تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں0%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه  اسلام کی نگاہ میں

مؤلف: غلام مرتضي انصاری
زمرہ جات:

صفحے: 336
مشاہدے: 79250
ڈاؤنلوڈ: 2564

تبصرے:

تقيه اسلام کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79250 / ڈاؤنلوڈ: 2564
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

ہمکنار ہوسکیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ گوشہ نشین افراد اور ڈرپوک اور غیر متعہد اور عافیت آرام طلب افراد کا شیوہ نہیں ہے بلکہ یہ مجاہدین اسلام اور محافظین دین کا شیوہ ہے ۔ پس تقیہ بھی ایک طرح کی جنگ اور جہاد ہے ۔اور یہ تقیہ خود وزارت دفاع اورملکی حفاظت کرنے والوں کی طاقت شمار ہوتا ہے ۔ چنانچه امير المؤمنينعليه‌السلام نے فرمایا:

التقيه من افضل اعمال المؤمن يصون بها نفسه و اخوانه عن الفاجرين ۔(۱)

تقیہ مؤمن کی افضل ترین عبادتوں میں سے ہے ،جس کے ذریعے فاسق اور فاجر طاقتوں کی شر سے وہ اپنی جان اور اپنے دوسرے بھائیوں کی جا ن بچاتا ہے ۔

۶ ۔تقيه مؤمن کی ڈھال ہے

قال الباقر: اي شيئ اقر للعين من التقية؟ ان التقية جنة المؤمن(۲)

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ، ج ۳،باب ۲۸۔

۲۔ وسائل الشيعه ، ج ۲۴ ، باب۲۶۔

۱۶۱

امام باقرعليه‌السلام نے فرمایا: کونسی چیز تقیہ سے زیادہ مؤمن کیلئے سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہے ؟!بے شک تقیہ مؤمن کی ڈھال ہے۔

امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

التقية ترس المؤمن و التقية حرز المؤمن ۔(۱)

بے شک تقیہ مؤمن کیلئے ڈھال اورقلعہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو دشمن کی شر سے بچاتا ہے ۔اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ ایک دفاعی مفہوم رکھتا ہے جسے اپنے دشمن کے مقابلے میں بروئے کار لایا جاتا ہے ۔زرہ کا پہننا اور ڈھال کا ہاتھ میں اٹھانا مجاہدین اور سربازوں کا کام ہے ۔ ورنہ جو میدان جنگ سے بالکل بے خبر ہو اور میدان میں اگر جائے توفرار کرنے والا ہو تو اس کیلئے زرہ پہننے اور ڈھال کے اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟!

____________________

۱۔ وسائل الشيعه ، ج ۶ ، باب۲۴ ۔

۱۶۲

۷ ۔ تقيه پیغمبروں کی سنت

امام صادقعليه‌السلام نےفرمایا:عليك بالتقيه فانها سنت ابراهيم الخليل ۔(۱)

تم پر تقیہ کرنا ضروری ہے کیونکہ تقیہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی سنت ہے ۔ اور ابراہیم وہ مجاہد ہیں جنہوں نے اکیلے ظالم و جابر نمرود کے ساتھ مقابلہ کیا ۔ نہ صرف اس کے ساتھ بلکہ تمام متعصب اور لجوج بت پرستوں کےساتھ مبارزہ کیا ؛ اور ہر ایک کو عقل اور منطق اور اپنی بے نظیر شجاعت کے ساتھ گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ۔ ان کے باوجود حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے کئی مقام پر تقیہ کرکے اپنی جان بچائی ہے ۔ لیکن کیاکوئی ابراہیمعليه‌السلام پر مصلحت اندیشی کا الزام لگا سکتا ہے ؟!ہرگز نہیں۔ اس لئے تقیہ حضرت ابراہیمعليه‌السلام کی سنت کے عنوان سے بھی معروف ہے ۔

____________________

۔ وسائل الشيعه، ج ۶ ، باب۲۴ ۔

۱۶۳

۸ ۔تقيه ،مجاهدوں کا مقام

امام حسن العسكريعليه‌السلام سےمنقول ہے:

مثل مؤمن لا تقية له كمثل جسد لا راس له ۔(۱)

وہ مؤمن جو تقیہ نہیں کرتا وہ اس بدن کی طرح ہے جس پر سر نہ ہو۔اور سر کے بغیر بدن کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی کیونکہ باقی جسمانی تمام تر فعالیت سر سے وابستہ ہے ۔

اور بالکل یہی تعبیر ”صبر و استقامت“ کے بارے میں آئی ہے كه ايمان بھی بغيرصبرو استقامت کے بغیر سرکے بدن کی طرح ہے ۔ان تعبیرات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تقیہ کا فلسفہ وہی صبر و استقامت کا فلسفه ہے اور تقیہ کے ذریعے اپنی طاقت اور اسلحہ کا بندوبست اور ان کی حفاظت کي جاتی ہے ۔

____________________

۱۔ وسائل الشيعه ،ج ۱۶، باب ۲۴۔

۱۶۴

۹ ۔ تقيه ،مسلمانوں کےحقوق کی حفاظت

تقیہ کا مسئلہ اور مسلمان بھائیوں کے حقوق کی ادائیگی دو ایسے فریضے ہیں جنہیں ایک دوسرے کے ساتھ ہی قرار دیا گیا ہے ۔

امام حسن العسكريعليه‌السلام نے فرمایا :

و أعظمُهما فرضانِ : قضاءُ حقوقِ الاخوانِ في اللهِ و استعمالُ التقيهِ من اعداءِ اللهِ ۔(۱)

تمام فرائض میں سے اهم ترین فریضہ دو ہیں:

o اپنے دینی بھائیوں کے حقوق کا ادا کرنا ۔

o اور اللہ کے دشمنوں کے سامنے تقیہ کرنا۔

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ،ج ۱۶، باب ۲۸، ح ۱۔

۱۶۵

اس تعبیر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تقیہ ان دو چیزوں کے درمیان ایک قسم کا رابطہ قائم کرنا ہے ۔ اگر غورکریں تو معلوم ہوگا کہ تقیہ کا مسئلہ دوسرے مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرح ایک اجتماعی مسئلہ ہے ۔

ج ۔ عقل

معمولاً تقيه اقلیتوں سے مخصوص ہے جو اکثریت کے پنجوں میں اسیر ہوجاتے ہیں ایسی صورت میں اگر وہ اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہیں تو اس کے لئے جانی یامالی نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔اور ساتھ ہی اس اقلیت والے گروہ کے ہاں موجود قومی سرمایہ اور طاقت کا ہدر جانے کے علاوہ اسے کچھ نہیں ملتا ۔

کيا عقل نہیں کہتي کہ یہ قومی سرمائے اور طاقت کا اہم ضرورت کے موقعوں کے لئے محفوظ رکھنا ایک عاقلانہ اور اچھا کام ہے ؟ بلکہ عقل کہتی ہے کہ اپنے عقیدے کوچھپا کر ان طاقتوں کو ذخیرہ کیا جائے تاکہ انہیں مناسب فرصت اور مواقع پر بروئے

۱۶۶

کار لایا جاسکے ۔

مثال کےطورپر: کوہستانی علاقوں اور دیہاتوں میں مختلف جگہوں سے پانی کے چھوٹے چھوٹے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں۔ اگر ان کو ایک تالاب میں جمع کریں گے تو اس سے بہت بڑے مزرعے کو سیراب کرسکتے ہیں ، لیکن اگر ان کواسی طرح بہنے دیں تو کھیتوں کو سیراب کئے بغیر پانی ضائع ہو جاتا ہے ۔ اسی لئے زمیندار ان چشموں کے نزدیک تالاب بنا کر پانی کو جمع کرتے ہیں تاکہ بیج بوتے وقت زمین کو سیراب کر سکیں۔ جب کہ اس سے قبل سارا پانی ضائع ہو جاتا تھا ۔ تقیہ بھی اسی طرح ہے کہ جس کے ذریعے اپنی اور اپنی قوم و ملت کے سرمائے اور جان کی حفا ظت کی جائے تاکہ مناسب موقع پر اس سے بھر پور استفادہ کیا جاسکے۔جو ایک عاقلانہ کام ہے۔

۱۔دفع ضرر

عقل بتاتی ہے کہ دفع ضرر واجب ہے ؛ اور تقیہ ایک ایسی تکنیک ہے کہ جس کے ذریعے

۱۶۷

انسان جانی یا مالی ضرر کو اپنے سے اور اپنے دوسرے هم فکر افراد سے دفع کر سکتا ہے ۔اسی لئے فقہاء فرماتے ہیں :

فقد قضي العقل بجواز دفع الضرر بها (بالتقيه) بل بلزومه و اتفق عليها جميع العقلاء: بل هو امر فطري يسوق الانسان اليه قبل كل شيئ عقله و لبه و تدعوه اليه فطرته ۔(۱)

عقل تقیہ کے ذریعے دفع ضرر کو جائز قرار دیتی ہے بلکہ اس کے واجب ہونے پر تمام فقہاء اور عقلاء کا اتفاق ہے ۔اور اس سے بھی بالا تر یہ ایک فطری عمل ہے کہ جو انسان کو اس کی فطرت اور عقل سب سے پہلے تقیہ کے ذریعے اپنی جان اور مال کی حفاظت کرنے پر ابھارتا ہے ۔اور یہ غریزہ ہر انسان اور حیوان میں پایاجاتا ہے ۔

۲ـ مہم پر اہم کا مقدم کرنا

فالعقل السليم يحكم فطريا بانه عند وقوع التزاحم بين الوظيفة الفرديه مع شوكة

____________________

۱ ۔ جعفر سبحاني؛ مع الشيعه الاماميه في عقائدهم، ص ۸۹۔

۱۶۸

الاسلام و عزته و قوته او وقوع التزاحم بين الحفظ النفس و بين الواجب او محرم آخر لابد من سقوط الوظيفة الفرديه و ليست التقيه الا ذالك ۔(۱)

عقل سليم کا فطری حكم ایسا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے فریضے کی انجام دہی کے موقع پر اسلام کی قدرت ، شان وشوکت اور عزت کے ساتھ مزاحم ہوجاتا ہے ۔ یا اپنی جان بچانے کا وقت آتا ہے تو یہ کسی واجب یا حرام کام کا ترک کرنے یا انجام دینے پر مجبور ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں اہم کو انتخاب کرتے ہوئے مہم کو ترک کرنے کا نام تقیہ ہے ۔ اس استدلال سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ :

ان العقل يري ان احكام الدين انما شرعت لسعادة الانسان في حياته الي الابد، فاذا كانت هذه السعادة و ادانت الاكام متوقفة و الاخفاء عن الاعداء في فترة من الزمن فالفعل يستقل بالحكم بحسن التقية لقديما للاهم علي المهم ۔(۲)

____________________

۱۔ صادق ، روحاني؛فقه الصادق ،ج۱۱ ، ص۳۹۳۔

۲۔ محمد علي،صالح المعلم؛ التقيه في فقه اهل البيت،ج۱، ص۶۶۔

۱۶۹

عقل بتاتی ہے کہ احكام دين کو انسان کی ابدی خوش بختی کیلئے تشریع کیا ہے ۔ لیکن اگر یہی خوش بختی اور احکام دین پر عمل کرنا کچھ مدت کیلئے اپنے جانی دشمنوں سے چھپا نے پر مجبور ہو تو عقل، تقیہ کرنے اور اہم کام کو مہم کام پر مقدم کرنے کو ایک اچھا اور مناسب عمل سمجھے گی ۔

اگر ان بیانات کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں :جب بھی انسان یا مکلف دو کاموں کوانجام دینے پر مجبور ہو ؛ لیکن ان دوکاموں میں سے صرف ایک کو فی الحال انجام دے سکتا ہو ۔ اب وہ سوچتا ہے کہ کس کام کو انجام دوں اور کس کام کو چھوڑ دوں؟! اگر وہ عاقل اور سمجھدار ہو تو وہ جس میں مصلحت زیادہ ہوگی اسے انجام دے گا اور جس کام میں مصلحت کم ہوگی اسے ترک کرے گا اسی کا نام تقیہ ہے ۔

د : فطرت

اگر صحیح معنوں میں فکر کریں تو معلوم ہوگا کہ تقیہ سراسر عالم حيات کے قانون

۱۷۰

کی اساس اور بنیاد ہے ۔اور تمام زندہ مخلوقات اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان بچانے کی خاطراس اصول سے استفادہ کرتی ہیں ۔جیسے بحری حیوانات جب احساس خطر کرتے ہیں تو وہ اپنی جان بچانے کی خاطر اپنے جسم پر موجودخاص تھیلیوں سے استفادہ کرتے ہیں کہ جس میں ایک کالے رنگ کا ایک غلیظ مادہ ہوتا ہے جسے وہ اپنے اطراف میں پھیلادیتے ہیں جیسے آنسو گیس استعمال کرکے اس جگہ سے دور ہو جاتے ہیں ۔

اسی طرح بہت سے حشرات ہیں جو اپنے جسم کو پروں اور بالوں کے ذریعے اس طرح چھپاتے ہیں کہ بالکل اس شاخ کے رنگ و روپ میں بدل جا تے ہیں اور جب تک غور نہ کریں نظر نہیں آتے ۔ بعض جاندار ایسے ہیں جو مختلف موقعوں پر اپنا رنگ بھی اسی محیط کے رنگ و روپ میں تبدیل کرتے رہتے ہیں ، اور اس حيران کن دفاعی سسٹم کے ذریعے جانی دشمن کی نظروں سے اوجھل ہو جاتےہیں، تاکہ اپنی جان بچا سکیں ۔

۱۷۱

بعض حیوانات ایسے بھی ہیں جو خطرے کی صورت میں اپنے جسم کو بالکل بے حس و حرکت بناتے ہیں تاکہ دشمن کو دھوکه دے سکیں ۔

خلاصہ کلام یہ ہے جو بھی تقیہ کے مسئلہ کو شیعوں کا مسئلہ قراردیتے ہوئے اعتراضات کرتے ہیں ، حقیقت ميں وہ تقیہ کے مفہوم اور معنی سے واقف نہیں ہیں، یا واقف تو ہیں لیکن شیعوں کو دیگر مکاتب فکر یا سادہ لوح عوام کی نگاہوں میں گرانے کی خاطر اس فطری اور عقلانی اصول یا سسٹم سے انکار کرتے ہیں ۔

ان مطالب سے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ کا سسٹم تمام مکاتب فکر میں کم و بیش پایا جاتا ہے ۔لیکن یہ یاد رکھیں کہ ہمیشہ نیک اور صالح افراد جو کہ تعداد کے لحاظ سے تھوڑے ہیں ، ان جنایت کار اور ظالم افراد جو کہ تعداد کے لحاظ سے زیادہ ہیں ، سے تقیہ کرتے آئے ہیں ؛ تاکہ اس تکنیک یا سسٹم کے ذریعے اپنی جان ، مال عزت ، آبرو اور ناموس ، کی حفاظت کرسکیں ۔(۱)

____________________

۱ ۔ مكارم شيرازي؛ تقيه سپري عميقتر ، ص۲۲۔

۱۷۲

ه : اجماع

جنگي نقشے بھی ہمیشہ مخفیانہ طور پر بنائے جاتے ہیں جنگجو افراد ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ خود کو دشمن کی نظروں سے چھپائے رکھتے ہیں ،اور اپناجنگی سامان اور اسلحے کو میدان جنگ کے گوشہ و کنارميں درخت کے پتوں یا کیچڑوں اور مٹی مل کر چھپا تے هیں ، اسی طرح فوجیوں کی وردیاں بھی کچھ اسطرح سے پہنائی جاتی ہیں کہ میدان جنگ میں آسانی کے ساتھ دشمنوں کی نظروں میں نہ آئیں ۔یا کبھی جنگجو افراد مصنوعی دھواں چھوڑکر دشمن کوغافل گیر کرتے ہیں ۔یا رات کی تاریکی میں ايک جگه سے دوسري جگه نقل مکاني کرتے ہیں ۔

اسی طرح جاسوس اور اطلاعات والے جب دشمن کے علاقوں میں جاتے ہیں تو وہ اس علاقے کے لوگوں کے لباس اور ماحول اور فرہنگ میں اپنے آپ کو ضم کرتے ہیں ۔ اگر غور کریں تو یہ سب امور تقیہ کے مختلف شکلیں ہیں ۔جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے دشمن

۱۷۳

پر فتح و کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔(۱)

اداری اور دفتری کاموں میں خواہ وہ سیاسی امور ہو یا اقتصادی یا معاشرتی ، مختلف مقاصد کے حصول کیلئے رموز کا استعمال کرنا ، یہ سب اس سسٹم کی مختلف شکلیں ہیں ،جسے کوئی بھی عاقل انسان رد نہیں کرسکتا ۔ بلکہ سب ان کی تائید کریں گے ۔ اگر ایسی صورت میں جبکہ دشمن اس کے مقابل میں ہو اور وہ اپنی شجاعت دکھاتے ہوئے آشکار طور پر دشمن کے تیروتلواروں یا گولیوں کے زد میں نکلے تو اس کی عقل پر شک کرنا چاہئے۔

یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ تقیہ ہر مکتب فکر والوں میں موجود ہے جس کے ذریعے ہی قومی سرمایہ اور عوام کی جان اور مال اور ملکی سالمیت کی حفاظت ممکن ہے ۔

____________________

۱ ۔ مكارم شيرازي؛ تقيه سپري عميقتر ، ص ۱۸۔

۱۷۴

پانچویں فصل

وجوب و تحریم تقيه کے موارد اوران کا فلسفه

۱۷۵

پانچویں فصل :

وجوب وتحریم تقيه کے موارد اوران کا فلسفه

وہ موارد جہاں تقیہ کرنا واجب ہے

وجوب تقیہ کے موارد اور ان کے اہداف کو باہم تحقیق کریں گے ۔ کیونکہ یہ دونوں (وجوب و هدف)ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔ اگر تقیہ کے اصلی موارد کوبیان کریں تو ہدف اصلی بھی خود بخود واضح ہوجاتا ہے ۔بطور خلاصہ تقیہ کو کئی اہداف کی خاطر واجب جانا گیا ہے :

۱۷۶

۱۔ طاقت کی محافظت کرنا

کبھی انسان کیلئے ایسا موقع پیش آتا ہے کہ جہاں اپنا عقیدہ اگر عیاں اور آشکار کرے تو بغیر کسی فائدے یااپنے اہداف سے قریب ہونے کی بجائے اس شخص یا اور کئی افراد کی جان نابود یا ناقابل تلافی نقصان کا شکار ہو سکتی ہے ۔ایسے مواقع پر عقل اور منطق حکم دیتی ہیں کہ احساسات میں بے دلیل گرفتار ہوکر اپنی طاقت کو ضائع کرنے سے باز آئیں ۔بلکہ آئندہ کیلئے ذخیرہ کریں ؛ تاکہ قدرت و طاقت اس قدر زیادہ ہوجائے جس کے ذریعے اپنا عظیم ہدف تک رسائی ہوسکے ۔کیونکہ کسی بھی شخص میں اتنی وافر مقدار میں قدرت یا طاقت نہیں ہے کہ جنہیں کھلے دل و دماغ سے ہاتھ سے جانے دیں ۔

کبھی ایک لائق اور مفید شخص کی تربیت کیلئے کئی سا ل ایک معاشرے کو زحمت اٹھانی پڑتی ہے اور وہ اپنی طاقت کو خرچ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ تویہ کیسے ممکن هے که اپني ذمه داري کا احساس نہ کریں ؟!

۱۷۷

مخصوصا ًایسے معاشرے میں جہاں اچھے اور نیک انسانوںمیں افرادي قوت اور طاقت بہت کم ہو ؟

یہی وجہ تھی کہ اسلام کے شروع میں پیغمبر نے تقریباً تین سال اپنا عقیدہ سواے ایک خاص گروہ کے دوسرے لوگوں سے چھپا ئےرکھا ۔ آہستہ آہستہ مسلمانوں میں افرادی قوت میں اضافہ ہوتا گیا ، یہاں تک کہ تقیہ کی بندش تین سال بعد ٹوٹنے لگی اور آپ اسلام کی طرف علی ٰ الاعلان لوگوں کو دعوت دینے لگے ۔لیکن پھر بھی آپ کے اوپر ایمان لانے والوں کی تعداد کم تھی جوکہ دشمنوں کے ہاتھوں اسیر ہوجاتے اور قسم قسم کی اذیتیں اور آزار برداشت کرنا پڑتیں ۔اور ایک معمولی بات پر مسلمان قتل کردئے جاتے تھے ۔ تو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسے افراد کو تقیہ کرنے کی اجازت دیتے تھے ۔تاکہ اپنی دفاعی طاقت اور قوت کو اس نومولود مکتب کی حفاظت کی خاطر محفوظ کرلیں اور بیہودہ اور بے ہدف اوربے دلیل اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔

۱۷۸

۲۔ پروگرام کو چھپانا

چونکہ تقیہ زیادہ تر نیک اور صالح افراد جو تعداد کے لحاظ سے کم ہیں ، ان سے مربوط ہے تاکہ وہ اس ظالم اور جابر گروہ کے شر سے اپنے دین یا جان یا ناموس کو بچائیں ۔یہ بھی معلوم ہے کہ اقلیت اپنی زندگی کو جاری رکھنے اور عالی ہدف تک جانے کیلئے تقیہ کے طور و طریقے سے استفادہ کرنے پر مجبور ہیں ۔ ورنہ اگر اکثریت کے سامنے اپنا عقیدہ برملا کرے تو وہ لوگ مزاحمت کرنے لگیں گے ۔اس لئے مجبور ہیں کہ اپنے عقائد ، پروگرام اور دیگر کاموں کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے تقیہ کرلیں ۔اس قسم کا تقیہ ظہور اسلام کے وقت بہت زیادہ پایا جاتا تھا ۔

هجرت پیغمبر کانقشہ كه جو انقلاب اسلامی کی تکمیل اور کامیابی کا پہلا قدم تھا ،آپ کا مخفیانہ طور پر نکلنا اور امير المؤمنينعليه‌السلام کا بستر پیغمبرگرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جا کر آرام کرنا اور آنحضرت کا رات کی تاریکی میں غار حرا کی طرف حرکت کرنا اور اس غار میں کئی دن تک ٹھہرنے کے بعد مدینہ کی طرف مخالف سمت میں چلنا ،وغیرہ اسی تقیہ کی قسموں

۱۷۹

میں سے ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ان موقعوں پر تقیہ کرنا واجب ہے یا نہیں؟!

کیا اگر پیغمبراور مسلمان اپنا عقيده اور فكر کو دشمن سے نہیں چھپاتے تو کیا کامیابی ممکن تھی؟!

کیا ایسے موارد میں تقیہ کرنا ہی اپنی کامیابی اور دشمن کی نابودی کا سبب نہیں ہے ؟

اسی طرح اللہ کے خلیل حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے جو تقیہ کیا تھا ،عرض کر چکا ، جو اگر اپنا عقیدہ نہ چھپاتے اور توریہ نہ کرتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ لوگ انہیں اکیلا شہر میں رکنے دیتے ؟ ہرگز نہیں۔اس صورت میں آپ کو بت خانے کی طرف جانے کی فرصت بھی کہاں ملتی؟!لیکن آپ نے جو اپنا عقیدہ چھپایا اور جو نقشہ آپ نے تیار کیا ہوا تھا اسے اپنی انتہا کو پہنچانے کیلئے تقیہ ہی سے کام لیا۔اور یہی آپ کی کامیابی کا راز بنا۔

ان تمام روايتوں میں تقيه کو ايك دفاعي سپر یا ڈھال «جنّة المؤمن، ترس

۱۸۰