تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں17%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86694 / ڈاؤنلوڈ: 3147
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دیتے هوئے بتوں کو اعلانیہ طور پر باطل قرارديتے تھے تو کفار قریش اس کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے ۔ اورجب کوئی اسلام قبول کر تا تھا اس پر ظلم وتشدد کیا کرتے تھے ۔چنانچہ بلال، عمار، ياسر و سميه () جیسے پاک دل اور ایمان سے سرشار افراد کو مختلف مواقع پر جان لیوا اذیت اور آزار پہنچا تے تھے اور ان کو دوبارہ کفر کی طرف بلاتے تھے ۔چنانچہ عمار اور ان کے ماں باپ کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی اور نازیبا الفاظ زبان پر لانے پر مجبور کیا گيا؛ تو جناب یاسر اور ان کی زوجہ ، یعنی حضرت عمار کے والدین نے یہ گوارا نہیں کیا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی کی جائے ۔ اسی جرم میں وہ دونوں اپنے بیٹے کے سامنے شہید کئے گئے ، لیکن عمار کی جب باری آئی تو اپنی جان بچانے کی خاطر کفار قریش کے ارادے کے مطابق پیغمبر کی شان میں گستاخی کی ۔ جس پر کفار نے انہیں آزاد کیا ۔جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں یہ شکایت پہنچی کہ عمار نے آپ کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ تو فرمایا : ایسا ممکن نہیں کہ عمار نے دوبار ہ کفر اختیار کیا ہو بلکہ وہ سر سے لیکر پاؤں تک ایمان سے لبریز اور اس کے گوشت و خون اور سراسر وجود میں ایمان کا نور رواں دواں ہے ۔اتنے میں عمار روتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کے چهرے

۲۱

سے آنسو صاف کئے اور فرمایا : جو کام تو نے انجام ديا هے ، قابل مذمت اور جرم نہیں ہے اگر دوبارہ کبھی ایسا موقع آجائے اور مشرکوں کے ہاتھوں گرفتار ہوجاؤ تو کوئی بات نہیں کہ تم ان کی مرضی کے مطابق انجام دو ۔پھر یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی ۔

جس سے معلوم ہوتا کہ دینی مقدسات کی شان میں گستاخی کرنے پر مجبور ہوجائیں تو کوئی بات نہیں ۔ آپ کو اختیار ہے کہ یا آپ تقیہ کرکے اپنی جان بچائیں یا جرٲت دکھاتے ہوئے جام شہادت نوش کریں ۔

ایک روايت منقول ہے کہ دو مسلمانوں کو مسیلمہ کے پاس لایا گیا جو نبوت کا دعوی ٰ کررہا تھا ۔مسیلمہ نے ایک سے پوچھا: محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟

اس نے کہا : آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔

مسیلمہ : میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟

مسلمان: آپ بھی اسی طرح ہیں ۔

پھردوسرے شخص کو لایا گیا ، اور اس سے بھی یہی سوال پوچھا گیا ، لیکن اس نے کچھ بھی

۲۲

نہیں کہا ۔تو اسے قتل کرنے کا حکم دیا گیا ۔

یہ خبر رسول خدا تک پہنچی ، فرمایا: پہلے شخص نے تقیہ پر عمل کیا اور دوسرے شخص نے حق کو آشکار اور بلند و بالا کیا ۔اورپہلے کے حق میں دعا کی اور دوسرے کے لئے فرمایا :اس کیلئے شہادت مبارک ہو ۔(۱)

يوسف بن عمران روايت کرتا ہے کہ ميثم تمارسے سنا ہے: امير المؤمنينعليه‌السلام نے مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا : اے میثم جب عبيد الله ابن زياد تمھیں میرے بارے میں گستاخی کرنے اور مجھ سے برائت کرنے کا حکم دے گا تو تم کیا کرو گے؟

میں نے کہا :يا امير المؤمنينعليه‌السلام خدا کی قسم! کبھی اظہار برائت نہیں کروں گا ۔

فرمایا:پھر تو تم مارےجاؤ گے ۔

میں نے کہا : میں صبر کروں گا ؛ کیونکہ راہ خدا میں جان دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔

فرمایا:اے میثم! تم اس عمل کی وجہ سے قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگے ۔

____________________

۱: تقيه در اسلام ، ص۱۰۔

۲۳

پس یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اگر کسی نے تقیہ کے موارد میں تقیہ نہیں کیا تو اس نے خودکشی کرلی هو ، بلکہ ایسے موارد میں انسان کو اختیار ہے کہ وہ شہادت کو اختیار کرے یا تقیہ کرکے اپنی جان بچائے تاکہ آئندہ آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اور اسلام کي زیادہ خدمت کرسکے ۔

۳ ۔تقيه كتمانيه

ضعف اور ناتوانی کے مواقع پر اپنا مذہب اور مذہب والوں کی حفاظت کرنا اور ان کی طاقت اور پاور کو محفوظ کرنا تاکہ بلند و بالا اہداف حاصل کرسکے ۔

اور یہاں تقيه كتمانيه سے مراد ہے دین مقدس اسلام اور مکتب اہل بیتعليهم‌السلام کی نشر واشاعت کی خاطر اپنی فعالیتوں کو مخفی اور پوشیدہ رکھنا ، تاکہ دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ قدرت مند ہو ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ہمارے دینی اور مذہبی رہنما حضرات اس طرح تقیہ

۲۴

کرنے کا حکم دیتے ہیں ؟

اس کا جواب یہی ہے کہ کیونکہ مکتب تشیع ایک ایسا مکتب ہے کہ حقيقي اسلام کو صرف اور صرف ان میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔شیعہ ابتدا ہی سے مظلوم واقع ہوئے ہیں کہ جب آئمہ طاہرینعليهم‌السلام تقیہ کرنے کا حکم دے رہے تھے اس وقت شیعہ انتہائی اقلیت میں تھے اور ظالم وجابر اور سفاک بادشاہوں اور سلاطین کی زد میں تھے ۔اگر شیعہ اپنے آداب و رسوم کو آشکار کرتے تو ہر قسم کی مشکلات ان کے سروں پر آجاتیں اور جان بھی چلی جاتی ۔اور کوئی شیعہ باقی نہ رہتا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ حقیقی اسلام باقی نہ رہتا ۔ یہی وجہ تھی کہ آئمہ اطهارعليهم‌السلام نے تقیہ کا حکم دیا ۔

تقيه كتمانيه پر دلیل :

۱ ـ:كِتَابُ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلَالِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيّاً ع يَقُولُ يَوْمَ قُتِلَ عُثْمَانُ قَالَ رَسُولُ اللهِ ص قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ التَّقِيَّةَ مِنْ دِينِ اللهِ وَ لَا دِينَ لِمَنْ لَا تَقِيَّةَ لَهُ وَ اللهِ لَوْ لَا التَّقِيَّةُ مَا عُبِدَ اللهُ فِي الْأَرْضِ فِي دَوْلَةِ إِبْلِيسَ فَقَالَ رَجُلٌ وَ مَا دَوْلَةُ إِبْلِيسَ فَقَالَ إِذَا وُلِّيَ إِمَامُ هُدًى فَهِيَ فِي دَوْلَةِ الْحَقِّ عَلَى إِبْلِيسَ وَ إِذَا وُلِّيَ إِمَامُ ضَلَالَةٍ فَهِيَ

۲۵

دَوْلَةُ إِبْلِيسَ ۔(۱)

راوی کہتا ہے :هم نے امير المؤمنينعليه‌السلام سےقتل عثمان کے دن فرماتے هوئےسنا :هم نے رسول خداسے تاکید کے ساتھ فرماتے هوئےسنا: تقیہ میرا دین ہے اور جو بھی تقیہ کا قائل نہیں ، اس کا کوئی دین نہیں ۔ اور اگر تقیہ کے قوانین پر عمل نہ ہوتا تو شیطان کی سلطنت میں روئے زمین پر خدا کی کوئی عبادت نہ ہوتی ۔ اس وقت کسی نے سوال کیا ، ابلیس کی سلطنت سے کیا مراد ہے ؟

فرمایا : اگر کوئی خدا کا ولی یا عادل امام لوگوں پر حکومت کرے تو وہ خدائی حکومت ہے ، اور اگرکوئی گمراہ اور فاسق شخص حکومت کرے تو وہ شیطان کی حکومت ہے ۔

اس روایت سے جو مطلب ہمیں حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس طاغوتی حکومت کے دوران صرف اپنے مذہب کو مخفی رکھنا اور خاموش رہنا صحیح نہیں ہے بلکہ اس میں بھی خدا تعالی کی عبادت و بندگی ہوتی رہے۔

اصحاب كهف کا عمل بھی اسی طرح کا تقیہ تھا ، اور حضرت ابوطالب کا تقیہ

____________________

۱: مستدرك‏الوسائل، ج ۱۲، ص۲۵۲ باب وجوب التقية مع الخوف ۔

۲۶

بھی اسی قسم کا تقیہ شمار ہوتا ہے ۔جسے ابتدائے اسلام میں انہوں نے اختیار کیا تھا ۔کہ اپنے دین کو کفار قریش سے مخفی رکھا ۔ اورخود کو کفار کا ہم مسلک ظاہر کرتے رہے تاکہ رسول گرامي اسلام کی حمايت اور حفاظت آسانی سے کرسکیں ۔اور مخفی طور پر دین مبین اسلام کی نشر واشاعت کرتے رہے ۔ چنانچہ آپ ہی کی روش اور تکنیک کی وجہ سے پیغمبر اسلامسے بہت سارے خطرات دور ہوتے رہے ۔

۴ ۔تقيه مداراتي يا تحبيبي

اهل سنت کےساتھ حسن معاشرت اور صلح آميز زندگي کرنے کی خاطر ان کی عبادي ا ور اجتماعي محفلوں اور مجلسوں میں جانا تاکہ وحدت پیدا ہو اور اسلام دشمن عناصر کے مقابلے میں اسلام اور مسلمین قدرت مند ہوں ۔

تقيه مداراتي

۱ ۔ مطلوبيت ذاتي رکھتا ہے = وجوب نفسي

۲ ۔ مطلوبيت غيري رکھتا ہے = وجوب غيري

۲۷

تقيه مداراتي کے شرعی جواز پر دلیلیں:

o امام سجاد نے صحيفه سجاديه میں مسلمانوں کیلئے دعائے خیر اور کفار کیلئے بددعا کرتے ہوئے فرمایا:خدايا اسلام اور مسلمين کودشمن اورآفات و بليات سے محفوظ فرما ، اور ان کے اموال کو با ثمر و منفعت اورپر بركت فرما۔ اور انہیں دشمن کے مقابلے میں زیادہ قدرت مند اور شان وشوکت اور نعمت عطا فرما ۔اور میدان جنگ میں انہیں کافروں پر فتح و نصرت عطا فرما ۔ اور اپنی عبادت اور بندگی کرنے کی مہلت اور فرصت عطا فرما تاکہ وہ تجھ سےتوبہ اور استغفار اور راز و نیاز کر سکیں خدایا ! مسلمانوں کو ہر طرف سے مشرکوں کے مقابلے میں عزت اور قدرت عطا فرما اور مشرکوں اور کافروں کوآپس میں جنگوں میں مشغول فرما ! تاکہ وہ مسلمانوں کے حدود اور دیار کی طرف دست درازی نہ کرسکیں ۔(۱)

____________________

۱: مستدرك‏الوسائل، ج ۱۲، باب وجوب التقية مع الخوف ، ص ۱۰۰۔

۲۸

o معاويه بن وهب کہتا ہے کہ میں نے امام صادقعليه‌السلام سے سوال کیا : کہ دوسرے مسلمانوں اور مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے ؟

امامعليه‌السلام نے فرمایا: ان کی امانتوں کو پلٹاؤ اور جب آپس میں کوئی نزاع پیدا ہو جائے اور حاکم شرع کے پاس پہنچ جائے تو حق دار کے حق میں گواہی دو اور ان کے بیماروں کی عیادت کیلئے جاؤ اور ان کے مرنے والوں کی تشییع جنازے میں شرکت کرو۔(۱)

امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

كونوا لمن انقطعتم ﺇليه زيناً ولا تكونوا علينا شيناً صلّوا في عشائرهم عودوا مرضاهم و اشهدوا جنائزهم ولا يسبقونكم الي شيئٍ من الخير فا نتم أولي به منهم والله ما عبدالله بشيئٍ أحبُّ اليه من الخباء قلت: و ما الخباء؟ قال: التقيه ۔(۲)

ایسے کاموں کے مرتکب ہونے سے پرہیز کرو جو ہمارے مخالفین کے سامنے سرزنش کا باعث بنے ، کیوں کہ لوگ باپ کو اس کے بیٹوں کے برے اعمال کی وجہ سے ملامت کرتے

____________________

۱: وسائل الشيعه،ج۱ ، كتاب حج،احكام عشرت۔

۲: وسائل الشيعه ،ج ۱۱،ص ۴۷۱۔

۲۹

ہیں ۔کوشش کرو کہ ہمارے لئے باعث زینت بنو نہ کہ باعث ذلت۔ اہل سنت کے مراکز میں نماز پڑھا کرو اور بیماروں کی عیادت کیا کرواور ان کے مردوں کے جنازے میں شرکت کیا کرو اور تمام اچھے کاموں میں ان پر سبقت لے جاؤ ، ان صورتوں میں اگر ضرورت پڑي تو محبت بڑھانے اور اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کیلئے اپنے عقائد کو چھپاؤ ۔ خدا کی قسم ایسے مواقع میں کتمان کرنا بہترین عبادت ہے ۔ راوی نے سوال کیا : یابن رسول اللہ ! کتمان سے کیا مراد ہے ؟ ! تو فرمایا: تقیہ ۔

یہ تقیہ مداراتی اور تحبیبی کے جواز پر کچھ دلائل تھے ۔ لیکن ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سارے مسلمان عقیدتی ، فکری اور سلیقائی اختلافات مکمل طور پر ختم کرکے صرف ایک ہی عقیدہ اور سلیقہ کے پابندہوجائیں ؟ !

اس سوال کا جواب بالکل منفی میں ملے گا۔ یہ ناممکن ہے ۔کیونکہ کوئی بھی قوم یا قبیلہ نہیں ملے گا جس میں سینکڑوں اختلافات اور نظریات نہ پائے جاتے ہوں۔ حتی خود دین اسلام میں کہ سارے اصول اور فروع دین توحید کی بنیاد پر قائم ہیں ، پھر بھی زمانے کے

۳۰

گزرنے کے ساتھ ساتھ اصلی راستے اور قاعدے سے منحرف ہوجاتے ہیں اور اختلافات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ پس ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟! اور راہ حل کیا ہے ؟! ایک طرف سے بغیر وحدت اور اتحاد کے کوئی کام معاشرے کے حوالے سے نہیں کرپاتے، دوسری طرف سے اس وحدت اور اتحاد کے حصول کیلئے سارے اختلافی عوامل کو پس پشت ڈالنا پڑتا ہے ۔

کیا ایسی صورت میں ہم بیٹھے رہیں اور اختلافات کے کیڑے مکوڑے معاشرے کے سعادت مند ستون کو اندر سے خالی کرتے کرتےسرنگوں کریں؟!یا کوئی راہ حل موجود ہے جس کے ذریعے سے ايک حد تک وحدت برقرار کرلیں ؟!

یہ وہ مقام ہے جہاں دور حاضر کے مفکرین اور دانشمندوں نے کئي فارمولے تیار کئے ہیں جن کے ذریعے ممکن ہے کہ یہ ہدف حاصل ہوجائے ، اور وہ فامولے درج ذیل ہیں:

۱ ۔ ہر معاشرے میں موجود تمام ادارے قوم پرستی، رنگ و زبان اور موقعیت ، مذہب میں فرق کئے بغیر اجتماعی حقوق کو بعنوان ”حقوق بشر“ رسمی مان لیں اور خود غرضی سے پرہیز کریں ۔

۳۱

۲ ۔ تمام ممالک کو چاہئے کہ معاشرے میں موجود تمام گروہوں کو اس طرح تعلیم دیں کہ اتحاد و اتفاق کی حفاظت کی خاطر اجتماعی منافع کو شخصی منافع پر مقدم رکھیں ۔ اور انہیں یہ سمجھائیں کہ اجتماع کی بقا میں افراد کی بقا ہے ۔

۳ ۔ ہر ایک شخص کو تعلیم دیں کہ دوسروں کے عقائد کا احترام کریں تاکہ معاشرے کیلئے کوئی مشکل ایجاد نہ ہو ۔اور ملک اور معاشرے کے بنیادی اصولوں اور قواعد و ضوابط کو ضرر نہ پہنچائيں ۔ اور ایک دوسرے کے احساسات اور عواطف کا احترا م کریں ۔

۴ ۔ ان کو سمجھائیں کہ دوسرے مکاتب فکر کے مختلف اور معقول آداب و رسوم میں شرکت کریں ۔ اس طرح ایک دوسرے کے درمیان محبت پیدا کریں۔

پس اگر ايك جامعه یامعاشرے میں ان قوانین اور اصولوں پر عمل درآمدهوجائے تو سارے اسلامی ممالک ایک پليٹ فارم پر جمع ہونگے اور ایک دوسرے کے درمیان محبت اور جذبہ ایثار پیدا هوگا۔ یہی وجہ تھی کہ آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اپنے گوہر بار كلمات میں اس بات کی طرف تشویق کرتے هوئے نظر آتے هيں۔

۳۲

مداراتی تقیہ کی ایک زندہ مثال یہ ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کیلئے مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں دوسروں کے ساتھ بغیر سجدہ گاہ کے قالین پر سجدہ کر سکتے ہیں ، یہ نماز صحیح ہے اگرچہ جانی یا مالی نقصان کا خدشہ بھی نہیں ہے۔(۱)

تقيه اور توريه میں موازنه

لغت میں توريه ؛وراء یا پيٹھ سے نکلا ہے جس کا مد مقابل امام یعنی (آگے ) سے لیا گیا ہے ۔اور اصطلاح میں کسی چیز کو چھپانے کو کہا جاتا ہے ۔

 تقيه اور توريه کے درمیان نسبت تباين پایاجا تا ہے ۔ کیونکہ توریہ لغت میں ستر(چھپانا) اور تقیہ صیانت اور حفاظت کو کہا جاتا ہے ۔

 توریہ میں شخص واقعیت کا ارادہ کرتا ہے لیکن تقیہ میں نہیں ۔

____________________

۱: مکارم شیرازی؛ شیعہ پاسخ می گوید،ص۴۵۔

۳۳

 توریہ میں مصلحت کو ملحوظ نظر نہیں رکھا جاتا لیکن تقیہ میں کئی مصلحتوں کو ملحوظ نظر رکھا جاتا ہے ۔

 لیکن مصداق کے لحاظ سے ان دونوں میں عموم و خصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے ۔ کہ ان دونوں کا مورد اجتماع یہ ہے کہ تقیہ کرنے والا تقیہ کے موارد میں اوراظہار کے موقع پر حق کے برخلاف ، توریہ سے استفادہ کرتا ہے کیونکہ خلاف کا اظہار کرنا ؛ حق کا ارادہ کرنے یا خلاف حق کا ارادہ کرنے سے ممکن ہے۔

 تقيه اور توريه میں افتراق کا ایک مورد ، تقيه كتماني ہے كه یہاں کوئی چیز بیان نہیں ہوئی ہے جو توریہ کا باعث بنے ۔

 ان دونوں میں افتراق کا ایک اور مورد یہ ہے کہ توریہ میں کوئی مصلحت لحاظ نہیں ہوئی ہے اور اگر کوئی مصلحت ملحوظ ہوئی ہے تو بھی ذاتی منافع ہے ۔

تقيه ، اكراه اور اضطرارکے درمیان تقابل

تقيه کے بعض موارد کو اكراه و اضطرار کے موارد میں منحصر سمجھاجاتاہے۔شيخ انصاري(ره) مكاسب میں اكراه کے بارےمیں یوں فرماتے ہیں :

۳۴

ثم ان حقيقة الاكراه لغة و عرفا حمل الغير علي ما يكرهه في وقوع الفعل من ذالك الحمل اقترانه بوعيد منه مظنون الترتب الغير علي ترك ذالك الفعل مضر بحال الفاعل او متعلقه نفسا او عرضا او مالا ۔(۱)

اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اکراہ کے وجود میں آنے کی تین شرائط ہیں:

۱. یہ مخالف کی طرف سے واقع ہوتا ہے ۔ پس جہاں اگر خود انسان جلب منفعت یا دفع ضرر کیلئے کوئي قدم اٹھائے تو وہ توریہ میں شامل نہیں ہے ۔

۲. اكراه یہ ہے کہ مستقيماکسی کام پر انسان کو مجبور کیا جائے نه بطور غير مستقيم۔

۳. تهديد اور وعيد کے ساتھ ہو کہ اگر انجام نہ دے تو اس کی جان ، مال، عزت آبرو خطرے میں پڑ جائے ۔

ان تین شرائط اور اولین آیہ شریفہ جو مشروعیت تقیہ کے بارے میں نازل ہوئی جس میں

عمار ابن یاسر ؒ کا قصہ بیان ہوا ہے ، سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض موارد میں تقیہ اور اکراہ میں مطابقت پائی جاتی ہے ۔ اور ان تین شرائط کے ذریعے حضرت عمارؒ کے تقیہ کرنے پر استدلال کیا جا سکتا ہے ۔اور تقیہ کی تعریف بھی اس پر منطبق ہوسکتی ہے ۔لیکن جہاں یہ تین شرائط صدق آئیں اور تقیہ صدق نہ کرے تو وہ اکراہ اور تقیہ کے افتراق کے موارد ہونگے ۔

____________________

۱: شيخ انصاري(ره) ،المكاسب،شروط متعا قد ين،ص۱۱۹۔

۳۵

تقيه کے آثارا ور فوائد

شہیدوں کے خون کی حفاظت

تقیہ کا بہترین فائدہ شہیدوں کے خون کی حفاظت ہے ۔یعنی پوری تاریخ میں شیعیان علیعليه‌السلام مظلوم واقع ہوتے رہے ہیں۔ جب بھی ظالموں کے مظالم کا نشانہ بنتےتھے تقیہ کرکے اپني جان بچاتےتھے۔

چنانچہ امام صادقعليه‌السلام فرماتے هيں: اے ہمارے شیعو! تم، لوگوں کے درمیان ایسے ہو جیسے پرندوں کے درمیان شہد کی مکھی ہے ۔ اگر پرندوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ شہد کی مکھی کے پیٹ میں شہد موجود ہے ، تو ساری شهد کي مکھیوں کو کھاجائیں اور ایک بھی زندہ نہیں چھوڑیں ؛ اسي طرح اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ تمہارے دلوں میں ہم اہل بیتعليهم‌السلام کی محبت موجود ہے تو تمھیں زخم زبان کے ذریعے کھا جائيں گے اور ہر وقت تمہاری غیبت اور بدگمانی میں مصروف رہيں گے ۔ خدا ان لوگوں پر اپنی رحمت نازل کرے جو ہماری ولایت کو

۳۶

مانتے ہيں۔(۱)

اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور تقویت

یہ تقیہ کا دوسرا فائدہ ہے کہ اہل بیتعليهم‌السلام ، اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور تقویت کیلئے زیادہ کوشش کرتے تھے ، تاکہ اسلامی معاشرہ ایک واحد اور قدرت مند معاشرہ بنے ، اور اسلام دشمن عناصر کبھی بھی اس معاشرے پر آنکھ اٹھانے کی جرأت نہ کرسکيں ۔

اس عظیم مقصد کے حصول کی خاطر آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اپنے چاہنے والوں کو سخت تاکید فرماتے تھے ۔جيسا که حديث ميں آيا هے:

قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مِهْرَانَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع وَ عِنْدَهُ نَفَرٌ مِنَ الشِّيعَةِ فَسَمِعْتُهُ وَ هُوَ يَقُولُ مَعَاشِرَ الشِّيعَةِ كُونُوا لَنَا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْنَا شَيْناً قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً احْفَظُوا أَلْسِنَتَكُمْ وَ كُفُّوهَا عَنِ الْفُضُولِ وَ

____________________

۱: علامه كليني ؛ اصول كافي،ج۲،ص۲۱۸۔

۳۷

قَبِيحِ الْقَوْل ۔(۱)

چنانچه امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہیں : اے ہمارے شیعو! خبردار! کوئی ایسا کام انجام نہ دو ، جوہماری مذمت کا سبب بنے ۔ لوگوں کے ساتھ اچھی گفتگو کیا کرو ، اپنی زبانوں کی حفاظت کرواور فضول اور نازیبا باتیں کرنے سے باز آؤ ۔

عَنْ هِشَامٍ الْكِنْدِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللهِ ع يَقُولُ إِيَّاكُمْ أَنْ تَعْمَلُوا عَمَلًا نُعَيَّرُ بِهِ فَإِنَّ وَلَدَ السَّوْءِ يُعَيَّرُ وَالِدُهُ بِعَمَلِهِ كُونُوا لِمَنِ انْقَطَعْتُمْ إِلَيْهِ زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْهِ شَيْناً صَلُّوا فِي عَشَائِرِهِمْ وَ عُودُوا مَرْضَاهُمْ وَ اشْهَدُوا جَنَائِزَهُمْ وَ لَا يَسْبِقُونَكُمْ إِلَى شَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَيْرِ فَأَنْتُمْ أَوْلَى بِهِ مِنْهُمْ وَ اللهِ مَا عُبِدَ اللهُ بِشَيْ‏ءٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الْخَبْ‏ءِ قُلْتُ وَ مَا الْخَبْ‏ءُ قَالَ التَّقِيَّة ۔(۲)

راوی کہتا ہے کہ امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا: خبردار ! تم لوگ کوئی ایسا کام کر نہ بیٹھو جس کی وجہ سے هميں ذلت اٹھانی پڑے کیونکہ جب بھی کوئی اولاد برا کام کرتی ہے تو لوگ اس کے والدین کی مذمت کرنے لگتے ہیں۔جب کسی سے دوستی کرنے لگو اور

____________________

۱:۔ أمالي الصدوق، ص ۴۰۰، جلسہ۶۲‏۔

۲: وسائل الشيعة ‏، باب وجوب عشرة العامة بالتقية ،ج۱۶،ص۲۱۹ ۔

۳۸

اس کی خاطر دوسروں سے دوری اختیار کرو تو اس کیلئے زینت کاباعث بنو نہ کہ مذمت اور بدنامی کا ۔ برادران اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کرو ، ان کے مرنے والوں کے جنازے میں شریک ہو جاؤ ، ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ تم سے کار خیر میں آگے ہو ں ، کیوں کہ اچھے کاموں میں تم لوگ ان سے زیادہ سزاوار ہو ۔ خدا کی قسم ! خبأسے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں ہے ۔ کسی نے سوال کیا : اے فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خبأ سے کیا مراد ہے ؟! تو امام ؑ نے جواب دیا : اس سے مرادتقیہ هے ۔

عَنْ أَبِي أُسَامَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللهِ وَ الْوَرَعِ وَ الِاجْتِهَادِ وَ صِدْقِ الْحَدِيثِ وَ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَ حُسْنِ الْخُلُقِ وَ حُسْنِ الْجِوَارِ وَ كُونُوا دُعَاةً إِلَى أَنْفُسِكُمْ بِغَيْرِ أَلْسِنَتِكُمْ وَ كُونُوا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا شَيْناً وَ عَلَيْكُمْ بِطُولِ الرُّكُوعِ وَ السُّجُودِ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَطَالَ الرُّكُوعَ وَ السُّجُودَ هَتَفَ إِبْلِيسُ مِنْ خَلْفِهِ وَ قَالَ يَا وَيْلَهُ أَطَاعَ وَ عَصَيْتُ وَ سَجَدَ وَ أَبَيْتُ ۔(۱)

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادقعليه‌السلام سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے : تم پر لازم

____________________

۱:۔ كافي ،باب الورع، ج‏۲ ، ص ۷۶۔

۳۹

ہے کہ تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرو ،کوشش کرو کہ سچ بات کہو،امانت میں دیانت داری دکھاؤ ،اچھے اخلاق کے مالک بنو، اور اچھے پڑوسی بنو،اور لوگوں کو زبانی نہیں بلکہ اپنے کردار کے ذریعے اچھائی کی طرف بلاؤ ۔اور ہمارے لئے باعث افتخار بنو نہ کہ باعث ذلت اور رسوائی۔اور تم پر لازم ہے کہ طولانی رکوع اور سجدے کیا کرو ؛ جب تم میں سے کوئی رکوع اور سجود کو طول دیتا ہے تو اس وقت شیطان اس کے پیچھے سے چیخ وپکار کرنےلگتا هے ، اور کهتا هے : واویلا ! اس نے خدا کی اطاعت اوربندگی کی، ليکن میں نے نافرمانی کی ، اس نے خدا کیلئے سجدہ کیا اور میں نے انکار کیا ۔

اگر ان دستورات کو آپ ملاحظہ فرمائیں تو معلوم ہو جائےگا کہ آئمہ طاہرین کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان الفت و محبت پیداهو اور سب مسلمان صلح و صفائی کے ساتھ زندگي بسر کريں ۔

تقيه کے شرائط

تقیہ ہر صورت اور ہر موقع اور ہر جگہ پر صحیح نہیں ہے بلکہ خاص شرائط اور زمان و

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

٥_ بعض يوميہ نمازوں (صلوة وسطي) كى خاص اہميت ہے_و الصلاة الوسطي

٦_ نماز كو خدا كى خاطر، خضوع و خشوع اور اس كى جانب پورى توجہ كے ساتھ پڑھنا ضرورى ہے_

حافظوا على الصلوات و قوموا لله قانتين ''قنوت''كے معنى اطاعت ميں خضوع و خشوع كرنے كے ہيں اور خضوع و خشوع كا لازمہ كامل توجہ ہے اور''قوموا لله ''ميں قيام سے مراد يا صرف نماز ہے يا قيام كا واضح ترين مصداق نماز ہے_

٧_ نماز كو خدا وند متعال كى اطاعت اور بندگى كے ليئے انجام دينا ضرورى ہے_حافظوا على الصلوات و قوموا لله قانتين ''قنوت''خضوع كے علاوہ اطاعت اور بندگى پر بھى دلالت كرتا ہے كيونكہ قنوت كے معنى اطاعت ميں خضوع كرنے كے ہيں _

٨_ خدا كى طرف اس طرح سے سفر و حركت كرنا ضرورى ہے جو خضوع اور اس كى اطاعت كے ساتھ ہو_

و قوموا لله قانتين كيونكہ بيان ہوچكا ہے كہ''قنوت''كے معنى خضوع و خشوع كے ساتھ اطاعت كے ہيں _

٩_ انسان كے اعمال اور اس كاچال چلن خدا كى خاطر اور اسى كى راہ ميں ہونا چاہيئے_و قوموا لله قانتين

١٠_ خدا كے سامنے اطاعت اور خضوع، انسانى روش و كردار كى قدر و قيمت كے جانچنے كا ايك معيار ہے_

و قوموا لله قانتين چونكہ خدا نے حكم ديا ہے كہ قيام ''قنوت''كے ہمراہ ہونا چاہئے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اگر انسان كا عمل اور اس كے اقدامات خدا كے سامنے خضوع و خشوع سے خالى ہوں تو بے قيمت اور بے فائدہ ہيں _

١١_ نمازوں ميں سے نماز ظہر كو خاص اہميت حاصل ہے_حافظوا على الصلوات و الصلاة الوسطي

الامام الباقر(ع) :'' ...والصلوة الوسطي'' و هى صلوة الظهروهى اول صلوة صلاها رسول الله (ص) _ (١)'' صلوة وسطى سے مراد نماز ظہر ہے_ يہ پہلى نماز ہے جو رسول الله (ص) نے پڑھي''

١٢_ نماز كے قيام كى حالت ميں دعا بہت ہى مقام ومرتبہ ركھتى ہے_

____________________

١) كافى ج ٣ ص ٢٧١ ح ١ نور الثقلين ج ١ ، ص ٢٣٧ ح ٩٣٤_

۱۸۱

و قوموا لله قانتين

قال الباقر(ع) ''والقنوت''هو الدعاء فى الصلوة فى حال القيام _ (١) اور قنوت سے مراد نماز كے دوران ميں حالت قيام ميں دعا ہے _

اقدار: اقدار كا معيار ١٠

اطاعت: خدا كى اطاعت٧، ٨، ١٠

بندگي: بندگى ميں خضوع ٨، ١٠;بندگى ميں خلوص ٨

دعا: دعا كى فضيلت١٢

دينى نظام تعليم: ١

روايت: ١١، ١٢

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كا پيش خيمہ١

عبادت: عبادت ميں خلوص ٦، ٧

عمل: عمل كے آداب ٨ ; عمل ميں خلوص ٩

عمومى نظارت: ٤

غفلت: غفلت كا پيش خيمہ٣

معاشرہ: معاشرہ كى ذمہ دارى ٤

نماز: نماز ظہر كى اہميت١١; نماز قائم كرنا ٦، ٧; نماز كى اہميت ٢، ٣، ٤، ٥; نماز كے آداب٢; نماز كے اثرات ١;نماز ميں خضوع ٦; نماز ميں دعا ٢ ١ ; نماز وسطي ٥

____________________

١) مجمع البيان ج ٢ص ٦٠٠ نورالثقلين ج ١ ص ٢٣٧ ح ٩٤٠ _

۱۸۲

فَإنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُواْ اللّهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ (٢٣٩)

پھر اگر خوف كى حالت ہو تو پيدل ، سوارجس طرح ممكن ہو نماز ادا كرو اور جب اطمينان ہو جائے تو اس طرح ذكر خدا كروجس طرح اس نے تمھارى لا علمى ميں تمھيں بتاياہے_

١_ خوف كى حالت ميں حركت كرتے ہوئے سوارى پر يا پيدل چلتے ہوئے نماز پڑھى جاسكتى ہے_

فان خفتم فرجالا او ركبانا يہاں پر''فان خفتم ...'' كاجملہ ايك محذوف شرط كى حكايت كرتا ہے جو پہلے والى آيت كے حكم كو مشروط كرتا ہے يعنى نما ز ميں تمام شرائط كى كامل رعايت ، امن كى صورت ميں ہے ليكن اگر خوف پيش آجائے تو جس قدر امكان ہو بجالائے اور باقى شرائط اور آداب ضرورى نہيں ہيں _ اسى طرح ''رجالا''راجلاً كى جمع ہے جو پيدل كے معنى ميں ہے اور ''ركباناً'' راكب كى جمع ہے جو سوار كے معنى ميں ہے اور دونوں ميں حركت كا پہلو مدنظر ہے_

٢_جتنے بھى مشكل حالات پيش آجائيں نماز كا چھوڑنا جائز نہيں ہے_فان خفتم فرجالا او ركبانا

٣_ خوف كے وقت نماز كى بعض شرائط ساقط ہوجاتى ہيں _فان خفتم فرجالا او ركبانا

٤_ خوف كے بعد جب امن و امان كى حالت پلٹ آئے تو نماز كو پورى شرائط كے ساتھ انجام دينا ضرورى ہے_

فاذا امنتم فاذكروا الله كما علمكم ما لم تكونوا تعلمون

٥_ نماز خدا كا ذكر ہے_فاذا امنتم فاذكروا الله جملہ ''فاذكروا اللہ '' ميں ذكر سے مراد نماز ہے_

٦_ نماز وہ فريضہ ہے جس كى تعليم خداوند عالم كى طرف سے دى گئي ہے اور ضرورى ہے كہ اسے

۱۸۳

عليم ديئے گئے طريقے كے مطابق انجام ديا جائے_فاذكروا الله كما علمكم

٧_ خدا كو اسى طرح ياد كرنا چاہيئے جيسے اس نے انسان كو تعليم دى ہے_فاذكروا الله كما علمكم

٨_ انسان تعليم خدا كے بغير الہى احكام كو سيكھنے كى استعداد و صلاحيت نہيں ركھتا_كما علمكم ما لم تكونوا تعلمون

٩_ نماز پڑھتے وقت حركت نہ كرنا نماز كى شرائط ميں سے ہے_فان خفتم فرجالا او ركبانا

خوف كى حالت ميں حركت كرتے ہوئے نماز پڑھنے كا جائز ہونا حكايت كرتا ہے كہ عام حالات ميں نماز كى شرط ہے عدم حركت _

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٦، ٩ احكام ثانوى ١

اضطرار : اضطرار اور فريضہ كا اٹھ جانا ٣

انسان: انسان كى كمزورى ٨

ذكر: آداب ذكر ٧; ذكر خدا٧; ذكر كے موارد ٥

نماز: خوف كى نماز١، ٣ ;نماز كا توقيفى ہونا ٦ ;نماز كى اہميت ١، ٢، ٥; نماز كى شرائط ٩ ; نماز كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٦، ٩

۱۸۴

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِيَ أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (٢٤٠)

اور جو لوگ مدت حيات پورى كر رہے ہوں اور ازواج كو چھوڑكرجارہے ہوں انھيں چاہئے كہ اپنى ازواج كے لئے ايك سال كے خرچ اور گھر سے نہ نكالنے كى وصيت كركے جائيں پھر اگر وہ خود سے نكل جائيں تو تمھارے لئے كوئي حرج نہيں ہے وہ اپنے بارے ميں جو بھى مناسب كام انجام ديں خدا صاحب عزت اور صاحب حكمت بھى ہے _

١_ موت سے انسان كى حقيقت فنا نہيں ہوتي_ *و الذين يتوفون منكم ''توفي''كے معنى دى ہوئي چيز كو مكمل طور پر واپس لينا ہے نہ اسے نابود كرنا_

٢_ موت انسان كے ارادہ اور اختيار سے نہيں ہے_*يتوفون منكم

''يتوفون''كا بصورت مجہول لانا اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ موت انسان كيلئے اختيارى نہيں ہے_

٣_ مردوں ر لازمى ہے كہ اپنى بيويوں كو ايك سال تك اخراجات دينے كى وصيت كريں _

و الذين يتوفون منكم و يذرون ازواجا وصية لازواجهم متاعا الى الحول

٤_ جن عورتوں كے شوہر فوت ہوجائيں انہيں شوہر كے گھر ميں ايك سال رہنے اوراس كے اموال سے استفادہ كرنے كا حق حاصل ہے_وصية لازواجهم متاعا الى الحول غير اخراج

۱۸۵

''غير اخراج''كا ظہور اس ميں ہے كہ جن عورتوں كے شوہر فوت ہوجائيں انہيں شوہر كے گھر سے ايك سال تك نہيں نكالا جاسكتا جس كا لازمہ يہ ہے وہ اس كے گھر ميں رہ سكتى ہيں _

٥_ جن عورتوں كے شوہر فوت ہوجائيں انہيں ايك سال تك شوہر كے گھر كے علاوہ كہيں اور نہيں رہنا چاہيئے _ *

متاعا الى الحول غير اخراج بعض مفسرين كے نزديك ''غير اخراج'' كے الفاظ عورتوں كے فريضہ كا بيان ہے اس صورت ميں كہ''اخراج'' كافاعل ''ازواج'' ہوں يعنى عورتوں كو شوہروں كے گھر سے نہيں نكلنا چاہئے_ البتہ يہ بات قابل ذكر ہے كہ اخراج يا خروج كو ترك كرنے كا مطلب سكونت اختيار كرنا ہے نہ كہ گھر ميں بند ہوجانا_

٦_ بيوى كا شوہر كے گھر ميں رہنا اس كے ايك سال كے اخراجات ادا كيئے جانے كى شرط ہے _متاعا الى الحول غير اخراج يہ اس صورت ميں ہے كہ''غير اخراج'' عورت كے حق سكونت كے بيان كے علاوہ سابقہ حكم (سال كا خرچہ دينا) كى قيد بھى ہو يعنى عورت كو شوہر كے مال سے استفادہ كا حق اس وقت حاصل ہے كہ وہ اس كے گھر سے نہ نكلے_

٧_ جس عورت كا شوہر فوت ہوجائے اس پر اس كے گھر سے سال مكمل ہونے سے پہلے نكلنا جائز ہے_

غير اخراج فان خرجن فلاجناح عليكم

٨_ جن عورتوں كے شوہر فوت ہوجائيں ان كيلئے شوہر كے گھر سے نكلنے كے بعد ہر شائستہ اور مشروع كام(شادي) كرناجائز ہے_فان خرجن فلاجناح عليكم فى ما فعلن فى انفسهن من معروف بعض مفسرين كے نزديك ''من معروف'' سے مراد نكاح كرنا ہے لہذا ايمانى معاشرہ يا ميت كے وارث عورت كو شوہر كے گھر ميں رہائش كى صورت ميں ايك سال تك نكاح كرنے سے روك سكتے ہيں البتہ اس فرض كى بنا پر كہ عورت شوہر كے گھر سكونت اختيار كرے_

٩_ ايمانى معاشرہ كى ذمہ دارى ہے كہ بيوہ اور بے سرپرست عورتوں كے اخلاق و كردار پر نظر ركھے_

فان خرجن فلاجناح عليكم ...من معروف اگرچہ آيت ان عورتوں كے بارے ميں ہے جن كے شوہر فوت ہوچكے ہوں ليكن اس بنا پر كہ خطاب ايمانى معاشرہ سے ہو نہ صرف ولى

۱۸۶

سے معلوم ہوتا ہے كہ صرف بيوہ عورتيں مراد نہيں ہيں كيونكہ معاشرتى لحاظ سے بيوہ عورتوں اور ديگر خواتين ميں كوئي فرق نہيں ہے بلكہ زير نظر ركھنے كا معيار عورت كا بے سرپرست ہونا ہے_

١٠_ خدا وند متعال عزيز اور حكيم ہے_و الله عزيز حكيم

١١_ خداوندعالم الہى احكام كى مخالفت كرنے والوں كو سزا دينے پر قادر ہے_و الله عزيز حكيم

احكام كے بيان كے بعد''عزيز'' ايسا قادر جو (ناقابل شكست اور غلبے والاہے) جيسى صفت كا لانا الہى احكام كى مخالفت كرنے والوں كو ڈرانے كے ليے ہے_

١٢_ احكام كى تشريع خداوند متعال كى حكمت كى بنياد پر ہے_و الله عزيز حكيم

احكام: ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨ احكام كا فلسفہ ١٢ ;احكام كى تشريع ١٢

اسماء و صفات: حكيم ١٠; عزيز ١٠

انسان: انسان كا اختيار ٢; انسان كى حقيقت ١

تخلف كرنے والے: تخلف كرنے والوں كى سزا ١ ١

حقوق :٤،٥،٦

خدا تعالى: خدا تعالى كى حدود سے تجاوز ١١; خدا تعالى كى حكمت ١٢; خدا تعالى كى قدرت ١١

شادي: شادى كے احكام٨

شريك حيات: شريك حيات كے حقوق ٤،٥،٦

عدت: عدت وفات ٧

عورت: بيوہ عورت ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩ ;عورت كے حقوق ٣، ٤، ٦، ٧، ٨

مطلقہ: مطلقہ كو اخراجات دينا٤، ٦

معاشرہ: معاشرے كى ذمہ دارى ٩ معاشرے كى عمومى نظارت : ٩

موت: ١

۱۸۷

نفقہ: نفقہ كے احكام ٣، ٤، ٦

وصيت: نفقہ كى وصيت ٣;وصيت كے احكام ٣

وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (٢٤١)

اور مطلقات كے لئے مناسب مال و متاع ضرورى ہے كہ يہ صاحبان تقوى پر ايك حق ہے _

١_ مطلقہ عورتوں كو مناسب اور معقول مال و اسباب دينا ضرورى ہے_و للمطلقات متاع بالمعروف

٢_ عورت اور مرد دونوں كے معاشرتى مقام و منزلت سے مال و اسباب كى مقدار اور خصوصيات معين ہوتى ہيں لہذا مطلقہ عورت كو اسى كے مطابق ديا جائے گا_*متاع بالمعروف

ايسا معلوم ہوتاہے كہ عورت اور مرد كى معاشرتى حيثيت كو مدنظر ركھے بغير اچھے اور مناسب مال و اسباب كى تعيين نہيں كى جاسكتي_

٣_ احكام الہى كے بعض موضوعات كى تشخيص كا معيار عرف ہے_متاع بالمعروف

٤_ مطلقہ عورتوں كو مناسب اور معقول مال و اسباب دينا با تقوي لوگوں كا فريضہ اور ان كے تقوي كى علامت ہے_

و للمطلقات حقا على المتقين

٥_ دوسروں كے حقوق كى رعايت اہل تقوي كا فريضہ اور انكے تقوي كى علامت ہے_و للمطلقات حقا على المتقين

٦_ معاشرہ ميں صاحبان تقوي، مطلقہ عورتوں كے حقوق كى رعايت كرنے والے ہيں _حقا على المتقين

اس بات كے پيش نظر كہ اصل حكم تو معاشرہ كے سب افراد كے ليئے ہے ليكن حكم ميں متقين كو مورد توجہ قرار ديا گيا ہے_

٧_ مطلقہ عورتوں كے حقوقى مسائل پر توجہ دينا بہت ہى قابل قدر اور اہميت كا حامل ہے_

حقاً على المحسنين و ان تعفوا اقرب للتقوى حقا على المتقين يہ مطلب مطلقہ عورتوں كے بارے ميں آنے والى آيات كے مجموعہ سے استفادہ ہوتا ہے بالخصوص مختلف تعبيروں كے ساتھ جيسے''حقاً على المتقين''،''حقاً على المحسنين'' اور ''ان تعفوا اقرب للتقوي''جيسے الفاظ كے ذريعہ_

۱۸۸

٨_ عدت مكمل ہونے كے بعد ضرورى ہے كہ مرد اپنى توان اور استطاعت كے مطابق مطلقہ عورت كو مناسب اور اچھا مال و اسباب دے_و للمطلقات متاع بالمعروف امام جعفر صادق(ع) آيت''و للمطلقات ...'' كے بارے ميں فرماتے ہيں :متاعها بعد ما تنقضى عدتها'' على الموسع قدره و على المقتر قدره'' (١) مطلقہ عورت كو مال دينے كا وقت اسكى عدت گزرنے كے بعد ہے اور'' اس كى مقدار وسيع رزق و الے اور تنگ دست كے اپنے اپنے حالات كے مطابق ہے_''

احكام: ١، ٢، ٤، ٨

تقوي: تقوي كے اثرات ٤، ٥، ٦

روايت: ٨

شخصيت: شخصيت كى حفاظت كرنا;٢

شر عى فريضہ: شرعى فريضہ كى شرائط ٨; شرعى ميں قدرت ٨

طلاق: طلاق كے احكام ١

عدت: طلاق كى عدت٨

عرفى معيارات: ١، ٣

عورت: عورت كے حقوق ١، ٢، ٤، ٦، ٧

لوگ: لوگوں كے حقوق ٥

متقين : متقين كى ذمہ دارى ٤، ٥ ; متقين كى صفات ٦

مطلقہ: مطلقہ كومال و اسباب دينا -١، ٢، ٤، ٨ ;مطلقہ كے حقوق ٧

معاشرتى حيثيتيں : ٢

موضوع شناسي: موضوع شناسى كے منابع ٣

____________________

١) كافى ج ٦ ص ١٠٥، ح ٣، نور الثقلين ج ١، ص ٢٤٠، ح ٩٥٦ ، ٩٥٧ _

۱۸۹

كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (٢٤٢)

اسى طرح پروردگار اپنى آيات كو بيان كرتا ہے كہ شايد تمھيں عقل آجائے_

١_ خداوند عالم اپنے احكام كو واضح و روشن انداز ميں بيان فرماتا ہے_كذلك يبين الله لكم آياته

٢_ خدا تعالى كى طرف سے آيات كا بيان غور و فكر كو بيدار كرنے كا باعث بنتاہے_كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون

٣_ خدا وند متعال كى طرف سے آيات اور احكام كے بيان كرنے كا مقصد غور و فكر كرنا ہے _كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون

٤_ لوگ عقل و فكر كے ذريعے آيات اور احكام كو سمجھنے كى قدرت ركھتے ہيں _يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون

''لعلكم تعقلون''كا جملہ الہى آيات كے فہم و ادراك كو ان كى تبيين كا ہدف قرار دينے كے ساتھ ساتھ ضمنى طور پر انہيں سمجھنے اور درك كرنے كا راستہ بھى بتلاتا ہے جو وہى غور و فكر ہے_

٥_ الہى احكام اس كى ذات اقدس كى شناخت كى نشانياں ہيں _يبين الله لكم آياته

''آيات''(نشانيوں ) سے مراد الہى احكام ہيں چونكہ''كذلك''گذشتہ احكام كى طرف اشارہ ہے لہذا ہر حكم اس كى نشانى ہوگا_

٦_ غور و فكر كرنا اسلام كى بنيادى اور اہم ترين اقدار ميں سے ہے_لعلكم تعقلون

كيونكہ تعقل اور تفكر كو آيات كى تبيين كا مقصد و ہدف قرار ديا گيا ہے_

٧_ احكام الہى كى شناخت; وحى الہى ، خدا تعالى كى تبيين اور غور و فكر كے ذريعے ہى ممكن ہے_

كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تعقلون

۱۹۰

آيات خدا: ٥ آيات خدا كا بيان كرنا ١، ٢، ٣، ٧

احكام: احكام كى تشريع ١٣

انسان: انسان كى زندگى كے مختلف پہلو ٤

تعقل: تعقل كا پيش خيمہ٢ ;تعقل كى اہميت ٣، ٤، ٦، ٧

خدا شناسي: خداشناسى كے طريقے ٥

دين: دينى كى تعليمات٥

شناخت: شناخت كے طريقے ٤، ٧

وحي: وحى كى تاثير ٧

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّهُ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْيَاهُمْ إِنَّ اللّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَشْكُرُونَ (٢٤٣)

كيا تم نے ان لوگوں كو نہيں ديكھا جو ہزاروں كى تعداد ميں اپنے گھروں سے نكل پڑے موت كے خوف سے اور خدا نے انھيں موت كا حكم دے ديا او رپھر زندہ كرديا كہ خدا لوگوں پربہت فضل كرنے والا ہے ليكن اكثر لوگ شكريہ نہيں ادا كرتے ہيں _

١_ سابقہ امتوں كے ہزاروں لوگ اپنے گھروں كو موت كے ڈر سے چھوڑ كر بھاگ گئے اور خداوند عالم نے انہيں مار كر كچھ مدت كے بعد دوبارہ زندہ كيا_ا لم تر الى الذين ثم احياهم

٢_ اس قوم كا اپنے گھروں سے نكل جانے اور خدا كے حكم سے مر جانے اور پھر زندہ ہونے كا تاريخى

۱۹۱

واقعہ خداوند متعال كى نشانيوں ميں سے ہے_يبين الله لكم آياته ا لم تر الى الذين خرجوا

٣_ تاريخى واقعات كا جاننا اور ان سے عبرت حاصل كرنا مومنين كا فريضہ ہے_الم تر الى الذين

''الم تر''ميں رؤيت كا مطلب آنكھ سے ديكھنا نہيں ہے كيونكہ وہ واقعہ گذر چكا ہے اور مخاطب كيلئے اس كا ديكھنا ممكن نہيں ہے لہذا ''الم تر ...''ترغيب ہے سابقہ امتوں كے واقعات كو پہچاننے اور سمجھنے كى تاكہ سوچنے والوں كيلئے درس عبرت ہو_

٤_ مُردوں كا اس دنيا ميں زندہ ہونا ممكن ہے (رجعت) _فقال لهم الله موتوا ثم احياهم

٥_ موت و حيات اللہ تعالى كے قبضہ قدرت ميں ہے_فقال لهم الله موتوا ثم احياهم

٦_ موت نابودى اور فنا نہيں ہے_فقال لهم الله موتوا ثم احياهم كيونكہ موت اگر نابودى اور فنا ہوتى تو يہ كہنا صحيح نہ ہوتا كہ ہم نے انہيں مردوں كو زندہ كيا_

٧_ موت سے فرار ممكن نہيں ہے_ا لم تر الى الذين خرجوا من ديارهم و هم الوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا

٨_ خدا وند متعال اس قوم كے واقعہ كے بارے ميں غور و فكر كى دعوت ديتاہے جو مر گئے اوردوبارہ زندہ كيئے گئے ( تاريخى واقعات )_ا لم تر الى الذين خرجوا من ديارهم و هم الوف حذر الموت

٩_ خدا كى راہ ميں جنگ سے بھاگنے والوں كو قبل از وقت موت آجانا انكے اعمال كى سزا كے طور پر ہے_

ا لم تر الى الذين فقال لهم الله موتوا ...و قاتلوا فى سبيل الله اس آيت اور بعد والى آيت كے باہمى رابطے كو ديكھتے ہوئے كہا جاسكتا ہے كہ مذكورہ قوم كا اپنے گھروں اور شہر كو چھوڑنا ميدان جنگ سے بھاگنے كى وجہ سے تھا خدا تعالى اس واقعہ كى يادآورى كرتے ہوئے مسلمانوں كو متنبہ فرما رہاہے كہ ان بھاگنے والوں كى طرح جنگ سے فرار نہ كريں ورنہ قبل از وقت موت ''موتوا''سے دوچار ہوجائيں گے_

١٠_ جنگ سے فرار خدا وند متعال كى طرف سے مقدرشدہ موت كو روك نہيں سكتا_

۱۹۲

فقال لهم الله موتوا ثم احياهم قاتلوا فى سبيل الله

يہ مطلب اس صورت ميں ممكن ہے كہ اس آيت ميں مذكور داستان بعد والى آيت كے لئے تمہيدہو _

١١_ خدا تعالى پورى انسانيت پر فضل كرنے والا ہے _ان الله لذو فضل على الناس

١٢_ موجودہ انسانوں كو گذشتہ امتوں كى تاريخ سے مطلع كرنا خدا وندمتعال كے ان پر فضل و كرم كى وجہ سے ہے_

ا لم تر الى الذين ان الله لذو فضل على الناس ممكن ہے ''ان الله ''اس داستان اور تاريخ كے نقل كرنے كى علت ہوجو اس آيت ميں بيان ہوئي ہے_

١٣_ لوگوں كى حيات، اللہ تعالى كا ان پر فضل و كرم ہے_ثم احياهم ان الله لذو فضل على الناس

''ان الله '' جس طرح داستان اور تاريخ كے نقل كرنے كى علت بن سكتاہے اسى طرح ''ثم احياھم'' كے جملے كى بھى علت بن سكتا ہے_

١٤_ خدا وند متعال كے فضل و كرم كے مقابلے ميں اكثر لوگ ناشكرے ہيں _لذو فضل و لكن اكثر الناس لايشكرون

١٥_ خدا وند متعال كے فضل و كرم كے مقابلے ميں انسانوں پر شكر كرنا فرض ہے_ان الله لذو فضل على الناس و لكن اكثر الناس لايشكرون

١٦_ لوگوں كى اكثريت كا كسى طرف ميلان ركھنا ، اس چيز كى قدر و قيمتكا معيار نہيں ہے _ولكن اكثر الناس لايشكرون

١٧_ جو مردے خدا كے حكم سے زندہ ہوئے وہ ايك عرصے تك اسى دنيا ميں زندگى گزارتے رہے_ثم احياهم ان الله لذو فضل على الناس زندہ ہونا تب فضل خدا شمار ہوگا كہ زندہ ہونے والا ايك مدت تك زندہ رہے لہذا اگر زندہ ہوتے ہى بلافاصلہ مر جائے تو بعيد ہے كہ اس كا زندہ ہونا اس پر خدا كے فضل و كرم كى علامت بن سكے_

١٨_ خدا وند عالم نے حضرت حزقيل (ع) كى دعا كو مورد استجابت قرار ديتے ہوئے كئي ہزار مردوں كو زندہ كرديا_

و هم الوف حذر الموت فقال لهم الله موتوا ثم احياهم

۱۹۳

قال الباقر(ع) : فمر بهم نبي ...يقال له حزقيل ...قال رب لو شئت لاحييتهم ...فاوحى الله تعالى اليه افتحب ذلك قال نعم يارب فعادوا احياء (١) امام باقر (ع) فرماتے ہيں ان كے قريب سے ايك نبى (ع) گزرے جن كا نام حزقيل (ع) تھا انہوں عرض كيا اے پروردگار اگر تو چاہے تو ان كو زندگى بخش دے پس اللہ تعالى نے اپنے اس نبى (ع) كى طرف وحى كى كيا تو ايسا چاہتاہے؟ عرض كيا ہاں اے پروردگار ...پس وہ لوگ زندہ ہوگئے

آيات خدا: ٢

اقدار: اقدار كا معيار ١٦

اكثريت: اكثريت كى ناشكرى ١٤ ;اكثريت كے ذريعہ قدر و قيمت كا جانچنا ١٦

انبياء (ع) : انبياء (ع) كى دعا ١٨

انسان: انسان كى حيات ١٣; انسان كى ذمہ دارى ١٥

تاريخ: تاريخ سے عبرت ٣ ; تاريخ كا فلسفہ٣، ٨ ; تاريخى واقعات كا ذكر ١، ٢، ٨، ١٢، ٧

جانچنا: قدر و قيمت كے جانچنے كا معيار ١٦

جہاد: جہاد ترك كرنے كى سزا ٩ ;جہاد كا ترك كرنا ١٠

حضرت حزقيل(ع) : حضرت حزقيل (ع) كى دعا ١٨

حيات: حيات كا سرچشمہ ٥

خدا تعالى: خدا تعالى كا فضل ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٥; خدا تعالى كى قدرت٥ ;خدا تعالى كے احكام ١٧

خوف: موت سے خوف ١

دعا: قبوليت دعا ١٨

رجعت: دنيوى رجعت ١، ٤، ١٨

____________________

١) كافى ج٨، ص ١٩٨، ح٢٣٧ عيون اخبار الرضا (ع) ج١ ص ١٦٠ ،ح ١_

۱۹۴

روايت: ١٨

شكر: شكرخدا ١٥

شناخت : شناخت كے منابع ١٢

غور و فكر: غور و فكركى تشويق٨

قضا و قدر : ١٠

مردے: مردوں كو زندہ كرنا ١، ٢، ٤، ٨، ١٧، ١٨

معاشرہ: معاشرتى گروہ ١٤

مومنين: مومنين كى ذمہ دارى ٣

موت: موت سے فرار ٧; موت قبل از وقت ٩; موت كا سرچشمہ ٥ ;موت كى تقدير ١٠; موت كى حقيقت ٦

وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (٢٤٤)

اور راہ خدا ميں جہاد كرو او ريادركھو كہ خدا سننے والا بھى ہے او رجاننے والابھى ہے_

١_ موت و حيات ميں اللہ تعالى كى حاكميت پر توجہ ، اس كى راہ ميں جنگ و جہاد كيلئے خوف و ہراس كو ختم كرديتى ہے_

ا لم تر الى الذين و قاتلوا فى سبيل الله

٢_ خدا كى راہ ميں جنگ ، زندگى كى نعمت كا شكرانہ ہے_ثم احياهم ...و لكن اكثر الناس لايشكرون_ و قاتلوا فى سبيل الله

زندگى كى نعمت پر لوگوں كى ناشكرى كے بيان كرنے كے بعد، جہاد كا حكم دينا ، درحقيقت زندگى كى نعمت پر خدا كا شكر ادا كرنے كى روش بتلانا ہے_

٣_ خدا كى راہ ميں جنگ و پيكار كرنا واجب ہے_

۱۹۵

و قاتلوا فى سبيل الله

٤_ كسى عمل كى قدر و قيمت تب ہوتى ہے جب وہ خدا كى راہ ميں ہو_و قاتلوا فى سبيل الله

٥_ خدا سميع (سننے والا) اور عليم (جاننے والا) ہے _ان الله سميع عليم

٦_ جنگ كرنے يا اسے ترك كرنے ميں انسان كے ہدف اور اس كى اپنى گفتارو موقف سے اللہ تعالى آگاہ ہے_*

ان الله سميع عليم

٧_ انسان كا خدا كے لامحدود علم پر ايمان ركھنا اور اس كى طرف متوجہ رہنا اسے راہ خدا ميں جنگ كى ترغيب دلاتا ہے _وقاتلوا فى سبيل الله و اعلموا ان الله سميع عليم

٨_ميدان كارزار ميں سخت ترين حالات ميں خدا تعالى كے وسيع علم پر توجہ ركھنا ضرورى ہے_و قاتلوا فى سبيل الله و اعلموا ان الله سميع عليم ظاہر يہ ہے كہ آيت ميں خدا كے علم پر توجہ كا ضرورى ہونا جہاد كے ہمراہ بيان كيا گياہے ''قاتلوا واعلموا'' يعنى جب تم جنگ ميں مشغول ہو تو متوجہ رہو كہ خدا سميع اور عليم ہے_

٩_ خدا كى راہ ميں جہاد سے بھاگنے والوں اور جہاد كى خلاف ورزى كرنے والوں كو خدانے خبردار كيا اور ڈرايا دھمكاياہے_و قاتلوا فى سبيل الله و اعلموا ان الله سميع عليم گويا كہ '' واعلموا ...'' خلاف ورزى كرنے والوں كو ڈرانے دھمكانے كے لئے ہے_

احكام: ٣

اسماء و صفات: سميع ٥; عليم ٥

اقدار: اقدار كا معيار ٤

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا علم ٦، ٧، ٨; اللہ تعالى كى تنبيہات ٩; اللہ تعالى كى حاكميت ١ ;اللہ تعالى كى دھمكياں ٩

۱۹۶

ايمان: ايمان كے اثرات ٧ : ايمان كے انفرادى اثرات ١ ; ايمان اور عمل ٧

تحريك: تحريك كے عوامل ٧

تخلف كرنے والے : تخلف كرنے والوں كو تنبيہ ٩

جہاد: احكام جہاد ٣ جہاد كا ترك كرنا ٦، ٩; جہاد كا شوق دلانا ٧; جہاد ميں خوف ١; راہ خدا ميں جہاد ٢، ٣

حيات: حيات كا منبع ١ ; نعمت حيات ٢

خوف: خوف سے مقابلہ ١

ذكر: ذكر كى اہميت ٨

راہ خدا: راہ خدا ميں حركت٤

سختي: سختى ميں ذكر ٨

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كا پيش خيمہ٧

شكر: شكر نعمت ٢

علم: علم اور عمل ٧ ; علم كے اثرات ٧

عمل: عمل كے آداب ٤

موت: موت كا سرچشمہ ١

واجبات: ٣

۱۹۷

مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (٢٤٥)

كون ہے جو خدا كو قرض حسن دے او رپھر خدا اسے كئي گنا كر كے واپس كردے خدا كم بھى كرسكتاہے او رزيادہ بھى او رتم سب اسى كى بارگاہ ميں پلٹائے جاؤگے_

١_ خدا كى راہ ميں جہاد كرنا بندوں كى طرف سے خداوند متعال كى بارگاہ ميں بہترين قرض ہے_*وقاتلوا ...من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا

٢_ خدا كى راہ ميں جنگ كرنے كے ليئے اسلحہ اور ديگر ساز و سامان فراہم كرنا مسلمانوں كى طرف سے خداوند متعال كى بارگاہ ميں بہترين قرض ہے _وقاتلوا ...من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا

٣_ خدا كى راہ ميں خرچ كرنا بندوں كا خدا پر قرض حسنہ ہے_من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا

اس آيت ميں ''قرض''سے مراد خدا كى راہ ميں انفاق ہے_ لہذا خدا كى راہ ميں خرچ كرنا اسے قرض دينا ہے_

٤_ خرچ كئے جانے والے مال كا مناسب وپسنديدہ ہونا نيز خرچ كرنے والے كى نيت كا خالص ہونا انفاق كے دو اہم جز ہيں _من ذا الذى يقرض الله قرضاً حسناً قرض كا قابل تحسين ہونامنحصر ہے '' قرضاً حسناً'' حسن فاعلى ( خلوص نيت اور ...) اور حسن فعلى (مرغوب مال كا خرچ ) پر_

٥_ جو لوگ خدا كو اپنى جان و مال كا قرض ديتے ہيں انہيں خداوند متعال كئي گنا زيادہ اجر ديتاہے_

من ذا الذى يقرض الله فيضاعفه له اضعافا كثيرة

٦_ لوگوں كو نيك كاموں اور خدا كى راہ ميں خرچ كرنے كا شوق دلانے كيلئے لوگوں كى منافع طلبى

۱۹۸

كى خصلت سے فائدہ اٹھانا قرآنى روشوں ميں سے ہے_من ذا الذى يقرض الله ...فيضاعفه له اضعافا كثيرة

٧_ خدا كے راستے ميں خرچ كرنا بہت قابل قدر ہے_من ذا الذى يقرض الله فيضاعفه له اضعافا كثيرة

چونكہ انفاق كو قرض شمار كرتے ہوئے اس پر بہت زيادہ اجر كا وعدہ كيا گيا ہے اس سے اس كے بہت زيادہ قابل قدر ہونے كا پتہ چلتا ہے_

٨_ كار خير كے انجام كا پيش خيمہ فراہم كرنے كيلئے محرك پيدا كرنا اچھا عمل ہے_من ذا الذى يقرض الله قرضا حسنا فيضاعفه له اضعافا كثيرة خدا نے اجر كا ذكر كر كے محركپيدا كيا ہے اور يہ طريقہ كا ر تربيت كرنے والوں كيلئے بہترين درس ہے_

٩_انسانوں كى تنگ دستى يا وسعت رزق خداوند عالم كے اختيار ميں ہے_و الله يقبض و يبسط

١٠_ انسانوں كے مادى وسائل اور امكانات كے محدوديا وسيع ہونے پر خدا وند متعال كى حاكميت ہے_و الله يقبض و يبسط

١١_تنگ دستى اور وسعت رزق (قبض و بسط) كے خدا كى طرف سے ہونے پر ايمان ، قرض دينے يا راہ خدا ميں انفاق سے مال ميں كمى ہو جانے كے بے بنياد خيال كى نفى كرتاہے_والله يقبض و يبسط

انفاق كے ذكر كے بعد، تنگ دستى اور وسعت رزق (قبض و بسط) كے خدا كى طرف سے ہونے كى يا ددہانى اس معنى كو بيان كرنے كے ليے ہے_

١٢_ الہى قبض و بسط پر ايمان انسان كے اندر انفاق كا جذبہ پيداكرتا ہے_و الله يقبض و يبسط

١٣_ جو كچھ خدا كو قرض ديا جاتا ہے وہ باقى رہتا ہے اور انسان كو اس كا كئي گنا زيادہ واپس ملتا ہے _

من ذا الذى يقرض الله فيضاعفه له اضعافا كثيرة

''فيضاعفہ''كى ضمير اپنے مفعول يعنى قرض كى طرف لوٹتى ہے يعنى جو مال قرض ديا جاتا ہے وہ كئي گنا ہوجاتا ہے اور انسان كو واپس كيا جاتا ہے يہ اس صورت ميں ہوسكتا ہے كہ وہ مال باقى ہو_

۱۹۹

١٤_ سب لوگوں كى ابتدا خدا سے ہے اور ان كى بازگشت بھى صرف اسى كى طرف ہوگي_و اليه ترجعون

''رجوع''كے معنى وہيں پر لوٹنے كے ہيں كہ جہاں سے آيا تھا_

١٥_ خدا كى طرف بازگشت اور پلٹنے پر ايمان، لوگوں كو خدا كى راہ ميں جنگ كرنے اور انفاق كرنے پر ابھارتا اور ترغيب دلاتا ہے_و قاتلوا فى سبيل الله من ذا الذى يقرض الله و اليه ترجعون

١٦_ خدا انفاق (خرچ) كرنے والوں كو دنيا اور آخرت دونوں جگہ اجر ديتاہے_فيضاعفه له اضعافا و اليه ترجعون ''اليہ ترجعون''آخرت ميں خدا تعالى كے اجر كى طرف اشارہ ہے، لہذا''فيضاعفہ لہ''دنيا ميں خدا كے اجر كا بيان ہے_

١٧_ امام مسلمين كو صلہ دينا اور اس كى مالى مدد كرنا خداوند عالم كو قرض دينے كے مصاديق ميں سے ہے_

من ذا الذى يقرض الله قرضا اس آيت كے بارے ميں امام موسى كاظم (ع) نے فرمايا :من ذا الذى نزلت فى صلة الامام (١) ترجمہ: ''من ذالذى ...''كى آيت امام كى مالى مدد كرنے كے بارے ميں نازل ہوئي ہے_

١٨_ خدا كے راستے ميں خرچ كرنے كا اجر بے حساب اور ناقابل شمار ہے_فيضاعفه له اضعافا كثيرة

امام صادق(ع) نے فرمايا:ان الكثير من الله عزوجل لايحصى و ليس له منتهى (٢) ترجمہ: خداوند عزوجل كى طرف سے كثير وہ ہے كہ نہ اسے گنا جاسكے اور نہ ہى اس كى انتہا ہو_

اجر: كئي گنا اجر٥، ١٣

انسان: انسان كا انجام ١٤; انسان كا مبداء ١٤ ;انسان كى نفع طلبى ٦; انسانى صفات ٦

انفاق: انفاق كا اجر١٣، ١٨; انفاق كا اخروى اجر ١٦; انفاق كا پيش خيمہ١٥;انفاق كا دنياوى اجر ١٦ ; انفاق كى تشويق ٦; انفاق كى قدر و قيمت ٣،٧;

____________________

١) كافى ج١، ص ٥٣٧، ح ٤، تفسير عياشى ،ج ١ ص ١٣١، ح٤٣٥_

٢) معانى الاخبار، ص ٣٩٧، ح ٥٤;نور الثقلين ، ج١ ، ص ٢٤٣، ح ٩٦٥_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336