تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں17%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86621 / ڈاؤنلوڈ: 3131
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

وہابی مذہب کے علمائےرجال اور تقیہ

وہابی مذہب کے علمائےرجال تقیہ کا انکار نہیں کرتے ، بلکہ واضح طور پر تمام مسلمانان عالم کے سامنے تقیہ کو بروئے کار لاتے ہیں جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ بڑے بڑے اولیاء اور صالحین کے قبور کو گرانا ، لیکن قبر مبارک پیغمبر اور ابوبکراور عمر کے قبور کو باقی رکھنا تقیہ کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ۔ ان کا قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اصحاب کے قبور کو باقی رکھنا کئی ملین مسلمانوں کے دلوں کو آزار پہنچنے سے بچانا ہے اور یہی تقیہ ہے ۔(۱)

اس سے معلوم ہوا کہ تقیہ اختیاری طور پر بغیر کسی جبر و اکراہ کے جائز نہیں ۔اس بات پر سارے علماء کا اتفاق ہے کہ تقیہ صرف جبر و اکراہ کی صورت میں جائز ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب اسلامی کی فقہی کتابوں میں "باب الاکراہ "کے نام سے الگ باب ہے ۔

__________________

۱۔ تقیہ از دیدگاہ مذاہب و فرق اسلامی غیر شیعی، ص ۱۶۶۔

۱۴۱

چوتھی فصل

جواز تقیہ کے دلائل

۱۴۲

چوتھی فصل : جوازتقيه کےدلائل

مقدمه

تمام دلائل کی بررسی کرنے سے پہلے اس محل بحث کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ چنانچہ اس فصل میں درج ذیل عنوانات پر گفتگو ہوگی:

۱۴۳

۱. شیعوں کے نزدیک تقیہ کی مشروعيت مسلمات میں سے ہے ۔ صرف ایک دو موارد میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے کہ جائز ہے یا نہیں ۔ اور وہ بھی آئمہ معصومین سے مربوط ہے ۔ لیکن اس کے مقابلےمیں اہل سنت کے نزدیک کیا تقیہ جائز ہے یا نہیں ؛ بحث کریں گے ۔

۲. چونكه ہماری بحث اهل سنت سے ہے لہذا دلائل ایسے ہوں جن کے ذریعے اہل سنت کے ساتھ استدلال کیا جاسکے ۔اس لئے هم کوشش کريں گے که زياده تر دلائل قرآن مجید،عقل اور سنت کے علاوہ اهل سنت کي کتابوں سے پيش کريں۔

۳. مشروعیت تقیہ سے مراد ، اصل جواز تقیہ ہے جو وجوب ، استحباب ، مباح، اور کراہت کو بھی شامل کرتا ہے ۔

۴. مشروعیت تقیہ کے بارے میں شیعوں اور اہل سنت حضرات کے درمیان ابتدائے اسلام میں کوئی اختلاف نہیں پایاجاتا ۔کیونکہ قرآن کریم نے اسے ثابت کیا ہے ۔ اصل اختلاف شیعہ اور اہل سنت کے درمیان دو نقطوں پر ہے:

الف: کیا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ تقیہ کر سکتا ہے یا نہیں؟ جیسا کہ شیعہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

ب: اس بات کو تو سب مانتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں تقیہ جائز تھا کیونکہ اس وقت اسلام

۱۴۴

اور مسلمانان ضعیف تھے ۔لیکن اب چونکہ اسلام ایک قدرت مند اور عزت مند اور بڑی شان وشوکت والا دین بن چکا ہے تو کیا اب بھی تقیہ کرنا مناسب ہے ؟

انهي سوالات اور اشکالات کے جواب ميں هم قرآن ، سنت ،اجماع ،عقل اور فطرت سے استدلال کريں گے :

الف: قرآن

قرآن مجيد نے کئی موقع پر تقیہ کے مسئلے کو بیان کیا ہے ؛ کبھی تقیہ ہی کے عنوان سے تو کبھی کسی اور عنوان سے اشارہ کیا ہے کہ تقیہ قرآنی احکام کے مسلمات میں سے ہے :سوره غافر میں اس مرد مجاهد ، فدا كاراور وفادارکا ذکر ہوا ہے ، جو فرعون کے دربار میں ایک خاص اور حساس مقام کا مالک ہے ۔ اور حضرت موسیعليه‌السلام کے آئین پر محکم ایمان رکھنے والا ہے ، جس نےاپنے ایمان کو دل میں چھپا رکھا ہے تاکہ اپنے دوستوں کی

۱۴۵

ضرورت کے وقت اس سے استفادہ کیا جائے ۔ جس کے بارے میں فرمایا:

( وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللهُ وَقَدْ جَاءكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ) ۔(۱)

اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے؟ اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے ۔

یہ آیہ شریفہ مؤمن آل فرعون کی استدلالی اور منطقی بات کی طرف اشارہ ہے

____________________

۱۔ سوره غافر / ۲۸۔

۱۴۶

جب فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔

انہوں نے فرمایا: موسیٰ الله کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور قابل مطالعہ اور اچھی دلیل بھی ساتھ بیان کررہے ہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں:

یا وہ جھوٹ بول رہے ہیں ،ایسی صورت میں وہ خود رسوا اور ذلیل ہونگے اور قتل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ کیونکہ قتل کرنا انہیں افکار عمومی میں ایک کامیاب اور فاتح ہیرو اور لیڈر بنادے گا ۔ اور ان کے پیچھے ایک گروہ ہمیشہ کیلئے چلنے کی کوشش کرے گا ، اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں میں زندہ رہیں اور لوگ خود ان سے دور ہو جائیں ۔

یا واقعاً وہ سچ کہہ رہےہیں اور خدا کی طرف سے آئے ہیں ، اس صورت میں جس چیز کی وہ تہدید کر رہےہیں ممکن ہے وہ واقع ہوجائے۔ ہمارا ان کے ساتھ حساب کتاب بالکل صاف ہے اس لئے انہیں قتل کرنا کسی بھی صورت میں عاقلانہ کام نہیں ہوگا۔ان کلمات کے ساتھ لوگوں کو اور بھی کچھ نصیحتیں کی ۔اس طرح فرعونیوں کے دل میں وحشت اور رعب ڈال دیا ، جس کی وجہ سے وہ لوگ ان کے قتل کرنے سے منصرف ہوگئے ۔

۱۴۷

قرآن اس آیہ شریفہ میں مؤمن آل فرعون کے عقيده کے چھپانے کو ایک اچھا اور نیک عمل بتارها ہے ، کیونکہ انہوں نے ایک بہت بڑے انقلابی رہنما کی جان بچائی اور دشمنوں سےنجات دلائی۔اس سے معلوم ہوا کہ تقیہ عقیدہ کے چھپانے کے سوا کچھ نہیں ۔

سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اس مرد مجاہد کے اس عمل کو اس حساس موقع پرایک عظیم ہدف کے بچانے کی خاطر فدا کاری اور جہاد کے علاوہ کچھ اور کوئي نام دےسکتا ہے ؟!

کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ اگر یہ مرد مؤمن تقیہ کی اس تکنیک سے استفادہ نہ کرتے تو حضرت موسیعليه‌السلام کی جان خطرے میں پڑ جاتی ۔

حضرت ابراهيم تقیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

( فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ فَرَاغَ إِلَى آلِهَتِهِمْ فَقَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ مَا لَكُمْ لَا تَنطِقُونَ فَرَاغَ

۱۴۸

عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِين ) ۔(۱)

پس وہ اپنی قوم سے کہنے لگے: میں بیمار ہوں اور میں تمہارے جشن میں نہیں آسکتا ۔ قوم نے بھی انہیں چھوڑ دیا ۔ ابراہیمعليه‌السلام نے بھی بت خانے کو خالی پایا ؛بتوں کو توڑنے کی نیت سے چلے اور تمام بتوں کو مخاطب کرکے کہا:تم لوگ اپنے بندو ں کے رکھے ہوئے کھانوں کو کیوں نہیں کھاتے ہو؟ بات کیوں نہیں کرتے ہو؟ تم کیسے بے اثر اور باطل خدا ہو؟! پھر ایک مضبوط اور محکم کلہاڑی اٹھائی اور سب بتوں کو توڑ ڈالا سوائے ایک بڑے بت کے۔

ان آیات اور روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم بتوں کو توڑنے کا ایک وسیع اور دقیق پروگرام بناچکے تھے ، اور اس پروگرام کا اجراء کرنے کیلئے ایک خاص اور مناسب موقع اور فرصت کی تلاش میں تھے ۔ یہاں تک کہ وہ وقت اور عید کا دن آگیا اور اپنا کارنامہ انجام دیا ۔ یہ دن دولحاظ سے زیادہ مناسب تھا کہ ایک تو سب لوگ شہر سے دور نکل چکے تھے جس کی وجہ سے اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دے سکتے تھے اور دوسرا یہ کہ لوگوں کو چونکہ تہوار کے ختم ہونے کے بعد بت خانے میں عبادت کیلئے آناتھا، لہذا لوگوں کے افکار اور احساس کو بیدار کرنے اور ان کو نصیحت

____________________

۱ ۔ سوره صافات / ۸۹ ـ ۹۳۔

۱۴۹

کرنے کیلئے یہ دن اور وقت زیادہ موزوں تھا ۔ اور آپ کا یہ کام اس بات کا باعث بنا کہ لوگ سوچنے لگے اور شہر بابل والے ظالم و جابر حکمرانوں کے چنگل سے آزاد ہوگئے ۔

لوگوں کو آپ پر شک تو ہوچکا تھا لیکن آپ نے اپنے عقیدے کو مکمل طور پر چھپا رکھا تھا اور لوگوں کے دعوت کرنے پر کہا کہ میں بیمار ہوں ۔:فقال اني سقيم ۔ جبکہ آپ کے جسم مبارک پر کوئی کسی قسم کی بیماری موجود نہیں تھی ۔لیکن آپ نے اپنے اس عظیم ہدف کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر توریہ کیا ، کیونکہ آپ کی بیماری سے مراد روحانی بیماری تھی جو کہ آپ لوگوں کا خدا کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا کرنے کی وجہ سے محسوس کررہے تھے ۔

۳ ـ تکنیکی تقیہ کے موارد میں سے ایک مورد حضرت مسیح کی جانب سے بھیجے ہوئے مبلغین کی داستان ہے جو انطاکیہ شہر کے لوگوں میں بھیجے گئے تھے ۔جن کے بارے میں فرمایا:

( إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ

۱۵۰

فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ ) (۱)

اس طرح کہ ہم نے دو رسولوں کو بھیجا تو ان لوگوں نے جھٹلادیا تو ہم نے ان کی مدد کو تیسرا رسول بھی بھیجا اور سب نے مل کر اعلان کیا کہ ہم سب تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔

اس ماجرے میں ان دونوں شخص کو انطاکیہ کے بت پرستوں کے اصولوں کے ساتھ ٹکراؤ کی وجہ سے انطاکیہ کے بادشاہ نے جیل میں ڈالديا۔ اور کوئی تبلیغی نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ لیکن تیسرےشخص کو، جو ان دونوں کی مدد کیلئے آئے تھے ناچار اپنا مبارزہ اور ان کے ساتھ مقابله کا راستہ تبدیل کرنا پڑا ۔پہلے اپنا عقیدہ چھپا تارها۔ تاکہ اپنی تدبیر ، فصاحت و بلاغت کے ساتھ حکومت کے امور میں مداخلت کرسکے ۔ اس کے بعد ایک مناسب فرصت اور موقع کا انتظار کرتے رہے تاکہ اپنے دوستوں کو نجات دلا سکے ۔اور اس شہر کے لوگوں میں اخلاقی ، اجتماعی اور فکری انقلاب برپا کرسکے۔اتفاقاً دونوں ہدف حاصل ہوئے کہ قرآن

____________________

۱۔ سوره يس ۱۴۔

۱۵۱

کریم نے اسے یوں تعبیر کیا ہے : ”( عززنا بثالث ) “ ہم نے اس تیسرے شخص کے ذریعے ان دونوں کی مدد کی اور ان کو عزت اور قوت بخشی ۔

اب سوال يه هے که کیا حضرت ابراهيم کا اپنا اعلیٰ ہدف کو چھپا رکھنا ترس اور خوف و ہراس کی وجہ سے تھا؟ یا اس اعلیٰ اور عظیم ہدف کو حاصل کرنے کیلئے مقدمہ سازی تھی؟!

کیا عيسي مسيحعليه‌السلام کی طرف سے بھیجے ہوئے تیسرے شخص بھی اپنے دوستوں کی طرح تلخ تجربات کے مرتکب ہوتے؟ اور خود کو بھی زندان میں ڈلوا دیتے ؟!یا یہ کہ روش تقیہ سے استفادہ کرکے تینوں دوستوں کو دشمن کے قید اور بند سے رہائی دلاتے؟!!

ان آیات سے بخوبی معلوم ہوتاہے کہ تقیہ کا ہدف اور فلسفہ کیا ہے اور اس کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟(۱)

____________________

۱۔ مكارم شيرازي؛ تقيه سپري عميقتر براي مبارزه،ص ۳۵۔

۱۵۲

کیا تقيه سے انکار ان آیتوں کا انکار نہیں؟!

شيعه، تقیہ کا انکار کرنے والوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر تقیہ جائز اور درست نہیں ہےتو ان آیات مبارکہ کا کیا کرو گے ؟ کیا ان آیات کیلئے کوئی شأن نزول نہیں ہے ؟ یا اہل قرآن کیلئے ان آیات کے ذریعے کوئی حکم بیان نہیں ہورہا ؟

اگر يه آيتيں کوئی شرعی تکلیف کو معین نہیں کرتیں تو نازل ہی کیوں ہوئیں؟ لیکن اگر کوئی شرعی حکم کو معین کرتی ہیں تو یہ بتائیں کہ وہ احکام کیا ہیں؟آیات شریفہ جو اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں ، درج ذیل ہیں:

( وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ ءَالِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلاً أَن يَقُولَ رَبىّ اللهُ وَ قَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَتِ مِن رَّبِّكُمْ وَ إِن يَكُ كَذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَ إِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِى يَعِدُكُمْ إِنَّ اللهَ لَا يهَدِى مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ يَاقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فىِ الْأَرْضِ فَمَن يَنصُرُنَا مِن بَأْسِ اللهِ إِن جَاءَنَا قَالَ فِرْعَوْنُ

۱۵۳

مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى‏ وَ مَا أَهْدِيكمُ‏ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ ) ۔(۱)

اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر بھی نازل ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے ۔میری قوم والو بیشک آج تمہارے پاس حکومت ہے اور زمین پر تمہارا غلبہ ہے لیکن اگر عذاب خدا آگیا تو ہمیں اس سے کون بچائے گا ؟فرعون نے کہا کہ میں تمہیں وہی باتیں بتارہا ہوں جو میں خود سمجھ رہا ہوں اور میں تمہیں عقلمندی کے راستے کے علاوہ اور کسی راہ کی ہدایت نہیں کررہا ہوں۔

( لا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكافِرينَ أَوْلِياءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنينَ وَ مَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ في‏ شَيْ‏ءٍ

) ____________________

۱۔ سوره غافر ۲۸ ـ ۲۹۔

(

۱۵۴

إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً وَ يُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ وَ إِلَى اللهِ الْمَصيرُ ) ۔(۱)

خبردار! اےایمان والو!مؤمنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے ۔

( مَن كَفَرَ بِاللهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهُ مُطْمَئنُ بِالْايمَانِ وَ لَاكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۔(۲)

"جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ کا انکار کرے (اس کے لئے سخت عذاب ہے) بجز اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں) لیکن جنہوں نے دل کھول کر کفر اختیار کیا ہو تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔"

____________________

۱ ۔ سوره آلعمران۲۸۔

۲ ۔ سوره نحل ۱۰۶ ۔

۱۵۵

ان آیات کریمہ سے تقیہ کی مشروعیت ثابت ہوگئی اب بات یہ ہے کہ اہل سنت کو کسی بھی دور میں تقیہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوئی کیونکہ وہ لوگ ہر دور کے حکمرانوں خواہ وہ ظالم وجابر ہی کیوں نہ ہوں ان کے خلاف کبھی کوئی آواز نہیں اٹھاتے بلکہ انہیں اولی الامر مانتے اور ان کی اطاعت کرتے لیکن اس کے برخلاف اہل تشیع نےکسی دور میں بھی حاکم وقت کو اولی الامر نہیں مانا بلکہ ظالم و جابر حمکرانوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہے جو ان حکمرانوں کے لئے قابل تحمل نہیں تھا جس کی بناء پر حکمران ،شیعیان امیرالمؤمنین ؑ کی جان و مال کے درپے رہے جس کی وجہ سے شیعیان علی ؑ تقیہ کرنے پر مجبور ہوتے رہے۔

ب: سنت

ہر دور ميں، تقیہ کو کامیابی کا راز تصور کیا جاتارہا ہے ۔ آپ کی تقریب ذہن کیلئے ہم کچھ مثالیں بیان کریں گے :

۱۵۶

۱۔تقيه، پیغمبرعليه‌السلام کی تدبير

پیغمبر اسلام (ص) کی شهامت ، شجاعت او رتدبيرکو سب دوست اور دشمن تسلیم کرتے ہیں۔

چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تین سال تک ” مخفيانه دعوت “ کرنا اور”مخفیانہ هجرت “ کرنا کہ جس کی وجہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن کے محاصرہ سے نکلنے میں کامیاب ہونا، اس کے بعدمدینہ تشریف لانے تک غار ثورمیں مخفی رہنا اور رات کی تاریکیوں میں چلنا اور دن کو مخفی رہنا ، یہ سب تقیہ کےاعتقادی یا عملی مصادیق میں سے ہیں ۔

۲ ۔تقيه،اعلیٰ اهداف کے حصول کا ذریعہ

۱۵۷

کیا کوئی شخص ایسے مسائل میں تقیہ کے اصولوں کا بروئے کار لانے کو نقطہ ضعف یا ترس یا محافظہ کاری کہہ سکتا ہے؟!

امام حسينعليه‌السلام كه جس نے تقیہ کے سارے نمونے کو پیروں تلے روند ڈالے ، لیکن جب بھی ضرورت محسوس کی کہ مقدس اور ابدی اہداف کے حصول اور ظلم وستم ، کفر و بے ایمانی اور ساری جہالت کے خاتمے کیلئے تقیہ کرتے ہوئے مکہ معظمہ سے نکلے جب کہ سارے مسلمان اعمال حج انجام دینے کی تیاریوں میں مصروف تھے ۔ اور اس کی وجہ بھی خود امام حسینعليه‌السلام نےبیان فرمائی تھی : اگرمیں چیونٹی کی بل میں بھی چھپ جاؤں تو یہ لوگ مجھےوہاں سے بھی نکال کر شہید کردیں گے ۔ اور اگر مکہ میں ٹھہر جاؤں تو حرم الہی کو میرے خون سے رنگین کریں گے اور خانہ کعبہ کی بھی بے حرمتی کریں گے ۔

تو اہل انصاف سے ہم یہی سوال کریں گے کہ امام حسینعليه‌السلام کا اس موقع پر تقیہ کرنا کیا عقل انسانی کے خلاف تھا ؟ یا عین عاقلانہ کام تھا ؟!

۱۵۸

۳۔ جنگ موته میں تقيه کاکردار

جنگ”موته“کے میدان میں مجاہدین اسلام کے صفوںمیں کچھ اس طرح سےترتیب دینا جو امپراتوري روم کے لاکھوں افراد پر مشتمل فوج کے ذہنوں میں تزلزل پیدا کرے اور نفسیاتی طور پر انہیں مفلوج کرے جو مسلمانوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھی ،اور یہ بہت مؤثر بھی رہا ۔

۴۔ فتح مكه میں تقيه کا کردار

پیغمبر اسلام (ص) نے مکہ فتح کرنے کی خاطر نہایت ہی مخفیانہ طور پر ایک نقشہ تیار کیا ؛ یہاں تک کہ انپے قریبی صحابیوں کو بھی پتہ چلنے نہیں دیا ۔ جس کے نتیجے میں مسلمان فتح مکہ جیسی عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوئے ۔اسی طرح بہت سے مواقع پر تقیہ کے اصولوں پر عمل کرکے فوجی طاقتوں اور اسلحوں کی حفاظت کی ۔

۱۵۹

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں خصوصاً ملکی حفاظت کرنے والوں کا سب سے پہلا اصول تقیہ اور کتمان ہے کہ دشمنوں سے ہر چیز کو چھپایا جائے تاکہ وہ ہم پر مسلط نہ ہوں ۔اس لئے جو بھی تقیہ کرنے پر اعتراض کرتاہے وہ در اصل تقیہ کے مفہوم اور معنی سے واقف نہیں یا کسی ایک خاص مکتب کو دوسرے مکاتب فکر کےسادہ لوح افراد کے سامنے متنفر کرنے کیلئے اس قرآنی اور عقلانی اصول کی اصل اور حقیقی شکل و صورت کو بگاڑ کر پیش کرتا ہے ۔ ہم اس سے کہیں گے کہ آپ کسی مکتب کی اہانت نہیں کررہےہو بلکہ در آپ اصل میں قرآن مجید کا مزاق اڑا رہے ہو۔

۵ ۔ تقيه دشمنوں کے مقابلے میں دفاعی وسیلہ

مجاہدین دشمنوں کے شر سے بچنے کیلئے تقیہ بروئے کار لاتے ہیں تاکہ اس تکنیک کے ذریعے دشمن کو غافل گیر کرکے مغلوب بنایا جائے ۔ اور میدان جنگ میں خود کامیابی سے

۱۶۰

ہمکنار ہوسکیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ گوشہ نشین افراد اور ڈرپوک اور غیر متعہد اور عافیت آرام طلب افراد کا شیوہ نہیں ہے بلکہ یہ مجاہدین اسلام اور محافظین دین کا شیوہ ہے ۔ پس تقیہ بھی ایک طرح کی جنگ اور جہاد ہے ۔اور یہ تقیہ خود وزارت دفاع اورملکی حفاظت کرنے والوں کی طاقت شمار ہوتا ہے ۔ چنانچه امير المؤمنينعليه‌السلام نے فرمایا:

التقيه من افضل اعمال المؤمن يصون بها نفسه و اخوانه عن الفاجرين ۔(۱)

تقیہ مؤمن کی افضل ترین عبادتوں میں سے ہے ،جس کے ذریعے فاسق اور فاجر طاقتوں کی شر سے وہ اپنی جان اور اپنے دوسرے بھائیوں کی جا ن بچاتا ہے ۔

۶ ۔تقيه مؤمن کی ڈھال ہے

قال الباقر: اي شيئ اقر للعين من التقية؟ ان التقية جنة المؤمن(۲)

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ، ج ۳،باب ۲۸۔

۲۔ وسائل الشيعه ، ج ۲۴ ، باب۲۶۔

۱۶۱

امام باقرعليه‌السلام نے فرمایا: کونسی چیز تقیہ سے زیادہ مؤمن کیلئے سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہے ؟!بے شک تقیہ مؤمن کی ڈھال ہے۔

امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

التقية ترس المؤمن و التقية حرز المؤمن ۔(۱)

بے شک تقیہ مؤمن کیلئے ڈھال اورقلعہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو دشمن کی شر سے بچاتا ہے ۔اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ ایک دفاعی مفہوم رکھتا ہے جسے اپنے دشمن کے مقابلے میں بروئے کار لایا جاتا ہے ۔زرہ کا پہننا اور ڈھال کا ہاتھ میں اٹھانا مجاہدین اور سربازوں کا کام ہے ۔ ورنہ جو میدان جنگ سے بالکل بے خبر ہو اور میدان میں اگر جائے توفرار کرنے والا ہو تو اس کیلئے زرہ پہننے اور ڈھال کے اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟!

____________________

۱۔ وسائل الشيعه ، ج ۶ ، باب۲۴ ۔

۱۶۲

۷ ۔ تقيه پیغمبروں کی سنت

امام صادقعليه‌السلام نےفرمایا:عليك بالتقيه فانها سنت ابراهيم الخليل ۔(۱)

تم پر تقیہ کرنا ضروری ہے کیونکہ تقیہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی سنت ہے ۔ اور ابراہیم وہ مجاہد ہیں جنہوں نے اکیلے ظالم و جابر نمرود کے ساتھ مقابلہ کیا ۔ نہ صرف اس کے ساتھ بلکہ تمام متعصب اور لجوج بت پرستوں کےساتھ مبارزہ کیا ؛ اور ہر ایک کو عقل اور منطق اور اپنی بے نظیر شجاعت کے ساتھ گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ۔ ان کے باوجود حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے کئی مقام پر تقیہ کرکے اپنی جان بچائی ہے ۔ لیکن کیاکوئی ابراہیمعليه‌السلام پر مصلحت اندیشی کا الزام لگا سکتا ہے ؟!ہرگز نہیں۔ اس لئے تقیہ حضرت ابراہیمعليه‌السلام کی سنت کے عنوان سے بھی معروف ہے ۔

____________________

۔ وسائل الشيعه، ج ۶ ، باب۲۴ ۔

۱۶۳

۸ ۔تقيه ،مجاهدوں کا مقام

امام حسن العسكريعليه‌السلام سےمنقول ہے:

مثل مؤمن لا تقية له كمثل جسد لا راس له ۔(۱)

وہ مؤمن جو تقیہ نہیں کرتا وہ اس بدن کی طرح ہے جس پر سر نہ ہو۔اور سر کے بغیر بدن کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی کیونکہ باقی جسمانی تمام تر فعالیت سر سے وابستہ ہے ۔

اور بالکل یہی تعبیر ”صبر و استقامت“ کے بارے میں آئی ہے كه ايمان بھی بغيرصبرو استقامت کے بغیر سرکے بدن کی طرح ہے ۔ان تعبیرات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تقیہ کا فلسفہ وہی صبر و استقامت کا فلسفه ہے اور تقیہ کے ذریعے اپنی طاقت اور اسلحہ کا بندوبست اور ان کی حفاظت کي جاتی ہے ۔

____________________

۱۔ وسائل الشيعه ،ج ۱۶، باب ۲۴۔

۱۶۴

۹ ۔ تقيه ،مسلمانوں کےحقوق کی حفاظت

تقیہ کا مسئلہ اور مسلمان بھائیوں کے حقوق کی ادائیگی دو ایسے فریضے ہیں جنہیں ایک دوسرے کے ساتھ ہی قرار دیا گیا ہے ۔

امام حسن العسكريعليه‌السلام نے فرمایا :

و أعظمُهما فرضانِ : قضاءُ حقوقِ الاخوانِ في اللهِ و استعمالُ التقيهِ من اعداءِ اللهِ ۔(۱)

تمام فرائض میں سے اهم ترین فریضہ دو ہیں:

o اپنے دینی بھائیوں کے حقوق کا ادا کرنا ۔

o اور اللہ کے دشمنوں کے سامنے تقیہ کرنا۔

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ،ج ۱۶، باب ۲۸، ح ۱۔

۱۶۵

اس تعبیر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تقیہ ان دو چیزوں کے درمیان ایک قسم کا رابطہ قائم کرنا ہے ۔ اگر غورکریں تو معلوم ہوگا کہ تقیہ کا مسئلہ دوسرے مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرح ایک اجتماعی مسئلہ ہے ۔

ج ۔ عقل

معمولاً تقيه اقلیتوں سے مخصوص ہے جو اکثریت کے پنجوں میں اسیر ہوجاتے ہیں ایسی صورت میں اگر وہ اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہیں تو اس کے لئے جانی یامالی نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔اور ساتھ ہی اس اقلیت والے گروہ کے ہاں موجود قومی سرمایہ اور طاقت کا ہدر جانے کے علاوہ اسے کچھ نہیں ملتا ۔

کيا عقل نہیں کہتي کہ یہ قومی سرمائے اور طاقت کا اہم ضرورت کے موقعوں کے لئے محفوظ رکھنا ایک عاقلانہ اور اچھا کام ہے ؟ بلکہ عقل کہتی ہے کہ اپنے عقیدے کوچھپا کر ان طاقتوں کو ذخیرہ کیا جائے تاکہ انہیں مناسب فرصت اور مواقع پر بروئے

۱۶۶

کار لایا جاسکے ۔

مثال کےطورپر: کوہستانی علاقوں اور دیہاتوں میں مختلف جگہوں سے پانی کے چھوٹے چھوٹے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں۔ اگر ان کو ایک تالاب میں جمع کریں گے تو اس سے بہت بڑے مزرعے کو سیراب کرسکتے ہیں ، لیکن اگر ان کواسی طرح بہنے دیں تو کھیتوں کو سیراب کئے بغیر پانی ضائع ہو جاتا ہے ۔ اسی لئے زمیندار ان چشموں کے نزدیک تالاب بنا کر پانی کو جمع کرتے ہیں تاکہ بیج بوتے وقت زمین کو سیراب کر سکیں۔ جب کہ اس سے قبل سارا پانی ضائع ہو جاتا تھا ۔ تقیہ بھی اسی طرح ہے کہ جس کے ذریعے اپنی اور اپنی قوم و ملت کے سرمائے اور جان کی حفا ظت کی جائے تاکہ مناسب موقع پر اس سے بھر پور استفادہ کیا جاسکے۔جو ایک عاقلانہ کام ہے۔

۱۔دفع ضرر

عقل بتاتی ہے کہ دفع ضرر واجب ہے ؛ اور تقیہ ایک ایسی تکنیک ہے کہ جس کے ذریعے

۱۶۷

انسان جانی یا مالی ضرر کو اپنے سے اور اپنے دوسرے هم فکر افراد سے دفع کر سکتا ہے ۔اسی لئے فقہاء فرماتے ہیں :

فقد قضي العقل بجواز دفع الضرر بها (بالتقيه) بل بلزومه و اتفق عليها جميع العقلاء: بل هو امر فطري يسوق الانسان اليه قبل كل شيئ عقله و لبه و تدعوه اليه فطرته ۔(۱)

عقل تقیہ کے ذریعے دفع ضرر کو جائز قرار دیتی ہے بلکہ اس کے واجب ہونے پر تمام فقہاء اور عقلاء کا اتفاق ہے ۔اور اس سے بھی بالا تر یہ ایک فطری عمل ہے کہ جو انسان کو اس کی فطرت اور عقل سب سے پہلے تقیہ کے ذریعے اپنی جان اور مال کی حفاظت کرنے پر ابھارتا ہے ۔اور یہ غریزہ ہر انسان اور حیوان میں پایاجاتا ہے ۔

۲ـ مہم پر اہم کا مقدم کرنا

فالعقل السليم يحكم فطريا بانه عند وقوع التزاحم بين الوظيفة الفرديه مع شوكة

____________________

۱ ۔ جعفر سبحاني؛ مع الشيعه الاماميه في عقائدهم، ص ۸۹۔

۱۶۸

الاسلام و عزته و قوته او وقوع التزاحم بين الحفظ النفس و بين الواجب او محرم آخر لابد من سقوط الوظيفة الفرديه و ليست التقيه الا ذالك ۔(۱)

عقل سليم کا فطری حكم ایسا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے فریضے کی انجام دہی کے موقع پر اسلام کی قدرت ، شان وشوکت اور عزت کے ساتھ مزاحم ہوجاتا ہے ۔ یا اپنی جان بچانے کا وقت آتا ہے تو یہ کسی واجب یا حرام کام کا ترک کرنے یا انجام دینے پر مجبور ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں اہم کو انتخاب کرتے ہوئے مہم کو ترک کرنے کا نام تقیہ ہے ۔ اس استدلال سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ :

ان العقل يري ان احكام الدين انما شرعت لسعادة الانسان في حياته الي الابد، فاذا كانت هذه السعادة و ادانت الاكام متوقفة و الاخفاء عن الاعداء في فترة من الزمن فالفعل يستقل بالحكم بحسن التقية لقديما للاهم علي المهم ۔(۲)

____________________

۱۔ صادق ، روحاني؛فقه الصادق ،ج۱۱ ، ص۳۹۳۔

۲۔ محمد علي،صالح المعلم؛ التقيه في فقه اهل البيت،ج۱، ص۶۶۔

۱۶۹

عقل بتاتی ہے کہ احكام دين کو انسان کی ابدی خوش بختی کیلئے تشریع کیا ہے ۔ لیکن اگر یہی خوش بختی اور احکام دین پر عمل کرنا کچھ مدت کیلئے اپنے جانی دشمنوں سے چھپا نے پر مجبور ہو تو عقل، تقیہ کرنے اور اہم کام کو مہم کام پر مقدم کرنے کو ایک اچھا اور مناسب عمل سمجھے گی ۔

اگر ان بیانات کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں :جب بھی انسان یا مکلف دو کاموں کوانجام دینے پر مجبور ہو ؛ لیکن ان دوکاموں میں سے صرف ایک کو فی الحال انجام دے سکتا ہو ۔ اب وہ سوچتا ہے کہ کس کام کو انجام دوں اور کس کام کو چھوڑ دوں؟! اگر وہ عاقل اور سمجھدار ہو تو وہ جس میں مصلحت زیادہ ہوگی اسے انجام دے گا اور جس کام میں مصلحت کم ہوگی اسے ترک کرے گا اسی کا نام تقیہ ہے ۔

د : فطرت

اگر صحیح معنوں میں فکر کریں تو معلوم ہوگا کہ تقیہ سراسر عالم حيات کے قانون

۱۷۰

کی اساس اور بنیاد ہے ۔اور تمام زندہ مخلوقات اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان بچانے کی خاطراس اصول سے استفادہ کرتی ہیں ۔جیسے بحری حیوانات جب احساس خطر کرتے ہیں تو وہ اپنی جان بچانے کی خاطر اپنے جسم پر موجودخاص تھیلیوں سے استفادہ کرتے ہیں کہ جس میں ایک کالے رنگ کا ایک غلیظ مادہ ہوتا ہے جسے وہ اپنے اطراف میں پھیلادیتے ہیں جیسے آنسو گیس استعمال کرکے اس جگہ سے دور ہو جاتے ہیں ۔

اسی طرح بہت سے حشرات ہیں جو اپنے جسم کو پروں اور بالوں کے ذریعے اس طرح چھپاتے ہیں کہ بالکل اس شاخ کے رنگ و روپ میں بدل جا تے ہیں اور جب تک غور نہ کریں نظر نہیں آتے ۔ بعض جاندار ایسے ہیں جو مختلف موقعوں پر اپنا رنگ بھی اسی محیط کے رنگ و روپ میں تبدیل کرتے رہتے ہیں ، اور اس حيران کن دفاعی سسٹم کے ذریعے جانی دشمن کی نظروں سے اوجھل ہو جاتےہیں، تاکہ اپنی جان بچا سکیں ۔

۱۷۱

بعض حیوانات ایسے بھی ہیں جو خطرے کی صورت میں اپنے جسم کو بالکل بے حس و حرکت بناتے ہیں تاکہ دشمن کو دھوکه دے سکیں ۔

خلاصہ کلام یہ ہے جو بھی تقیہ کے مسئلہ کو شیعوں کا مسئلہ قراردیتے ہوئے اعتراضات کرتے ہیں ، حقیقت ميں وہ تقیہ کے مفہوم اور معنی سے واقف نہیں ہیں، یا واقف تو ہیں لیکن شیعوں کو دیگر مکاتب فکر یا سادہ لوح عوام کی نگاہوں میں گرانے کی خاطر اس فطری اور عقلانی اصول یا سسٹم سے انکار کرتے ہیں ۔

ان مطالب سے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ کا سسٹم تمام مکاتب فکر میں کم و بیش پایا جاتا ہے ۔لیکن یہ یاد رکھیں کہ ہمیشہ نیک اور صالح افراد جو کہ تعداد کے لحاظ سے تھوڑے ہیں ، ان جنایت کار اور ظالم افراد جو کہ تعداد کے لحاظ سے زیادہ ہیں ، سے تقیہ کرتے آئے ہیں ؛ تاکہ اس تکنیک یا سسٹم کے ذریعے اپنی جان ، مال عزت ، آبرو اور ناموس ، کی حفاظت کرسکیں ۔(۱)

____________________

۱ ۔ مكارم شيرازي؛ تقيه سپري عميقتر ، ص۲۲۔

۱۷۲

ه : اجماع

جنگي نقشے بھی ہمیشہ مخفیانہ طور پر بنائے جاتے ہیں جنگجو افراد ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ خود کو دشمن کی نظروں سے چھپائے رکھتے ہیں ،اور اپناجنگی سامان اور اسلحے کو میدان جنگ کے گوشہ و کنارميں درخت کے پتوں یا کیچڑوں اور مٹی مل کر چھپا تے هیں ، اسی طرح فوجیوں کی وردیاں بھی کچھ اسطرح سے پہنائی جاتی ہیں کہ میدان جنگ میں آسانی کے ساتھ دشمنوں کی نظروں میں نہ آئیں ۔یا کبھی جنگجو افراد مصنوعی دھواں چھوڑکر دشمن کوغافل گیر کرتے ہیں ۔یا رات کی تاریکی میں ايک جگه سے دوسري جگه نقل مکاني کرتے ہیں ۔

اسی طرح جاسوس اور اطلاعات والے جب دشمن کے علاقوں میں جاتے ہیں تو وہ اس علاقے کے لوگوں کے لباس اور ماحول اور فرہنگ میں اپنے آپ کو ضم کرتے ہیں ۔ اگر غور کریں تو یہ سب امور تقیہ کے مختلف شکلیں ہیں ۔جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے دشمن

۱۷۳

پر فتح و کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔(۱)

اداری اور دفتری کاموں میں خواہ وہ سیاسی امور ہو یا اقتصادی یا معاشرتی ، مختلف مقاصد کے حصول کیلئے رموز کا استعمال کرنا ، یہ سب اس سسٹم کی مختلف شکلیں ہیں ،جسے کوئی بھی عاقل انسان رد نہیں کرسکتا ۔ بلکہ سب ان کی تائید کریں گے ۔ اگر ایسی صورت میں جبکہ دشمن اس کے مقابل میں ہو اور وہ اپنی شجاعت دکھاتے ہوئے آشکار طور پر دشمن کے تیروتلواروں یا گولیوں کے زد میں نکلے تو اس کی عقل پر شک کرنا چاہئے۔

یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ تقیہ ہر مکتب فکر والوں میں موجود ہے جس کے ذریعے ہی قومی سرمایہ اور عوام کی جان اور مال اور ملکی سالمیت کی حفاظت ممکن ہے ۔

____________________

۱ ۔ مكارم شيرازي؛ تقيه سپري عميقتر ، ص ۱۸۔

۱۷۴

پانچویں فصل

وجوب و تحریم تقيه کے موارد اوران کا فلسفه

۱۷۵

پانچویں فصل :

وجوب وتحریم تقيه کے موارد اوران کا فلسفه

وہ موارد جہاں تقیہ کرنا واجب ہے

وجوب تقیہ کے موارد اور ان کے اہداف کو باہم تحقیق کریں گے ۔ کیونکہ یہ دونوں (وجوب و هدف)ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔ اگر تقیہ کے اصلی موارد کوبیان کریں تو ہدف اصلی بھی خود بخود واضح ہوجاتا ہے ۔بطور خلاصہ تقیہ کو کئی اہداف کی خاطر واجب جانا گیا ہے :

۱۷۶

۱۔ طاقت کی محافظت کرنا

کبھی انسان کیلئے ایسا موقع پیش آتا ہے کہ جہاں اپنا عقیدہ اگر عیاں اور آشکار کرے تو بغیر کسی فائدے یااپنے اہداف سے قریب ہونے کی بجائے اس شخص یا اور کئی افراد کی جان نابود یا ناقابل تلافی نقصان کا شکار ہو سکتی ہے ۔ایسے مواقع پر عقل اور منطق حکم دیتی ہیں کہ احساسات میں بے دلیل گرفتار ہوکر اپنی طاقت کو ضائع کرنے سے باز آئیں ۔بلکہ آئندہ کیلئے ذخیرہ کریں ؛ تاکہ قدرت و طاقت اس قدر زیادہ ہوجائے جس کے ذریعے اپنا عظیم ہدف تک رسائی ہوسکے ۔کیونکہ کسی بھی شخص میں اتنی وافر مقدار میں قدرت یا طاقت نہیں ہے کہ جنہیں کھلے دل و دماغ سے ہاتھ سے جانے دیں ۔

کبھی ایک لائق اور مفید شخص کی تربیت کیلئے کئی سا ل ایک معاشرے کو زحمت اٹھانی پڑتی ہے اور وہ اپنی طاقت کو خرچ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ تویہ کیسے ممکن هے که اپني ذمه داري کا احساس نہ کریں ؟!

۱۷۷

مخصوصا ًایسے معاشرے میں جہاں اچھے اور نیک انسانوںمیں افرادي قوت اور طاقت بہت کم ہو ؟

یہی وجہ تھی کہ اسلام کے شروع میں پیغمبر نے تقریباً تین سال اپنا عقیدہ سواے ایک خاص گروہ کے دوسرے لوگوں سے چھپا ئےرکھا ۔ آہستہ آہستہ مسلمانوں میں افرادی قوت میں اضافہ ہوتا گیا ، یہاں تک کہ تقیہ کی بندش تین سال بعد ٹوٹنے لگی اور آپ اسلام کی طرف علی ٰ الاعلان لوگوں کو دعوت دینے لگے ۔لیکن پھر بھی آپ کے اوپر ایمان لانے والوں کی تعداد کم تھی جوکہ دشمنوں کے ہاتھوں اسیر ہوجاتے اور قسم قسم کی اذیتیں اور آزار برداشت کرنا پڑتیں ۔اور ایک معمولی بات پر مسلمان قتل کردئے جاتے تھے ۔ تو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسے افراد کو تقیہ کرنے کی اجازت دیتے تھے ۔تاکہ اپنی دفاعی طاقت اور قوت کو اس نومولود مکتب کی حفاظت کی خاطر محفوظ کرلیں اور بیہودہ اور بے ہدف اوربے دلیل اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔

۱۷۸

۲۔ پروگرام کو چھپانا

چونکہ تقیہ زیادہ تر نیک اور صالح افراد جو تعداد کے لحاظ سے کم ہیں ، ان سے مربوط ہے تاکہ وہ اس ظالم اور جابر گروہ کے شر سے اپنے دین یا جان یا ناموس کو بچائیں ۔یہ بھی معلوم ہے کہ اقلیت اپنی زندگی کو جاری رکھنے اور عالی ہدف تک جانے کیلئے تقیہ کے طور و طریقے سے استفادہ کرنے پر مجبور ہیں ۔ ورنہ اگر اکثریت کے سامنے اپنا عقیدہ برملا کرے تو وہ لوگ مزاحمت کرنے لگیں گے ۔اس لئے مجبور ہیں کہ اپنے عقائد ، پروگرام اور دیگر کاموں کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے تقیہ کرلیں ۔اس قسم کا تقیہ ظہور اسلام کے وقت بہت زیادہ پایا جاتا تھا ۔

هجرت پیغمبر کانقشہ كه جو انقلاب اسلامی کی تکمیل اور کامیابی کا پہلا قدم تھا ،آپ کا مخفیانہ طور پر نکلنا اور امير المؤمنينعليه‌السلام کا بستر پیغمبرگرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جا کر آرام کرنا اور آنحضرت کا رات کی تاریکی میں غار حرا کی طرف حرکت کرنا اور اس غار میں کئی دن تک ٹھہرنے کے بعد مدینہ کی طرف مخالف سمت میں چلنا ،وغیرہ اسی تقیہ کی قسموں

۱۷۹

میں سے ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ان موقعوں پر تقیہ کرنا واجب ہے یا نہیں؟!

کیا اگر پیغمبراور مسلمان اپنا عقيده اور فكر کو دشمن سے نہیں چھپاتے تو کیا کامیابی ممکن تھی؟!

کیا ایسے موارد میں تقیہ کرنا ہی اپنی کامیابی اور دشمن کی نابودی کا سبب نہیں ہے ؟

اسی طرح اللہ کے خلیل حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے جو تقیہ کیا تھا ،عرض کر چکا ، جو اگر اپنا عقیدہ نہ چھپاتے اور توریہ نہ کرتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ لوگ انہیں اکیلا شہر میں رکنے دیتے ؟ ہرگز نہیں۔اس صورت میں آپ کو بت خانے کی طرف جانے کی فرصت بھی کہاں ملتی؟!لیکن آپ نے جو اپنا عقیدہ چھپایا اور جو نقشہ آپ نے تیار کیا ہوا تھا اسے اپنی انتہا کو پہنچانے کیلئے تقیہ ہی سے کام لیا۔اور یہی آپ کی کامیابی کا راز بنا۔

ان تمام روايتوں میں تقيه کو ايك دفاعي سپر یا ڈھال «جنّة المؤمن، ترس

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336