تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں11%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86600 / ڈاؤنلوڈ: 3126
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تقيه اسلام کی نگاہ میں

تأليف

غلام مرتضي انصاري

gmansari۶۱@gmail.com

۳

( بسم الله الرحمن الرحیم )

( مَن كَفَرَ بِاللهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهُ مُطْمَئنِ‏بِالْايمَانِ وَ لَاكِن مَّن شَرَحَ ) ( بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ )

( مِّنَ اللهِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۔ نحل/ ۱۰۶

"جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ کا انکار کرے (اس کے لئےسخت عذاب ہے) بجز اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں) لیکن جنہوں نے دل کھول کر کفر اختیار کیا ہو تو ایسے

لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔"

۴

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد لله ربّ العالمین والصلوه والسّلام علی محمد ٍ وآله الطاهرین المعصومین ولعته الله علی اعدائهم اجمعین الی قیام یوم الدین ۔

مقدمه

تقیہ ایک اسلامی اور قرآنی قانون اورحکم ہے جسے عقل بھی قبول کرتی ہے اور فطرت انسانی بھی ۔ اسی لئے ہر عاقل اور باشعور انسان اسے تسلیم کرتا ہے ۔ لیکن ایک متعصّب گروہ (وہابی)اہلبیت اطہارعليهم‌السلام کے ماننے والوں کی دشمنی میں تقیہ کا اصلی اسلامی چہرہ مسخ کرکے اسے منافقت ،بزدلی ، جھوٹ ، ۔۔۔ سے تشبیہ دے کر شیعیان حیدر کرار پر قسم قسم کی تہمتیں لگاتے ہیں ، جبکہ قرآن کی صریح آیتیں اس کی مشروعیت اور حقانیت پر دلالت کرتی ہیں ۔

اسی کے پیش نظر یہ کتاب لکھی گئی ہے کہ ان اعتراض کرنے والوں کوقرآن ، حدیث ،اجماع اور عقلی دلائل کے ساتھ اطمینان بخش اور مستدل جواب دیا جائے اور ان کے عزائم کو برملا کیا جائے ۔اس امید کے ساتھ کہ حقیقت کےطلب گاروں کے ذہنوں میں ان عناصر کی ایجاد کردہ اشکالات اور ابہامات اورغلط فہمیوں کو دور کرسکے، جو اس مکتب کے ماننے والوں کے بارے میں پیدا کی گئی ہیں ۔

چنانچه ان مباحث کے مطالعے سے معلوم ہوگا کہ تقیہ کا لغوی معنی اپنی جان بچانا ہے اور اصطلاحی تعریف ،دشمن کا ہم عقیدہ ہوکر باطن کے خلاف زبان پرکلمات ادا کرنا ہے ، اس شرط کے ساتھ کہ جو بات دل میں ہے وہ حق ہو۔یعنی دل میں ایمان اور زبان پرایمان کے خلاف کلمہ جاری ہو۔

۵

تقیہ کے شرائط ، آثار ، اقسام اور اس کی مشروعیت کو قرآن ، سنت ،عقل اور فطرت کے ذریعے ثابت کیا گیاہے ۔

تقیہ کی تاریخی حیثیت (قبل از اسلام اور بعد از اسلام )کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیاہے ۔

اسی طرح تقیہ کے واجب ہونے، مباح ہونے ، اور حرام ہونے کے موارد کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت کیا گیا هے کہ تقیہ صرف مکتب تشیع کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے تمام اسلامی اور غیر اسلامی مکتب فکر والے بھی تقیہ کرنے کو ایک عاقلانہ فعل سمجھتے ہیں ۔اگر کوئی اس کو عقل اور شریعت کے خلاف سمجھتا ہے تو خود اس کی عقل اور عقیده پر شک کرنا چاہئے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ قرآن اور روایات میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اللہ کے پاک نبیوںؑ کی سیرت میں بھی جگہ جگہ ملتا ہے تو پھر کیوں صرف شیعوں پر الزام تراشی کرتے ہیں؟

جواب بہت سادہ ہے ، وہ یہ ہے کہ پوری تاریخ میں شیعیان حیدر کرار ہر زمانے میں حکومت اور خلافت کیلئے آنکھوں کا خار بنتے رهے ، اور ہمیشہ ظالم و جابر حاکموں کے خلاف آواز بلند کرتے رهے ۔ جس کی وجہ سے ظالموں کے ظلم وبربریت کا شکار اور قتل ہوتے رهے ،اور اپنی جان بچانے کیلئے تقیہ کے ذریعے اپنے عقائد اور اعمال کو چھپانے پر مجبور ہوتے رهے ۔

چناچہ ہر انسان اپنی جان ،مال ، ناموس اور عزت کو بچانے کی خاطر بعض اوقات تقیہ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اور یہ اسباب ہر انسان کیلئے مختلف ہوتے ہیں ۔اس کتاب کے دوسرے حصے میں وہابیوں کی طرف سے کئےہوئے اشکالات کا جواب دیتے ہوئے ثابت کیا گیاہے کہ تقیہ نہ بدعت ہے نہ جھوٹ اور بہتان ہے ، نہ علم امامت کے منافی ہے ،نہ سلونی سلونی قبل ان تفقدونی سے منافات رکھتا ہے ، اور نہ حرام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حلال کا باعث ہے نہ اس کے برعکس۔اور نہ جہاد کے منافی ہے اور نہ امر بہ معروف ونہی از منکر کے منافی ہے ۔

۶

ان مباحث کے ذیل میں خود وہابیوں سے کچھ سوال کئے گئے ہیں کہ کس طرح تقیہ کو دوسروں پر تہمت لگانے کا بہانہ بنادیتے ہو جبکہ قرآن مجید میں تقیہ کرنے والوں کی اللہ اور اس کے رسول نے مدح سرائی کی ہے؟!

اور یہ بھی یاد رہے کہ اس موضوع کو اس لئے انتخاب کیاهے که مختلف ممالک جیسے پاکستان ، افغانستان ، ہندوستان، عربستان اور دوسرے اسلامی ممالک میں سادہ لوح مسلمانوں کوشیعیت کے خلاف اکسانے اور مکتب اہل بیتعليهم‌السلام کے خلاف لوگوں کے دلوں میں عداوت ،نفرت ، شکوک اور دشمنی پیدا کرنے کی جو ناپاک کوششیں کی جارہی ہے ،اپنی توانائی اور صلاحیت کے مطابق ان کا سد باب کرسکے ۔

اس امید کے ساتھ حقیقت کے طلب گاروں کیلئے مکتب قرآن اور اہلبیتعليهم‌السلام تک رسائی کا یہ ایک وسیلہ بنے ،قرآن کریم کی آیات ، اہلبیت اطہارعليهم‌السلام کے فرامین اور اسلامی دانشوروں اور عالموں کے بیانات کو ایک کتاب کی شکل میں تألیف کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، خداتعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ تمام عالم انسانیت کو راہ حق اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت دے اور جو ہدایت یافتہ ہیں ان کو ثابت قدم رکھے ، اور امربه معروف ونهي از منکرکرنے والوں کی توفیقات میں اضافہ فرمائے ۔

آمین

وَالسَّلامُ عَليٰ مَن اتَّبَعَ الهُديٰ

غلام مرتضي انصاري

۷

پہلی فصل

کلیات تقیہ

۸

پہلی فصل : کلیاتِ تقیہ

تقیہ کی تعريف

تقیہ کی لغوی تعریف ، تقوی اور اتقاء ہے جس سے مراد پرہیز کرنا، اپنے کو بچانا اور مراقبت کرناہے ۔

اور اصطلاحی تعریف یہ ہے :

التقيةُ سترُ الاعتقادِ و مكاتمةُ المخالفينَ و تركُ مظاهرتهم بما يعقب ضرراً في الدينِ و الدنيا ۔(۱)

____________________

۱:۔ صفری ،نعمت اللہ ؛ نقش تقیہ در استنباط ،ص۴۶۔

۹

يعني تقيه سے مراد اپنے اعتقادات کو دشمنوں سے چھپا رکھنا، تاکہ دینی ، دنیوی اور جانی نقصان سے محفوظ رہے ۔

اس تعریف میں دو مطلب نظر آتے ہیں : ایک یہ کہ اپنی باطنی اعتقاد ات کا چھپانا ، دوسرا معنوی اور مادی نقصان ہونے سے پہلے دفاع کرنا ۔اوراگر اجتماعي اور انفرادي مفاد اور مصلحتوں ميں ٹکراؤ هو جائے تو اجتماعی منفعتوں اور مصلحتوں کو ذاتی اور شخصی مفادات پر مقدم رکھنا ہے ۔

اہل بیتعليهم‌السلام کے ذریعے جو آثار ہم تک پہنچے ہیں ان میں تقیہ ؛ حسنہ ، مؤمن کی ڈھال ، اضطرار ، افضل الاعمال ، ميزان المعرفة، حفظ اللسان ،تورية،عبادة السريه ، وقايةالدين،سلامت، خير الدنيا د وغیرہ کے نام سے پہچنوایا گیا ہے ۔(۱)

شيخ انصاري  اور تقیہ کی تعریف

آپ « رساله في التقيه» ميں فرماتے ہیں :

المراد من التقية هنا التحفظ عن ضررالغير

____________________

۱: ۔ محب الاسلام؛ شيعه مي پرسد،ج ۲،ص۲۸۱۔

۱۰

بموافقته في قول او فعل مخالف للحق ۔(۱)

تقیہ سے مراد اپنے آپ کو دشمنوں کے کہنے کے مطابق عمل کرتے ہوئے ان کے شرّ اور نقصان سے بچانا ہے ۔اگرچہ ظاہراً حق کے خلاف کرنا پڑے ۔لیکن یہ تعریف جامع تعریف نہیں ہے کیونکہ تقیہ کی کئی اقسام جیسے مدارات والا تقیہ اس میں نہیں آسکتی ۔

شهيد اول  اورتقيه کی تعريف

شهيد اپنی کتاب (القواعد) میں فرماتے ہیں :

التقية مجاملة الناس بما يعرفون و ترك ما ينكرون حذرا من غوائلهم(۲)

تقيه سے مراد لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت رکھنے کی خاطر جانتے ہوئے بھی کئی کاموں کو چھوڑ دینا ، تاکہ درد سر سے بچ جائے ۔

یہ تعریف زیادہ تر مداراتي تقيه کی طرف اشارہ کرتی ہے ،جس میں پوری انسانیت خواہ مسلمان ہو یا کافر ، مخالف ہو یا موافق، سب شامل ہیں ، که انسانيت کے ناطے

____________________

۱:۔ شيخ اعظم انصاري؛ رسائل الفقهيه، ص۷۱۔

۲: عاملي و مشقي ؛ للقواعد و القوائد،ج۲،ص۱۵۵۔

۱۱

ايک دوسرے پر رحم کرے اور احترام کي نگاه سے ديکھے ۔اس سلسلے ميں اگر تقيه کرنے پر مجبور هوجائے تو اس کے لئے ضروري هے ،تقيه کرے ۔

تقيه کی جامع اور مانع تعريف

تقیہ کے مختلف موارد کے پیش نظر درج ذیل تعریف جامع اور مانع تعریف ہوگی :

التقية اخفاء حق عن الغيرا واظهار خلافه لمصلحة اقوي ۔(۱)

تقيه،حق کو دوسروں کی نظروں سے چھپانے کیلئے مخالفت کا اظهار کرنا ، اس شرط کے ساتھ کہ چھپائی جانے والی مصلحت ، اظہار کرنے والی مصلحت سے زیادہ اہم ہو۔اس عبارت میں (اخفاء حق اور اظہار خلاف )یہ دو ایسی عبارت ہے جس میں چھپائے جانے والا تقيه اور نہ چھپائے جانے والا تقیہ اور مدارات والا تقیہ سبھی شامل ہوجاتا ہے ۔لیکن كلمه مصلحت جو تعريف کا ثقیل ترین اور لغوی اوراصطلاحی معانی کے درمیان ارتباط پیدا کرنے والا نکتہ ہے ۔ اور اس طرح مصلحت یعنی مفسدہ کا دفع کرنا اور منفعت کا جلب کر نا مراد ہے ۔جس کی تقسیم بندی کچھ یوں کی جاسکتی ہے :

____________________

۱:۔ صفری،نعمت اللہ ؛ نقش تقیہ در استنباط ، ص ۵۱ ۔

۱۲

تقیہ یعنی مصلحت اندیشی

مصلحت کی دو قسمیں ہیں:

۱. نقصان سے بچنا" دفع ضرر"

۲. منفعت حاصل کرنا "جلب منفعت"

نقصان سے بچنا انفرادی ہے یا اجتماعی ۔

انفرادی نقصان خود تین طرح کے ہیں :

۱. جانی نقصان

۲. مالی نقصان

۳. شخصيت کو ٹھیس پہنچنا ۔

اجتماعی نقصان خود چار قسم کی ہیں :

۱. دین اسلام کو ضرر پہنچنا ،

۲. مذہب تشیع کو ضرر پہنچنا ،

۳. مسلمانوں کو ضرر پہنچنا،

۴. شیعوں کو ضرر پہنچنا ۔

۱۳

جلب منفعت بھی دو قسم ہیں:

۱. انفرادی ہے جو تقیہ کا مصداق نہیں بن سکتا ،

۲. اجتماعی ہے جس کی خود تین صورتیں بنتی ہیں :

۱. مسلمانوں کے درمیان وحدت اور یکجہتی کی حفاظت کرنا۔

۲. دین اسلام کیلئے عزت اور آبرو کاباعث بننا۔

۳. مکتب تشیع کیلئے عزت اور آ برو کا سبب بننا۔(۱)

تقیہ کے مزید نام:

روایات میں تقیہ کے مختلف نام آئے ہیں ۔ جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

دين الله ، جُنّة، تُرس ، حُصن ، صون ، شعار ، ايمان ، عزة، قرة العين ،سنن الانبياء ، سِرّ، حرز، خبأ ،حجا ب ، مدار اة ، ضروره ، اضطرار ، افضل الاعمال ، ميزان المعرفة، حفظ اللسان ،بادة، تورية، عبادة السريه، وقايةالدين، سلامة، خيرالدنيا و(۲)

____________________

۱: ۔ ایضاً ، ص ۵۲۔

۲:۔ عادل علوی ;التقیہ بین العلام، ص ۵۳۔

۱۴

تقيه کے اقسام

آيات اور روايات کی روشنی میں تقیہ کي ا قسام:

مختلف اعتبار سے تقيه کی کئی قسمیں ہیں :

۱۔تقیہ خوفیہ

۱۔ مکتب اسلام پر ضرر کے خوف کی وجہ سے(۱) ۔

۲۔ دوسروں پر ضرر کے خوف کی وجہ سے ۔

۳۔ یا اپنے نفس ، ما ل اورآبرو پر ضرر کے خوف کی وجہ سے ۔

سبب کے اعتبار سے تقیہ کی دوا قسام ہیں:

خوفي اور مداراتي۔

اور خود تقيه خوفي یا حفظی کی تین اقسام ہیں :

____________________

۱: التقيه في رحاب العلمين(شيخ انصاري و امام خميني)،ص۱۳۔

۱۵

الف: تقيه جان ، مال ، عزت ، آبرو اور ان سے متعلقہ چیزوں کی وجہ سےکیاجائے ۔

ب: تقيه اپنے مؤمن بھائیوں کی خاطر ہو کہ ان پر کوئی ضرر یا نقصان نہ آنے پائے ۔

ج : تقيه دین مقدس اسلام پر کوئی ضرر یا آنچ آنے کے ڈر سے کیا جائے ۔ کیونکہ ممکن ہے خود مسلمانوں کے درمیان اختلافات پائے جائیں لیکن اسلام کے اوپر کوئی بات نہ آئے ۔

جو اختلاف اور نزاع پایا جاتا ہے ، وہ تقیہ خوفی میں ہے ۔ ورنه تقیہ مداراتی کہ لوگوں کے ساتھ نیک رفتاری اور خوش اخلاقی سے پیش آنا ہے ؛ جسے ایک قسم کی ہوشیاری اور چالاکی تصور کیا جاتا ہے ۔

تقيه کو تقيه كننده کے اعتبارسےبھی کئی قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جیسے : تقيه كننده : يا وہ ایک عام انسان ہےیا مذہبی رہنما ؤںمیں سے ہے ۔ جیسے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم او رآئمہ طاهرينعليهم‌السلام فقهاء اور مسئولين۔

تقيه کو تقیہ پر مجبور کرنے والے کے اعتبار سے دو قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں: کافر ہے یا مسلمان ۔

تقيه پرعمل کرنے کےاعتبار سےبھی کئی قسميں هيں ۔ جیسے : يا وہ فعل ،حرام ہےاورچھوڑ دينا واجب ہے ، یا اس فعل کا شرط یا جزا میں تقیہ کرنا ہے ۔

۱۶

تقيه احكام کےاعتبارسے يا واجب ہے يا حرام، يا مستحب يا مباح يا مكروه ،يا وجوب نفسي ہے يا وجوب غيري۔(۱)

تقيه خوفيه اعمال اور عبادات کا اہل سنت کے علماء اور فقہاء کے فتاوٰی کے مطابق عمل کرنا ، تاکہ اپني اور اپنے ہم مسلک افراد کی جان محفوظ رکھ سکے ۔

تقيه خوفيه کے موارد کو خود عاقل اور باہوش انسان تشخیص دے سکتے ہیں ۔جب ایک اہم اور مہم کام کے درمیان ٹکراؤ پيداہو جائے تو اہم کو مہم پر مقدم کرنا چاہئیے ۔اور تقیہ خوفیہ کی اسناد درج ذیل ہیں :

۱ ـ تقيه خوفيه کی پہلی دلیل:

سيد مرتضي علم الهدي نے اپنے رساله (محكم اور متشابه) میں تفسير نعماني سےنقل کیا ہے :عليعليه‌السلام نے فرمایا: خدا تعالي نے مؤمن کو کافروں کے ساتھ دوستي اور وابستگی سے منع کیا ہے لیکن تقیہ کے مواقع پر کفر ظاہر کرنے کی اجازت دی

____________________

۱:انديشه هاي كلامي شيخ طوسي، ج۱،ص ۲۷۷۔

۱۷

گئی ہے پھر اس آیہ شریفہ کی تلاوت کی :

( لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّهِ فِي شَيْءٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّهِ الْمَصِيرُ ) ۔(۱)

"خبردار صاحبانِ ایمان مؤمنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے"

کہتے ہیں کہ یہ مؤمنین کیلئے رخصت دینا، خدا کی رحمت اورتفضل ہے كه تقيه کے موقع پر ظاہر ہوتا ہے ۔(۲)

۲ ـ تقيه خوفيه کی دوسری دلیل:

طبرسي نےاميرالمؤنينعليه‌السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : میں طبیب یونانی سے گفتگو کرنے اور کچھ اسرار ولایت دکھانے کے بعد

____________________

۱: سوره آلعمران/۲۸۔

۲: وسائل الشيعه،باب امر بالمعروف،باب۲۹۔

۱۸

وظیفہ شرعی کے بیان کرنے کے ضمن میں تمہیں دستور دونگا کہ تم اپنے دین میں تقیہ پر عمل کرو ۔ جیسا کہ خداوند تعالی نے فرمایا: : لا يتخذ المؤمنون۔۔۔تمہیں اجازت دونگا کہ جب بھی تمہیں کوئی مجبور کرے اور تمہیں خوف پیدا ہوجائے تو تم اپنے دشمنوں کی تعریف کرو اور ہم سے دشمنی کا اظہار کرو۔ اگر واجب نمازوں کے پڑھنے سے جان کا خطرہ ہو تو ، ترک کردو ۔اس طرح کچھ دستور دینے کے بعد فرمایا: حالانکہ تمہارے دل میں ہماری محبت پائی جاتی ہے اور ہماری پیروی کرتے ہو ۔مختصر وقت کیلئے ہم سے برائت کا اظہار کرکے اپنی جان ، مال ناموس اور دوستوں کو طولانی مدت کیلئے بچالو؛ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ تم پرآسانی کے دروازے کھول دے ۔ اور یہ بہتر ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے اور اپنے دوستوں کی خدمات اور دینی امور میں ان کی اصلاح کرنے میں کوتاہی سے بچے ۔

(۱)

____________________

۱: علی تہرانی ؛ تقیہ در اسلام، ص ۵۰۔

۱۹

۲۔تقيه اكراهيه

مجبور شخص کا جابر اور ظالم شخص کے دستور کے مطابق عمل کرنا تاکہ اپنی جان بچائی جاسکے اور مال دولت اور عزت کو برباد ہونے سے محفوظ رکھا جا سکے ۔

اس کے مصداق حضرت عمار بن یاسر ہیں ۔ جن کے بارے میں قرآن فرمارها ہے:

( مَن كَفَرَ بِاللّهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ وَلَكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۔(۱)

"جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ کا انکار کرے (اس کے لئے سخت عذاب ہے) بجز اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں) لیکن جنہوں نے دل کھول کر کفر اختیار کیا ہو تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔"

اس آیۃ شریفہ کی شان نزول میں مفسرين کا کہنا ہے : جب پیغمبر اسلام

____________________

۱:نحل ۱۰۶۔

۲۰

لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دیتے هوئے بتوں کو اعلانیہ طور پر باطل قرارديتے تھے تو کفار قریش اس کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے ۔ اورجب کوئی اسلام قبول کر تا تھا اس پر ظلم وتشدد کیا کرتے تھے ۔چنانچہ بلال، عمار، ياسر و سميه () جیسے پاک دل اور ایمان سے سرشار افراد کو مختلف مواقع پر جان لیوا اذیت اور آزار پہنچا تے تھے اور ان کو دوبارہ کفر کی طرف بلاتے تھے ۔چنانچہ عمار اور ان کے ماں باپ کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی اور نازیبا الفاظ زبان پر لانے پر مجبور کیا گيا؛ تو جناب یاسر اور ان کی زوجہ ، یعنی حضرت عمار کے والدین نے یہ گوارا نہیں کیا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی کی جائے ۔ اسی جرم میں وہ دونوں اپنے بیٹے کے سامنے شہید کئے گئے ، لیکن عمار کی جب باری آئی تو اپنی جان بچانے کی خاطر کفار قریش کے ارادے کے مطابق پیغمبر کی شان میں گستاخی کی ۔ جس پر کفار نے انہیں آزاد کیا ۔جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں یہ شکایت پہنچی کہ عمار نے آپ کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ تو فرمایا : ایسا ممکن نہیں کہ عمار نے دوبار ہ کفر اختیار کیا ہو بلکہ وہ سر سے لیکر پاؤں تک ایمان سے لبریز اور اس کے گوشت و خون اور سراسر وجود میں ایمان کا نور رواں دواں ہے ۔اتنے میں عمار روتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کے چهرے

۲۱

سے آنسو صاف کئے اور فرمایا : جو کام تو نے انجام ديا هے ، قابل مذمت اور جرم نہیں ہے اگر دوبارہ کبھی ایسا موقع آجائے اور مشرکوں کے ہاتھوں گرفتار ہوجاؤ تو کوئی بات نہیں کہ تم ان کی مرضی کے مطابق انجام دو ۔پھر یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی ۔

جس سے معلوم ہوتا کہ دینی مقدسات کی شان میں گستاخی کرنے پر مجبور ہوجائیں تو کوئی بات نہیں ۔ آپ کو اختیار ہے کہ یا آپ تقیہ کرکے اپنی جان بچائیں یا جرٲت دکھاتے ہوئے جام شہادت نوش کریں ۔

ایک روايت منقول ہے کہ دو مسلمانوں کو مسیلمہ کے پاس لایا گیا جو نبوت کا دعوی ٰ کررہا تھا ۔مسیلمہ نے ایک سے پوچھا: محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟

اس نے کہا : آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔

مسیلمہ : میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟

مسلمان: آپ بھی اسی طرح ہیں ۔

پھردوسرے شخص کو لایا گیا ، اور اس سے بھی یہی سوال پوچھا گیا ، لیکن اس نے کچھ بھی

۲۲

نہیں کہا ۔تو اسے قتل کرنے کا حکم دیا گیا ۔

یہ خبر رسول خدا تک پہنچی ، فرمایا: پہلے شخص نے تقیہ پر عمل کیا اور دوسرے شخص نے حق کو آشکار اور بلند و بالا کیا ۔اورپہلے کے حق میں دعا کی اور دوسرے کے لئے فرمایا :اس کیلئے شہادت مبارک ہو ۔(۱)

يوسف بن عمران روايت کرتا ہے کہ ميثم تمارسے سنا ہے: امير المؤمنينعليه‌السلام نے مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا : اے میثم جب عبيد الله ابن زياد تمھیں میرے بارے میں گستاخی کرنے اور مجھ سے برائت کرنے کا حکم دے گا تو تم کیا کرو گے؟

میں نے کہا :يا امير المؤمنينعليه‌السلام خدا کی قسم! کبھی اظہار برائت نہیں کروں گا ۔

فرمایا:پھر تو تم مارےجاؤ گے ۔

میں نے کہا : میں صبر کروں گا ؛ کیونکہ راہ خدا میں جان دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔

فرمایا:اے میثم! تم اس عمل کی وجہ سے قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگے ۔

____________________

۱: تقيه در اسلام ، ص۱۰۔

۲۳

پس یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اگر کسی نے تقیہ کے موارد میں تقیہ نہیں کیا تو اس نے خودکشی کرلی هو ، بلکہ ایسے موارد میں انسان کو اختیار ہے کہ وہ شہادت کو اختیار کرے یا تقیہ کرکے اپنی جان بچائے تاکہ آئندہ آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اور اسلام کي زیادہ خدمت کرسکے ۔

۳ ۔تقيه كتمانيه

ضعف اور ناتوانی کے مواقع پر اپنا مذہب اور مذہب والوں کی حفاظت کرنا اور ان کی طاقت اور پاور کو محفوظ کرنا تاکہ بلند و بالا اہداف حاصل کرسکے ۔

اور یہاں تقيه كتمانيه سے مراد ہے دین مقدس اسلام اور مکتب اہل بیتعليهم‌السلام کی نشر واشاعت کی خاطر اپنی فعالیتوں کو مخفی اور پوشیدہ رکھنا ، تاکہ دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ قدرت مند ہو ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ہمارے دینی اور مذہبی رہنما حضرات اس طرح تقیہ

۲۴

کرنے کا حکم دیتے ہیں ؟

اس کا جواب یہی ہے کہ کیونکہ مکتب تشیع ایک ایسا مکتب ہے کہ حقيقي اسلام کو صرف اور صرف ان میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔شیعہ ابتدا ہی سے مظلوم واقع ہوئے ہیں کہ جب آئمہ طاہرینعليهم‌السلام تقیہ کرنے کا حکم دے رہے تھے اس وقت شیعہ انتہائی اقلیت میں تھے اور ظالم وجابر اور سفاک بادشاہوں اور سلاطین کی زد میں تھے ۔اگر شیعہ اپنے آداب و رسوم کو آشکار کرتے تو ہر قسم کی مشکلات ان کے سروں پر آجاتیں اور جان بھی چلی جاتی ۔اور کوئی شیعہ باقی نہ رہتا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ حقیقی اسلام باقی نہ رہتا ۔ یہی وجہ تھی کہ آئمہ اطهارعليهم‌السلام نے تقیہ کا حکم دیا ۔

تقيه كتمانيه پر دلیل :

۱ ـ:كِتَابُ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلَالِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيّاً ع يَقُولُ يَوْمَ قُتِلَ عُثْمَانُ قَالَ رَسُولُ اللهِ ص قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ التَّقِيَّةَ مِنْ دِينِ اللهِ وَ لَا دِينَ لِمَنْ لَا تَقِيَّةَ لَهُ وَ اللهِ لَوْ لَا التَّقِيَّةُ مَا عُبِدَ اللهُ فِي الْأَرْضِ فِي دَوْلَةِ إِبْلِيسَ فَقَالَ رَجُلٌ وَ مَا دَوْلَةُ إِبْلِيسَ فَقَالَ إِذَا وُلِّيَ إِمَامُ هُدًى فَهِيَ فِي دَوْلَةِ الْحَقِّ عَلَى إِبْلِيسَ وَ إِذَا وُلِّيَ إِمَامُ ضَلَالَةٍ فَهِيَ

۲۵

دَوْلَةُ إِبْلِيسَ ۔(۱)

راوی کہتا ہے :هم نے امير المؤمنينعليه‌السلام سےقتل عثمان کے دن فرماتے هوئےسنا :هم نے رسول خداسے تاکید کے ساتھ فرماتے هوئےسنا: تقیہ میرا دین ہے اور جو بھی تقیہ کا قائل نہیں ، اس کا کوئی دین نہیں ۔ اور اگر تقیہ کے قوانین پر عمل نہ ہوتا تو شیطان کی سلطنت میں روئے زمین پر خدا کی کوئی عبادت نہ ہوتی ۔ اس وقت کسی نے سوال کیا ، ابلیس کی سلطنت سے کیا مراد ہے ؟

فرمایا : اگر کوئی خدا کا ولی یا عادل امام لوگوں پر حکومت کرے تو وہ خدائی حکومت ہے ، اور اگرکوئی گمراہ اور فاسق شخص حکومت کرے تو وہ شیطان کی حکومت ہے ۔

اس روایت سے جو مطلب ہمیں حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس طاغوتی حکومت کے دوران صرف اپنے مذہب کو مخفی رکھنا اور خاموش رہنا صحیح نہیں ہے بلکہ اس میں بھی خدا تعالی کی عبادت و بندگی ہوتی رہے۔

اصحاب كهف کا عمل بھی اسی طرح کا تقیہ تھا ، اور حضرت ابوطالب کا تقیہ

____________________

۱: مستدرك‏الوسائل، ج ۱۲، ص۲۵۲ باب وجوب التقية مع الخوف ۔

۲۶

بھی اسی قسم کا تقیہ شمار ہوتا ہے ۔جسے ابتدائے اسلام میں انہوں نے اختیار کیا تھا ۔کہ اپنے دین کو کفار قریش سے مخفی رکھا ۔ اورخود کو کفار کا ہم مسلک ظاہر کرتے رہے تاکہ رسول گرامي اسلام کی حمايت اور حفاظت آسانی سے کرسکیں ۔اور مخفی طور پر دین مبین اسلام کی نشر واشاعت کرتے رہے ۔ چنانچہ آپ ہی کی روش اور تکنیک کی وجہ سے پیغمبر اسلامسے بہت سارے خطرات دور ہوتے رہے ۔

۴ ۔تقيه مداراتي يا تحبيبي

اهل سنت کےساتھ حسن معاشرت اور صلح آميز زندگي کرنے کی خاطر ان کی عبادي ا ور اجتماعي محفلوں اور مجلسوں میں جانا تاکہ وحدت پیدا ہو اور اسلام دشمن عناصر کے مقابلے میں اسلام اور مسلمین قدرت مند ہوں ۔

تقيه مداراتي

۱ ۔ مطلوبيت ذاتي رکھتا ہے = وجوب نفسي

۲ ۔ مطلوبيت غيري رکھتا ہے = وجوب غيري

۲۷

تقيه مداراتي کے شرعی جواز پر دلیلیں:

o امام سجاد نے صحيفه سجاديه میں مسلمانوں کیلئے دعائے خیر اور کفار کیلئے بددعا کرتے ہوئے فرمایا:خدايا اسلام اور مسلمين کودشمن اورآفات و بليات سے محفوظ فرما ، اور ان کے اموال کو با ثمر و منفعت اورپر بركت فرما۔ اور انہیں دشمن کے مقابلے میں زیادہ قدرت مند اور شان وشوکت اور نعمت عطا فرما ۔اور میدان جنگ میں انہیں کافروں پر فتح و نصرت عطا فرما ۔ اور اپنی عبادت اور بندگی کرنے کی مہلت اور فرصت عطا فرما تاکہ وہ تجھ سےتوبہ اور استغفار اور راز و نیاز کر سکیں خدایا ! مسلمانوں کو ہر طرف سے مشرکوں کے مقابلے میں عزت اور قدرت عطا فرما اور مشرکوں اور کافروں کوآپس میں جنگوں میں مشغول فرما ! تاکہ وہ مسلمانوں کے حدود اور دیار کی طرف دست درازی نہ کرسکیں ۔(۱)

____________________

۱: مستدرك‏الوسائل، ج ۱۲، باب وجوب التقية مع الخوف ، ص ۱۰۰۔

۲۸

o معاويه بن وهب کہتا ہے کہ میں نے امام صادقعليه‌السلام سے سوال کیا : کہ دوسرے مسلمانوں اور مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے ؟

امامعليه‌السلام نے فرمایا: ان کی امانتوں کو پلٹاؤ اور جب آپس میں کوئی نزاع پیدا ہو جائے اور حاکم شرع کے پاس پہنچ جائے تو حق دار کے حق میں گواہی دو اور ان کے بیماروں کی عیادت کیلئے جاؤ اور ان کے مرنے والوں کی تشییع جنازے میں شرکت کرو۔(۱)

امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

كونوا لمن انقطعتم ﺇليه زيناً ولا تكونوا علينا شيناً صلّوا في عشائرهم عودوا مرضاهم و اشهدوا جنائزهم ولا يسبقونكم الي شيئٍ من الخير فا نتم أولي به منهم والله ما عبدالله بشيئٍ أحبُّ اليه من الخباء قلت: و ما الخباء؟ قال: التقيه ۔(۲)

ایسے کاموں کے مرتکب ہونے سے پرہیز کرو جو ہمارے مخالفین کے سامنے سرزنش کا باعث بنے ، کیوں کہ لوگ باپ کو اس کے بیٹوں کے برے اعمال کی وجہ سے ملامت کرتے

____________________

۱: وسائل الشيعه،ج۱ ، كتاب حج،احكام عشرت۔

۲: وسائل الشيعه ،ج ۱۱،ص ۴۷۱۔

۲۹

ہیں ۔کوشش کرو کہ ہمارے لئے باعث زینت بنو نہ کہ باعث ذلت۔ اہل سنت کے مراکز میں نماز پڑھا کرو اور بیماروں کی عیادت کیا کرواور ان کے مردوں کے جنازے میں شرکت کیا کرو اور تمام اچھے کاموں میں ان پر سبقت لے جاؤ ، ان صورتوں میں اگر ضرورت پڑي تو محبت بڑھانے اور اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کیلئے اپنے عقائد کو چھپاؤ ۔ خدا کی قسم ایسے مواقع میں کتمان کرنا بہترین عبادت ہے ۔ راوی نے سوال کیا : یابن رسول اللہ ! کتمان سے کیا مراد ہے ؟ ! تو فرمایا: تقیہ ۔

یہ تقیہ مداراتی اور تحبیبی کے جواز پر کچھ دلائل تھے ۔ لیکن ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سارے مسلمان عقیدتی ، فکری اور سلیقائی اختلافات مکمل طور پر ختم کرکے صرف ایک ہی عقیدہ اور سلیقہ کے پابندہوجائیں ؟ !

اس سوال کا جواب بالکل منفی میں ملے گا۔ یہ ناممکن ہے ۔کیونکہ کوئی بھی قوم یا قبیلہ نہیں ملے گا جس میں سینکڑوں اختلافات اور نظریات نہ پائے جاتے ہوں۔ حتی خود دین اسلام میں کہ سارے اصول اور فروع دین توحید کی بنیاد پر قائم ہیں ، پھر بھی زمانے کے

۳۰

گزرنے کے ساتھ ساتھ اصلی راستے اور قاعدے سے منحرف ہوجاتے ہیں اور اختلافات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ پس ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟! اور راہ حل کیا ہے ؟! ایک طرف سے بغیر وحدت اور اتحاد کے کوئی کام معاشرے کے حوالے سے نہیں کرپاتے، دوسری طرف سے اس وحدت اور اتحاد کے حصول کیلئے سارے اختلافی عوامل کو پس پشت ڈالنا پڑتا ہے ۔

کیا ایسی صورت میں ہم بیٹھے رہیں اور اختلافات کے کیڑے مکوڑے معاشرے کے سعادت مند ستون کو اندر سے خالی کرتے کرتےسرنگوں کریں؟!یا کوئی راہ حل موجود ہے جس کے ذریعے سے ايک حد تک وحدت برقرار کرلیں ؟!

یہ وہ مقام ہے جہاں دور حاضر کے مفکرین اور دانشمندوں نے کئي فارمولے تیار کئے ہیں جن کے ذریعے ممکن ہے کہ یہ ہدف حاصل ہوجائے ، اور وہ فامولے درج ذیل ہیں:

۱ ۔ ہر معاشرے میں موجود تمام ادارے قوم پرستی، رنگ و زبان اور موقعیت ، مذہب میں فرق کئے بغیر اجتماعی حقوق کو بعنوان ”حقوق بشر“ رسمی مان لیں اور خود غرضی سے پرہیز کریں ۔

۳۱

۲ ۔ تمام ممالک کو چاہئے کہ معاشرے میں موجود تمام گروہوں کو اس طرح تعلیم دیں کہ اتحاد و اتفاق کی حفاظت کی خاطر اجتماعی منافع کو شخصی منافع پر مقدم رکھیں ۔ اور انہیں یہ سمجھائیں کہ اجتماع کی بقا میں افراد کی بقا ہے ۔

۳ ۔ ہر ایک شخص کو تعلیم دیں کہ دوسروں کے عقائد کا احترام کریں تاکہ معاشرے کیلئے کوئی مشکل ایجاد نہ ہو ۔اور ملک اور معاشرے کے بنیادی اصولوں اور قواعد و ضوابط کو ضرر نہ پہنچائيں ۔ اور ایک دوسرے کے احساسات اور عواطف کا احترا م کریں ۔

۴ ۔ ان کو سمجھائیں کہ دوسرے مکاتب فکر کے مختلف اور معقول آداب و رسوم میں شرکت کریں ۔ اس طرح ایک دوسرے کے درمیان محبت پیدا کریں۔

پس اگر ايك جامعه یامعاشرے میں ان قوانین اور اصولوں پر عمل درآمدهوجائے تو سارے اسلامی ممالک ایک پليٹ فارم پر جمع ہونگے اور ایک دوسرے کے درمیان محبت اور جذبہ ایثار پیدا هوگا۔ یہی وجہ تھی کہ آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اپنے گوہر بار كلمات میں اس بات کی طرف تشویق کرتے هوئے نظر آتے هيں۔

۳۲

مداراتی تقیہ کی ایک زندہ مثال یہ ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کیلئے مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں دوسروں کے ساتھ بغیر سجدہ گاہ کے قالین پر سجدہ کر سکتے ہیں ، یہ نماز صحیح ہے اگرچہ جانی یا مالی نقصان کا خدشہ بھی نہیں ہے۔(۱)

تقيه اور توريه میں موازنه

لغت میں توريه ؛وراء یا پيٹھ سے نکلا ہے جس کا مد مقابل امام یعنی (آگے ) سے لیا گیا ہے ۔اور اصطلاح میں کسی چیز کو چھپانے کو کہا جاتا ہے ۔

 تقيه اور توريه کے درمیان نسبت تباين پایاجا تا ہے ۔ کیونکہ توریہ لغت میں ستر(چھپانا) اور تقیہ صیانت اور حفاظت کو کہا جاتا ہے ۔

 توریہ میں شخص واقعیت کا ارادہ کرتا ہے لیکن تقیہ میں نہیں ۔

____________________

۱: مکارم شیرازی؛ شیعہ پاسخ می گوید،ص۴۵۔

۳۳

 توریہ میں مصلحت کو ملحوظ نظر نہیں رکھا جاتا لیکن تقیہ میں کئی مصلحتوں کو ملحوظ نظر رکھا جاتا ہے ۔

 لیکن مصداق کے لحاظ سے ان دونوں میں عموم و خصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے ۔ کہ ان دونوں کا مورد اجتماع یہ ہے کہ تقیہ کرنے والا تقیہ کے موارد میں اوراظہار کے موقع پر حق کے برخلاف ، توریہ سے استفادہ کرتا ہے کیونکہ خلاف کا اظہار کرنا ؛ حق کا ارادہ کرنے یا خلاف حق کا ارادہ کرنے سے ممکن ہے۔

 تقيه اور توريه میں افتراق کا ایک مورد ، تقيه كتماني ہے كه یہاں کوئی چیز بیان نہیں ہوئی ہے جو توریہ کا باعث بنے ۔

 ان دونوں میں افتراق کا ایک اور مورد یہ ہے کہ توریہ میں کوئی مصلحت لحاظ نہیں ہوئی ہے اور اگر کوئی مصلحت ملحوظ ہوئی ہے تو بھی ذاتی منافع ہے ۔

تقيه ، اكراه اور اضطرارکے درمیان تقابل

تقيه کے بعض موارد کو اكراه و اضطرار کے موارد میں منحصر سمجھاجاتاہے۔شيخ انصاري(ره) مكاسب میں اكراه کے بارےمیں یوں فرماتے ہیں :

۳۴

ثم ان حقيقة الاكراه لغة و عرفا حمل الغير علي ما يكرهه في وقوع الفعل من ذالك الحمل اقترانه بوعيد منه مظنون الترتب الغير علي ترك ذالك الفعل مضر بحال الفاعل او متعلقه نفسا او عرضا او مالا ۔(۱)

اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اکراہ کے وجود میں آنے کی تین شرائط ہیں:

۱. یہ مخالف کی طرف سے واقع ہوتا ہے ۔ پس جہاں اگر خود انسان جلب منفعت یا دفع ضرر کیلئے کوئي قدم اٹھائے تو وہ توریہ میں شامل نہیں ہے ۔

۲. اكراه یہ ہے کہ مستقيماکسی کام پر انسان کو مجبور کیا جائے نه بطور غير مستقيم۔

۳. تهديد اور وعيد کے ساتھ ہو کہ اگر انجام نہ دے تو اس کی جان ، مال، عزت آبرو خطرے میں پڑ جائے ۔

ان تین شرائط اور اولین آیہ شریفہ جو مشروعیت تقیہ کے بارے میں نازل ہوئی جس میں

عمار ابن یاسر ؒ کا قصہ بیان ہوا ہے ، سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض موارد میں تقیہ اور اکراہ میں مطابقت پائی جاتی ہے ۔ اور ان تین شرائط کے ذریعے حضرت عمارؒ کے تقیہ کرنے پر استدلال کیا جا سکتا ہے ۔اور تقیہ کی تعریف بھی اس پر منطبق ہوسکتی ہے ۔لیکن جہاں یہ تین شرائط صدق آئیں اور تقیہ صدق نہ کرے تو وہ اکراہ اور تقیہ کے افتراق کے موارد ہونگے ۔

____________________

۱: شيخ انصاري(ره) ،المكاسب،شروط متعا قد ين،ص۱۱۹۔

۳۵

تقيه کے آثارا ور فوائد

شہیدوں کے خون کی حفاظت

تقیہ کا بہترین فائدہ شہیدوں کے خون کی حفاظت ہے ۔یعنی پوری تاریخ میں شیعیان علیعليه‌السلام مظلوم واقع ہوتے رہے ہیں۔ جب بھی ظالموں کے مظالم کا نشانہ بنتےتھے تقیہ کرکے اپني جان بچاتےتھے۔

چنانچہ امام صادقعليه‌السلام فرماتے هيں: اے ہمارے شیعو! تم، لوگوں کے درمیان ایسے ہو جیسے پرندوں کے درمیان شہد کی مکھی ہے ۔ اگر پرندوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ شہد کی مکھی کے پیٹ میں شہد موجود ہے ، تو ساری شهد کي مکھیوں کو کھاجائیں اور ایک بھی زندہ نہیں چھوڑیں ؛ اسي طرح اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ تمہارے دلوں میں ہم اہل بیتعليهم‌السلام کی محبت موجود ہے تو تمھیں زخم زبان کے ذریعے کھا جائيں گے اور ہر وقت تمہاری غیبت اور بدگمانی میں مصروف رہيں گے ۔ خدا ان لوگوں پر اپنی رحمت نازل کرے جو ہماری ولایت کو

۳۶

مانتے ہيں۔(۱)

اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور تقویت

یہ تقیہ کا دوسرا فائدہ ہے کہ اہل بیتعليهم‌السلام ، اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور تقویت کیلئے زیادہ کوشش کرتے تھے ، تاکہ اسلامی معاشرہ ایک واحد اور قدرت مند معاشرہ بنے ، اور اسلام دشمن عناصر کبھی بھی اس معاشرے پر آنکھ اٹھانے کی جرأت نہ کرسکيں ۔

اس عظیم مقصد کے حصول کی خاطر آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اپنے چاہنے والوں کو سخت تاکید فرماتے تھے ۔جيسا که حديث ميں آيا هے:

قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مِهْرَانَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع وَ عِنْدَهُ نَفَرٌ مِنَ الشِّيعَةِ فَسَمِعْتُهُ وَ هُوَ يَقُولُ مَعَاشِرَ الشِّيعَةِ كُونُوا لَنَا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْنَا شَيْناً قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً احْفَظُوا أَلْسِنَتَكُمْ وَ كُفُّوهَا عَنِ الْفُضُولِ وَ

____________________

۱: علامه كليني ؛ اصول كافي،ج۲،ص۲۱۸۔

۳۷

قَبِيحِ الْقَوْل ۔(۱)

چنانچه امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہیں : اے ہمارے شیعو! خبردار! کوئی ایسا کام انجام نہ دو ، جوہماری مذمت کا سبب بنے ۔ لوگوں کے ساتھ اچھی گفتگو کیا کرو ، اپنی زبانوں کی حفاظت کرواور فضول اور نازیبا باتیں کرنے سے باز آؤ ۔

عَنْ هِشَامٍ الْكِنْدِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللهِ ع يَقُولُ إِيَّاكُمْ أَنْ تَعْمَلُوا عَمَلًا نُعَيَّرُ بِهِ فَإِنَّ وَلَدَ السَّوْءِ يُعَيَّرُ وَالِدُهُ بِعَمَلِهِ كُونُوا لِمَنِ انْقَطَعْتُمْ إِلَيْهِ زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْهِ شَيْناً صَلُّوا فِي عَشَائِرِهِمْ وَ عُودُوا مَرْضَاهُمْ وَ اشْهَدُوا جَنَائِزَهُمْ وَ لَا يَسْبِقُونَكُمْ إِلَى شَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَيْرِ فَأَنْتُمْ أَوْلَى بِهِ مِنْهُمْ وَ اللهِ مَا عُبِدَ اللهُ بِشَيْ‏ءٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الْخَبْ‏ءِ قُلْتُ وَ مَا الْخَبْ‏ءُ قَالَ التَّقِيَّة ۔(۲)

راوی کہتا ہے کہ امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا: خبردار ! تم لوگ کوئی ایسا کام کر نہ بیٹھو جس کی وجہ سے هميں ذلت اٹھانی پڑے کیونکہ جب بھی کوئی اولاد برا کام کرتی ہے تو لوگ اس کے والدین کی مذمت کرنے لگتے ہیں۔جب کسی سے دوستی کرنے لگو اور

____________________

۱:۔ أمالي الصدوق، ص ۴۰۰، جلسہ۶۲‏۔

۲: وسائل الشيعة ‏، باب وجوب عشرة العامة بالتقية ،ج۱۶،ص۲۱۹ ۔

۳۸

اس کی خاطر دوسروں سے دوری اختیار کرو تو اس کیلئے زینت کاباعث بنو نہ کہ مذمت اور بدنامی کا ۔ برادران اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کرو ، ان کے مرنے والوں کے جنازے میں شریک ہو جاؤ ، ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ تم سے کار خیر میں آگے ہو ں ، کیوں کہ اچھے کاموں میں تم لوگ ان سے زیادہ سزاوار ہو ۔ خدا کی قسم ! خبأسے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں ہے ۔ کسی نے سوال کیا : اے فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خبأ سے کیا مراد ہے ؟! تو امام ؑ نے جواب دیا : اس سے مرادتقیہ هے ۔

عَنْ أَبِي أُسَامَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللهِ وَ الْوَرَعِ وَ الِاجْتِهَادِ وَ صِدْقِ الْحَدِيثِ وَ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَ حُسْنِ الْخُلُقِ وَ حُسْنِ الْجِوَارِ وَ كُونُوا دُعَاةً إِلَى أَنْفُسِكُمْ بِغَيْرِ أَلْسِنَتِكُمْ وَ كُونُوا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا شَيْناً وَ عَلَيْكُمْ بِطُولِ الرُّكُوعِ وَ السُّجُودِ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَطَالَ الرُّكُوعَ وَ السُّجُودَ هَتَفَ إِبْلِيسُ مِنْ خَلْفِهِ وَ قَالَ يَا وَيْلَهُ أَطَاعَ وَ عَصَيْتُ وَ سَجَدَ وَ أَبَيْتُ ۔(۱)

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادقعليه‌السلام سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے : تم پر لازم

____________________

۱:۔ كافي ،باب الورع، ج‏۲ ، ص ۷۶۔

۳۹

ہے کہ تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرو ،کوشش کرو کہ سچ بات کہو،امانت میں دیانت داری دکھاؤ ،اچھے اخلاق کے مالک بنو، اور اچھے پڑوسی بنو،اور لوگوں کو زبانی نہیں بلکہ اپنے کردار کے ذریعے اچھائی کی طرف بلاؤ ۔اور ہمارے لئے باعث افتخار بنو نہ کہ باعث ذلت اور رسوائی۔اور تم پر لازم ہے کہ طولانی رکوع اور سجدے کیا کرو ؛ جب تم میں سے کوئی رکوع اور سجود کو طول دیتا ہے تو اس وقت شیطان اس کے پیچھے سے چیخ وپکار کرنےلگتا هے ، اور کهتا هے : واویلا ! اس نے خدا کی اطاعت اوربندگی کی، ليکن میں نے نافرمانی کی ، اس نے خدا کیلئے سجدہ کیا اور میں نے انکار کیا ۔

اگر ان دستورات کو آپ ملاحظہ فرمائیں تو معلوم ہو جائےگا کہ آئمہ طاہرین کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان الفت و محبت پیداهو اور سب مسلمان صلح و صفائی کے ساتھ زندگي بسر کريں ۔

تقيه کے شرائط

تقیہ ہر صورت اور ہر موقع اور ہر جگہ پر صحیح نہیں ہے بلکہ خاص شرائط اور زمان و

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336