تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں11%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86566 / ڈاؤنلوڈ: 3123
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

میں مبتلا ہو جائے ۔ ایسی صورت میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ امر بہ معروف و نہی از منکر کرنا جائز نہیں ہے ۔

۲ ـ وہ روایات جو ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کا اظہار کرنے کو ممدوح قرار دیتی ہیں ، وہ خبر واحد ہیں جو ادلہ عقلی کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتیں ۔ یعنی تعارض کے موقع پر دلیل عقلی مقدم ہو گی ،اس سے دفع ضرر اور حفظ جان مراد ہے ۔(۱)

ب:امام معصومعليهم‌السلام کاتقيه سے مربوط شبهات

o تقيه بيان شريعت امامؑ کي ضد ہے۔

o تقيه روايات «سلوني قبل ان تفقدوني » سے تضاد رکھتا ہے ۔

____________________

۱ ۔ دكتر محمود يزدي؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي، ص ۲۸۹۔

۲۲۱

o تقيه كلام امام ؑ پر عدم اعتمادکاموجب ـ

o تقيه یعنی تحليل حرام و تحريم حلال۔

o تقيه شجاعت کی ضد۔

o جہاں سکوت کرنا ممکن ہو وہاں تقیہ کی کیا ضرورت؟

o تقيه کے علاوه اور بھي راستے هيں ۔

o کیا تقيه ايك اختصاصي حكم ہے يا عمومي؟

o تقيه کیا خلاف عصمت نہیں؟

o تقیہ کیا علم امامؑ سے منافات نہیں رکھتا ؟۔

o تقيه کرنے کي صورت میں کیا دین کا دفاع ممکن ہے ؟

o کیوں ایک گروه نے تقيه كیا اور دوسرےگروه نے نہیں کیا ؟

اشکال کرنے والا اس مرحلے میں تقیہ کے شرعی جواز کو فی الجملہ قبول کرتا ہے ، کہ بعض موارد میں مؤمنین کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے ۔ لیکن دینی رہنماؤں جیسے امام

۲۲۲

معصومعليهم‌السلام کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر دین کے رہنما تقیہ کریں تو درج ذیل اشکالات وارد ہوسکتے ہیں :

۱۔تقيه اور امامعليه‌السلام کا بیان شريعت

شیعہ عقیدے کے مطابق امام معصومعليهم‌السلام کے وجود مبارک کوشریعت اسلام کے بیان کیلئے خلق کیا گیا ہے ۔ لیکن اگر یہ حضرات تقیہ کرنے لگیں تو بہت سارے احکام رہ جائيں گےاور مسلمانوں تک نہیں پہنچ پائيں گے۔ اور ان کي بعثت کا فلسفہ بھي ناقص ہو گا۔

اسی سلسلے میں اہل سنت کے ایک عالم نے اشکال کیا ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے عليعليه‌السلام کو اظهار حق کی خاطر منصوب کیا ہے تو تقیہ کيا معني رکھتا ہے ؟!

اس شبہہ کا جواب یہ ہے كه معصومینعليهم‌السلام نے بہترین انداز میں اپنے وظیفے پر

۲۲۳

عمل کیا ہے لیکن ہمارے مسلمان بھائیوں نے ان کے فرامين کو قبول نہیں کیا ۔

چنانچه حضرت عليعليه‌السلام کے بارے میں منقول ہے آپ ۲۵ سال خانہ نشین ہوئے تو قرآن مجید کی جمع آوری ، آیات کی شأن نزول ، معارف اسلامی کی توضیح اور تشریح کرنے میں مصروف ہوگئے ۔ اور ان مطالب کو اونٹوں پر لاد کر مسجد میں مسلمانوں کے درمیان لے گئے تاکہ ان معارف سے لوگ استفادہ کریں ؛ لیکن خلیفہ وقت نے اسے قبول کرنے سے انکارکردیا ۔(۱)

جب امام نے يه حالت ديکھي تو خاص شاگردوں کي تربيت اور ان کو اسلامي احکامات اور دوسرے معارف کوتعليم ديتے هوئے اپنا شرعي وظيفه انجام دينے لگے ؛ ليکن يه هماري کوتاهي تھي که هم نے ان کے فرامين کو پس پشت ڈالا اور اس پر عمل نهيں کيا ۔

____________________

۱ ۔ محمد باقر حجتي؛ تاريخ قرآن كريم، ص ۳۸۷۔

۲۲۴

الف:امامعليه‌السلام کاتقيه اور اقوال

شيخ طوسي امام کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں:

۱. معتزلہ والے کہتے ہیں کہ امام کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ امام ؑ کا قول ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول کی طرح حجت ہے ۔

۲. اماميه والے کہتے ہیں کہ اگر تقیہ کے واجب ہونے کے اسباب نہ ہوں،کوئی اور مانع بھي موجود نہ ہو تو امام تقیہ کرسکتے ہیں ۔

شيخ طوسي کے ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام تقیہ کرسکتے ہیں بشرطیکہ شرائط موجود ہوں۔

ب:امامعليه‌السلام کیلئے تقیہ جائز ہونے کے شرائط

 شرعی وظیفوں پر عمل پيرا هونا اور احکام کی معرفت حاصل کرنا اگر فقط امام ؑ پر منحصر نہ ہو جیسے امام ؑ کا منصوص ہونا فقط امام ؑ کے قول پر منحصر نہیں ہے بلکہ قول پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور عقل سلیم کے ذریعے سے بھی مکلف

۲۲۵

جان سکتا ہے تو ايسي صورت ميں امام ؑ تقیہ کرسکتے ہیں ۔

 اس صورت میں امام ؑ تقیہ کرسکتے ہیں کہ آپ کا تقیہ کرنا حق تک پہنچنے میں رکاوٹ نه بنے ۔ اورساتھ ہی شرائط بھی پوری ہوں۔

 جن موارد میں امام ؑ تقیہ کررہے ہیں وہاں ہمارے پاس واضح دلیل موجود ہوکہ معلوم ہوجائے کہ امام ؑ حالت تقیہ میں حکم دے رہے ہیں ۔

اس بنا پر اگر احکام کی معرفت امام ؑ میں منحصر نہ ہو ، یا امام ؑ کا تقیہ کرنا حق تک جانے میں رکاوٹ نہ ہو اور کوئی ایسی ٹھوس دلیل بھی نہ ہو جو امام ؑ کے تقیہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ہو ں اور ساتھ ہی اگر معلوم ہو کہ امام ؑ حالت تقیہ میں ہیں تو کوئی حرج نہیں امام ؑ تقیہ کرسکتے ہیں ۔(۱)

____________________

۱ ۔ محمود يزدي؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي، ص۳۳۳۔

۲۲۶

۲۔ تقيه، فرمان امامعليه‌السلام پر عدم اعتماد کاباعث

شیعہ مخالف لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے ائمہ معصومینعليهم‌السلام وسیع پیمانے پر تقیہ کرنے لگیں تو یہ احتمال ساری روایات جو ان حضرات سے ہم تک پہنچی ہیں ،میں پائی جاتی ہے کہ ہر روایت تقیہ کرکے بیان کی ہوں ۔اس صورت میں کسی ایک روایت پر بھی ہم عمل نہیں کرسکتے ۔کيونکه کوئي بھی روایت قابل اعتماد نہیں هوسکتي۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہمارے آئمہ معصومینعليهم‌السلام کا تقیہ کرنا کسی قواعد و ضوابط کےبغیر ہو تو یہ اشکال وارد ہے ۔ لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ تقیہ کرنے کیلئے خواہ وہ تقیہ کرنے والا امام ہو یا عوام یا خواص ہو ، خاص شرائط ہیں اگر وہ شرائط نہ ہوں تو تقیہ کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے ۔اور جب اماموں کے تقیہ کے علل و اسباب ان کو معلوم ہوجائیں تو یہ اشکال بھی باقی نہیں رہے گا ۔

۲۲۷

۳۔تقيه اور علم امام

علم امامعليه‌السلام کے بارے میں شيعه متكلمين کےدرمیان دو نظریے پائے جاتے ہیں :اور یہ اختلاف بھی روایات میں اختلاف ہونے کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے ۔

پہلا نظریہ :

قدیم شيعه متكلمين جیسے ، سيد مرتضي وغیرہ معتقد ہیں کہ امام ؑتمام احکامات اور معارف اسلامی کا علم رکھتےہیں ۔ لیکن مختلف حادثات اور بعض واقعات جیسے اپنی رحلت کب ہوگی؟ یا دوسروں کی موت کب واقع ہوگی ؟و۔۔۔بصورت موجبہ جزئیہ ہے نه موجبہ کلیہ ۔

دوسرا نظریہ :

علم امامعليه‌السلام دونوں صورتوں میں یعنی تمام احکامات دین اور اتفاقی حادثات کے بارے میں بصورت موجبہ کلیہ علم رکھتے ہیں ۔(۱)

____________________

۱ ۔ كليني ؛ اصول كافي، ج۱ ، ص ۳۷۶۔

۲۲۸

بهر حال دونوں نظریہ کا اس بات پر اتفاق هے كه علم امامعليه‌السلام احكام اور معارف اسلامي کے بارے میں بصورت موجبه ہے ۔ وہ شبہات جو تقیہ اور علم امام سے مربوط ہے وہ بعض کے نزدیک دونوں مبنی میں ممکن ہے ۔ اور بعض کے نزدیک صرف دوسرے مبنی میں ممکن ہے ۔

پهلا اشکال:

تقيه اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آئمہعليهم‌السلام تمام فقهي احكام اور اسلامي معارف کا علم نہیں رکھتے ہیں اور اس کی توجیہ کرنےاور روایات میں موجود اختلاف کو ختم کرنے کیلئے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں۔

اس اشکال کو سليمان ابن جرير زيدي نے مطرح کیا ہے ،جوعصر آئمہعليهم‌السلام میں زندگی گزارتا تھا ۔وہ کہتا ہے کہ رافضیوں کے امام نے اپنے پیروکاروں کیلئے دو عقیدےبیان کئے ہیں۔ جن کی موجودگی میں کوئی بھی مخالف ان کے ساتھ بحث و مباحثہ میں نہیں جیت سکتا۔

۲۲۹

پہلا عقیدہ بداء ہے ۔

دوسرا عقیدہ تقيه ہے۔

شيعہ اپنے اماموں سے مختلف مواقع پر سوال کرتے تھے اور وہ جواب دیاکرتے تھے اور شیعہ ان روایات اور احادیث کو یاد رکھتے اور لکھتے تھے ،لیکن ان کے امام ، چونکہ کئی کئی مہینے یا سال گزرجاتے اور ان سے مسئلہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا ؛ جس کی وجہ سے وہ پہلے دئے ہوئے جوابات بھی بھول جاتے تھے ۔ کیونکہ اپنے دئے گئے جوابات کو یاد نہیں رکھتے تھے اس لئے ایک ہی سوال کے مختلف اور متضاد جوابات دئے جاتے تھے ۔اورشیعه جب اپنے اماموں پر ان اختلافات کے بارے میں اشکال کرتےتھے تو توجیہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہمارے جوابات تقیۃً بیان ہوئے ہیں ۔اور ہم جو چاہیں اور جب چاہیں جواب دے سکتے ہیں کیونکہ یہ ہمارا حق ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ کیا چیز تمہارے مفاد میں ہے اور تمہاری بقا اور سالمیت کس چیز میں ہے ۔اور تمہارے دشمن کب تم سے دست بردار ہونگے ۔

۲۳۰

سليمان آگے بیان کرتا ہے : پس جب ایسا عقیدہ ایجاد ہوجائے تو کوئی بھی ان کے اماموں پر جھوٹے ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا ۔ اور کبھی بھی ان کے حق اور باطل میں شناخت نہیں کرسکتا۔ اور انہی تناقض گوئی کی وجہ سے بعض شیعیان ابو جعفر امام باقرعليه‌السلام کی امامت کا انکار کرنے لگے ۔(۱)

پس معلوم ہوا کہ دونوں مبنی کے مطابق شیعوں کے اماموں کے علم پر یہ اشکال وارد ہے ۔

جواب :

اماميه کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے امامان معصوم تمام احكام اور معارف الهي کے بارے میں کلی علم رکھتےہیں اس بات پر واضح دلائل بھی بیان کی گئی ہیں لیکن ممکن ہے وہ دلائل برادران اہل سنت کیلئے قابل قبول نہ ہوں۔

____________________

۱۔ نوبختي؛ فرق الشيعه

۲۳۱

چنانچه شيخ طوسي نے اپنی روایت کی كتاب تهذيب الاحكام کو انہی اختلافات کی وضاحت اور جواب کے طور پر لکھی ہے ۔

علامه شعراني اور علامه قزويني یہ دو شيعه دانشمندکا بھی یہی عقیدہ ہے کہ شیعوں کے امام تقیہ نہیں کرتے تھے بلکہ تقیہ کرنے کا اپنے ماننے والوں کو حکم دیتے تھے ۔

علامه شعراني کہتے ہیں : آئمہ تقيه نہیں کرتے تھے بلکہ صرف امر به معروف کیا کرتے تھے کیونکہ امامان تمام واقعیات سے باخبر تھے :اذا شائوا ان يعلموا علموا ۔کے مالک تھے ہمارے لئے تو تقیہ کرنا صدق آتا ہے لیکن آئمہعليهم‌السلام کیلئے صدق نہیں آتا کیونکہ وہ لوگ تمام عالم اسرار سے واقف ہیں ۔

علامه قزويني فرماتے ہیں :آئمہ تقيه نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ عالم تھے اور تمام اوقات اور وفات کی کیفیت اور نوعیت سے باخبرتھے ۔ اس

۲۳۲

لئے ٖٖٖصرف ہمیں تقیہ کا حکم دیتے تھے ۔(۱)

اس شبهه کا جواب

اولاً: علم امام ؑ کے دوسرے مبنی پر یه اشکال هے نه پهلے مبنی پر ، کیونکه ممکن هے جو پهلےمبنی کا قائل هے وه کهے امام ؑ اپنی موت اور مرنے کے وقت اور کیفیت سے آگاه نهیں تھے ، اس لئے جان کے خوف سے تقیه کرتے تھے ۔

ثانیاً : امام ؑ کا تقیه کرنا اپنی جان کے خوف سے نهیں بلکه ممکن هے اپنے اصحاب اور چاهنے والوں کی جان کے خوف سے هو؛ یا اهل سنت کے ساتھ مدارات اور اتحاد کی خاطر تقیه کئے هوں۔ دوسرے لفظوں میں تقیه کبھی بھی جان یا مال کے خوف کے ساتھ مختص نهیں هے ۔

____________________

۱۔ مجله نور علم، ش ۵۰ ـ ۵۱، ص ۲۴ ـ ۲۵۔

۲۳۳

ثالثاً: جو لوگ دوسرے مبنی کے قائل هیں ممکن هے کهه دیں که امام ؑ اپنی موت کے وقت اور کیفیت کا علم رکھتے تھے اور ساتھ هی جان کا خوف بھی کھاتے اور تقیه کے ذریعے اپنی جان بچانا چاهتے تھے ۔

ان دو شیعه عالم دین پر جو اشکال وارد هے یه هے ، که اگر آپ آئمہ طاہرین کے تقیه کا انکار کرتے هیں تو ان تمام روایتوں کا کیا جواب ديں گے که جن میں خود آئمہ طاهرین تقیه کے بهت سے فضائل بیان فرماتے هیں اور ان روایتوں کا کیا کروگے جو امام ؑ کے تقیه کرنے کو ثابت کرتی هیں؟!

علم امامؑ کے بارے میں مزید وضاحت

( فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا ءَاتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَ عَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ) ۔(۱)

"وہاں ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (خضر) کو پایا جسے ہم نے اپنے

____________________

۱ ۔ الکہف ۶۵۔

۲۳۴

پاس سے رحمت عطا کی تھی اور اپنی طرف سے علم سکھایا تھا"۔

علامہ طبرسیؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیۃ ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ جب اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبیلہ بنی مصطلق کے پاس زکوۃ جمع کرنے بھیجا تو قبیلہ والے بھی اسی خوشی میں ان کے استقبال کے لئے نکلے۔ دور جاہلیت میں ولید اور ان قبیلہ والوں کے درمیاں دشمنی تھی ۔ اس نے سوچا وہ لوگ ان کو قتل کرنے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف پلٹا اور کہنے لگا: انہوں نے زکات دینے سے انکار کیا۔ جبکہ یہ بالکل جھوٹ تھا ۔ اس وقت نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت غضبناک ہوئے اور ان کے ساتھ جنگ کرنے لے لئے آمادہ ہوگئے۔ اس وقت یہ آیۃ نازل ہوئی ۔(۱)

اس آیۃ شریفہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی عام حالت میں علم غیبت نہیں رکھتے ہیں ورنہ جب وہ جھوٹ بولے تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے تھا۔ ہاں

____________________

۱ ۔ مجمع البیان:۱۳۲/۵۔

۲۳۵

اگر خود جاننا چاہیں تو ضرور آگاہ ہوسکتے ہیں۔

اس سے وہ اشکال دور ہوجاتا ہے کہ امامؑ علم غیب رکھتے ہوئے بھی زہر پی کر شہید ہوئے ۔

امامؑ اور نبی کا سلسله خدا سے ملا هوا هے لذا وه علم رکھتاهےمگر بندوں کے ساتھ بندوں والا برتاو کرتا هے اسی طرح امامؑ اور نبی بھی علم و قدرت رکھتے هیں لیکن بندوں کے ساتھ معمولی عام برتاؤ کرتے هیں اپنی قدرت استعمال نهیں کرتے ، جیسے الله تعالیٰ بھی کبھی کبھی اپنی قدرت کی جھلکیاں دکھاتا هے ،جیسے نیل میں حضرت موسیٰ کیلئے راسته پیدا کرنا اور پھر اسی نیل میں فرعون کو ڈبونا ۔ ایسے هی ائمه اور انبیاء بھی کبھی کبھی طاقت کا اظهار کرتے هوئے بددعا سے لوگوں کو متوجه کردیتے هیں که اگر چاهے تو یه بھی کرسکتا هے اسی سلسلے کی ایک کڑی کربلا هے ، جس میں امامؑ نے انسانیت کو معراج کا سیر کرایا ، معمول کے مطابق زندگی گزار کرامتحان کی منزلوں سے گزرے هیں۔

لیکن کبھی کبھی جیسے خدا بھی اپنی قدرت دکھاتا هے ویسے هی امامؑ بھی معجزے دکھاکر

۲۳۶

اپنی طاقت دکھاتے هیں۔ جیسے خدا نے خدا هوکے حلم کا مظاهرہ کرتا هے ویسے هی امامؑ اور نبی ، امامؑ هوکر صبر کرتے هیں لیکن صبر سے یه نه سمجھ لینا که مجبور تھے۔ کیونکه مجبور صبر نهیں کرتا۔

اس سلسلے میں دو باتیں یاد دلاؤں: مولا نے شب عاشور کو انتظام کیا تھا که خیمے کے اطراف میں خندق کہودا جائے اور آگ جلائے جائیں تاکه دشمن خیمے کے پشت سے حمله آور نه هوسکے ۔ اس وقت ایک ظالم اور ملعون آیا اور اپنی سنگدلی کا اظهار کیا جسے کس زبان سے بیان کروں؟ گستاخی کی : حسینؑ کیا تم نے دنیا میں هی آگ تیار کرلی ؟ یهاں امامؑ نے اپنی الٰہی طاقت کا مظاهره کرتے هوئے هاتھوں کو بلند کرکے بد دعا کی که پالنے والے اسے جهنم کی آگ سے پهلے دنیا کی آگ کا مزه چکھا دے ۔ اسی وقت کہوڑا خندق میں گرا اور وه اسی میں جل گیا۔

ایک اور ملعون نکلا ش طبرسی یشه کے جام میں پانی بھرا پھر حسینؑ کے خیموں کے قریب آیا اور جام کو هلاتے هوئے کها : حسینؑ !یه دیکہو پانی موجود هے لیکن تم پیاسے هو ، تمہارے بچے پیاسے هیں ۔ اس وقت مولانے بد دعا کی پالنے والے اسے

۲۳۷

ایسی پیاس دے دے جوبجھ نه سکے ۔ گہوڑے کے رکاب سے گرا اورپیر رکاب میں پھنسا کھسیٹتا هوا زخمی کردیا پھر آخر تک پیاس پیاس کهتے هوئے جهنم واصل هوا ۔ عزیزو اس ملعون کا گلاس میں پانی چھلکنا اکبر نےبھی دیکھا هوگا قاسم نےبھی دیکھا هوگا اور سقای حرم نے بھی دیکھا هوگا ۔

۴۔تقيه اور عصمت امامؑ

احکام اسلام کی تبلیغ اور ترویج میں ایک عام دیندارشخص سے بھی ممکن نهیں هے که وه کسی بات کو خدا اور رسول کی طرف نسبت دے دے ۔ تو یه کیسے ممکن هے که امامؑ تقیه کرتے هوئے ایک ناحق بات کو خدا کی طرف نسبت دے ؟!یه حقیقت میں امامؑ کے دین اور عصمت سے انکار کرنے کا مترادف هے ! ۔(۱)

____________________

۱ ۔ محسن امين، عاملي؛ نقض الوشيعه ، ص ۱۷۹۔

۲۳۸

جواب یه هے که اگر هم تقیه کی مشروعیت کو آیات کے ذریعےجائز مانتے هیں چنانچه اهل سنت بھی اس کے قائل هیں که الله تعالی نے تقیه کو حکم کلی قرار دیا هے۔ اورهم بھی یہ نهیں کهتے که امامعليه‌السلام نے حکم اولی کےعنوان سے اس بات کو خدا کی طرف نسبت دی هے ؛ ليکن بعنوان حکم ثانوی کسی بات کو خدا کی طرف نسبت دینے میں کوئی اشکال نهیں هے ۔جیسے خود الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں مجبور شخص کیلئے مردار کھانے کوبحکم ثانوی ، جائز قرار دیا هے ۔

ثانياً: شيعه اپنے اماموں کوصرف راوی کی حیثیت سے قبول نهیں کرتے بلکه انهیں خودشارعین میں سے مانتے هیں ۔جو اپنے صلاح دید کے مطابق حکم جاری کرتےهیں ۔

۵۔ بجائےتقيه؛ خاموشی کیوں اختیار نهیں کرتے؟

اشکال: تقیه کے موقع پر امامؑ بطور تقیه جواب دینے کے بجائے خاموشی کیوں

۲۳۹

اختیار نهیں کرتے تھے؟!

جواب :

اولاً: امام معصومعليهم‌السلام نےبعض موارد میں خاموشی بھی اختیار کی هے اور کبھی طفره بھی کیا هے اورکبھی سوال اور جواب کو جابجا بھی فرمایا ہے۔

ثانياً:سكوت خود تعريف تقيه کے مطابق ایک قسم کاتقیه هے که جسے تقیه کتمانیه کها گیاهے ۔

ثالثًا: کبھی ممکن هے که خاموش رهنا ، زیاده مسئله کو خراب کرنے کاباعث بنے۔ جیسے اگر سوال کرنے والا حکومت کا جاسوس هو تو اس کو گمراه کرنے کیلئے تقیةً جواب دینا هي زياده فائده مند هے ۔(۱)

رابعاً: کبھی امامؑ کے تقیه کرنے کے علل اور اسباب کو مد نظر رکھتے هوئے

____________________

۱ ۔ فخر رازي؛ محصل افكار المتقدمين من الفلاسفه والمتكلمين،ص ۱۸۲۔

۲۴۰

واقعیت کے خلاف اظهار کرنا ضروری هوتا هے ۔ جیسے اپنے چاهنے والوں کی جان بچانے کی خاطر اپنے عزیزوں کو دشمنوں کے درمیان چھوڑنا ۔ اور یه صرف اور صرف واقعیت کے خلاف اظهار کرکے هی ممکن ہوتاهے ۔اور کبھی دوستوں کی جان بچانے کیلئے ،اهل سنت کے فتویٰ کے مطابق عمل کرنے پر مجبور هوجانا۔ چنانچه امام موسي كاظم نے علي ابن يقطين کو اهل سنت کے طریقے سے وضو کرنے کا حکم دیا تھا ۔(۱)

۶۔تقيه کے بجائے توریه کیوں نهیں کرتے ؟!

شبهه:

امامعليه‌السلام موارد تقيه میں توریه کرسکتے هیں، تو توریه کیوں نهیں کرتے ؟ تاکه جھوٹ بولنے میں مرتکب نه هوں۔(۲)

اس شبهه کا جواب:

____________________

۱ ۔ فخر رازي؛ محصل افكار المتقدمين من الفلاسفه والمتكلمين ص ۱۹۳۔

۲ ۔ وسائل شيعه، ج۱، ص ۲۱۳۔

۲۴۱

اولاً:تقیه کے موارد میں توریه کرنا خود ایک قسم کا تقیه هے ۔

ثانياً: همارا عقیده هے که اگر امامؑ کیلئے هر جگه توریه کرنے کا امکان هوتا تو ایسا ضرور کرتے ۔

ثالثاً:بعض جگهوں پر امامؑ کیلئے توریه کرنا ممکن نهیں هے۔

۷۔تقيه اور دین کا دفاع

شبهه:

اس میں کوئی شک نهیں که الله کے نیک بندوں کی ذمه داریوں میں سے ایک اهم ذمه داری ، الله تعالیٰ کے دین کی حفاظت کرنا هے ۔اگر چه اس راه میں قسم قسم کی اذیتیں اور مصیبتیں برداشت کرنا پڑیں ۔اور اهل بيت ؑبالخصوص ان ذمه داری کو نبھانے کیلئے زیاده حقدار هیں ۔(۱)

____________________

۱ ۔ ابوالقاسم، آلوسي؛ روح المعاني،ج۳، ص۱۴۴۔

۲۴۲

جواب:

آئمہ طاهرین نے جب بھی دین کیلئے کوئی خطر ہ محسوس کیا اور اپنے تقیه کرنے کو اسلام پر کوئی مشکل وقت آنے کا سبب پایا تو تقیه کو ترک کرتے هوئے دین کی حفاظت کرنے میں مصروف رہے ۔اور اس راه میں اپنی جان دینے سے بھی دریغ نهیں کیا ۔جس کا بهترین نمونه سالار شهیدان اباعبدالله کا دین مبین اسلام کا دفاع کرتے هوئے اپنی جان کے علاوه اپنے عزیزوں کی جانوں کا بھی نذرانه دینے سے دریغ نهیں کیا ۔

لیکن کبھی ان کا تقیه کرنا اسلام پر ضرر پهنچنے ، مسلمانوں کا گروهوں میں بٹنے ، اسلام دشمن طاقتوں کے کامیاب هونے کا سبب بنتا تھاتو وه لوگ ضرور تقیه کرتے تھے چنانچه اگر عليعليه‌السلام رحلت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد تقیه نه کرتے اور مسلحانه جنگ کرنے پر اترآتے تو اسلام خطرے میں پڑ جاتا ۔ اور جو ابھي ابھي مسلمان هو چکے تھے ، دوباره کفر کي طرف پلٹ جاتے ۔کيونکه امامؑ کو اگرچه ظاهري فتح حاصل هوجاتي ؛ ليکن لوگ یہ بہتان باندھتے که انهوں نے پیغمبرؐکے جانے کے

۲۴۳

بعد ان کي امت پر مسلحانه حمله کرکے لوگوں کو اسلام سے متنفر کيا ۔

پس معلوم هوا که آئمہ طاهرین کا تقیه کرنا ضرور به ضرور اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر تھا۔

۸۔تقيه «سلوني قبل ان تفقدوني » کے منافی

امام عليعليه‌السلام فرماتے هیں : مجھ سے پوچھو قبل اس کے که میں تمہارے درمیان سے اٹھ جاؤں ، اور تم مجھے پانه سکو ۔

اس روایت میں سوال کرنے کا حکم فرمارهے هیں ، جس کا لازمه یه هے که جو کچھ آپ بطور جواب فرمائیں گے ، اسے قبول کرنا هم پر واجب هوگا؛ اور امام ؑ کا تقیه کرنے کا لازمه یه هے که بعض سوال کا امام ؑ جواب نهیں دیں گے۔

۲۴۴

جواب :

یه امير المؤمنين نے اس وقت فرمایا ، که جب آپ برسر حکومت تھے ؛ جس وقت تقیه کے سارے علل و اسباب مفقود تھے ۔یعنی تقیه کرنے کی ضرورت نه تھی۔اور جو بھی سوال آپ سے کیا جاتا ،اس کا جواب تقیه کے بغیر کاملاً دئے جاسکتے تھے ۔ البته اس سنهرے موقع سے لوگوں نے استفاده نهیں کیا ۔

لیکن همارے دیگر آئمہ طاهرین کو اتنی کم مدت کابھی موقع نهیں ملا۔ یهی وجه هے که بقیه اماموں سے ایسا جمله صادر نهیں هوا ۔ اگرچه شیعه اور سنی سوال کرنے والوں کو احکام بیان کرنے میں ذره برابر کوتاهی نهیں کی ۔

امام سجادعليه‌السلام سے روايت هے که هم پر لازم نهیں هے که همارے شیعوں کے هر سوال کا جواب دیدیں ۔اگر هم چاهیں تو جواب دیں گے ، اور اگر نه چاهیں تو گريز

۲۴۵

کریں گے ۔(۱)

۹۔تقيه ، شجاعت کے منافی

اس شبهه کی وضاحت کچھ یوں هے که شیعوں کا عقیده هے که ان کے سارے امام ؑ انسانیت کے اعلاترین کمال اور فضائل کے مرتبے پر فائز هیں ۔ یعنی هر کمال اور صفات بطور اتم ان میں پائے جاتے هیں ۔ اور شجاعت بھی کمالات انسانی میں سے ایک هے ۔

لیکن تقیه اور واقعیت کے خلاف اظهار کرنا بهت سارے مواقع پر جانی خوف کی وجه سے هے ۔

____________________

۱۔ وسائل الشيعه، ج ۱۸، ص۴۳۔

۲۴۶

اس کے علاوه اس سخن کا مضمون یه هے که همارے لئے الله تعالیٰ نے ایسے رهنما اور امام بھیجے هیں، جو اپنی جان کےخوف کی وجه سے پوری زندگی حالت تقیه میں گزاری ۔(۱)

جواب:

اولاً شجاعت اور تهور میں فرق هے ۔ شجاعت حد اعتدال اور درمیانی راه هے لیکن تهور افراط ہے اور بزدلی تفریط ۔اور شجاعت کا یه معنی نهیں که بغیر کسی حساب کتاب کے اپنے کو خطرے میں ڈالدے ۔ بلکه جب بھی کوئی زیاده اهم مصلحت خطرے میں هو تو اسے بچانے کی کوشش کرے۔

ثانیاً: همارے لئے یه بات قابل قبول نهیں هے که تقیه کے سارے موارد میں خوف اور ترس هی علت تامه هو ، بلکه اور بھی علل و اسباب هیں جن کی وجه

____________________

۱ ۔ كمال جوادي؛ ايرادات و شبهات عليه شيعيان در هند و پاكستان۔

۲۴۷

سے تقیه کرنے پر مجبور هوجاتے هیں ۔جیسے اپنے ماننے والوں کی جان بچانے کی خاطر ، کبھی دوسرے مسلمانوں کے ساتھ محبت اور مودت ایجاد کرنے کی خاطر تقیه کرتے هیں ۔جن کا ترس یا خوف سےکوئی رابطه نهیں هے ۔

ثالثا ً: امامؑ کا خوف اپنی جان کے خوف کی وجه سے نهیں بلکه دین مقدس اسلام کے مصالح اور مفاد کے مد نظرامامؑ خائف هیں ، که ایسا نه هو ، دین کی مصلحتوں کو کوئی ٹھیس پهنچے ۔

اب اس اشکال یا بهتان (که آئمہ طاهرین نے اپنی آخری عمر تک تقیه کیا هے ) کا جواب یہ هے:

اولا ً : یه بالکل بیهوده بات هے اور تاریخ کے حقائق سے بهت دور هے ۔کیونکه هم آئمہ طاهرین کی زندگی میں دیکھتےهیں که بهت سارے موارد میں انهوں نے ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ بهادرانه طور پر جنگ و جهاد کیا هے۔ چنانچه امام موسی کاظمعليه‌السلام نے اس وقت ، که جب هارون نے چاها که باغ

۲۴۸

فدک آپ کو واپس کرے ، هارون الرشید کے کارندوں کے سامنے برملا عباسی حکومت کے نامشروع اور ناجائز هونے کا اعلان فرمایا ، اور مملکت اسلامی کی حدود کومشخص کیا ۔

ثانیا ً : هدایت بشر ی صرف معارف اسلامی کا برملا بیان کرنے پر منحصر نهیں هے ، بلکه بعض اهم اور مؤثر افراد تک اپنی بات کو منتقل کرنا بھی کافی ہے جو سارے لوگوں تک آپ کا پیغام پهنچنے کا باعث بنتا ہے۔

۱۰۔تقيه اور تحليل حرام و تحريم حلال

شبهه یه هے که اگر اس بات کو قبول کرلیں که امامؑ بعض فقهی مسائل کا جواب بطورتقیه دیں گے تو مسلماً ایسے موارد میں حکم واقعی (حرمت و حلیت )بدل جائےگا ۔ اور یه سبب بنے گا شریعت میں تحلیل حرام اور تحریم حلال

۲۴۹

کا، يعني حرام حلال ميں بدل جائے گا اورحلال حرام ميں ۔۔۔(۱)

اس شبهه کا جواب یه هے که شیعوں کے نزدیک تقیه سے مراد ؛اضطراری حالات میں بعنوان حکم ثانوی ،آیات اور روایاتِ معصومین کی پیروی کرنا هے ۔جیسا کہ قرآن مجید کا حکم ہے:

( إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزيرِ وَ ما أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَ لا عادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّه غَفُورٌ رَحيمٌ ) ۔(۲)

اس نے تمہارے اوپر بس مردار،خون،سورکاگوشت اور جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیاجائے اس کو حرام قرار دیا ہے پھر بھی اگر کوئی مضطر ہوجائے اور حرام کا طلب گار اور ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے والا نہ ہوتو اس کے لئے کوئی گناہ نہیں ہے۔بے شک خدا بخشنے والا اورمہربان ہے ۔

____________________

۱ ۔ احسان الهي ظهير؛ السنّه والشيعه، ص ۱۳۶۔

۲ ۔ بقرہ،۱۷۳۔

۲۵۰

تقيه کا حكم بھی دوسرے احکام جیسے اضطرار، اكراه ، رفع ضرر اور حرج کی طرح هے ، که ایک معین وقت کیلئے حکم اولی کو تعطیل کرکے اس کی جگه تقیه والا حکم لگايا جاتا هے ۔اور ان جیسے احکام ثانوی فقه اهلسنت میں بھی هر جگه موجود هیں۔

۱۱۔تقيه ا يك اختصاصي حكم هے يا عمومي؟

اس حصے میں درج ذیل مسائل کي بررسی کرنے کي ضرورت هے :

۱. قانون تقیه پر اعتقاد رکھنا کیا صرف شیعه امامیه کے ساتھ مختص هے یا دوسرے مکاتب فکر والےبھی اس کے قائل هیں ؟اور اسے ایک الهی قانون کی حیثیت سے قبول کرتے هیں ؟!

۲. کيا تقيه کوئی ایسا حکم هے جو هرجگه اور هرحال میں جائز هے یا اس کے لئے بھی خاص زمان یا مکان اور دیگر اسباب کا خیال رکھنا واجب هے ؟

۲۵۱

۳. کيا حكم تقيه ،متعلّق کے اعتبار سے عام هے یا خاص ؟ یعنی سارےلوگ ایک خاص شرائط میں اس پر عمل کرسکتے هیں ؟ یا بعض لوگ بطور استثنا هر عام و خاص شرائط کے بغیر بھی تقیه کرسکتے هیں ؟جیسے : پیغمبرعليه‌السلام و امامعليه‌السلام ؟

جواب:

دو احتمال هیں :

۱ ـ تقيه ايك حكم ثانوي عام هے که جس سے سارے لوگ استفاده کرسکتے هیں ۔

۲ ـ انبیاءؑ تقيه سے مستثنی هیں ۔ کیونکه عقلی طور پر مانع موجود هے ۔

شيخ طوسي اور اكثر مسلمانوں نے دوسرے احتمال کو قبول کیا هے ۔ كه پیغمبرعليه‌السلام کیلئے تقيه جائز نهیں هے ۔کیونکه تقیہ کی شناخت ، علم صرف اور صرف پیغمبرعليه‌السلام کے پاس هے ۔

صرف پیغمبر اور ان کے فرامین کے ذریعے شریعت کی شناخت اور علم ممکن هے ۔پس جب پیغمبرعليه‌السلام کیلئے تقیه جائز هو جائے تو همارے لئے کوئی اور راسته

۲۵۲

باقی نهیں رهتا جس کے ذریعے اپنی تکلیف اور شرعی وظیفه کو پهچان لیں اور اس پر عمل کریں ۔(۱)

اسی لئے فرماتے هیں :فلا يجوز علي الانبياء قبائح و لا التقية في اخبارهم لانّه يؤدي الي التشكيك ۔(۲)

انبیاء کیلئے نه عمل قبیح جائز هے اور نه اپنی احادیث بیان کرنے میں تقیه جائز هے۔کیونکه تقیه آپ کے فرامین میں شکوک و شبهات پیدا هونے کا باعث بنتا هے۔ اور جب که هم پر لازم هے که پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی هربات کی تصدیق کریں ۔ اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعمال شرعی وظیفے کو همارے لئے بیان نه کریں اور همیں حالت شک میں ڈال دیں ؛ تو یه ارسال رسل کی حکمت کے خلاف هے ۔ پس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

۱ ۔ محمود يزدي؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي،ص ۳۲۸۔

۲ ۔ التبيان ، ج۷ ، ص ۲۵۹۔

۲۵۳

کے لئے جائز نهیں که تقیه کی وجه سے هماری تکالیف کو بیان نه کریں ۔

شيخ طوسي پر اشكال : اگر هم اس بات کے قائل هوجائیں که پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے تقیه جائز نهیں هے تو حضرت ابراهیم کا نمرود کے سامنے بتائی گئی ساری باتوں کیلئے کیا تأویل کریں گے که بتوں کو آنحضرت هی نے توڑ کر بڑے بت کی طرف نسبت دی ؟!اگر اس نسبت دینے کو تقیه نه مانیں تو کیا توجیه هوسکتی هے ؟!

شيخ طوسي نےدو توجیه کے ضمن میں اس اشکال کا جواب دیا هے:

۱ ۔ بل فعله کو«ان كانوا ينطقون »کے ساتھ مقید کیا ہے۔ يعني اگریه بت بات کرتاهے تو ان بتوں کوتوڑنے والا سب سے بڑا بت هے ۔جب که معلوم هے که بت بات نهیں کرسکتا۔

۲ ۔ حضرت ابراہیمعليه‌السلام چاهتے تھے که نمرود کے چیلوں کو یه بتا دیں که اگر تم

۲۵۴

لوگ ایسا عقیده رکھتے هو تو یه حالت هوگی ۔ پس آپ کا یه فرمانا: «( بل فعله كبيرهم ) » الزام کے سوا کچھ نهیں اور «( اني سقيم ) » سے مراد یه که تمہارے گمراه هونے کی وجه سے میں روحی طور پرسخت پریشانی میں مبتلا هوں۔

اسی طرح حضرت يوسفعليه‌السلام کا:«( انّكم لسارقون ) »کهنا بھی تقیه هی تھا ، ورنه جھوٹ شأن نبوت سے دور هے ۔(۱)

تمام انبیاءالهی کے فرامین میں توریه شامل هے اور توریه کرنا کوئی مشکل کا سبب نهیں بنتا ۔اور توریه بھی ایک قسم کا تقیه هے ۔

ثانیا ً انبیاء الهی کے یہ فرامین احکام شرعی بیان کرنے کے مقام میں نهیں هیں ۔

____________________

۱۔ التبيان ، ، ص ۲۶۰۔

۲۵۵

۱۲۔کیوں بعض آئمہ طاہرین ؑنے تقیه کیا اور بعض نے نهیں کیا ؟!

یه سوال همیشه سے لوگوں کے ذهنوں میں ابھرتا رهتا هے که کیوں بعض آئمہؑ اور ان کے چاهنے والوں نے تقیه کیا اور خاموش رهے ؟! لیکن بعض آئمہؑ نے تقیه کو سرے سے مٹادیا اور اپنی جان تک کی بازی لگائی ؟!

وه لوگ جو مجاهدین اسلام کی تاریخ ، خصوصا ً معاویه کی ذلت بار حکومت کے دور کا مطالعه کرتے تو ان کو معلوم هوتا ،که تاریخ بشریت کا سب سے بڑا شجاع انسان یعنی امیر المؤمنینعليه‌السلام کا چهره مبارک نقاب پوش هوکر ره گیا ۔ جب یه ساری باتیں سامنے آتی هیں تو یه سوال ذهنوں میں اٹھتا هے که کیوں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علی کے باوفا دوستوں کے دوچهرے کاملاً ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں :

۲۵۶

ایک گروه :

جو اپنے زمانے کے ظالم و جابر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا مقابله کرنے پر اتر آتے هیں ؛ جیسے میثم تمارؓ ، حجر بن عدیؓ، عبداللهؓ وغیرہ۔ اسی طرح باقی آئمہؑ کے بعض چاهنے والوں نے دشمن اور حاکم وقت کے قید خانوں میں اپنی زندگیاں رنج و غم میں گزارتے هوئے اپنی جانوں کا نذرانه پیش کیا ۔اور وحشت ناک جلادوں کا خوف نهیں کھایا، اور عوام کو فریب دینے والے مکار اور جبار حاکموں کا نقاب اتار کر ان کا اصلی چهره لوگوں کے سامنے واضح کردیا۔

یہی وجہ ہے کہ علی ؑکی محبت کے جرم میں کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی اسلام دشمن عناصر لوگوں (داعش) نے شام میں صحابی رسول حجر بن عدی کی قبر کو مسمار کرکے ان کی لاش نکال کر ان کی بے حرمتی کی گئی۔

دوسرا گروه :

باقی آئمہ طاهرین کے ماننے والوں اور دوستوں میں بهت سارے ، جیسے علی ابن یقطینؓ بڑی احتیاط کے ساتھ هارون الرشید کے وزیراور مشیر

۲۵۷

بن کر رهے !

جواب :

اس اشکال کا جواب امامیه مجتہدین اور فقهاء دے چکے هیں : که کبھی تقیه کو ترک کرتے هوئے واضح طور پر ما فی الضمیر کو بیان کرنا اور اپنی جان کا نذرانه دینا واجب عینی هوجاتا هے ؛ اور کبھی تقیه کو ترک کرنا مستحب هوجاتا هے ۔ اور اس دوسری صورت میں تقیه کرنے والے نے نه کوئی خلاف کام کیا هے ، نه ان کے مد مقابل والے نے تقیه کو پس پشت ڈال کر فداکاری اور جان نثاری کا مظاهره کرتے هوئے ، جام شهادت نوش کرکے کوئی خلاف کام کیاهے اسی دلیل کی بنا پر ميثم تمارؓ ، حجر بن عدیؓ اوررشيد هجري ؓ جیسے عظیم اور شجاع لوگوں کو همارے اماموںؑ نے بهت سراها هے ، اور اسلام میں ان کا بهت بڑا مقام هے ۔

ان کی مثال ان لوگوں کی سی هے ، جنهوں نے اپنے حقوق سے هاتھ اٹھائے هیں اور معاشرے میں موجود غریب اور نادار اور محروم لوگوں کی حمایت کرتے

۲۵۸

هوئے ان پر خرچ کیا هے ، اور خود کو محروم کیا هے۔

اس میں کوئی شک نهیں که ان کی یه فداکاری اور محرومیت کو قبول کرنا ؛ سوائے بعض موارد میں ،واجب تو نهیں تھا ۔ کیونکه جو چیز واجب هے وه عدالت هے نه ایثار ۔لیکن ان کا یه کام اسلام اور اهل اسلام کی نگاه میں بهت قیمتی اور محترم کام شمار هوتا هے ۔اور یه احسان کرنا اس بات کی دلیل هے که احسان کرنے والا عواطف انسانی کی آخری منزل طے کرچکا هے ۔جو دوسروں کو آرام و راحت میں دیکھنے کیلئے خودمحرومیت کو اختیار کرے ۔

پس تقیه کو ترک کرتے هوئے اپنی جانوں کو دوسرے مسلمانوں اور مؤمنوں کےآرام اور راحت کی خاطر فدا کرنا بھی ایسا هی هے ۔اور یه اس وقت تک ممکن هے ، جب تک تقیه کرنا وجوب کی حد تک نه پهنچا هو ۔ اور یه پهلاراسته هے ۔

۲۵۹

دوسرا راسته یه هے که لوگ ماحول اور معاشرہ نیز وقعت اور حیثیت کے اعتبار سے مختلف هوتے هیں ۔ اگر پست معاشرہ اور ماحول میں زندگی گزا ررهے هوں ، جیسے معاویه کا دور هے ؛اس کی غلط پروپیگنڈا اور اس کے کاسہ لیسوں اور مزدوروں اور بعض دین فروشوں کی جھوٹے پروپیگنڈوں کی وجه سے اسلام کے حقائق اور معارف معاشرے سے بالکل محو هوچکے تھے ۔اور لوگ اسلامی اصولوں سے بالکل بے خبر تھے ۔اور امیر المؤمنینعليه‌السلام کا انسان ساز مکتب بھی اپنی تمام تر خصوصیات کے باوجود ، کالعدم کر دیا گیا ، اور پرده خفا میں چلا گیا ۔اور اس ظلمانی پردے کو چاک کرکے اسلامی معاشرے کو تشکیل دینے کیلئے عظیم قربانی کی ضرورت تھی ۔ایسے مواقع پر راز فاش کرنا ضروري تھا ، اگرچه جان بھی دینا کیوں نه پڑے ۔

حجر بن عديؓ اور ان کے دوستوں کے بارے میں جنهوں نے معاویه کےدور میں مهر سکوت کو توڑ کر علیعليه‌السلام کی محبت کا اظهار کرتے هوئے جام شهادت

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336