تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں0%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه  اسلام کی نگاہ میں

مؤلف: غلام مرتضي انصاری
زمرہ جات:

صفحے: 336
مشاہدے: 79194
ڈاؤنلوڈ: 2552

تبصرے:

تقيه اسلام کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79194 / ڈاؤنلوڈ: 2552
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

وہابی مذہب کے علمائےرجال اور تقیہ

وہابی مذہب کے علمائےرجال تقیہ کا انکار نہیں کرتے ، بلکہ واضح طور پر تمام مسلمانان عالم کے سامنے تقیہ کو بروئے کار لاتے ہیں جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ بڑے بڑے اولیاء اور صالحین کے قبور کو گرانا ، لیکن قبر مبارک پیغمبر اور ابوبکراور عمر کے قبور کو باقی رکھنا تقیہ کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ۔ ان کا قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اصحاب کے قبور کو باقی رکھنا کئی ملین مسلمانوں کے دلوں کو آزار پہنچنے سے بچانا ہے اور یہی تقیہ ہے ۔(۱)

اس سے معلوم ہوا کہ تقیہ اختیاری طور پر بغیر کسی جبر و اکراہ کے جائز نہیں ۔اس بات پر سارے علماء کا اتفاق ہے کہ تقیہ صرف جبر و اکراہ کی صورت میں جائز ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب اسلامی کی فقہی کتابوں میں "باب الاکراہ "کے نام سے الگ باب ہے ۔

__________________

۱۔ تقیہ از دیدگاہ مذاہب و فرق اسلامی غیر شیعی، ص ۱۶۶۔

۱۴۱

چوتھی فصل

جواز تقیہ کے دلائل

۱۴۲

چوتھی فصل : جوازتقيه کےدلائل

مقدمه

تمام دلائل کی بررسی کرنے سے پہلے اس محل بحث کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ چنانچہ اس فصل میں درج ذیل عنوانات پر گفتگو ہوگی:

۱۴۳

۱. شیعوں کے نزدیک تقیہ کی مشروعيت مسلمات میں سے ہے ۔ صرف ایک دو موارد میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے کہ جائز ہے یا نہیں ۔ اور وہ بھی آئمہ معصومین سے مربوط ہے ۔ لیکن اس کے مقابلےمیں اہل سنت کے نزدیک کیا تقیہ جائز ہے یا نہیں ؛ بحث کریں گے ۔

۲. چونكه ہماری بحث اهل سنت سے ہے لہذا دلائل ایسے ہوں جن کے ذریعے اہل سنت کے ساتھ استدلال کیا جاسکے ۔اس لئے هم کوشش کريں گے که زياده تر دلائل قرآن مجید،عقل اور سنت کے علاوہ اهل سنت کي کتابوں سے پيش کريں۔

۳. مشروعیت تقیہ سے مراد ، اصل جواز تقیہ ہے جو وجوب ، استحباب ، مباح، اور کراہت کو بھی شامل کرتا ہے ۔

۴. مشروعیت تقیہ کے بارے میں شیعوں اور اہل سنت حضرات کے درمیان ابتدائے اسلام میں کوئی اختلاف نہیں پایاجاتا ۔کیونکہ قرآن کریم نے اسے ثابت کیا ہے ۔ اصل اختلاف شیعہ اور اہل سنت کے درمیان دو نقطوں پر ہے:

الف: کیا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ تقیہ کر سکتا ہے یا نہیں؟ جیسا کہ شیعہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

ب: اس بات کو تو سب مانتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں تقیہ جائز تھا کیونکہ اس وقت اسلام

۱۴۴

اور مسلمانان ضعیف تھے ۔لیکن اب چونکہ اسلام ایک قدرت مند اور عزت مند اور بڑی شان وشوکت والا دین بن چکا ہے تو کیا اب بھی تقیہ کرنا مناسب ہے ؟

انهي سوالات اور اشکالات کے جواب ميں هم قرآن ، سنت ،اجماع ،عقل اور فطرت سے استدلال کريں گے :

الف: قرآن

قرآن مجيد نے کئی موقع پر تقیہ کے مسئلے کو بیان کیا ہے ؛ کبھی تقیہ ہی کے عنوان سے تو کبھی کسی اور عنوان سے اشارہ کیا ہے کہ تقیہ قرآنی احکام کے مسلمات میں سے ہے :سوره غافر میں اس مرد مجاهد ، فدا كاراور وفادارکا ذکر ہوا ہے ، جو فرعون کے دربار میں ایک خاص اور حساس مقام کا مالک ہے ۔ اور حضرت موسیعليه‌السلام کے آئین پر محکم ایمان رکھنے والا ہے ، جس نےاپنے ایمان کو دل میں چھپا رکھا ہے تاکہ اپنے دوستوں کی

۱۴۵

ضرورت کے وقت اس سے استفادہ کیا جائے ۔ جس کے بارے میں فرمایا:

( وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللهُ وَقَدْ جَاءكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ) ۔(۱)

اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے؟ اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے ۔

یہ آیہ شریفہ مؤمن آل فرعون کی استدلالی اور منطقی بات کی طرف اشارہ ہے

____________________

۱۔ سوره غافر / ۲۸۔

۱۴۶

جب فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔

انہوں نے فرمایا: موسیٰ الله کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور قابل مطالعہ اور اچھی دلیل بھی ساتھ بیان کررہے ہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں:

یا وہ جھوٹ بول رہے ہیں ،ایسی صورت میں وہ خود رسوا اور ذلیل ہونگے اور قتل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ کیونکہ قتل کرنا انہیں افکار عمومی میں ایک کامیاب اور فاتح ہیرو اور لیڈر بنادے گا ۔ اور ان کے پیچھے ایک گروہ ہمیشہ کیلئے چلنے کی کوشش کرے گا ، اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں میں زندہ رہیں اور لوگ خود ان سے دور ہو جائیں ۔

یا واقعاً وہ سچ کہہ رہےہیں اور خدا کی طرف سے آئے ہیں ، اس صورت میں جس چیز کی وہ تہدید کر رہےہیں ممکن ہے وہ واقع ہوجائے۔ ہمارا ان کے ساتھ حساب کتاب بالکل صاف ہے اس لئے انہیں قتل کرنا کسی بھی صورت میں عاقلانہ کام نہیں ہوگا۔ان کلمات کے ساتھ لوگوں کو اور بھی کچھ نصیحتیں کی ۔اس طرح فرعونیوں کے دل میں وحشت اور رعب ڈال دیا ، جس کی وجہ سے وہ لوگ ان کے قتل کرنے سے منصرف ہوگئے ۔

۱۴۷

قرآن اس آیہ شریفہ میں مؤمن آل فرعون کے عقيده کے چھپانے کو ایک اچھا اور نیک عمل بتارها ہے ، کیونکہ انہوں نے ایک بہت بڑے انقلابی رہنما کی جان بچائی اور دشمنوں سےنجات دلائی۔اس سے معلوم ہوا کہ تقیہ عقیدہ کے چھپانے کے سوا کچھ نہیں ۔

سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اس مرد مجاہد کے اس عمل کو اس حساس موقع پرایک عظیم ہدف کے بچانے کی خاطر فدا کاری اور جہاد کے علاوہ کچھ اور کوئي نام دےسکتا ہے ؟!

کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ اگر یہ مرد مؤمن تقیہ کی اس تکنیک سے استفادہ نہ کرتے تو حضرت موسیعليه‌السلام کی جان خطرے میں پڑ جاتی ۔

حضرت ابراهيم تقیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

( فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ فَرَاغَ إِلَى آلِهَتِهِمْ فَقَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ مَا لَكُمْ لَا تَنطِقُونَ فَرَاغَ

۱۴۸

عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِين ) ۔(۱)

پس وہ اپنی قوم سے کہنے لگے: میں بیمار ہوں اور میں تمہارے جشن میں نہیں آسکتا ۔ قوم نے بھی انہیں چھوڑ دیا ۔ ابراہیمعليه‌السلام نے بھی بت خانے کو خالی پایا ؛بتوں کو توڑنے کی نیت سے چلے اور تمام بتوں کو مخاطب کرکے کہا:تم لوگ اپنے بندو ں کے رکھے ہوئے کھانوں کو کیوں نہیں کھاتے ہو؟ بات کیوں نہیں کرتے ہو؟ تم کیسے بے اثر اور باطل خدا ہو؟! پھر ایک مضبوط اور محکم کلہاڑی اٹھائی اور سب بتوں کو توڑ ڈالا سوائے ایک بڑے بت کے۔

ان آیات اور روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم بتوں کو توڑنے کا ایک وسیع اور دقیق پروگرام بناچکے تھے ، اور اس پروگرام کا اجراء کرنے کیلئے ایک خاص اور مناسب موقع اور فرصت کی تلاش میں تھے ۔ یہاں تک کہ وہ وقت اور عید کا دن آگیا اور اپنا کارنامہ انجام دیا ۔ یہ دن دولحاظ سے زیادہ مناسب تھا کہ ایک تو سب لوگ شہر سے دور نکل چکے تھے جس کی وجہ سے اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دے سکتے تھے اور دوسرا یہ کہ لوگوں کو چونکہ تہوار کے ختم ہونے کے بعد بت خانے میں عبادت کیلئے آناتھا، لہذا لوگوں کے افکار اور احساس کو بیدار کرنے اور ان کو نصیحت

____________________

۱ ۔ سوره صافات / ۸۹ ـ ۹۳۔

۱۴۹

کرنے کیلئے یہ دن اور وقت زیادہ موزوں تھا ۔ اور آپ کا یہ کام اس بات کا باعث بنا کہ لوگ سوچنے لگے اور شہر بابل والے ظالم و جابر حکمرانوں کے چنگل سے آزاد ہوگئے ۔

لوگوں کو آپ پر شک تو ہوچکا تھا لیکن آپ نے اپنے عقیدے کو مکمل طور پر چھپا رکھا تھا اور لوگوں کے دعوت کرنے پر کہا کہ میں بیمار ہوں ۔:فقال اني سقيم ۔ جبکہ آپ کے جسم مبارک پر کوئی کسی قسم کی بیماری موجود نہیں تھی ۔لیکن آپ نے اپنے اس عظیم ہدف کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر توریہ کیا ، کیونکہ آپ کی بیماری سے مراد روحانی بیماری تھی جو کہ آپ لوگوں کا خدا کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا کرنے کی وجہ سے محسوس کررہے تھے ۔

۳ ـ تکنیکی تقیہ کے موارد میں سے ایک مورد حضرت مسیح کی جانب سے بھیجے ہوئے مبلغین کی داستان ہے جو انطاکیہ شہر کے لوگوں میں بھیجے گئے تھے ۔جن کے بارے میں فرمایا:

( إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ

۱۵۰

فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ ) (۱)

اس طرح کہ ہم نے دو رسولوں کو بھیجا تو ان لوگوں نے جھٹلادیا تو ہم نے ان کی مدد کو تیسرا رسول بھی بھیجا اور سب نے مل کر اعلان کیا کہ ہم سب تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔

اس ماجرے میں ان دونوں شخص کو انطاکیہ کے بت پرستوں کے اصولوں کے ساتھ ٹکراؤ کی وجہ سے انطاکیہ کے بادشاہ نے جیل میں ڈالديا۔ اور کوئی تبلیغی نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ لیکن تیسرےشخص کو، جو ان دونوں کی مدد کیلئے آئے تھے ناچار اپنا مبارزہ اور ان کے ساتھ مقابله کا راستہ تبدیل کرنا پڑا ۔پہلے اپنا عقیدہ چھپا تارها۔ تاکہ اپنی تدبیر ، فصاحت و بلاغت کے ساتھ حکومت کے امور میں مداخلت کرسکے ۔ اس کے بعد ایک مناسب فرصت اور موقع کا انتظار کرتے رہے تاکہ اپنے دوستوں کو نجات دلا سکے ۔اور اس شہر کے لوگوں میں اخلاقی ، اجتماعی اور فکری انقلاب برپا کرسکے۔اتفاقاً دونوں ہدف حاصل ہوئے کہ قرآن

____________________

۱۔ سوره يس ۱۴۔

۱۵۱

کریم نے اسے یوں تعبیر کیا ہے : ”( عززنا بثالث ) “ ہم نے اس تیسرے شخص کے ذریعے ان دونوں کی مدد کی اور ان کو عزت اور قوت بخشی ۔

اب سوال يه هے که کیا حضرت ابراهيم کا اپنا اعلیٰ ہدف کو چھپا رکھنا ترس اور خوف و ہراس کی وجہ سے تھا؟ یا اس اعلیٰ اور عظیم ہدف کو حاصل کرنے کیلئے مقدمہ سازی تھی؟!

کیا عيسي مسيحعليه‌السلام کی طرف سے بھیجے ہوئے تیسرے شخص بھی اپنے دوستوں کی طرح تلخ تجربات کے مرتکب ہوتے؟ اور خود کو بھی زندان میں ڈلوا دیتے ؟!یا یہ کہ روش تقیہ سے استفادہ کرکے تینوں دوستوں کو دشمن کے قید اور بند سے رہائی دلاتے؟!!

ان آیات سے بخوبی معلوم ہوتاہے کہ تقیہ کا ہدف اور فلسفہ کیا ہے اور اس کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟(۱)

____________________

۱۔ مكارم شيرازي؛ تقيه سپري عميقتر براي مبارزه،ص ۳۵۔

۱۵۲

کیا تقيه سے انکار ان آیتوں کا انکار نہیں؟!

شيعه، تقیہ کا انکار کرنے والوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر تقیہ جائز اور درست نہیں ہےتو ان آیات مبارکہ کا کیا کرو گے ؟ کیا ان آیات کیلئے کوئی شأن نزول نہیں ہے ؟ یا اہل قرآن کیلئے ان آیات کے ذریعے کوئی حکم بیان نہیں ہورہا ؟

اگر يه آيتيں کوئی شرعی تکلیف کو معین نہیں کرتیں تو نازل ہی کیوں ہوئیں؟ لیکن اگر کوئی شرعی حکم کو معین کرتی ہیں تو یہ بتائیں کہ وہ احکام کیا ہیں؟آیات شریفہ جو اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں ، درج ذیل ہیں:

( وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ ءَالِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلاً أَن يَقُولَ رَبىّ اللهُ وَ قَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَتِ مِن رَّبِّكُمْ وَ إِن يَكُ كَذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَ إِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِى يَعِدُكُمْ إِنَّ اللهَ لَا يهَدِى مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ يَاقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فىِ الْأَرْضِ فَمَن يَنصُرُنَا مِن بَأْسِ اللهِ إِن جَاءَنَا قَالَ فِرْعَوْنُ

۱۵۳

مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى‏ وَ مَا أَهْدِيكمُ‏ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ ) ۔(۱)

اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر بھی نازل ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے ۔میری قوم والو بیشک آج تمہارے پاس حکومت ہے اور زمین پر تمہارا غلبہ ہے لیکن اگر عذاب خدا آگیا تو ہمیں اس سے کون بچائے گا ؟فرعون نے کہا کہ میں تمہیں وہی باتیں بتارہا ہوں جو میں خود سمجھ رہا ہوں اور میں تمہیں عقلمندی کے راستے کے علاوہ اور کسی راہ کی ہدایت نہیں کررہا ہوں۔

( لا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكافِرينَ أَوْلِياءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنينَ وَ مَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ في‏ شَيْ‏ءٍ

) ____________________

۱۔ سوره غافر ۲۸ ـ ۲۹۔

(

۱۵۴

إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً وَ يُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ وَ إِلَى اللهِ الْمَصيرُ ) ۔(۱)

خبردار! اےایمان والو!مؤمنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے ۔

( مَن كَفَرَ بِاللهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهُ مُطْمَئنُ بِالْايمَانِ وَ لَاكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۔(۲)

"جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ کا انکار کرے (اس کے لئے سخت عذاب ہے) بجز اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں) لیکن جنہوں نے دل کھول کر کفر اختیار کیا ہو تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔"

____________________

۱ ۔ سوره آلعمران۲۸۔

۲ ۔ سوره نحل ۱۰۶ ۔

۱۵۵

ان آیات کریمہ سے تقیہ کی مشروعیت ثابت ہوگئی اب بات یہ ہے کہ اہل سنت کو کسی بھی دور میں تقیہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوئی کیونکہ وہ لوگ ہر دور کے حکمرانوں خواہ وہ ظالم وجابر ہی کیوں نہ ہوں ان کے خلاف کبھی کوئی آواز نہیں اٹھاتے بلکہ انہیں اولی الامر مانتے اور ان کی اطاعت کرتے لیکن اس کے برخلاف اہل تشیع نےکسی دور میں بھی حاکم وقت کو اولی الامر نہیں مانا بلکہ ظالم و جابر حمکرانوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہے جو ان حکمرانوں کے لئے قابل تحمل نہیں تھا جس کی بناء پر حکمران ،شیعیان امیرالمؤمنین ؑ کی جان و مال کے درپے رہے جس کی وجہ سے شیعیان علی ؑ تقیہ کرنے پر مجبور ہوتے رہے۔

ب: سنت

ہر دور ميں، تقیہ کو کامیابی کا راز تصور کیا جاتارہا ہے ۔ آپ کی تقریب ذہن کیلئے ہم کچھ مثالیں بیان کریں گے :

۱۵۶

۱۔تقيه، پیغمبرعليه‌السلام کی تدبير

پیغمبر اسلام (ص) کی شهامت ، شجاعت او رتدبيرکو سب دوست اور دشمن تسلیم کرتے ہیں۔

چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تین سال تک ” مخفيانه دعوت “ کرنا اور”مخفیانہ هجرت “ کرنا کہ جس کی وجہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن کے محاصرہ سے نکلنے میں کامیاب ہونا، اس کے بعدمدینہ تشریف لانے تک غار ثورمیں مخفی رہنا اور رات کی تاریکیوں میں چلنا اور دن کو مخفی رہنا ، یہ سب تقیہ کےاعتقادی یا عملی مصادیق میں سے ہیں ۔

۲ ۔تقيه،اعلیٰ اهداف کے حصول کا ذریعہ

۱۵۷

کیا کوئی شخص ایسے مسائل میں تقیہ کے اصولوں کا بروئے کار لانے کو نقطہ ضعف یا ترس یا محافظہ کاری کہہ سکتا ہے؟!

امام حسينعليه‌السلام كه جس نے تقیہ کے سارے نمونے کو پیروں تلے روند ڈالے ، لیکن جب بھی ضرورت محسوس کی کہ مقدس اور ابدی اہداف کے حصول اور ظلم وستم ، کفر و بے ایمانی اور ساری جہالت کے خاتمے کیلئے تقیہ کرتے ہوئے مکہ معظمہ سے نکلے جب کہ سارے مسلمان اعمال حج انجام دینے کی تیاریوں میں مصروف تھے ۔ اور اس کی وجہ بھی خود امام حسینعليه‌السلام نےبیان فرمائی تھی : اگرمیں چیونٹی کی بل میں بھی چھپ جاؤں تو یہ لوگ مجھےوہاں سے بھی نکال کر شہید کردیں گے ۔ اور اگر مکہ میں ٹھہر جاؤں تو حرم الہی کو میرے خون سے رنگین کریں گے اور خانہ کعبہ کی بھی بے حرمتی کریں گے ۔

تو اہل انصاف سے ہم یہی سوال کریں گے کہ امام حسینعليه‌السلام کا اس موقع پر تقیہ کرنا کیا عقل انسانی کے خلاف تھا ؟ یا عین عاقلانہ کام تھا ؟!

۱۵۸

۳۔ جنگ موته میں تقيه کاکردار

جنگ”موته“کے میدان میں مجاہدین اسلام کے صفوںمیں کچھ اس طرح سےترتیب دینا جو امپراتوري روم کے لاکھوں افراد پر مشتمل فوج کے ذہنوں میں تزلزل پیدا کرے اور نفسیاتی طور پر انہیں مفلوج کرے جو مسلمانوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھی ،اور یہ بہت مؤثر بھی رہا ۔

۴۔ فتح مكه میں تقيه کا کردار

پیغمبر اسلام (ص) نے مکہ فتح کرنے کی خاطر نہایت ہی مخفیانہ طور پر ایک نقشہ تیار کیا ؛ یہاں تک کہ انپے قریبی صحابیوں کو بھی پتہ چلنے نہیں دیا ۔ جس کے نتیجے میں مسلمان فتح مکہ جیسی عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوئے ۔اسی طرح بہت سے مواقع پر تقیہ کے اصولوں پر عمل کرکے فوجی طاقتوں اور اسلحوں کی حفاظت کی ۔

۱۵۹

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں خصوصاً ملکی حفاظت کرنے والوں کا سب سے پہلا اصول تقیہ اور کتمان ہے کہ دشمنوں سے ہر چیز کو چھپایا جائے تاکہ وہ ہم پر مسلط نہ ہوں ۔اس لئے جو بھی تقیہ کرنے پر اعتراض کرتاہے وہ در اصل تقیہ کے مفہوم اور معنی سے واقف نہیں یا کسی ایک خاص مکتب کو دوسرے مکاتب فکر کےسادہ لوح افراد کے سامنے متنفر کرنے کیلئے اس قرآنی اور عقلانی اصول کی اصل اور حقیقی شکل و صورت کو بگاڑ کر پیش کرتا ہے ۔ ہم اس سے کہیں گے کہ آپ کسی مکتب کی اہانت نہیں کررہےہو بلکہ در آپ اصل میں قرآن مجید کا مزاق اڑا رہے ہو۔

۵ ۔ تقيه دشمنوں کے مقابلے میں دفاعی وسیلہ

مجاہدین دشمنوں کے شر سے بچنے کیلئے تقیہ بروئے کار لاتے ہیں تاکہ اس تکنیک کے ذریعے دشمن کو غافل گیر کرکے مغلوب بنایا جائے ۔ اور میدان جنگ میں خود کامیابی سے

۱۶۰