تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں23%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86631 / ڈاؤنلوڈ: 3136
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ہمکنار ہوسکیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ گوشہ نشین افراد اور ڈرپوک اور غیر متعہد اور عافیت آرام طلب افراد کا شیوہ نہیں ہے بلکہ یہ مجاہدین اسلام اور محافظین دین کا شیوہ ہے ۔ پس تقیہ بھی ایک طرح کی جنگ اور جہاد ہے ۔اور یہ تقیہ خود وزارت دفاع اورملکی حفاظت کرنے والوں کی طاقت شمار ہوتا ہے ۔ چنانچه امير المؤمنينعليه‌السلام نے فرمایا:

التقيه من افضل اعمال المؤمن يصون بها نفسه و اخوانه عن الفاجرين ۔(۱)

تقیہ مؤمن کی افضل ترین عبادتوں میں سے ہے ،جس کے ذریعے فاسق اور فاجر طاقتوں کی شر سے وہ اپنی جان اور اپنے دوسرے بھائیوں کی جا ن بچاتا ہے ۔

۶ ۔تقيه مؤمن کی ڈھال ہے

قال الباقر: اي شيئ اقر للعين من التقية؟ ان التقية جنة المؤمن(۲)

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ، ج ۳،باب ۲۸۔

۲۔ وسائل الشيعه ، ج ۲۴ ، باب۲۶۔

۱۶۱

امام باقرعليه‌السلام نے فرمایا: کونسی چیز تقیہ سے زیادہ مؤمن کیلئے سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہے ؟!بے شک تقیہ مؤمن کی ڈھال ہے۔

امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

التقية ترس المؤمن و التقية حرز المؤمن ۔(۱)

بے شک تقیہ مؤمن کیلئے ڈھال اورقلعہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو دشمن کی شر سے بچاتا ہے ۔اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ ایک دفاعی مفہوم رکھتا ہے جسے اپنے دشمن کے مقابلے میں بروئے کار لایا جاتا ہے ۔زرہ کا پہننا اور ڈھال کا ہاتھ میں اٹھانا مجاہدین اور سربازوں کا کام ہے ۔ ورنہ جو میدان جنگ سے بالکل بے خبر ہو اور میدان میں اگر جائے توفرار کرنے والا ہو تو اس کیلئے زرہ پہننے اور ڈھال کے اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟!

____________________

۱۔ وسائل الشيعه ، ج ۶ ، باب۲۴ ۔

۱۶۲

۷ ۔ تقيه پیغمبروں کی سنت

امام صادقعليه‌السلام نےفرمایا:عليك بالتقيه فانها سنت ابراهيم الخليل ۔(۱)

تم پر تقیہ کرنا ضروری ہے کیونکہ تقیہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی سنت ہے ۔ اور ابراہیم وہ مجاہد ہیں جنہوں نے اکیلے ظالم و جابر نمرود کے ساتھ مقابلہ کیا ۔ نہ صرف اس کے ساتھ بلکہ تمام متعصب اور لجوج بت پرستوں کےساتھ مبارزہ کیا ؛ اور ہر ایک کو عقل اور منطق اور اپنی بے نظیر شجاعت کے ساتھ گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ۔ ان کے باوجود حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے کئی مقام پر تقیہ کرکے اپنی جان بچائی ہے ۔ لیکن کیاکوئی ابراہیمعليه‌السلام پر مصلحت اندیشی کا الزام لگا سکتا ہے ؟!ہرگز نہیں۔ اس لئے تقیہ حضرت ابراہیمعليه‌السلام کی سنت کے عنوان سے بھی معروف ہے ۔

____________________

۔ وسائل الشيعه، ج ۶ ، باب۲۴ ۔

۱۶۳

۸ ۔تقيه ،مجاهدوں کا مقام

امام حسن العسكريعليه‌السلام سےمنقول ہے:

مثل مؤمن لا تقية له كمثل جسد لا راس له ۔(۱)

وہ مؤمن جو تقیہ نہیں کرتا وہ اس بدن کی طرح ہے جس پر سر نہ ہو۔اور سر کے بغیر بدن کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی کیونکہ باقی جسمانی تمام تر فعالیت سر سے وابستہ ہے ۔

اور بالکل یہی تعبیر ”صبر و استقامت“ کے بارے میں آئی ہے كه ايمان بھی بغيرصبرو استقامت کے بغیر سرکے بدن کی طرح ہے ۔ان تعبیرات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تقیہ کا فلسفہ وہی صبر و استقامت کا فلسفه ہے اور تقیہ کے ذریعے اپنی طاقت اور اسلحہ کا بندوبست اور ان کی حفاظت کي جاتی ہے ۔

____________________

۱۔ وسائل الشيعه ،ج ۱۶، باب ۲۴۔

۱۶۴

۹ ۔ تقيه ،مسلمانوں کےحقوق کی حفاظت

تقیہ کا مسئلہ اور مسلمان بھائیوں کے حقوق کی ادائیگی دو ایسے فریضے ہیں جنہیں ایک دوسرے کے ساتھ ہی قرار دیا گیا ہے ۔

امام حسن العسكريعليه‌السلام نے فرمایا :

و أعظمُهما فرضانِ : قضاءُ حقوقِ الاخوانِ في اللهِ و استعمالُ التقيهِ من اعداءِ اللهِ ۔(۱)

تمام فرائض میں سے اهم ترین فریضہ دو ہیں:

o اپنے دینی بھائیوں کے حقوق کا ادا کرنا ۔

o اور اللہ کے دشمنوں کے سامنے تقیہ کرنا۔

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ،ج ۱۶، باب ۲۸، ح ۱۔

۱۶۵

اس تعبیر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تقیہ ان دو چیزوں کے درمیان ایک قسم کا رابطہ قائم کرنا ہے ۔ اگر غورکریں تو معلوم ہوگا کہ تقیہ کا مسئلہ دوسرے مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرح ایک اجتماعی مسئلہ ہے ۔

ج ۔ عقل

معمولاً تقيه اقلیتوں سے مخصوص ہے جو اکثریت کے پنجوں میں اسیر ہوجاتے ہیں ایسی صورت میں اگر وہ اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہیں تو اس کے لئے جانی یامالی نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔اور ساتھ ہی اس اقلیت والے گروہ کے ہاں موجود قومی سرمایہ اور طاقت کا ہدر جانے کے علاوہ اسے کچھ نہیں ملتا ۔

کيا عقل نہیں کہتي کہ یہ قومی سرمائے اور طاقت کا اہم ضرورت کے موقعوں کے لئے محفوظ رکھنا ایک عاقلانہ اور اچھا کام ہے ؟ بلکہ عقل کہتی ہے کہ اپنے عقیدے کوچھپا کر ان طاقتوں کو ذخیرہ کیا جائے تاکہ انہیں مناسب فرصت اور مواقع پر بروئے

۱۶۶

کار لایا جاسکے ۔

مثال کےطورپر: کوہستانی علاقوں اور دیہاتوں میں مختلف جگہوں سے پانی کے چھوٹے چھوٹے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں۔ اگر ان کو ایک تالاب میں جمع کریں گے تو اس سے بہت بڑے مزرعے کو سیراب کرسکتے ہیں ، لیکن اگر ان کواسی طرح بہنے دیں تو کھیتوں کو سیراب کئے بغیر پانی ضائع ہو جاتا ہے ۔ اسی لئے زمیندار ان چشموں کے نزدیک تالاب بنا کر پانی کو جمع کرتے ہیں تاکہ بیج بوتے وقت زمین کو سیراب کر سکیں۔ جب کہ اس سے قبل سارا پانی ضائع ہو جاتا تھا ۔ تقیہ بھی اسی طرح ہے کہ جس کے ذریعے اپنی اور اپنی قوم و ملت کے سرمائے اور جان کی حفا ظت کی جائے تاکہ مناسب موقع پر اس سے بھر پور استفادہ کیا جاسکے۔جو ایک عاقلانہ کام ہے۔

۱۔دفع ضرر

عقل بتاتی ہے کہ دفع ضرر واجب ہے ؛ اور تقیہ ایک ایسی تکنیک ہے کہ جس کے ذریعے

۱۶۷

انسان جانی یا مالی ضرر کو اپنے سے اور اپنے دوسرے هم فکر افراد سے دفع کر سکتا ہے ۔اسی لئے فقہاء فرماتے ہیں :

فقد قضي العقل بجواز دفع الضرر بها (بالتقيه) بل بلزومه و اتفق عليها جميع العقلاء: بل هو امر فطري يسوق الانسان اليه قبل كل شيئ عقله و لبه و تدعوه اليه فطرته ۔(۱)

عقل تقیہ کے ذریعے دفع ضرر کو جائز قرار دیتی ہے بلکہ اس کے واجب ہونے پر تمام فقہاء اور عقلاء کا اتفاق ہے ۔اور اس سے بھی بالا تر یہ ایک فطری عمل ہے کہ جو انسان کو اس کی فطرت اور عقل سب سے پہلے تقیہ کے ذریعے اپنی جان اور مال کی حفاظت کرنے پر ابھارتا ہے ۔اور یہ غریزہ ہر انسان اور حیوان میں پایاجاتا ہے ۔

۲ـ مہم پر اہم کا مقدم کرنا

فالعقل السليم يحكم فطريا بانه عند وقوع التزاحم بين الوظيفة الفرديه مع شوكة

____________________

۱ ۔ جعفر سبحاني؛ مع الشيعه الاماميه في عقائدهم، ص ۸۹۔

۱۶۸

الاسلام و عزته و قوته او وقوع التزاحم بين الحفظ النفس و بين الواجب او محرم آخر لابد من سقوط الوظيفة الفرديه و ليست التقيه الا ذالك ۔(۱)

عقل سليم کا فطری حكم ایسا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے فریضے کی انجام دہی کے موقع پر اسلام کی قدرت ، شان وشوکت اور عزت کے ساتھ مزاحم ہوجاتا ہے ۔ یا اپنی جان بچانے کا وقت آتا ہے تو یہ کسی واجب یا حرام کام کا ترک کرنے یا انجام دینے پر مجبور ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں اہم کو انتخاب کرتے ہوئے مہم کو ترک کرنے کا نام تقیہ ہے ۔ اس استدلال سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ :

ان العقل يري ان احكام الدين انما شرعت لسعادة الانسان في حياته الي الابد، فاذا كانت هذه السعادة و ادانت الاكام متوقفة و الاخفاء عن الاعداء في فترة من الزمن فالفعل يستقل بالحكم بحسن التقية لقديما للاهم علي المهم ۔(۲)

____________________

۱۔ صادق ، روحاني؛فقه الصادق ،ج۱۱ ، ص۳۹۳۔

۲۔ محمد علي،صالح المعلم؛ التقيه في فقه اهل البيت،ج۱، ص۶۶۔

۱۶۹

عقل بتاتی ہے کہ احكام دين کو انسان کی ابدی خوش بختی کیلئے تشریع کیا ہے ۔ لیکن اگر یہی خوش بختی اور احکام دین پر عمل کرنا کچھ مدت کیلئے اپنے جانی دشمنوں سے چھپا نے پر مجبور ہو تو عقل، تقیہ کرنے اور اہم کام کو مہم کام پر مقدم کرنے کو ایک اچھا اور مناسب عمل سمجھے گی ۔

اگر ان بیانات کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں :جب بھی انسان یا مکلف دو کاموں کوانجام دینے پر مجبور ہو ؛ لیکن ان دوکاموں میں سے صرف ایک کو فی الحال انجام دے سکتا ہو ۔ اب وہ سوچتا ہے کہ کس کام کو انجام دوں اور کس کام کو چھوڑ دوں؟! اگر وہ عاقل اور سمجھدار ہو تو وہ جس میں مصلحت زیادہ ہوگی اسے انجام دے گا اور جس کام میں مصلحت کم ہوگی اسے ترک کرے گا اسی کا نام تقیہ ہے ۔

د : فطرت

اگر صحیح معنوں میں فکر کریں تو معلوم ہوگا کہ تقیہ سراسر عالم حيات کے قانون

۱۷۰

کی اساس اور بنیاد ہے ۔اور تمام زندہ مخلوقات اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان بچانے کی خاطراس اصول سے استفادہ کرتی ہیں ۔جیسے بحری حیوانات جب احساس خطر کرتے ہیں تو وہ اپنی جان بچانے کی خاطر اپنے جسم پر موجودخاص تھیلیوں سے استفادہ کرتے ہیں کہ جس میں ایک کالے رنگ کا ایک غلیظ مادہ ہوتا ہے جسے وہ اپنے اطراف میں پھیلادیتے ہیں جیسے آنسو گیس استعمال کرکے اس جگہ سے دور ہو جاتے ہیں ۔

اسی طرح بہت سے حشرات ہیں جو اپنے جسم کو پروں اور بالوں کے ذریعے اس طرح چھپاتے ہیں کہ بالکل اس شاخ کے رنگ و روپ میں بدل جا تے ہیں اور جب تک غور نہ کریں نظر نہیں آتے ۔ بعض جاندار ایسے ہیں جو مختلف موقعوں پر اپنا رنگ بھی اسی محیط کے رنگ و روپ میں تبدیل کرتے رہتے ہیں ، اور اس حيران کن دفاعی سسٹم کے ذریعے جانی دشمن کی نظروں سے اوجھل ہو جاتےہیں، تاکہ اپنی جان بچا سکیں ۔

۱۷۱

بعض حیوانات ایسے بھی ہیں جو خطرے کی صورت میں اپنے جسم کو بالکل بے حس و حرکت بناتے ہیں تاکہ دشمن کو دھوکه دے سکیں ۔

خلاصہ کلام یہ ہے جو بھی تقیہ کے مسئلہ کو شیعوں کا مسئلہ قراردیتے ہوئے اعتراضات کرتے ہیں ، حقیقت ميں وہ تقیہ کے مفہوم اور معنی سے واقف نہیں ہیں، یا واقف تو ہیں لیکن شیعوں کو دیگر مکاتب فکر یا سادہ لوح عوام کی نگاہوں میں گرانے کی خاطر اس فطری اور عقلانی اصول یا سسٹم سے انکار کرتے ہیں ۔

ان مطالب سے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ کا سسٹم تمام مکاتب فکر میں کم و بیش پایا جاتا ہے ۔لیکن یہ یاد رکھیں کہ ہمیشہ نیک اور صالح افراد جو کہ تعداد کے لحاظ سے تھوڑے ہیں ، ان جنایت کار اور ظالم افراد جو کہ تعداد کے لحاظ سے زیادہ ہیں ، سے تقیہ کرتے آئے ہیں ؛ تاکہ اس تکنیک یا سسٹم کے ذریعے اپنی جان ، مال عزت ، آبرو اور ناموس ، کی حفاظت کرسکیں ۔(۱)

____________________

۱ ۔ مكارم شيرازي؛ تقيه سپري عميقتر ، ص۲۲۔

۱۷۲

ه : اجماع

جنگي نقشے بھی ہمیشہ مخفیانہ طور پر بنائے جاتے ہیں جنگجو افراد ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ خود کو دشمن کی نظروں سے چھپائے رکھتے ہیں ،اور اپناجنگی سامان اور اسلحے کو میدان جنگ کے گوشہ و کنارميں درخت کے پتوں یا کیچڑوں اور مٹی مل کر چھپا تے هیں ، اسی طرح فوجیوں کی وردیاں بھی کچھ اسطرح سے پہنائی جاتی ہیں کہ میدان جنگ میں آسانی کے ساتھ دشمنوں کی نظروں میں نہ آئیں ۔یا کبھی جنگجو افراد مصنوعی دھواں چھوڑکر دشمن کوغافل گیر کرتے ہیں ۔یا رات کی تاریکی میں ايک جگه سے دوسري جگه نقل مکاني کرتے ہیں ۔

اسی طرح جاسوس اور اطلاعات والے جب دشمن کے علاقوں میں جاتے ہیں تو وہ اس علاقے کے لوگوں کے لباس اور ماحول اور فرہنگ میں اپنے آپ کو ضم کرتے ہیں ۔ اگر غور کریں تو یہ سب امور تقیہ کے مختلف شکلیں ہیں ۔جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے دشمن

۱۷۳

پر فتح و کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔(۱)

اداری اور دفتری کاموں میں خواہ وہ سیاسی امور ہو یا اقتصادی یا معاشرتی ، مختلف مقاصد کے حصول کیلئے رموز کا استعمال کرنا ، یہ سب اس سسٹم کی مختلف شکلیں ہیں ،جسے کوئی بھی عاقل انسان رد نہیں کرسکتا ۔ بلکہ سب ان کی تائید کریں گے ۔ اگر ایسی صورت میں جبکہ دشمن اس کے مقابل میں ہو اور وہ اپنی شجاعت دکھاتے ہوئے آشکار طور پر دشمن کے تیروتلواروں یا گولیوں کے زد میں نکلے تو اس کی عقل پر شک کرنا چاہئے۔

یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ تقیہ ہر مکتب فکر والوں میں موجود ہے جس کے ذریعے ہی قومی سرمایہ اور عوام کی جان اور مال اور ملکی سالمیت کی حفاظت ممکن ہے ۔

____________________

۱ ۔ مكارم شيرازي؛ تقيه سپري عميقتر ، ص ۱۸۔

۱۷۴

پانچویں فصل

وجوب و تحریم تقيه کے موارد اوران کا فلسفه

۱۷۵

پانچویں فصل :

وجوب وتحریم تقيه کے موارد اوران کا فلسفه

وہ موارد جہاں تقیہ کرنا واجب ہے

وجوب تقیہ کے موارد اور ان کے اہداف کو باہم تحقیق کریں گے ۔ کیونکہ یہ دونوں (وجوب و هدف)ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔ اگر تقیہ کے اصلی موارد کوبیان کریں تو ہدف اصلی بھی خود بخود واضح ہوجاتا ہے ۔بطور خلاصہ تقیہ کو کئی اہداف کی خاطر واجب جانا گیا ہے :

۱۷۶

۱۔ طاقت کی محافظت کرنا

کبھی انسان کیلئے ایسا موقع پیش آتا ہے کہ جہاں اپنا عقیدہ اگر عیاں اور آشکار کرے تو بغیر کسی فائدے یااپنے اہداف سے قریب ہونے کی بجائے اس شخص یا اور کئی افراد کی جان نابود یا ناقابل تلافی نقصان کا شکار ہو سکتی ہے ۔ایسے مواقع پر عقل اور منطق حکم دیتی ہیں کہ احساسات میں بے دلیل گرفتار ہوکر اپنی طاقت کو ضائع کرنے سے باز آئیں ۔بلکہ آئندہ کیلئے ذخیرہ کریں ؛ تاکہ قدرت و طاقت اس قدر زیادہ ہوجائے جس کے ذریعے اپنا عظیم ہدف تک رسائی ہوسکے ۔کیونکہ کسی بھی شخص میں اتنی وافر مقدار میں قدرت یا طاقت نہیں ہے کہ جنہیں کھلے دل و دماغ سے ہاتھ سے جانے دیں ۔

کبھی ایک لائق اور مفید شخص کی تربیت کیلئے کئی سا ل ایک معاشرے کو زحمت اٹھانی پڑتی ہے اور وہ اپنی طاقت کو خرچ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ تویہ کیسے ممکن هے که اپني ذمه داري کا احساس نہ کریں ؟!

۱۷۷

مخصوصا ًایسے معاشرے میں جہاں اچھے اور نیک انسانوںمیں افرادي قوت اور طاقت بہت کم ہو ؟

یہی وجہ تھی کہ اسلام کے شروع میں پیغمبر نے تقریباً تین سال اپنا عقیدہ سواے ایک خاص گروہ کے دوسرے لوگوں سے چھپا ئےرکھا ۔ آہستہ آہستہ مسلمانوں میں افرادی قوت میں اضافہ ہوتا گیا ، یہاں تک کہ تقیہ کی بندش تین سال بعد ٹوٹنے لگی اور آپ اسلام کی طرف علی ٰ الاعلان لوگوں کو دعوت دینے لگے ۔لیکن پھر بھی آپ کے اوپر ایمان لانے والوں کی تعداد کم تھی جوکہ دشمنوں کے ہاتھوں اسیر ہوجاتے اور قسم قسم کی اذیتیں اور آزار برداشت کرنا پڑتیں ۔اور ایک معمولی بات پر مسلمان قتل کردئے جاتے تھے ۔ تو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسے افراد کو تقیہ کرنے کی اجازت دیتے تھے ۔تاکہ اپنی دفاعی طاقت اور قوت کو اس نومولود مکتب کی حفاظت کی خاطر محفوظ کرلیں اور بیہودہ اور بے ہدف اوربے دلیل اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔

۱۷۸

۲۔ پروگرام کو چھپانا

چونکہ تقیہ زیادہ تر نیک اور صالح افراد جو تعداد کے لحاظ سے کم ہیں ، ان سے مربوط ہے تاکہ وہ اس ظالم اور جابر گروہ کے شر سے اپنے دین یا جان یا ناموس کو بچائیں ۔یہ بھی معلوم ہے کہ اقلیت اپنی زندگی کو جاری رکھنے اور عالی ہدف تک جانے کیلئے تقیہ کے طور و طریقے سے استفادہ کرنے پر مجبور ہیں ۔ ورنہ اگر اکثریت کے سامنے اپنا عقیدہ برملا کرے تو وہ لوگ مزاحمت کرنے لگیں گے ۔اس لئے مجبور ہیں کہ اپنے عقائد ، پروگرام اور دیگر کاموں کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے تقیہ کرلیں ۔اس قسم کا تقیہ ظہور اسلام کے وقت بہت زیادہ پایا جاتا تھا ۔

هجرت پیغمبر کانقشہ كه جو انقلاب اسلامی کی تکمیل اور کامیابی کا پہلا قدم تھا ،آپ کا مخفیانہ طور پر نکلنا اور امير المؤمنينعليه‌السلام کا بستر پیغمبرگرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جا کر آرام کرنا اور آنحضرت کا رات کی تاریکی میں غار حرا کی طرف حرکت کرنا اور اس غار میں کئی دن تک ٹھہرنے کے بعد مدینہ کی طرف مخالف سمت میں چلنا ،وغیرہ اسی تقیہ کی قسموں

۱۷۹

میں سے ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ان موقعوں پر تقیہ کرنا واجب ہے یا نہیں؟!

کیا اگر پیغمبراور مسلمان اپنا عقيده اور فكر کو دشمن سے نہیں چھپاتے تو کیا کامیابی ممکن تھی؟!

کیا ایسے موارد میں تقیہ کرنا ہی اپنی کامیابی اور دشمن کی نابودی کا سبب نہیں ہے ؟

اسی طرح اللہ کے خلیل حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے جو تقیہ کیا تھا ،عرض کر چکا ، جو اگر اپنا عقیدہ نہ چھپاتے اور توریہ نہ کرتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ لوگ انہیں اکیلا شہر میں رکنے دیتے ؟ ہرگز نہیں۔اس صورت میں آپ کو بت خانے کی طرف جانے کی فرصت بھی کہاں ملتی؟!لیکن آپ نے جو اپنا عقیدہ چھپایا اور جو نقشہ آپ نے تیار کیا ہوا تھا اسے اپنی انتہا کو پہنچانے کیلئے تقیہ ہی سے کام لیا۔اور یہی آپ کی کامیابی کا راز بنا۔

ان تمام روايتوں میں تقيه کو ايك دفاعي سپر یا ڈھال «جنّة المؤمن، ترس

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

اسماء وصفات :بصير ۸;خبير ۸

الله تعالى :الله تعا۶لى كے انذار ۴; الله تعالى كا حجت تمام كرنا ۵;اللہ تعالى كا وسيع علم ۹ ;اللہ تعالى كى گواہى كا كافى ہونا ۲;اللہ تعالى كى گواہى كى خصوصيات ۹;اللہ تعالى كى ہدايات ۳اللہ تعالى كے نظر ركھنے كى خصوصيات۹;اللہ تعالى كے مخاطب حضرات ۱

بہانے باز:بہانے بازوں سے دورى ۶

بہانے كرنا :بہانے كرنے سے پرہيز كا پيش خيمہ ۱۰

حق :حق قبول نہ كرنے سے پرہيز كا پيش خيمہ ۱۰;حق كے منكروں سے دور ہونا ۶;حق كے منكروں كو ڈراوا ۴

ذكر :الله تعالى كے علمى احاطہ كے ذكر كے آثار ۱۰

عمل :عمل كے گواہ ۹

كفار:بہانے باز كفار كو خبردار كرنا ۴;حق كے منكرين كفار كو خبردار ۴

مشركين:انے باز مشركين كو خبردار ۴;حق كے منكرين مشركين كو خبردار كرنا ۴;مشركين پر حجت كا تمام ہونا ۵;مشركين كا بے وقت ہونا ۱; مشركين كو انذار ۴;مشركين كے بہانے كرنا ۷; مشركين كے گواہ ۲

آیت ۹۷

( وَمَن يَهْدِ اللّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاء مِن دُونِهِ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْياً وَبُكْماً وَصُمّاً مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيراً )

اور جس كو خدا ہدايت ديدے وہى ہدايت يافتہ ہے اور جس كو گمراہى ميں چھوڑدے اس كے لئے اس كے علاوہ كوئي مددگار نہ پاؤگے اور ہم انھيں روز قيامت منھ كے بل گونگے اندھے بہرے محشور كريں گے اور ان كا ٹھكانا جہنم ہوگا كہ جس كى آگ بجھنے بھى لگے گى تو ہم شعلوں كو مزيد بھڑ كا ديں گے (۹۷)

۱_الله كى ہدايت سے بہرہ مند لوگ، حقيقى معنوں ميں ہدايت يافتہ ہيں _

۲۶۱

ومن يهدالله فهو المهتد

۲_الله كى ہدايت ،انسان كى حقيقى ہدايت كى ضامن ہے_ومن يهدالله فهوالمهتد

۳_انسان كى ہدايت اور گمراہى الله تعالى كے ہاتھ ميں ہے _من يهد الله فهو المهتد ومن يضلل فلن تجدلهم أولياء من دونه

۴_وہ كہ جن كى گمراہى الله تعالى كى طرف سے ثابت ہوچكى ہے وہ ہدايت كے قابل نہيں ہيں اور ہر قسم كے سرپرست اور مددگار سے محروم ہيں _ومن يضلل فلن تجد لهم أولياء من دونه

۵_الله تعالى كى ہدايت سے محروم لوگ ہر قسم كے مددگار اور مدد سے بھى محروم ہيں _

ومن يضلل فلن تجدلهم أولياء من دونه

۶_گمراہ لوگ،قيامت كے دن ايسے جانوروں كى مانند كہ جو سننے' ديكھنے اور بولنے سے محروم ہيں ' محشور ہوں گے_

ومن يضلل ...ونحشرہم يوم القيامة على وجوہہم عمياً وبكماً وصم

۷_قيامت كے روز محشور ہوتے وقت حق سے منكر گمراہ لوگوں كا عقيدہ اور عمل ان كے ادراكى اور حسى اعضاء (يعنى آنكھ ،كان اور زبان) پر اثر انداز ہونا_ونحشرهم يوم القيامة على وجوههم عمياً وبكماً وصم

۸_قيامت كے روز گمراہوں كا ذليل ہونا اور منہ كے بل خاك پر گرنا _ونحشرهم يوم القيامة على وجوههم عمياً و بكماً وصم

۹_انسان، قيامت كے دن جسمانى طورپر محشور ہوگاونحشرهم يوم القيامة على وجوههم عمياً بكماً وصم

۱۰_حق قبول نہ كرنے والے گمراہ لوگوں كا ٹھكانہ ،جہنم ہے_ما وى هم جهنم

۱۱_جہنم كى آگ كبھى بھى نہ بجھنے والى ہے بلكہ ہميشہ نئي اور بھڑكنے والى ہے _كلما خبت زدنهم سعير

۱۲_عن إبراهيم بن عمر رفعه إلى أحدهما فى قول الله ''ونحشرهم يوم القيامة على وجوههم ''_ قال: على جباههم _(۱)

ابراہيم بن عمر نے امام باقر _ يا امام صادق_ سے اپنى مرفوعہ حديث ميں نقل كيا كہ انہوں نے الله تعالى كے اس كلام ''ونحشرہم يوم القيامة على جوہہم'' كے بارے ميں فرمايا : كہ اس حال ميں كہ وہ پيشانى كے بل گرے ہونگے(ہم محشور كريں گے )_

۲۶۲

۱۳_على بن الحسين (ع) قال : إن فى جهنم وادياً يقال له : سعير' إذا خبت جهنم فتح سعيرها وهو قوله: ''كلمّا خبت زد نا هم سعيراً'' _(۱) امام سجاد(ع) نے فرمايا : بلا شبہ جہنم ميں ايك وادى ہے كہ جسے سعير كہا جاتاہے اور جب جہنم كى آگ بجھے گى تو سعير جہنم كھل جائے گى اور يہ الله كا كلام ہے كہ اس نے فرمايا : كلما خبت زدناہم سعير

ادراك:اداركى قوّتوں ميں مؤثر اسباب ۷

الله تعالى :الله تعالى كى ہدايتوں سے محروم لوگوں كا بے يار و مدكار ہونا۵اللہ تعالى كى ہدايتوں كى اہميت ۱;اللہ تعالى كے گمراہ كرنے كى خصوصيات ۴; الله تعالى كى ہدايتوں كے آثار ۲

انسان :انسانوں كا آخرت ميں محشور ہونا ۹

جبر واختيار : ۳

جہنم:جہنم كى آگ كے درجے ۱۱; جہنم كے دركات ۱۳;سعير كا مقام ۱۳;جہنم كى آگ كا ہميشہ ہونا ۱۱

جہنمى : ۱۰

حق:حق كے منكرين كا آخرت ميں محشور ہونا ۷

روايت : ۱۲ ، ۱۳

قيامت :جسمانى قيامت ۹

گمراہ لوگ:جہنم ميں گمراہ لوگ ۱۰ ; قيامت كے دن گمراہ لوگ۸;گمراہ لوگوں كا اخروى اندھا پن ۶; گمراہ لوگوں كا اخروى بہرہ پن ۶;گمراہ لوگوں كااخروى حشر۶، ۷;گمراہ لوگوں كا اخروى گونگاپن۶;گمراہ لوگوں كا انجام۱۰; گمراہ لوگوں كا بے يارومددگار ہونا ۴;گمراہ لوگوں كا حشر ۱۲;گمراہ لوگوں كى اداركى قوّتيں ۷;گمراہ لوگوں كى اخروى ذلت ۸;گمراہ لوگوں كے عقيدہ كے اخروى آثار ۷;گمراہ لوگوں كے عمل كے اخروى آثار ۷

گمراہى :گمراہى كا سرچشمہ ۳

ہدايت يافتہ : ۱

ہدايت :ہدايت كا سرچشمہ ۲، ۳

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۲، ص ۳۱۸، ح ۱۶۸_ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۲۸، ح ۴۵۲_۲) تفسير قمى _ ج ۲، ص ۲۹، نورالثقلين ج ۳، ص ۲۲۸، ح۴۵۱_

۲۶۳

آیت ۹۸

( ذَلِكَ جَزَآؤُهُم بِأَنَّهُمْ كَفَرُواْ بِآيَاتِنَا وَقَالُواْ أَئِذَا كُنَّا عِظَاماً وَرُفَاتاً إنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقاً جَدِيداً )

يہ اس بات كى سزا ہے كہ انھوں نے ہمارى نشانيوں كا انكار كيا ہے اور يہ كہا ہے كہ جب ہم ہڈياں اور مٹى كا ڈھير بن جائيں گے تو كيا دوبارہ از سر نو پھر پيدا كئے جائيں گے (۹۸)

۱_گمراہ لوگوں كا اخروى عذاب، ان كے الہى نشانيوں كے مد مقابل، كافرانہ عمل كا نتيجہ ہے_

ومن يضلل ونحشرهم يوم القيامة ذلك جزاؤهم با نهم كفروا بأياتنا

۲_روز قيامت اور آيات الہى كے انكار كى سزا، جہنم كى جلتى ہوئي ہميشہ كى آگ ہے_

كلما خبت زدنهم سعيراً _ ذلك جزاؤ هم بأنهم كفروا بأياتنا وقالوا ا ء إذا كنا عظاماً ورفاتاً أء نّا لمبعوثون خلقاً جديدا

۳_كفار، انسان كے خاك اور بكھرى ہوئي ہڈيوں ميں تبديل ہونے كے بعد دوبارہ زندگى كو بعيد شمار كرتے تھے_

وقالوا ا ء إذا كنا عظاماً ورفاتاً اء نا لمبعوثون

۴_ مشركين، معاد كو صرف بعيد شمار كرنے كى وجہ سے اس كا انكار كرتے تھے نہ كہ كسى دليل اور برھان كى بناء پر_

وقالوا اء إذا كنا عظاماً ورفاتاً أء نّا لمبعوثون خلقاً جديدا

۵_كفار كى نگاہوں ميں موت، انسان كى زندگى كا اختتام ہے _وقالوإ إذا كنّا عظاماً ورفاتاً ا ء نّا لمبعوثون خلقاً جديدا

۶_موت كے بعد زندگى انسان كى نئي اور تازہ پيدائش ہے _ا ء نّا لمبعوثون خلقاً جديدا

جہنم :

۲۶۴

جہنم كى آگ ۲;جہنم كے اسباب ۲

زندگي:موت كے بعد زندگى ۶

قيامت :قيامت كو جھٹلانے كى سزا ۲

كفار :كفار اور موت ۵;كفار كا عقيدہ ۳، ۵

كفر:الہى آيات كے كفر كى سزا ۲;الہى آيات كے كفر كے آثار ۱

گمراہ لوگ :گمراہ لوگوں كے كفر كے آثار۱;گمراہ لوگوں كے اخروى عذاب كے اسباب ۱

معاد:معاد جسمانى كو بعيد شمار كرنا ۳;معاد كو بعيد شمار كرنا ۴; معاد كو جھٹلانے والوں كا بے منطقى ہونا ۴; معاد كى حقيقت ۶

موت :موت كى حقيقت ۶

آیت ۹۹

( أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ قَادِرٌ عَلَى أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلاً لاَّ رَيْبَ فِيهِ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إَلاَّ كُفُوراً )

كيا ان لوگوں نے يہ نہيں ديكھا ہے كہ جس نے آسمان و زمين كو پيدا كيا ہے وہ اس كا جيسا دوسرا بھى پيدا كرنے پر قادر ہے اور اس نے ان كے لئے ا يك مدت مقرر كردى ہے جس ميں كسى شك كى گنجائش نہيں ہے مگر ظالموں نے كفر كے علاوہ ہر چيز سے انكار كرديا ہے (۹۹)

۱_آسمانوں اور زمين كى تخليق پر توجہ، انسانوں كى دوبار ہ تخليق پر قدرت الہى كى طرف توجہ كرنے كا سبب ہے_

أولم يروا أن الله قادر على أن يخلق مثلهم

۲_انسانوں كو آسمانوں اور زمين كى پيدائش پر فكر كرنے كى ترغيب معاد كے واقع ہونے كو سمجھنے كے لئے ہے_

أولم يروا أن الله الذى خلق السموات و الأرض قادر على أن يخلق مثلهم

۳_آسمانوں اور زمين كى تخليق، انسان كے مرنے كے بعد دوبارہ زندہ ہونے سے كئي درجے اہم ہے_

أولم يروا أن اللّه الذى خلق السموات و الأرض قادر على أن يخلق مثلهم

۲۶۵

۴_كفار كى آسمانوں اور زمين كى عظيم تخليق پر غور نہ كرنا اور جہالت ان كى طرف سے انسانوں كى دوبارہ زندگى كے انكار كا موجب بنى ہيں _أولم يروا أن الله الذى خلق السموات و الأرض قادر على أن يخلق مثلهم

۵_اسى جہان طبيعت اور محسوسات ميں غيبى حقائق كو دريافت كرنے كے لئے نشانيوں كا موجود ہونا _

أولم يروإن الله الذى خلق السموت والارض قادر على أن يخلق مثلهم

آسمان اور زمين (عالم طبيعت) وہى نشانياں ہيں كہ ان ميں غوروفكر كرنے سے انسان كا غيبى حقائق كہ جن ميں اس كى دوبارہ زندگى بھى شامل ہے كا تعجب ختم ہوسكتا ہے _

۶_قيامت ميں انسانوں كى زندگى دنياوى جسموں كى مانند ہوگى _قادر على أن يخلق مثلهم

۷_روز قيامت انسانوں كى زندگى يقينى ہے اور پہلے سے معين شدہ وقت اور پروگرام كے ساتھ ہے_

وجعل لهم ا جلاً لاريب فيه

۸_قيامت سے پہلے معاد انسانى كا واقع نہ ہونا تخليق ميں نظم اور پروگرام كى بناء پر ہے نہ كہ الله تعالى قادر نہيں ہے_

قادر على أن يخلق مثلهم وجعل لهم أجلا

''قادر على أن يخلق مثلہم'' كے بعد ''جعل لہم أجلاً'' كا ذكر حقيقت ميں ايك پوشيدہ سوال كا جواب ہے كہ اگر الله انسانوں كى دوبارہ خلقت پر قادر ہے تو ابھى يہ كام كيوں نہيں كرتا؟

۹_دنيا ميں انسانوں كى مدت اور عمر محدود اور ختم ہونے والى ہے _أولم يروا وجعل لهم أجلاً لاريب فيه

يہ كہ ''اجلاً'' سے مراد انسان كى دنيا ميں محدود مدت اورعمر ہو نہ كہ قيامت كے بپا ہونے كا وقت اس سے مندرجہ بالا مطلب واضح ہوتا ہے_

۱۰_معاد كا انكار اور كائنات ميں الله كى عظيم قدرت كو نظر انداز كرنا ايك ظالمانہ عمل ہے_أولم يروا فأبى الظالمون الاّ كفورا

۱۱_حق كے منكرين ظالموں كا الہى نشانيوں كے مد مقابل ايك ہى طريقہ تھا اور وہ انكا انكار ہے_فابى الظالمون الاّ كفورا

۱۲_ظلم اختيار كرنا الہى آيات كے انكار اور كفر كا پيش خيمہ ہے_فابى الظالمون الاّ كفورا

۱۳_انسان كے عقائدميں بعض شبھات ان كے الہى

۲۶۶

صفات ميں دقيق معرفت نہ ہونے كى بناء پر ہوتے ہيں _أولم يروا أن الله الذي قادر على أن يخلق مثلهم

يہ كہ الله تعالى نے منكرين معاد كے شبھہ كو دور كرنے كے لئے انہيں اپنى عظےم قدرت كى طرف متوجہ كيا ہے اس سے مندرجہ بالا نكتہ واضح ہوتا ہے_

آسمان:آسمانوں كى خلقت كامطالعہ ۲;آسمانوں كى خلقت كى اہميت ۳;آسمانوں كى خلقت كى عظمت ۴

الله تعالى :الله تعالى كى صفات سے جہالت كے آثار ۱۳ ; الله تعالى كى قدرت پر دلائل ۱ ; الله تعالى كى قدرت كو جھٹلانے كا ظلم ۱۰

الله تعالى كى نشانياں :الله تعالى كى نشانيوں كو جھٹلانے كا پيش خيمہ ۱۲; الله تعالى كى نشانيوں كو جھٹلانے والے ۱۱

انسان :انسان كى عمر كا محدود ہونا ۹

حق:حق كے منكرين سے سامنا كرنے كاطريقہ ۱۱;حق كے منكرين كا ظلم ۱۱

حقائق:غيبى حقائق كى علامات ۵

ذكر:آسمانوں كى پيدائش كے ذكر كے آثار ۱;زمين كى پيدائش كے ذكر كے آثار ۱

زمين :زمين كى خلقت كا مطالعہ ۲;زمين كى خلقت كى اہميت ۳;زمين كى خلقت كى عظمت ۴;

شبھات:شبھات كا سرچشمہ ۱۳

ظلم :ظلم كے آثار ۱۲;ظلم كے موارد ۱۰

كائنات :كائنات ميں قانون كى حاكميت ۸;كائنات ميں نظم ۸

كفار:كفار كى جہالت كے آثار ۴

كفر :كفركاپيش خيمہ ۱۲

مدت:مدت مسّمى ۹

معاد:قيامت سے پہلے معاد۸;معاد جسمانى ۶;معادكا قانون كے مطابق ہونا ۷;معاد كا يقينى ہونا ۷; معاد كوجھٹلانے كا ظلم ۱۰;معاد كو جھٹلانے كے اسباب ۴;معاد كى اہميت ۳;معاد كى شناخت كا پيش خيمہ ۱، ۲ ;معاد كا يقينى ہونا ۷; معاد كوجھٹلانے كا ظلم ۱۰;معاد كو جھٹلانے كے اسباب ۴;معاد كى اہميت ۳; معاد كى شناخت كا پيش خيمہ ۱، ۲

۲۶۷

آیت ۱۰۰

( قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذاً لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الإِنفَاقِ وَكَانَ الإنسَانُ قَتُوراً )

آپ كہہ ديجئے كہ اگر تم لوگ ميرے پروردگار كے خزانوں كے مالك ہوتے تو چرخ ہوجانے كے خوف سے سب روك ليتے اور انسان تو تنگ دل ہى واقع ہوا ہے (۱۰۰)

۱_پيغمبر (ص) پر انسانوں كو ان كى نفسانى غلط صفات كى ياد آورى اور خبردار كرنے كى ذمہ دارى _

قل لو أنتم تملكون خزائن رحمة ربيّ إذاً لأمسكتم

۲_پيغمبر (ص) پر مشركين كو ان كى بخل كى خصلت ياد لانے كى ذمہ دارى _

قل لو أنتم تملوك خزائن رحمة ربيّ إذاً لأمسكتم خشية الانفاق

يہ مطلب اس اساس پر ہے كہ پچھلى آيات كے پيش نظر اس آيت ميں بھى كفار مخاطب ہوں _

۳_مشركين جس قدر بھى ثروت مند ہوں وہ فقر وفاقہ سے ڈرتے ہوئے انفاق نہيں كرتے _

قل لو أنتم تملكون خزائن رحمة ربيّ إذاً لأمسكتم خشية الإنفاق

۴_انسان اگر چہ پروردگار كى رحمت كے تمام خزانوں كے مالك بھى بن جائيں پھر بھى بخل اور اپنے فقروفاقہ كے خوف ميں مبتلا ہونگے_قل لو أنتم تملكون خزائن رحمة ربيّ إذاً لأمسكتم خشية الإنفاق

يہ كہ الله تعالى نے بخل كى خصلت كو تمام انسانوں كے لئے بيان كيا ہے (وكان الإنسان قتوراً) لہذااحتمال ہے كہ (لو أنتم تملكون) كے مخاطب تمام انسان ہوں _

۵_انسان اگر چہ وسيع ثروت اور تمكنت كے مالك بھى ہوں پھر بھى بخل ميں مبتلا ہيں اوراس خصلت كو چھوڑنے والے نہيں ہيں _قل لو أنتم تملكون خزائن رحمة ربيّ إذاً لأمسكتم خشية الانفاق

۶_مشركين حتّى كہ اپنى مادى حاجات پورى ہونے اور وسيع ذرائع و وسائل ركھنے كے باوجود بھى انفاق سے پرہيز كرتے ہيں _لن نومن لك حتّى تفجرلنا قل لو أنتم تملكون خزائن رحمة ربيّ إذاً لامسكتم

يہ كہ الله تعالى نے پچھلى آيات ميں مشركين كى پيغمبر (ص) سے مادى درخواستوں (چشمہ وغيرہ) كو بيان كيا اور اس آيت ميں وسيع وسائل ركھنے كى صورت ميں بھى انكے بخل كاذكر فرمارہا ہے' يہ مندرجہ بالا نكتہ كى بناء پر ہے _

۲۶۸

۷_الله كى رحمت ،وسيع وعظيم خزانوں كى حامل ہے_خزائن رحمة ربّي

۸_الله كى ربوبيت، رحمت سے ملى ہوئي ہے_رحمة ربّي

۹_فقر كا خوف ،بخل اور خساست كى جڑ ہے_إذا لا مسكتم خشية الإنفاق

۱۰_مال كى كثرت، انسان كے انفاق كى طرف ميلان اور بخل جيسى خصلت سے پرہيز ميں مؤثر نہيں ہے_

لوانتم تملكون ...لا مسكتم خشية الإنفاق

۱۱_فقروفاقہ كے خوف سے انفاق سے بخل، قابل مذمت و سرزنش ہے _لوانتم تملكون لا مسكتم خشية الانفاق

يہ كہ بخل اور خساست جيسى خصلت ركھنے كى بناء پر يہ آيت انسانوں يا مشركين كى مذمت كر رہى ہے_ اس سے مندرجہ بالا نكتہ واضح ہوتا ہے_

۱۲_انفاق، كبھى بھى انسان كے فقر كا موجب نہيں بنتا_لو أنتم تملكون لا مسكتم خشية الإنفاق وكان الإنسان قتورا

يہ كہ الله تعالى نے فقر كے خوف سے انفاق نہ كرنے كى مذمت كى ہے ممكن ہے اس حقيقت كو بيان كر رہا ہو كہ يہ خوف بے جا ہے اور انفاق، فقر كا موجب نہيں ہے_

۱۳_انسانوں ميں خساست اور بخل جيسى خصلت موجود ہے_وكان الإنسان قتورا

''قتوراً'' '' قتر'' سے صيغہ مبالغہ ہے كہ جس كا معنى نفقہ دينے سے پرہيز كرنا اور معمولى اور نا چيزچيزپر اكتفاء كرناہے_ (مفردات راغب)

۱۴_بخل كى بشر كے وجود ميں جڑ اور نوع انسان ميں ايك طاقت ور خصلت ہے_وكان الإنسان قتورا

۱۵_انسان كا كردار اپنى اندرونى خصلتوں سے متا ثر ہوتا ہے_لامسكتم وكان الإنسان قتورا

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱، ۲ ;آنحضرت (ص) كے انذار۱

اخلاق :برى اخلاقى صفات ۱۳

الله تعالى :

۲۶۹

الله تعالى كى ربوبيت كى خصوصيات ۸;اللہ تعالى كى رحمت ۷، ۸;اللہ تعالى كے خزانوں كى مالكيت ۴;اللہ تعالى كے خزانے ۷

انسان:انسانوں كا بخل ۴، ۵، ۱۰، ۱۳، ۱۴;انسانوں كو انذار۱ ; انسان كى صفات ۴، ۵، ۱۳، ۱۴; انسان كى صفات كے آثار ۱۵

انفاق :انفاق كا پيش خيمہ ۱۰;انفاق كے آثار ۱۲

بخل :بخل كا سرچشمہ ۱۴;بخل كى سرزنش ۱۱;بخل كے اسباب ۹

ثروت :ثروت كے آثار ۱۰

خوف:فقر سے خوف كى سرزنش ۱۱;فقر سے خوف كے آثار ۳، ۹

ڈراوے :ناپسنديدہ صفات سے ڈراوا ۱

فقر:فقر سے پريشانى ۴;فقر كے اسباب۱۲

كردار :كردار كى اساس ۱۵

مشركين :مشركين كا انفاق ترك كرنا۳، ۶;مشركين كا بخل ۳; مشركين كا ثروت مند ہونا ۳; مشركين كا خوف ۳ ; مشركين كى دنيا پرستى ۵; مشركين كى مادى درخواستيں ۶;مشركين كے بخل كا اعلان ۳

ياد آورى :ناپسنديدہ صفات كى يادآورى ۱

آیت ۱۰۱

( وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَونُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَى مَسْحُوراً )

اور ہم نے موسى كو نوكھلى ہوئي نشانياں دى تھيں تو بنى اسرائيل سے پوچھو كہ جب موسى انكے پاس آئے تو فرعون نے ان سے كہہ ديا كہ ميں تو تم كو سحرزدہ خيال كر رہا ہوں (۱۰۱)

۱_الله تعالى كى طرف سے موسى (ع) كو نو عددروشن اور واضح معجزات عطا ہوئے _ولقد اتينا موسى تسع ء ايات بينات

۲_حضرت موسى (ع) كى دعوت اپنى رسالت كى حقانيت پر واضح دليلوں (معجزات) كے ساتھ تھى _

ولقد ء اتينا موسى تسع ء ايات بينات

۲۷۰

۳_پيغمبر (ص) كو ذمہ دارى دى گئي كہ وہ بنى إسرائيل سے موسى (ع) كو بہت سے معجزات عطا ہونے كے باوجود فرعون اور اس كے پيروكاروں كے حق قبول نہ كرنے كا اعتراف ليں _

ولقد ء اتينا موسى تسع ء ايات بينات فسئل بنى إسرائيل إذجائهم فقال له فرعون إنّى لأظنك ى موسى مسحورا

۴_موسى كے متعدد معجزات، فرعون پر كوئي اثر نہ ڈال سكے_

ولقد ء اتينا موسى تسع ء ايات بينات فقال له فرعون إنى لأظنك ى موسى مسحورا

۵_مشركين كو الله تعالى كى جانب سے معجزات اقتراحى عطا نہ كرنے كى وجہ ان كے حق كوقبو ل نہ كرنے كے حوالے سے علم الہى تھا_ولقد ء اتينا موسى فقال له فرعون إنى لاظنّك ى موسى مسحورا

مشركين كى درخواستوں كو رد كرنے كے بعد حضرت موسي(ع) كے بہت سارے معجزات كے باوجود فرعون كے كفر كا تذكرہ بتاتاہے كہ چونكہ مشركين بھى ايمان نہ لانے پر پكاارادہ كرچكے تھے 'لہذا ان كى درخواستيں قبول نہيں ہوئيں _

۶_مشركين مكہ كا پيغمبر (ص) كے مد مقابل محاذ قائم كرنا حضرت موسى (ع) كے مدمقابل فرعون كے محاذ كا تسلسل تھا_

وقالو لن نؤمن لك ...ولقد ء اتينا موسى ...فقال له فرعون إنّى لأظنك ى موسى مسحورا

۷_آنحضرت (ص) كے معجزہ (قرآن) كا مشركين مكہ كى طرف سے انكار كے حوالے سے الله تعالى كى آنحضرت (ص) كى حوصلہ افزائي _وقالو لن نؤمن لك ...ولقد ء اتينا موسى ...فقال له فرعون إنى لأظنك ى موسى مسحورا

۸_پيغمبر (ص) كے زمانے كہ يہوديوں كى حضر ت موسى (ع) اور فرعون كے حالات سے آگاہى _

فسئل بنى إسرائيل إذجائهم فقال له فرعون

۹_فرعون نے حضرت موسي(ع) كے نو عدد معجزات كا مشاہدہ كے بعد ان پر سحر اور سحر زدہ ہونے كا الزام لگايا _

ء اتينا موسى تسع آيات فقال لہ فرعون إنى لأظنك ى موسى مسحور

۱۰_فرعون نے محض اپنے ظن وگمان كى بناء پر حضرت موسى (ع) پر جادوگرى اور سحرزدہ ہونے كا الزام لگايا نہ كہ دليل وبرہان كى بناء پر_موسى ...فقال له فرعون إنّى لأ ظنك ى موسى (ع) مسحورا

۱۱_فرعون كا حضرت موسى (ع) اور ان كے معجزات كے بارے ميں دو گلى پا ليسى اور سياستمداروں جيساعيارانہ سلوك _موسى فقال له فرعون إنى لأظنك يموسى مسحورا

فرعون نے حضرت موسى (ع) كى دعوت اور ان كے معجزات كو قطعى طور پر رد نہيں كيا بلكہ دو گلى پاليسى

۲۷۱

كے انداز (ميرا گمان ہے) سے بات كى تا كہ جہاں تك ہوسكے ان كى مخالفت كرتا رہے اور جب مخالفت كرناناممكن ہو تو يہ كہے كہ ميرى پہلے والى مخالفت محض ايك ظن و گمان تھي_

۱۲_فرعون نے حضرت موسى (ع) كے معجزات كا مقابلہ كرنے سے عاجز ہونے اور ان سے خطرے كا احساس ہونے كى وجہ سے ان پر جادوگر ہونے كا الزام لگاياولقد ء اتينا موسى تسع ء ايات بينات فقال له فرعون إنّى لاظنك ى موسى مسحور يہاں احتمال ہے كہ اس مفعول ''مسحور'' اسم فاعل ''ساحر'' كا جانشين ہواہے لہذا اسى فاعل كے معنى ميں ہے چونكہ يہاں قرينہ يہ ہے كہ حضرت موسى (ع) كے اكثر معجزات جادو گرى كے الزام كے ساتھ زيادہ مطابقت ركھتے تھے_

۱۳_دليليں جس قدر بھى روشن اور واضح ہوں اگر انسان ميں ضرورى حد تك ان كو قبول كرنے كى استعداد نہ ہو وہ مؤثر نہيں ہونگي_ولقد ء اتينا موسى تسع ء ايات بينات فسئل بنى إسرائيل إذاجائهم فقال له فرعون إنّى لأظنك ى موسى مسحورا

۱۴_عن أبى جعفر (ع) فى قوله:''ولقد اتينا موسى تسع ء ايات بينات'' قال : الطوفان والجراد والقمل والضفادع والدم والحجر و البحرو العصاو يده _(۱) امام باقر (ع) سے الله تعالى كى اس كلام'' ولقد ء اتينا موسى تسع ء ايات بينات'' كے بارے ميں نقل ہوا ہے كہ :( حضرت موسى كے معجزات يہ تھے) طوفان'ٹڈي'جوئيں 'مينڈك' خون' پتھر' دريا' عصا اور يد (بيضا)

۱۵_عن موسى بن جعفر (ع)قال نفر من اليهود قالوا: أخبرنا عن الأيات التسع التى أوتيها موسى بن عمران قلت: العصا و إخراجه يده من جيبه بيضاء والجراد والقمل والضفادع و الدم ورفع الطور و المن و السلوى آية واحدة وفلق البحر (۲) امام كاظم (ع) نے فرمايا : يہوديوں كے گروہ نے كہا ہميں ان نو عدد نشانيوں كے بارے ميں بتائيں جو موسى (ع) بن عمران(ع) كو دى گئيں _ ميں نے كہا : عصا' نورانى حالت ميں گريبان سے ہاتھ نكالنا ' ٹڈى 'جوئيں ' مينڈك ' خون' كوہ طور كا بنى إسرائيل كے سروں پر آجانا' من وسلوى دو نوں ايك نشانى ہيں ' درياے نيل كے پانى كو پھاڑنا_

۱۶_عن صفوان بن عسال قال : قال النبي(ص) فى قوله تعالى :''ولقد ء اتينا موسى تسع آيات بينات'': لا تشركوا بالله شيئاً، ولا تسرقوا' ولا تزنوا ولا تقتلوا النفس التى حرم الله إلّا بالحق ولا تسحروا' ولا تا كلوا الربا، ولا تمشوا

____________________

۱') تفسير عياشى _ ج ۲ ص ۳۱۸، ح ۱۷۰_ نورالثقلين ج ۳ ص ۲۲۹، ح ۴۵۷_۲) قرب الاسناد ص ۳۱۸، ح ۱۲۲۸_ نورالثقلين ج ۳ ، ۲۲۹_

۲۷۲

ببرى إلى ذى سلطان ليقتله ولا تقذّفوا محضة وانتم يايهود عليكم خاصه لا تعدوا فى السبت ._(۱)

صفوان بن عسال كہتے ہيں كہ پيغمبر (ص) نے (اللہ تعالى كے كلام''ولقد اتينا موسى ...'' كے بارے ميں ) فرمايا : كسى چيز كو الله تعالى كا شريك قرار نہ ديں ، چورى اور زنا نہ كريں اور وہ جو كہ اس كا خون خداوند عالم نے محترم شمار كيا ہے اسے قتل نہ كريں سلطان سے كسى اچھے آدمى كى بدخوئي نہ كريں كہ اس كى موت كا سبب بنے اور كسى كى طرف زنا محضہ كى نسبت نہ ديں اور صرف تم يہوديوں كے لئے حكم ہے كہ ہفتہ كے دن نافرمانى (مچھلى كا شكار) نہ كريں _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى حوصلہ افزائي ۷;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۳;آنحضرت (ص) كے خلاف محاذ قائم كرنا ۶

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۶، ۷

اعداد:نوكا عدد ۱، ۹

اقرار:فرعون كے حق قبول نہ كرنے كا اقرار ۳; فرعونيوں كے حق قبول نہ كرنے كا اقرار ۳

الله تعالى :الله تعالى كا علم غيب ۵

انبياء:انبياء كے خلاف دشمنوں كا باہمى تو افق۶

برہان :برہان كے اثر كرنے كى شرائط ۱۳

بنى إسرائيل :بنى إسرائيل كا اقرار ۳

روايت :۱۴، ۱۵، ۱۶

فرعون:فرعون پر معجزے كا بے اثر ہونا ۴;فرعون كا سامنا كرنے كا طريقہ ۶، ۱۱;فرعون كى تہمتوں كا بے منطق ہونا ۱۰;فرعون كى تہمتوں كا فلسفہ ۱۲ ;فرعون كى تہمتيں ۹;فرعون كے عجز كے آثار ۱۲;

كفر:قرآن كا انكار۷

مشركين :مشركين كى درخواستوں كا رد ہونا ۵;مشركين كے حق قبول نہ كرنے كے آثار ۵;

مشركين مكہ:مشركين مكہ كا سامنا كرنے كا طريقہ ۶;مشركين مكہ كا كفر ۷/معجزہ:معجزہ اقتراحى كا رد ۵

____________________

۱) تفسير طبرى ج ۹ ، ص ۱۷۲،_ مجمع البيان ج ۶، ص۶۸۵_

۲۷۳

موسى (ع) :موسى (ع) پر جادو ہونے كى تہمت ۹، ۰ ۱; موسى (ع) پر جادو گرہونے كى تہمت ۱۰;موسى (ع) پر جادو گر ہونے كى تہمت كا فلسفہ ۱۲; موسى سے برتا ؤ كا طريقہ ۱۱;موسى (ع) كا قصہ ۹; موسى (ع) كا معجزہ ۲، ۳، ۴، ۹، ۱۴، ۱۵;موسى (ع) كى تعليمات ۱۶;موسى (ع) كى حقانيت كى دليليں ۲; موسي(ع) كى دعوتيں ۲;موسى كى دليليں ۲;موسى (ع) كے خلاف محاذ ۶;موسى (ع) كے معجزہ كى تعداد ۱

يہود:صدر اسلام كے يہوداور تاريخ ۸; صدر اسلام كے يہود اور فرعون كا انجام ۸; صدر اسلام كے يہود اور موسى (ع) كا قصہ ۸; صدراسلام كے يہوديوں كا آگاہ ہونا ۸

آیت ۱۰۲

( قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ هَـؤُلاء إِلاَّ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ بَصَآئِرَ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَونُ مَثْبُوراً )

موسى نے كہا كہ تمھيں معلوم ہے كہ سب معجزات آسمان و زمين كے مالك نے بصيرت كا سامان بناكر نازل كئے ہيں اور اے فرعون ميں خيال كر رہا ہوں كہ تيرى شامت آگئي ہے (۱۰۲)

۱_فرعون كا معجزات كو سحر كہنے كے باوجود، موسى (ع) كا ان كى حقانيت پر فرعون كے باطنى اعتقاد كا تذكرہ_

إنى لاظنك يا موسى مسحوراً _ قال لقد علمت ما ا نزل هؤلاء إلّا ربّ السموات والارض بصائرا

۲_حضرت موسى (ع) كے نو عدد معجزات اپنے الہى ہونے كے حوالے سے ہر ابہام وشك كو دور كرنے والے ہيں _

ولقد اتينا موسى تسع ء ايات قال لقد علمت ما ا نزل هؤلاء الاّ ربّ السموات والارض بصائرا

۳_فرعون اگر چہ حضرت موسى (ع) كى دعوت كى حقانيت سے كامل آگاہ تھا ليكن ہٹ دھرمى كى بناء پر ان كى مخالفت كر رہا تھا_فقال له فرعون إنى لا ظنك ى موسى مسحوراً_ قال لقد علمت ما انزل هولاء إلّا رب السموات والارض

۴_تمام آسمان اور زمين، الله تعالى كى ربوبيت كے تحت ہيں _ما أنزل هولاء إلّا رب السموات والارض

۵_كائنات كے پروردگار كے معجزات، لوگوں كے كمال

۲۷۴

اور بصيرت كو حاصل كرنے كے لئے نازل ہوئے ہيں _ما أنزل هؤلاء إلّا ربّ السموات والارض بصائر

۶_تخليق كائنات ميں بہت سے آسمان ہيں _رب السموات والارض

۷_معجزہ سے بصيرت اور فكر كا پيدا ہونا اس كے جادو اور سحر سے امتياز كا معيار ہے_

إنى لأظنك يا موسى مسحوراً _ قال لقد علمت ما ا نزل هؤلا إلّا بصائرا

فرعون كى طرف سے حضرت موسى (ع) كے معجزات پر جادو كى تہمت لگنے كے بعد حضرت موسى (ع) كا معجزات كو ''بصائر'' سے تاكيد كرنا ممكن ہے فرعون كے الزام كو معيار كے ذريعے رد كيا جارہا ہو يعنى سحر كبھى بھى بصيرت نہيں ديتا جبكہ معجزہ سے بصيرت حاصل ہوتى ہے _

۸_فرعون،باطنى طور پر سے آسمانوں اور زمين كے پروردگار پر عقيدہ ركھتا تھا _

قال لقد علمت ما أنزل هولاء إلّا رب السموات والارض

۹_حضرت موسى كا فرعون كو اس كى ہلاكت والے انجام كے بارے ميں خبردار كرنا_وإنى لأظنك يا فرعون مثبور

''ثبور'' ہلاك اور فاسد ہونے كے معنى ميں ہے_

۱۰_مقابلہ بالمثل اور حقيقت كا اظہار، حضرت موسى (ع) كى فرعون كا سامنے كرتے وقت كى خصوصيات ميں سے ہيں _

إنى لأظنك يا موسى مسحوراً وإنى لأظنك يا فرعون مثبورا

۱۱_معجزات الہى كى حقانيت كا علم پيدا كرنے كے بعد انكا ر، انسان كى ہلاكت كا موجب ہے_

لقد علمت وإنى لا ظنك يا فرعون مثبورا

جملہ ''وانى لأظنك ...'' اس كے بعد كہ فرعون نے جانتے ہوئے معجزات الہى كا انكار كرديا 'ممكن ہے اس كا الله كے روشن معجزات اور آيات كے انكار كا بدترين انجام بيان كرنے كے لئے ہو _

۱۲_فرعون كے مد مقابل حضرت موسى (ع) كا واضح لہجہ اور شجاعت_وإنى لأظنك ى فرعون مثبورا

۱۳_حق كى وضاحت كے بعد انذار،حق قبول نہ كرنے والوں كى اصلاح كا ايك ذريعہ ہے _ولقد علمت وإنى لأظنك يا فرعون مثبورا معجزہ لا نے اور فرعون كے رد كرنے كے بعد يہ جملہ ''انى لاظنك يا فرعون مثبوراً'' يہ احتمال ديتاہے كہ اصلاح كے لئے خبردار كيا گيا ہو_

آسمان :

۲۷۵

آسمانوں كا رب ۴;آسمانوں كى تعداد ۶;

اعداد :نو كا عدد ۲

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كا احاطہ ۴

بصيرت:بصيرت كے اسباب ۵، ۷

انذا ر:انذاركے آثار ۱۳;ہلاكت سے ڈراوا ۹

حق :حق قبول نہ كرنے والوں كى اصلاح كا انداز ۱۳;حق كى وضاحت كے آثار۲

زمين :زمين كا رب ۴

فرعون:فرعون كا انجام ۹;فرعون كا عقيدہ ۸;فرعون كا علم ۳;فرعون كا معجزہ كے بارے ميں عقيدہ

۱;فرعون كو ڈراوا ۹;فرعون كى الله كے بارے ميں شناخت ۸;فرعون كى دشمنى ۳; فرعون كى ہٹ دہرمى ۳

معجزہ:معجزہ اور جادو ميں فرق ۷;معجزہ جھٹلانے كے آثار ۱۱;معجزہ كا كردار ۷;معجزہ كى حقانيت كا علم ۱۱;معجزہ كے نازل ہونے كا فلسفہ ۵

موسى (ع) :موسى (ع) اور فرعون ۱۰;موسى (ع) پر جادو گرى كى تہمت ۱; موسي(ع) كا حق بات كہنا۱۰;موسى (ع) كا علم غيب ۱;موسى (ع) كا قصہ ۱۲;موسى (ع) كا واضح انداز ۱۲;موسى كامقابلہ بالمثل ۱۰ ; موسى (ع) كى حقانيت ۳ ; موسى (ع) كى خصوصيات ۱۲;موسى (ع) كى شجاعت ۱۲; موسى (ع) كے سامنا كرنے كى خصوصيات ۱۰;موسى (ع) كے دشمن ۳; موسي(ع) كے معجزہ كا سرچشمہ ۲;موسي(ع) كے معجزہ كى حقانيت ۱

ہلاكت :ہلاكت كا موجب ۱۱

آیت ۱۰۳

( فَأَرَادَ أَن يَسْتَفِزَّهُم مِّنَ الأَرْضِ فَأَغْرَقْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ جَمِيعاً )

فرعون نے چاہا كہ ان لوگوں كو اس سرزمين سے نكال باہر كردے ليكن ہم نے اس كو اس كے ساتھيوں سميت دريا ميں غرف كرديا (۱۰۳)

۱_حضرت موسى (ع) كے معجزات كے مد مقابل كمزورى كا احساس كرنے كے بعد فرعون كا حضرت موسى (ع) اور

۲۷۶

بنى إسرائيل كو زمين سے مٹانے كا عزم_ولقد ا تينا موسى تسع آيات فا راد ا ن يستفزّهم من الارض

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ نكتہ ہے كہ ''الارض'' سے مراد كرہ ارض ہو، تو اس صورت ميں ''استنفزاز'' سے مراد قتل اور نابود كرنا ہے_

۲_حضرت موسى (ع) اور بنى إسرائيل كا سرزمين مصر ميں موجود ہونا فرعون كے لئے ناقابل تحمل اور انہيں زبردستى وہاں سے نكالنے كا موجب تھا_فا راد أن يستفزّهم من الارض

يہ كہ ''الارض'' سے مراد سرزمين مصر ہو جو فرعون كى حكومت كا مركز تھى _ اس سے مندرجہ بالا نكتہ واضح ہوتا ہے_

۳_حضرت موسى (ع) كے مقابلہ ميں منطقى اور مناسب انداز سے سامنا كرنے سے عاجز آنے كے بعد فرعون ان كے خلاف جبري، تھكنڈوں پر اتر آيا_ولقد ء اتينا موسى تسع آيات بينات فقال له فرعون إنى لا ظنك ى موسى مسحوراً فاراد أن يستفزّهم من الارض

۴_فرعون كے حضرت موسى (ع) اور بنى إسرائيل كے خلاف ظالمانہ عزم كے بعد الله تعالى كے ارادہ كى بناء پر فرعون اور اس كے ہمراہ تمام لوگوں كا غرق ہونا _فأراد فأغرقنه ومن معه جميع

۵_الله تعالى كى طرف سے فرعون اور فرعونيوں پر حجت تمام ہونے كے بعد سخت اور ہلاكت ميں ڈالنے والى سزا_

ولقد ء اتينا موسى تسع آيات بينات فأراد ا ن يستفزهم ...فا غرقنه ومن معه

۶_فطرى اسباب الله تعالى كے رادہ كے طہور پذير كے مقام _فا غرقنه ومن معه جميع

۷_الہى عذاب نازل ہوتے وقت تمام ظالموں ' انكے ہمراہيوں اور انكے مددگاروں كو لپيٹ ميں لے ليتا ہے_

فا غرقنه ومن معه جميع

۸_الله تعالى ظالموں اور ان كے ساتھ ظلم ميں شريك لوگوں كو يكسان عذاب ديتا ہے_فأغرقنه ومن جميع

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ نكتہ ہے كہ ''ومن معہ'' سے مراد، ظلم ميں فرعون كے مددگار اور شريك لوگ مراد ہوں نہ كہ صرف اس كے ہمرا ہ لوگ_

۹_فاسد عناصر اور ظالم حكومتوں كى تائيد ، ہمراہى اور ان كو مضبوط كرنے كا نتيجہ، ان جيسا ہلاكت والا انجام ہے_

فا غرقنه ومن معه جميع

۱۰_فاسد رہبروں اور حاكموں كا امتوں كى تباہى اور ہلاكت ميں اہم كردار _فقال له فرعون فأراد فأغرقنه ومن معه جميع فرعون كى ہلاكت كى داستان ميں عذاب كے مسئلہ

۲۷۷

ميں فرعون ايك اساسى عنصر كى شكل ميں دوسرے مددگاروں سے جدا، ضمير مفرد كى صورت ميں ذكر ہوا ہے يہ مندرجہ بالا مطلب كو بيان كرتا ہے_

۱۱_الله تعالى كا ارادہ، تاريخ كے فرعون اور جابروں كے ارادوں پر غالب ہے _

فأراد ا ن يستفزهم من الأرض فا غرقنه ومن معه جميع

۱۲_فى رواية أبى الجارود( عن أبى جعفر(ع) ) فى قوله( فا راد أن يستفزهم من الارض) وقد علم فرعون وقومه ما انزل تلك الأيات إلّإلله _(۱) ابى جارود كى روايت ميں امام باقر(ع) سے الله تعالى كے اس كلام''فأراد أن يستفزهم من الارض'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ انہوں نے فرمايا : ...در حالى كہ فرعون اور ا س كى قوم جانتے تھى كہ يہ آيات، الله كے علاوہ كسى نے نازل نہيں كيں _

الله تعالى :الله تعالى كے ارادہ كا غلبہ ۱۱;اللہ تعالى كے ارادہ كے آثار ۴;اللہ تعالى كے ارادہ كے جارى ہونے كے مقام ۶;اللہ تعالى كے حجت تمام كرنے كے آثار ۵;اللہ تعالى كے عذابوں كى خصوصيات ۷، ۸/امتيں :امتوں كى ہلاكت كے اسباب ۱۰/بنى إسرائيل :بنى إسرائيل پر ظلم كے آثار ۴;بنى إسرائيل كا قتل ۱;بنى إسرائيل كا ملك بدر ہونا ۲;بنى إسرائيل كى تاريخ ۱، ۳;بنى إسرائيل كے دشمن۲;سرزمين مصر ميں بنى إسرائيل ۲

روايت : ۱۲//سزا كا نظام;۸//طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا كردار ۶

ظالم :ظالموں كا مغلوب ہونا ۱۱;ظالموں كى امداد كا انجام ۹; ظالموں كى امداد كى سزا ۷; ظالموں كى سزا ۷، ۸; ظالموں كے ساتھ تعاون كرنے كى سزا ۷، ۹;ظالموں كے معادنوں كى سزا ۸

فرعون :فرعون پر حجت كا تمام ہونا ۳; فرعون كا بے منطق ہونا ۳;فرعون كا عذاب۵;فرعون كا عجز ۱; فرعون كا قصہ ۳، ۴;فرعون كا معجزہ پر عقيدہ ۱۲ ; فرعون كى دشمني۱،۲; فرعون كس سازش۳; فرعون كى ہلاكت ۵; فرعون كے ظلم كے آثار ۲;فرعون كے عجز كے آثار ۳; فرعون كے غرق ہونے كى وجہ ۱۴

فرعونى لوگ:فرعونى لوگوں پر حجت تمام ہونا ۵;فرعونى لوگوں كا معجزہ كے بارے مےں عقيدہ ۱۲; فرعونى لوگوں كا مغلوب ہونا ۱۱;فرعونى لوگوں كى سزا ۵;فرعونى لوگوں كى ہلاكت ۵;فرعونى لوگوں كے ظلم كے آثار ۴;فرعونى لوگوں كے غرق ميں ہونے كى وجہ ۴

____________________

۱) تفسير قمى ج ۲، ص ۲۹، نورالثقلين ج۳، ص ۲۳۰، ح ۴۶۳_

۲۷۸

قائدين :فاسد قائدين كا كردار ۱۰

معاشرہ :معاشرتى آفات كى پہچان ۱۰

مفسدين:مفسدين كى امداد كاانجام ۹;مفسدين كے ساتھ تعاون كرنے كى سزا ۹

موسى (ع) :سرزمين مصر ميں موسى (ع) ۲;موسى (ع) پر ظلم كے آثار ۴ ; موسى (ع) كا قتل ۱;موسى (ع) كا قصہ ۱، ۳موسى (ع) كو ملك بدر كرنے كى سازش ۳;موسى (ع) كى ملك بدرى ۲;موسى (ع) كے دشمن ۱، ۲

ہلاكت :ہلاكت كے اسباب ۹

آیت ۱۰۴

( وَقُلْنَا مِن بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُواْ الأَرْضَ فَإِذَا جَاء وَعْدُ الآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفاً )

اور اس كے بعد بنى اسرائيل كے كہہ ديا كہ اب زمين ميں آباد ہوجاؤ پھر جب آخرت كے وعدہ كا وقت آجائے گا تو ہم تم سب كو سميٹ كرلے آئيں گے (۱۰۴)

۱_قوم فرعون كى ہلاكت كے بعد الله تعالى كا بنى إسرائيل كو اپنى مورد نظرزمين (شام ويا مصر) پر سكونت كرنے كا حكم _

وقلنا من بعده لبنى إسرائيل اسكنوا الارض

۲_فرعون كى حكومت سے چھٹكارا پانے سے پہلے بنى إسرائيل كى كھٹن او ر دشوار زندگي_

فأراد ان يستفزهم من الأرض ...وقلنا من بعده لبنى إسرائيل اسكنوا الارض

احتمال ہے كہ ''اسكنوا الارض'' سے مراد زمين پر آرام لينا اور اضطراب سے باہر نكلنا مراد ہوكہ جس كا پہلے سے شكار تھے_

۳_انسانوں كا جابروں كے تسلط سے دور آرام وامن والى زندگى كو پانا ايك اہم اورقدر و قيمت والى بات ہے _

فأغرقنه ومن معه اسكنوا الارض

۴_فرعون كى ہلاكت كے بعد الله تعالى كى اجازت سے

۲۷۹

بنى إسرائيل كاسرزمين مصر يا شام پر تسلط اور حكومت_اسكنوا الارض

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ احتمال ہے كہ ''اسكنوا'' سے مراد حكومت پانا ہو كہ اس دن تك بنى إسرائيل كے پاس يہ حكومت نہ تھى اور ''الارض'' سے مراد سرزمين مصر يا شام مراد ہو _

۵_الله تعالى كا بنى إسرائيل كو آرام اور حكومت پانے كے بعد آخرت سے غفلت نہ برتنے پرخبردار كرنا _

اسكنوا الأرض فإذا جاء وعدالأخرة جئنابكم لفيفا

۶_آرام اور معاشرتى قدرت كا حصول، انسان كے آخرت كے جہان سے غفلت كا موجب ہے_

اسكنوا الأرض فإذا جاء وعدالأخرة جئنابكم لفيفا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''اسكنوا الارض'' جوكہ حكومت اور قدرت سے كنايہ ہے كے ذكر كے بعد الله تعالى نے قيامت كے مسئلہ اور انسانوں كے حاضر ہونے كو بيان كيا _

۷_بنى إسرائيل سے الہى نعمتوں كا حساب لينے كے لئے ان كو جماعت كى صورت ميں قيامت ميں حاضر كرنا_

اسكنوا الأرض فإذاجاء وعد الأخرة جئنابكم لفيفا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ احتمال ہے كہ پچھلے قرينہ''اسكنوا الأرض '' كے پيش نظر بنى إسرائيل كا قيامت ميں گروہى صورت ميں حاضر كرنا اس لئے ہو كہ ان سے الله تعالى كى عظيم نعمت''اسكنوا الارض'' كا جواب لينا ہو ''_

۸_بازپرس كے لئے بنى إسرائيل كو فرعونيوں كے ساتھ گروہى شكل ميں روز قيامت حاضر كرنا_جئنابكم لفيف

اس بنا ء پر كہ ''كم'' سے مراد بنى إسرائيل اور ہلاك ہونے والے فرعونى لوگ ہوں تو يہ مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۹_بنى إسرائيل كے اس سرزمين پر دوسرے فساد كے وقت كے بعد ان كو سرزمين فلسطين ميں اكھٹا كرنے كا الله تعالى كا ان سے وعدہ _فإذا جاء وعد الأخرة جئنابكم لفيفا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ احتمال ہے كہ ''وعدالأخرة'' سے ان دو وعدہ كے وقت كى طرف اشارہ ہو كہ جن كا اس سورہ كے آغاز ميں آيت ۴ ميں بنى إسرائيل كے ليے پيشگوئي كى گئي تھى اور ان كو خبر دار كيا گيا تھا _

آرام:آرام كے آثار ۶/الله تعالى :الله تعالى كى اجازت كا اثر ۴;اللہ تعالى كے احكام ۱;اللہ تعالى كے انذار۵;اللہ تعالى كے وعدہے ۹/بنى إسرائيل:بنى إسرائيل كا آخرت مؤاخذہ ۷، ۸;بنى إسرائيل كا اخروى حشر ۷ ، ۸;بنى إسرائيل كا اضطراب ۲;بنى إسرائيل كا فساد پيلانا ۹ ; بنى

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336