تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں11%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86639 / ڈاؤنلوڈ: 3136
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

المؤمن،حرز المؤمن » کہا گیا ہے جس کے ذریعےاپنی جان اور دوسروں کی جان بچائی جاتی ہے۔

۳ ـ دوسروں کی حفاظت کرنا

کبھی اپنے عقیدے کا اظہار کرنا اپنے اثر رسوخ کی وجہ سے اپنی ذات کیلئے تو کوئی ضرر یا ٹھیس پہنچنے کا باعث نہیں بنتا، لیکن ممکن ہے یہی دوسروں کیلئے درد سر بنے ۔ ایسی صورت میں بھی عقیدہ کا اظہار کرنا صحیح نہیں ہے ۔

اهل بيت اطہار کے بعض اصحاب اور انصار کی حالات زندگی میں ایسے موارد دیکھنے میں آتےہیں کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم و جابر حکمرانوں کی طرفسے لوگ ان کا پیچھا کررہے تھے ، ان کا اپنے اماموں سے ملنا جابر حکمرانوں کا ان کی جانی دشمنی کا باعث بنتا تھا۔ان میں سے کچھ موارد یہ ہیں :

۱۸۱

ایک دن زرارہؓ نے جو امام باقراور امام صادقعليه‌السلام کے خاص صحابیوں میں سے تھے ؛ امام جمعہ کو امام کی طرف سے ایک خط پہنچایا ، جس میں امام نے جو لکھا تھا اس کا مفہوم یہ تھا : میری مثال حضرت خضرعليه‌السلام کی سی ہے اور تیری مثال اس کشتی کی سی ہے جسے حضرت خضرعليه‌السلام نے سوراخ کیا تاکہ دشمن کے شرسے محفوظ رہے ۔اور تیرے سر پر ایک ظالم اور جابر بادشاہ کھڑا ہے ، جو کشتیوں کو غصب کرنے پر تلا ہوا ہے ، جس طرح حضرت خضرعليه‌السلام نے اس کشتی کو سوراخ کیا تاکہ غاصب اس کو نہ لے جائے، اسی طرح میں بھی تمہیں محفلوں میں کبھی کبھی ڈراتااور مذمت کرتا رہوں گا ، تاکہ تو فرعون زمان کے شر سے محفوظ رہے ۔

تقيه کے حدود کو سرکرنے والوں کےسردار امام حسينعليه‌السلام فرماتے ہیں :

انّ التقية يصلح اﷲ بها امّة لصاحبها مثل ثواب اعمالهم فان تركها اهلك امّة تاركها شريك من اهلكهم ۔(۱)

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه، ج۴ ،باب ۲۷ ۔

۱۸۲

ایسا تقيه کرنے والاجوامت کی اصلاح کا سبب بنے تواسے پوری قوم کے اچھے اعمال کا ثواب دیا جائے گا ۔ کیونکہ اس قوم کی طاقت اور قوت کو زیادہ خدمت کرنے کیلئے اس نے محفوظ کیا ۔ لیکن اگرایسے موارد میں تقیہ کو ترک کرے اور ایک امت کو خطرے میں ڈالے تو ظالموں کے جرم میں یہ بھی برابر کا شریک ہوگا۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے موارد میں تقیہ کا تر ک کرنے والا قاتلوں کے جرم میں برابر کا شریک بنتا ہے۔(۱)

وہ روایات جو وجوب تقيه پردلالت کرتی ہیں

۱ ـ راوی امام صادقعليه‌السلام سے نقل کرتا ہے کہ آپ نے اس آیہ شریفہ« اوليك يؤتون اجرهم مرّتين بما صبروا »" وہ لوگ جنہیں ان کے صبر کے بدلے دو مرتبہ ثواب دیا جائے گا " کے ذیل میں فرمایا:

____________________

۱ ۔ تقيه سپري عميقتر، ص ۸۲۔

۱۸۳

بما صبروا علي التقية و يدرؤن بالحسنة السيّئة، قال : الحسنة التقية و السيّئة الاذاعة ۔(۱)

تقیہ پر صبر کرنے پر دوگنا ثواب دیا جائے گا اور یہ لوگ حسنات کے ذریعے اور سیئات کو دور کرتے ہیں اور حسنہ سے مراد تقیہ ہے اور سیئات سے مراد آشکار کرنا ہے ۔

۲ ۔ حسن كوفي نے ابن ابي يعفورسے اور اس نے امام صادقعليه‌السلام سے روایت کی ہے کہ امام ؑ نے فرمایا:

قال اتقوا علي دينكم احجبوه بالتقيه فانّه لا ايمان لمن لا تقية له انّما انتم في الناس كالنحل في الطير ولو انّ الطير يعلم ما في اجواف النحل ما بقي منها شيء الّا اكلته ولو ان الناس علموا ما في اجوافكم انّكم تحبونا اهل البيت عليهم‌السلام لاكلو كم بالسنتهم و لنحلوكم في السرّ والعلانية رحم الله عبدا منكم كان علي ولايتنا ۔(۲)

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ، باب امر بالمعروف، ص۴۶۰ ۔

۲ ۔ وسائل الشيعه ، باب امر بالمعروف ، ص ۴۶۱۔

۱۸۴

امامعليه‌السلام نے فرمایا: اپنے دین اور مذہب کے بارے میں هوشيار رہو اور تقیہ کے ذریعے اپنے دین اور عقیدے کو چھپاؤ ، کیونکہ جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئي ایمان نہیں ۔ اور تم لوگوں کے درمیان ایسے ہو جیسے پرندوں کے درمیان شہد کی مکھی ۔ اگر پرندوں کو یہ معلوم ہو کہ شہد کی مکھی کے پیٹ میں میٹھا شہد ہے تو کبھی شہد کی مکھی کو زندہ نہیں چھوڑتے ۔اسی طرح اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ تمہارے دلوں میں ہم اہل بیت کی محبت موجود ہے ، تو زخم زبان کے ذریعے تمہیں کھا جائیں گے ۔اور تم پر مخفی اور علانیہ طور پر لعن طعن کریں گے ۔خدا ان لوگوں پر اپنی رحمت نازل کرے جو ہماری ولایت کے پیروکار ہیں ۔

۳ ۔عن ابي جعفر عليه‌السلام : يقول لاخير فيمن لا تقية له، ولقد قال يوسف عليه‌السلام : ايّتها العير انّكم لسارقون و ما اسرقوا لقد قال ابراهيم عليه‌السلام : انّي سقيم و اﷲ ما كان سقيما ۔(۱)

امام باقرعليه‌السلام نے فرمایا : جس میں تقیہ نہیں اس میں کوئی خیر نہیں ۔ بہ تحقیق حضرت یوسفعليه‌السلام

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ، باب امر بالمعروف ، ص ۴۶۴۔

۱۸۵

نے فرمایا: ايّتها العير! بیشک تم لوگ چور ہو ۔ جبکه انہوں نے کوئی چیز چوری نہیں کی تھی ۔ اور حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے فرمایا میں بیمار ہوں۔خدا کی قسم !حالانکہ آپ بیمار نہیں تھے ۔

کیابطورتقیہ انجام دئے گئے اعمال کی قضا ہے؟

ہمارے مجتہدین سے جب سوال هوا : هل يجب الاعاده و القضاء في مقام التقيه أم تقول بالاجزاء؟ کيا تقيه کے طور پر انجام دئے گئے اعمال کا اعاده يا قضا کرناواجب هے يا نهيں ؟مجتہدین اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ علم فقہ کی دو قسم ہے :

الف: عبادات

ب: معاملات

عبادات سے مراد یہ ہے کہ ان کا انجام دینا تعبدی ہے کہ جن میں قصد قربت شرط ہے جیسے نماز ، روزہ اورحج وغیرہ۔ جب عبادت ایک زمانے سے مختص ہو جیسے نماز ظہر و عصر جو مقید ہے زوال شمس اور غروب شمس کے درمیان ادا کی جائے ، ورنه قضا ہوجائے گی۔

۱۸۶

پس خود عبادت کی دو قسمیں ہیں: ( ادائيه و قضائيه)

اگر عبادات ناقص شرائط يا اجزاء کے سا تھ ہوں تو وقت کے اندر ان کا اعادہ اور وقت کے بعدقضاء واجب ہے ۔

اب جو فعل تقیہ کے طور پر انجام پایا ہو وہ اگر عبادت ہے تواعادہ لازم نہیں ہے کیونکہ تقیہ میں ادا اور قضاء کی بحث ہی نہیں ہے ۔

شيخ مرتضیٰ انصاري اس سؤال کے جواب میں کہ کیا اعاده يا قضاء واجب ہے ؟ فرماتے ہیں اگر شارع اقدس نے واجب موسع کےتقیہ کے طور پر انجام دینے کی اجازت دی ہے ، تویہ اجازت یا کسی خاص مورد میں ہے یا عام موارد میں ۔ بعنوان مثال شارع اقدس نے اجازت دی ہے کہ نماز یا مطلق عبادات تقیہ کے طور پر انجام دی جائیں ، وقت ختم ہونے سے پہلے تقیہ کی علل و اسباب دور ہوجائیں تو یہ سزاوار ہیں کہ وہ اجزاء جو تقیہ کی وجہ سے ساقط ہوئے تھے انجام دیے جائیں لیکن اگر شارع نے واجب موسع کو تقیہ کی حالت

۱۸۷

میں انجام دینے کی اجازت دی ہے خواہ خصوصی ہو یا عمومی ، تو بحث اسی میں ہے کہ کیا یہ تقیہ والا حکم کو بھی شامل کرے گا یا نہیں ؟

بلكه آخر کلام یہ ہے کہ حالت تقیہ میں دیا گیا حکم مکلف سے ساقط ہو جاتا ہے ، اگرچہ وقت وسیع ہی کیوں نہ ہو۔(۱)

اس کے بعد شيخ انصاري تفصيل کے قائل ہوگئے ہیں :اگر یہ شرائط اور اجزاءکا شمول عبادات میں کسي بھي صورت ميں ضروري ہے خواہ اختیاری ہو یا اضطراری ، تو یہاں مولا کا حکم مکلف سےساقط ہو جاتا ہے کیونکہ اجزاء میں کمی بیشی تقیہ کی وجہ سے ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ معذور تھا ۔اگر چہ یہ عذر تمام وقت میں باقی رہے ۔ جیسے نماز کا اپنے وقت میں ادا کرنا ممکن نہیں مگر یہ کہ سرکہ کے ساتھ وضو کرے ۔باوجودیکہ سرکہ میں کوئی تقیہ نہیں ۔درنتیجہ نماز کا اصل حکم منتفی ہوجاتا ہے ، کیونکہ نماز کیلئے شرط

____________________

۱۔ التقيه في رحاب العلمين ، ص ۲۷۔

۱۸۸

ہے کہ پانی کے ساتھ وضو کرے ۔

لیکن اگر یہ اجزاءاورشرائط دخالت رکھتا ہو اور مکلف کیلئے ممکن بھی ہو تو واجب ہے ورنہ نہیں ۔

اگر یہ اجزاء تمام وقت میں ادا ہوں تو ان کا حکم پہلے ہی سے ساقط نہیں ہوتا بلکہ وہ اسے جتنا ممکن ہو انجام دیں ۔

اور اگراجزاء میں عذروقت کے اندر ہو ،خواہ اس عذر کا رفع ہونے کی امید ہو یا نہ ہو ، فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ وہ آخر وقت تک انتظار کرے یا انجام دیدے ۔

لہذا جو بھی عبادات تقیہ کے طور پر ادا کی گئی ہیں وہ عبادات صحیح ہیں کیونکہ شارع نے انہیں تقیہ کی حالت میں انجام دینے کی اجازت دی ہے ۔(۱)

____________________

۱۔ التقيه في رحاب العلمين ، ص ۲۸۔

۱۸۹

کیا خلاف تقيه کا عمل باطل ہے ؟

اگرکوئی مولا کے حکم کی مخالفت کرے اور اس کا عمل حکم شرعی کے مطابق نہ ہو تو وہ باطل ہوجاتا ہے ۔اور اگر کسی پر تقیہ کرنا واجب ہوگیا تھا لیکن اس نے تقیہ نہیں کیا تو کیا اس کا عمل بھي باطل ہوجائے گا یا نہیں ؟

شيخ انصاري فرماتے هيں : اگر تقیہ کی مخالفت کرے جہاں تقیہ کرنا واجب ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ بعض ترک شدہ عمل اس میں انجام پائے ۔ تو حق یہ ہے کہ خود تقیہ کا ترک کرنا عقاب کا موجب ہو گا ۔ کیونکہ مولا کے حکم کی تعمیل نہ کرنا گناہ ہے ۔

پس قاعدہ کا تقاضا یہ ہے کہ یہ فعل بھی باطل ہوگا ۔ بالفاظ دیگر ہم ادلہ کے تابع ہیں اور موارد تقیہ میں ہیں ۔ اس کے بعد شیخ ایک توہّم ایجاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شارع اقدس نے تقیہ کی صورت میں اسی فعل کا انجام دینے کا حکم دیا ہے ۔

۱۹۰

لیکن یہ توہّم صحیح نہیں ہے کیونکہ تقیہ کے ساتھ قید ایک بيروني قید ہے جس کا کوئی اعتبارنہیں ہے ۔اور نہ هي شرعی قید بطلان کا موجب ہے ۔(۱)

امام خميني اس عنوان «ان ترك التقية هل يفسد العمل ام لا؟» کے تحت فرماتے ہیں کہ اگر تقيه کے برخلاف عمل کریں تو صحيح ہے ، کیونکہ تقیہ کا حکم ہونا موجب نہیں بنتا کہ عمل سے بھی روکےجیسا کہ علم اصول کا مسلم قاعدہ ہے:

انّ الامر بالشيئ لا يقتضي النهي عن ضدّه ۔

امام خميني کے مطابق یہ ہے کہ چونکہ ایک عنوان سے روکا گيا هے اور دوسرے عناوین میں بطور مطلق تقیہ کے خلاف عمل کرنا صحیح ہے ۔(۲)

____________________

۱۔ التقيه في رحاب العلمين ، ص ۲۴۔

۲۔ التقيه في رحاب العلمين،ص۲۵۔

۱۹۱

وہ موارد جہاں تقيه کرنا حرام ہے

تقیہ عموما ً دو گروہ کے درمیان مورد بحث قرار پاتا ہے اور یہ دونوں کسی نہ کسی طرح صحیح راستے سے ہٹ چکے هوتے ہیں ۔اور اپنے لئے اور دوسروں کے لئے درد سر بنے هوتے ہیں:

پہلا گروه :

وہ مؤمنین جو ترسو اور ڈرپوک ہیں اور وه لوگ کوئی معلومات نہیں رکھتے، دوسرے لفظوں میں انہیں مصلحت اندیشی والے کہتے ہیں کہ جہاں بھی اظہار حق کو ذاتی مفاد اور منافع کے خلاف دیکھتے ہیں یا حق بات کا اظہار کرنے کی جرٲت نہیں ہوتي، تو فوراً تقیہ کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

التقية ديني و دين آبائي لا دين لمن لاتقية له ۔

تقیہ میرا اور میرے آباء و اجداد کا دین ہے ، جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں ہے ۔اس طرح دین اور مذہب کا حقیقی چہرہ مسخ کرتے ہیں ۔

دوسرا گروہ:

نادان یا دانا دشمن ہے جو اپنے مفاد کی خاطر اس قرآنی دستور یعنی تقیہ

۱۹۲

کےمفہوم کو مسخ کرکے بطور کلی آئین اسلام یا مذہب حقہ کو بدنام کرنے کی کوشش ميں لگا رهتا ہے ۔يه لوگ تقيه کے مفہوم میں تحریف کرکے جھوٹ ،ترس،خوف ، ضعیف ، مسئولیت سے دوری اختیار کرنا، ۔۔۔کا معنی کرتے ہیں ۔ سرانجام اس کا یہ ہے کہ و ہ اپني ذمه داري کو نبھانے سے دوري اختیار کرتے ہیں ،

ان دونوں گروہ کي غلطي دور کرنے کیلئے کافی ہے کہ دو موضوع کی طرف توجہ کریں ۔

۱۔ تقيه کامفهوم

مفهوم تقيه کے بارے میں پہلے بحث کرچکے ہیں ، کہ تقیہ کامعنی خاص مذہبی عقیدہ کا چھپانا اور کتمان کرنا ہے ۔ اور وسیع تر مفہوم یہ ہے کہ ہر قسم کے عقیدے ، فکر ، نقشہ، یا پروگرام کااظهار نه کرنا ،تقیہ کہلاتا ہے ۔

۲۔ تقيه کاحكم

ہمارے فقهاء اور مجتہدین نے اسلامی مدارک اور منابع سے استفاده کرتے ہوئے تقیہ کو تین دستوں میں تقسیم کیا ہے : ۱ ـ حرام تقيه ۲ ـ واجب تقيه ۳ جائز تقيه۔

۱۹۳

اور کبھی اسے پانچ قسموں میں تقسیم کرتے ہیں : مکروہ اور مباح کو بھی شامل کرتے ہیں ۔لہذا یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ تقیہ نہ ہر جگہ واجب ہے اور نہ ہرجگہ حرام یا مکروہ ، بلکہ بعض جگہوں پر واجب ،و مستحب اور بعض جگہوں پر حرام یا مکروہ هے۔اسي لئے اگر کسی نے حرام مورد میں تقیہ کیا تو گویا اس نے گناہ کیا ۔

كلي طورپر جب بھی تقیہ کر کے محفوظ کئے جانے والا ہدف کے علاوہ کوئی اور ہدف جو زیادہ مہمتر ہو ، خطرے میں پڑ جائے تو اس وقت تقیہ کا دائرہ توڑنا واجب ہے ، چوں کہ تقیہ کا صحیح مفہوم ؛ قانون اہم اور مہم کے شاخوں میں سے ایک شاخ ہے جب یہ دونوں ہدف آپس میں ٹکرا جائیں تو اہم کو لیتے ہیں اور مہم کو اس پر فدا کيا جاتا ہے۔

یہی اهم اور مهم کا قانون کبھی تقيه کو واجب قرار دیتا ہے اور کبھی حرام۔ روایات کي روشني میں بعض موارد ميں تقیہ کرنا حرام ہے ،اور وہ درج ذیل ہیں:

۱۹۴

۱۔ جہاں حق خطر ے میں پڑ جائے

جہاں اپنے عقیدے کو چھپانا مفاسد کا پرچار اور کفر اور بے ایمانی یا ظلم وجور میں اضافہ اور اسلامی ستونوں میں تزلزل اور لوگوں کا گمراہی اور شعائریا احکام اسلامی کا پامال ہونے کا سبب بنے تو وہاں تقیہ کرنا حرام ہے ۔ لہذا ایسے مواقع پر اگر ہم کہیں کہ تقیہ مباح ہے تو یہ بھی بہت بڑی غلطی ہوگی ۔ اور اس قسم کا تقيه « ويران گر تقيه » کہلائے گا ۔پس وہ تقیہ مجاز یا واجب ہے جو مثبت اورمفيد ہو اور اہداف کے حصول کی راہ میں رکاوٹ کا سبب نہ بنتا ہو۔

۲۔جہاں خون خرابہ کا باعث ہو

جہاں خون ریزی ہو اور بے گناہ لوگوں کی جان مال کو خطرہ ہو تو وہاں تقیہ کرنا حرام ہے ۔ جیسا کہ اگر کوئی مجھ سے کہہ دے کہ اگر فلاں کو تم قتل نہ کرو تو میں تجھے قتل کردوں گا۔ تو اس صورت میں مجھے حق نہیں پہنچتا کہ میں اس شخص کو قتل کروں ۔ اگرچہ مجھے یقین ہوجائے کہ میری جان خطرے میں ہے ۔

۱۹۵

ایسی صورت میں اگر کوئی کہہ دے کہ ہمارے پاس روایت ہےکہ (المأمور معذور )۔ لہذا اگر میں فلاں کو قتل کروں تو کوئی گناہ نہیں ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معروف جملہ «المامور معذور » سند کے لحاظ سے ضعیف ہے کیونکہ اس کی اصلی سند « شمر» تک پہنچتی ہے ۔(۱) اسے کوئی عاقل اور شعور رکھنے والا قبول نہیں کرسکتا۔کیونکہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنی جان بچانے کی خاطر کسی دوسرے بے گناہ کی جان لے لے ۔ اور اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ قاتل ہوگا ۔ چنانچه امام محمد باقرعليه‌السلام فرماتے ہیں :

انّما جعل التقية ليحقن بها الدم فاذا بلغ الدم فليس التقية ۔(۲)

تقيه شریعت میں اس لئے جائز قرار دیا ہے کہ قومی اور انفرادی قدرت ضائع نہ ہو ، اپنے اور دوسروں کے خون محفوظ رہیں ۔ اور اگر خون ریزی شروع ہوجائے تو تقیه جائز نہیں ہے ۔

____________________

۱۔ مكارم شيرازي؛ تقيه مبارزه عميقتر،ص ۷۱۔

۲ ۔ شيخ اعظم انصاري؛ مكاسب، ج ۲، ص ۹۸۔

۱۹۶

۳۔ جہاں واضح دليل موجود ہو

وہ موارد جہاں واضح طور پرعقلی اور منطقی دلائل موجود ہوں،جیسے اسلام میں شراب نوشی کی ممانعت هے يهاں تقيه کرکے شراب پينے کي اجازت نهيں هے ۔اور تقیہ حرام ہے یہاں عقیدہ چھپانے کی بجائے عقلی اور منطقی دلائل سے استدلال کریں ۔اور ایسا حال پیدا کریں کہ مد مقابل کو یقین ہوجائے کہ یہ حکم قطعی ہےاور اس کا اجراء کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔لیکن کبھی بعض ڈرپوک اور بزدل لوگ جب شرابیوں کے محفلوں میں پہنچ جاتے ہیں تو وہ بجائے اعتراض کرنے کے ، ان کے ساتھ ہم پیالہ ہو جاتے ہیں ۔ یا اگر نہیں پیتے تو کہتے ہیں کہ شراب میرے مزاج کیلئے مناسب نہیں ہے ۔لیکن یہ دونوں صورتوں میں مجرم اور خطاکارہے۔یا صراحت کے ساتھ کهه ديں کہ ہم مسلمان ہیں اس لئے شراب نہیں پیتے ۔

اسی طرح اجتماعی ، معاشرتی اور سیاسی وظيفے کی انجام دہی کے موقع پر بھی دو ٹوک جواب دینا چاہئیں ۔

۱۹۷

۴۔ جہاں احکام شریعت بہت زیادہ اہم ہو

بعض واجبات اور محرمات جو شارع اور متشرعین کے نزدیک زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ، وہاں تقیہ جائز نہیں ہے ۔جیسے اگر کوئی خانہ کعبہ کی بے حرمتی یا انہدام کرنے کی کوشش کرے یا اسی طرح اور دینی مراکز جیسے مسجد ، آئمہ کی قبور کی بے حرمتی کرے تو وہاں خاموش رہنا جرم ہے ، اسی طرح گناہان کبیرہ کے ارتکاب پر مجبور کرے تو بھی انکار کرنا چاہئے ۔ایسے موارد میں تقیہ ہرگز جائز نہیں ہے۔

۱۹۸

چھٹی فصل

تقیہ کے بارے میں شبہات اور ان کا مدلّل جواب

۱۹۹

چھٹی فصل:

تقيه کے بارے میں شبہات اور ان کا مدلّل جواب

آئمہ طاہرین کے زمانے میں دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں کی طرف سے شیعوں پر مختلف قسم کے شکوک و شبہات پیدا کرنے لگے؛ ان میں سے ایک تقیہ ہے ۔

۲۰۰

سب سے پہلا اشکال اور شبہہ پیدا کرنے والا سلیمان بن جریر ابدی ہے جو فرقہ جریرہ کا رہبر ہے ۔ وہ امام صادقعليه‌السلام کا ہم عصر ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ شیعوں کے امام جب کسی خطا کے مرتکب ہوتے تھے تو تقیہ کو راہ فرار کے طور پر بیان کرتے تھے ۔ اور کہتے تھے کہ یہ تقیہ کے طور پر انجام دیا گیا ہے ۔(۱)

یہی اشکال، اس کے بعد مختلف کلامی اور تفسیری کتابوں میں اہل سنت کی جانب سے کرنے لگے ۔ بعد میں شیعہ بڑے عالم دین سيد شريف مرتضي معروف به علم الهدي ( ۳۵۵ ـ ۴۳۶) ق نے ان شبہات اور اشکالات کا جواب دیا ہے۔(۲)

____________________

۱ ۔ نوبختي، فرق الشيعه ، ص۸۵۔

۲ ۔ شيخ انصاري، رسائل ، ج۱،ص ۲۹۰، ۳۱۰۔

۲۰۱

فخر رازي( ۵۴۴ ـ ۶۰۶ ه ) صاحب تفسير كبيرنے « مفاتيح الغيب»میں سليمان ابن جرير کے تقیہ کے بارے میں اس شبہہ کوتكرار کیا ہے، جس کا جواب خواجه نصير الدين طوسي ( ۵۷۹ ـ ۶۵۲ ق) نےدیا ہے ۔(۱)

سب سے زیادہ شبهات گذشتہ دور میں تقي الدين احمد معروف ابن تيميه ( ۶۶۱ ـ ۷۲۸ ق) کی کتاب منهاج السنّه ، میں دیکھنے میں آتا ہے جو مجموعاً پانچ اشکالات پر مشتمل ہے ۔(۲)

____________________

۱۔ المحصل ، ص ۱۸۲۔

۲ ۔ ابن تيميه ؛ منهاج السنّه النبويه، ج ۱،ص۱۵۹۔

۲۰۲

ابن تیمیہ کے اشکالات کی تفصیل

ابن تیمیہ کے وہ شبهات (جوتقیہ سے مربوط ہیں) کو تین حصوں میں تقسيم كرسکتے ہیں :

۱. اصل تشریع تقیہ سے مربوط شبہات

۲. امام معصوم سے مربوط شبہات

۳. شیعوں سے مربوط شبہات

الف:تشريع تقيه سے مربوط شبهات اور ان کا جواب

o تقيه یعنی جھوٹ۔

o تقيه یعنی منافقت۔

o تقيہ امر به معروف و نهي ازمنكرکی ضد۔

۲۰۳

o تقيه جهادکی ضد۔

o تقيه اورآيات تبليغ کے درمیان تعارض۔

o تقيه یعنی ظلم۔

۱۔تقيه یعنی جھوٹ :

ابن تیمیہ اس شبہہ کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تقیہ ایک قسم کا جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنا ایک قبیح اور بری چیز ہے اور خدا تعالی نے بری چیز کو حرام قرار دیا ہے ، پس تقیہ بھی خدا کے نزدیک قبیح اور بری چیز ہے ۔اور جائز نہیں ہے ۔اس اشکال کیلئے دو جواب دئے جاتے ہیں:

پہلا جواب: اگر تقیہ جھوٹ ہے تو الله تعالي نے قرآن مجید میں کئی جگہوں پر کیوں تقیہ کرنے والوں کی مدح سرائی کی ہے ؟!:جیسے آلعمران کي آيه نمبر ۲۸ میں فرمایا :( الّا ان تتقوا منهم، )

اورسوره نحل کي آيه ۱۰۶ میں فرمایا :

۲۰۴

( الا من اكره و قلبه مطمئن بالايمان ) ۔

اللہ تعالی نے صرف تقیہ کرنے کو جائز قرار نہیں دیا بلکہ مجبوری کے وقت تقیہ کرنے کا باقاعدہ حکم دیا ہے اور تقيه کرنے کا شوق دلايا ہے ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ کیا جب کافروں کی طرف سے مجبور کیا جائے اور تقیہ کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہ ہو تو وہاں کیا جھوٹ بولنا صحیح نہیں ہے ؟ کیونکہ ہر جگہ جھوٹ بولنا برا نہیں ہے ۔ جیسے اگر کسی دو مسلمان بھائیوں کے درمیان الفت اور محبت پیدا کرنے اور خون و خرابہ سے بچنے کیلئے جھوٹ بولنا جائز ہے ، کیونکہ اگر سچ بولیں تو جھگڑا فساد بڑھ سکتاہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ : یہ اشکال دومقدمے (صغری اور کبری) سے تشکیل پاتا ہے ۔ صغری میں کہا ہےکہ تقیہ ایک قسم کا جھوٹ ہے ۔ یہ صغری ہر مصداق اور مورد میں صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ تقیہ اخفائی یعنی واقعیت کے بیان کرنے سے سکوت اختیار کرنے کو کوئی جھوٹ نہیں کہتا ۔ بلکہ یہ صرف تقیہ اظہاری میں صدق آسکتا ہے ۔ وہ بھی توریہ نہ کرنے کی صورت میں ۔

۲۰۵

پس تقیہ کے کچھ خاص موارد ہیں جہاں تقیہ کا مصداق کذب اور جھوٹ ہے۔

لیکن کبری ٰ یعنی جھوٹ بولنا قبیح اور برا ہے ؛ یہاں کہیں گے کہ جھوٹ ہر جگہ برا نہیں ہے ۔کیونکہ مختلف عناوین کو حسن و قبح کی کسوٹی پر ناپا جاتا ہے تو ممکن ہے درج ذیل تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت پائی جائے :

۱. یا وہ عنوان حسن و قبح کیلئے علت تامہ ہے ۔جیسے حسن عدالت اور قبح ظلم۔انہیں حسن و قبح ذاتی کہا جاتا ہے ۔

۲. یا وہ عنوان جو خود بخود حسن و قبح کا تقاضا کرتا ہو ، بشرطیکہ کوئی اور عنوان جو اس تقاضے کو تبدیل نہ کرے ،اس پر صدق نہ آئے ۔جیسے کسی یتیم پر مارنا خود بخود قبیح ہے لیکن اگر ادب سکھانے کا عنوان اس پر صدق آجائے تو یہ قباحت کي حالت سے نکل آتا ہے ۔ایسے حسن و قبح کو عرضی کہتے ہیں۔

۳. یا وہ عنوان جو حسن و قبح کے لحاظ سے متساوي الطرفين ہو ۔اور حسن و قبح سے متصف ہونے کیلئے مختلف شرائط کی ضرورت ہو ۔ جیسے کسی پر مارنا

۲۰۶

اگر ادب سکھانے کیلئے ہو تو حسن ہے اور اگر اپنا غم و غصہ اتارنے کیلئے مارے تو قبیح ہےليکن اگر کسی بےجان چیز پر مارے تو نہ حسن ہے اور نہ قبیح ہے ۔

اور یہاں ہم اس وقت جھوٹ بولنے کو قبیح مانیں گے کہ پہلا عنوان اس پر صدق آتا ہو جب کہ ایسا نہیں ہے ۔اور عقلاءنے بھی اسے دوسری قسم میں شمار کیا ہے۔ کہ جب بھی کوئی زیادہ مہمتر مصلحت کے ساتھ تزاحم ہو تو اس کی قباحت دور ہوجاتی ہے ، جیسے : ایک گروہ کا خون خرابہ ہونے سے بچانے کیلئے جھوٹ بولنے کو ہر عاقل شخص جائز سمجھتا ہے۔

اسی لئے ہم دیکھتے ہیں كه قرآن او ر پیغمبر اسلام (ص) نے عماربن یاسر کے تقیہ کرتے ہوئے جھوٹ بولنے اور کفار کے شر سے اپنی جان بچانے کومورد تائید قرار دیا ہے ۔

۲۰۷

شيخ طوسی  کا جواب

تقيه جھوٹ نہیں ہے کیونکہ ،الكذب ضد الصدق و هو الاخبار عن الشيء لا علي ما هو به ۔(۱) جھوٹ سچائی کی ضد ہے اور جھوٹ سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کی خبر دے، جس کي کوئي حقيقت نہ ہو۔

پس جھوٹ کے دو رکن ہیں:

الف: کسی واقعے کے بارے میں خبر دینا ۔

ب: اس خبر کا واقعیت کے مطابق نہ ہونا۔

جبکہ تقیہ کے تین رکن ہیں :

الف:حق بات کا چھپانا۔

ب: مخالفین کے ساتھ موافقت کا اظہار کرنا ۔

____________________

۱ ۔ محمود، يزدي؛ انديشه كلامي شيخ طوسي، ص ۲۷۹۔

۲۰۸

ج: اور یہ دونوں رکن اس لئے ہوں کہ دشمن کے شر سے اپنی جان یا مال کی حفاظت کرے۔

لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ جھوٹ اخباری ہے اور تقیہ دشمن کو برحق ظاہر کرنا ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ جھوٹ میں یہ ضروری نہیں ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھی ہے وہ بھی حق ہو، جبکہ تقیہ میں یہ شرط ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھی ہے وہ بھی حق ہو ۔

۲۔تقيه يعني منافقت!

ممكن ہے کوئی یہ دعوا كرے کہ جو مکر اورفریب منافق لوگ کرتے ہیں ، تقیہ بھی اسی کی ایک قسم ہے۔ کیونکہ منافق دوسروں کو دھوکہ دینے کیلئے زبان پر ایسی چیزکا اظہار کرتے ہیں جس کے برخلاف دل میں چھپا رکھی ہو ۔

۲۰۹

شيخ طوسي اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتےہیں کہ مخادع اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دل میں موجود بات کے برخلاف زبان پر اظہار کرے تاکہ جس چیز سے وہ ڈرتا ہے اس سے وہ محفوظ رہے ۔اسی لئے منافق کو مخادع کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ زبان کے ذریعے اسلام کاکلمہ پڑھ کر کفر کی مہر لگنے سے فرار کرکے اپنی جان بچاتا ہے ۔ اگر چہ منافق ،مؤمن کو ظاہراً زبان کے ذریعے دھوکہ دیتا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے ۔

یہ درست ہے کہ تقیہ میں بھی باطن کے خلاف بات کا اظہار ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی جان بچاتا ہے ؛ لیکن یہ دونوں ( تقیہ اور نفاق) اصولاًباہم مختلف اور متفاوت ہے۔اور دونوں قابل جمع بھی نہیں۔

امام صادقعليه‌السلام اس مختصر حدیث میں مؤمن ہونے کا دعوا کرنے اور ایسے موارد میں تقیہ کا دامن پکڑنے والوں کو شدید طور پر ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

و ايّم اﷲ لو دعيتم لتنصرونا لقلتم لا نفعل انّما نتقي و لكانت التقيه احبّ اليكم من آبائكم و اّهاتكم ، ولو قد قام القائم ما

۲۱۰

احتاج الي مسائلكم عن ذالك و لا قام في كثير منكم حدّ النفاق ۔(۱)

خدا کی قسم ! اگر تمہیں ہماری مدد کیلئے بلائے جائیں تو کہہ دینگے ہر گز انجام نہیں دیں گے،کيونکه ہم تقیہ کی حالت میں ہیں ۔تمہارے والدین کا تقیہ کرنا تمہارے نزدیک زیادہ محبوب ہے ، اور جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور ہماری حکومت تشکیل دے گی، تو خدا کی قسم بغیر سوال کئے ، منافقین کو سزا دینا شروع کریگا جنہوں نے تمہارا حق مارا ہے ۔

یہ حدیث بتا تی ہے کہ امام  اپنے بعض نادان دوستوں کے بے موقع تقیہ کرنے کی وجہ سے غم و غصه کا اظہار فرما تے ہوئے نفاق اور تقیہ کے درمیان حد فاصل کو واضح فرمارہے ہیں ۔

اپنے مقدس اہداف کی ترقی کی خاطر پرده پوشي کرنے اور چھپانے کا نام تقیہ ہے اور جائز ہے ۔اجتماعی اور الہی اہداف کی حفاظت کی خاطر اپنا ذاتی اہداف کو فدا کرنے کا نام

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه، ج ۲ ، باب ۲۵۔

۲۱۱

تقیہ ہے ۔اس کے برخلاف اگر کوئی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اجتماعی اور قومی مفاد کو قربان کرے تو وه منافق کهلائے گا۔

ایک اور حدیث میں امامعليه‌السلام سے منقول ہے :جب بھی انسان ایمان کا اظہار کرے ،لیکن بعد میں عملی میدان ميں اس کے برخلاف عمل کرے تو وہ مؤمن کی صفات سے خارج ہے ۔ اور اگراظہار خلاف ایسے موارد میں کیا جائے جہاں تقیہ جائز نہیں ہے تو اس کا عذر قابل قبول نہیں ہے:

لانّ للتقيه مواضع من ازالها عن مواضعها لم تستقم له(۱)

کیونکہ تقیہ کی بھی کچھ حدود ہیں جو بھی اس سے باہر قدم رکھے گاتو وہ معذور نہیں ہوگا ۔اور حدیث کے آخر میں فرمایا : تقیہ وہاں جایز ہے جہاں دین اور ایمان میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو ۔

«كميت» شاعر كه جو مجاہدوں کی صف میں شمار ہوتا ہے کہ اپنے ذوق شاعری

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ,ج ۶ ، باب ۲۵۔

۲۱۲

سے استفادہ کرتے ہوئے بنی عباس کے دور خلافت ميں اس طاغوتی نظام کے خلاف قیام کیا اور مكتب اهل بيتعليهم‌السلام کی حمایت کی ۔ ایک دن امام موسي ابن جعفر  کی خدمت میں پہنچا ، دیکھا کہ امام  کا چہرہ بگڑا ہواهے ۔ جب وجہ پوچھي توشدید اور اعتراض آميز لہجے میں فرمایا :کیا تونے بنی امیہ کے بارے میں یہ شعرپڑھا ہے ؟!

فـالان صرت ا لي امة و الامم لها الي مصائر

ابھي تو ميں خاندان بني اميه کي طرف متوجه هوا هوں اور ان کا کام ميري طرف متوجه هورها هے ۔

كميت کہتا ہے کہ میں نے عرض کی: مولا !اس شعر کو میں نے پڑھا ہے لیکن خدا کی قسم میں اپنے ایمان پر باقی ہوں اور خاندان اہل بیتعليهم‌السلام سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کے دوستداروں سے بھی محبت رکھتا ہوں اور اسی لئےآپ کے دشمنوں سے بیزار ہوں؛ لیکن اسے میں نے تقیۃً پڑھا ہے ۔

امام  نے فرمایا:اگر ایسا ہو تو تقیہ ہر خلاف کاروں کیلئے قانونی اور شرعی مجوز بنے گا ۔اور شراب خوری بھی تقیہ کے تحت جائز ہوجائے گی۔اور بنی عباس کی حکومت کا دفاع کرنا بھی جائز ہوجائے گا۔ اس قسم کے تقیہ سے تملّق ،چاپلوسي اور ظالموں کی ثنا خوانی کا

۲۱۳

بازار گرم اور پر رونق ہوجائے گا۔اور نفاق ومنافقت بھی رائج ہوجائے گی۔(۱)

۳۔تقيه، جهادکے متنافی

اشکال يه ہے :

اگر تقیہ کے قائل ہوجائیں تو اسلام میں جہاد کا نظریہ ختم ہونا چاہئے ۔ جبکہ اس جہاد کی خاطر مسلمانوں کی جان و مال ضائع ہوجاتی ہیں ۔(۲)

جواب:

اسلامي احكام جب بھی جانی یا مالی ضرر اور نقصان سے دوچار اور روبرو ہوجاتا ہے تو دو قسم میں تقسیم ہوجاتا ہے :

۱. وہ احکامات جن کا اجراء کرنا کسی جانی ضرر یا نقصان سے دوچار نہیں ہوتا ، جیسے نماز کا واجب ہونا ، جس میں نہ مالی ضرر ہے اور نہ جانی ضرر ۔

____________________

۱ ۔ مكارم شيرازي؛ تقيه سپري عميقتر، ص ۷۰۔

۲۔ قفاري ؛ اصول مذهب الشيعه، ج۲، ص ۸۰۷۔

۲۱۴

۲. وہ احکامات جن کا اجرا کرنا ، جانی یا مالی طورپر ضرر یا نقصان برداشت کرنےکاسبب بنتا ہے ۔جیسے زکوۃ اور خمس کا ادا کرنا ، راہ خدا میں جہاد کرنا وغیرہ ۔

تقیہ کا حکم صرف پہلی قسم سے مربوط ہے ۔ کہ بعض موارد میں ان احکام کو بطور حکم ثانوی اٹھایا جاتا ہے ۔لیکن دوسری قسم سے تقیہ کا کوئی رابطہ نہیں ہے ۔اور جہاد کا حکم بھی دوسری قسم میں سے ہے ، جب بھی شرائط محقق ہوجائے تو جہاد بھی واجب ہوجاتا ہے ۔اگرچہ بہت زیادہ جانی یامالی نقصان بھی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔

۴۔تقيه اور آيات تبليغ کے درمیان تعارض

آلوسی کہتا ہے کہ تقیہ ان دو آیات کے ساتھ تعارض پیدا کرتا ہے کہ جن میں پیغمبر

۲۱۵

اکرم ؐکو تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے ۔(۱)

۱ ۔( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّه لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ) ۔(۲)

اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کو ہدایت نہیں کرتا ہے۔

اس آيه مباركه میں اپنے حبیب کو تبلیغ کا حکم دے رہا ہے اگر چہ خوف اور ڈر ہی کیوں نہ ہو۔

۲ ۔( الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللهَ وَكَفَى بِاللهِ حَسِيبًا ) ۔(۳)

وہ لوگ ا للہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس

____________________

۱۔ ابوالفضل آلوسي؛ روح المعاني،ج ۳، ص ۱۲۵۔

۲ ۔ مائدہ۶۷۔

۳ ۔ احزاب ۳۹۔

۲۱۶

کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ،اوراللہ حساب کرنے کے لئے کافی ہے۔

اس آیہ شریفہ میں خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرنا ایک بہترین صفت قرار دیتے ہوئے سراہا گیا ہے ۔

اسی طرح اللہ تعالی کے احکامات کو چھپانے کی مذمت میں بھی آیات نازل ہوئی ہیں ، جیسا کہ فرمایا:

( إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللهُ مِنَ الْكِتَابِ وَ يَشْترَونَ بِهِ ثمَنًا قَلِيلاً أُوْلَئكَ مَا يَأْكلُونَ فىِ بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَمَةِ وَ لَا يُزَكِّيهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ) ۔(۱)

جو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گااور نہ انہیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

____________________

۱۔ بقرہ ۱۷۴۔

۲۱۷

اس اشکال کیلئے یوں جواب دے سکتے ہیں ؛ تبلیغ کبھی اصول دین سے مربوط ہے اور کبھی فروع دین سے ۔ اور جب بھی تبلیغ اصول دین سے مربوط ہو اور تبلیغ نہ کرنا باعث بنے کہ لوگ دین سے آشنائی پیدا نہ کرے اور لوگوں کی دین سے آشنائی اسی تبلیغ پر منحصر ہو تو یہاں تقیہ حرام ہے اور دائرہ تقیہ کو توڑ کر تبلیغ میں مصروف ہونا چاہئے ، اگرچہ تقیہ ضرر جانی یا مالی کا سبب کیوں نہ بنے ؛ کیونکہ آیات مذکورہ اور داخلی اور خارجی قرینے سے پتہ چلتا ہے کہ تقیہ اسی نوع میں سے ہے ۔ یہاں تقیہ بے مورد ہے ۔

لیکن اگر تبلیغ فروع دین سے مربوط ہو تو یہاں تبلیغ اور جانی ومالی نقصانات کا مقائسہ کرے گا کہ کس میں زیادہ مصلحت پائی جاتی ہے ؟ اور کون سا زیادہ مہم ہے ؟اگر جان یا مال بچانا تبلیغ سے زیادہ مہم ہو تو وہاں تقیہ کرتے ہوئے تبلیغ کو ترک کرنا واجب ہے ۔ مثال کے طور پر ایک کم اہمیت والا فقہی فتويٰ دے کر کسی فقیہ یا عالم دین کی جان پچانا۔

۲۱۸

۵۔تقيه اور ذ لّت مؤمن

اشکال :وهابي لوگ کہتے ہیں کہ تقیہ مؤمن کی ذلت کا باعث ہے ۔ خداتعالی نے ہر اس چیز کو جو باعث ذلت ہو ،اسے شریعت میں حرام قرار دیا ہے ۔ اور تقیہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔(۱)

جواب:اس جملے کاصغریٰ مورد اشکال ہے کیونکہ یہ بات قابل قبول نہیں اگر تقیہ کو اپنے صحیح اور جائز موارد میں بروئے کار لایا جائے تو ذلت کا باعث نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ دشمن کے سامنے ایک اہم مصلحت کی خاطر حق کی بات کرنے سے سکوت اختیار کرنا یا حق کے خلاف اظہار کرنا نہ ذلت کا سبب ہے اور نہ مذمت کاباعث ۔

چنانچه عمار ابن ياسر نے ایسا کیا تو قرآن کریم نے بھي ان کی مدح سرائي کی ۔

____________________

۱ ۔موسي موسوي؛ الشيعه و التصحيح ، ص ۶۷۔

۲۱۹

۶۔تقيه ،ما نع امر به معروف

اشکال یہ ہے کہ تقیہ انسان کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے روکتی ہے ۔ کبھی جان کا خوف دلا کر تو کبھی مال یا مقام کا ۔جب کہ یہ دونوں (امر اور نہی ) واجبات اسلام میں سے ہیں ۔جس کی تائید میں فرمایا :افضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر ۔ ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق بات کا اظہار کرنا بہترین جہاد ہے ۔

اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :

۱ ـ امر به معروف و نهي از منكر مطلقًا جائز نہیں ۔ بلكه اس کیلئے بھی کچھ شرائط و معيارہے كه اگر یہ شرائط اور معيار موجود ہوں تو واجب ہے ۔۔ورنه اس کا واجب ہونا ساقط ہوجائے گا ۔

من جمله شرائط امر به معروف و نهي از منكر میں سے یہ ہیں :انکار کرنے میں کوئی ایسا مفسدہ موجود نہ ہو جو اس سے بھی کسی بڑے جرم ،جیسے قتل و غارت

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336