تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں11%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86620 / ڈاؤنلوڈ: 3131
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ولید کبھی شراب پی کر مستی کی حالت میں مسجد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں آتا اور نماز جماعت پڑھاتا تھا ؛ ایک دن اس نے صبح کی نماز چار رکعت پڑھائی جب لوگوں نے تعجب کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ کانا پھوسی کرنے لگے تو کہا: کیا تمہارے لئے ایک رکعت کا اور اضافہ کروں ؟

ابن مسعود نے اس سے کہا :ہم آج کے دن کو ابتدا سے ہی زیادتی کے ساتھ شروع کریں گے ۔(۱)

ٍاور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابن مسعود اور دوسرے تمام نمازگزاروں نے فاسق اور شراب خور حاکم کے سامنے تقیہ کرتے ہوئے نماز یں ادا کی ہیں ۔ اور یہ وہی شخص ہے جسے عثمان کے زمانے میں شرابخوری کے جرم ميں کوڑے مارےگئے تھے ۔(۲)

____________________

۱۔ قاضی دمشقی، شرح العقیدہ الطحاویہ؛ ج۲،ص ۵۳۳۔

۲۔ صحیح مسلم،ج۳،ص ۱۳۳۱، کتاب الحدود ، باب الخمر۔

۱۲۱

ابو الدرداء(ت ۳۲ ھ)اور تقیہ

بخاری اپنی کتاب میں ابودرداء سے روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک گروہ کے سامنے مسکرا رہے تھے جب کہ اپنے دلوں میں ان پر لعنت بھیج رہے تھے ۔(۱)

ابو موسی اشعری(ت ۴۴ ھ)اور تقیہ

ابو موسی اشعری نے بھی اسی روایت کو اسی طرح نقل کیا ہے کہ ہم ایک گروہ کے سامنے مسکرا رہے تھے جب کہ اپنے دلوں میں ان پر لعنت بھیج رہے تھے ۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس گروہ سے مراد وہ ظالم اور جابر حکمران تھے ، کہ جن کے شر سے بچنے کیلئے تقیہ کرتے ہوئے ہم ان کے سامنے مسکرا رہے تھے۔(۲)

____________________

۱۔ صحیح بخاری، ج ۸ ص ۳۷ کتاب الادب ، باب المداراۃ مع الناس۔

۲ ۔ قرافی، الفروق ؛ ج۴ ، ص ۲۳۶۔

۱۲۲

ثوبان (ت ۵۴ ھ) غلام پیغمبر اور تقیہ

یہ بات مشہور ہے کہ ثوبان جھوٹ کو ان موارد میں مفید اور سود مند جانتا تھا جہاں سچ بولنا مفید نہ ہو ۔ غزالی (ت ۵۰۵ ھ) نے ان سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جھوٹ بولنا گناہ ہے سوائے ان موارد میں کہ جہاں کسی مسلمان کو نقصان اور ضرر سے بچائے اور فائدہ پہنچے ۔(۱)

ابو ہریرہ (ت ۵۹ ھ) اور تقیہ

ان کی زندگی کے بہت سارے واقعات ہیں جنہیں پڑھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ انہوں نے اموی حکومت والوں کے شر سے بچنے کیلئے تقیہ کو بہترین اور وسیع ترین وسیلے کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ ابوہریرہ واضح طور پر تقیہ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ اگر تقیہ نہ ہوتا تو میری گردن بھی اب تک اڑ چکی ہوتی ۔

____________________

۱۔ احیاء علوم الدین ؛ غزالی ،ج ۳،ص ۱۳۷۔

۱۲۳

صحیح بخاری لکھتا ہے کہ اسماعیل نے ہمارے لئے نقل کیا کہ میرے بھائی نے ابی ذئب سے انہوں نے سعید مقبری سے انہوں نے ابی ہریرہ سے روایت کی ہے کہ: دوچیزوں کو پیغمبر خدا سے ہم نے حفظ کیا ؛ ایک کو ہم نے پھیلا دیا اور دوسری کومخفی رکھا ۔ اگر اسے بھی آشکار کرتے تو میری گردن کٹ چکی ہوتی ۔(۱)

فقہ مالکی اورتقیہ

امام مالک بن انس ( ت ۲۷۹ ھ)کے تقیہ بارے میں پہلے بیان کرچکا ؛ جس میں ان کا کہنا تھا : کوئی بھی ایک بات جو جابر حکمران کے دو کوڑے سے بچنے کا باعث ہو ، اسے میں اپنی زبان پر جاری کروں گا۔(۲)

اسی طرح مالکی مذہب کے علماء بھی جبر اور اکراہ کے موقع پر کفر آمیز کلمات

____________________

۱۔ صحیح بخاری ، ، کتاب العلم، باب حفظ العلم ،ج۱، ص ۴۱ ۔

۲۔ مالک بن انس؛ المدونہ الکبری ، ج۳،ص۲۹، کتاب الایمان بالطلاق۔

۱۲۴

کا زبان پر لانے کو ، جب کہ اس کا دل ایمان سے پر ہو ؛جائز قرار دیتے ہیں ۔

ابن عربی مالکی (ت ۵۴۳ ھ) کہتا ہے کہ مؤمن تقیہ کرکے کافر ہوجائے لیکن ایمان سے اس کا دل مطمئن اور استوار ہو تو اس پر مرتد کا حکم جاری نہیں ہوگا ۔ وہ دنیا میں معذور اور آخرت میں بخشا جائے گا ۔

پھر صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ۔اسی کے ذیل میں مالکی مذہب کے ہاں اکراہ اور جبر کے موقع پر قسم کھانااور اس میں تقیہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؛ اس مورد میں تقیہ کے جواز پر حکم لگاتا ہے ۔(۱)

فقہ حنفی اورتقیہ

فقہ حنفی میں تقیہ کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔ان کے فقہاء بڑی دقت اور اہتمام

____________________

۱۔ ابن عربی؛ احکام القرآن ،ج۳، ص۱۱۷۷۔۱۱۸۲۔

۱۲۵

کے ساتھ تقیہ کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ ہم یہاں صرف ایک کتاب جس میں تقیہ کے کئی مورد بیان کیے گئے ہیں جو حنفی عالم دین فرغانی (ت ۲۹۵ ھ)نے قاضی خان کے فتاویٰ کو جمع کرکے لکھے ہیں ۔

پہلا مورد:

جب کسی شخص کو کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرنے پر مجبور کرے ، اور اگر نہ مانے تو اسے خود قتل کیا جائے گا یا اس کے بدن کا کوئی عضو کاٹا جائے گا ؛ تو کیا ایسے مورد میں اس پر اکراہ صادق آتا ہے ؟ اور کیا وہ ایک مسلمان کو قتل کرسکتا ہے ؟اگر جائز نہیں ہے تو کیا اس پر قصاص ہے ؟

ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اکراہ اس پر صادق آتا ہے اور قصاص مجبور کرنے والے سے لیا جائے گا نہ کہ مجبور ہونے والے سے ۔

ابو یوسف کہتا ہے کہ اکراہ صحیح ہے اور قصاص کسی پر بھی واجب نہیں ہے لیکن مقتول کی دیت مجبور کرنے والے پر واجب ہے کہ تین سال کے اند ر مقتول کے وارث کو دی جائے !!!

۱۲۶

امام مالک اور امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ اکراہ کرنے والا اور مجبور کئے جانے والا ، دونوں کو قتل کرناچاہئے ۔ اس کا مطلب يه هے که ابوحنيفه ،امام مالک،امام شافعي اس بات کے قائل هيں که مجبور شخص دوسرے انسان کو قتل کرسکتاهے ۔(۱) جب که شيعوں کےنزديک مجبور شخص ، خود قتل تو هو سکتا هے ليکن کسي کو وه قتل نهيں کرسکتا ۔

دوسرا مودر:

کسی فعل کا انجام دینا اس کے ترک کرنے سے بہتر ہے تو ایسی صورت میں تقیہ جائز ہے ۔ اور جب بھی اس فعل کے ترک کرنے سے وہ گناہ کا مرتکب ہوجائے تو اس پر تقیہ کرنا واجب ہے ۔جیسے اگر کسی کوخنزير کا گوشت کھانے ، یا شراب پینے پر مجبور کیا جائے تو مجبور ہونے والے کو کھانا اور شراب کا پینا جائز ہے ۔ اسی طرح کوئی پیغمبراسلام (ص) کی شان میں گستاخی کرنے اور زبان پر کفر آمیز الفاظ کے استعمال کرنے پر مجبور ہو جائے

____________________

۱۔ فرغانی؛ فتاوی قاضی خان؛ ،ج ۵،ص ۴۸۴۔

۱۲۷

تو جائز ہے ، جب کہ اس کا دل رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان اور ان کی محبت سے پر ہو۔

تیسرا مورد:

اگر کسی عورت کو قید کرکے اسے زنا کرنے پر مجبور کیا جائے ،اور وہ زنا کرلے تو اس پر کوئی حد جاری نہیں ہوگی ۔

جب که شيعوں کے نزديک مجبوري کي حالت ميں بھي زناجائز نہیں ہے ۔(۱)

چوتھا مورد :

اگر کسی مرد کو مجبور کرے کہ ماہ رمضان میں اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کرے یا کوئی چیز کھائے یا پئے ، تو اس پرکوئی کفارہ نہیں ہے لیکن اس روزے کی قضا اس پر واجب ہوگی۔(۲)

____________________

۱ ۔ فرغانی؛ فتاوی قاضی خان ، ج ۵،ص ۴۹۲۔

۲ ۔ فرغانی؛ فتاوی قاضی خان ، ج ۵ ، ص ۴۸۷۔

۱۲۸

فقہ شافعی اورتقیہ

فقہ شافعی(ت، ۲۰۴) ،میں تقیہ وہاں جائز اور مباح ہے، جهاں مجبور ہونے والے کيلئے جائز ہو ؛جيسے: کفر آمیز کلمات کا زبان پر جاری کرنا ، جبکہ اس کا دل ایمان سے پر ہے ۔شافعی کے نزدیک وہ شخص ایسا ہے جیسے اس نے زبان پر ایسا کوئی کفر آمیز کلمہ جاری ہی نہیں کیا ہے ۔اس بات کو عطاء بن ابی ریاح (ت ۱۱۴ ھ)کی طرف نسبت دی گئی ہے جو بڑے تابعین میں سے ایک ہے ۔(۱)

اسی طرح ابن حجر عسکلانی شافعی (ت ۸۲۵ ھ) نے بھی مجبور ہونے کی صورت میں تقیہ کرنے اور کفر آمیز الفاظ زبان پر جاری کرنے کی اجازت دی ہے ۔(۲)

تقیہ کا ایک اور مورد جسے سیوطی شافعی (ت ۹۱۱ ھ) نے بیان کیا ہے : وہ صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ جب بھی زبان پر کفر کا اظہار کرنے پر مجبور ہوجائے تو اپنی جان بچانے کی

____________________

۱ ۔ امام شافعی ؛ احکام القرآن ، ج۲، ص ۱۱۴۔۱۱۵۔

۲ ۔ ابن حجر عسکلا نی ؛ فتح الباری ،ج۱۲، ص ۲۶۳۔

۱۲۹

خاطر زبان پر کفر کا اظہار کرنا افضل ہے ۔آگے لکھتا ہے کہ اسی طرح جب بھی مجبورہوجائے شراب پینے پر ، پیشاب پینے پر ،خنزیر کا گوشت کھانے پر ، دوسروں کا مال تلف کرنے پر، دوسرے کی غذا کھانے پر، جھوٹی گواہی دینے پر، رمضان میں روزہ توڑنے پر، واجب نماز کے ترک کرنے پر ،۔۔۔ تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ انہیں انجام دے ۔ان کی تعبیر یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو خدا کی بارگاہ میں توبہ کے ذریعے ساقط ہو سکتی ہے ، اکراہ کے ذریعے بھی ساقط ہوسکتی ہے ۔(۱)

فقہ حنبلی اورتقیہ

ابن قدامہ حنبلی (ت ۶۲۰ ھ)نے حالت اکراہ میں تقیہ کے مباح ہونے پروضاحت کی ہے کہ مجبور شخص کا فعل، تہدید اور اکراہ کی وجہ سےجائز ہوجائے گا اورحد بھی جاری نہیں ہوگی۔(۲)

____________________

۱۔ سیوطی؛ الاشباہ و النظایر فی قواعد و فروع الفقہ الشافعی ، ص ۲۰۷ ۔۲۰۸

۲ ۔ ابن قدامہ ، المغنی ،ج ۸ ،ص ۲۶۲۔

۱۳۰

فقہ حنبلی میں تقیہ کے موارد میں ذکر ہوا ہے کہ کفرآمیز کلمہ پر اگر اکراہ کیا جائے تو اس کیلئے جائز ہے حنبلی مذہب کے مفسروں نے لکھا ہے :

ابن جوزی نے وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ کفر پر مجبور کرنے کی صورت میں تقیہ کرنا جائز ہے ۔

احمد بن حنبل (ت ۲۴۱ ھ) کا اس بارے میں نظریہ ہے کہ اگر مجبور شخص اس فعل کو انجام نہ دے تو جابر اسے قتل کرے گا یا اس کےجسم کا کوئی حصہ کاٹ دیا جائے گا ، دونوں صورتوں میں تقیہ کرنا اس کیلئے جائز ہے ۔(۱)

ابن قدامہ کا نظریہ یہ ہے کہ اگر کسی کو کفر آمیز کلمہ زبان پر لانے پر مجبور کیا جائے تو تقیہ کرے اور اس پر مرتد کا حکم نہیں لگے گا ۔ ان کا کہنا ہے کہ مالک، شافعی اور ابوحنیفہ کی بھی یہی رائے ہے ۔

____________________

۱۔ ابن جوزی؛ زاد المسیر ، ج۶ ، ص ۶۹۶۔

۱۳۱

ابن قدامہ اپنے نظریے کی تائید کیلئے قرآن کریم اور سنت نبوی سے استدلال کرتا ہے ۔(۱)

امام شافعی اور تقیہ

دو جگہوں پر امام شافعی نے تقیہ کیا ہے اور دونوں مورد ہارون الرشید کے ساتھ پیش آئے:

۱ ۔سارے تاریخ دانوں کے ہاں مشہور ہے کہ امام شافعی نے ایک مدت تک یمن میں اپنی زندگی گزاری اور یمن کے اکثرلوگ علوی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ۔ اور شافعی بھی علویوں کی طرف مائل ہوئے اور یہاں سے ان پر قسم قسم کی مشکلات آنا شروع ہوئیں۔ یہاں تک کہ ان کے اپنے قبیلے میں وه شیعہ مشہور ہوگئے۔ یہ بات ہارون الرشید کے جاسوسوں پر مخفی نہ رہی ، حماد بربری نےیمن سے ہارون الرشید کو ایک خط لکھا اور اسے علویوں کی

____________________

۱۔ ابن قدامہ ؛ المغنی ؛ ، ج۱۰، ص ۹۷۔

۱۳۲

طرف سے خطرے کا احساس دلایا ، اور شافعی کے وجود کو ان کیلئے بہت ہی خطرناک قرار دیا اور کہا کہ شافعی کی زبان سے جو بات نکلتی ہے وہ تلوار سے زیادہ تیز ہے ۔ اس لئے ہارون نے یہ دستور دیا کہ شافعی کو بعض علوی اکابرین کے ساتھ بغداد بھیجا جائے ۔جب یہ لوگ بغداد پہنچے تو ہارون نے سارے علویوں کے قتل کا حکم دیا اور بے چون و چرا سب کو قتل کیا گیا ۔ لیکن شافعی نے تقیہ کے طور پر ایک جملہ کہا جو حقیقت پر مشتمل نہیں تھا ، اس نے ہارون سے کہا : کیا میں اس شخص کو ترک کردوں جو کہتا ہے ، میں ان کا چچا زاد بھائی ہوں ؟! اور اس شخص کی جانب داری کروں کہ جو کہتا ہے کہ میں اس کا خادم اور غلام ہوں ؟!!(۱)

شافعی کا یہ جملہ مؤثر ہوا اور ان کی جان بچ گئی ۔

۲ ۔ تقیہ کا دوسرا مورد پہلا مورد سے زیادہ واضح تر اور آشکار تر ہے : ایک دن شافعی کو زنجیروں میں بندھے ہوئے ہارون کے دربار میں لایا گیا ۔جس میں ان کے کچھ دشمن

____________________

۱۔ بیھقی ؛ مناقب الشافعی ، ج۱،ص ۱۱۲۔

۱۳۳

بھی موجود تھے ؛ جن میں سے ایک بشر مریسی معتزلی (ت ۲۱۸ ھ)تھا ۔اس نے حکم دیا کہ شافعی کو اور سخت سزا دی جائے جسے ہارون الرشید سن رہا تھا ؛ شافعی سے کہنے لگا: تو اجماع کا مدّعی ہے کیا کوئی ایسی چیز کا علم ہے جس پر لوگوں کا اجماع قائم ہوا ہو ؟ شافعی نے جواب دیا : اسی امیرالمؤمنین پر لوگوں نے اجماع کیا ہے ۔ جو بھی ان کی مخالفت کرے گا، وہ مارا جائے گا ؛ ہارون ہنس پڑا ، پھر حکم دیا کہ زنجیروں کو کھول کر انہیں آزاد کر دیا جائے ،پھر ان کو اپنے پاس بٹھاکر ان کا احترام کرنے لگا۔(۱)

امام مالك او رتقيه

جب تک بنی عباس کا حکم ظاہر نہیں ہوا اس وقت تک بنی امیہ کے دور میں مالک نے امام صادقعليه‌السلام سے روايت نقل نہیں کی ۔یہ اپنی جان و مال کے خوف اور تقیہ کے سواکچھ نہیں تھا ۔

پس ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیسے آپ کے اماموں کیلئے تقیہ کرنا

____________________

۱۔ ابونعیم، حليۃ الاولیاء ؛ ج ۹ ، ص ۸۲۔۸۴

۱۳۴

جائز ہوا اور ہمارے لئے تقیہ جائز نہیں ؟ اس کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ تعصب کی بنا پر يه لوگ ایک جائز اور قرآنی حکم کا مزاح کر رهے هيں۔

ابو بكرا ور تقيه

مكه اور مدينه کے درمیان میں پیغمبراسلام (ص) کے همراه ا يك اونٹ پر سوار تھا ۔اور اس سے پہلے بھی ابوبکر کا مکہ اور مدینے میں آنا جانا رہتا تھا ۔راستے سے بخوبی واقف تھا ۔۔۔ جب ابوبکر سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ کون ہے ؟ تو اس نے کہا : یہ میرا رہنما ہے ۔

واقدي کہتا ہے :رسول خدا (ص) ابو بكر کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے اور جس سے بھی ملاقات کرتے تھے اور پوچھتے جاتے تھے کہ یہ کون ہے تیرے ساتھ؟ تووه کبھي نہیں

۱۳۵

کہتے تھے که: یہ رسول خدا (ص) ہیں بلکہ وه کهتےتھے کہ یہ میرا رہنما ہے ۔(۱)

امام احمد بن حنبل اور تقيه

مامون کے بعدمعتصم عباسي نے دوسری مرتبہ احمد حنبل کا امتحان لیا اور پوچھا: تيرا قرآن کے بارے میں کیا عقيده ہے ؟

چونکہ اس وقت عرب اور یونان کے فلاسفروں اور دانشمندوں کے درمیان قرآن کے قدیم یا حادث ہونے میں اختلاف پایا جاتا تھا ؛ احمد بن حنبل نے کہا: میں ایک دانشمند انسان ہوں لیکن اس مسئلے کو نہیں جانتا ۔ خلیفہ نے سارےعلماء کو جمع کیا تاکہ اس کے ساتھ علمی بحث شروع کریں ۔ عبد الرحمن نے احمد کے ساتھ بحث شروع کی ، لیکن قرآن کے مخلوق ہونے کا اعتراف نہیں کیا ،جب اسے کئی کوڑے لگے تو اسحق نے ان کے ساتھ مناظرہ کی خلیفہ سے اجازت مانگی تو خلیفہ نے بھی اجازت دے دی ۔

اسحاق: یہ جو علم تیرے پاس ہے اسے کیا کسی فرشتے کے ذریعے سے تم پر الہام ہوا ہے

____________________

۱ ۔ محب الاسلام، شيعه مي پرسد،ج۲،ص ۲۷۴۔

۱۳۶

یالوگوں سے حاصل کیا ہے ؟

احمد: دانشمندوں سے سیکھا ہے ۔

اسحاق: تھوڑا تھوڑا کرکے حاصل کیا ہے یا ایک ہی مرتبے میں؟

احمد:تھوڑا تھوڑا اور بتدریج حاصل کیا ہے ۔

اسحاق:کیا مزید علم باقی ہے جو تو نے نہیں سیکھا ہے؟

احمد: ہاں ضرور باقی ہے ۔

اسحاق: قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ اسی علم کی وجہ سے ہے جو ابھی تک نہیں سیکھا ہے اور امير المؤمنين تجھے سکھائے گا۔

احمد: امير المؤمنين کی اسی بات کو قبول کرتا ہوں ۔

اسحاق :کیا قرآن کے مخلوق هونے میں؟

احمد: ہاں قرآن کے مخلوق هونے میں۔

ان کے اس اعتراف پر گواہ رکھ کر اسے شاہی لباس تحفہ دیا اور آزاد کردیا۔(۱)

____________________

۱ ۔ تاريخ يعقوبي، ج ۳، ص ۱۹۷۔

۱۳۷

امام اهل سنت احمد بن حنبل کے اس مناظره پر مشهور ومعروف اديب اور دانشمند ”جاحظ“نے ایک اچھی تفسیر لکھی ہے ۔ جاحظ اپنے اس رسالے میں اہل سنت سے مخاطب ہے کہ تمہارے امام احمد بن حنبل نے رنج اور امتحان کے بعد اعتراف کرلیا ہے : سوائے کافرستان کے کہیں اور تقیہ جائز نہیں ہے ۔ ليکن ان کا قرآن کے بارے میں مخلوق ہونے کا اعتراف کرنا تقیہ کے سوا کچھ اور تھا ؟! اور کيا یہ تقیہ دار الاسلام میں انہوں نے نهيں کیا جو اپنے عقیدے کی تکذیب کررہا ہے ؟! اگر ان کا اقرار صحیح تھا تو تم ان سے اور وہ تم سے نہیں ہیں ۔

شيعه ان لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ حجر بن عدی اور يزيد بن صوحان عبدي جو علی کے ماننے والےتھے ان کا معاویہ کا ظالمانہ اور جابرانہ دربار میں علی کا مدح کرنا کیا تقيه تھا ؟!

بس يه ماننا پڑے گا که شيعه هر جگه تقيه کو روا نهيں سمجھتے ، بلکه جهاں جائز هو وهاں تقيه کرتے هيں۔

۱۳۸

حسن بصری (ت ۱۱۰ ھ)اور تقیہ

یہ تابعین میں سے تھا کہتا ہے کہ تقیہ قیامت تک کيلئے جائز هے۔(۱) یہ ان لوگوں میں سے تھا جو صحابہ کےحالات سے واقف تھے۔اس قول کو یا ان سے سنا ہے یا اس نے اس مطلب کو قرآن سے لیا ہے ۔(۲)

بخاری (ت ۲۵۶ ھ) اور تقیہ

بخاری نے اپنی مشروعیت تقیہ پر لکھي هوئي کتاب "الاکراہ " میں مختلف روایات کو دلیل کے طور پر نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری کا نظریہ کیا ہے ؟ وہ اس آیہ شریفہ کو نقل کرتا ہے :

( ومَن كَفَرَ بِاللهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهُ مطْمَئنِ‏ بِالْايمَانِ وَ لَاكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا

) ____________________

۱۔ طبری ؛ جامع البیان ، ج۶، ص ۳۱۶۔

۲۔ تقیہ از دیدگاہ مذاہب و فرقہ ہای اسلامی غیر شیعی،ص۱۲۶۔

(

۱۳۹

فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۔(۱)

جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلے ۔۔۔۔ علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو ۔۔۔۔اور کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو اس کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔

( لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَ مَن يَفْعَلْ ذَالِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ فىِ شى‏ءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَئةً ) (۲)

خبردار صاحبانِ ایمان ۔مؤمنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے ۔(۳)

____________________

۱ ۔ نحل ۱۰۶۔

۲۔ آلعمران ۲۸۔

۳۔ صحیح بخاری، کتاب الاکراہ ۔

۱۴۰

وہابی مذہب کے علمائےرجال اور تقیہ

وہابی مذہب کے علمائےرجال تقیہ کا انکار نہیں کرتے ، بلکہ واضح طور پر تمام مسلمانان عالم کے سامنے تقیہ کو بروئے کار لاتے ہیں جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ بڑے بڑے اولیاء اور صالحین کے قبور کو گرانا ، لیکن قبر مبارک پیغمبر اور ابوبکراور عمر کے قبور کو باقی رکھنا تقیہ کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ۔ ان کا قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اصحاب کے قبور کو باقی رکھنا کئی ملین مسلمانوں کے دلوں کو آزار پہنچنے سے بچانا ہے اور یہی تقیہ ہے ۔(۱)

اس سے معلوم ہوا کہ تقیہ اختیاری طور پر بغیر کسی جبر و اکراہ کے جائز نہیں ۔اس بات پر سارے علماء کا اتفاق ہے کہ تقیہ صرف جبر و اکراہ کی صورت میں جائز ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب اسلامی کی فقہی کتابوں میں "باب الاکراہ "کے نام سے الگ باب ہے ۔

__________________

۱۔ تقیہ از دیدگاہ مذاہب و فرق اسلامی غیر شیعی، ص ۱۶۶۔

۱۴۱

چوتھی فصل

جواز تقیہ کے دلائل

۱۴۲

چوتھی فصل : جوازتقيه کےدلائل

مقدمه

تمام دلائل کی بررسی کرنے سے پہلے اس محل بحث کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ چنانچہ اس فصل میں درج ذیل عنوانات پر گفتگو ہوگی:

۱۴۳

۱. شیعوں کے نزدیک تقیہ کی مشروعيت مسلمات میں سے ہے ۔ صرف ایک دو موارد میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے کہ جائز ہے یا نہیں ۔ اور وہ بھی آئمہ معصومین سے مربوط ہے ۔ لیکن اس کے مقابلےمیں اہل سنت کے نزدیک کیا تقیہ جائز ہے یا نہیں ؛ بحث کریں گے ۔

۲. چونكه ہماری بحث اهل سنت سے ہے لہذا دلائل ایسے ہوں جن کے ذریعے اہل سنت کے ساتھ استدلال کیا جاسکے ۔اس لئے هم کوشش کريں گے که زياده تر دلائل قرآن مجید،عقل اور سنت کے علاوہ اهل سنت کي کتابوں سے پيش کريں۔

۳. مشروعیت تقیہ سے مراد ، اصل جواز تقیہ ہے جو وجوب ، استحباب ، مباح، اور کراہت کو بھی شامل کرتا ہے ۔

۴. مشروعیت تقیہ کے بارے میں شیعوں اور اہل سنت حضرات کے درمیان ابتدائے اسلام میں کوئی اختلاف نہیں پایاجاتا ۔کیونکہ قرآن کریم نے اسے ثابت کیا ہے ۔ اصل اختلاف شیعہ اور اہل سنت کے درمیان دو نقطوں پر ہے:

الف: کیا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ تقیہ کر سکتا ہے یا نہیں؟ جیسا کہ شیعہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

ب: اس بات کو تو سب مانتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں تقیہ جائز تھا کیونکہ اس وقت اسلام

۱۴۴

اور مسلمانان ضعیف تھے ۔لیکن اب چونکہ اسلام ایک قدرت مند اور عزت مند اور بڑی شان وشوکت والا دین بن چکا ہے تو کیا اب بھی تقیہ کرنا مناسب ہے ؟

انهي سوالات اور اشکالات کے جواب ميں هم قرآن ، سنت ،اجماع ،عقل اور فطرت سے استدلال کريں گے :

الف: قرآن

قرآن مجيد نے کئی موقع پر تقیہ کے مسئلے کو بیان کیا ہے ؛ کبھی تقیہ ہی کے عنوان سے تو کبھی کسی اور عنوان سے اشارہ کیا ہے کہ تقیہ قرآنی احکام کے مسلمات میں سے ہے :سوره غافر میں اس مرد مجاهد ، فدا كاراور وفادارکا ذکر ہوا ہے ، جو فرعون کے دربار میں ایک خاص اور حساس مقام کا مالک ہے ۔ اور حضرت موسیعليه‌السلام کے آئین پر محکم ایمان رکھنے والا ہے ، جس نےاپنے ایمان کو دل میں چھپا رکھا ہے تاکہ اپنے دوستوں کی

۱۴۵

ضرورت کے وقت اس سے استفادہ کیا جائے ۔ جس کے بارے میں فرمایا:

( وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللهُ وَقَدْ جَاءكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ) ۔(۱)

اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے؟ اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے ۔

یہ آیہ شریفہ مؤمن آل فرعون کی استدلالی اور منطقی بات کی طرف اشارہ ہے

____________________

۱۔ سوره غافر / ۲۸۔

۱۴۶

جب فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔

انہوں نے فرمایا: موسیٰ الله کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور قابل مطالعہ اور اچھی دلیل بھی ساتھ بیان کررہے ہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں:

یا وہ جھوٹ بول رہے ہیں ،ایسی صورت میں وہ خود رسوا اور ذلیل ہونگے اور قتل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ کیونکہ قتل کرنا انہیں افکار عمومی میں ایک کامیاب اور فاتح ہیرو اور لیڈر بنادے گا ۔ اور ان کے پیچھے ایک گروہ ہمیشہ کیلئے چلنے کی کوشش کرے گا ، اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں میں زندہ رہیں اور لوگ خود ان سے دور ہو جائیں ۔

یا واقعاً وہ سچ کہہ رہےہیں اور خدا کی طرف سے آئے ہیں ، اس صورت میں جس چیز کی وہ تہدید کر رہےہیں ممکن ہے وہ واقع ہوجائے۔ ہمارا ان کے ساتھ حساب کتاب بالکل صاف ہے اس لئے انہیں قتل کرنا کسی بھی صورت میں عاقلانہ کام نہیں ہوگا۔ان کلمات کے ساتھ لوگوں کو اور بھی کچھ نصیحتیں کی ۔اس طرح فرعونیوں کے دل میں وحشت اور رعب ڈال دیا ، جس کی وجہ سے وہ لوگ ان کے قتل کرنے سے منصرف ہوگئے ۔

۱۴۷

قرآن اس آیہ شریفہ میں مؤمن آل فرعون کے عقيده کے چھپانے کو ایک اچھا اور نیک عمل بتارها ہے ، کیونکہ انہوں نے ایک بہت بڑے انقلابی رہنما کی جان بچائی اور دشمنوں سےنجات دلائی۔اس سے معلوم ہوا کہ تقیہ عقیدہ کے چھپانے کے سوا کچھ نہیں ۔

سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اس مرد مجاہد کے اس عمل کو اس حساس موقع پرایک عظیم ہدف کے بچانے کی خاطر فدا کاری اور جہاد کے علاوہ کچھ اور کوئي نام دےسکتا ہے ؟!

کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ اگر یہ مرد مؤمن تقیہ کی اس تکنیک سے استفادہ نہ کرتے تو حضرت موسیعليه‌السلام کی جان خطرے میں پڑ جاتی ۔

حضرت ابراهيم تقیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

( فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ فَرَاغَ إِلَى آلِهَتِهِمْ فَقَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ مَا لَكُمْ لَا تَنطِقُونَ فَرَاغَ

۱۴۸

عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِين ) ۔(۱)

پس وہ اپنی قوم سے کہنے لگے: میں بیمار ہوں اور میں تمہارے جشن میں نہیں آسکتا ۔ قوم نے بھی انہیں چھوڑ دیا ۔ ابراہیمعليه‌السلام نے بھی بت خانے کو خالی پایا ؛بتوں کو توڑنے کی نیت سے چلے اور تمام بتوں کو مخاطب کرکے کہا:تم لوگ اپنے بندو ں کے رکھے ہوئے کھانوں کو کیوں نہیں کھاتے ہو؟ بات کیوں نہیں کرتے ہو؟ تم کیسے بے اثر اور باطل خدا ہو؟! پھر ایک مضبوط اور محکم کلہاڑی اٹھائی اور سب بتوں کو توڑ ڈالا سوائے ایک بڑے بت کے۔

ان آیات اور روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم بتوں کو توڑنے کا ایک وسیع اور دقیق پروگرام بناچکے تھے ، اور اس پروگرام کا اجراء کرنے کیلئے ایک خاص اور مناسب موقع اور فرصت کی تلاش میں تھے ۔ یہاں تک کہ وہ وقت اور عید کا دن آگیا اور اپنا کارنامہ انجام دیا ۔ یہ دن دولحاظ سے زیادہ مناسب تھا کہ ایک تو سب لوگ شہر سے دور نکل چکے تھے جس کی وجہ سے اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دے سکتے تھے اور دوسرا یہ کہ لوگوں کو چونکہ تہوار کے ختم ہونے کے بعد بت خانے میں عبادت کیلئے آناتھا، لہذا لوگوں کے افکار اور احساس کو بیدار کرنے اور ان کو نصیحت

____________________

۱ ۔ سوره صافات / ۸۹ ـ ۹۳۔

۱۴۹

کرنے کیلئے یہ دن اور وقت زیادہ موزوں تھا ۔ اور آپ کا یہ کام اس بات کا باعث بنا کہ لوگ سوچنے لگے اور شہر بابل والے ظالم و جابر حکمرانوں کے چنگل سے آزاد ہوگئے ۔

لوگوں کو آپ پر شک تو ہوچکا تھا لیکن آپ نے اپنے عقیدے کو مکمل طور پر چھپا رکھا تھا اور لوگوں کے دعوت کرنے پر کہا کہ میں بیمار ہوں ۔:فقال اني سقيم ۔ جبکہ آپ کے جسم مبارک پر کوئی کسی قسم کی بیماری موجود نہیں تھی ۔لیکن آپ نے اپنے اس عظیم ہدف کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر توریہ کیا ، کیونکہ آپ کی بیماری سے مراد روحانی بیماری تھی جو کہ آپ لوگوں کا خدا کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا کرنے کی وجہ سے محسوس کررہے تھے ۔

۳ ـ تکنیکی تقیہ کے موارد میں سے ایک مورد حضرت مسیح کی جانب سے بھیجے ہوئے مبلغین کی داستان ہے جو انطاکیہ شہر کے لوگوں میں بھیجے گئے تھے ۔جن کے بارے میں فرمایا:

( إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ

۱۵۰

فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ ) (۱)

اس طرح کہ ہم نے دو رسولوں کو بھیجا تو ان لوگوں نے جھٹلادیا تو ہم نے ان کی مدد کو تیسرا رسول بھی بھیجا اور سب نے مل کر اعلان کیا کہ ہم سب تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔

اس ماجرے میں ان دونوں شخص کو انطاکیہ کے بت پرستوں کے اصولوں کے ساتھ ٹکراؤ کی وجہ سے انطاکیہ کے بادشاہ نے جیل میں ڈالديا۔ اور کوئی تبلیغی نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ لیکن تیسرےشخص کو، جو ان دونوں کی مدد کیلئے آئے تھے ناچار اپنا مبارزہ اور ان کے ساتھ مقابله کا راستہ تبدیل کرنا پڑا ۔پہلے اپنا عقیدہ چھپا تارها۔ تاکہ اپنی تدبیر ، فصاحت و بلاغت کے ساتھ حکومت کے امور میں مداخلت کرسکے ۔ اس کے بعد ایک مناسب فرصت اور موقع کا انتظار کرتے رہے تاکہ اپنے دوستوں کو نجات دلا سکے ۔اور اس شہر کے لوگوں میں اخلاقی ، اجتماعی اور فکری انقلاب برپا کرسکے۔اتفاقاً دونوں ہدف حاصل ہوئے کہ قرآن

____________________

۱۔ سوره يس ۱۴۔

۱۵۱

کریم نے اسے یوں تعبیر کیا ہے : ”( عززنا بثالث ) “ ہم نے اس تیسرے شخص کے ذریعے ان دونوں کی مدد کی اور ان کو عزت اور قوت بخشی ۔

اب سوال يه هے که کیا حضرت ابراهيم کا اپنا اعلیٰ ہدف کو چھپا رکھنا ترس اور خوف و ہراس کی وجہ سے تھا؟ یا اس اعلیٰ اور عظیم ہدف کو حاصل کرنے کیلئے مقدمہ سازی تھی؟!

کیا عيسي مسيحعليه‌السلام کی طرف سے بھیجے ہوئے تیسرے شخص بھی اپنے دوستوں کی طرح تلخ تجربات کے مرتکب ہوتے؟ اور خود کو بھی زندان میں ڈلوا دیتے ؟!یا یہ کہ روش تقیہ سے استفادہ کرکے تینوں دوستوں کو دشمن کے قید اور بند سے رہائی دلاتے؟!!

ان آیات سے بخوبی معلوم ہوتاہے کہ تقیہ کا ہدف اور فلسفہ کیا ہے اور اس کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟(۱)

____________________

۱۔ مكارم شيرازي؛ تقيه سپري عميقتر براي مبارزه،ص ۳۵۔

۱۵۲

کیا تقيه سے انکار ان آیتوں کا انکار نہیں؟!

شيعه، تقیہ کا انکار کرنے والوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر تقیہ جائز اور درست نہیں ہےتو ان آیات مبارکہ کا کیا کرو گے ؟ کیا ان آیات کیلئے کوئی شأن نزول نہیں ہے ؟ یا اہل قرآن کیلئے ان آیات کے ذریعے کوئی حکم بیان نہیں ہورہا ؟

اگر يه آيتيں کوئی شرعی تکلیف کو معین نہیں کرتیں تو نازل ہی کیوں ہوئیں؟ لیکن اگر کوئی شرعی حکم کو معین کرتی ہیں تو یہ بتائیں کہ وہ احکام کیا ہیں؟آیات شریفہ جو اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں ، درج ذیل ہیں:

( وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ ءَالِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلاً أَن يَقُولَ رَبىّ اللهُ وَ قَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَتِ مِن رَّبِّكُمْ وَ إِن يَكُ كَذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَ إِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِى يَعِدُكُمْ إِنَّ اللهَ لَا يهَدِى مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ يَاقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فىِ الْأَرْضِ فَمَن يَنصُرُنَا مِن بَأْسِ اللهِ إِن جَاءَنَا قَالَ فِرْعَوْنُ

۱۵۳

مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى‏ وَ مَا أَهْدِيكمُ‏ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ ) ۔(۱)

اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر بھی نازل ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے ۔میری قوم والو بیشک آج تمہارے پاس حکومت ہے اور زمین پر تمہارا غلبہ ہے لیکن اگر عذاب خدا آگیا تو ہمیں اس سے کون بچائے گا ؟فرعون نے کہا کہ میں تمہیں وہی باتیں بتارہا ہوں جو میں خود سمجھ رہا ہوں اور میں تمہیں عقلمندی کے راستے کے علاوہ اور کسی راہ کی ہدایت نہیں کررہا ہوں۔

( لا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكافِرينَ أَوْلِياءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنينَ وَ مَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ في‏ شَيْ‏ءٍ

) ____________________

۱۔ سوره غافر ۲۸ ـ ۲۹۔

(

۱۵۴

إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً وَ يُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ وَ إِلَى اللهِ الْمَصيرُ ) ۔(۱)

خبردار! اےایمان والو!مؤمنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے ۔

( مَن كَفَرَ بِاللهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهُ مُطْمَئنُ بِالْايمَانِ وَ لَاكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۔(۲)

"جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ کا انکار کرے (اس کے لئے سخت عذاب ہے) بجز اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں) لیکن جنہوں نے دل کھول کر کفر اختیار کیا ہو تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔"

____________________

۱ ۔ سوره آلعمران۲۸۔

۲ ۔ سوره نحل ۱۰۶ ۔

۱۵۵

ان آیات کریمہ سے تقیہ کی مشروعیت ثابت ہوگئی اب بات یہ ہے کہ اہل سنت کو کسی بھی دور میں تقیہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوئی کیونکہ وہ لوگ ہر دور کے حکمرانوں خواہ وہ ظالم وجابر ہی کیوں نہ ہوں ان کے خلاف کبھی کوئی آواز نہیں اٹھاتے بلکہ انہیں اولی الامر مانتے اور ان کی اطاعت کرتے لیکن اس کے برخلاف اہل تشیع نےکسی دور میں بھی حاکم وقت کو اولی الامر نہیں مانا بلکہ ظالم و جابر حمکرانوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہے جو ان حکمرانوں کے لئے قابل تحمل نہیں تھا جس کی بناء پر حکمران ،شیعیان امیرالمؤمنین ؑ کی جان و مال کے درپے رہے جس کی وجہ سے شیعیان علی ؑ تقیہ کرنے پر مجبور ہوتے رہے۔

ب: سنت

ہر دور ميں، تقیہ کو کامیابی کا راز تصور کیا جاتارہا ہے ۔ آپ کی تقریب ذہن کیلئے ہم کچھ مثالیں بیان کریں گے :

۱۵۶

۱۔تقيه، پیغمبرعليه‌السلام کی تدبير

پیغمبر اسلام (ص) کی شهامت ، شجاعت او رتدبيرکو سب دوست اور دشمن تسلیم کرتے ہیں۔

چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تین سال تک ” مخفيانه دعوت “ کرنا اور”مخفیانہ هجرت “ کرنا کہ جس کی وجہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن کے محاصرہ سے نکلنے میں کامیاب ہونا، اس کے بعدمدینہ تشریف لانے تک غار ثورمیں مخفی رہنا اور رات کی تاریکیوں میں چلنا اور دن کو مخفی رہنا ، یہ سب تقیہ کےاعتقادی یا عملی مصادیق میں سے ہیں ۔

۲ ۔تقيه،اعلیٰ اهداف کے حصول کا ذریعہ

۱۵۷

کیا کوئی شخص ایسے مسائل میں تقیہ کے اصولوں کا بروئے کار لانے کو نقطہ ضعف یا ترس یا محافظہ کاری کہہ سکتا ہے؟!

امام حسينعليه‌السلام كه جس نے تقیہ کے سارے نمونے کو پیروں تلے روند ڈالے ، لیکن جب بھی ضرورت محسوس کی کہ مقدس اور ابدی اہداف کے حصول اور ظلم وستم ، کفر و بے ایمانی اور ساری جہالت کے خاتمے کیلئے تقیہ کرتے ہوئے مکہ معظمہ سے نکلے جب کہ سارے مسلمان اعمال حج انجام دینے کی تیاریوں میں مصروف تھے ۔ اور اس کی وجہ بھی خود امام حسینعليه‌السلام نےبیان فرمائی تھی : اگرمیں چیونٹی کی بل میں بھی چھپ جاؤں تو یہ لوگ مجھےوہاں سے بھی نکال کر شہید کردیں گے ۔ اور اگر مکہ میں ٹھہر جاؤں تو حرم الہی کو میرے خون سے رنگین کریں گے اور خانہ کعبہ کی بھی بے حرمتی کریں گے ۔

تو اہل انصاف سے ہم یہی سوال کریں گے کہ امام حسینعليه‌السلام کا اس موقع پر تقیہ کرنا کیا عقل انسانی کے خلاف تھا ؟ یا عین عاقلانہ کام تھا ؟!

۱۵۸

۳۔ جنگ موته میں تقيه کاکردار

جنگ”موته“کے میدان میں مجاہدین اسلام کے صفوںمیں کچھ اس طرح سےترتیب دینا جو امپراتوري روم کے لاکھوں افراد پر مشتمل فوج کے ذہنوں میں تزلزل پیدا کرے اور نفسیاتی طور پر انہیں مفلوج کرے جو مسلمانوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھی ،اور یہ بہت مؤثر بھی رہا ۔

۴۔ فتح مكه میں تقيه کا کردار

پیغمبر اسلام (ص) نے مکہ فتح کرنے کی خاطر نہایت ہی مخفیانہ طور پر ایک نقشہ تیار کیا ؛ یہاں تک کہ انپے قریبی صحابیوں کو بھی پتہ چلنے نہیں دیا ۔ جس کے نتیجے میں مسلمان فتح مکہ جیسی عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوئے ۔اسی طرح بہت سے مواقع پر تقیہ کے اصولوں پر عمل کرکے فوجی طاقتوں اور اسلحوں کی حفاظت کی ۔

۱۵۹

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں خصوصاً ملکی حفاظت کرنے والوں کا سب سے پہلا اصول تقیہ اور کتمان ہے کہ دشمنوں سے ہر چیز کو چھپایا جائے تاکہ وہ ہم پر مسلط نہ ہوں ۔اس لئے جو بھی تقیہ کرنے پر اعتراض کرتاہے وہ در اصل تقیہ کے مفہوم اور معنی سے واقف نہیں یا کسی ایک خاص مکتب کو دوسرے مکاتب فکر کےسادہ لوح افراد کے سامنے متنفر کرنے کیلئے اس قرآنی اور عقلانی اصول کی اصل اور حقیقی شکل و صورت کو بگاڑ کر پیش کرتا ہے ۔ ہم اس سے کہیں گے کہ آپ کسی مکتب کی اہانت نہیں کررہےہو بلکہ در آپ اصل میں قرآن مجید کا مزاق اڑا رہے ہو۔

۵ ۔ تقيه دشمنوں کے مقابلے میں دفاعی وسیلہ

مجاہدین دشمنوں کے شر سے بچنے کیلئے تقیہ بروئے کار لاتے ہیں تاکہ اس تکنیک کے ذریعے دشمن کو غافل گیر کرکے مغلوب بنایا جائے ۔ اور میدان جنگ میں خود کامیابی سے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336