تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں11%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86612 / ڈاؤنلوڈ: 3130
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

واقعیت کے خلاف اظهار کرنا ضروری هوتا هے ۔ جیسے اپنے چاهنے والوں کی جان بچانے کی خاطر اپنے عزیزوں کو دشمنوں کے درمیان چھوڑنا ۔ اور یه صرف اور صرف واقعیت کے خلاف اظهار کرکے هی ممکن ہوتاهے ۔اور کبھی دوستوں کی جان بچانے کیلئے ،اهل سنت کے فتویٰ کے مطابق عمل کرنے پر مجبور هوجانا۔ چنانچه امام موسي كاظم نے علي ابن يقطين کو اهل سنت کے طریقے سے وضو کرنے کا حکم دیا تھا ۔(۱)

۶۔تقيه کے بجائے توریه کیوں نهیں کرتے ؟!

شبهه:

امامعليه‌السلام موارد تقيه میں توریه کرسکتے هیں، تو توریه کیوں نهیں کرتے ؟ تاکه جھوٹ بولنے میں مرتکب نه هوں۔(۲)

اس شبهه کا جواب:

____________________

۱ ۔ فخر رازي؛ محصل افكار المتقدمين من الفلاسفه والمتكلمين ص ۱۹۳۔

۲ ۔ وسائل شيعه، ج۱، ص ۲۱۳۔

۲۴۱

اولاً:تقیه کے موارد میں توریه کرنا خود ایک قسم کا تقیه هے ۔

ثانياً: همارا عقیده هے که اگر امامؑ کیلئے هر جگه توریه کرنے کا امکان هوتا تو ایسا ضرور کرتے ۔

ثالثاً:بعض جگهوں پر امامؑ کیلئے توریه کرنا ممکن نهیں هے۔

۷۔تقيه اور دین کا دفاع

شبهه:

اس میں کوئی شک نهیں که الله کے نیک بندوں کی ذمه داریوں میں سے ایک اهم ذمه داری ، الله تعالیٰ کے دین کی حفاظت کرنا هے ۔اگر چه اس راه میں قسم قسم کی اذیتیں اور مصیبتیں برداشت کرنا پڑیں ۔اور اهل بيت ؑبالخصوص ان ذمه داری کو نبھانے کیلئے زیاده حقدار هیں ۔(۱)

____________________

۱ ۔ ابوالقاسم، آلوسي؛ روح المعاني،ج۳، ص۱۴۴۔

۲۴۲

جواب:

آئمہ طاهرین نے جب بھی دین کیلئے کوئی خطر ہ محسوس کیا اور اپنے تقیه کرنے کو اسلام پر کوئی مشکل وقت آنے کا سبب پایا تو تقیه کو ترک کرتے هوئے دین کی حفاظت کرنے میں مصروف رہے ۔اور اس راه میں اپنی جان دینے سے بھی دریغ نهیں کیا ۔جس کا بهترین نمونه سالار شهیدان اباعبدالله کا دین مبین اسلام کا دفاع کرتے هوئے اپنی جان کے علاوه اپنے عزیزوں کی جانوں کا بھی نذرانه دینے سے دریغ نهیں کیا ۔

لیکن کبھی ان کا تقیه کرنا اسلام پر ضرر پهنچنے ، مسلمانوں کا گروهوں میں بٹنے ، اسلام دشمن طاقتوں کے کامیاب هونے کا سبب بنتا تھاتو وه لوگ ضرور تقیه کرتے تھے چنانچه اگر عليعليه‌السلام رحلت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد تقیه نه کرتے اور مسلحانه جنگ کرنے پر اترآتے تو اسلام خطرے میں پڑ جاتا ۔ اور جو ابھي ابھي مسلمان هو چکے تھے ، دوباره کفر کي طرف پلٹ جاتے ۔کيونکه امامؑ کو اگرچه ظاهري فتح حاصل هوجاتي ؛ ليکن لوگ یہ بہتان باندھتے که انهوں نے پیغمبرؐکے جانے کے

۲۴۳

بعد ان کي امت پر مسلحانه حمله کرکے لوگوں کو اسلام سے متنفر کيا ۔

پس معلوم هوا که آئمہ طاهرین کا تقیه کرنا ضرور به ضرور اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر تھا۔

۸۔تقيه «سلوني قبل ان تفقدوني » کے منافی

امام عليعليه‌السلام فرماتے هیں : مجھ سے پوچھو قبل اس کے که میں تمہارے درمیان سے اٹھ جاؤں ، اور تم مجھے پانه سکو ۔

اس روایت میں سوال کرنے کا حکم فرمارهے هیں ، جس کا لازمه یه هے که جو کچھ آپ بطور جواب فرمائیں گے ، اسے قبول کرنا هم پر واجب هوگا؛ اور امام ؑ کا تقیه کرنے کا لازمه یه هے که بعض سوال کا امام ؑ جواب نهیں دیں گے۔

۲۴۴

جواب :

یه امير المؤمنين نے اس وقت فرمایا ، که جب آپ برسر حکومت تھے ؛ جس وقت تقیه کے سارے علل و اسباب مفقود تھے ۔یعنی تقیه کرنے کی ضرورت نه تھی۔اور جو بھی سوال آپ سے کیا جاتا ،اس کا جواب تقیه کے بغیر کاملاً دئے جاسکتے تھے ۔ البته اس سنهرے موقع سے لوگوں نے استفاده نهیں کیا ۔

لیکن همارے دیگر آئمہ طاهرین کو اتنی کم مدت کابھی موقع نهیں ملا۔ یهی وجه هے که بقیه اماموں سے ایسا جمله صادر نهیں هوا ۔ اگرچه شیعه اور سنی سوال کرنے والوں کو احکام بیان کرنے میں ذره برابر کوتاهی نهیں کی ۔

امام سجادعليه‌السلام سے روايت هے که هم پر لازم نهیں هے که همارے شیعوں کے هر سوال کا جواب دیدیں ۔اگر هم چاهیں تو جواب دیں گے ، اور اگر نه چاهیں تو گريز

۲۴۵

کریں گے ۔(۱)

۹۔تقيه ، شجاعت کے منافی

اس شبهه کی وضاحت کچھ یوں هے که شیعوں کا عقیده هے که ان کے سارے امام ؑ انسانیت کے اعلاترین کمال اور فضائل کے مرتبے پر فائز هیں ۔ یعنی هر کمال اور صفات بطور اتم ان میں پائے جاتے هیں ۔ اور شجاعت بھی کمالات انسانی میں سے ایک هے ۔

لیکن تقیه اور واقعیت کے خلاف اظهار کرنا بهت سارے مواقع پر جانی خوف کی وجه سے هے ۔

____________________

۱۔ وسائل الشيعه، ج ۱۸، ص۴۳۔

۲۴۶

اس کے علاوه اس سخن کا مضمون یه هے که همارے لئے الله تعالیٰ نے ایسے رهنما اور امام بھیجے هیں، جو اپنی جان کےخوف کی وجه سے پوری زندگی حالت تقیه میں گزاری ۔(۱)

جواب:

اولاً شجاعت اور تهور میں فرق هے ۔ شجاعت حد اعتدال اور درمیانی راه هے لیکن تهور افراط ہے اور بزدلی تفریط ۔اور شجاعت کا یه معنی نهیں که بغیر کسی حساب کتاب کے اپنے کو خطرے میں ڈالدے ۔ بلکه جب بھی کوئی زیاده اهم مصلحت خطرے میں هو تو اسے بچانے کی کوشش کرے۔

ثانیاً: همارے لئے یه بات قابل قبول نهیں هے که تقیه کے سارے موارد میں خوف اور ترس هی علت تامه هو ، بلکه اور بھی علل و اسباب هیں جن کی وجه

____________________

۱ ۔ كمال جوادي؛ ايرادات و شبهات عليه شيعيان در هند و پاكستان۔

۲۴۷

سے تقیه کرنے پر مجبور هوجاتے هیں ۔جیسے اپنے ماننے والوں کی جان بچانے کی خاطر ، کبھی دوسرے مسلمانوں کے ساتھ محبت اور مودت ایجاد کرنے کی خاطر تقیه کرتے هیں ۔جن کا ترس یا خوف سےکوئی رابطه نهیں هے ۔

ثالثا ً: امامؑ کا خوف اپنی جان کے خوف کی وجه سے نهیں بلکه دین مقدس اسلام کے مصالح اور مفاد کے مد نظرامامؑ خائف هیں ، که ایسا نه هو ، دین کی مصلحتوں کو کوئی ٹھیس پهنچے ۔

اب اس اشکال یا بهتان (که آئمہ طاهرین نے اپنی آخری عمر تک تقیه کیا هے ) کا جواب یہ هے:

اولا ً : یه بالکل بیهوده بات هے اور تاریخ کے حقائق سے بهت دور هے ۔کیونکه هم آئمہ طاهرین کی زندگی میں دیکھتےهیں که بهت سارے موارد میں انهوں نے ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ بهادرانه طور پر جنگ و جهاد کیا هے۔ چنانچه امام موسی کاظمعليه‌السلام نے اس وقت ، که جب هارون نے چاها که باغ

۲۴۸

فدک آپ کو واپس کرے ، هارون الرشید کے کارندوں کے سامنے برملا عباسی حکومت کے نامشروع اور ناجائز هونے کا اعلان فرمایا ، اور مملکت اسلامی کی حدود کومشخص کیا ۔

ثانیا ً : هدایت بشر ی صرف معارف اسلامی کا برملا بیان کرنے پر منحصر نهیں هے ، بلکه بعض اهم اور مؤثر افراد تک اپنی بات کو منتقل کرنا بھی کافی ہے جو سارے لوگوں تک آپ کا پیغام پهنچنے کا باعث بنتا ہے۔

۱۰۔تقيه اور تحليل حرام و تحريم حلال

شبهه یه هے که اگر اس بات کو قبول کرلیں که امامؑ بعض فقهی مسائل کا جواب بطورتقیه دیں گے تو مسلماً ایسے موارد میں حکم واقعی (حرمت و حلیت )بدل جائےگا ۔ اور یه سبب بنے گا شریعت میں تحلیل حرام اور تحریم حلال

۲۴۹

کا، يعني حرام حلال ميں بدل جائے گا اورحلال حرام ميں ۔۔۔(۱)

اس شبهه کا جواب یه هے که شیعوں کے نزدیک تقیه سے مراد ؛اضطراری حالات میں بعنوان حکم ثانوی ،آیات اور روایاتِ معصومین کی پیروی کرنا هے ۔جیسا کہ قرآن مجید کا حکم ہے:

( إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزيرِ وَ ما أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَ لا عادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّه غَفُورٌ رَحيمٌ ) ۔(۲)

اس نے تمہارے اوپر بس مردار،خون،سورکاگوشت اور جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیاجائے اس کو حرام قرار دیا ہے پھر بھی اگر کوئی مضطر ہوجائے اور حرام کا طلب گار اور ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے والا نہ ہوتو اس کے لئے کوئی گناہ نہیں ہے۔بے شک خدا بخشنے والا اورمہربان ہے ۔

____________________

۱ ۔ احسان الهي ظهير؛ السنّه والشيعه، ص ۱۳۶۔

۲ ۔ بقرہ،۱۷۳۔

۲۵۰

تقيه کا حكم بھی دوسرے احکام جیسے اضطرار، اكراه ، رفع ضرر اور حرج کی طرح هے ، که ایک معین وقت کیلئے حکم اولی کو تعطیل کرکے اس کی جگه تقیه والا حکم لگايا جاتا هے ۔اور ان جیسے احکام ثانوی فقه اهلسنت میں بھی هر جگه موجود هیں۔

۱۱۔تقيه ا يك اختصاصي حكم هے يا عمومي؟

اس حصے میں درج ذیل مسائل کي بررسی کرنے کي ضرورت هے :

۱. قانون تقیه پر اعتقاد رکھنا کیا صرف شیعه امامیه کے ساتھ مختص هے یا دوسرے مکاتب فکر والےبھی اس کے قائل هیں ؟اور اسے ایک الهی قانون کی حیثیت سے قبول کرتے هیں ؟!

۲. کيا تقيه کوئی ایسا حکم هے جو هرجگه اور هرحال میں جائز هے یا اس کے لئے بھی خاص زمان یا مکان اور دیگر اسباب کا خیال رکھنا واجب هے ؟

۲۵۱

۳. کيا حكم تقيه ،متعلّق کے اعتبار سے عام هے یا خاص ؟ یعنی سارےلوگ ایک خاص شرائط میں اس پر عمل کرسکتے هیں ؟ یا بعض لوگ بطور استثنا هر عام و خاص شرائط کے بغیر بھی تقیه کرسکتے هیں ؟جیسے : پیغمبرعليه‌السلام و امامعليه‌السلام ؟

جواب:

دو احتمال هیں :

۱ ـ تقيه ايك حكم ثانوي عام هے که جس سے سارے لوگ استفاده کرسکتے هیں ۔

۲ ـ انبیاءؑ تقيه سے مستثنی هیں ۔ کیونکه عقلی طور پر مانع موجود هے ۔

شيخ طوسي اور اكثر مسلمانوں نے دوسرے احتمال کو قبول کیا هے ۔ كه پیغمبرعليه‌السلام کیلئے تقيه جائز نهیں هے ۔کیونکه تقیہ کی شناخت ، علم صرف اور صرف پیغمبرعليه‌السلام کے پاس هے ۔

صرف پیغمبر اور ان کے فرامین کے ذریعے شریعت کی شناخت اور علم ممکن هے ۔پس جب پیغمبرعليه‌السلام کیلئے تقیه جائز هو جائے تو همارے لئے کوئی اور راسته

۲۵۲

باقی نهیں رهتا جس کے ذریعے اپنی تکلیف اور شرعی وظیفه کو پهچان لیں اور اس پر عمل کریں ۔(۱)

اسی لئے فرماتے هیں :فلا يجوز علي الانبياء قبائح و لا التقية في اخبارهم لانّه يؤدي الي التشكيك ۔(۲)

انبیاء کیلئے نه عمل قبیح جائز هے اور نه اپنی احادیث بیان کرنے میں تقیه جائز هے۔کیونکه تقیه آپ کے فرامین میں شکوک و شبهات پیدا هونے کا باعث بنتا هے۔ اور جب که هم پر لازم هے که پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی هربات کی تصدیق کریں ۔ اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعمال شرعی وظیفے کو همارے لئے بیان نه کریں اور همیں حالت شک میں ڈال دیں ؛ تو یه ارسال رسل کی حکمت کے خلاف هے ۔ پس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

۱ ۔ محمود يزدي؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي،ص ۳۲۸۔

۲ ۔ التبيان ، ج۷ ، ص ۲۵۹۔

۲۵۳

کے لئے جائز نهیں که تقیه کی وجه سے هماری تکالیف کو بیان نه کریں ۔

شيخ طوسي پر اشكال : اگر هم اس بات کے قائل هوجائیں که پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے تقیه جائز نهیں هے تو حضرت ابراهیم کا نمرود کے سامنے بتائی گئی ساری باتوں کیلئے کیا تأویل کریں گے که بتوں کو آنحضرت هی نے توڑ کر بڑے بت کی طرف نسبت دی ؟!اگر اس نسبت دینے کو تقیه نه مانیں تو کیا توجیه هوسکتی هے ؟!

شيخ طوسي نےدو توجیه کے ضمن میں اس اشکال کا جواب دیا هے:

۱ ۔ بل فعله کو«ان كانوا ينطقون »کے ساتھ مقید کیا ہے۔ يعني اگریه بت بات کرتاهے تو ان بتوں کوتوڑنے والا سب سے بڑا بت هے ۔جب که معلوم هے که بت بات نهیں کرسکتا۔

۲ ۔ حضرت ابراہیمعليه‌السلام چاهتے تھے که نمرود کے چیلوں کو یه بتا دیں که اگر تم

۲۵۴

لوگ ایسا عقیده رکھتے هو تو یه حالت هوگی ۔ پس آپ کا یه فرمانا: «( بل فعله كبيرهم ) » الزام کے سوا کچھ نهیں اور «( اني سقيم ) » سے مراد یه که تمہارے گمراه هونے کی وجه سے میں روحی طور پرسخت پریشانی میں مبتلا هوں۔

اسی طرح حضرت يوسفعليه‌السلام کا:«( انّكم لسارقون ) »کهنا بھی تقیه هی تھا ، ورنه جھوٹ شأن نبوت سے دور هے ۔(۱)

تمام انبیاءالهی کے فرامین میں توریه شامل هے اور توریه کرنا کوئی مشکل کا سبب نهیں بنتا ۔اور توریه بھی ایک قسم کا تقیه هے ۔

ثانیا ً انبیاء الهی کے یہ فرامین احکام شرعی بیان کرنے کے مقام میں نهیں هیں ۔

____________________

۱۔ التبيان ، ، ص ۲۶۰۔

۲۵۵

۱۲۔کیوں بعض آئمہ طاہرین ؑنے تقیه کیا اور بعض نے نهیں کیا ؟!

یه سوال همیشه سے لوگوں کے ذهنوں میں ابھرتا رهتا هے که کیوں بعض آئمہؑ اور ان کے چاهنے والوں نے تقیه کیا اور خاموش رهے ؟! لیکن بعض آئمہؑ نے تقیه کو سرے سے مٹادیا اور اپنی جان تک کی بازی لگائی ؟!

وه لوگ جو مجاهدین اسلام کی تاریخ ، خصوصا ً معاویه کی ذلت بار حکومت کے دور کا مطالعه کرتے تو ان کو معلوم هوتا ،که تاریخ بشریت کا سب سے بڑا شجاع انسان یعنی امیر المؤمنینعليه‌السلام کا چهره مبارک نقاب پوش هوکر ره گیا ۔ جب یه ساری باتیں سامنے آتی هیں تو یه سوال ذهنوں میں اٹھتا هے که کیوں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علی کے باوفا دوستوں کے دوچهرے کاملاً ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں :

۲۵۶

ایک گروه :

جو اپنے زمانے کے ظالم و جابر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا مقابله کرنے پر اتر آتے هیں ؛ جیسے میثم تمارؓ ، حجر بن عدیؓ، عبداللهؓ وغیرہ۔ اسی طرح باقی آئمہؑ کے بعض چاهنے والوں نے دشمن اور حاکم وقت کے قید خانوں میں اپنی زندگیاں رنج و غم میں گزارتے هوئے اپنی جانوں کا نذرانه پیش کیا ۔اور وحشت ناک جلادوں کا خوف نهیں کھایا، اور عوام کو فریب دینے والے مکار اور جبار حاکموں کا نقاب اتار کر ان کا اصلی چهره لوگوں کے سامنے واضح کردیا۔

یہی وجہ ہے کہ علی ؑکی محبت کے جرم میں کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی اسلام دشمن عناصر لوگوں (داعش) نے شام میں صحابی رسول حجر بن عدی کی قبر کو مسمار کرکے ان کی لاش نکال کر ان کی بے حرمتی کی گئی۔

دوسرا گروه :

باقی آئمہ طاهرین کے ماننے والوں اور دوستوں میں بهت سارے ، جیسے علی ابن یقطینؓ بڑی احتیاط کے ساتھ هارون الرشید کے وزیراور مشیر

۲۵۷

بن کر رهے !

جواب :

اس اشکال کا جواب امامیه مجتہدین اور فقهاء دے چکے هیں : که کبھی تقیه کو ترک کرتے هوئے واضح طور پر ما فی الضمیر کو بیان کرنا اور اپنی جان کا نذرانه دینا واجب عینی هوجاتا هے ؛ اور کبھی تقیه کو ترک کرنا مستحب هوجاتا هے ۔ اور اس دوسری صورت میں تقیه کرنے والے نے نه کوئی خلاف کام کیا هے ، نه ان کے مد مقابل والے نے تقیه کو پس پشت ڈال کر فداکاری اور جان نثاری کا مظاهره کرتے هوئے ، جام شهادت نوش کرکے کوئی خلاف کام کیاهے اسی دلیل کی بنا پر ميثم تمارؓ ، حجر بن عدیؓ اوررشيد هجري ؓ جیسے عظیم اور شجاع لوگوں کو همارے اماموںؑ نے بهت سراها هے ، اور اسلام میں ان کا بهت بڑا مقام هے ۔

ان کی مثال ان لوگوں کی سی هے ، جنهوں نے اپنے حقوق سے هاتھ اٹھائے هیں اور معاشرے میں موجود غریب اور نادار اور محروم لوگوں کی حمایت کرتے

۲۵۸

هوئے ان پر خرچ کیا هے ، اور خود کو محروم کیا هے۔

اس میں کوئی شک نهیں که ان کی یه فداکاری اور محرومیت کو قبول کرنا ؛ سوائے بعض موارد میں ،واجب تو نهیں تھا ۔ کیونکه جو چیز واجب هے وه عدالت هے نه ایثار ۔لیکن ان کا یه کام اسلام اور اهل اسلام کی نگاه میں بهت قیمتی اور محترم کام شمار هوتا هے ۔اور یه احسان کرنا اس بات کی دلیل هے که احسان کرنے والا عواطف انسانی کی آخری منزل طے کرچکا هے ۔جو دوسروں کو آرام و راحت میں دیکھنے کیلئے خودمحرومیت کو اختیار کرے ۔

پس تقیه کو ترک کرتے هوئے اپنی جانوں کو دوسرے مسلمانوں اور مؤمنوں کےآرام اور راحت کی خاطر فدا کرنا بھی ایسا هی هے ۔اور یه اس وقت تک ممکن هے ، جب تک تقیه کرنا وجوب کی حد تک نه پهنچا هو ۔ اور یه پهلاراسته هے ۔

۲۵۹

دوسرا راسته یه هے که لوگ ماحول اور معاشرہ نیز وقعت اور حیثیت کے اعتبار سے مختلف هوتے هیں ۔ اگر پست معاشرہ اور ماحول میں زندگی گزا ررهے هوں ، جیسے معاویه کا دور هے ؛اس کی غلط پروپیگنڈا اور اس کے کاسہ لیسوں اور مزدوروں اور بعض دین فروشوں کی جھوٹے پروپیگنڈوں کی وجه سے اسلام کے حقائق اور معارف معاشرے سے بالکل محو هوچکے تھے ۔اور لوگ اسلامی اصولوں سے بالکل بے خبر تھے ۔اور امیر المؤمنینعليه‌السلام کا انسان ساز مکتب بھی اپنی تمام تر خصوصیات کے باوجود ، کالعدم کر دیا گیا ، اور پرده خفا میں چلا گیا ۔اور اس ظلمانی پردے کو چاک کرکے اسلامی معاشرے کو تشکیل دینے کیلئے عظیم قربانی کی ضرورت تھی ۔ایسے مواقع پر راز فاش کرنا ضروري تھا ، اگرچه جان بھی دینا کیوں نه پڑے ۔

حجر بن عديؓ اور ان کے دوستوں کے بارے میں جنهوں نے معاویه کےدور میں مهر سکوت کو توڑ کر علیعليه‌السلام کی محبت کا اظهار کرتے هوئے جام شهادت

۲۶۰

نوش فرمائي ؛اور ان کی طوفانی شهادت اور شهامت اس قدر مؤثر تھی که پورے مکه اور مدینه کے علاوه عراق میں بھی لوگوں میں انقلاب برپا کیا ؛ جسے معاویه نے کبھی سوچا بھي نه تھا ۔ اور چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی وہابی ٹولے نے ۱۴۳۴ ه میں محبت امیر المومنین ؑ کے جرم میں اس مردمؤمن کے جسم کو قبر سے نکال کر بے حرمتی کا نشانہ بنایا۔

امام حسينعليه‌السلام نے ایک پروگرام میں ، معاویه کے غیراسلامی کردار کو لوگوں پر واضح کرتے هوئے یوں بیان فرمایا :

الست قاتل حجر بن عدي اخا كنده ؛ والمصلين العابدين الذين كانوا ينكرون الظلم و يستعظمون البدع و لا يخافون في الله لومة لائم!

اے معاویه ! کیا تو وهي شخص نهیں ، جس نے قبیله کنده کےعظيم انسان (حجر بن عدی) کو نماز گزاروں کے ایک گروه کے ساتھ بے دردی سے شهید کیا ؟ ان کا جرم صرف یه تھا که وه ظلم اور ستم کے خلاف آوازاٹھاتے اور بدعتوں اور خلاف شرع کاموں سے بیزاری کا اظهار کرتے تھے، اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کی کوئی پروا نهیں کرتے

۲۶۱

تھے ؟!۔(۱)

ج:شیعوں کے تقیه سے مربوط شبهات

o تقيه شیعوں کے اصول دين میں سے ہے ۔

o تقيه شیعوں کی بدعتوں میں سے ہے ۔

o تقيه پيروي از آئمہ اطهار سے تناقض رکھتا ہے ۔

o تقيه زوال دين کاموجب ہے ۔

o فتواي امامعليه‌السلام تقيه کی صورت میں قابل تشخیص نہیں ۔

o تقيه شیعوں کا خوف اور اضطرار ی حالت ہے ۔

o تقيه کافروں کے ساتھ کیا جاتا ہے نہ مسلمانوں کے ساتھ ۔

____________________

۱ ۔مكارم شيرازي؛ تقيه مبارزه عميقتر، ص ۱۰۷۔

۲۶۲

۱۔تقيه شیعوں کی بدعت

شبهه پیدا کرنے والے کا کهنا هے که :تقیه شیعوں کی بدعت هے جو اپنے فاسد عقیدے کو چھپانے کی خاطر کرتے هیں۔(۱)

اس شبهه کا جواب یه هے که اس نے بدعت کے معنی میں غلطی کی هے ۔ جب که مفردات راغب نے بدعت کی تعریف کرتے هوئے کها هے :البدعة هي ادخال ما ليس من الدين في الدين ۔(۲) بدعت سے مراد یه هے که جوچیز دین میں نهیں، اسے دین میں داخل کرنا ۔اور گذشته مباحث سے معلوم هوا که تقیه دین کی ضروریات میں سے هے ۔ کیونکه قرآن اور احاديث آئمہعليهم‌السلام میں واضح طور پر بیان هوا هے که تقیه

____________________

۱۔ فهرست ايرادات و شبهات عليه شيعيان در هند و پاكستان، ص ۳۶۔

۲۔ راغب اصفهاني ؛ مفردات، بدع۔

۲۶۳

کو اهل تشیع اور اهل سنت دونوں مانتے هیں اور اس کے شرعی هونے کو بھی مانتے هیں ۔

لہذا ، تقیه نه بدعت هے اور نه شیعوں کا اختراع ،که جس کے ذریعے اپنا عقیده چھپایا جائے، بلکه یه الله اور رسول کا حکم هے ۔

گذشته مباحث سے معلوم هوا كه تقيه دين کاحصه هے کيونکه وه آيات جن کو شيعه حضرات اسلام کا اہم جزء جانتے هيں،ان کي مشروعيت کو ثابت کرچکے هيں اور اهل سنت نے بھي ان کي مشروع هونے کا في الجمله اعتراف کيا هے۔ اس بنا پر ، نه تقيه بدعت هے اور نه شيعوں کا اپنا عقيده چھپانے کيلئے اختراع هے۔

۲۶۴

۲۔تقيه، مكتب تشيع کا اصول دين ؟!

بعض لوگوں کا اپنے مخالفین کے خلاف مهم چلانے اور ان کو شکست دینے کیلئے جو خطرناک اور وحشنتاک راسته اختیار کرتے هیں ، ان میں سے ایک یه هے که ان کو متهم کرنا هے اور ایسی تهمتیں لگاتے هیں ، جن سے وه لوگ مبریٰ هیں ۔ اگرچه عیوب کا ذکر کرنا معیوب نهیں هے ۔

ان لوگوں میں سے ایک ابن تیمیه هے ؛ جو کهتا هے که شیعه تقیه کو اصول دین میں سے شمار کرتے هیں ۔ جبکه کسی ایک شیعه بچے سے بھی پوچھ لے تو وه بتائے گا : اصول دین پانچ هیں :

اول : توحید۔ دوم :عدل سوم: نبوت ۔چهارم:امامت ۔پنجم : معاد۔

ليکن وه اپنی كتاب منهاج السنه میں لکھتا هے : رافضي لوگ اسے اپنا اصول دین میں شمار کرتے هیں ۔ایسی باتیں یا تهمتیں لگانے کی دو هی وجه هوسکتی هیں:

۲۶۵

۱ ۔ یا وه شیعه عقائد سے بالکل بے خبر هے ؛ که هو هی نهیں سکتا ۔ کیونکه مذهب تشیع کا اتنا آسان مسئله ؛ جسے سات ساله بچه بھی جانتا هو ، ابن تیمیه اس سے بے خبر هو ۔کیونکه همارے هاں کوئی چھٹا اصل بنام تقیه موجود نهیں هے ۔

۲ ۔ یا ابن تیمیه اپنی هوا وهوس کا اسیر هوکر شیعوں کو متهم کرنے پر تلا هوا هے ۔ وه چاهتا هے که اس طریقے سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرےاوراسلام اور مسلمین کی قوت اور شان و شکوکت کو متزلزل کرے ۔

اس قسم کی بیهوده باتیں ایسے لوگوں کی خوشی کا سبب بن سکتی هیں، جو کسی بھی راستے سے شیعیان علی ابن ابی طالب کی شان شوکت کو دنیا والوں کے سامنے

۲۶۶

گھٹاتے اور لوگوں کو مکتب حقه سے دور رکھتے ۔(۱)

جب که خود اهل سنت بھی تقیه کے قائل هیں اور ان کے علماء کا اتفاق اور اجماع بھی هے ، که تقیه ضرورت کے وقت جائز هے ۔چنانچه ابن منذر لکھتا هے:

اجمعوا علي من اكره علي الكفر حتي خشي علي نفسه القتل فكفر و قلبه مطمئن بالايمان انه لا يحكم عليه بالكفر ۔(۲)

اس بات پر اجماع هے که اگر کوئی کفر کا اظهار کرنے پر مجبور هو جائے ، اور جان کا خطره هو تو ایسی صورت میں ضرور اظهار کفرکرے ۔جبکه اس کا دل ایمان سے پر هو ، تو اس پر کفر کا فتوا نهیں لگ سکتا ۔یا وه کفر کے زمرے میں داخل نهیں هوسکتا ۔

____________________

۱۔ عباس موسوي؛ پاسخ و شبهاتي پيرامون مكتب تشيع، ص۱۰۲۔

۲۔ دكترناصر بن عبدالله؛ اصول مذهب شيعه،ج ۲، ص ۸۰۷۔

۲۶۷

ابن بطال کهتا هے :واجمعوا علي من اكره علي الكفر واختار القتل انه اعظم اجرا عنداﷲ !یعنی علماء کا اجماع هے که اگر کوئی مسلمان کفر پر مجبور هوجائے ، لیکن جان دینے کو ترجیح نہ دے تو اس کے لئے الله تعالیٰ کے نزدیک بهت بڑا اجر اور ثواب هے ۔

خوداهل سنت تقيه کے جائز هونے کو قبول کرتے هیں ۔ لیکن جس معنی ٰ میں شیعه قائل هیں ، اسے نهیں مانتے ۔ ان کے نزدیک تقیه ، رخصت یا اجازت هے ، لیکن شیعوں کے نزدیک ، ارکان دین میں سے ایک رکن هے ۔ جیسے نماز۔ اور بعد میں امام صادقعليه‌السلام کی روایت کو نقل کرتے هیں، جو پیغمبر اسلام (ص) سے منسوب هے ۔قال الصادق عليه‌السلام : لو قلت له تارك التقيه كتارك الصلوة ۔ اس کے بعد کهتےهیں که شیعه صرف اس بات پر اکتفاء نهیں کرتے بلکه کهتے هیں :لا دين لمن لا تقية له ۔(۱)

____________________

۱۔ دكترناصر بن عبدالله؛ اصول مذهب شيعه،ج ۲، ص ۸۰۷۔

۲۶۸

۳۔تقيه، زوال دين کا موجب ؟!

کها جاتا هے که تقیه زوال دین اور احکام کی نابودی کا موجب بنتا هے ۔ لهذا تقیه پر عمل نهیں کرنا چاهئے ۔اور اس کو جائز نهیں سمجھنا چاهئے ۔

جواب:

تقيه ، احكام پنجگانه میں تقسيم كيا گیا هے :واجب ، حرام ، مستحب ، مكروه ، مباح۔

حرام تقيه، دین میں فساد اور ارکان اسلام کے متزلزل هونے کا سبب بنتا هے ۔ به الفاظ دیگر جوبھی اسلام کی نگاه میں جان، مال ، عزت، ناموس وغیره کی

۲۶۹

حفاظت سے زیاده مهم هو تو وهاں تقیه کرنا جائز نهیں هے ، بلکه حرام هے ۔اور شارع اقدس کا بھی یهی حکم هے ۔کیونکه عقل حکم لگاتی هے که جب بھی کوئی اهم اور مهم کے درمیان تعارض هوجائے تو اهم کو مقدم رکھاجائے ، اور اگر تقیه بھی موجب فساد یا ارکان اسلام کے متزلزل هونے کا سبب بنتا هے تو وهاں تقیه کرنا جائز نهیں هے ۔

آئمہ طاهرین سے کئی روايات هم تک پهنچی هیں که جو اس بات کی تائید کرتی هیں اور بتاتی هیں که بعض اوقات تقیه کرنا حرام هے ۔

امام صادقعليه‌السلام نےفرمایا:

فكل شيئ يعمل المؤمن بينهم لمكان التقية مما لا يؤدي الي الفساد في الدين فانّه جائز ۔(۱)

هر وه کام جو مؤمن تقیه کے طور پر انجام دیتے هیں ؛اگر دین کیلئے کوئی

____________________

۱۔ وسائل الشيعه ، ج۶، باب۲۵، ص۴۶۹۔

۲۷۰

ضرر یا نقصان بھی نه هو ،اور کوئی فساد کا باعث بھی نه هو ؛ تو جائز هے ۔

امام صادقعليه‌السلام کی اس حدیث سے معلوم هوتا هے که تقیه بطور مطلق حرام نهیں هے بلکه وه تقیه حرام هے جو زوال دین کا سبب بنتا هو ۔

لیکن وه تقیه واجب یا مباح يا مستحب هے جو زوال دین کا سبب نهیں بنتا ۔ اور یہ مکتب تشیع کا نظریہ هے ۔

۴۔امام ؑکی پيروي اور تقیه کے درميان تناقض

شبهه یہ هے که شیعه آئمہعليهم‌السلام کی پیروی کرنے کا دعویٰ کرتے هیں جبکه آئمہ طاهرین نے تقیه نہیں کیا هے ؛ جیساکہ علیعليه‌السلام نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی ، اور امام حسینعليه‌السلام نے یزید کے خلاف جهاد کیا ۔(۱)

____________________

۱۔ موسي موسوي؛ الشيعه والتصحيح، ص۶۹۔

۲۷۱

اس شبهه کا جواب :

اولاً :شیعه نظریے کے مطابق تقیه ایسے احکام میں سے نهیں که هر حالت میں جائز هو ، بلکه اسے انجام دینے کیلئے تقیه اور اظهار حق کرنے کے درمیان مصلحت سنجی کرناضروري هے که تقیه کرنے میں زیاده مصلحت هے یا تقیه کو ترک کرنے میں زیاده مصلحت هے ؟

آئمہ طاهرین بھی مصلحت سنجی کرتے اور عمل کرتے تھے۔ جیسا که اوپر کی دونوں مثالوں میں تقیه کو ترک کرنے میں زیاده مصلحت پائی جاتی تھیں لهذا دونوں اماموں ؑنے تقیه کو ترک کیا ۔ اگر امیرالمؤمنینعليه‌السلام ابوبکر کی بیعت کرتے تو ان کی خلافت کو قبول کرنا اور اپنی امامت اور خلیفہ بلافصل کا انکار کرنا ثابت ہوتاہے اسی طرح اگر امام حسینعليه‌السلام تقیه کرتےاور یزید کی بیعت کرتے تو اپنے جد امجدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین کا نام ونشان باقی نہ رہتا ، کیونکہ یزید نے منبر سے برملا کہہ دیا تھا :

لعبت بنوهاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل ۔

۲۷۲

نہ کوئی قرآن نازل ہوا ہے اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے بلکہ بنی ہاشم والوں نے حکومت کرنے کے لئے ایک کھیل کھیلا ہے ۔

ثانيا: شيعه سارے اماموںؑ کی پيروي کرنےکو واجب سمجھتے هیں ۔ اور همارے سارے آئمہؑ نے بعض جگهوں پر تقیه کیا هے اور بعض جگهوں پر تقیه کو ترک کیا هے ۔ بلکه اس سے بھی بالا تر که بعض مقامات پر تقیه کرنے کا حکم دیا هے۔ یه اس بات کی دلیل هے که ان کی زندگی میں کتنی سخت دشواریاں پیش آتی تھیں۔

ثالثاً: تقيه کے بهت سے موارد ، جهاں خود آئمہعليهم‌السلام نے تقیه کرنے کو مشروع قرار دیا هے ، جن کا تذکره گزرچکا ہے۔

رابعاً: شبهه پیدا کرنے والا خود اعتراف کررها هے که حضرت عليعليه‌السلام نے فقط چھ ماه بيعت كرنے سے انکار کیا پھر بعد میں بيعت کرلی ۔یه خود

۲۷۳

دلیل هے کہ حضرت عليعليه‌السلام کی سیرت میں بھی تقيه موجود هے ۔

۵۔تقيه اورفتواي امامعليه‌السلام کي تشخيص

اس کے بعد که قائل هوگئے كه آئمہعليهم‌السلام بھی تقیه کرتے تھے ؛ درج ذیل سوالات ، اس مطلب کی ضمن میں که اگر امامؑ حالت تقیه میں کوئی فتوا ی دیدیں، تو کیسے پهچانیں گے که تقیه کي حالت میں فتوا دے رهے هیں یا عام حالت میں ؟!

جواب:

اس کی پهچان تین طریقوں سے ممکن هے :

۱. امامؑ کا فتوی ایسے دلیل کے ساتھ بیان هوجو حالت تقیه پر دلالت کرتی هو ۔

۲. فتوای دینے سے پهلے کوئی قرینه موجود هو ، جو اس بات پر دلالت کرے

۲۷۴

که حالت تقیه میں امام ؑنےفتوی دیا هے ۔

۳. امامعليه‌السلام قرينه اور دليل کو فتوای صادر کرنے کے بعد ،بیان کریں که حالت تقیه میں مجھ سے یه فتوای صادر هوا هے ۔

۶۔ تقيه اورشیعوں کا اضطراب!

تقيه،جبن و اضطراب کادوسرا نام هے ،اور شجاعت اور بهادری کے خلاف هے۔ جس کی وجه سے اپنےقول و فعل میں، اورظاهر و باطن میں اختلاف کی صورت میں ظاهر هوتی هے ۔اور یه صفت ، رزائل اخلاقی کے آثار میں سے هے اور اس کی سخت مذمت هوئی هے؛ لهذا خود امام حسينعليه‌السلام نے كلمه حق کی راه میں تقيه کے حدود کو توڑ کر شهادت کیلئے اپنے آپ کو تیار کیا ۔(۱)

____________________

۱۔ دكتر علي سالوس؛ جامعه قطربين الشيعه و السنه،ص۹۲۔

۲۷۵

جواب:

اگرشیعوں میں نفسياتي طور پر جبن، اضطراب اور خوف پایا جاتا توظالم بادشاهوں کے ساتھ ساز باز کرتے ، اور کوئی جنگ يا جهاد کرنے کی ضرورت هی پیش نهیں آتی ۔ یه لوگ بھی درباری ملاؤں کی طرح اپنے اپنے دور کے خلیفوں کے هاں عزیز هوتے ۔اور تقیه کی ضرورت هی پیش نه آتی۔

اس سے بڑھ کر کیا کوئی شجاعت اور بهادری هے که جس دن اسلام کی رهبری اور امامت کا انتخاب هونے والاتھا ؛ اس دن لوگوں نے انحرافی راسته اپناتے هوئے نااهل افراد کو مسندخلافت پر بٹھادیا ۔ اس دن سے لیکر اب تک شیعوں کا اور شیعوں کے رهنماؤں کا یهی نعره اور شعار رها هے که هر طاغوتی طاقتوں کے ساتھ ٹکرانا هے اور مظلوموں کی حمایت کرنا هے اور اسلام سے بےگانه افراد کی سازشوں کو فاش کرنا هے ۔

اگرچه شیعه تقيه کی بنیاد پر حركت کرتے هیں ؛ لیکن جهاں بھی اس بات

۲۷۶

کی ضرورت پیش آئی که ظالم اور جابر کے خلاف آواز اٹھانا هے ؛ وهاں شیعوں نے ثابت کردیا هے که اسلام اور مسلمین اور مظلوموں کی حمایت میں اپنا خون اور اپنے عزیزوں کی جان دينے سے بھي دريغ نهيں کيا۔

شیعوں کا آئیڈیل یه هے که اسلام همیشه عظمت اور جلالت کے مسند پرقائم رهے اور امت اسلامی کے دل اور جان میں اسلام کی عظمت اور عزت باقی رهے ۔

مسلمان یه بھی یاد رکھیں! که تاریخ بشریت کا بهترین انقلاب ؛ شیعه انقلاب رها هے ۔ اور دنیا کے پاک اور شفاف ترین انقلابات ، جو منافقت ، دھوکه بازی ، مکر و فریب اور طمع و لالچ سے پاک رهیں ؛ وه شیعه انقلابات هیں جن میں مسلمان عوام اور حکومت کی عظمت اور عزت مجسم هوچکی تھی ۔اور طاغوتی طاقتوں کےمقابلے میں اس مکتب کے ماننے والوں کو عزت ملی اور شیعه، طاغوتی طاقتوں اور حکومتوں کو برکات اور خیرات کا مظهر ماننا تو درکنار ، بلکه ان کے ساتھ ساز باز کرنے سے پر هیز

۲۷۷

کرتے تھے ۔هم کچھ انقلابات کا ذکر کریں گے ، جن کو آئمہ طاهرین نے سراهتے هوئے ان کی کامیابی کے لئے دعائیں کی هیں ۔کیونکه کسی بھی قوم کی زندگی اور بقا کا راز انهی انقلابات میں هے ۔ جن میں سے بعض یه هیں:

o زيد ابن علي کا انقلاب۔

o محمد بن عبدالله کا حجازميں انقلاب۔

o ابراهيم بن عبدالله کا بصره ميں انقلاب۔

o محمد بن ابراهيم و ابو السرايا کا انقلاب۔

o محمد ديباج فرزند امام جعفر صادقعليه‌السلام کا انقلاب۔

o علي ابن محمد فرزند امام جعفر صادقعليه‌السلام کا انقلاب۔

اسی طرح دسیوں اور انقلابات هیں ، که جن کی وجه سے عوام میں انقلاب اورشعور پید ا

۲۷۸

هوگیا هے ۔ اور پوری قوم کی ضمیر اور وجدان کو جگایا هے ۔(۱)

امامان معصوم ان انقلابات کو مبارک اور خیر وبرکت کا باعث سمجھتے تھے ۔اور ان سپه سالاروں کي تشویق کرتے تھے ۔راوي کهتا هے :

فَدَخَلْنَا عَلَى الصَّادِقِ وَ دَفَعْنَا إِلَيْهِ الْكِتَابَ فَقَرَأَ وَ بَكَى ثُمَّ قَالَ إِنَّا للهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ عِنْدَ اللهِ أَحْتَسِبُ عَمِّي إِنَّهُ كَانَ نِعْمَ الْعَمُّ إِنَّ عَمِّي كَانَ رَجُلًا لِدُنْيَانَا وَ آخِرَتِنَا مَضَى وَ اللهِ عَمِّي شَهِيداً كَشُهَدَاءَ اسْتُشْهِدُوا مَعَ رَسُولِ اللهِ وَ عَلِيٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ ۔(۲)

جب امام صادقعليه‌السلام کو زیدابن علی کی شهادت کی خبر ملی تو کلمہ استرجاع کے بعد فرمایا :میرے چچا واقعاً بهترین اور عزیز ترین چچا هیں ۔ اور همارے لئے دنیا اور آخرت دونوں میں چاهنے والے هیں ۔ خدا کی قسم ! میرے چچا ایسے شهید هوئے

____________________

۱ ۔ علي عباس موسوي؛ پاسخ شبهاتي پيرامون مكتب تشيع ، ص۹۷۔

۲ ۔ بحارالأنوار ، ج ۴۶،ص ۱۷۵ باب ۱۱- أحوال أولاده و أزواجه ۔

۲۷۹

هیں ، جیسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علی اور حسین کےرکاب ميں شہید هوچکے هوں ۔خدا کی قسم ! انہوں نے شهادت نوش فرمائی هے ۔

ایسے کلمات آئمہ معصومین سے صادر هوئے هیں ، اور یه بهت دقیق تعبیر یں هیں که جو شیعه تفکر کی عکاسی کرتی هیں که هر ظالم و جابر حکمران کو غاصب مانتے تھے ۔اور هر حاکم ، شیعه کو اپنے لئے سب سے بڑا خطر ه جانتے تھے ۔

هم زیاده دور نهیں جاتے ، بلکه اسی بیسویں صدی کا انقلاب اسلامی ایران پر نظر ڈالتے ہیں ؛ کیسا عظیم انقلاب تھا ؟! که ساری دنیا کے ظالم وجابر ؛ کافر هو یا مسلمان ؛طاغوتی قوتیں سب مل کر اسلامی جمهوریہ ایران پر حمله آور هوئیں ؛ اگرچه ظاهراً ایران اور عراق کے درمیان جنگ تھی ، لیکن حقیقت میں اسلام اور کفر کے درمیان جنگ تھی ۔ کیونکه عالم کفر نے دیکھا که اگر کوئی آئین یا مکتب ، ان

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336