تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں11%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86779 / ڈاؤنلوڈ: 3150
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

سب سے پہلا اشکال اور شبہہ پیدا کرنے والا سلیمان بن جریر ابدی ہے جو فرقہ جریرہ کا رہبر ہے ۔ وہ امام صادقعليه‌السلام کا ہم عصر ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ شیعوں کے امام جب کسی خطا کے مرتکب ہوتے تھے تو تقیہ کو راہ فرار کے طور پر بیان کرتے تھے ۔ اور کہتے تھے کہ یہ تقیہ کے طور پر انجام دیا گیا ہے ۔(۱)

یہی اشکال، اس کے بعد مختلف کلامی اور تفسیری کتابوں میں اہل سنت کی جانب سے کرنے لگے ۔ بعد میں شیعہ بڑے عالم دین سيد شريف مرتضي معروف به علم الهدي ( ۳۵۵ ـ ۴۳۶) ق نے ان شبہات اور اشکالات کا جواب دیا ہے۔(۲)

____________________

۱ ۔ نوبختي، فرق الشيعه ، ص۸۵۔

۲ ۔ شيخ انصاري، رسائل ، ج۱،ص ۲۹۰، ۳۱۰۔

۲۰۱

فخر رازي( ۵۴۴ ـ ۶۰۶ ه ) صاحب تفسير كبيرنے « مفاتيح الغيب»میں سليمان ابن جرير کے تقیہ کے بارے میں اس شبہہ کوتكرار کیا ہے، جس کا جواب خواجه نصير الدين طوسي ( ۵۷۹ ـ ۶۵۲ ق) نےدیا ہے ۔(۱)

سب سے زیادہ شبهات گذشتہ دور میں تقي الدين احمد معروف ابن تيميه ( ۶۶۱ ـ ۷۲۸ ق) کی کتاب منهاج السنّه ، میں دیکھنے میں آتا ہے جو مجموعاً پانچ اشکالات پر مشتمل ہے ۔(۲)

____________________

۱۔ المحصل ، ص ۱۸۲۔

۲ ۔ ابن تيميه ؛ منهاج السنّه النبويه، ج ۱،ص۱۵۹۔

۲۰۲

ابن تیمیہ کے اشکالات کی تفصیل

ابن تیمیہ کے وہ شبهات (جوتقیہ سے مربوط ہیں) کو تین حصوں میں تقسيم كرسکتے ہیں :

۱. اصل تشریع تقیہ سے مربوط شبہات

۲. امام معصوم سے مربوط شبہات

۳. شیعوں سے مربوط شبہات

الف:تشريع تقيه سے مربوط شبهات اور ان کا جواب

o تقيه یعنی جھوٹ۔

o تقيه یعنی منافقت۔

o تقيہ امر به معروف و نهي ازمنكرکی ضد۔

۲۰۳

o تقيه جهادکی ضد۔

o تقيه اورآيات تبليغ کے درمیان تعارض۔

o تقيه یعنی ظلم۔

۱۔تقيه یعنی جھوٹ :

ابن تیمیہ اس شبہہ کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تقیہ ایک قسم کا جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنا ایک قبیح اور بری چیز ہے اور خدا تعالی نے بری چیز کو حرام قرار دیا ہے ، پس تقیہ بھی خدا کے نزدیک قبیح اور بری چیز ہے ۔اور جائز نہیں ہے ۔اس اشکال کیلئے دو جواب دئے جاتے ہیں:

پہلا جواب: اگر تقیہ جھوٹ ہے تو الله تعالي نے قرآن مجید میں کئی جگہوں پر کیوں تقیہ کرنے والوں کی مدح سرائی کی ہے ؟!:جیسے آلعمران کي آيه نمبر ۲۸ میں فرمایا :( الّا ان تتقوا منهم، )

اورسوره نحل کي آيه ۱۰۶ میں فرمایا :

۲۰۴

( الا من اكره و قلبه مطمئن بالايمان ) ۔

اللہ تعالی نے صرف تقیہ کرنے کو جائز قرار نہیں دیا بلکہ مجبوری کے وقت تقیہ کرنے کا باقاعدہ حکم دیا ہے اور تقيه کرنے کا شوق دلايا ہے ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ کیا جب کافروں کی طرف سے مجبور کیا جائے اور تقیہ کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہ ہو تو وہاں کیا جھوٹ بولنا صحیح نہیں ہے ؟ کیونکہ ہر جگہ جھوٹ بولنا برا نہیں ہے ۔ جیسے اگر کسی دو مسلمان بھائیوں کے درمیان الفت اور محبت پیدا کرنے اور خون و خرابہ سے بچنے کیلئے جھوٹ بولنا جائز ہے ، کیونکہ اگر سچ بولیں تو جھگڑا فساد بڑھ سکتاہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ : یہ اشکال دومقدمے (صغری اور کبری) سے تشکیل پاتا ہے ۔ صغری میں کہا ہےکہ تقیہ ایک قسم کا جھوٹ ہے ۔ یہ صغری ہر مصداق اور مورد میں صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ تقیہ اخفائی یعنی واقعیت کے بیان کرنے سے سکوت اختیار کرنے کو کوئی جھوٹ نہیں کہتا ۔ بلکہ یہ صرف تقیہ اظہاری میں صدق آسکتا ہے ۔ وہ بھی توریہ نہ کرنے کی صورت میں ۔

۲۰۵

پس تقیہ کے کچھ خاص موارد ہیں جہاں تقیہ کا مصداق کذب اور جھوٹ ہے۔

لیکن کبری ٰ یعنی جھوٹ بولنا قبیح اور برا ہے ؛ یہاں کہیں گے کہ جھوٹ ہر جگہ برا نہیں ہے ۔کیونکہ مختلف عناوین کو حسن و قبح کی کسوٹی پر ناپا جاتا ہے تو ممکن ہے درج ذیل تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت پائی جائے :

۱. یا وہ عنوان حسن و قبح کیلئے علت تامہ ہے ۔جیسے حسن عدالت اور قبح ظلم۔انہیں حسن و قبح ذاتی کہا جاتا ہے ۔

۲. یا وہ عنوان جو خود بخود حسن و قبح کا تقاضا کرتا ہو ، بشرطیکہ کوئی اور عنوان جو اس تقاضے کو تبدیل نہ کرے ،اس پر صدق نہ آئے ۔جیسے کسی یتیم پر مارنا خود بخود قبیح ہے لیکن اگر ادب سکھانے کا عنوان اس پر صدق آجائے تو یہ قباحت کي حالت سے نکل آتا ہے ۔ایسے حسن و قبح کو عرضی کہتے ہیں۔

۳. یا وہ عنوان جو حسن و قبح کے لحاظ سے متساوي الطرفين ہو ۔اور حسن و قبح سے متصف ہونے کیلئے مختلف شرائط کی ضرورت ہو ۔ جیسے کسی پر مارنا

۲۰۶

اگر ادب سکھانے کیلئے ہو تو حسن ہے اور اگر اپنا غم و غصہ اتارنے کیلئے مارے تو قبیح ہےليکن اگر کسی بےجان چیز پر مارے تو نہ حسن ہے اور نہ قبیح ہے ۔

اور یہاں ہم اس وقت جھوٹ بولنے کو قبیح مانیں گے کہ پہلا عنوان اس پر صدق آتا ہو جب کہ ایسا نہیں ہے ۔اور عقلاءنے بھی اسے دوسری قسم میں شمار کیا ہے۔ کہ جب بھی کوئی زیادہ مہمتر مصلحت کے ساتھ تزاحم ہو تو اس کی قباحت دور ہوجاتی ہے ، جیسے : ایک گروہ کا خون خرابہ ہونے سے بچانے کیلئے جھوٹ بولنے کو ہر عاقل شخص جائز سمجھتا ہے۔

اسی لئے ہم دیکھتے ہیں كه قرآن او ر پیغمبر اسلام (ص) نے عماربن یاسر کے تقیہ کرتے ہوئے جھوٹ بولنے اور کفار کے شر سے اپنی جان بچانے کومورد تائید قرار دیا ہے ۔

۲۰۷

شيخ طوسی  کا جواب

تقيه جھوٹ نہیں ہے کیونکہ ،الكذب ضد الصدق و هو الاخبار عن الشيء لا علي ما هو به ۔(۱) جھوٹ سچائی کی ضد ہے اور جھوٹ سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کی خبر دے، جس کي کوئي حقيقت نہ ہو۔

پس جھوٹ کے دو رکن ہیں:

الف: کسی واقعے کے بارے میں خبر دینا ۔

ب: اس خبر کا واقعیت کے مطابق نہ ہونا۔

جبکہ تقیہ کے تین رکن ہیں :

الف:حق بات کا چھپانا۔

ب: مخالفین کے ساتھ موافقت کا اظہار کرنا ۔

____________________

۱ ۔ محمود، يزدي؛ انديشه كلامي شيخ طوسي، ص ۲۷۹۔

۲۰۸

ج: اور یہ دونوں رکن اس لئے ہوں کہ دشمن کے شر سے اپنی جان یا مال کی حفاظت کرے۔

لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ جھوٹ اخباری ہے اور تقیہ دشمن کو برحق ظاہر کرنا ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ جھوٹ میں یہ ضروری نہیں ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھی ہے وہ بھی حق ہو، جبکہ تقیہ میں یہ شرط ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھی ہے وہ بھی حق ہو ۔

۲۔تقيه يعني منافقت!

ممكن ہے کوئی یہ دعوا كرے کہ جو مکر اورفریب منافق لوگ کرتے ہیں ، تقیہ بھی اسی کی ایک قسم ہے۔ کیونکہ منافق دوسروں کو دھوکہ دینے کیلئے زبان پر ایسی چیزکا اظہار کرتے ہیں جس کے برخلاف دل میں چھپا رکھی ہو ۔

۲۰۹

شيخ طوسي اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتےہیں کہ مخادع اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دل میں موجود بات کے برخلاف زبان پر اظہار کرے تاکہ جس چیز سے وہ ڈرتا ہے اس سے وہ محفوظ رہے ۔اسی لئے منافق کو مخادع کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ زبان کے ذریعے اسلام کاکلمہ پڑھ کر کفر کی مہر لگنے سے فرار کرکے اپنی جان بچاتا ہے ۔ اگر چہ منافق ،مؤمن کو ظاہراً زبان کے ذریعے دھوکہ دیتا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے ۔

یہ درست ہے کہ تقیہ میں بھی باطن کے خلاف بات کا اظہار ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی جان بچاتا ہے ؛ لیکن یہ دونوں ( تقیہ اور نفاق) اصولاًباہم مختلف اور متفاوت ہے۔اور دونوں قابل جمع بھی نہیں۔

امام صادقعليه‌السلام اس مختصر حدیث میں مؤمن ہونے کا دعوا کرنے اور ایسے موارد میں تقیہ کا دامن پکڑنے والوں کو شدید طور پر ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

و ايّم اﷲ لو دعيتم لتنصرونا لقلتم لا نفعل انّما نتقي و لكانت التقيه احبّ اليكم من آبائكم و اّهاتكم ، ولو قد قام القائم ما

۲۱۰

احتاج الي مسائلكم عن ذالك و لا قام في كثير منكم حدّ النفاق ۔(۱)

خدا کی قسم ! اگر تمہیں ہماری مدد کیلئے بلائے جائیں تو کہہ دینگے ہر گز انجام نہیں دیں گے،کيونکه ہم تقیہ کی حالت میں ہیں ۔تمہارے والدین کا تقیہ کرنا تمہارے نزدیک زیادہ محبوب ہے ، اور جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور ہماری حکومت تشکیل دے گی، تو خدا کی قسم بغیر سوال کئے ، منافقین کو سزا دینا شروع کریگا جنہوں نے تمہارا حق مارا ہے ۔

یہ حدیث بتا تی ہے کہ امام  اپنے بعض نادان دوستوں کے بے موقع تقیہ کرنے کی وجہ سے غم و غصه کا اظہار فرما تے ہوئے نفاق اور تقیہ کے درمیان حد فاصل کو واضح فرمارہے ہیں ۔

اپنے مقدس اہداف کی ترقی کی خاطر پرده پوشي کرنے اور چھپانے کا نام تقیہ ہے اور جائز ہے ۔اجتماعی اور الہی اہداف کی حفاظت کی خاطر اپنا ذاتی اہداف کو فدا کرنے کا نام

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه، ج ۲ ، باب ۲۵۔

۲۱۱

تقیہ ہے ۔اس کے برخلاف اگر کوئی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اجتماعی اور قومی مفاد کو قربان کرے تو وه منافق کهلائے گا۔

ایک اور حدیث میں امامعليه‌السلام سے منقول ہے :جب بھی انسان ایمان کا اظہار کرے ،لیکن بعد میں عملی میدان ميں اس کے برخلاف عمل کرے تو وہ مؤمن کی صفات سے خارج ہے ۔ اور اگراظہار خلاف ایسے موارد میں کیا جائے جہاں تقیہ جائز نہیں ہے تو اس کا عذر قابل قبول نہیں ہے:

لانّ للتقيه مواضع من ازالها عن مواضعها لم تستقم له(۱)

کیونکہ تقیہ کی بھی کچھ حدود ہیں جو بھی اس سے باہر قدم رکھے گاتو وہ معذور نہیں ہوگا ۔اور حدیث کے آخر میں فرمایا : تقیہ وہاں جایز ہے جہاں دین اور ایمان میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو ۔

«كميت» شاعر كه جو مجاہدوں کی صف میں شمار ہوتا ہے کہ اپنے ذوق شاعری

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ,ج ۶ ، باب ۲۵۔

۲۱۲

سے استفادہ کرتے ہوئے بنی عباس کے دور خلافت ميں اس طاغوتی نظام کے خلاف قیام کیا اور مكتب اهل بيتعليهم‌السلام کی حمایت کی ۔ ایک دن امام موسي ابن جعفر  کی خدمت میں پہنچا ، دیکھا کہ امام  کا چہرہ بگڑا ہواهے ۔ جب وجہ پوچھي توشدید اور اعتراض آميز لہجے میں فرمایا :کیا تونے بنی امیہ کے بارے میں یہ شعرپڑھا ہے ؟!

فـالان صرت ا لي امة و الامم لها الي مصائر

ابھي تو ميں خاندان بني اميه کي طرف متوجه هوا هوں اور ان کا کام ميري طرف متوجه هورها هے ۔

كميت کہتا ہے کہ میں نے عرض کی: مولا !اس شعر کو میں نے پڑھا ہے لیکن خدا کی قسم میں اپنے ایمان پر باقی ہوں اور خاندان اہل بیتعليهم‌السلام سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کے دوستداروں سے بھی محبت رکھتا ہوں اور اسی لئےآپ کے دشمنوں سے بیزار ہوں؛ لیکن اسے میں نے تقیۃً پڑھا ہے ۔

امام  نے فرمایا:اگر ایسا ہو تو تقیہ ہر خلاف کاروں کیلئے قانونی اور شرعی مجوز بنے گا ۔اور شراب خوری بھی تقیہ کے تحت جائز ہوجائے گی۔اور بنی عباس کی حکومت کا دفاع کرنا بھی جائز ہوجائے گا۔ اس قسم کے تقیہ سے تملّق ،چاپلوسي اور ظالموں کی ثنا خوانی کا

۲۱۳

بازار گرم اور پر رونق ہوجائے گا۔اور نفاق ومنافقت بھی رائج ہوجائے گی۔(۱)

۳۔تقيه، جهادکے متنافی

اشکال يه ہے :

اگر تقیہ کے قائل ہوجائیں تو اسلام میں جہاد کا نظریہ ختم ہونا چاہئے ۔ جبکہ اس جہاد کی خاطر مسلمانوں کی جان و مال ضائع ہوجاتی ہیں ۔(۲)

جواب:

اسلامي احكام جب بھی جانی یا مالی ضرر اور نقصان سے دوچار اور روبرو ہوجاتا ہے تو دو قسم میں تقسیم ہوجاتا ہے :

۱. وہ احکامات جن کا اجراء کرنا کسی جانی ضرر یا نقصان سے دوچار نہیں ہوتا ، جیسے نماز کا واجب ہونا ، جس میں نہ مالی ضرر ہے اور نہ جانی ضرر ۔

____________________

۱ ۔ مكارم شيرازي؛ تقيه سپري عميقتر، ص ۷۰۔

۲۔ قفاري ؛ اصول مذهب الشيعه، ج۲، ص ۸۰۷۔

۲۱۴

۲. وہ احکامات جن کا اجرا کرنا ، جانی یا مالی طورپر ضرر یا نقصان برداشت کرنےکاسبب بنتا ہے ۔جیسے زکوۃ اور خمس کا ادا کرنا ، راہ خدا میں جہاد کرنا وغیرہ ۔

تقیہ کا حکم صرف پہلی قسم سے مربوط ہے ۔ کہ بعض موارد میں ان احکام کو بطور حکم ثانوی اٹھایا جاتا ہے ۔لیکن دوسری قسم سے تقیہ کا کوئی رابطہ نہیں ہے ۔اور جہاد کا حکم بھی دوسری قسم میں سے ہے ، جب بھی شرائط محقق ہوجائے تو جہاد بھی واجب ہوجاتا ہے ۔اگرچہ بہت زیادہ جانی یامالی نقصان بھی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔

۴۔تقيه اور آيات تبليغ کے درمیان تعارض

آلوسی کہتا ہے کہ تقیہ ان دو آیات کے ساتھ تعارض پیدا کرتا ہے کہ جن میں پیغمبر

۲۱۵

اکرم ؐکو تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے ۔(۱)

۱ ۔( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّه لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ) ۔(۲)

اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کو ہدایت نہیں کرتا ہے۔

اس آيه مباركه میں اپنے حبیب کو تبلیغ کا حکم دے رہا ہے اگر چہ خوف اور ڈر ہی کیوں نہ ہو۔

۲ ۔( الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللهَ وَكَفَى بِاللهِ حَسِيبًا ) ۔(۳)

وہ لوگ ا للہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس

____________________

۱۔ ابوالفضل آلوسي؛ روح المعاني،ج ۳، ص ۱۲۵۔

۲ ۔ مائدہ۶۷۔

۳ ۔ احزاب ۳۹۔

۲۱۶

کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ،اوراللہ حساب کرنے کے لئے کافی ہے۔

اس آیہ شریفہ میں خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرنا ایک بہترین صفت قرار دیتے ہوئے سراہا گیا ہے ۔

اسی طرح اللہ تعالی کے احکامات کو چھپانے کی مذمت میں بھی آیات نازل ہوئی ہیں ، جیسا کہ فرمایا:

( إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللهُ مِنَ الْكِتَابِ وَ يَشْترَونَ بِهِ ثمَنًا قَلِيلاً أُوْلَئكَ مَا يَأْكلُونَ فىِ بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَمَةِ وَ لَا يُزَكِّيهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ) ۔(۱)

جو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گااور نہ انہیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

____________________

۱۔ بقرہ ۱۷۴۔

۲۱۷

اس اشکال کیلئے یوں جواب دے سکتے ہیں ؛ تبلیغ کبھی اصول دین سے مربوط ہے اور کبھی فروع دین سے ۔ اور جب بھی تبلیغ اصول دین سے مربوط ہو اور تبلیغ نہ کرنا باعث بنے کہ لوگ دین سے آشنائی پیدا نہ کرے اور لوگوں کی دین سے آشنائی اسی تبلیغ پر منحصر ہو تو یہاں تقیہ حرام ہے اور دائرہ تقیہ کو توڑ کر تبلیغ میں مصروف ہونا چاہئے ، اگرچہ تقیہ ضرر جانی یا مالی کا سبب کیوں نہ بنے ؛ کیونکہ آیات مذکورہ اور داخلی اور خارجی قرینے سے پتہ چلتا ہے کہ تقیہ اسی نوع میں سے ہے ۔ یہاں تقیہ بے مورد ہے ۔

لیکن اگر تبلیغ فروع دین سے مربوط ہو تو یہاں تبلیغ اور جانی ومالی نقصانات کا مقائسہ کرے گا کہ کس میں زیادہ مصلحت پائی جاتی ہے ؟ اور کون سا زیادہ مہم ہے ؟اگر جان یا مال بچانا تبلیغ سے زیادہ مہم ہو تو وہاں تقیہ کرتے ہوئے تبلیغ کو ترک کرنا واجب ہے ۔ مثال کے طور پر ایک کم اہمیت والا فقہی فتويٰ دے کر کسی فقیہ یا عالم دین کی جان پچانا۔

۲۱۸

۵۔تقيه اور ذ لّت مؤمن

اشکال :وهابي لوگ کہتے ہیں کہ تقیہ مؤمن کی ذلت کا باعث ہے ۔ خداتعالی نے ہر اس چیز کو جو باعث ذلت ہو ،اسے شریعت میں حرام قرار دیا ہے ۔ اور تقیہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔(۱)

جواب:اس جملے کاصغریٰ مورد اشکال ہے کیونکہ یہ بات قابل قبول نہیں اگر تقیہ کو اپنے صحیح اور جائز موارد میں بروئے کار لایا جائے تو ذلت کا باعث نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ دشمن کے سامنے ایک اہم مصلحت کی خاطر حق کی بات کرنے سے سکوت اختیار کرنا یا حق کے خلاف اظہار کرنا نہ ذلت کا سبب ہے اور نہ مذمت کاباعث ۔

چنانچه عمار ابن ياسر نے ایسا کیا تو قرآن کریم نے بھي ان کی مدح سرائي کی ۔

____________________

۱ ۔موسي موسوي؛ الشيعه و التصحيح ، ص ۶۷۔

۲۱۹

۶۔تقيه ،ما نع امر به معروف

اشکال یہ ہے کہ تقیہ انسان کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے روکتی ہے ۔ کبھی جان کا خوف دلا کر تو کبھی مال یا مقام کا ۔جب کہ یہ دونوں (امر اور نہی ) واجبات اسلام میں سے ہیں ۔جس کی تائید میں فرمایا :افضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر ۔ ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق بات کا اظہار کرنا بہترین جہاد ہے ۔

اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :

۱ ـ امر به معروف و نهي از منكر مطلقًا جائز نہیں ۔ بلكه اس کیلئے بھی کچھ شرائط و معيارہے كه اگر یہ شرائط اور معيار موجود ہوں تو واجب ہے ۔۔ورنه اس کا واجب ہونا ساقط ہوجائے گا ۔

من جمله شرائط امر به معروف و نهي از منكر میں سے یہ ہیں :انکار کرنے میں کوئی ایسا مفسدہ موجود نہ ہو جو اس سے بھی کسی بڑے جرم ،جیسے قتل و غارت

۲۲۰

میں مبتلا ہو جائے ۔ ایسی صورت میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ امر بہ معروف و نہی از منکر کرنا جائز نہیں ہے ۔

۲ ـ وہ روایات جو ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کا اظہار کرنے کو ممدوح قرار دیتی ہیں ، وہ خبر واحد ہیں جو ادلہ عقلی کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتیں ۔ یعنی تعارض کے موقع پر دلیل عقلی مقدم ہو گی ،اس سے دفع ضرر اور حفظ جان مراد ہے ۔(۱)

ب:امام معصومعليهم‌السلام کاتقيه سے مربوط شبهات

o تقيه بيان شريعت امامؑ کي ضد ہے۔

o تقيه روايات «سلوني قبل ان تفقدوني » سے تضاد رکھتا ہے ۔

____________________

۱ ۔ دكتر محمود يزدي؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي، ص ۲۸۹۔

۲۲۱

o تقيه كلام امام ؑ پر عدم اعتمادکاموجب ـ

o تقيه یعنی تحليل حرام و تحريم حلال۔

o تقيه شجاعت کی ضد۔

o جہاں سکوت کرنا ممکن ہو وہاں تقیہ کی کیا ضرورت؟

o تقيه کے علاوه اور بھي راستے هيں ۔

o کیا تقيه ايك اختصاصي حكم ہے يا عمومي؟

o تقيه کیا خلاف عصمت نہیں؟

o تقیہ کیا علم امامؑ سے منافات نہیں رکھتا ؟۔

o تقيه کرنے کي صورت میں کیا دین کا دفاع ممکن ہے ؟

o کیوں ایک گروه نے تقيه كیا اور دوسرےگروه نے نہیں کیا ؟

اشکال کرنے والا اس مرحلے میں تقیہ کے شرعی جواز کو فی الجملہ قبول کرتا ہے ، کہ بعض موارد میں مؤمنین کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے ۔ لیکن دینی رہنماؤں جیسے امام

۲۲۲

معصومعليهم‌السلام کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر دین کے رہنما تقیہ کریں تو درج ذیل اشکالات وارد ہوسکتے ہیں :

۱۔تقيه اور امامعليه‌السلام کا بیان شريعت

شیعہ عقیدے کے مطابق امام معصومعليهم‌السلام کے وجود مبارک کوشریعت اسلام کے بیان کیلئے خلق کیا گیا ہے ۔ لیکن اگر یہ حضرات تقیہ کرنے لگیں تو بہت سارے احکام رہ جائيں گےاور مسلمانوں تک نہیں پہنچ پائيں گے۔ اور ان کي بعثت کا فلسفہ بھي ناقص ہو گا۔

اسی سلسلے میں اہل سنت کے ایک عالم نے اشکال کیا ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے عليعليه‌السلام کو اظهار حق کی خاطر منصوب کیا ہے تو تقیہ کيا معني رکھتا ہے ؟!

اس شبہہ کا جواب یہ ہے كه معصومینعليهم‌السلام نے بہترین انداز میں اپنے وظیفے پر

۲۲۳

عمل کیا ہے لیکن ہمارے مسلمان بھائیوں نے ان کے فرامين کو قبول نہیں کیا ۔

چنانچه حضرت عليعليه‌السلام کے بارے میں منقول ہے آپ ۲۵ سال خانہ نشین ہوئے تو قرآن مجید کی جمع آوری ، آیات کی شأن نزول ، معارف اسلامی کی توضیح اور تشریح کرنے میں مصروف ہوگئے ۔ اور ان مطالب کو اونٹوں پر لاد کر مسجد میں مسلمانوں کے درمیان لے گئے تاکہ ان معارف سے لوگ استفادہ کریں ؛ لیکن خلیفہ وقت نے اسے قبول کرنے سے انکارکردیا ۔(۱)

جب امام نے يه حالت ديکھي تو خاص شاگردوں کي تربيت اور ان کو اسلامي احکامات اور دوسرے معارف کوتعليم ديتے هوئے اپنا شرعي وظيفه انجام دينے لگے ؛ ليکن يه هماري کوتاهي تھي که هم نے ان کے فرامين کو پس پشت ڈالا اور اس پر عمل نهيں کيا ۔

____________________

۱ ۔ محمد باقر حجتي؛ تاريخ قرآن كريم، ص ۳۸۷۔

۲۲۴

الف:امامعليه‌السلام کاتقيه اور اقوال

شيخ طوسي امام کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں:

۱. معتزلہ والے کہتے ہیں کہ امام کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ امام ؑ کا قول ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول کی طرح حجت ہے ۔

۲. اماميه والے کہتے ہیں کہ اگر تقیہ کے واجب ہونے کے اسباب نہ ہوں،کوئی اور مانع بھي موجود نہ ہو تو امام تقیہ کرسکتے ہیں ۔

شيخ طوسي کے ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام تقیہ کرسکتے ہیں بشرطیکہ شرائط موجود ہوں۔

ب:امامعليه‌السلام کیلئے تقیہ جائز ہونے کے شرائط

 شرعی وظیفوں پر عمل پيرا هونا اور احکام کی معرفت حاصل کرنا اگر فقط امام ؑ پر منحصر نہ ہو جیسے امام ؑ کا منصوص ہونا فقط امام ؑ کے قول پر منحصر نہیں ہے بلکہ قول پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور عقل سلیم کے ذریعے سے بھی مکلف

۲۲۵

جان سکتا ہے تو ايسي صورت ميں امام ؑ تقیہ کرسکتے ہیں ۔

 اس صورت میں امام ؑ تقیہ کرسکتے ہیں کہ آپ کا تقیہ کرنا حق تک پہنچنے میں رکاوٹ نه بنے ۔ اورساتھ ہی شرائط بھی پوری ہوں۔

 جن موارد میں امام ؑ تقیہ کررہے ہیں وہاں ہمارے پاس واضح دلیل موجود ہوکہ معلوم ہوجائے کہ امام ؑ حالت تقیہ میں حکم دے رہے ہیں ۔

اس بنا پر اگر احکام کی معرفت امام ؑ میں منحصر نہ ہو ، یا امام ؑ کا تقیہ کرنا حق تک جانے میں رکاوٹ نہ ہو اور کوئی ایسی ٹھوس دلیل بھی نہ ہو جو امام ؑ کے تقیہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ہو ں اور ساتھ ہی اگر معلوم ہو کہ امام ؑ حالت تقیہ میں ہیں تو کوئی حرج نہیں امام ؑ تقیہ کرسکتے ہیں ۔(۱)

____________________

۱ ۔ محمود يزدي؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي، ص۳۳۳۔

۲۲۶

۲۔ تقيه، فرمان امامعليه‌السلام پر عدم اعتماد کاباعث

شیعہ مخالف لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے ائمہ معصومینعليهم‌السلام وسیع پیمانے پر تقیہ کرنے لگیں تو یہ احتمال ساری روایات جو ان حضرات سے ہم تک پہنچی ہیں ،میں پائی جاتی ہے کہ ہر روایت تقیہ کرکے بیان کی ہوں ۔اس صورت میں کسی ایک روایت پر بھی ہم عمل نہیں کرسکتے ۔کيونکه کوئي بھی روایت قابل اعتماد نہیں هوسکتي۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہمارے آئمہ معصومینعليهم‌السلام کا تقیہ کرنا کسی قواعد و ضوابط کےبغیر ہو تو یہ اشکال وارد ہے ۔ لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ تقیہ کرنے کیلئے خواہ وہ تقیہ کرنے والا امام ہو یا عوام یا خواص ہو ، خاص شرائط ہیں اگر وہ شرائط نہ ہوں تو تقیہ کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے ۔اور جب اماموں کے تقیہ کے علل و اسباب ان کو معلوم ہوجائیں تو یہ اشکال بھی باقی نہیں رہے گا ۔

۲۲۷

۳۔تقيه اور علم امام

علم امامعليه‌السلام کے بارے میں شيعه متكلمين کےدرمیان دو نظریے پائے جاتے ہیں :اور یہ اختلاف بھی روایات میں اختلاف ہونے کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے ۔

پہلا نظریہ :

قدیم شيعه متكلمين جیسے ، سيد مرتضي وغیرہ معتقد ہیں کہ امام ؑتمام احکامات اور معارف اسلامی کا علم رکھتےہیں ۔ لیکن مختلف حادثات اور بعض واقعات جیسے اپنی رحلت کب ہوگی؟ یا دوسروں کی موت کب واقع ہوگی ؟و۔۔۔بصورت موجبہ جزئیہ ہے نه موجبہ کلیہ ۔

دوسرا نظریہ :

علم امامعليه‌السلام دونوں صورتوں میں یعنی تمام احکامات دین اور اتفاقی حادثات کے بارے میں بصورت موجبہ کلیہ علم رکھتے ہیں ۔(۱)

____________________

۱ ۔ كليني ؛ اصول كافي، ج۱ ، ص ۳۷۶۔

۲۲۸

بهر حال دونوں نظریہ کا اس بات پر اتفاق هے كه علم امامعليه‌السلام احكام اور معارف اسلامي کے بارے میں بصورت موجبه ہے ۔ وہ شبہات جو تقیہ اور علم امام سے مربوط ہے وہ بعض کے نزدیک دونوں مبنی میں ممکن ہے ۔ اور بعض کے نزدیک صرف دوسرے مبنی میں ممکن ہے ۔

پهلا اشکال:

تقيه اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آئمہعليهم‌السلام تمام فقهي احكام اور اسلامي معارف کا علم نہیں رکھتے ہیں اور اس کی توجیہ کرنےاور روایات میں موجود اختلاف کو ختم کرنے کیلئے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں۔

اس اشکال کو سليمان ابن جرير زيدي نے مطرح کیا ہے ،جوعصر آئمہعليهم‌السلام میں زندگی گزارتا تھا ۔وہ کہتا ہے کہ رافضیوں کے امام نے اپنے پیروکاروں کیلئے دو عقیدےبیان کئے ہیں۔ جن کی موجودگی میں کوئی بھی مخالف ان کے ساتھ بحث و مباحثہ میں نہیں جیت سکتا۔

۲۲۹

پہلا عقیدہ بداء ہے ۔

دوسرا عقیدہ تقيه ہے۔

شيعہ اپنے اماموں سے مختلف مواقع پر سوال کرتے تھے اور وہ جواب دیاکرتے تھے اور شیعہ ان روایات اور احادیث کو یاد رکھتے اور لکھتے تھے ،لیکن ان کے امام ، چونکہ کئی کئی مہینے یا سال گزرجاتے اور ان سے مسئلہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا ؛ جس کی وجہ سے وہ پہلے دئے ہوئے جوابات بھی بھول جاتے تھے ۔ کیونکہ اپنے دئے گئے جوابات کو یاد نہیں رکھتے تھے اس لئے ایک ہی سوال کے مختلف اور متضاد جوابات دئے جاتے تھے ۔اورشیعه جب اپنے اماموں پر ان اختلافات کے بارے میں اشکال کرتےتھے تو توجیہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہمارے جوابات تقیۃً بیان ہوئے ہیں ۔اور ہم جو چاہیں اور جب چاہیں جواب دے سکتے ہیں کیونکہ یہ ہمارا حق ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ کیا چیز تمہارے مفاد میں ہے اور تمہاری بقا اور سالمیت کس چیز میں ہے ۔اور تمہارے دشمن کب تم سے دست بردار ہونگے ۔

۲۳۰

سليمان آگے بیان کرتا ہے : پس جب ایسا عقیدہ ایجاد ہوجائے تو کوئی بھی ان کے اماموں پر جھوٹے ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا ۔ اور کبھی بھی ان کے حق اور باطل میں شناخت نہیں کرسکتا۔ اور انہی تناقض گوئی کی وجہ سے بعض شیعیان ابو جعفر امام باقرعليه‌السلام کی امامت کا انکار کرنے لگے ۔(۱)

پس معلوم ہوا کہ دونوں مبنی کے مطابق شیعوں کے اماموں کے علم پر یہ اشکال وارد ہے ۔

جواب :

اماميه کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے امامان معصوم تمام احكام اور معارف الهي کے بارے میں کلی علم رکھتےہیں اس بات پر واضح دلائل بھی بیان کی گئی ہیں لیکن ممکن ہے وہ دلائل برادران اہل سنت کیلئے قابل قبول نہ ہوں۔

____________________

۱۔ نوبختي؛ فرق الشيعه

۲۳۱

چنانچه شيخ طوسي نے اپنی روایت کی كتاب تهذيب الاحكام کو انہی اختلافات کی وضاحت اور جواب کے طور پر لکھی ہے ۔

علامه شعراني اور علامه قزويني یہ دو شيعه دانشمندکا بھی یہی عقیدہ ہے کہ شیعوں کے امام تقیہ نہیں کرتے تھے بلکہ تقیہ کرنے کا اپنے ماننے والوں کو حکم دیتے تھے ۔

علامه شعراني کہتے ہیں : آئمہ تقيه نہیں کرتے تھے بلکہ صرف امر به معروف کیا کرتے تھے کیونکہ امامان تمام واقعیات سے باخبر تھے :اذا شائوا ان يعلموا علموا ۔کے مالک تھے ہمارے لئے تو تقیہ کرنا صدق آتا ہے لیکن آئمہعليهم‌السلام کیلئے صدق نہیں آتا کیونکہ وہ لوگ تمام عالم اسرار سے واقف ہیں ۔

علامه قزويني فرماتے ہیں :آئمہ تقيه نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ عالم تھے اور تمام اوقات اور وفات کی کیفیت اور نوعیت سے باخبرتھے ۔ اس

۲۳۲

لئے ٖٖٖصرف ہمیں تقیہ کا حکم دیتے تھے ۔(۱)

اس شبهه کا جواب

اولاً: علم امام ؑ کے دوسرے مبنی پر یه اشکال هے نه پهلے مبنی پر ، کیونکه ممکن هے جو پهلےمبنی کا قائل هے وه کهے امام ؑ اپنی موت اور مرنے کے وقت اور کیفیت سے آگاه نهیں تھے ، اس لئے جان کے خوف سے تقیه کرتے تھے ۔

ثانیاً : امام ؑ کا تقیه کرنا اپنی جان کے خوف سے نهیں بلکه ممکن هے اپنے اصحاب اور چاهنے والوں کی جان کے خوف سے هو؛ یا اهل سنت کے ساتھ مدارات اور اتحاد کی خاطر تقیه کئے هوں۔ دوسرے لفظوں میں تقیه کبھی بھی جان یا مال کے خوف کے ساتھ مختص نهیں هے ۔

____________________

۱۔ مجله نور علم، ش ۵۰ ـ ۵۱، ص ۲۴ ـ ۲۵۔

۲۳۳

ثالثاً: جو لوگ دوسرے مبنی کے قائل هیں ممکن هے کهه دیں که امام ؑ اپنی موت کے وقت اور کیفیت کا علم رکھتے تھے اور ساتھ هی جان کا خوف بھی کھاتے اور تقیه کے ذریعے اپنی جان بچانا چاهتے تھے ۔

ان دو شیعه عالم دین پر جو اشکال وارد هے یه هے ، که اگر آپ آئمہ طاہرین کے تقیه کا انکار کرتے هیں تو ان تمام روایتوں کا کیا جواب ديں گے که جن میں خود آئمہ طاهرین تقیه کے بهت سے فضائل بیان فرماتے هیں اور ان روایتوں کا کیا کروگے جو امام ؑ کے تقیه کرنے کو ثابت کرتی هیں؟!

علم امامؑ کے بارے میں مزید وضاحت

( فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا ءَاتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَ عَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ) ۔(۱)

"وہاں ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (خضر) کو پایا جسے ہم نے اپنے

____________________

۱ ۔ الکہف ۶۵۔

۲۳۴

پاس سے رحمت عطا کی تھی اور اپنی طرف سے علم سکھایا تھا"۔

علامہ طبرسیؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیۃ ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ جب اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبیلہ بنی مصطلق کے پاس زکوۃ جمع کرنے بھیجا تو قبیلہ والے بھی اسی خوشی میں ان کے استقبال کے لئے نکلے۔ دور جاہلیت میں ولید اور ان قبیلہ والوں کے درمیاں دشمنی تھی ۔ اس نے سوچا وہ لوگ ان کو قتل کرنے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف پلٹا اور کہنے لگا: انہوں نے زکات دینے سے انکار کیا۔ جبکہ یہ بالکل جھوٹ تھا ۔ اس وقت نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت غضبناک ہوئے اور ان کے ساتھ جنگ کرنے لے لئے آمادہ ہوگئے۔ اس وقت یہ آیۃ نازل ہوئی ۔(۱)

اس آیۃ شریفہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی عام حالت میں علم غیبت نہیں رکھتے ہیں ورنہ جب وہ جھوٹ بولے تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے تھا۔ ہاں

____________________

۱ ۔ مجمع البیان:۱۳۲/۵۔

۲۳۵

اگر خود جاننا چاہیں تو ضرور آگاہ ہوسکتے ہیں۔

اس سے وہ اشکال دور ہوجاتا ہے کہ امامؑ علم غیب رکھتے ہوئے بھی زہر پی کر شہید ہوئے ۔

امامؑ اور نبی کا سلسله خدا سے ملا هوا هے لذا وه علم رکھتاهےمگر بندوں کے ساتھ بندوں والا برتاو کرتا هے اسی طرح امامؑ اور نبی بھی علم و قدرت رکھتے هیں لیکن بندوں کے ساتھ معمولی عام برتاؤ کرتے هیں اپنی قدرت استعمال نهیں کرتے ، جیسے الله تعالیٰ بھی کبھی کبھی اپنی قدرت کی جھلکیاں دکھاتا هے ،جیسے نیل میں حضرت موسیٰ کیلئے راسته پیدا کرنا اور پھر اسی نیل میں فرعون کو ڈبونا ۔ ایسے هی ائمه اور انبیاء بھی کبھی کبھی طاقت کا اظهار کرتے هوئے بددعا سے لوگوں کو متوجه کردیتے هیں که اگر چاهے تو یه بھی کرسکتا هے اسی سلسلے کی ایک کڑی کربلا هے ، جس میں امامؑ نے انسانیت کو معراج کا سیر کرایا ، معمول کے مطابق زندگی گزار کرامتحان کی منزلوں سے گزرے هیں۔

لیکن کبھی کبھی جیسے خدا بھی اپنی قدرت دکھاتا هے ویسے هی امامؑ بھی معجزے دکھاکر

۲۳۶

اپنی طاقت دکھاتے هیں۔ جیسے خدا نے خدا هوکے حلم کا مظاهرہ کرتا هے ویسے هی امامؑ اور نبی ، امامؑ هوکر صبر کرتے هیں لیکن صبر سے یه نه سمجھ لینا که مجبور تھے۔ کیونکه مجبور صبر نهیں کرتا۔

اس سلسلے میں دو باتیں یاد دلاؤں: مولا نے شب عاشور کو انتظام کیا تھا که خیمے کے اطراف میں خندق کہودا جائے اور آگ جلائے جائیں تاکه دشمن خیمے کے پشت سے حمله آور نه هوسکے ۔ اس وقت ایک ظالم اور ملعون آیا اور اپنی سنگدلی کا اظهار کیا جسے کس زبان سے بیان کروں؟ گستاخی کی : حسینؑ کیا تم نے دنیا میں هی آگ تیار کرلی ؟ یهاں امامؑ نے اپنی الٰہی طاقت کا مظاهره کرتے هوئے هاتھوں کو بلند کرکے بد دعا کی که پالنے والے اسے جهنم کی آگ سے پهلے دنیا کی آگ کا مزه چکھا دے ۔ اسی وقت کہوڑا خندق میں گرا اور وه اسی میں جل گیا۔

ایک اور ملعون نکلا ش طبرسی یشه کے جام میں پانی بھرا پھر حسینؑ کے خیموں کے قریب آیا اور جام کو هلاتے هوئے کها : حسینؑ !یه دیکہو پانی موجود هے لیکن تم پیاسے هو ، تمہارے بچے پیاسے هیں ۔ اس وقت مولانے بد دعا کی پالنے والے اسے

۲۳۷

ایسی پیاس دے دے جوبجھ نه سکے ۔ گہوڑے کے رکاب سے گرا اورپیر رکاب میں پھنسا کھسیٹتا هوا زخمی کردیا پھر آخر تک پیاس پیاس کهتے هوئے جهنم واصل هوا ۔ عزیزو اس ملعون کا گلاس میں پانی چھلکنا اکبر نےبھی دیکھا هوگا قاسم نےبھی دیکھا هوگا اور سقای حرم نے بھی دیکھا هوگا ۔

۴۔تقيه اور عصمت امامؑ

احکام اسلام کی تبلیغ اور ترویج میں ایک عام دیندارشخص سے بھی ممکن نهیں هے که وه کسی بات کو خدا اور رسول کی طرف نسبت دے دے ۔ تو یه کیسے ممکن هے که امامؑ تقیه کرتے هوئے ایک ناحق بات کو خدا کی طرف نسبت دے ؟!یه حقیقت میں امامؑ کے دین اور عصمت سے انکار کرنے کا مترادف هے ! ۔(۱)

____________________

۱ ۔ محسن امين، عاملي؛ نقض الوشيعه ، ص ۱۷۹۔

۲۳۸

جواب یه هے که اگر هم تقیه کی مشروعیت کو آیات کے ذریعےجائز مانتے هیں چنانچه اهل سنت بھی اس کے قائل هیں که الله تعالی نے تقیه کو حکم کلی قرار دیا هے۔ اورهم بھی یہ نهیں کهتے که امامعليه‌السلام نے حکم اولی کےعنوان سے اس بات کو خدا کی طرف نسبت دی هے ؛ ليکن بعنوان حکم ثانوی کسی بات کو خدا کی طرف نسبت دینے میں کوئی اشکال نهیں هے ۔جیسے خود الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں مجبور شخص کیلئے مردار کھانے کوبحکم ثانوی ، جائز قرار دیا هے ۔

ثانياً: شيعه اپنے اماموں کوصرف راوی کی حیثیت سے قبول نهیں کرتے بلکه انهیں خودشارعین میں سے مانتے هیں ۔جو اپنے صلاح دید کے مطابق حکم جاری کرتےهیں ۔

۵۔ بجائےتقيه؛ خاموشی کیوں اختیار نهیں کرتے؟

اشکال: تقیه کے موقع پر امامؑ بطور تقیه جواب دینے کے بجائے خاموشی کیوں

۲۳۹

اختیار نهیں کرتے تھے؟!

جواب :

اولاً: امام معصومعليهم‌السلام نےبعض موارد میں خاموشی بھی اختیار کی هے اور کبھی طفره بھی کیا هے اورکبھی سوال اور جواب کو جابجا بھی فرمایا ہے۔

ثانياً:سكوت خود تعريف تقيه کے مطابق ایک قسم کاتقیه هے که جسے تقیه کتمانیه کها گیاهے ۔

ثالثًا: کبھی ممکن هے که خاموش رهنا ، زیاده مسئله کو خراب کرنے کاباعث بنے۔ جیسے اگر سوال کرنے والا حکومت کا جاسوس هو تو اس کو گمراه کرنے کیلئے تقیةً جواب دینا هي زياده فائده مند هے ۔(۱)

رابعاً: کبھی امامؑ کے تقیه کرنے کے علل اور اسباب کو مد نظر رکھتے هوئے

____________________

۱ ۔ فخر رازي؛ محصل افكار المتقدمين من الفلاسفه والمتكلمين،ص ۱۸۲۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336