میں انجام دینے کی اجازت دی ہے خواہ خصوصی ہو یا عمومی ، تو بحث اسی میں ہے کہ کیا یہ تقیہ والا حکم کو بھی شامل کرے گا یا نہیں ؟

بلكه آخر کلام یہ ہے کہ حالت تقیہ میں دیا گیا حکم مکلف سے ساقط ہو جاتا ہے ، اگرچہ وقت وسیع ہی کیوں نہ ہو۔(۱)

اس کے بعد شيخ انصاري تفصيل کے قائل ہوگئے ہیں :اگر یہ شرائط اور اجزاءکا شمول عبادات میں کسي بھي صورت ميں ضروري ہے خواہ اختیاری ہو یا اضطراری ، تو یہاں مولا کا حکم مکلف سےساقط ہو جاتا ہے کیونکہ اجزاء میں کمی بیشی تقیہ کی وجہ سے ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ معذور تھا ۔اگر چہ یہ عذر تمام وقت میں باقی رہے ۔ جیسے نماز کا اپنے وقت میں ادا کرنا ممکن نہیں مگر یہ کہ سرکہ کے ساتھ وضو کرے ۔باوجودیکہ سرکہ میں کوئی تقیہ نہیں ۔درنتیجہ نماز کا اصل حکم منتفی ہوجاتا ہے ، کیونکہ نماز کیلئے شرط

____________________

۱۔ التقيه في رحاب العلمين ، ص ۲۷۔

۱۸۸

ہے کہ پانی کے ساتھ وضو کرے ۔

لیکن اگر یہ اجزاءاورشرائط دخالت رکھتا ہو اور مکلف کیلئے ممکن بھی ہو تو واجب ہے ورنہ نہیں ۔

اگر یہ اجزاء تمام وقت میں ادا ہوں تو ان کا حکم پہلے ہی سے ساقط نہیں ہوتا بلکہ وہ اسے جتنا ممکن ہو انجام دیں ۔

اور اگراجزاء میں عذروقت کے اندر ہو ،خواہ اس عذر کا رفع ہونے کی امید ہو یا نہ ہو ، فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ وہ آخر وقت تک انتظار کرے یا انجام دیدے ۔

لہذا جو بھی عبادات تقیہ کے طور پر ادا کی گئی ہیں وہ عبادات صحیح ہیں کیونکہ شارع نے انہیں تقیہ کی حالت میں انجام دینے کی اجازت دی ہے ۔(۱)

____________________

۱۔ التقيه في رحاب العلمين ، ص ۲۸۔

۱۸۹

کیا خلاف تقيه کا عمل باطل ہے ؟

اگرکوئی مولا کے حکم کی مخالفت کرے اور اس کا عمل حکم شرعی کے مطابق نہ ہو تو وہ باطل ہوجاتا ہے ۔اور اگر کسی پر تقیہ کرنا واجب ہوگیا تھا لیکن اس نے تقیہ نہیں کیا تو کیا اس کا عمل بھي باطل ہوجائے گا یا نہیں ؟

شيخ انصاري فرماتے هيں : اگر تقیہ کی مخالفت کرے جہاں تقیہ کرنا واجب ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ بعض ترک شدہ عمل اس میں انجام پائے ۔ تو حق یہ ہے کہ خود تقیہ کا ترک کرنا عقاب کا موجب ہو گا ۔ کیونکہ مولا کے حکم کی تعمیل نہ کرنا گناہ ہے ۔

پس قاعدہ کا تقاضا یہ ہے کہ یہ فعل بھی باطل ہوگا ۔ بالفاظ دیگر ہم ادلہ کے تابع ہیں اور موارد تقیہ میں ہیں ۔ اس کے بعد شیخ ایک توہّم ایجاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شارع اقدس نے تقیہ کی صورت میں اسی فعل کا انجام دینے کا حکم دیا ہے ۔

۱۹۰

لیکن یہ توہّم صحیح نہیں ہے کیونکہ تقیہ کے ساتھ قید ایک بيروني قید ہے جس کا کوئی اعتبارنہیں ہے ۔اور نہ هي شرعی قید بطلان کا موجب ہے ۔(۱)

امام خميني اس عنوان «ان ترك التقية هل يفسد العمل ام لا؟» کے تحت فرماتے ہیں کہ اگر تقيه کے برخلاف عمل کریں تو صحيح ہے ، کیونکہ تقیہ کا حکم ہونا موجب نہیں بنتا کہ عمل سے بھی روکےجیسا کہ علم اصول کا مسلم قاعدہ ہے:

انّ الامر بالشيئ لا يقتضي النهي عن ضدّه ۔

امام خميني کے مطابق یہ ہے کہ چونکہ ایک عنوان سے روکا گيا هے اور دوسرے عناوین میں بطور مطلق تقیہ کے خلاف عمل کرنا صحیح ہے ۔(۲)

____________________

۱۔ التقيه في رحاب العلمين ، ص ۲۴۔

۲۔ التقيه في رحاب العلمين،ص۲۵۔

۱۹۱

وہ موارد جہاں تقيه کرنا حرام ہے

تقیہ عموما ً دو گروہ کے درمیان مورد بحث قرار پاتا ہے اور یہ دونوں کسی نہ کسی طرح صحیح راستے سے ہٹ چکے هوتے ہیں ۔اور اپنے لئے اور دوسروں کے لئے درد سر بنے هوتے ہیں:

پہلا گروه :

وہ مؤمنین جو ترسو اور ڈرپوک ہیں اور وه لوگ کوئی معلومات نہیں رکھتے، دوسرے لفظوں میں انہیں مصلحت اندیشی والے کہتے ہیں کہ جہاں بھی اظہار حق کو ذاتی مفاد اور منافع کے خلاف دیکھتے ہیں یا حق بات کا اظہار کرنے کی جرٲت نہیں ہوتي، تو فوراً تقیہ کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

التقية ديني و دين آبائي لا دين لمن لاتقية له ۔

تقیہ میرا اور میرے آباء و اجداد کا دین ہے ، جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں ہے ۔اس طرح دین اور مذہب کا حقیقی چہرہ مسخ کرتے ہیں ۔

دوسرا گروہ:

نادان یا دانا دشمن ہے جو اپنے مفاد کی خاطر اس قرآنی دستور یعنی تقیہ

۱۹۲

کےمفہوم کو مسخ کرکے بطور کلی آئین اسلام یا مذہب حقہ کو بدنام کرنے کی کوشش ميں لگا رهتا ہے ۔يه لوگ تقيه کے مفہوم میں تحریف کرکے جھوٹ ،ترس،خوف ، ضعیف ، مسئولیت سے دوری اختیار کرنا، ۔۔۔کا معنی کرتے ہیں ۔ سرانجام اس کا یہ ہے کہ و ہ اپني ذمه داري کو نبھانے سے دوري اختیار کرتے ہیں ،

ان دونوں گروہ کي غلطي دور کرنے کیلئے کافی ہے کہ دو موضوع کی طرف توجہ کریں ۔

۱۔ تقيه کامفهوم

مفهوم تقيه کے بارے میں پہلے بحث کرچکے ہیں ، کہ تقیہ کامعنی خاص مذہبی عقیدہ کا چھپانا اور کتمان کرنا ہے ۔ اور وسیع تر مفہوم یہ ہے کہ ہر قسم کے عقیدے ، فکر ، نقشہ، یا پروگرام کااظهار نه کرنا ،تقیہ کہلاتا ہے ۔

۲۔ تقيه کاحكم

ہمارے فقهاء اور مجتہدین نے اسلامی مدارک اور منابع سے استفاده کرتے ہوئے تقیہ کو تین دستوں میں تقسیم کیا ہے : ۱ ـ حرام تقيه ۲ ـ واجب تقيه ۳ جائز تقيه۔

۱۹۳

اور کبھی اسے پانچ قسموں میں تقسیم کرتے ہیں : مکروہ اور مباح کو بھی شامل کرتے ہیں ۔لہذا یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ تقیہ نہ ہر جگہ واجب ہے اور نہ ہرجگہ حرام یا مکروہ ، بلکہ بعض جگہوں پر واجب ،و مستحب اور بعض جگہوں پر حرام یا مکروہ هے۔اسي لئے اگر کسی نے حرام مورد میں تقیہ کیا تو گویا اس نے گناہ کیا ۔

كلي طورپر جب بھی تقیہ کر کے محفوظ کئے جانے والا ہدف کے علاوہ کوئی اور ہدف جو زیادہ مہمتر ہو ، خطرے میں پڑ جائے تو اس وقت تقیہ کا دائرہ توڑنا واجب ہے ، چوں کہ تقیہ کا صحیح مفہوم ؛ قانون اہم اور مہم کے شاخوں میں سے ایک شاخ ہے جب یہ دونوں ہدف آپس میں ٹکرا جائیں تو اہم کو لیتے ہیں اور مہم کو اس پر فدا کيا جاتا ہے۔

یہی اهم اور مهم کا قانون کبھی تقيه کو واجب قرار دیتا ہے اور کبھی حرام۔ روایات کي روشني میں بعض موارد ميں تقیہ کرنا حرام ہے ،اور وہ درج ذیل ہیں:

۱۹۴

۱۔ جہاں حق خطر ے میں پڑ جائے

جہاں اپنے عقیدے کو چھپانا مفاسد کا پرچار اور کفر اور بے ایمانی یا ظلم وجور میں اضافہ اور اسلامی ستونوں میں تزلزل اور لوگوں کا گمراہی اور شعائریا احکام اسلامی کا پامال ہونے کا سبب بنے تو وہاں تقیہ کرنا حرام ہے ۔ لہذا ایسے مواقع پر اگر ہم کہیں کہ تقیہ مباح ہے تو یہ بھی بہت بڑی غلطی ہوگی ۔ اور اس قسم کا تقيه « ويران گر تقيه » کہلائے گا ۔پس وہ تقیہ مجاز یا واجب ہے جو مثبت اورمفيد ہو اور اہداف کے حصول کی راہ میں رکاوٹ کا سبب نہ بنتا ہو۔

۲۔جہاں خون خرابہ کا باعث ہو

جہاں خون ریزی ہو اور بے گناہ لوگوں کی جان مال کو خطرہ ہو تو وہاں تقیہ کرنا حرام ہے ۔ جیسا کہ اگر کوئی مجھ سے کہہ دے کہ اگر فلاں کو تم قتل نہ کرو تو میں تجھے قتل کردوں گا۔ تو اس صورت میں مجھے حق نہیں پہنچتا کہ میں اس شخص کو قتل کروں ۔ اگرچہ مجھے یقین ہوجائے کہ میری جان خطرے میں ہے ۔

۱۹۵

ایسی صورت میں اگر کوئی کہہ دے کہ ہمارے پاس روایت ہےکہ (المأمور معذور )۔ لہذا اگر میں فلاں کو قتل کروں تو کوئی گناہ نہیں ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معروف جملہ «المامور معذور » سند کے لحاظ سے ضعیف ہے کیونکہ اس کی اصلی سند « شمر» تک پہنچتی ہے ۔(۱) اسے کوئی عاقل اور شعور رکھنے والا قبول نہیں کرسکتا۔کیونکہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنی جان بچانے کی خاطر کسی دوسرے بے گناہ کی جان لے لے ۔ اور اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ قاتل ہوگا ۔ چنانچه امام محمد باقرعليه‌السلام فرماتے ہیں :

انّما جعل التقية ليحقن بها الدم فاذا بلغ الدم فليس التقية ۔(۲)

تقيه شریعت میں اس لئے جائز قرار دیا ہے کہ قومی اور انفرادی قدرت ضائع نہ ہو ، اپنے اور دوسروں کے خون محفوظ رہیں ۔ اور اگر خون ریزی شروع ہوجائے تو تقیه جائز نہیں ہے ۔

____________________

۱۔ مكارم شيرازي؛ تقيه مبارزه عميقتر،ص ۷۱۔

۲ ۔ شيخ اعظم انصاري؛ مكاسب، ج ۲، ص ۹۸۔

۱۹۶

۳۔ جہاں واضح دليل موجود ہو

وہ موارد جہاں واضح طور پرعقلی اور منطقی دلائل موجود ہوں،جیسے اسلام میں شراب نوشی کی ممانعت هے يهاں تقيه کرکے شراب پينے کي اجازت نهيں هے ۔اور تقیہ حرام ہے یہاں عقیدہ چھپانے کی بجائے عقلی اور منطقی دلائل سے استدلال کریں ۔اور ایسا حال پیدا کریں کہ مد مقابل کو یقین ہوجائے کہ یہ حکم قطعی ہےاور اس کا اجراء کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔لیکن کبھی بعض ڈرپوک اور بزدل لوگ جب شرابیوں کے محفلوں میں پہنچ جاتے ہیں تو وہ بجائے اعتراض کرنے کے ، ان کے ساتھ ہم پیالہ ہو جاتے ہیں ۔ یا اگر نہیں پیتے تو کہتے ہیں کہ شراب میرے مزاج کیلئے مناسب نہیں ہے ۔لیکن یہ دونوں صورتوں میں مجرم اور خطاکارہے۔یا صراحت کے ساتھ کهه ديں کہ ہم مسلمان ہیں اس لئے شراب نہیں پیتے ۔

اسی طرح اجتماعی ، معاشرتی اور سیاسی وظيفے کی انجام دہی کے موقع پر بھی دو ٹوک جواب دینا چاہئیں ۔

۱۹۷

۴۔ جہاں احکام شریعت بہت زیادہ اہم ہو

بعض واجبات اور محرمات جو شارع اور متشرعین کے نزدیک زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ، وہاں تقیہ جائز نہیں ہے ۔جیسے اگر کوئی خانہ کعبہ کی بے حرمتی یا انہدام کرنے کی کوشش کرے یا اسی طرح اور دینی مراکز جیسے مسجد ، آئمہ کی قبور کی بے حرمتی کرے تو وہاں خاموش رہنا جرم ہے ، اسی طرح گناہان کبیرہ کے ارتکاب پر مجبور کرے تو بھی انکار کرنا چاہئے ۔ایسے موارد میں تقیہ ہرگز جائز نہیں ہے۔

۱۹۸

چھٹی فصل

تقیہ کے بارے میں شبہات اور ان کا مدلّل جواب

۱۹۹

چھٹی فصل:

تقيه کے بارے میں شبہات اور ان کا مدلّل جواب

آئمہ طاہرین کے زمانے میں دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں کی طرف سے شیعوں پر مختلف قسم کے شکوک و شبہات پیدا کرنے لگے؛ ان میں سے ایک تقیہ ہے ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336