تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں17%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86715 / ڈاؤنلوڈ: 3148
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

وہابی مذہب کے علمائےرجال اور تقیہ

وہابی مذہب کے علمائےرجال تقیہ کا انکار نہیں کرتے ، بلکہ واضح طور پر تمام مسلمانان عالم کے سامنے تقیہ کو بروئے کار لاتے ہیں جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ بڑے بڑے اولیاء اور صالحین کے قبور کو گرانا ، لیکن قبر مبارک پیغمبر اور ابوبکراور عمر کے قبور کو باقی رکھنا تقیہ کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ۔ ان کا قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اصحاب کے قبور کو باقی رکھنا کئی ملین مسلمانوں کے دلوں کو آزار پہنچنے سے بچانا ہے اور یہی تقیہ ہے ۔(۱)

اس سے معلوم ہوا کہ تقیہ اختیاری طور پر بغیر کسی جبر و اکراہ کے جائز نہیں ۔اس بات پر سارے علماء کا اتفاق ہے کہ تقیہ صرف جبر و اکراہ کی صورت میں جائز ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب اسلامی کی فقہی کتابوں میں "باب الاکراہ "کے نام سے الگ باب ہے ۔

__________________

۱۔ تقیہ از دیدگاہ مذاہب و فرق اسلامی غیر شیعی، ص ۱۶۶۔

۱۴۱

چوتھی فصل

جواز تقیہ کے دلائل

۱۴۲

چوتھی فصل : جوازتقيه کےدلائل

مقدمه

تمام دلائل کی بررسی کرنے سے پہلے اس محل بحث کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ چنانچہ اس فصل میں درج ذیل عنوانات پر گفتگو ہوگی:

۱۴۳

۱. شیعوں کے نزدیک تقیہ کی مشروعيت مسلمات میں سے ہے ۔ صرف ایک دو موارد میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے کہ جائز ہے یا نہیں ۔ اور وہ بھی آئمہ معصومین سے مربوط ہے ۔ لیکن اس کے مقابلےمیں اہل سنت کے نزدیک کیا تقیہ جائز ہے یا نہیں ؛ بحث کریں گے ۔

۲. چونكه ہماری بحث اهل سنت سے ہے لہذا دلائل ایسے ہوں جن کے ذریعے اہل سنت کے ساتھ استدلال کیا جاسکے ۔اس لئے هم کوشش کريں گے که زياده تر دلائل قرآن مجید،عقل اور سنت کے علاوہ اهل سنت کي کتابوں سے پيش کريں۔

۳. مشروعیت تقیہ سے مراد ، اصل جواز تقیہ ہے جو وجوب ، استحباب ، مباح، اور کراہت کو بھی شامل کرتا ہے ۔

۴. مشروعیت تقیہ کے بارے میں شیعوں اور اہل سنت حضرات کے درمیان ابتدائے اسلام میں کوئی اختلاف نہیں پایاجاتا ۔کیونکہ قرآن کریم نے اسے ثابت کیا ہے ۔ اصل اختلاف شیعہ اور اہل سنت کے درمیان دو نقطوں پر ہے:

الف: کیا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ تقیہ کر سکتا ہے یا نہیں؟ جیسا کہ شیعہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

ب: اس بات کو تو سب مانتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں تقیہ جائز تھا کیونکہ اس وقت اسلام

۱۴۴

اور مسلمانان ضعیف تھے ۔لیکن اب چونکہ اسلام ایک قدرت مند اور عزت مند اور بڑی شان وشوکت والا دین بن چکا ہے تو کیا اب بھی تقیہ کرنا مناسب ہے ؟

انهي سوالات اور اشکالات کے جواب ميں هم قرآن ، سنت ،اجماع ،عقل اور فطرت سے استدلال کريں گے :

الف: قرآن

قرآن مجيد نے کئی موقع پر تقیہ کے مسئلے کو بیان کیا ہے ؛ کبھی تقیہ ہی کے عنوان سے تو کبھی کسی اور عنوان سے اشارہ کیا ہے کہ تقیہ قرآنی احکام کے مسلمات میں سے ہے :سوره غافر میں اس مرد مجاهد ، فدا كاراور وفادارکا ذکر ہوا ہے ، جو فرعون کے دربار میں ایک خاص اور حساس مقام کا مالک ہے ۔ اور حضرت موسیعليه‌السلام کے آئین پر محکم ایمان رکھنے والا ہے ، جس نےاپنے ایمان کو دل میں چھپا رکھا ہے تاکہ اپنے دوستوں کی

۱۴۵

ضرورت کے وقت اس سے استفادہ کیا جائے ۔ جس کے بارے میں فرمایا:

( وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللهُ وَقَدْ جَاءكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ) ۔(۱)

اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے؟ اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے ۔

یہ آیہ شریفہ مؤمن آل فرعون کی استدلالی اور منطقی بات کی طرف اشارہ ہے

____________________

۱۔ سوره غافر / ۲۸۔

۱۴۶

جب فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔

انہوں نے فرمایا: موسیٰ الله کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور قابل مطالعہ اور اچھی دلیل بھی ساتھ بیان کررہے ہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں:

یا وہ جھوٹ بول رہے ہیں ،ایسی صورت میں وہ خود رسوا اور ذلیل ہونگے اور قتل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ کیونکہ قتل کرنا انہیں افکار عمومی میں ایک کامیاب اور فاتح ہیرو اور لیڈر بنادے گا ۔ اور ان کے پیچھے ایک گروہ ہمیشہ کیلئے چلنے کی کوشش کرے گا ، اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں میں زندہ رہیں اور لوگ خود ان سے دور ہو جائیں ۔

یا واقعاً وہ سچ کہہ رہےہیں اور خدا کی طرف سے آئے ہیں ، اس صورت میں جس چیز کی وہ تہدید کر رہےہیں ممکن ہے وہ واقع ہوجائے۔ ہمارا ان کے ساتھ حساب کتاب بالکل صاف ہے اس لئے انہیں قتل کرنا کسی بھی صورت میں عاقلانہ کام نہیں ہوگا۔ان کلمات کے ساتھ لوگوں کو اور بھی کچھ نصیحتیں کی ۔اس طرح فرعونیوں کے دل میں وحشت اور رعب ڈال دیا ، جس کی وجہ سے وہ لوگ ان کے قتل کرنے سے منصرف ہوگئے ۔

۱۴۷

قرآن اس آیہ شریفہ میں مؤمن آل فرعون کے عقيده کے چھپانے کو ایک اچھا اور نیک عمل بتارها ہے ، کیونکہ انہوں نے ایک بہت بڑے انقلابی رہنما کی جان بچائی اور دشمنوں سےنجات دلائی۔اس سے معلوم ہوا کہ تقیہ عقیدہ کے چھپانے کے سوا کچھ نہیں ۔

سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اس مرد مجاہد کے اس عمل کو اس حساس موقع پرایک عظیم ہدف کے بچانے کی خاطر فدا کاری اور جہاد کے علاوہ کچھ اور کوئي نام دےسکتا ہے ؟!

کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ اگر یہ مرد مؤمن تقیہ کی اس تکنیک سے استفادہ نہ کرتے تو حضرت موسیعليه‌السلام کی جان خطرے میں پڑ جاتی ۔

حضرت ابراهيم تقیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

( فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ فَرَاغَ إِلَى آلِهَتِهِمْ فَقَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ مَا لَكُمْ لَا تَنطِقُونَ فَرَاغَ

۱۴۸

عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِين ) ۔(۱)

پس وہ اپنی قوم سے کہنے لگے: میں بیمار ہوں اور میں تمہارے جشن میں نہیں آسکتا ۔ قوم نے بھی انہیں چھوڑ دیا ۔ ابراہیمعليه‌السلام نے بھی بت خانے کو خالی پایا ؛بتوں کو توڑنے کی نیت سے چلے اور تمام بتوں کو مخاطب کرکے کہا:تم لوگ اپنے بندو ں کے رکھے ہوئے کھانوں کو کیوں نہیں کھاتے ہو؟ بات کیوں نہیں کرتے ہو؟ تم کیسے بے اثر اور باطل خدا ہو؟! پھر ایک مضبوط اور محکم کلہاڑی اٹھائی اور سب بتوں کو توڑ ڈالا سوائے ایک بڑے بت کے۔

ان آیات اور روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم بتوں کو توڑنے کا ایک وسیع اور دقیق پروگرام بناچکے تھے ، اور اس پروگرام کا اجراء کرنے کیلئے ایک خاص اور مناسب موقع اور فرصت کی تلاش میں تھے ۔ یہاں تک کہ وہ وقت اور عید کا دن آگیا اور اپنا کارنامہ انجام دیا ۔ یہ دن دولحاظ سے زیادہ مناسب تھا کہ ایک تو سب لوگ شہر سے دور نکل چکے تھے جس کی وجہ سے اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دے سکتے تھے اور دوسرا یہ کہ لوگوں کو چونکہ تہوار کے ختم ہونے کے بعد بت خانے میں عبادت کیلئے آناتھا، لہذا لوگوں کے افکار اور احساس کو بیدار کرنے اور ان کو نصیحت

____________________

۱ ۔ سوره صافات / ۸۹ ـ ۹۳۔

۱۴۹

کرنے کیلئے یہ دن اور وقت زیادہ موزوں تھا ۔ اور آپ کا یہ کام اس بات کا باعث بنا کہ لوگ سوچنے لگے اور شہر بابل والے ظالم و جابر حکمرانوں کے چنگل سے آزاد ہوگئے ۔

لوگوں کو آپ پر شک تو ہوچکا تھا لیکن آپ نے اپنے عقیدے کو مکمل طور پر چھپا رکھا تھا اور لوگوں کے دعوت کرنے پر کہا کہ میں بیمار ہوں ۔:فقال اني سقيم ۔ جبکہ آپ کے جسم مبارک پر کوئی کسی قسم کی بیماری موجود نہیں تھی ۔لیکن آپ نے اپنے اس عظیم ہدف کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر توریہ کیا ، کیونکہ آپ کی بیماری سے مراد روحانی بیماری تھی جو کہ آپ لوگوں کا خدا کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا کرنے کی وجہ سے محسوس کررہے تھے ۔

۳ ـ تکنیکی تقیہ کے موارد میں سے ایک مورد حضرت مسیح کی جانب سے بھیجے ہوئے مبلغین کی داستان ہے جو انطاکیہ شہر کے لوگوں میں بھیجے گئے تھے ۔جن کے بارے میں فرمایا:

( إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ

۱۵۰

فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ ) (۱)

اس طرح کہ ہم نے دو رسولوں کو بھیجا تو ان لوگوں نے جھٹلادیا تو ہم نے ان کی مدد کو تیسرا رسول بھی بھیجا اور سب نے مل کر اعلان کیا کہ ہم سب تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔

اس ماجرے میں ان دونوں شخص کو انطاکیہ کے بت پرستوں کے اصولوں کے ساتھ ٹکراؤ کی وجہ سے انطاکیہ کے بادشاہ نے جیل میں ڈالديا۔ اور کوئی تبلیغی نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ لیکن تیسرےشخص کو، جو ان دونوں کی مدد کیلئے آئے تھے ناچار اپنا مبارزہ اور ان کے ساتھ مقابله کا راستہ تبدیل کرنا پڑا ۔پہلے اپنا عقیدہ چھپا تارها۔ تاکہ اپنی تدبیر ، فصاحت و بلاغت کے ساتھ حکومت کے امور میں مداخلت کرسکے ۔ اس کے بعد ایک مناسب فرصت اور موقع کا انتظار کرتے رہے تاکہ اپنے دوستوں کو نجات دلا سکے ۔اور اس شہر کے لوگوں میں اخلاقی ، اجتماعی اور فکری انقلاب برپا کرسکے۔اتفاقاً دونوں ہدف حاصل ہوئے کہ قرآن

____________________

۱۔ سوره يس ۱۴۔

۱۵۱

کریم نے اسے یوں تعبیر کیا ہے : ”( عززنا بثالث ) “ ہم نے اس تیسرے شخص کے ذریعے ان دونوں کی مدد کی اور ان کو عزت اور قوت بخشی ۔

اب سوال يه هے که کیا حضرت ابراهيم کا اپنا اعلیٰ ہدف کو چھپا رکھنا ترس اور خوف و ہراس کی وجہ سے تھا؟ یا اس اعلیٰ اور عظیم ہدف کو حاصل کرنے کیلئے مقدمہ سازی تھی؟!

کیا عيسي مسيحعليه‌السلام کی طرف سے بھیجے ہوئے تیسرے شخص بھی اپنے دوستوں کی طرح تلخ تجربات کے مرتکب ہوتے؟ اور خود کو بھی زندان میں ڈلوا دیتے ؟!یا یہ کہ روش تقیہ سے استفادہ کرکے تینوں دوستوں کو دشمن کے قید اور بند سے رہائی دلاتے؟!!

ان آیات سے بخوبی معلوم ہوتاہے کہ تقیہ کا ہدف اور فلسفہ کیا ہے اور اس کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟(۱)

____________________

۱۔ مكارم شيرازي؛ تقيه سپري عميقتر براي مبارزه،ص ۳۵۔

۱۵۲

کیا تقيه سے انکار ان آیتوں کا انکار نہیں؟!

شيعه، تقیہ کا انکار کرنے والوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر تقیہ جائز اور درست نہیں ہےتو ان آیات مبارکہ کا کیا کرو گے ؟ کیا ان آیات کیلئے کوئی شأن نزول نہیں ہے ؟ یا اہل قرآن کیلئے ان آیات کے ذریعے کوئی حکم بیان نہیں ہورہا ؟

اگر يه آيتيں کوئی شرعی تکلیف کو معین نہیں کرتیں تو نازل ہی کیوں ہوئیں؟ لیکن اگر کوئی شرعی حکم کو معین کرتی ہیں تو یہ بتائیں کہ وہ احکام کیا ہیں؟آیات شریفہ جو اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں ، درج ذیل ہیں:

( وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ ءَالِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلاً أَن يَقُولَ رَبىّ اللهُ وَ قَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَتِ مِن رَّبِّكُمْ وَ إِن يَكُ كَذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَ إِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِى يَعِدُكُمْ إِنَّ اللهَ لَا يهَدِى مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ يَاقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فىِ الْأَرْضِ فَمَن يَنصُرُنَا مِن بَأْسِ اللهِ إِن جَاءَنَا قَالَ فِرْعَوْنُ

۱۵۳

مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى‏ وَ مَا أَهْدِيكمُ‏ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ ) ۔(۱)

اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر بھی نازل ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے ۔میری قوم والو بیشک آج تمہارے پاس حکومت ہے اور زمین پر تمہارا غلبہ ہے لیکن اگر عذاب خدا آگیا تو ہمیں اس سے کون بچائے گا ؟فرعون نے کہا کہ میں تمہیں وہی باتیں بتارہا ہوں جو میں خود سمجھ رہا ہوں اور میں تمہیں عقلمندی کے راستے کے علاوہ اور کسی راہ کی ہدایت نہیں کررہا ہوں۔

( لا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكافِرينَ أَوْلِياءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنينَ وَ مَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ في‏ شَيْ‏ءٍ

) ____________________

۱۔ سوره غافر ۲۸ ـ ۲۹۔

(

۱۵۴

إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً وَ يُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ وَ إِلَى اللهِ الْمَصيرُ ) ۔(۱)

خبردار! اےایمان والو!مؤمنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے ۔

( مَن كَفَرَ بِاللهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهُ مُطْمَئنُ بِالْايمَانِ وَ لَاكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۔(۲)

"جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ کا انکار کرے (اس کے لئے سخت عذاب ہے) بجز اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں) لیکن جنہوں نے دل کھول کر کفر اختیار کیا ہو تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔"

____________________

۱ ۔ سوره آلعمران۲۸۔

۲ ۔ سوره نحل ۱۰۶ ۔

۱۵۵

ان آیات کریمہ سے تقیہ کی مشروعیت ثابت ہوگئی اب بات یہ ہے کہ اہل سنت کو کسی بھی دور میں تقیہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوئی کیونکہ وہ لوگ ہر دور کے حکمرانوں خواہ وہ ظالم وجابر ہی کیوں نہ ہوں ان کے خلاف کبھی کوئی آواز نہیں اٹھاتے بلکہ انہیں اولی الامر مانتے اور ان کی اطاعت کرتے لیکن اس کے برخلاف اہل تشیع نےکسی دور میں بھی حاکم وقت کو اولی الامر نہیں مانا بلکہ ظالم و جابر حمکرانوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہے جو ان حکمرانوں کے لئے قابل تحمل نہیں تھا جس کی بناء پر حکمران ،شیعیان امیرالمؤمنین ؑ کی جان و مال کے درپے رہے جس کی وجہ سے شیعیان علی ؑ تقیہ کرنے پر مجبور ہوتے رہے۔

ب: سنت

ہر دور ميں، تقیہ کو کامیابی کا راز تصور کیا جاتارہا ہے ۔ آپ کی تقریب ذہن کیلئے ہم کچھ مثالیں بیان کریں گے :

۱۵۶

۱۔تقيه، پیغمبرعليه‌السلام کی تدبير

پیغمبر اسلام (ص) کی شهامت ، شجاعت او رتدبيرکو سب دوست اور دشمن تسلیم کرتے ہیں۔

چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تین سال تک ” مخفيانه دعوت “ کرنا اور”مخفیانہ هجرت “ کرنا کہ جس کی وجہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن کے محاصرہ سے نکلنے میں کامیاب ہونا، اس کے بعدمدینہ تشریف لانے تک غار ثورمیں مخفی رہنا اور رات کی تاریکیوں میں چلنا اور دن کو مخفی رہنا ، یہ سب تقیہ کےاعتقادی یا عملی مصادیق میں سے ہیں ۔

۲ ۔تقيه،اعلیٰ اهداف کے حصول کا ذریعہ

۱۵۷

کیا کوئی شخص ایسے مسائل میں تقیہ کے اصولوں کا بروئے کار لانے کو نقطہ ضعف یا ترس یا محافظہ کاری کہہ سکتا ہے؟!

امام حسينعليه‌السلام كه جس نے تقیہ کے سارے نمونے کو پیروں تلے روند ڈالے ، لیکن جب بھی ضرورت محسوس کی کہ مقدس اور ابدی اہداف کے حصول اور ظلم وستم ، کفر و بے ایمانی اور ساری جہالت کے خاتمے کیلئے تقیہ کرتے ہوئے مکہ معظمہ سے نکلے جب کہ سارے مسلمان اعمال حج انجام دینے کی تیاریوں میں مصروف تھے ۔ اور اس کی وجہ بھی خود امام حسینعليه‌السلام نےبیان فرمائی تھی : اگرمیں چیونٹی کی بل میں بھی چھپ جاؤں تو یہ لوگ مجھےوہاں سے بھی نکال کر شہید کردیں گے ۔ اور اگر مکہ میں ٹھہر جاؤں تو حرم الہی کو میرے خون سے رنگین کریں گے اور خانہ کعبہ کی بھی بے حرمتی کریں گے ۔

تو اہل انصاف سے ہم یہی سوال کریں گے کہ امام حسینعليه‌السلام کا اس موقع پر تقیہ کرنا کیا عقل انسانی کے خلاف تھا ؟ یا عین عاقلانہ کام تھا ؟!

۱۵۸

۳۔ جنگ موته میں تقيه کاکردار

جنگ”موته“کے میدان میں مجاہدین اسلام کے صفوںمیں کچھ اس طرح سےترتیب دینا جو امپراتوري روم کے لاکھوں افراد پر مشتمل فوج کے ذہنوں میں تزلزل پیدا کرے اور نفسیاتی طور پر انہیں مفلوج کرے جو مسلمانوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھی ،اور یہ بہت مؤثر بھی رہا ۔

۴۔ فتح مكه میں تقيه کا کردار

پیغمبر اسلام (ص) نے مکہ فتح کرنے کی خاطر نہایت ہی مخفیانہ طور پر ایک نقشہ تیار کیا ؛ یہاں تک کہ انپے قریبی صحابیوں کو بھی پتہ چلنے نہیں دیا ۔ جس کے نتیجے میں مسلمان فتح مکہ جیسی عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوئے ۔اسی طرح بہت سے مواقع پر تقیہ کے اصولوں پر عمل کرکے فوجی طاقتوں اور اسلحوں کی حفاظت کی ۔

۱۵۹

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں خصوصاً ملکی حفاظت کرنے والوں کا سب سے پہلا اصول تقیہ اور کتمان ہے کہ دشمنوں سے ہر چیز کو چھپایا جائے تاکہ وہ ہم پر مسلط نہ ہوں ۔اس لئے جو بھی تقیہ کرنے پر اعتراض کرتاہے وہ در اصل تقیہ کے مفہوم اور معنی سے واقف نہیں یا کسی ایک خاص مکتب کو دوسرے مکاتب فکر کےسادہ لوح افراد کے سامنے متنفر کرنے کیلئے اس قرآنی اور عقلانی اصول کی اصل اور حقیقی شکل و صورت کو بگاڑ کر پیش کرتا ہے ۔ ہم اس سے کہیں گے کہ آپ کسی مکتب کی اہانت نہیں کررہےہو بلکہ در آپ اصل میں قرآن مجید کا مزاق اڑا رہے ہو۔

۵ ۔ تقيه دشمنوں کے مقابلے میں دفاعی وسیلہ

مجاہدین دشمنوں کے شر سے بچنے کیلئے تقیہ بروئے کار لاتے ہیں تاکہ اس تکنیک کے ذریعے دشمن کو غافل گیر کرکے مغلوب بنایا جائے ۔ اور میدان جنگ میں خود کامیابی سے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

يہى كفر ونفاق كے گناہ كے برابر ہے _و عدالله المنافقين و الكفار نار جهنم خالدين فيها هى حسبهم

۹_ جو منافقين ، خدا ، پيغمبر(ص) اور آيات الہى كا مذاق اڑاتے ہيں خدا تعالى بھى ان كا مذاق اڑاتا ہے_

قل ابالله و آياته و رسوله كنتم تستهزؤن و عدالله المنافقين نار جهنم خالدين فيها هى حسبهم

(وعيد) كى جگہ لفظ ( وعد) كا استعمال نيز ( ہى حسبہم ) كى تعبير ايك قسم كے مذاق اڑانے پر دلالت كرتى ہے اور ہو سكتا ہے يہ منافقين كے خدا و كے مذاق اڑانے كا مناسب جواب ہو_

۱۰_ منافقين و كفار پر خدا تعالى كى نفرين اور لعنت ہے اور وہ اسكى رحمت سے ہميشہ كيلئے محروم ہيں _

المنافقين و الكفار لعنهم الله

۱۱ _ منافقين و كفار پر لعن و نفرين كا جائز ہونا_المنافقين والكفار لعنهم الله

۱۲_ منافقين و كفار كا رحمت الہى سے محروم ہونا ان كيلئے ہميشگى عذاب و رنج و الم كا سبب ہے_

و لعنهم الله و لهم عذاب مقيم

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ (عذاب مقيم ) نفرين الہى كے نتيجے ميں انكے رحمت سے دور ہونے كى صورت ميں ہو _

۱۳_ آتش جہنم ميں ہميشہ رہنا دوزخيوں كے عادى ہو جانے يا رنج و عذاب كے كم ہو جانے كا سبب نہيں بنے گا_*

نار جهنم خلدين فيها هى حسبهم و لهم عذاب مقيم

(نار جہنم ) كے بعد( و لہم عذاب مقيم ) كا تكرار ہو سكتا ہے اس وہم كو دور كرنے كيلئے ہو كہ دوزخى لوگ اس ميں ہميشہ رہ كر اسكے ساتھ مأنوس ہو جائيں گے_

آيات خدا:ان كا مذاق اڑانے والے ۹

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۵

جہنم:اس كا ہميشہ رہنا ۷،۸; اس ميں ہميشہ رہنا ۱،۱۳; اس ميں ہميشہ رہنے والے ۱;عذاب جہنم كى خصوصيات ۱۳

جہنمى لوگ:۱

ان كا ہميشہ رہنا ۶; انكا عذاب ۱۳

خدا تعالى :اسكى دھمكياں ۱; اسكى سزائيں ۴; اس كى طرف سے مذاق اڑانا ۹ ; اسكى طرف سے لعنت ۱۰

۱۸۱

رحمت:اس سے محروم لوگ ۱۰، ۱۲;اس سے محروميت كے آثار ۱۲

زندگى :اخروى زندگى كا ہميشہ رہنا ۶

سزا :اخروى سزا كے مستحق ۴; اس كا گناہ كے ساتھ مناسب ہونا ۸;اس كا نظام ۲ ;اسكے درجے ۴;اس ميں برابر ہونا۲;

شرعى ذمہ دارى :اس ميں برابر ہونا ۳;شرعى ذمہ داريوں كا نظام ۳

عذاب :اسكے درجے ۷;اس ميں ہميشہ رہنے كے عوامل ۱۲

عورت:اسكى شرعى ذمہ دارياں ۳; منافق عورتيں جہنم ميں ۱; منافق عورتيں صدر اسلام ميں ۵

كفار:ان پر لعنت ۱۰،۱۱;انكى اخروى سزا ۴; انكى سزا ۷،۸،۱۲;انكى محروميت ۱۰،۱۲ ;ان كے رنج كے اسباب ۱۲; كفار جہنم ميں ۱

كفر:اسكا گناہ ۸

لعنت :جائز لعنت ۱۱; جن لوگوں پر لعنت ہے ۱۰،۱۱

محمد (ص) :آپكا(ص) مذاق اڑانے والے ۹

منافقين :ان پر لعنت ۱۰،۱۱; انكا مذاق اڑانا ۹; انكى اخروى سزا ۴; انكى سزا ۲،۷،۸،۱۲;انكى محروميت ۱۰،۱۲; ان كے رنج كے اسباب ۱۲;انكے مذاق ۹;يہ جنہم ميں ۱

نفاق :اس كا گناہ ۸

۱۸۲

آیت ۶۹

( كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُواْ أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالاً وَأَوْلاَداً فَاسْتَمْتَعُواْ بِخَلاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلاَقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ بِخَلاَقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُواْ أُوْلَـئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الُّدنْيَا وَالآخِرَةِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ )

تمھارى مثال تم سے پہلے والوں كى ہے جو تم سے زيادہ طاقتور تھے اور تم سے زيادہ مالدار اور صاحب اولاد بھى تھے _ انھوں نے اپنے حصہ سے خوب فائدہ اٹھايا او ر تم نے بھى اسى طرح اپنے نصيب سے فائدہ اٹھايا جس طرح تم سے پہلے والوں نے اٹھايا اور اسى طرح لغو يات ميں داخل ہوئے جس طرح وہ لوگ داخل ہوئے تھے حالانكہ وہى وہ لوگ ہيں جن كے اعمال دنيا اور آخرت ميں برباد ہوگئے اور وہى وہ لوگ ہيں جو حقيقتاً خسارہ والے ہيں _

۱_ كفر و نفاق سابقہ ا متوں ميں بھى تھا _و عد الله المنافقين و المنافقات كالذين من قبلكم

۲_ گذشتہ تاريخ كے منافقين اور كفار كا برا انجام، باوجود اسكے كہ ان كے پاس قدرت و طاقت اور وافر مال و اولاد تھى ،ہرزمانے كے منافقين كو تنبيہ ہے _وعد الله المنافقين كالذين من قبلكمكانوا اشدّ منكم قوة و اكثر اموال

۳_ گذشتہ امتوں كے درميان عصر پيغمبر(ص) كے كفار و منافقين كى نسبت زيادہ طاقتور كفار و منافقين موجود تھے_

كانوا اشد منكم قوة و اكثر اموالا و اولاد

۴_ منافقين و كفار كا اپنى قدرت وطاقت اور زيادہ مال و اولاد پر بھروسہ اور اعتماد _كانوا اشد منكم قوة و اكثراموالا و اولاد

۵_ كوئي چيز حتى كہ برترين فوجى اور اقتصادى طاقت اور بڑى انسانى قوت بھى كفار و منافقين كو عذاب الہى سے بچا نہيں سكتى _وعد الله المنافقين و لهم عذاب مقيم _ كالذين من قبلكم كانوا اشد منكم قوة و اكثر اموالاً و اولاد

فوجى قوت پر '' قوة'' اقتصادى قوت پر ''اموالاً'' اور انسانى طاقت پر '' اولاداً'' دلالت كرتا ہے _

۱۸۳

۶_ ہر امت چاہے وہ مومن ہو يا كافر و منافق، دنياوى زندگى ميں اس كا حصہ اور نصيب ہے _

وعد الله المنافقين كالذين من قبلكم فاستمتعوا بخلاقهم فاستمتعتم بخلاقكم

۷_ كفار كى زيادہ بہرہ مندي; ان كے خلق و خو ، ماديات كے حصول كيلئے كوشش اور قدرتى تحركات كى بدولت ہے نہ خدا تعالى كے ان پر لطف و كرم كا نتيجہ_ *فاستمتعوا بخلاقهم فاستمتعتم بخلاقكم

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ ہو سكتا ہے ''خلاق'' سے مراد وہ آمدنياں ہوں جو انسان كو اسكى اپنے خلق و خو كى بدولت حاصل ہوتى ہيں _

۸_ منافقين و كفار كا مادى آسائشوں ميں غرق ہونا انكى پرانى اور ہميشہ كى روش ہے_

فاستمتعوا بخلاقهم و خضتم كالذى خاضو

مندرجہ بالا نكتہ اس احتمال كى بنا پر ہے كہ ''خوض '' (غرق ہونا) سے مراد ماديات سے بہرى مندى اور ان كے گرداب ميں غرق ہونا ہو اور ''استمتعوا'' اسى كا قرينہ ہے_

۹_ خدا تعالى كى طرف سے مادى لذتوں اور آسائشوں ميں غرق ہونے كى مذمت _فاستمتعوا بخلاقهم و خضتم كالذى خاضو

يہ نكتہ اس احتمال كى بنا پر ہے كہ ''خوض ''سے مراد مادى آسائشوں ميں غرق ہونا ہو _

۱۰_منافقين و كفار كى ياوا گوئي اور الہى اقدار كا مذاق اڑانا تاريخ ميں ہميشہ انكى عادت رہى ہے_

كالذين من قبلكم و خضتم كالذى خاضو

آيت نمبر ۶۵ ميں منافقين كى يہ بات نقل ہوئي ہے كہ ( انما كنا نخوض و نلعب ) اور خدا تعالى اس آيت ميں فرمارہا ہے ( خضتم كالذى خاضوا) يعنى تمہارى يہ روش تم سے پہلوں ميں بھى موجود تھى _

۱۱_ دنيا و آخرت ميں كفار و منافقين كے اعمال كا بے ثمر اور بے قدر و قيمت ہونا _

و عدالله المنافقين اولئك حبطت اعمالهم فى الدنيا والآخرة

۱۲_ سابقہ كفار و منافقين اپنى مادى آمدنى پر پورے

۱۸۴

بھروسے كے باوجود آخر كار ان سب كو چھوڑ كر كسى توشے كے بغير چلے گئے_

كالذين من قبلكم كانوا اشدمنكم اولئك حبطت اعمالهم فى الدنيا و الاخرة

آيت مباركہ منافقين كو ڈراتے ہوئے ان كيلئے گذشتگان كا انجام بيان كررہى ہے كہ كس طرح وہ اس سب قدرت كے باوجود چلے گئے اور انكى دنياوى كوششيں بارآور ثابت نہ ہوئيں _

۱۳_ الہى اقدار كو ختم كرنے كيلئے پورى تاريخ ميں منافقين و كفار كى سب دسيسہ كاريوں كا ناكام ہوجانا ، انكى راہ پر چلنے والوں كيلئے عبرت ہے_*كالذين من قبلكم اولئك حبطت اعمالهم فى الدنيا و الآخرة

كيوں كہ ہو سكتا ہے ( اعمالہم) ميں اعمال سے مقصود انكى اديان الہى كے مقابلے ميں خيانتكارانہ روشيں ہوں _

۱۴_تاريخ ميں در حقيقت نقصان منافقين و كفار كو ہوا_و عدالله المنافقين اولئك هم الخاسرون

۱۵_ دنياوى لذتوں اور آسائشوں كا اخروى ثواب اور اقدار كے مقابلے ميں ناچيز ہونا _

فاستمتعوا بخلاقهم اولئك حبطت اعمالهم و اولئك هم الخاسرون

باوجود اس كے كہ كفار و منافقين دنيا ميں بہرہ مند تھے خدا تعالى نے انہيں واقعا گھاٹا اٹھانے والے متعارف كرايا ہے كيونكہ انكى دنياوى لذتيں محدود تھيں اور يہ لوگ اخروى ثواب سے بے بہرہ رہے_

اقدار:انكا مذاق اڑانا ۱۰

امتيں :سابقہ امتوں كے كفار ۳; سابقہ امتوں كے منافقين ۳

پاداش :اخروى پاداش كى قدر و قيمت ۱۵

تاريخ :اس سے عبرت ۱۳

ثروت:اس پر بھروسہ كرنا ۴

خدا تعالى :اسكى رحمت كى علامتيں ۷; اسكى سنتيں ۷;اسكى طرف سے مذمت ۹;اسكے عذاب كا حتمى ہونا ۵

دنيا پرستى :اسكى سرزنش ۹

۱۸۵

عبرت :اسكے عوامل۲،۱۳

قدرت:اس پر بھروسہ كرنا ۴

كفار :انكا انجام ۱۲;انكا مذاق اڑانا ۱۰;انكا نقصان اٹھانا ۱۴;انكى اولاد ۲،۴;انكى دنيا پرستى ۸; انكى سازش كا بے اثر ہونا ۱۳; انكى سيرت ۱۰; انكى صفات ۴; انكى قدرت ۴;انكے اموال ۲،۴،۱۲; ان كے انجام سے عبرت ۲; انكے عذاب كا حتمى ہونا ۵;انكے عمل كا ضائع ہونا ۱۱،۱۳; ان كے مادى وسائل ۶،۷; صدر اسلام كے كفار ۳

كفر:اسكى تاريخ ۱

كوشش:اس كے آثار ۷

لذتيں :دنياوى لذتوں كا بے قدر وقيمت ہونا ۱۵

مادى وسائل :ان سے استفادہ ۶; ان كا بے قيمت ہونا ۱۵

منافقت :اسكى تاريخ ۱

منافقين:انكا انجام ۱۲; انكا مذاق اڑانا ۱۰;انكا نقصان اٹھانا ۱۴; انكو تنبيہ ۲;انكى اولاد كى كثرت ۲،۴;انكى ثروت ۲;انكى دنيا پرستى ۸; انكى سازش كا بے اثر ہونا ۱۳; انكى سيرت ۱۰;انكى صفات ۴;انكى قدرت ۴; انكے انجام سے عبرت ۲; انكے عذاب كا حتمى ہونا ۵;انكے عمل كا ضائع ہونا ۱۱; انكے مادى وسائل ۴،۶،۱۲;منافقين صدر اسلام ميں ۳

مومنين :ان كے مادى وسائل ۶

نقصان اٹھانے والے ۱۴

۱۸۶

آیت ۷۰

( أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ وِأَصْحَابِ مَدْيَنَ وَالْمُؤْتَفِكَاتِ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانَ اللّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَـكِن كَانُواْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ )

كيا ان لوگوں كے پاس ان سے پہلے والے افراد قوم نوح، عاد ، ثمود، قوم ابراہيم _ اصحاب مدين اور الٹ دى جانے والى بستيوں كى خبر نہيں آئي جن كے پاس ان كے رسول واضح نشانياں لے كر آئے ادر انھوں نے انكار كرديا_ خدا كسى پر ظلم كرنے والا نہيں ہے لوگ خود اپنے نفس پر ظلم كرتے ہيں _

۱_ خدا تعالى كى طرف سے منافقين كے گذشتہ كفار كے برے انجام سے عبرت حاصل نہ كرنے پر انكى مذمت _

و عدالله المنافقين ألم يأتهم نبأ الذين من قبلهم

۲_ عصر پيغمبر (ص) كے لوگوں كا قوم نوح ، عاد، ثمود ، ابراہيم ، اصحاب مدين اور گذشتگان كے انجام اور ان كے (قوم لوط و غيرہ) تباہ شدہ شہروں سے مطلع ہونا _ألم يا تهم نبأ الذين من قبلهم قوم نوح و المؤتفكت

( ألم يأتہم ) ميں استفہام توبيخ كيلئے ہے اور كفار و منافقين كى اس بنا پر سرزنش كرنا كہ انہوں نے ا پنى پيشرو اقوام كے انجام سے عبرت حاصل نہيں كى اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ يہ لوگ ان كے انجام سے مطلع تھے_

۳_ نوح ، عاد ، ثمود ، ابراہيم ، اصحاب مدين اور لوط كى ہلاك شدہ اقوام كى تاريخ انسانوں كيلئے باعث عبرت ہے_

ألم يا تهم نبأ الذين من قبلهم قوم نوح و المؤ تفكت

۴_ انسانوں كى ہدايت كيلئے سابقہ امتوں كى تاريخ اور

۱۸۷

انجام سے استفادہ كرنا ضرورى ہے _ألم يا تهم نبأ الذين من قبلهم قوم نوح و المؤتفكت

مندرجہ بالا نكتہ اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ خدا تعالى نے انسانوں كى ہدايت كيلئے امتوں كى داستانيں ذكر كى ہيں _

۵_ تاريخ كى كافراقوام كى ہلاكت، تربيت كرنے والے اہم اور فائدہ سے بھر پور وقائع ميں سے ہيں _

الم يا تهم نبأ الذين من قبلهم قوم نوح والمؤتفكت

''نبا '' سے مراد ہے اہم اور بہت مفيد خبر

۶_ منافقين ، عذاب الہى اور اقوام نوح و عاد و ثمود و ابراہيم اور اصحاب مدين جيسے انجام ميں مبتلا ہونے كى زد ميں _

و عدالله المنافقين ألم يا تهم نبأ الذين من قبلهم قوم نوح و اصحب مدين

۷_ تاريخ كى كافر اقوام كى ہلاكت خدا تعالى كے ہر زمانے كے كفار و منافقين كو دنياوى سزا دينے پر قادر ہونے كا ايك نمونہ _

ألم يأتهم نبأ الذين من قبلهم قوم نوح و المؤ تفكت

۸_ بہت سارے شہروں كا عذاب الہى كے نزول كے نتيجے ميں تباہ و برباد ہوجانا_و المؤتفكت

( ائتفاك) كا معنى ہے منقلب ہونا اور الٹ پلٹ جانا بنا براين قرينہ مقام بتاتا ہے كہ ''مؤتفكت'' سے مراد وہ شہر ہيں جو عذاب و قہر الہى كے نتيجے ميں الٹ پلٹ گئے_

۹_ كفار و منافقين كو دنياوى اور اخروى سزا دينا، خدا تعالى كى ناقابل تغيير سنت ہے_

اولئك حبطت اعمالهم فى الدنيا و الآخرة ألم يا تهم نبأ الذين من قبلهم قوم نوح و المؤ تفكت

۱۰_ علم و آگاہى سے ذمہ دارى آجاتى ہے_ألم يا تهم نبأ الذين من قبلهم قوم نوح و المؤتفكات

كيوں كہ منافقين و كفار كو اس بنا پر ڈانٹ پڑى كہ انہوں نے كفر كے برے انجام سے آگاہ ہونے كے باوجود غلط راہ پر سفر جارى ركھا _

۱۱_ عصر پيغمبر(ص) كے منافقين كے مقابلے ميں نوح ، عاد ، ثمود اور ابراہيم (ع) كى اقوام اور اصحاب مدين كى زيادہ قوت و طاقت ،بہتر وسائل اور زيادہ آبادى _

كالذين من قبلهم كانوا اشد منكم قوة ألم يا تهم نبأ الذين من قبلهم قوم نوح و اصحب مدين

۱۲_ سابقہ كافر اقوا م كى ہلاكت ان پر پيغمبران الہى كى اتمام حجت كے بعد ہوئي _

ألم يا تهم نبأ الذين من قبلهم اتتهم رسلهم بالبينات

۱۸۸

۱۳_ہلاك ہوجانے والى سابقہ اقوام كا پيغمبر ان الہى كے ذريعہ واضح دلائل ديكھنے كے باوجود كفر اختيار كرنا _

اتتهم رسلهم بالبينات

۱۴_ اديان الہى اور خدا كے پيغمبروں كے پيغام كى بنياد واضح دلائل اور براہين ہيں _

اتتهم رسلهم بالبينات

۱۵_ انسانوں كى تربيت اور ہدايت ميں واضح بيان اور قابل فہم مطالب سے استفادہ كرنا ضرورى ہے_

اتتهم رسلهم بالبينات

۱۶_ كافر اقوام كى ہلاكت خود ان كے اپنے اعمال كا رد عمل ہے نہ خدا تعالى كى طرف سے ان پر ظلم _

فما كان الله ليظلمهم و لكن كانوا انفسهم يظلمون

۱۷_ انسانوں كيلئے حق و باطل كو واضح كردينے سے پہلے انہيں سزا دينا ظلم اور خدا تعالى سے بعيد ہے_

اتتهم رسلهم بالبينات فما كان الله ليظلمهم

خدا تعالى سے ظلم كى نفى كرنا اور پھر اسے واضح بيانات پر متفرع كرنا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ انسانوں كو واضح دلائل دكھائے بغير ہلاك كردينا ان پر ظلم ہے_

۱۸_كفر اختيار كرنا اور انبياء كے واضح دلائل كا انكار كرنا انسان كا خود اپنے اوپر ظلم ہے اور اسكے نتائج خود اسى كو بھگتنا ہوں گے_اتتهم رسلهم بالبينات فما كان الله ليظلمهم و لكن كانوا انفسهم يظلمون

۱۹_ انسان كا اپنى تقدير رقم كرنے ميں اختيار اور كردار _فما كان الله ليظلمهم ولكن كانوا انفسهم يظلمون

۲۰_ خدا تعالى كى سزاؤں كے نظام ميں ظلم كى گنجائش نہيں ہے_فما كان الله ليظلمهم

۲۱_ سابقہ كافر اقوام پر عذاب كا نزول ان كے مسلسل ظلم اور حق كو قبول نہ كرنے پر اصرار كے بعد ہو ا_

ولكن كانوا انفسهم يظلمون

''يظلمون'' كے ساتھ فعل '' كانوا'' استمرار پر دلالت كرتا ہے_

۲۲_ ظلم و گناہ پر اصرار عذاب الہى كے نزول كا سبب ہے_و لكن كانوا انفسهم يظلمون

اتمام حجت :۱۲،۱۷

اديان :

۱۸۹

انكى خصوصيات ۱۴;ان ميں برھان ۱۴

اقوام:انكى ہلاكت كے عوامل ۱۶; ان كے انجام سے عبرت حاصل كرنا ۴;سابقہ اقوام كا انجام ۲; سابقہ اقوام كو عذاب ۲۱; سابقہ اقوام كى ہلاكت ۷;سابقہ كافر اقوام ۱۳;كافر اقوام كا حق كو قبول نہ كرنا ۲۱; كافر اقوام كا ظلم ۲۱;كافر اقوام كوعذاب ۲۱; كافر اقوام كى ہلاكت ۵،۷،۱۲،۱۶

انبياء(ع) :انكى تعليمات كى خصوصيات ۱۴;ان كے واضح دلائل ۱۳; ان كے واضح دلائل كو جھٹلانا ۱۸; انہيں جھٹلانے كا ظلم ہونا ۱۸;انہيں جھٹلانے كے آثار ۱۸

انسان:اس كا اختيار ۱۹; اسكى تقدير ۱۹

اہل مدين:ان سے عبرت حاصل كرنا ۳; انكا انجام ۲،۶; انكى تعداد كى كثرت ۱۱;ان كے مادى وسائل ۱۱

باطل:اسے واضح كرنے كى اہميت ۱۷

تاريخ :اس سے عبرت حاصل كرنا ۱،۳،۵;اس سے عبرت حاصل كرنے كى اہميت ۴; اسے نقل كرنے كے فوائد ۵

تربيت :اسكى روش ۱۵

تقدير :اس ميں موثرعوامل ۱۹

حق:اسے قبول نہ كرنے كے آثار ۲۱; اسے واضح كرنے كى اہميت ۱۷

خدا تعالى :اس كا عذاب ۶،۸; اسكى تنزيہ ۱۷; اسكى سزاؤں كى خصوصيات ۲۰;اس كى سزاؤں كى نشانياں ۷;اسكى سنتيں ۹;اسكى طرف سے مذمت ۱; اسكى قدرت كى نشانياں ۷; خدا اور ظلم ۱۶،۱۷

خود:خود پر ظلم ۱۸

ذمہ دارى :اس كا سرچشمہ ۱۰

سزا:بتائے بغير سزا دينا ظلم ہے ۱۷; سزا كا نظام ۱۲،۱۷، ۲۰

شرعى ذمہ دارى :اسكے شرائط ۱۰

شہر :انكى ويرانى ۸

۱۹۰

ظلم:اس پر اصرار كے آثار ۲۱،۲۲

عبرت:اسكے عوامل ۳،۴

عذاب:دنيوى عذاب كے اسباب ۲۱،۲۲

علم:اسكے آثار ۱۰

عمل:اسكے آثار ۱۶

قوم ابراہيم :اس سے عبرت حاصل كرنا ۳;اس كا انجام ۲،۶; اسكى تعداد كى كثرت ۱۱;اسكے مادى وسائل ۱۱;

قوم ثمود:اس سے عبرت حاصل كرنا ۳; اس كا انجام ۲،۶;اسكى تعداد كى كثرت ۱۱;اسكے مادى وسائل ۱۱

قوم عاد:اس سے عبرت حاصل كرنا ۳; اس كا انجام ۲،۶; اسكى تعدا دكى كثرت ۱۱;اسكے مادى وسائل ۱۱

قوم لوط:اس سے عبرت حاصل كرنا ۳; اس كا انجام ۲

قوم نوح:اس سے عبرت حاصل كرنا ۳;اس كا انجام ۲،۶;اسكى تعداد كى كثرت ۱۱;اسكے مادى وسائل ۱۱

كفار:انكا انجام ۱; انكى اخروى سزا ۹; انكى دنيوى سزا ۷،۹

كفر:اس كے آثار ۱۸; اس كا ظلم ۱۸

گناہ:اس پر اصرار كے اثرات ۲۲

لوگ:صدر اسلام كے لوگوں كى گواہى ۲

مبتلا ہونا:دنياوى عذاب ميں مبتلا ہونا۶

منافقين :انكا انجام ۶; انكا عذاب ۶;انكو تنبيہ ۶;انكى اخروى سزا ۹; انكى دنيوى سزا ۷،۹;انكى مذمت ۱;صدر اسلام كے منافقين كى تعداد ۱۱; صدر اسلام كے منافقين كے مادى وسائل ۱۱

ہدايت:اسكى روش ۱۵; اسكے عوامل ۴

۱۹۱

آیت ۷۱

( وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَـئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ )

مومن مرد اور مومن عورتيں آپس ميں سب ايك دوسرے كے ولى اور مددگار ہيں كہ يہ سب ايك دوسرے كو نيكيوں كا حكم ديتے ہيں اور برائيوں سے روكتے ہيں ،نماز قائم كرتے ہيں ،زكوة ادا كرتے ہيں اللہ اور رسول كى اطاعت كرتے ہيں _ يہى وہ لوگ ہيں جن پر عنقريب خدا رحمت نازل كرے گا كہ وہ ہر شے پر غلب اور صاحب حكمت ہے _

۱_ مومن معاشرے پر دوستى اور ولايت كے ماحول كاراج_و المؤمنون و المو منات بعضهم اولياء بعض

۲_سب مومنين ( مرد اور عورتيں ) كو خدا تعالى كى طرف سے ايك دوسرے پر ايك قسم كى سرپرستى حاصل ہے_

و المؤمنون و المو منات بعضهم اولياء بعض

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ '' يأمرون و ينہون'' كے قرينے سے ولى كا معنى ہو سرپرست_

۳_ ايمان ، مومنين كے در ميان روح دوستى كے پيدا ہونے كا سبب ہے_

و المؤمنون و المؤ منات بعضهم اولياء بعض

۴_ امر بالمعروف اور نہى عن المنكر ايسا حق ہے كہ جس كا سرچشمہ سب مومنين كى ايك دوسرے پر ولايت اور سرپرستى ہے_و المؤمنون والمؤمنات بعضهم اولياء بعض يأمرون بالمعروف و ينهون عن المنكر

۵_امر بالمعروف اور نہى عن المنكر ايمانى معاشرے كى ايك دوسرے پر سرپرستى اور محبت كا جلوہ ہے_و المؤمنون و المؤمنات بعضهم اولياء بعض يأمرون بالمعروف و ينهون عن المنكر

۶_ مومنين كيلئے ايك دوسرے كے انجام اور اعمال كى نسبت خاموش نہ رہنا ضرورى ہے _

والمؤمنون و المؤمنات بعضهم اولياء بعض يا مرون بالمعروف و ينهون عن المنكر

۷_ امر بالمعروف اور نہى عن المنكر مومنين كى سب سے اہم ذمہ دارى اور اسلامى معاشرہ كا سب سے بڑا اور واضح امتياز ہے_و المؤمنون و المؤمنات يا مرون بالمعروف و ينهون عن المنكر

۱۹۲

چونكہ سب امور اور اقدار سے پہلے امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كو ذكر كيا گيا ہے اس سے انكى بڑى اہميت كا پتا چلتا ہے_

۸_ امر بالمعروف اور نہى عن المنكر سب كا اجتماعى فريضہ اور مردوں اور عورتوں كى مشتركہ ذمہ دارى ہے_

و المؤمنون و المو منات بعضهم اولياء بعض يأمرون بالمعروف و ينهون عن المنكر

۹_ امر بالمعروف اور نہى عن المنكرايك دائمى ذمہ دارى ہے نہ محدود وقت كيلئے _

يأمرون بالمعروف و ينهون عن المنكر

مندرجہ بالا نكتہ پر فعل مضارع ( يأمرون و ينہون ) جو مفيد استمرار ہوتا ہے دلالت كرتا ہے_

۱۰_ نماز قائم كرنا ، زكات ادا كرنا اور خدا و رسول كى اطاعت كرنا مومنين كى واضح نشانياں ہيں _

و المؤمنون و المؤمنات و يقيمون الصلاة و يؤتون الزكاة

۱۱_ شرعى ذمہ داريوں ميں سے نماز قائم كرنے اور زكات ادا كرنے كى خاص اہميت _

و المؤمنون و المؤمنات و يقيمون الصلاة و يؤتون الزكاة

باوجود اس كے كہ ( يطيعون اللہ و رسولہ) ميں سب عبادى اور غير عبادى ذمہ دارياں آجاتى ہيں پھر نماز قائم كرنے اور زكات ادا كرنے كو الگ طور پر ذكر كرنا،انكى ديگر شرعى ذمہ داريوں كى نسبت بڑى اہميت پر دلالت كرتا ہے_

۱۲_ پابندى اور استمرار سے نماز قائم كرنا ، زكات ادا كرنا اور خدا و رسول كى اطاعت كرنا سچے مومنين كى خصوصيات ہيں _

و يقيمون الصلاة و يؤ تون الزكاة و يطيعون الله و رسوله

فعل مضارع ( يقيمون ، يؤتون اور يطيعون)كا استعمال دوام اور استمرار پر دلالت كرتا ہے_

۱۳_ مومنين كيلئے عبادى اور انفرادى ذمہ داريوں كو اہميت دينے كے ساتھ ساتھ معاشرے كى اصلاح اور اسكى معاشى ضروريات كو بھى اہميت دينا ضرورى ہے_

و المؤمنون يأمرون بالمعروف و يقيمون الصلاة و يؤتون الزكاة

امر بالمعروف اور نہى عن المنكر معاشرے كى اصلاح كيلئے ، زكات ادا كرنا مومنين كى مالى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے اور نماز قائم كرنا انسان كى انفرادى عبادات ميں سے ہے_

۱۹۳

۱۴_اسلام; عبادى ، اجتماعى اور اقتصادى سب ذمہ داريوں كو اہميت ديتا ہے اور كسى ايك حصے ميں محدود نہيں ہے_

و المؤمنون يأمرون بالمعروف و يقيمون الصلاة و يؤتون الزكاة

۱۵_ مومنين اور منافقين كى اجتماعى كاركردگى اور عادات بالكل مختلف اور متضاد ہيں _

المنافقون و المنافقات يأمرون بالمنكر و المو منون و المو منات يأمرون بالمعروف

اس آيت كو آيت ۶۷; كہ جو منافقين كى عادات كو بيان كر رہى ہے، كے مقابلہ ميں لانے سے مندرجہ بالا نكتہ حاصل ہوتا ہے_

۱۶_ ايما ن كا فرد اور معاشرے كى اصلاح اور اس سے فقر و فساد كو دور كرنے ميں تعميرى كردار _

المؤمنون يا مرون بالمعروف ...و يؤتون الزكاة

۱۷_ سچے مومنين اپنى خوشى اورر غبت كے ساتھ خدا و رسول كى اطاعت كرتے ہيں نہ بے رغبتى كے ساتھ اور مجبور ہو كر _و يطيعون الله و رسوله

( يطيعون) كے مصدر ''اطاعة '' كا معنى ہے رغبت اور ميلان كے ساتھ پيروى كرنا_

۱۸_ رسول(ص) خدا كى ان كے حكومتى و ديگر احكام ميں اطاعت خدا تعالى كى اطاعت كى طرح ضرورى ہے_

و يطيعون الله و رسوله

اطاعت رسول كا اطاعت خدا سے عليحدہ ذكر ہونا ان كے حكم كے موضوعات اور دائرہ كار كے مختلف ہونے كا اشارہ ديتا ہے_

۱۹_ رسول خدا(ص) كى مومنين پر ولايت كا سرچشمہ آنحضرت كا مقام رسالت ہے_و يطيعون الله و رسوله

۲۰_خدا تعالى كا روز قيامت مومنين كو اپنى خاص رحمت سے بہرہ مند كرنے كا وعدہ _

و المؤمنون و المؤمنات اولئك سيرحمهم الله

''يرحم'' كى بجائے ''سيرحم '' كى تعبير كہ جو مستقبل كے ساتھ مختص ہے ہو سكتا ہے قيامت كى طرف اشارہ ہو _

۲۱_ امر بالمعروف ، نہى عن المنكر ، نماز قائم كرنا ، زكات ادا كرنا اور خدا و رسول كى اطاعت خدا تعالى كى

۱۹۴

خاص رحمت كے حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_يأمرون بالمعروف اولئك سيرحمهم الله

۲۲_ بارگاہ الہى ميں مومن مرد و عورت كے اعمال كى پاداش اور قدر و قيمت برابر ہے_

المؤمنون و المؤمنات اولئك سيرحمهم الله

۲۳_ خدا تعالى عزيز( كا مياب اور شكست ناپذير) اور حكيم(دانا) ہے_ان الله عزيز حكيم

۲۴_ خدا تعالى كا عزيز و حكيم ہونا اسكے مومنين كے ساتھ كئے گئے وعدوں اور بشارتوں كو عملى كرنے كى ضمانت ديتا ہے_

اولئك سيرحمهم الله ان الله عزيز حكيم

۲۵_ خدا تعالى كے مومنين كے ساتھ اپنى رحمت كے وعدے كا سرچشمہ اسكى حكمت ہے نہ اس وقت رحمت نازل كرنے سے ا س كا عاجز ہونا _اولئك سيرحمهم الله ان الله عزيز حكيم

ہوسكتا ہے جملہ ( ان الله ...) اس مقدر سوال كى علت كا بيان ہو كہ كيوں خداتعالى نے مومنين پر رحمت كے نزول كو آئندہ پر موكول كيا ہے _

۲۶_ امام حسين عليہ السلام سے روايت كى گئي ہے ...اور امير المومنين عليہ السلام كى طرف بھى اسكى نسبت دى گئي ہے كہ آپ نے فرمايا خداتعالى فرماتا ہے:المؤمنون و المؤمنات بعضهم اولياء بعض يا مرون بالمعروف و ينهون عن المنكر '' فبدء الله بالامر بالمعروف والنهى عن المنكر فريضة منه لعلمه بانها اذا اديت واقيمت استقامت الفرائض كله هيّنها وصعبها '' ...'' مومن مرد اور عورتيں ايك دوسرے كے ولي( يار و مددگار ) ہيں نيكى كا حكم ديتے ہيں اور برائي سے منع كرتے ہيں '' خداتعالى نے (نماز و زكات سے پہلے ) امر بالمعروف اور نہى عن المنكر سے آغاز فرمايا كيونكہ اسے علم تھا كہ اگر ان دو فريضوں پر عمل ہونا شروع ہوجائے تو ديگر سب فرائض آسان ہوں يا مشكل پابرجا ہو جائيں گے(۱)

احكام :۱۸

اسلام :اس كا اجتماعى پہلو ۱۴; اس كا اقتصادى پہلو ۱۴; اس كا عبادى پہلو ۱۴; اسكى جامعيت ۱۴; اسكى خصوصيات ۱۴

اسلامى معاشرہ:اسكى نشانياں ۷

اسماو صفات :حكيم۲۳;عزيز ۲۳

____________________

۱) تحف العقول ص ۲۳۷ _ بحار الانوار ج ۹۷ ص ۷۹ ح ۳۷_

۱۹۵

اصلاح:اسكے عوامل ۱۶

اطاعت :اطاعت خدا كے آثار ۲۱;حضرت محمد(ص) كى اطاعت۱۲;حضرت محمد (ص) كى اطاعت كا دائمى ہونا ۱۲;حضرت محمد (ص) كى اطاعت كى اہميت ۱۸; حضرت محمد (ص) كى اطاعت كے آثار ۲۱; خدا كى اطاعت ۱۰ ، ۱۷ ، ۸ ۱ ; خدا كى اطاعت كادائمى ہونا ۱۲

امر بالمعروف :اسكى اہميت ۷،۸،۹،۲۷; اسكى عموميت ۸; اسكے آثار ۲۱

ايمان :اسكے آثار ۳; اسكے اجتماعى آثار ۱۶;اسكے انفرادى آثار ۱۶; ايمان اور فقر كو ختم كرنا ۱۶

بدلہ دينے كا نظام :۲۲

پاداش :اس ميں برابرى ۲۲

حقوق :امر بالمعروف كا حق ۴،۵; حق ولايت ۴; نہى از منكر كا حق ۴،۵;

خدا تعالى :اسكى اخروى رحمت ۲۰; اسكى بشارتوں كے عملى ہونے كے عوامل ۲۴;اسكى پاداش ۲۲; اسكى حكمت ۲۴،۲۵; اسكى خاص رحمت ۲۰;اسكى خاص رحمت كے عوامل ۲۱; اسكى عزت ۲۴; اسكے وعدوں كا سرچشمہ ۲۵; اسكے وعدوں كے عملى ہونے كے عوامل ۲۴; اسكے وعدے ۲۰;خدا اور عجز ۲۵

ذمہ دارى :اجتماعى ذمہ دارياں ۸

رحمت:جن پر يہ نازل ہوگى ۲۰،۲۵

روايت:۲۶،۲۷

زكات:اس كا پابندى سے ادا كرنا ۱۲; اسكى اہميت ۱۰،۱۱; اسكے آثار ۲۱

عورت:عورت و مرد كا برابر ہونا ۲۲; عورتوں كى ذمہ دارى ۸; مومن عورتوں كے عمل كى پاداش ۲۲;مومن عورتوں كے عمل كى قدر و قيمت ۲۲

فساد:اسكے موانع ۱۶

محمد(ص) :آپ (ص) اور مومنين۱۹; آپ(ص) كامقام ۱۹;آپ(ص) كى رسالت ۱۹; آپ(ص) كى ولايت كا سرچشمہ۱۹;آپ(ص) كے حكومتى احكام ۱۸

۱۹۶

معاشرہ :اسكى اصلاح كى اہميت ۱۳; اسكى اصلاح كے عوامل ۱۶; اسكى ضروريات پورى كرنے كى اہميت ۱۳

منافقين :انكا اجتماعى موقف ۱۵;انكا عمل ۱۵; انكى صفات ۱۵

مومنين :ان پر ولايت ۱۹; انكا اجتماعى موقف ۱۵; انكا اخروى مقام ۲۰;انكا عمل ۱۵،۲۲;انكا مطيع ہونا ۱۷; ان كو بشارت ۲۴; انكى اجتماعى ذمہ دارياں ۱۳; انكى انفرادى ذمہ دارى ۱۳;انكى پاداش ۲۲;انكى خصوصيات ۱۲،۱۷;انكى دوستى ۱;ان كى ذمہ دارى ۶،۷; انكى صفات ۱۵;انكى نشانياں ۱۰; انكى ولايت ۱،۲،۴،۵،۲۶،۲۷;ان كے ساتھ وعدہ ۲۵; ان كے عمل كى قدر و قيمت ۲۲;ان كے فضائل ۲۰;ان ميں دوستى كا سرچشمہ ۳; ان ميں محبت كے آثار ۵;

يہ اور معاشرہ كى اصلاح ۱۳; يہ اور معاشرہ كى ضروريات پورى كرنا ۱۳; يہ اور منافقين ۱۵

نماز:اسے پابندى سے قائم كرنا ۱۲;اسے قائم كرنے كى اہميت ۱۰،۱۱;اسے قائم كرنے كے آثار ۲۱

نہى از منكر :اسكى اہميت ۷،۸،۹،۲۷;اسكى عموميت ۸;اسكے آثار ۲۱

واجبات :۱۸

آیت ۷۲

( وَعَدَ اللّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ )

اللہ نے مومن مرداور مومن عورتوں سے ان باغات كا وعدہ كيا ہے جن كے نيچے نہريں جارى ہوں گي_ يہ ان ميں ہميشہ رہنے والے ہيں _ ان جنات عدن ميں پاكيزہ مكانات ہيں اور اللہ كہ مرضى تو سب سے بڑى چيز ہے اور يہى ايك عظيم كاميابى ہے_

۱_بہشت كے باغوں ميں كہ جن ميں نہريں جارى ہوں گى حيات جاودان ، خدا تعالى كا مومن مردوں اور عورتوں كے ساتھ وعدہ _و عدالله المؤمنين تحتهاالانهار

۲_ بہشت كے باغات ''جنات تجرى ''درختوں سے ڈھكے ہوئے_جنات تجري

(جنات كے مفرد) ''جنة ''كا معنى ہے وہ باغ كہ جسكى زمين درختوں سے ڈھكى ہوئي ہو _

۱۹۷

۳_ اخروى پاداش كے لحاظ سے مرد و زن كا برابر ہونا _و عدالله المؤمنين و المؤمنات جنات تجرى من تحتها الانهار

۴_ انسان كا باغات ،پانى اور دلكش اور دائمى گھروں كى طرف طبيعى اورفطرى ميلان اسے معنوى اقدار كى طرف مائل كرنے كا ذريعہ ہے_و عدالله المو منين و المؤمنات جنات تجري

مندرجہ بالا نكتہ ا س بات سے حاصل ہواہے كہ خدا تعالى نے انہيں طبيعى ميلانات كو انسان كى ہدايت اورا سے اقدار حاصل كرنے كى طرف مائل كرنے كا ذريعہ قرار ديا ہے_

۵_آخرت ميں انسان كى زندگى مادى اور جسمانى ہے نہ صرف معنوى اور روحاني_

وعدالله المؤمنين جنات تجرى مسكن طيبة

آخرت ميں دلكش گھروں اور درختوں سے ڈھكے باغات جيسى مادى لذتوں سے استفادہ كا لازمہ انسان كا مادى اور جسمانى وجود ہے_

۶_ ''جنات عدن'' ميں نيك كردار مومنين كيلئے عالى شان اور پاكيزہ گھر _و مسكن طيبة فى جنات عدن

مندرجہ بالا نكتہ اس احتمال كى بنا پر ہے كہ جنات عدن ايك خاص نام ہو اور يہ ''جنات تجرى ...'' كے علاوہ ہو_

۷_ بہشت كے مختلف مراتب ہيں اور اخروى پاداش تكامل كے لحاظ سے مختلف ہے_

جنات تجرى جنات عدن و رضوان من الله اكبر

مندرجہ بالا نكتے ميں ''جنات تجرى ''اور ''جنات عدن ''كے مختلف ہونے سے بہشت كے مراتب كا استفادہ ہوتا ہے اور '' رضوان من اللہ اكبر'' سے اسكى نعمتوں كے كمال كے لحاظ سے مختلف ہونے كا پتا چلتا ہے_

۸_ بہشت ميں مومنين كيلئے سب لذتوں سے برتر خدا تعالى كى خوشنودى اور رضا كا ايك پر تو ہے_*

و رضوان من الله اكبر

رضوان كا نكرہ ہونا ہوسكتا ہے تقليل كيلئے ہو يعنى حتى كہ رضوان الہى كى تھوڑى سى نسيم بھى سب لذتوں سے بڑھ كرہے_

۹_ خدا تعالى كى رضوان اور اسكى بہشتيوں سے خوشنودى ان كيلئے سب سے بڑى نعمت اور لذت ہے_

و رضوان من الله اكبر

۱۰_ بہشت ميں مادى اور معنوى لذتوں اور نعمتوں كا وجود _

۱۹۸

جنات مساكن و رضوان من الله

۱۱_ نيك عمل كے ہمراہ ايمان ، انسان كے بہشت كى دائمى نعمتوں اور عظيم كاميابى تك پہنچنے كى شرط _

و عدالله المؤمنين و المؤمنات الفوز العظيم

سابقہ آيت كو مد نظر ركھتے ہوئے '' المو منين و المؤمنات'' سے مراد دہ مومن مرد اور عورتيں ہيں كہ جو صاحبان عمل صالح ہيں _

۱۲_ انسان كى حقيقى سعادت اور كاميابى صرف خدا تعالى كى رضا اور خوشنودى كے حاصل كرنے ميں مضمر ہے_

و رضوان من اللہ ذلك ہو الفوز العظيم

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ '' ذلك'' صرف '' رضوان من اللہ '' كى طرف اشا رہ ہو_

۱۳_ انسان كا بہشت كى دائمى اور مادى و معنوى نعمتوں سے بہرہ مند ہونا ہى عظيم اور بے بديل سعادت اور كاميابى ہے_

جنات مساكن طيبة و رضوان من اللہ ذلك ہو الفوز العظيم

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ '' ذلك'' ان سب ( جنات تجرى خالدين فيہا مساكن طيبة جنات عدن و رضوان من اللہ ) چيزوں كى طرف اشارہ ہو _

۱۴_ اہل بہشت كيلئے سب سے بڑى لذت معنوى اور روحانى ہے _ورضوان من الله اكبر

۱۵_ بہشت جاويد ، درختوں سے ڈھكے باغات، دلكش گھر اور رضاء الہى خداتعالى كى طرف سے مومنين كو امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كرنے ، نماز قائم كرنے ،زكات ادا كرنے اور خدا و رسول كى اطاعت كرنے كى پاداش ہے

و المو منون و المو منات يا مرون بالمعروف ...و يطيعون الله و رسولہ وعدالله المؤمنين ذلك ہو الفوز العظيم

۱۶_ پيغمبر اكرم(ص) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا : ''عدن دار الله التى لم ترها عين ولم تخطر على قلب بشر لا يسكنها غير ثلاثة النبيين و الصديقين والشهدائ'' ''عدن '' خداتعالى كا وہ ( مخصوص) گھر ہے كہ جسے نہ كسى آنكھ نے ديكھا ہے اور نہ كسى انسان كے دل ميں اس كا تصور آيا ہے اس ميں صرف تين گروہوں كى رہائش ہوگى انبياء ، صديقين اور شہدا_(۱)

۱۷_ امام سجاد(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ نے فرمايا :''اذا صار اهل الجنة فى الجنة فيقول لهم تبارك وتعالي: رضاى عنكم

____________________

۱)مجمع البيان ج ۵ ص ۷۷ _تفسير برہان ج ۲ ص ۱۴۵ح ۳_

۱۹۹

ومحبتى لكم خير و اعظم مما انتم فيه ...ثم قرء على بن الحسين هذه الآ ية ''وعدالله المؤمنين والمؤمنات جنات تجرى من تحتها الانهار ...ورضوان من الله اكبر ''جب اہل بہشت ، بہشت ميں ٹھہر جائيں گے تو خدا تعالى انہيں فرمائے گا ميرا تم سے راضى ہونا اور ميرى تم سے محبت بہشت كى ان سب نعمتوں سے برتر ہے جن ميں تم غرق ہوپھر امام (ع) نے اس آيت كى تلاوت فرمائي '' خدا تعالى نے مومن مردوں اور عورتوں كو بہشت كے ان باغات كا وعدہ ديا ہے كہ جن كے درختوں كے نيچے سے نہريں جارى ہيں اور خدا تعالى كى رضا اور خوشنودى ( ان سب سے ) بڑھ كرہے_(۱)

اطاعت:اطاعت خدا كى پاداش ۱۵; حضرت محمد (ص) كى اطاعت كى پاداش ۱۵

امر بالمعروف :اسكى پاداش ۱۵

انسان :اسكى اخروى حيات ۵; اسكے تمايلات ۴

ايمان:اسكے آثار۱ ۱; ايمان اور عمل صالح ۱۱

بدلہ دينے كا نظام :۳

بہشت:اس كا دائمى ہونا ۱۵; اسكى مادى لذتيں ۱۰;اسكى مادى نعمتيں ۶،۱۰،۱۳;اسكى معنوى لذتيں ۱۰،۱۴ ; اسكى معنوى نعمتيں ۱۰،۱۳;اسكى نعمتوں كى خصوصيات ۷; اسكے اسباب ۱۱،۱۵; اسكے باغات ۲،۱۵; اسكے درخت ۲،۱۵ ; اسكے گھر۶;اسكے مراتب۷; بہشت عدن ۶; بہشت عدن سے مراد ۱۶; بہشت عدن كى فضيلت ۱۶;وعدہ بہشت۱

بہشتى لوگ:ان سے راضى ہونا ۱۷;انكى بہترين لذتيں ۸،۹،۱۴; انكى بہترين نعمتيں ۹

پاداش:اخروى پاداش كے مراتب ۷;اس ميں برابر ہونا ۳

تمايلات:پانى كى طرف تمايل ۴ ;فطرت كى طرف تمايل ۴; مادى وسائل كى طرف تمايل ۴; معنوى اقدار كى طرف مائل ہونے كا پيش خيمہ۴; ہميشہ رہنے كى طرف تمايل ۴

حيات:حيات اخروى كا دائمى ہونا ۱; آخرت كى جسمانى

____________________

۱)تفسير عياشى ج ۲ ص ۹۶ ح ۸۸ _تفسير برہان ج ۲ ص ۱۴۵ ح ۱_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336