تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں17%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86592 / ڈاؤنلوڈ: 3123
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دیتے هوئے بتوں کو اعلانیہ طور پر باطل قرارديتے تھے تو کفار قریش اس کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے ۔ اورجب کوئی اسلام قبول کر تا تھا اس پر ظلم وتشدد کیا کرتے تھے ۔چنانچہ بلال، عمار، ياسر و سميه () جیسے پاک دل اور ایمان سے سرشار افراد کو مختلف مواقع پر جان لیوا اذیت اور آزار پہنچا تے تھے اور ان کو دوبارہ کفر کی طرف بلاتے تھے ۔چنانچہ عمار اور ان کے ماں باپ کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی اور نازیبا الفاظ زبان پر لانے پر مجبور کیا گيا؛ تو جناب یاسر اور ان کی زوجہ ، یعنی حضرت عمار کے والدین نے یہ گوارا نہیں کیا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی کی جائے ۔ اسی جرم میں وہ دونوں اپنے بیٹے کے سامنے شہید کئے گئے ، لیکن عمار کی جب باری آئی تو اپنی جان بچانے کی خاطر کفار قریش کے ارادے کے مطابق پیغمبر کی شان میں گستاخی کی ۔ جس پر کفار نے انہیں آزاد کیا ۔جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں یہ شکایت پہنچی کہ عمار نے آپ کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ تو فرمایا : ایسا ممکن نہیں کہ عمار نے دوبار ہ کفر اختیار کیا ہو بلکہ وہ سر سے لیکر پاؤں تک ایمان سے لبریز اور اس کے گوشت و خون اور سراسر وجود میں ایمان کا نور رواں دواں ہے ۔اتنے میں عمار روتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کے چهرے

۲۱

سے آنسو صاف کئے اور فرمایا : جو کام تو نے انجام ديا هے ، قابل مذمت اور جرم نہیں ہے اگر دوبارہ کبھی ایسا موقع آجائے اور مشرکوں کے ہاتھوں گرفتار ہوجاؤ تو کوئی بات نہیں کہ تم ان کی مرضی کے مطابق انجام دو ۔پھر یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی ۔

جس سے معلوم ہوتا کہ دینی مقدسات کی شان میں گستاخی کرنے پر مجبور ہوجائیں تو کوئی بات نہیں ۔ آپ کو اختیار ہے کہ یا آپ تقیہ کرکے اپنی جان بچائیں یا جرٲت دکھاتے ہوئے جام شہادت نوش کریں ۔

ایک روايت منقول ہے کہ دو مسلمانوں کو مسیلمہ کے پاس لایا گیا جو نبوت کا دعوی ٰ کررہا تھا ۔مسیلمہ نے ایک سے پوچھا: محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟

اس نے کہا : آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔

مسیلمہ : میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟

مسلمان: آپ بھی اسی طرح ہیں ۔

پھردوسرے شخص کو لایا گیا ، اور اس سے بھی یہی سوال پوچھا گیا ، لیکن اس نے کچھ بھی

۲۲

نہیں کہا ۔تو اسے قتل کرنے کا حکم دیا گیا ۔

یہ خبر رسول خدا تک پہنچی ، فرمایا: پہلے شخص نے تقیہ پر عمل کیا اور دوسرے شخص نے حق کو آشکار اور بلند و بالا کیا ۔اورپہلے کے حق میں دعا کی اور دوسرے کے لئے فرمایا :اس کیلئے شہادت مبارک ہو ۔(۱)

يوسف بن عمران روايت کرتا ہے کہ ميثم تمارسے سنا ہے: امير المؤمنينعليه‌السلام نے مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا : اے میثم جب عبيد الله ابن زياد تمھیں میرے بارے میں گستاخی کرنے اور مجھ سے برائت کرنے کا حکم دے گا تو تم کیا کرو گے؟

میں نے کہا :يا امير المؤمنينعليه‌السلام خدا کی قسم! کبھی اظہار برائت نہیں کروں گا ۔

فرمایا:پھر تو تم مارےجاؤ گے ۔

میں نے کہا : میں صبر کروں گا ؛ کیونکہ راہ خدا میں جان دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔

فرمایا:اے میثم! تم اس عمل کی وجہ سے قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگے ۔

____________________

۱: تقيه در اسلام ، ص۱۰۔

۲۳

پس یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اگر کسی نے تقیہ کے موارد میں تقیہ نہیں کیا تو اس نے خودکشی کرلی هو ، بلکہ ایسے موارد میں انسان کو اختیار ہے کہ وہ شہادت کو اختیار کرے یا تقیہ کرکے اپنی جان بچائے تاکہ آئندہ آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اور اسلام کي زیادہ خدمت کرسکے ۔

۳ ۔تقيه كتمانيه

ضعف اور ناتوانی کے مواقع پر اپنا مذہب اور مذہب والوں کی حفاظت کرنا اور ان کی طاقت اور پاور کو محفوظ کرنا تاکہ بلند و بالا اہداف حاصل کرسکے ۔

اور یہاں تقيه كتمانيه سے مراد ہے دین مقدس اسلام اور مکتب اہل بیتعليهم‌السلام کی نشر واشاعت کی خاطر اپنی فعالیتوں کو مخفی اور پوشیدہ رکھنا ، تاکہ دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ قدرت مند ہو ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ہمارے دینی اور مذہبی رہنما حضرات اس طرح تقیہ

۲۴

کرنے کا حکم دیتے ہیں ؟

اس کا جواب یہی ہے کہ کیونکہ مکتب تشیع ایک ایسا مکتب ہے کہ حقيقي اسلام کو صرف اور صرف ان میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔شیعہ ابتدا ہی سے مظلوم واقع ہوئے ہیں کہ جب آئمہ طاہرینعليهم‌السلام تقیہ کرنے کا حکم دے رہے تھے اس وقت شیعہ انتہائی اقلیت میں تھے اور ظالم وجابر اور سفاک بادشاہوں اور سلاطین کی زد میں تھے ۔اگر شیعہ اپنے آداب و رسوم کو آشکار کرتے تو ہر قسم کی مشکلات ان کے سروں پر آجاتیں اور جان بھی چلی جاتی ۔اور کوئی شیعہ باقی نہ رہتا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ حقیقی اسلام باقی نہ رہتا ۔ یہی وجہ تھی کہ آئمہ اطهارعليهم‌السلام نے تقیہ کا حکم دیا ۔

تقيه كتمانيه پر دلیل :

۱ ـ:كِتَابُ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلَالِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيّاً ع يَقُولُ يَوْمَ قُتِلَ عُثْمَانُ قَالَ رَسُولُ اللهِ ص قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ التَّقِيَّةَ مِنْ دِينِ اللهِ وَ لَا دِينَ لِمَنْ لَا تَقِيَّةَ لَهُ وَ اللهِ لَوْ لَا التَّقِيَّةُ مَا عُبِدَ اللهُ فِي الْأَرْضِ فِي دَوْلَةِ إِبْلِيسَ فَقَالَ رَجُلٌ وَ مَا دَوْلَةُ إِبْلِيسَ فَقَالَ إِذَا وُلِّيَ إِمَامُ هُدًى فَهِيَ فِي دَوْلَةِ الْحَقِّ عَلَى إِبْلِيسَ وَ إِذَا وُلِّيَ إِمَامُ ضَلَالَةٍ فَهِيَ

۲۵

دَوْلَةُ إِبْلِيسَ ۔(۱)

راوی کہتا ہے :هم نے امير المؤمنينعليه‌السلام سےقتل عثمان کے دن فرماتے هوئےسنا :هم نے رسول خداسے تاکید کے ساتھ فرماتے هوئےسنا: تقیہ میرا دین ہے اور جو بھی تقیہ کا قائل نہیں ، اس کا کوئی دین نہیں ۔ اور اگر تقیہ کے قوانین پر عمل نہ ہوتا تو شیطان کی سلطنت میں روئے زمین پر خدا کی کوئی عبادت نہ ہوتی ۔ اس وقت کسی نے سوال کیا ، ابلیس کی سلطنت سے کیا مراد ہے ؟

فرمایا : اگر کوئی خدا کا ولی یا عادل امام لوگوں پر حکومت کرے تو وہ خدائی حکومت ہے ، اور اگرکوئی گمراہ اور فاسق شخص حکومت کرے تو وہ شیطان کی حکومت ہے ۔

اس روایت سے جو مطلب ہمیں حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس طاغوتی حکومت کے دوران صرف اپنے مذہب کو مخفی رکھنا اور خاموش رہنا صحیح نہیں ہے بلکہ اس میں بھی خدا تعالی کی عبادت و بندگی ہوتی رہے۔

اصحاب كهف کا عمل بھی اسی طرح کا تقیہ تھا ، اور حضرت ابوطالب کا تقیہ

____________________

۱: مستدرك‏الوسائل، ج ۱۲، ص۲۵۲ باب وجوب التقية مع الخوف ۔

۲۶

بھی اسی قسم کا تقیہ شمار ہوتا ہے ۔جسے ابتدائے اسلام میں انہوں نے اختیار کیا تھا ۔کہ اپنے دین کو کفار قریش سے مخفی رکھا ۔ اورخود کو کفار کا ہم مسلک ظاہر کرتے رہے تاکہ رسول گرامي اسلام کی حمايت اور حفاظت آسانی سے کرسکیں ۔اور مخفی طور پر دین مبین اسلام کی نشر واشاعت کرتے رہے ۔ چنانچہ آپ ہی کی روش اور تکنیک کی وجہ سے پیغمبر اسلامسے بہت سارے خطرات دور ہوتے رہے ۔

۴ ۔تقيه مداراتي يا تحبيبي

اهل سنت کےساتھ حسن معاشرت اور صلح آميز زندگي کرنے کی خاطر ان کی عبادي ا ور اجتماعي محفلوں اور مجلسوں میں جانا تاکہ وحدت پیدا ہو اور اسلام دشمن عناصر کے مقابلے میں اسلام اور مسلمین قدرت مند ہوں ۔

تقيه مداراتي

۱ ۔ مطلوبيت ذاتي رکھتا ہے = وجوب نفسي

۲ ۔ مطلوبيت غيري رکھتا ہے = وجوب غيري

۲۷

تقيه مداراتي کے شرعی جواز پر دلیلیں:

o امام سجاد نے صحيفه سجاديه میں مسلمانوں کیلئے دعائے خیر اور کفار کیلئے بددعا کرتے ہوئے فرمایا:خدايا اسلام اور مسلمين کودشمن اورآفات و بليات سے محفوظ فرما ، اور ان کے اموال کو با ثمر و منفعت اورپر بركت فرما۔ اور انہیں دشمن کے مقابلے میں زیادہ قدرت مند اور شان وشوکت اور نعمت عطا فرما ۔اور میدان جنگ میں انہیں کافروں پر فتح و نصرت عطا فرما ۔ اور اپنی عبادت اور بندگی کرنے کی مہلت اور فرصت عطا فرما تاکہ وہ تجھ سےتوبہ اور استغفار اور راز و نیاز کر سکیں خدایا ! مسلمانوں کو ہر طرف سے مشرکوں کے مقابلے میں عزت اور قدرت عطا فرما اور مشرکوں اور کافروں کوآپس میں جنگوں میں مشغول فرما ! تاکہ وہ مسلمانوں کے حدود اور دیار کی طرف دست درازی نہ کرسکیں ۔(۱)

____________________

۱: مستدرك‏الوسائل، ج ۱۲، باب وجوب التقية مع الخوف ، ص ۱۰۰۔

۲۸

o معاويه بن وهب کہتا ہے کہ میں نے امام صادقعليه‌السلام سے سوال کیا : کہ دوسرے مسلمانوں اور مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے ؟

امامعليه‌السلام نے فرمایا: ان کی امانتوں کو پلٹاؤ اور جب آپس میں کوئی نزاع پیدا ہو جائے اور حاکم شرع کے پاس پہنچ جائے تو حق دار کے حق میں گواہی دو اور ان کے بیماروں کی عیادت کیلئے جاؤ اور ان کے مرنے والوں کی تشییع جنازے میں شرکت کرو۔(۱)

امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

كونوا لمن انقطعتم ﺇليه زيناً ولا تكونوا علينا شيناً صلّوا في عشائرهم عودوا مرضاهم و اشهدوا جنائزهم ولا يسبقونكم الي شيئٍ من الخير فا نتم أولي به منهم والله ما عبدالله بشيئٍ أحبُّ اليه من الخباء قلت: و ما الخباء؟ قال: التقيه ۔(۲)

ایسے کاموں کے مرتکب ہونے سے پرہیز کرو جو ہمارے مخالفین کے سامنے سرزنش کا باعث بنے ، کیوں کہ لوگ باپ کو اس کے بیٹوں کے برے اعمال کی وجہ سے ملامت کرتے

____________________

۱: وسائل الشيعه،ج۱ ، كتاب حج،احكام عشرت۔

۲: وسائل الشيعه ،ج ۱۱،ص ۴۷۱۔

۲۹

ہیں ۔کوشش کرو کہ ہمارے لئے باعث زینت بنو نہ کہ باعث ذلت۔ اہل سنت کے مراکز میں نماز پڑھا کرو اور بیماروں کی عیادت کیا کرواور ان کے مردوں کے جنازے میں شرکت کیا کرو اور تمام اچھے کاموں میں ان پر سبقت لے جاؤ ، ان صورتوں میں اگر ضرورت پڑي تو محبت بڑھانے اور اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کیلئے اپنے عقائد کو چھپاؤ ۔ خدا کی قسم ایسے مواقع میں کتمان کرنا بہترین عبادت ہے ۔ راوی نے سوال کیا : یابن رسول اللہ ! کتمان سے کیا مراد ہے ؟ ! تو فرمایا: تقیہ ۔

یہ تقیہ مداراتی اور تحبیبی کے جواز پر کچھ دلائل تھے ۔ لیکن ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سارے مسلمان عقیدتی ، فکری اور سلیقائی اختلافات مکمل طور پر ختم کرکے صرف ایک ہی عقیدہ اور سلیقہ کے پابندہوجائیں ؟ !

اس سوال کا جواب بالکل منفی میں ملے گا۔ یہ ناممکن ہے ۔کیونکہ کوئی بھی قوم یا قبیلہ نہیں ملے گا جس میں سینکڑوں اختلافات اور نظریات نہ پائے جاتے ہوں۔ حتی خود دین اسلام میں کہ سارے اصول اور فروع دین توحید کی بنیاد پر قائم ہیں ، پھر بھی زمانے کے

۳۰

گزرنے کے ساتھ ساتھ اصلی راستے اور قاعدے سے منحرف ہوجاتے ہیں اور اختلافات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ پس ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟! اور راہ حل کیا ہے ؟! ایک طرف سے بغیر وحدت اور اتحاد کے کوئی کام معاشرے کے حوالے سے نہیں کرپاتے، دوسری طرف سے اس وحدت اور اتحاد کے حصول کیلئے سارے اختلافی عوامل کو پس پشت ڈالنا پڑتا ہے ۔

کیا ایسی صورت میں ہم بیٹھے رہیں اور اختلافات کے کیڑے مکوڑے معاشرے کے سعادت مند ستون کو اندر سے خالی کرتے کرتےسرنگوں کریں؟!یا کوئی راہ حل موجود ہے جس کے ذریعے سے ايک حد تک وحدت برقرار کرلیں ؟!

یہ وہ مقام ہے جہاں دور حاضر کے مفکرین اور دانشمندوں نے کئي فارمولے تیار کئے ہیں جن کے ذریعے ممکن ہے کہ یہ ہدف حاصل ہوجائے ، اور وہ فامولے درج ذیل ہیں:

۱ ۔ ہر معاشرے میں موجود تمام ادارے قوم پرستی، رنگ و زبان اور موقعیت ، مذہب میں فرق کئے بغیر اجتماعی حقوق کو بعنوان ”حقوق بشر“ رسمی مان لیں اور خود غرضی سے پرہیز کریں ۔

۳۱

۲ ۔ تمام ممالک کو چاہئے کہ معاشرے میں موجود تمام گروہوں کو اس طرح تعلیم دیں کہ اتحاد و اتفاق کی حفاظت کی خاطر اجتماعی منافع کو شخصی منافع پر مقدم رکھیں ۔ اور انہیں یہ سمجھائیں کہ اجتماع کی بقا میں افراد کی بقا ہے ۔

۳ ۔ ہر ایک شخص کو تعلیم دیں کہ دوسروں کے عقائد کا احترام کریں تاکہ معاشرے کیلئے کوئی مشکل ایجاد نہ ہو ۔اور ملک اور معاشرے کے بنیادی اصولوں اور قواعد و ضوابط کو ضرر نہ پہنچائيں ۔ اور ایک دوسرے کے احساسات اور عواطف کا احترا م کریں ۔

۴ ۔ ان کو سمجھائیں کہ دوسرے مکاتب فکر کے مختلف اور معقول آداب و رسوم میں شرکت کریں ۔ اس طرح ایک دوسرے کے درمیان محبت پیدا کریں۔

پس اگر ايك جامعه یامعاشرے میں ان قوانین اور اصولوں پر عمل درآمدهوجائے تو سارے اسلامی ممالک ایک پليٹ فارم پر جمع ہونگے اور ایک دوسرے کے درمیان محبت اور جذبہ ایثار پیدا هوگا۔ یہی وجہ تھی کہ آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اپنے گوہر بار كلمات میں اس بات کی طرف تشویق کرتے هوئے نظر آتے هيں۔

۳۲

مداراتی تقیہ کی ایک زندہ مثال یہ ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کیلئے مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں دوسروں کے ساتھ بغیر سجدہ گاہ کے قالین پر سجدہ کر سکتے ہیں ، یہ نماز صحیح ہے اگرچہ جانی یا مالی نقصان کا خدشہ بھی نہیں ہے۔(۱)

تقيه اور توريه میں موازنه

لغت میں توريه ؛وراء یا پيٹھ سے نکلا ہے جس کا مد مقابل امام یعنی (آگے ) سے لیا گیا ہے ۔اور اصطلاح میں کسی چیز کو چھپانے کو کہا جاتا ہے ۔

 تقيه اور توريه کے درمیان نسبت تباين پایاجا تا ہے ۔ کیونکہ توریہ لغت میں ستر(چھپانا) اور تقیہ صیانت اور حفاظت کو کہا جاتا ہے ۔

 توریہ میں شخص واقعیت کا ارادہ کرتا ہے لیکن تقیہ میں نہیں ۔

____________________

۱: مکارم شیرازی؛ شیعہ پاسخ می گوید،ص۴۵۔

۳۳

 توریہ میں مصلحت کو ملحوظ نظر نہیں رکھا جاتا لیکن تقیہ میں کئی مصلحتوں کو ملحوظ نظر رکھا جاتا ہے ۔

 لیکن مصداق کے لحاظ سے ان دونوں میں عموم و خصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے ۔ کہ ان دونوں کا مورد اجتماع یہ ہے کہ تقیہ کرنے والا تقیہ کے موارد میں اوراظہار کے موقع پر حق کے برخلاف ، توریہ سے استفادہ کرتا ہے کیونکہ خلاف کا اظہار کرنا ؛ حق کا ارادہ کرنے یا خلاف حق کا ارادہ کرنے سے ممکن ہے۔

 تقيه اور توريه میں افتراق کا ایک مورد ، تقيه كتماني ہے كه یہاں کوئی چیز بیان نہیں ہوئی ہے جو توریہ کا باعث بنے ۔

 ان دونوں میں افتراق کا ایک اور مورد یہ ہے کہ توریہ میں کوئی مصلحت لحاظ نہیں ہوئی ہے اور اگر کوئی مصلحت ملحوظ ہوئی ہے تو بھی ذاتی منافع ہے ۔

تقيه ، اكراه اور اضطرارکے درمیان تقابل

تقيه کے بعض موارد کو اكراه و اضطرار کے موارد میں منحصر سمجھاجاتاہے۔شيخ انصاري(ره) مكاسب میں اكراه کے بارےمیں یوں فرماتے ہیں :

۳۴

ثم ان حقيقة الاكراه لغة و عرفا حمل الغير علي ما يكرهه في وقوع الفعل من ذالك الحمل اقترانه بوعيد منه مظنون الترتب الغير علي ترك ذالك الفعل مضر بحال الفاعل او متعلقه نفسا او عرضا او مالا ۔(۱)

اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اکراہ کے وجود میں آنے کی تین شرائط ہیں:

۱. یہ مخالف کی طرف سے واقع ہوتا ہے ۔ پس جہاں اگر خود انسان جلب منفعت یا دفع ضرر کیلئے کوئي قدم اٹھائے تو وہ توریہ میں شامل نہیں ہے ۔

۲. اكراه یہ ہے کہ مستقيماکسی کام پر انسان کو مجبور کیا جائے نه بطور غير مستقيم۔

۳. تهديد اور وعيد کے ساتھ ہو کہ اگر انجام نہ دے تو اس کی جان ، مال، عزت آبرو خطرے میں پڑ جائے ۔

ان تین شرائط اور اولین آیہ شریفہ جو مشروعیت تقیہ کے بارے میں نازل ہوئی جس میں

عمار ابن یاسر ؒ کا قصہ بیان ہوا ہے ، سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض موارد میں تقیہ اور اکراہ میں مطابقت پائی جاتی ہے ۔ اور ان تین شرائط کے ذریعے حضرت عمارؒ کے تقیہ کرنے پر استدلال کیا جا سکتا ہے ۔اور تقیہ کی تعریف بھی اس پر منطبق ہوسکتی ہے ۔لیکن جہاں یہ تین شرائط صدق آئیں اور تقیہ صدق نہ کرے تو وہ اکراہ اور تقیہ کے افتراق کے موارد ہونگے ۔

____________________

۱: شيخ انصاري(ره) ،المكاسب،شروط متعا قد ين،ص۱۱۹۔

۳۵

تقيه کے آثارا ور فوائد

شہیدوں کے خون کی حفاظت

تقیہ کا بہترین فائدہ شہیدوں کے خون کی حفاظت ہے ۔یعنی پوری تاریخ میں شیعیان علیعليه‌السلام مظلوم واقع ہوتے رہے ہیں۔ جب بھی ظالموں کے مظالم کا نشانہ بنتےتھے تقیہ کرکے اپني جان بچاتےتھے۔

چنانچہ امام صادقعليه‌السلام فرماتے هيں: اے ہمارے شیعو! تم، لوگوں کے درمیان ایسے ہو جیسے پرندوں کے درمیان شہد کی مکھی ہے ۔ اگر پرندوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ شہد کی مکھی کے پیٹ میں شہد موجود ہے ، تو ساری شهد کي مکھیوں کو کھاجائیں اور ایک بھی زندہ نہیں چھوڑیں ؛ اسي طرح اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ تمہارے دلوں میں ہم اہل بیتعليهم‌السلام کی محبت موجود ہے تو تمھیں زخم زبان کے ذریعے کھا جائيں گے اور ہر وقت تمہاری غیبت اور بدگمانی میں مصروف رہيں گے ۔ خدا ان لوگوں پر اپنی رحمت نازل کرے جو ہماری ولایت کو

۳۶

مانتے ہيں۔(۱)

اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور تقویت

یہ تقیہ کا دوسرا فائدہ ہے کہ اہل بیتعليهم‌السلام ، اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور تقویت کیلئے زیادہ کوشش کرتے تھے ، تاکہ اسلامی معاشرہ ایک واحد اور قدرت مند معاشرہ بنے ، اور اسلام دشمن عناصر کبھی بھی اس معاشرے پر آنکھ اٹھانے کی جرأت نہ کرسکيں ۔

اس عظیم مقصد کے حصول کی خاطر آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اپنے چاہنے والوں کو سخت تاکید فرماتے تھے ۔جيسا که حديث ميں آيا هے:

قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مِهْرَانَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع وَ عِنْدَهُ نَفَرٌ مِنَ الشِّيعَةِ فَسَمِعْتُهُ وَ هُوَ يَقُولُ مَعَاشِرَ الشِّيعَةِ كُونُوا لَنَا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْنَا شَيْناً قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً احْفَظُوا أَلْسِنَتَكُمْ وَ كُفُّوهَا عَنِ الْفُضُولِ وَ

____________________

۱: علامه كليني ؛ اصول كافي،ج۲،ص۲۱۸۔

۳۷

قَبِيحِ الْقَوْل ۔(۱)

چنانچه امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہیں : اے ہمارے شیعو! خبردار! کوئی ایسا کام انجام نہ دو ، جوہماری مذمت کا سبب بنے ۔ لوگوں کے ساتھ اچھی گفتگو کیا کرو ، اپنی زبانوں کی حفاظت کرواور فضول اور نازیبا باتیں کرنے سے باز آؤ ۔

عَنْ هِشَامٍ الْكِنْدِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللهِ ع يَقُولُ إِيَّاكُمْ أَنْ تَعْمَلُوا عَمَلًا نُعَيَّرُ بِهِ فَإِنَّ وَلَدَ السَّوْءِ يُعَيَّرُ وَالِدُهُ بِعَمَلِهِ كُونُوا لِمَنِ انْقَطَعْتُمْ إِلَيْهِ زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْهِ شَيْناً صَلُّوا فِي عَشَائِرِهِمْ وَ عُودُوا مَرْضَاهُمْ وَ اشْهَدُوا جَنَائِزَهُمْ وَ لَا يَسْبِقُونَكُمْ إِلَى شَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَيْرِ فَأَنْتُمْ أَوْلَى بِهِ مِنْهُمْ وَ اللهِ مَا عُبِدَ اللهُ بِشَيْ‏ءٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الْخَبْ‏ءِ قُلْتُ وَ مَا الْخَبْ‏ءُ قَالَ التَّقِيَّة ۔(۲)

راوی کہتا ہے کہ امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا: خبردار ! تم لوگ کوئی ایسا کام کر نہ بیٹھو جس کی وجہ سے هميں ذلت اٹھانی پڑے کیونکہ جب بھی کوئی اولاد برا کام کرتی ہے تو لوگ اس کے والدین کی مذمت کرنے لگتے ہیں۔جب کسی سے دوستی کرنے لگو اور

____________________

۱:۔ أمالي الصدوق، ص ۴۰۰، جلسہ۶۲‏۔

۲: وسائل الشيعة ‏، باب وجوب عشرة العامة بالتقية ،ج۱۶،ص۲۱۹ ۔

۳۸

اس کی خاطر دوسروں سے دوری اختیار کرو تو اس کیلئے زینت کاباعث بنو نہ کہ مذمت اور بدنامی کا ۔ برادران اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کرو ، ان کے مرنے والوں کے جنازے میں شریک ہو جاؤ ، ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ تم سے کار خیر میں آگے ہو ں ، کیوں کہ اچھے کاموں میں تم لوگ ان سے زیادہ سزاوار ہو ۔ خدا کی قسم ! خبأسے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں ہے ۔ کسی نے سوال کیا : اے فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خبأ سے کیا مراد ہے ؟! تو امام ؑ نے جواب دیا : اس سے مرادتقیہ هے ۔

عَنْ أَبِي أُسَامَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللهِ وَ الْوَرَعِ وَ الِاجْتِهَادِ وَ صِدْقِ الْحَدِيثِ وَ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَ حُسْنِ الْخُلُقِ وَ حُسْنِ الْجِوَارِ وَ كُونُوا دُعَاةً إِلَى أَنْفُسِكُمْ بِغَيْرِ أَلْسِنَتِكُمْ وَ كُونُوا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا شَيْناً وَ عَلَيْكُمْ بِطُولِ الرُّكُوعِ وَ السُّجُودِ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَطَالَ الرُّكُوعَ وَ السُّجُودَ هَتَفَ إِبْلِيسُ مِنْ خَلْفِهِ وَ قَالَ يَا وَيْلَهُ أَطَاعَ وَ عَصَيْتُ وَ سَجَدَ وَ أَبَيْتُ ۔(۱)

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادقعليه‌السلام سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے : تم پر لازم

____________________

۱:۔ كافي ،باب الورع، ج‏۲ ، ص ۷۶۔

۳۹

ہے کہ تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرو ،کوشش کرو کہ سچ بات کہو،امانت میں دیانت داری دکھاؤ ،اچھے اخلاق کے مالک بنو، اور اچھے پڑوسی بنو،اور لوگوں کو زبانی نہیں بلکہ اپنے کردار کے ذریعے اچھائی کی طرف بلاؤ ۔اور ہمارے لئے باعث افتخار بنو نہ کہ باعث ذلت اور رسوائی۔اور تم پر لازم ہے کہ طولانی رکوع اور سجدے کیا کرو ؛ جب تم میں سے کوئی رکوع اور سجود کو طول دیتا ہے تو اس وقت شیطان اس کے پیچھے سے چیخ وپکار کرنےلگتا هے ، اور کهتا هے : واویلا ! اس نے خدا کی اطاعت اوربندگی کی، ليکن میں نے نافرمانی کی ، اس نے خدا کیلئے سجدہ کیا اور میں نے انکار کیا ۔

اگر ان دستورات کو آپ ملاحظہ فرمائیں تو معلوم ہو جائےگا کہ آئمہ طاہرین کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان الفت و محبت پیداهو اور سب مسلمان صلح و صفائی کے ساتھ زندگي بسر کريں ۔

تقيه کے شرائط

تقیہ ہر صورت اور ہر موقع اور ہر جگہ پر صحیح نہیں ہے بلکہ خاص شرائط اور زمان و

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

سب سے پہلا اشکال اور شبہہ پیدا کرنے والا سلیمان بن جریر ابدی ہے جو فرقہ جریرہ کا رہبر ہے ۔ وہ امام صادقعليه‌السلام کا ہم عصر ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ شیعوں کے امام جب کسی خطا کے مرتکب ہوتے تھے تو تقیہ کو راہ فرار کے طور پر بیان کرتے تھے ۔ اور کہتے تھے کہ یہ تقیہ کے طور پر انجام دیا گیا ہے ۔(۱)

یہی اشکال، اس کے بعد مختلف کلامی اور تفسیری کتابوں میں اہل سنت کی جانب سے کرنے لگے ۔ بعد میں شیعہ بڑے عالم دین سيد شريف مرتضي معروف به علم الهدي ( ۳۵۵ ـ ۴۳۶) ق نے ان شبہات اور اشکالات کا جواب دیا ہے۔(۲)

____________________

۱ ۔ نوبختي، فرق الشيعه ، ص۸۵۔

۲ ۔ شيخ انصاري، رسائل ، ج۱،ص ۲۹۰، ۳۱۰۔

۲۰۱

فخر رازي( ۵۴۴ ـ ۶۰۶ ه ) صاحب تفسير كبيرنے « مفاتيح الغيب»میں سليمان ابن جرير کے تقیہ کے بارے میں اس شبہہ کوتكرار کیا ہے، جس کا جواب خواجه نصير الدين طوسي ( ۵۷۹ ـ ۶۵۲ ق) نےدیا ہے ۔(۱)

سب سے زیادہ شبهات گذشتہ دور میں تقي الدين احمد معروف ابن تيميه ( ۶۶۱ ـ ۷۲۸ ق) کی کتاب منهاج السنّه ، میں دیکھنے میں آتا ہے جو مجموعاً پانچ اشکالات پر مشتمل ہے ۔(۲)

____________________

۱۔ المحصل ، ص ۱۸۲۔

۲ ۔ ابن تيميه ؛ منهاج السنّه النبويه، ج ۱،ص۱۵۹۔

۲۰۲

ابن تیمیہ کے اشکالات کی تفصیل

ابن تیمیہ کے وہ شبهات (جوتقیہ سے مربوط ہیں) کو تین حصوں میں تقسيم كرسکتے ہیں :

۱. اصل تشریع تقیہ سے مربوط شبہات

۲. امام معصوم سے مربوط شبہات

۳. شیعوں سے مربوط شبہات

الف:تشريع تقيه سے مربوط شبهات اور ان کا جواب

o تقيه یعنی جھوٹ۔

o تقيه یعنی منافقت۔

o تقيہ امر به معروف و نهي ازمنكرکی ضد۔

۲۰۳

o تقيه جهادکی ضد۔

o تقيه اورآيات تبليغ کے درمیان تعارض۔

o تقيه یعنی ظلم۔

۱۔تقيه یعنی جھوٹ :

ابن تیمیہ اس شبہہ کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تقیہ ایک قسم کا جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنا ایک قبیح اور بری چیز ہے اور خدا تعالی نے بری چیز کو حرام قرار دیا ہے ، پس تقیہ بھی خدا کے نزدیک قبیح اور بری چیز ہے ۔اور جائز نہیں ہے ۔اس اشکال کیلئے دو جواب دئے جاتے ہیں:

پہلا جواب: اگر تقیہ جھوٹ ہے تو الله تعالي نے قرآن مجید میں کئی جگہوں پر کیوں تقیہ کرنے والوں کی مدح سرائی کی ہے ؟!:جیسے آلعمران کي آيه نمبر ۲۸ میں فرمایا :( الّا ان تتقوا منهم، )

اورسوره نحل کي آيه ۱۰۶ میں فرمایا :

۲۰۴

( الا من اكره و قلبه مطمئن بالايمان ) ۔

اللہ تعالی نے صرف تقیہ کرنے کو جائز قرار نہیں دیا بلکہ مجبوری کے وقت تقیہ کرنے کا باقاعدہ حکم دیا ہے اور تقيه کرنے کا شوق دلايا ہے ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ کیا جب کافروں کی طرف سے مجبور کیا جائے اور تقیہ کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہ ہو تو وہاں کیا جھوٹ بولنا صحیح نہیں ہے ؟ کیونکہ ہر جگہ جھوٹ بولنا برا نہیں ہے ۔ جیسے اگر کسی دو مسلمان بھائیوں کے درمیان الفت اور محبت پیدا کرنے اور خون و خرابہ سے بچنے کیلئے جھوٹ بولنا جائز ہے ، کیونکہ اگر سچ بولیں تو جھگڑا فساد بڑھ سکتاہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ : یہ اشکال دومقدمے (صغری اور کبری) سے تشکیل پاتا ہے ۔ صغری میں کہا ہےکہ تقیہ ایک قسم کا جھوٹ ہے ۔ یہ صغری ہر مصداق اور مورد میں صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ تقیہ اخفائی یعنی واقعیت کے بیان کرنے سے سکوت اختیار کرنے کو کوئی جھوٹ نہیں کہتا ۔ بلکہ یہ صرف تقیہ اظہاری میں صدق آسکتا ہے ۔ وہ بھی توریہ نہ کرنے کی صورت میں ۔

۲۰۵

پس تقیہ کے کچھ خاص موارد ہیں جہاں تقیہ کا مصداق کذب اور جھوٹ ہے۔

لیکن کبری ٰ یعنی جھوٹ بولنا قبیح اور برا ہے ؛ یہاں کہیں گے کہ جھوٹ ہر جگہ برا نہیں ہے ۔کیونکہ مختلف عناوین کو حسن و قبح کی کسوٹی پر ناپا جاتا ہے تو ممکن ہے درج ذیل تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت پائی جائے :

۱. یا وہ عنوان حسن و قبح کیلئے علت تامہ ہے ۔جیسے حسن عدالت اور قبح ظلم۔انہیں حسن و قبح ذاتی کہا جاتا ہے ۔

۲. یا وہ عنوان جو خود بخود حسن و قبح کا تقاضا کرتا ہو ، بشرطیکہ کوئی اور عنوان جو اس تقاضے کو تبدیل نہ کرے ،اس پر صدق نہ آئے ۔جیسے کسی یتیم پر مارنا خود بخود قبیح ہے لیکن اگر ادب سکھانے کا عنوان اس پر صدق آجائے تو یہ قباحت کي حالت سے نکل آتا ہے ۔ایسے حسن و قبح کو عرضی کہتے ہیں۔

۳. یا وہ عنوان جو حسن و قبح کے لحاظ سے متساوي الطرفين ہو ۔اور حسن و قبح سے متصف ہونے کیلئے مختلف شرائط کی ضرورت ہو ۔ جیسے کسی پر مارنا

۲۰۶

اگر ادب سکھانے کیلئے ہو تو حسن ہے اور اگر اپنا غم و غصہ اتارنے کیلئے مارے تو قبیح ہےليکن اگر کسی بےجان چیز پر مارے تو نہ حسن ہے اور نہ قبیح ہے ۔

اور یہاں ہم اس وقت جھوٹ بولنے کو قبیح مانیں گے کہ پہلا عنوان اس پر صدق آتا ہو جب کہ ایسا نہیں ہے ۔اور عقلاءنے بھی اسے دوسری قسم میں شمار کیا ہے۔ کہ جب بھی کوئی زیادہ مہمتر مصلحت کے ساتھ تزاحم ہو تو اس کی قباحت دور ہوجاتی ہے ، جیسے : ایک گروہ کا خون خرابہ ہونے سے بچانے کیلئے جھوٹ بولنے کو ہر عاقل شخص جائز سمجھتا ہے۔

اسی لئے ہم دیکھتے ہیں كه قرآن او ر پیغمبر اسلام (ص) نے عماربن یاسر کے تقیہ کرتے ہوئے جھوٹ بولنے اور کفار کے شر سے اپنی جان بچانے کومورد تائید قرار دیا ہے ۔

۲۰۷

شيخ طوسی  کا جواب

تقيه جھوٹ نہیں ہے کیونکہ ،الكذب ضد الصدق و هو الاخبار عن الشيء لا علي ما هو به ۔(۱) جھوٹ سچائی کی ضد ہے اور جھوٹ سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کی خبر دے، جس کي کوئي حقيقت نہ ہو۔

پس جھوٹ کے دو رکن ہیں:

الف: کسی واقعے کے بارے میں خبر دینا ۔

ب: اس خبر کا واقعیت کے مطابق نہ ہونا۔

جبکہ تقیہ کے تین رکن ہیں :

الف:حق بات کا چھپانا۔

ب: مخالفین کے ساتھ موافقت کا اظہار کرنا ۔

____________________

۱ ۔ محمود، يزدي؛ انديشه كلامي شيخ طوسي، ص ۲۷۹۔

۲۰۸

ج: اور یہ دونوں رکن اس لئے ہوں کہ دشمن کے شر سے اپنی جان یا مال کی حفاظت کرے۔

لہذا پہلی بات تو یہ ہے کہ جھوٹ اخباری ہے اور تقیہ دشمن کو برحق ظاہر کرنا ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ جھوٹ میں یہ ضروری نہیں ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھی ہے وہ بھی حق ہو، جبکہ تقیہ میں یہ شرط ہے کہ جو بات دل میں چھپا رکھی ہے وہ بھی حق ہو ۔

۲۔تقيه يعني منافقت!

ممكن ہے کوئی یہ دعوا كرے کہ جو مکر اورفریب منافق لوگ کرتے ہیں ، تقیہ بھی اسی کی ایک قسم ہے۔ کیونکہ منافق دوسروں کو دھوکہ دینے کیلئے زبان پر ایسی چیزکا اظہار کرتے ہیں جس کے برخلاف دل میں چھپا رکھی ہو ۔

۲۰۹

شيخ طوسي اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتےہیں کہ مخادع اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دل میں موجود بات کے برخلاف زبان پر اظہار کرے تاکہ جس چیز سے وہ ڈرتا ہے اس سے وہ محفوظ رہے ۔اسی لئے منافق کو مخادع کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ زبان کے ذریعے اسلام کاکلمہ پڑھ کر کفر کی مہر لگنے سے فرار کرکے اپنی جان بچاتا ہے ۔ اگر چہ منافق ،مؤمن کو ظاہراً زبان کے ذریعے دھوکہ دیتا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے ۔

یہ درست ہے کہ تقیہ میں بھی باطن کے خلاف بات کا اظہار ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی جان بچاتا ہے ؛ لیکن یہ دونوں ( تقیہ اور نفاق) اصولاًباہم مختلف اور متفاوت ہے۔اور دونوں قابل جمع بھی نہیں۔

امام صادقعليه‌السلام اس مختصر حدیث میں مؤمن ہونے کا دعوا کرنے اور ایسے موارد میں تقیہ کا دامن پکڑنے والوں کو شدید طور پر ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

و ايّم اﷲ لو دعيتم لتنصرونا لقلتم لا نفعل انّما نتقي و لكانت التقيه احبّ اليكم من آبائكم و اّهاتكم ، ولو قد قام القائم ما

۲۱۰

احتاج الي مسائلكم عن ذالك و لا قام في كثير منكم حدّ النفاق ۔(۱)

خدا کی قسم ! اگر تمہیں ہماری مدد کیلئے بلائے جائیں تو کہہ دینگے ہر گز انجام نہیں دیں گے،کيونکه ہم تقیہ کی حالت میں ہیں ۔تمہارے والدین کا تقیہ کرنا تمہارے نزدیک زیادہ محبوب ہے ، اور جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور ہماری حکومت تشکیل دے گی، تو خدا کی قسم بغیر سوال کئے ، منافقین کو سزا دینا شروع کریگا جنہوں نے تمہارا حق مارا ہے ۔

یہ حدیث بتا تی ہے کہ امام  اپنے بعض نادان دوستوں کے بے موقع تقیہ کرنے کی وجہ سے غم و غصه کا اظہار فرما تے ہوئے نفاق اور تقیہ کے درمیان حد فاصل کو واضح فرمارہے ہیں ۔

اپنے مقدس اہداف کی ترقی کی خاطر پرده پوشي کرنے اور چھپانے کا نام تقیہ ہے اور جائز ہے ۔اجتماعی اور الہی اہداف کی حفاظت کی خاطر اپنا ذاتی اہداف کو فدا کرنے کا نام

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه، ج ۲ ، باب ۲۵۔

۲۱۱

تقیہ ہے ۔اس کے برخلاف اگر کوئی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اجتماعی اور قومی مفاد کو قربان کرے تو وه منافق کهلائے گا۔

ایک اور حدیث میں امامعليه‌السلام سے منقول ہے :جب بھی انسان ایمان کا اظہار کرے ،لیکن بعد میں عملی میدان ميں اس کے برخلاف عمل کرے تو وہ مؤمن کی صفات سے خارج ہے ۔ اور اگراظہار خلاف ایسے موارد میں کیا جائے جہاں تقیہ جائز نہیں ہے تو اس کا عذر قابل قبول نہیں ہے:

لانّ للتقيه مواضع من ازالها عن مواضعها لم تستقم له(۱)

کیونکہ تقیہ کی بھی کچھ حدود ہیں جو بھی اس سے باہر قدم رکھے گاتو وہ معذور نہیں ہوگا ۔اور حدیث کے آخر میں فرمایا : تقیہ وہاں جایز ہے جہاں دین اور ایمان میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو ۔

«كميت» شاعر كه جو مجاہدوں کی صف میں شمار ہوتا ہے کہ اپنے ذوق شاعری

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ,ج ۶ ، باب ۲۵۔

۲۱۲

سے استفادہ کرتے ہوئے بنی عباس کے دور خلافت ميں اس طاغوتی نظام کے خلاف قیام کیا اور مكتب اهل بيتعليهم‌السلام کی حمایت کی ۔ ایک دن امام موسي ابن جعفر  کی خدمت میں پہنچا ، دیکھا کہ امام  کا چہرہ بگڑا ہواهے ۔ جب وجہ پوچھي توشدید اور اعتراض آميز لہجے میں فرمایا :کیا تونے بنی امیہ کے بارے میں یہ شعرپڑھا ہے ؟!

فـالان صرت ا لي امة و الامم لها الي مصائر

ابھي تو ميں خاندان بني اميه کي طرف متوجه هوا هوں اور ان کا کام ميري طرف متوجه هورها هے ۔

كميت کہتا ہے کہ میں نے عرض کی: مولا !اس شعر کو میں نے پڑھا ہے لیکن خدا کی قسم میں اپنے ایمان پر باقی ہوں اور خاندان اہل بیتعليهم‌السلام سے محبت رکھتا ہوں اور آپ کے دوستداروں سے بھی محبت رکھتا ہوں اور اسی لئےآپ کے دشمنوں سے بیزار ہوں؛ لیکن اسے میں نے تقیۃً پڑھا ہے ۔

امام  نے فرمایا:اگر ایسا ہو تو تقیہ ہر خلاف کاروں کیلئے قانونی اور شرعی مجوز بنے گا ۔اور شراب خوری بھی تقیہ کے تحت جائز ہوجائے گی۔اور بنی عباس کی حکومت کا دفاع کرنا بھی جائز ہوجائے گا۔ اس قسم کے تقیہ سے تملّق ،چاپلوسي اور ظالموں کی ثنا خوانی کا

۲۱۳

بازار گرم اور پر رونق ہوجائے گا۔اور نفاق ومنافقت بھی رائج ہوجائے گی۔(۱)

۳۔تقيه، جهادکے متنافی

اشکال يه ہے :

اگر تقیہ کے قائل ہوجائیں تو اسلام میں جہاد کا نظریہ ختم ہونا چاہئے ۔ جبکہ اس جہاد کی خاطر مسلمانوں کی جان و مال ضائع ہوجاتی ہیں ۔(۲)

جواب:

اسلامي احكام جب بھی جانی یا مالی ضرر اور نقصان سے دوچار اور روبرو ہوجاتا ہے تو دو قسم میں تقسیم ہوجاتا ہے :

۱. وہ احکامات جن کا اجراء کرنا کسی جانی ضرر یا نقصان سے دوچار نہیں ہوتا ، جیسے نماز کا واجب ہونا ، جس میں نہ مالی ضرر ہے اور نہ جانی ضرر ۔

____________________

۱ ۔ مكارم شيرازي؛ تقيه سپري عميقتر، ص ۷۰۔

۲۔ قفاري ؛ اصول مذهب الشيعه، ج۲، ص ۸۰۷۔

۲۱۴

۲. وہ احکامات جن کا اجرا کرنا ، جانی یا مالی طورپر ضرر یا نقصان برداشت کرنےکاسبب بنتا ہے ۔جیسے زکوۃ اور خمس کا ادا کرنا ، راہ خدا میں جہاد کرنا وغیرہ ۔

تقیہ کا حکم صرف پہلی قسم سے مربوط ہے ۔ کہ بعض موارد میں ان احکام کو بطور حکم ثانوی اٹھایا جاتا ہے ۔لیکن دوسری قسم سے تقیہ کا کوئی رابطہ نہیں ہے ۔اور جہاد کا حکم بھی دوسری قسم میں سے ہے ، جب بھی شرائط محقق ہوجائے تو جہاد بھی واجب ہوجاتا ہے ۔اگرچہ بہت زیادہ جانی یامالی نقصان بھی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔

۴۔تقيه اور آيات تبليغ کے درمیان تعارض

آلوسی کہتا ہے کہ تقیہ ان دو آیات کے ساتھ تعارض پیدا کرتا ہے کہ جن میں پیغمبر

۲۱۵

اکرم ؐکو تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے ۔(۱)

۱ ۔( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّه لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ) ۔(۲)

اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کو ہدایت نہیں کرتا ہے۔

اس آيه مباركه میں اپنے حبیب کو تبلیغ کا حکم دے رہا ہے اگر چہ خوف اور ڈر ہی کیوں نہ ہو۔

۲ ۔( الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللهَ وَكَفَى بِاللهِ حَسِيبًا ) ۔(۳)

وہ لوگ ا للہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس

____________________

۱۔ ابوالفضل آلوسي؛ روح المعاني،ج ۳، ص ۱۲۵۔

۲ ۔ مائدہ۶۷۔

۳ ۔ احزاب ۳۹۔

۲۱۶

کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ،اوراللہ حساب کرنے کے لئے کافی ہے۔

اس آیہ شریفہ میں خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرنا ایک بہترین صفت قرار دیتے ہوئے سراہا گیا ہے ۔

اسی طرح اللہ تعالی کے احکامات کو چھپانے کی مذمت میں بھی آیات نازل ہوئی ہیں ، جیسا کہ فرمایا:

( إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللهُ مِنَ الْكِتَابِ وَ يَشْترَونَ بِهِ ثمَنًا قَلِيلاً أُوْلَئكَ مَا يَأْكلُونَ فىِ بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَمَةِ وَ لَا يُزَكِّيهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ) ۔(۱)

جو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گااور نہ انہیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

____________________

۱۔ بقرہ ۱۷۴۔

۲۱۷

اس اشکال کیلئے یوں جواب دے سکتے ہیں ؛ تبلیغ کبھی اصول دین سے مربوط ہے اور کبھی فروع دین سے ۔ اور جب بھی تبلیغ اصول دین سے مربوط ہو اور تبلیغ نہ کرنا باعث بنے کہ لوگ دین سے آشنائی پیدا نہ کرے اور لوگوں کی دین سے آشنائی اسی تبلیغ پر منحصر ہو تو یہاں تقیہ حرام ہے اور دائرہ تقیہ کو توڑ کر تبلیغ میں مصروف ہونا چاہئے ، اگرچہ تقیہ ضرر جانی یا مالی کا سبب کیوں نہ بنے ؛ کیونکہ آیات مذکورہ اور داخلی اور خارجی قرینے سے پتہ چلتا ہے کہ تقیہ اسی نوع میں سے ہے ۔ یہاں تقیہ بے مورد ہے ۔

لیکن اگر تبلیغ فروع دین سے مربوط ہو تو یہاں تبلیغ اور جانی ومالی نقصانات کا مقائسہ کرے گا کہ کس میں زیادہ مصلحت پائی جاتی ہے ؟ اور کون سا زیادہ مہم ہے ؟اگر جان یا مال بچانا تبلیغ سے زیادہ مہم ہو تو وہاں تقیہ کرتے ہوئے تبلیغ کو ترک کرنا واجب ہے ۔ مثال کے طور پر ایک کم اہمیت والا فقہی فتويٰ دے کر کسی فقیہ یا عالم دین کی جان پچانا۔

۲۱۸

۵۔تقيه اور ذ لّت مؤمن

اشکال :وهابي لوگ کہتے ہیں کہ تقیہ مؤمن کی ذلت کا باعث ہے ۔ خداتعالی نے ہر اس چیز کو جو باعث ذلت ہو ،اسے شریعت میں حرام قرار دیا ہے ۔ اور تقیہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔(۱)

جواب:اس جملے کاصغریٰ مورد اشکال ہے کیونکہ یہ بات قابل قبول نہیں اگر تقیہ کو اپنے صحیح اور جائز موارد میں بروئے کار لایا جائے تو ذلت کا باعث نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ دشمن کے سامنے ایک اہم مصلحت کی خاطر حق کی بات کرنے سے سکوت اختیار کرنا یا حق کے خلاف اظہار کرنا نہ ذلت کا سبب ہے اور نہ مذمت کاباعث ۔

چنانچه عمار ابن ياسر نے ایسا کیا تو قرآن کریم نے بھي ان کی مدح سرائي کی ۔

____________________

۱ ۔موسي موسوي؛ الشيعه و التصحيح ، ص ۶۷۔

۲۱۹

۶۔تقيه ،ما نع امر به معروف

اشکال یہ ہے کہ تقیہ انسان کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے روکتی ہے ۔ کبھی جان کا خوف دلا کر تو کبھی مال یا مقام کا ۔جب کہ یہ دونوں (امر اور نہی ) واجبات اسلام میں سے ہیں ۔جس کی تائید میں فرمایا :افضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر ۔ ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق بات کا اظہار کرنا بہترین جہاد ہے ۔

اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :

۱ ـ امر به معروف و نهي از منكر مطلقًا جائز نہیں ۔ بلكه اس کیلئے بھی کچھ شرائط و معيارہے كه اگر یہ شرائط اور معيار موجود ہوں تو واجب ہے ۔۔ورنه اس کا واجب ہونا ساقط ہوجائے گا ۔

من جمله شرائط امر به معروف و نهي از منكر میں سے یہ ہیں :انکار کرنے میں کوئی ایسا مفسدہ موجود نہ ہو جو اس سے بھی کسی بڑے جرم ،جیسے قتل و غارت

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336