تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں17%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86705 / ڈاؤنلوڈ: 3148
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

نوش فرمائي ؛اور ان کی طوفانی شهادت اور شهامت اس قدر مؤثر تھی که پورے مکه اور مدینه کے علاوه عراق میں بھی لوگوں میں انقلاب برپا کیا ؛ جسے معاویه نے کبھی سوچا بھي نه تھا ۔ اور چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی وہابی ٹولے نے ۱۴۳۴ ه میں محبت امیر المومنین ؑ کے جرم میں اس مردمؤمن کے جسم کو قبر سے نکال کر بے حرمتی کا نشانہ بنایا۔

امام حسينعليه‌السلام نے ایک پروگرام میں ، معاویه کے غیراسلامی کردار کو لوگوں پر واضح کرتے هوئے یوں بیان فرمایا :

الست قاتل حجر بن عدي اخا كنده ؛ والمصلين العابدين الذين كانوا ينكرون الظلم و يستعظمون البدع و لا يخافون في الله لومة لائم!

اے معاویه ! کیا تو وهي شخص نهیں ، جس نے قبیله کنده کےعظيم انسان (حجر بن عدی) کو نماز گزاروں کے ایک گروه کے ساتھ بے دردی سے شهید کیا ؟ ان کا جرم صرف یه تھا که وه ظلم اور ستم کے خلاف آوازاٹھاتے اور بدعتوں اور خلاف شرع کاموں سے بیزاری کا اظهار کرتے تھے، اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کی کوئی پروا نهیں کرتے

۲۶۱

تھے ؟!۔(۱)

ج:شیعوں کے تقیه سے مربوط شبهات

o تقيه شیعوں کے اصول دين میں سے ہے ۔

o تقيه شیعوں کی بدعتوں میں سے ہے ۔

o تقيه پيروي از آئمہ اطهار سے تناقض رکھتا ہے ۔

o تقيه زوال دين کاموجب ہے ۔

o فتواي امامعليه‌السلام تقيه کی صورت میں قابل تشخیص نہیں ۔

o تقيه شیعوں کا خوف اور اضطرار ی حالت ہے ۔

o تقيه کافروں کے ساتھ کیا جاتا ہے نہ مسلمانوں کے ساتھ ۔

____________________

۱ ۔مكارم شيرازي؛ تقيه مبارزه عميقتر، ص ۱۰۷۔

۲۶۲

۱۔تقيه شیعوں کی بدعت

شبهه پیدا کرنے والے کا کهنا هے که :تقیه شیعوں کی بدعت هے جو اپنے فاسد عقیدے کو چھپانے کی خاطر کرتے هیں۔(۱)

اس شبهه کا جواب یه هے که اس نے بدعت کے معنی میں غلطی کی هے ۔ جب که مفردات راغب نے بدعت کی تعریف کرتے هوئے کها هے :البدعة هي ادخال ما ليس من الدين في الدين ۔(۲) بدعت سے مراد یه هے که جوچیز دین میں نهیں، اسے دین میں داخل کرنا ۔اور گذشته مباحث سے معلوم هوا که تقیه دین کی ضروریات میں سے هے ۔ کیونکه قرآن اور احاديث آئمہعليهم‌السلام میں واضح طور پر بیان هوا هے که تقیه

____________________

۱۔ فهرست ايرادات و شبهات عليه شيعيان در هند و پاكستان، ص ۳۶۔

۲۔ راغب اصفهاني ؛ مفردات، بدع۔

۲۶۳

کو اهل تشیع اور اهل سنت دونوں مانتے هیں اور اس کے شرعی هونے کو بھی مانتے هیں ۔

لہذا ، تقیه نه بدعت هے اور نه شیعوں کا اختراع ،که جس کے ذریعے اپنا عقیده چھپایا جائے، بلکه یه الله اور رسول کا حکم هے ۔

گذشته مباحث سے معلوم هوا كه تقيه دين کاحصه هے کيونکه وه آيات جن کو شيعه حضرات اسلام کا اہم جزء جانتے هيں،ان کي مشروعيت کو ثابت کرچکے هيں اور اهل سنت نے بھي ان کي مشروع هونے کا في الجمله اعتراف کيا هے۔ اس بنا پر ، نه تقيه بدعت هے اور نه شيعوں کا اپنا عقيده چھپانے کيلئے اختراع هے۔

۲۶۴

۲۔تقيه، مكتب تشيع کا اصول دين ؟!

بعض لوگوں کا اپنے مخالفین کے خلاف مهم چلانے اور ان کو شکست دینے کیلئے جو خطرناک اور وحشنتاک راسته اختیار کرتے هیں ، ان میں سے ایک یه هے که ان کو متهم کرنا هے اور ایسی تهمتیں لگاتے هیں ، جن سے وه لوگ مبریٰ هیں ۔ اگرچه عیوب کا ذکر کرنا معیوب نهیں هے ۔

ان لوگوں میں سے ایک ابن تیمیه هے ؛ جو کهتا هے که شیعه تقیه کو اصول دین میں سے شمار کرتے هیں ۔ جبکه کسی ایک شیعه بچے سے بھی پوچھ لے تو وه بتائے گا : اصول دین پانچ هیں :

اول : توحید۔ دوم :عدل سوم: نبوت ۔چهارم:امامت ۔پنجم : معاد۔

ليکن وه اپنی كتاب منهاج السنه میں لکھتا هے : رافضي لوگ اسے اپنا اصول دین میں شمار کرتے هیں ۔ایسی باتیں یا تهمتیں لگانے کی دو هی وجه هوسکتی هیں:

۲۶۵

۱ ۔ یا وه شیعه عقائد سے بالکل بے خبر هے ؛ که هو هی نهیں سکتا ۔ کیونکه مذهب تشیع کا اتنا آسان مسئله ؛ جسے سات ساله بچه بھی جانتا هو ، ابن تیمیه اس سے بے خبر هو ۔کیونکه همارے هاں کوئی چھٹا اصل بنام تقیه موجود نهیں هے ۔

۲ ۔ یا ابن تیمیه اپنی هوا وهوس کا اسیر هوکر شیعوں کو متهم کرنے پر تلا هوا هے ۔ وه چاهتا هے که اس طریقے سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرےاوراسلام اور مسلمین کی قوت اور شان و شکوکت کو متزلزل کرے ۔

اس قسم کی بیهوده باتیں ایسے لوگوں کی خوشی کا سبب بن سکتی هیں، جو کسی بھی راستے سے شیعیان علی ابن ابی طالب کی شان شوکت کو دنیا والوں کے سامنے

۲۶۶

گھٹاتے اور لوگوں کو مکتب حقه سے دور رکھتے ۔(۱)

جب که خود اهل سنت بھی تقیه کے قائل هیں اور ان کے علماء کا اتفاق اور اجماع بھی هے ، که تقیه ضرورت کے وقت جائز هے ۔چنانچه ابن منذر لکھتا هے:

اجمعوا علي من اكره علي الكفر حتي خشي علي نفسه القتل فكفر و قلبه مطمئن بالايمان انه لا يحكم عليه بالكفر ۔(۲)

اس بات پر اجماع هے که اگر کوئی کفر کا اظهار کرنے پر مجبور هو جائے ، اور جان کا خطره هو تو ایسی صورت میں ضرور اظهار کفرکرے ۔جبکه اس کا دل ایمان سے پر هو ، تو اس پر کفر کا فتوا نهیں لگ سکتا ۔یا وه کفر کے زمرے میں داخل نهیں هوسکتا ۔

____________________

۱۔ عباس موسوي؛ پاسخ و شبهاتي پيرامون مكتب تشيع، ص۱۰۲۔

۲۔ دكترناصر بن عبدالله؛ اصول مذهب شيعه،ج ۲، ص ۸۰۷۔

۲۶۷

ابن بطال کهتا هے :واجمعوا علي من اكره علي الكفر واختار القتل انه اعظم اجرا عنداﷲ !یعنی علماء کا اجماع هے که اگر کوئی مسلمان کفر پر مجبور هوجائے ، لیکن جان دینے کو ترجیح نہ دے تو اس کے لئے الله تعالیٰ کے نزدیک بهت بڑا اجر اور ثواب هے ۔

خوداهل سنت تقيه کے جائز هونے کو قبول کرتے هیں ۔ لیکن جس معنی ٰ میں شیعه قائل هیں ، اسے نهیں مانتے ۔ ان کے نزدیک تقیه ، رخصت یا اجازت هے ، لیکن شیعوں کے نزدیک ، ارکان دین میں سے ایک رکن هے ۔ جیسے نماز۔ اور بعد میں امام صادقعليه‌السلام کی روایت کو نقل کرتے هیں، جو پیغمبر اسلام (ص) سے منسوب هے ۔قال الصادق عليه‌السلام : لو قلت له تارك التقيه كتارك الصلوة ۔ اس کے بعد کهتےهیں که شیعه صرف اس بات پر اکتفاء نهیں کرتے بلکه کهتے هیں :لا دين لمن لا تقية له ۔(۱)

____________________

۱۔ دكترناصر بن عبدالله؛ اصول مذهب شيعه،ج ۲، ص ۸۰۷۔

۲۶۸

۳۔تقيه، زوال دين کا موجب ؟!

کها جاتا هے که تقیه زوال دین اور احکام کی نابودی کا موجب بنتا هے ۔ لهذا تقیه پر عمل نهیں کرنا چاهئے ۔اور اس کو جائز نهیں سمجھنا چاهئے ۔

جواب:

تقيه ، احكام پنجگانه میں تقسيم كيا گیا هے :واجب ، حرام ، مستحب ، مكروه ، مباح۔

حرام تقيه، دین میں فساد اور ارکان اسلام کے متزلزل هونے کا سبب بنتا هے ۔ به الفاظ دیگر جوبھی اسلام کی نگاه میں جان، مال ، عزت، ناموس وغیره کی

۲۶۹

حفاظت سے زیاده مهم هو تو وهاں تقیه کرنا جائز نهیں هے ، بلکه حرام هے ۔اور شارع اقدس کا بھی یهی حکم هے ۔کیونکه عقل حکم لگاتی هے که جب بھی کوئی اهم اور مهم کے درمیان تعارض هوجائے تو اهم کو مقدم رکھاجائے ، اور اگر تقیه بھی موجب فساد یا ارکان اسلام کے متزلزل هونے کا سبب بنتا هے تو وهاں تقیه کرنا جائز نهیں هے ۔

آئمہ طاهرین سے کئی روايات هم تک پهنچی هیں که جو اس بات کی تائید کرتی هیں اور بتاتی هیں که بعض اوقات تقیه کرنا حرام هے ۔

امام صادقعليه‌السلام نےفرمایا:

فكل شيئ يعمل المؤمن بينهم لمكان التقية مما لا يؤدي الي الفساد في الدين فانّه جائز ۔(۱)

هر وه کام جو مؤمن تقیه کے طور پر انجام دیتے هیں ؛اگر دین کیلئے کوئی

____________________

۱۔ وسائل الشيعه ، ج۶، باب۲۵، ص۴۶۹۔

۲۷۰

ضرر یا نقصان بھی نه هو ،اور کوئی فساد کا باعث بھی نه هو ؛ تو جائز هے ۔

امام صادقعليه‌السلام کی اس حدیث سے معلوم هوتا هے که تقیه بطور مطلق حرام نهیں هے بلکه وه تقیه حرام هے جو زوال دین کا سبب بنتا هو ۔

لیکن وه تقیه واجب یا مباح يا مستحب هے جو زوال دین کا سبب نهیں بنتا ۔ اور یہ مکتب تشیع کا نظریہ هے ۔

۴۔امام ؑکی پيروي اور تقیه کے درميان تناقض

شبهه یہ هے که شیعه آئمہعليهم‌السلام کی پیروی کرنے کا دعویٰ کرتے هیں جبکه آئمہ طاهرین نے تقیه نہیں کیا هے ؛ جیساکہ علیعليه‌السلام نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی ، اور امام حسینعليه‌السلام نے یزید کے خلاف جهاد کیا ۔(۱)

____________________

۱۔ موسي موسوي؛ الشيعه والتصحيح، ص۶۹۔

۲۷۱

اس شبهه کا جواب :

اولاً :شیعه نظریے کے مطابق تقیه ایسے احکام میں سے نهیں که هر حالت میں جائز هو ، بلکه اسے انجام دینے کیلئے تقیه اور اظهار حق کرنے کے درمیان مصلحت سنجی کرناضروري هے که تقیه کرنے میں زیاده مصلحت هے یا تقیه کو ترک کرنے میں زیاده مصلحت هے ؟

آئمہ طاهرین بھی مصلحت سنجی کرتے اور عمل کرتے تھے۔ جیسا که اوپر کی دونوں مثالوں میں تقیه کو ترک کرنے میں زیاده مصلحت پائی جاتی تھیں لهذا دونوں اماموں ؑنے تقیه کو ترک کیا ۔ اگر امیرالمؤمنینعليه‌السلام ابوبکر کی بیعت کرتے تو ان کی خلافت کو قبول کرنا اور اپنی امامت اور خلیفہ بلافصل کا انکار کرنا ثابت ہوتاہے اسی طرح اگر امام حسینعليه‌السلام تقیه کرتےاور یزید کی بیعت کرتے تو اپنے جد امجدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین کا نام ونشان باقی نہ رہتا ، کیونکہ یزید نے منبر سے برملا کہہ دیا تھا :

لعبت بنوهاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل ۔

۲۷۲

نہ کوئی قرآن نازل ہوا ہے اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے بلکہ بنی ہاشم والوں نے حکومت کرنے کے لئے ایک کھیل کھیلا ہے ۔

ثانيا: شيعه سارے اماموںؑ کی پيروي کرنےکو واجب سمجھتے هیں ۔ اور همارے سارے آئمہؑ نے بعض جگهوں پر تقیه کیا هے اور بعض جگهوں پر تقیه کو ترک کیا هے ۔ بلکه اس سے بھی بالا تر که بعض مقامات پر تقیه کرنے کا حکم دیا هے۔ یه اس بات کی دلیل هے که ان کی زندگی میں کتنی سخت دشواریاں پیش آتی تھیں۔

ثالثاً: تقيه کے بهت سے موارد ، جهاں خود آئمہعليهم‌السلام نے تقیه کرنے کو مشروع قرار دیا هے ، جن کا تذکره گزرچکا ہے۔

رابعاً: شبهه پیدا کرنے والا خود اعتراف کررها هے که حضرت عليعليه‌السلام نے فقط چھ ماه بيعت كرنے سے انکار کیا پھر بعد میں بيعت کرلی ۔یه خود

۲۷۳

دلیل هے کہ حضرت عليعليه‌السلام کی سیرت میں بھی تقيه موجود هے ۔

۵۔تقيه اورفتواي امامعليه‌السلام کي تشخيص

اس کے بعد که قائل هوگئے كه آئمہعليهم‌السلام بھی تقیه کرتے تھے ؛ درج ذیل سوالات ، اس مطلب کی ضمن میں که اگر امامؑ حالت تقیه میں کوئی فتوا ی دیدیں، تو کیسے پهچانیں گے که تقیه کي حالت میں فتوا دے رهے هیں یا عام حالت میں ؟!

جواب:

اس کی پهچان تین طریقوں سے ممکن هے :

۱. امامؑ کا فتوی ایسے دلیل کے ساتھ بیان هوجو حالت تقیه پر دلالت کرتی هو ۔

۲. فتوای دینے سے پهلے کوئی قرینه موجود هو ، جو اس بات پر دلالت کرے

۲۷۴

که حالت تقیه میں امام ؑنےفتوی دیا هے ۔

۳. امامعليه‌السلام قرينه اور دليل کو فتوای صادر کرنے کے بعد ،بیان کریں که حالت تقیه میں مجھ سے یه فتوای صادر هوا هے ۔

۶۔ تقيه اورشیعوں کا اضطراب!

تقيه،جبن و اضطراب کادوسرا نام هے ،اور شجاعت اور بهادری کے خلاف هے۔ جس کی وجه سے اپنےقول و فعل میں، اورظاهر و باطن میں اختلاف کی صورت میں ظاهر هوتی هے ۔اور یه صفت ، رزائل اخلاقی کے آثار میں سے هے اور اس کی سخت مذمت هوئی هے؛ لهذا خود امام حسينعليه‌السلام نے كلمه حق کی راه میں تقيه کے حدود کو توڑ کر شهادت کیلئے اپنے آپ کو تیار کیا ۔(۱)

____________________

۱۔ دكتر علي سالوس؛ جامعه قطربين الشيعه و السنه،ص۹۲۔

۲۷۵

جواب:

اگرشیعوں میں نفسياتي طور پر جبن، اضطراب اور خوف پایا جاتا توظالم بادشاهوں کے ساتھ ساز باز کرتے ، اور کوئی جنگ يا جهاد کرنے کی ضرورت هی پیش نهیں آتی ۔ یه لوگ بھی درباری ملاؤں کی طرح اپنے اپنے دور کے خلیفوں کے هاں عزیز هوتے ۔اور تقیه کی ضرورت هی پیش نه آتی۔

اس سے بڑھ کر کیا کوئی شجاعت اور بهادری هے که جس دن اسلام کی رهبری اور امامت کا انتخاب هونے والاتھا ؛ اس دن لوگوں نے انحرافی راسته اپناتے هوئے نااهل افراد کو مسندخلافت پر بٹھادیا ۔ اس دن سے لیکر اب تک شیعوں کا اور شیعوں کے رهنماؤں کا یهی نعره اور شعار رها هے که هر طاغوتی طاقتوں کے ساتھ ٹکرانا هے اور مظلوموں کی حمایت کرنا هے اور اسلام سے بےگانه افراد کی سازشوں کو فاش کرنا هے ۔

اگرچه شیعه تقيه کی بنیاد پر حركت کرتے هیں ؛ لیکن جهاں بھی اس بات

۲۷۶

کی ضرورت پیش آئی که ظالم اور جابر کے خلاف آواز اٹھانا هے ؛ وهاں شیعوں نے ثابت کردیا هے که اسلام اور مسلمین اور مظلوموں کی حمایت میں اپنا خون اور اپنے عزیزوں کی جان دينے سے بھي دريغ نهيں کيا۔

شیعوں کا آئیڈیل یه هے که اسلام همیشه عظمت اور جلالت کے مسند پرقائم رهے اور امت اسلامی کے دل اور جان میں اسلام کی عظمت اور عزت باقی رهے ۔

مسلمان یه بھی یاد رکھیں! که تاریخ بشریت کا بهترین انقلاب ؛ شیعه انقلاب رها هے ۔ اور دنیا کے پاک اور شفاف ترین انقلابات ، جو منافقت ، دھوکه بازی ، مکر و فریب اور طمع و لالچ سے پاک رهیں ؛ وه شیعه انقلابات هیں جن میں مسلمان عوام اور حکومت کی عظمت اور عزت مجسم هوچکی تھی ۔اور طاغوتی طاقتوں کےمقابلے میں اس مکتب کے ماننے والوں کو عزت ملی اور شیعه، طاغوتی طاقتوں اور حکومتوں کو برکات اور خیرات کا مظهر ماننا تو درکنار ، بلکه ان کے ساتھ ساز باز کرنے سے پر هیز

۲۷۷

کرتے تھے ۔هم کچھ انقلابات کا ذکر کریں گے ، جن کو آئمہ طاهرین نے سراهتے هوئے ان کی کامیابی کے لئے دعائیں کی هیں ۔کیونکه کسی بھی قوم کی زندگی اور بقا کا راز انهی انقلابات میں هے ۔ جن میں سے بعض یه هیں:

o زيد ابن علي کا انقلاب۔

o محمد بن عبدالله کا حجازميں انقلاب۔

o ابراهيم بن عبدالله کا بصره ميں انقلاب۔

o محمد بن ابراهيم و ابو السرايا کا انقلاب۔

o محمد ديباج فرزند امام جعفر صادقعليه‌السلام کا انقلاب۔

o علي ابن محمد فرزند امام جعفر صادقعليه‌السلام کا انقلاب۔

اسی طرح دسیوں اور انقلابات هیں ، که جن کی وجه سے عوام میں انقلاب اورشعور پید ا

۲۷۸

هوگیا هے ۔ اور پوری قوم کی ضمیر اور وجدان کو جگایا هے ۔(۱)

امامان معصوم ان انقلابات کو مبارک اور خیر وبرکت کا باعث سمجھتے تھے ۔اور ان سپه سالاروں کي تشویق کرتے تھے ۔راوي کهتا هے :

فَدَخَلْنَا عَلَى الصَّادِقِ وَ دَفَعْنَا إِلَيْهِ الْكِتَابَ فَقَرَأَ وَ بَكَى ثُمَّ قَالَ إِنَّا للهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ عِنْدَ اللهِ أَحْتَسِبُ عَمِّي إِنَّهُ كَانَ نِعْمَ الْعَمُّ إِنَّ عَمِّي كَانَ رَجُلًا لِدُنْيَانَا وَ آخِرَتِنَا مَضَى وَ اللهِ عَمِّي شَهِيداً كَشُهَدَاءَ اسْتُشْهِدُوا مَعَ رَسُولِ اللهِ وَ عَلِيٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ ۔(۲)

جب امام صادقعليه‌السلام کو زیدابن علی کی شهادت کی خبر ملی تو کلمہ استرجاع کے بعد فرمایا :میرے چچا واقعاً بهترین اور عزیز ترین چچا هیں ۔ اور همارے لئے دنیا اور آخرت دونوں میں چاهنے والے هیں ۔ خدا کی قسم ! میرے چچا ایسے شهید هوئے

____________________

۱ ۔ علي عباس موسوي؛ پاسخ شبهاتي پيرامون مكتب تشيع ، ص۹۷۔

۲ ۔ بحارالأنوار ، ج ۴۶،ص ۱۷۵ باب ۱۱- أحوال أولاده و أزواجه ۔

۲۷۹

هیں ، جیسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علی اور حسین کےرکاب ميں شہید هوچکے هوں ۔خدا کی قسم ! انہوں نے شهادت نوش فرمائی هے ۔

ایسے کلمات آئمہ معصومین سے صادر هوئے هیں ، اور یه بهت دقیق تعبیر یں هیں که جو شیعه تفکر کی عکاسی کرتی هیں که هر ظالم و جابر حکمران کو غاصب مانتے تھے ۔اور هر حاکم ، شیعه کو اپنے لئے سب سے بڑا خطر ه جانتے تھے ۔

هم زیاده دور نهیں جاتے ، بلکه اسی بیسویں صدی کا انقلاب اسلامی ایران پر نظر ڈالتے ہیں ؛ کیسا عظیم انقلاب تھا ؟! که ساری دنیا کے ظالم وجابر ؛ کافر هو یا مسلمان ؛طاغوتی قوتیں سب مل کر اسلامی جمهوریہ ایران پر حمله آور هوئیں ؛ اگرچه ظاهراً ایران اور عراق کے درمیان جنگ تھی ، لیکن حقیقت میں اسلام اور کفر کے درمیان جنگ تھی ۔ کیونکه عالم کفر نے دیکھا که اگر کوئی آئین یا مکتب ، ان

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ (٢٧٦)

خدا سود كو برباد كرديتا ہے اور صدقات ميں اضافہ كرديتا ہے او رخدا كسى بھى ناشكرے گناہگار كو دوست نہيں ركھتا ہے_

١_ خدا تعالى سودى سرمائے كو ہميشہ نقصان اور نابودى كى طرف لے جاتاہے_يمحق الله الربوا

كم ہوتے رہنے كو كو ''محق ''كہاجاتاہے (مجمع البيان)

٢_ صدقہ ديئے ہوئے اموال كو خدا تعالى زيادہ كرديتاہے_و يربى الصدقات

٣_ سودى نظام معاشرے كے اقتصادى نظام كو تباہ كركے ركھ ديتاہے_ يمحق الله الربوا

٤_ صدقہ اور انفاق كا رائج ہونا اقتصادى نظام كى رونق كا سبب ہے_و يربى الصدقات يربى '' اربا ''سے ہے كہ جس كا معنى ہے زيادہ كرنا اور رشد و ترقى دينا

٥_ نعمتوں كا شكر نہ كرنے والے اور گناہگار افراد محبت خدا سے محروم ہيں _والله لا يحب كل كفار اثيم

٦_ سودخور لوگ ناشكر ے، گناہ گار اور خدا كى محبت سے محروم ہيں _يمحق الله الربوا و الله لا يحب كل كفار اثيم سودخورى كو بيان كرنے كے بعد ''كفار''(بہت ہى ناشكرا) اور ''اثيم'' (گناہوں ميں غرق) كا تذكرہ اس بات كى طرف اشارہ كرنے كيلئے ہے كہ سودخورلوگ بھى انہيں ناشكرے اور گناہوں ميں غرق افراد ميں سے ہيں _

۳۲۱

٧_جو لوگ صدقہ ديتے ہيں اور انفاق كرتے ہيں وہ خدا تعالى كى نعمتوں كے شكر گزار اور اسكے حكم كے اطاعت گزار ہيں _يمحق الله كل كفار اثيم

صدقہ اور سود كے مقابلہ سے پتہ چلتاہے كہ يہ دونوں اثرات كے لحاظ سے بھى متضاد ہيں پس چونكہ سودخور ناشكرا اور گناہ گار ہے اسلئے انفاق كرنے والا شكر گزار اور فرمانبردار ہے_

٨_ صدقہ اور انفاق خدا كى نعمتوں كا شكر اور اس كے حكم كى پيروى ہے_يمحق الله كل كفار اثيم

٩_ سودخورى خداوند عالم كى نعمتوں كى سخت ناشكرى اور گناہ ہے_يمحق الله الربوا و الله لا يحب كل كفار اثيم

١٠_ انفاق خدا كى محبت حاصل كرنے كا سبب اور انفاق كرنے والے اس كے محبوب ہيں _يمحق الله الربوا و يربى الصدقات والله لا يحب كل كفار اثيم ربا اور صدقہ كے درميان مقابلہ كے قرينہ سے سود خور كى محبت الہى سے محروميت اس حقيقت كى حكايت كرتى ہے كہ انفاق كرنے والے خدا تعالى كے محبوب ہيں _

اطاعت: خدا تعالى كى اطاعت ٧ ،٨

اقتصاد : اقتصادى انحطاط كے عوامل ١ ، ٣; اقتصادى ترقى كے عوامل ٤ اقتصادى نظام: ١، ٢، ٣، ٤

انفاق: انفاق كے اثرات ٤ ، ٧ ، ٨ ، ١٠

خدا تعالى: خدا تعالى كى محبت ٥ ، ٦ ،١٠; خدا تعالى كے محبوب ١٠

رشد و ترقي: رشد و ترقى كے عوامل٢

سودخور: سود خور كى سرزنش ٦

سودخورى : سودخورى كا گناہ ٩;سودخورى كے اثرات ١، ٣

صدقہ: صدقہ كے اثرات ٢، ٤، ٧، ٨

۳۲۲

عمل: عمل كى جزا ١

گناہ:گناہ كے اثرات ٥، ٦

گناہگار: گناہگارى كى محروميت ٥، ٦

نعمت: كفران نعمت ٥، ٦، ٩ ;نعمت كا شكر ٧، ٨

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُواْ الصَّلوةَ وَآتَوُاْ الزَّكَوةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (٢٧٧)

جو لوگ ايمان لے آئے اور انھوں نے نيك عمل كئے نماز قائم كى _ زكوة ادا كى ان كے لئے پروردگار كے يہاں اجر ہے او رانكے لئے كسى طرح كا خوف يا حزن نہيں ہے _

١_ جو مؤمنين عمل صالح انجام ديتے ہيں ، نماز قائم كرتے ہيں اور زكوة ادا كرتے ہيں وہ خدا تعالى كے خاص اجر سے بہرہ مند ہونگے_ان الذين آمنوا و عملوا الصالحات و اقاموا الصلوة و آتوا الزكاة لهم اجرهم عند ربهم

كلمہ''عند ربھم''خدا كے خاص اجر كى طرف اشارہ ہے_

٢_ خداوند متعال كے مخصوص اجر سے بہرہ مند ہونے كيلئے ضرورى ہے كہ ايمان عمل صالح كے ہمراہ ہو_

ان الذين آمنوا و عملوا الصالحات لهم اجرهم عند ربهم

٣_ خداوند عالم كا نيك اعمال كرنے والے، نماز قائم كرنے والے اور زكاة ادا كرنے والے مومنين كو اجر دينا ان كے نيك عمل كا نتيجہ ہے_لهم اجرهم عند ربهم ''اجر'' يعنى مزدورى جو كسى كے كام كے مقابلے ميں اسے دى جائے لہذا مومنين كا اجر ان كے عمل كى اجرت اور مزدورى ہوگي_

۳۲۳

٤_ عمل صالح كرنے والے مومنين كو خدا وند عالم كے نزديك بلند مقام و منزلت حاصل ہے_

لهم اجرهم عند ربهم ظاہراً''رب''كى ضمير كى طرف اضافت تشريفى ہے جيساكہ مفسّر آلوسى نے كہا ہے كہ''عند ربھم''كى تعبير ميں كثرت لطف و شرافت نظر آتى ہے_

٥_ عمل كى ترغيب دلانے كيلئے اس كى جزا كے وعدے اور ضمانت كى تاثير_لهم اجرهم عند ربهم

٦_ صالح عمل كرنے والے مؤمنين كو اجر كا وعدہ دينا، ايمان اور صالح عمل انجام دينے كے جذبہ كو ابھارنے كيلئے قرآن كريم كا طريقہ اور روش ہے_لهم اجرهم عند ربهم

٧_ اسلام كا عبادى مسائل كے ساتھ ساتھ اقتصادى مسائل پر بھى توجہ دينا_و اقاموا الصلوة و آتوا الزكاة

٨_ نماز قائم كرنا اور زكات ادا كرنا عمل صالح كے بہترين نمونوں ميں سے ہيں _و عملوا الصالحات و اقاموا الصلوة و آتوا الزكاة عمل صالح كے بعد نماز اور زكات كا ذكر كرنا باوجود اس كے كہ خود يہ عمل صالح ہيں ہمارے مذكورہ بالا نكتے كى دليل ہے_

٩_ ايمان اور عمل صالح بالخصوص نماز اور زكات كا نتيجہ باطنى و اندرونى سكون ہے_ان الذين آمنوا و عملوا الصالحات و لاخوف عليهم و لاهم يحزنون يہ اس صورت ميں ہے كہ خوف و حزن كا نہ ہونا (باطنى سكون ) آخرت كے علاوہ دنيا سے بھى مربوط ہو _

١٠_ عمل صالح كرنے والے مؤمنين كو قيامت ميں كوئي خوف اور غم نہيں ہوگا_ان الذين آمنوا و لاخوف عليهم و لاهم يحزنون يہ اس صورت ميں ہے كہ ''خوف'' و ''حزن'' كے نہ ہونے كا تعلق صرف آخرت سے ہو_

١١_ ايمان، عمل صالح، نماز اور زكات اطمينان خاطر كا باعث ہيں _ان الذين آمنوا و لاهم يحزنون

١٢_ كفر، ناشائستہ اعمال، نماز نہ پڑھنا، خدا سے رابطہ نہ ركھنا اور زكات اور دوسرے مالى حقوق كا ادا نہ كرنا باطنى بے سكونى اور اضطراب كے موجب

۳۲۴

ہيں _ان الذين آمنوا و لاهم يحزنون مذكورہ بالا نكتہ آيت كے مفہوم سے ليا گيا ہے_

١٣_ ايمان اور عمل صالح بالخصوص نماز اور زكات معاشرہ سے سود كا قلع قمع كرنے كاذريعہ ہيں _

يمحق الله الربوا آمنوا و عملوا الصالحات سابقہ آيات (جو كہ سود كے بارے ميں تھيں ) كے بعد اس آيت كا ذكر كرنا معاشرہ سے سود كا قلع قمع كرنے كيلئے رہنمائي كے طور پر ہے_

اطمينان: اطمينان كے عوامل ٩، ١١; اطمينان كے موانع ١٢

اقتصاد: اقتصاد اور عبادت ٧

ايمان: ايمان اور عمل ١، ٣ ; ايمان كا اجر ٢ ; ايمان كا پيش خيمہ ٦ ; ايمان كے اثرات ٩، ١٠، ١١، ١٣

تربيت: تربيت كا طريقہ ٦

تقرب: تقرب كے عوامل ٤

جذبہ ابھارنا: جذبہ ابھارنے كے عوامل ٦ دينى نظام تعليم: ٧

زكات: زكات ادا كرنا ١، ٣ ; زكات كى فضيلت ٨ زكوة كے اثرات ٩، ١١، ١٣ ;زكات نہ دينے كے اثرات١٢

سودخوري: سود خورى كے موانع ١٣

عمل: برے عمل كے اثرات ١٢ ; عمل صالح ٣، ٤، ٨; عمل صالح كا پيش خيمہ ٦;عمل صالح كى ترغيب ٥;عمل صالح كى جزا ٦;عمل صالح كے اثرات ٩، ١٠، ١١، ١٣

قيامت: قيامت ميں خوف ١٠; قيامت ميں غم و اندوہ ١٠ ; قيامت ميں مومنين ١٠

كفر: كفر كے اثرات ١٢

۳۲۵

معاشرہ: معاشرہ كى ترقى كے عوامل ١٣

مومنين: مومنين كى جزا ١،٣،٦;مومنين كى صفات ١;مومنين كے فضائل ٤

نفسياتى اضطراب: نفسياتى اضطراب كے عوامل ١٢

نماز: نماز ترك كرنے كے اثرات ١٢ ; نماز كا قائم كرنا ١، ٣، ٨ ;نماز كى فضيلت ٨; نماز كے اثرات ٩، ١١، ١٣

وعدہ: وعدہ كى تاثير و اہميت٥، ٦

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (٢٧٨)

ايمان والو الله سے ڈرو او رجو سود باقى رہ گيا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم صاحبان ايمان ہو _

١_ مومنين كا فريضہ تقوي (خدا كى مخالفت سے پرہيز) كى مراعات كرنا ہے_يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله

٢_ تقوي الہي،ايمان سے بلند مرتبہ ہے_يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله كيونكہ مومنين كو تقوي كا حكم ديا گيا ہے_

٣_ سود، ايمان اور تقوي سے ميل نہيں كھاتا_يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله و ذروا ما بقى من الربوا ان كنتم مؤمنين

٤_ سود خورى زمانہ جاہليت كى عادات و رسوم ميں سے ہے_يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله و ذروا ما بقى من الربوا

٥_صدر اسلام ميں سود خور مومنين موجود تھے_يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله و ذروا ما بقى من الربوا

خدا تعالى كا مومنين كو سود ى منافع چھوڑنے كا حكم دينا بتلاتا ہے كہ صدر اسلام كے مسلمانوں ميں

۳۲۶

سود اور سودخورى پائي جاتى تھى جو زمانہ جاہليت كى باقيات ميں سے تھي_

٦_ ايمان كئي مراتب اور درجے ركھتا ہے_يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله ان كنتم مؤمنين

باوجود اس كے كہ خطاب مومنين سے ہے پھر بھى سود چھوڑنے كو ان كے ايمان سے (ان كنتم مومنين) مشروط كيا ہے معلوم ہوتا ہے كہ آيت كے آخر ميں مذكور ايمان اس ايمان كا غير ہے جو آيت كے اول ميں ذكر ہوا ہے اور اس سے ايمان كے دو مرتبوں كى نشاندہى ہوتى ہے_

٧_ ايمان اور تقوي سود ى اقتصادى نظام كے خاتمے كا پيش خيمہ ہيں _يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله و ذروا ما بقى من الربوا ان كنتم مؤمنين

٨_ ايمان اور تقوي خداوند متعال كے احكام پر عمل كرنے كا پيش خيمہ ہيں _يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله و ذروا ما بقى من الربوا ان كنتم مؤمنين

٩_ سودخورى سے اجتناب اور سودى منافع سے چشم پوشى كرنا مومنين كا فريضہ ہے_يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله و ذروا ما بقى من الربوا

١٠_ سود خورى سے اجتناب اور سود والے منافع چھوڑ دينا تقوي كے مصاديق ميں سے ہے_اتقوا الله و ذروا ما بقى من الربوا

١١_ سودخور لوگ سود ى منافع كے مالك نہيں ہيں _و ذروا ما بقى من الربوا

سودى منافع چھوڑنے كا لازمہ ان ميں دخل و تصرف كا ناجائز ہونا ہے جس كا مطلب يہ ہے كہ سود خور كو ان منافع كا مالك نہيں سمجھا گياہے_

١٢_ سود ى منافع كا لينا جائز نہيں ہے اگرچہ سودى معاملہ اس كى حرمت سے پہلے انجام پاچكا ہو_و ذروا ما بقى من الربوا

١٣_ اگر سود ى معاملہ اس كى حرمت سے پہلے انجام پاچكا ہو تو سود كى مد ميں لئے جانے والے منافع كا ان كے اصلى مالكوں كو لوٹانا ضرورى نہيں ہے_و ذروا ما بقى من الربوا

١٤_ ايمان، الہى تقوي كے حصول كا ذريعہ ہے_

۳۲۷

يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله

١٥_ مصالح و مفاسد كو بيان كركے فكرى آمادگى پيدا كرنا قرآن كريم كے تبليغى اور تربيتى طريقوں ميں سے ہے_

الذين ياكلون الربوا لايقومون الا كما يقوم الذى يتخبطه الشيطان من المس و ذروا ما بقى من الربوا كيونكہ خدا تعالى نے اس مطلب كو بيان كركے كہ سود معاشرہ كو تباہ و برباد كركے ركھ ديتاہے (يتخبطہ الشيطان) اورسود كى بنياد پر قائم اقتصادى نظام كمزور سے كمزور تر ہوتا جاتا ہے (يمحق الله الربا) اور مومنين كے ايمان كوبہالے جاتا ہے(ان كنتم مومنين) سود چھوڑنے كا حكم دياہے_

احكام: ١١، ١٢، ١٣

اقتصادى نظام :٧

ايمان: ايمان كے اثرات ٣، ٧، ٨، ١٤ ;ايمان كے مراتب ٢، ٦

تبليغ: اسكا طريقہ ١٥

تربيت: اسكا طريقہ ١٥

تقوي: تقوي كا پيش خيمہ ١٤; تقوي كى اہميت ١ ; تقوى كى فضيلت ٢ ; تقوي كے اثرات ٣، ٧، ٨; تقوي كے موارد ٢

دينى نظام تعليم: ٣

زمانہ جاہليت: اسكى رسوم ٤

سود: سود ابتدائے اسلام ميں ٥ ; سود زمانہ جاہليت ميں ٤;سود كے اثرات٣ سود كے احكام ١١، ١٢، ١٣

سود خور: سود خور كى مالكيت ١١، ١٢، ١٣

سودخوري: سود خورى سے اجتناب ٩، ١٠ ;سود خورى كے موانع ٧

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل كرنے كا پيش خيمہ٨

مالكيت: ذاتى مالكيت ١١

مومنين: مومنين كى ذمہ دارى ١، ٩

۳۲۸

فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ (٢٧٩)

اگر تم نے ايسا نہ كيا تو خدا و رسول سے جنگ كرنے كے لئے تيا ر ہو جاؤ اور اگر توبہ كرلو تو اصل مال تمھارا ہى ہے _ نہ تم ظلم كرو گے نہ تم پر ظلم كيا جائے گا _

١_ سودخوروں كے خلاف خدا و رسول (ص) كى بڑى جنگ_فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من الله ورسوله

يہ اس صورت ميں ہے كہ''من''ابتدائيہ ہو يعنى جنگ شروع كرنے والے خدا اور رسول(ص) ہيں اور يہ بات قابل ذكر ہے كہ كلمہ''حرب''كا نكرہ ہونا بڑى جنگ پر دلالت كرتا ہے_

٢_ سودخور خدا و رسول (ص) كے ساتھ جنگ كى حالت ميں ہيں _فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من الله و رسوله

٣_ سودخور خدا وند عالم اور اس كے رسول (ص) كے ساتھ لڑرہے ہيں _فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من الله و رسوله

٤_ سودخورى بہت بڑا گناہ ہے_فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب

سودخور كو خدا اور رسول (ص) كے خلاف جنگ كرنے والا كہنا سود كے گناہ عظيم ہونے سے حكايت كرتا ہے_

٥_ جو سودخور اپنے اس ناپسنديدہ عمل سے باز نہ آئيں ان كے ساتھ سختى سے نمٹنے اور انكے خلاف مسلح كاروائي كى ضرورت ہے_فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من الله و رسوله

٦_ سودخوروں كيلئے اپنے ناشائستہ كردار سے توبہ كا دروازہ كھلا ہے_و ان تبتم

۳۲۹

٧_ جو سود خور اپنے ناپسنديدہ عمل سے توبہ كرليں ، اصل سرمايہ انہيں كاہے_و ان تبتم فلكم رؤس اموالكم

٨_ اسلامى اقتصاد ميں خصوصى ملكيت كا تصور موجود ہے_فلكم رؤس اموالكم

٩_ اگر سودخور اپنے ناپسنديدہ عمل سے (سودخورى سے) توبہ نہ كريں تو وہ اصل مال كے بھى مالك نہيں ہيں *_

و ان تبتم فلكم رؤس اموالكم '' و ان تبتم ...''كے مفہوم سے يہ نكتہ سمجھ ميں آتاہے كہ اگر توبہ نہ كريں تو انہيں محارب شمار كركے انكے خلاف اعلان جنگ اور مسلح كاروائي كى جائيگى اور اس صورت ميں ان كا اصل سرمايہ بھى ضبط كرليا جائيگا_

١٠_ سودخورى ظلم ہے_و ان تبتم فلكم رؤس اموالكم لاتظلمون جملہ''فلكم رؤوس اموالكم لا تظلمون'' ( اگر تم نے صرف اصلى سرمايہ ليا تو تم نے ظلم نہيں كيا) كا مفہوم يہ ہے كہ سود لينے كى صورت ميں انہوں نے ظلم كيا ہے_

١١_ جو سود خور توبہ كرليں ان كا سرمايہ انہيں نہ لوٹانا ان پر ظلم ہے_فلكم رؤس اموالكم لاتظلمون و لاتظلمون

اگر تمہيں اصل سرمايہ لوٹا ديا جائے تو تم پر ظلم نہيں ہوگا ''لاتظلمون''ليكن اگر تمہيں اصل سرمايہ بھى نہ لوٹايا جائے تو تم پر ظلم ہوگا_

١٢_ اسلام كے اقتصادى نظام كى اساس و بنياد عدل و عدالت ہے_فلكم رؤس اموالكم لاتظلمون و لاتظلمون

جملہ''لاتظلمون '' سرمايہ كى خصوصى ملكيت اور سود والے منافع سے ملكيت كى نفى كيلئے علت كے طور پر ہے اور چونكہ علت ہميشہ قاعدہ كلى كو بيان كرتى ہے پس ظلم نہ كرنا اور مظلوم واقع نہ ہونا ( مطلق عدل و انصاف ) اسلام ميں قابل قبول اقتصادى نظام كى بنياد و اساس ہے_

١٣_ سودى اقتصادى نظام كى نفى كرنا اور عادلانہ اقتصادى نظام كو برپا كرنا اور اسے عام كرنا انبياء (ع) كے بلند اہداف ميں سے ہے_فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من الله و رسوله لاتظلمون و لاتظلمون خدا اور رسول (ص) كى طرف سے''لاتظلمون ولاتظلمون''كے ہدف كى خاطر جنگ كا اعلان ہوتا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ معاشرہ ميں اقتصادى عدل و انصاف خدا اور اس كے

۳۳۰

رسول كے اہداف ميں سے ہے_

١٤_ اسلامى قوانين وضع كرنے كى بنياد عدل و انصاف ہے_لاتظلمون و لاتظلمون

آنحضرت (ص) : آنحضرت (ص) اور سودخورى ١، ٢، ٣

احكام: ٧، ٨، ٩

احكام كى بنياد ١٤

اقتصاد: اقتصادى عدل ١٢، ١٣

اقتصادى نظام: ٨، ١٢، ١٣

انبياء (ع) : انبياء (ع) كے اہداف ١٣

توبہ: توبہ كى اہميت ٩ ;توبہ كى قبوليت ٦

جنگ: پيغمبر(ص) كے ساتھ جنگ ٢، ٣ ;خدا كے ساتھ جنگ ٢، ٣

دينى نظام تعليم: ١٤

سودخور: سود خور كى توبہ ٦، ٧، ١١ ;سود خور كى مالكيت ١١ سود خور كے ساتھ مقابلہ ١، ٥

سودخوري: سود خورى كا ظلم ١٠; سودخورى كا گنا ہ ٤; سود خورى كے اثرات ٢، ٣، ٩

ظلم: ظلم كے موارد ١٠، ١١

عدل و انصاف : عدل و انصاف كى قدروقيمت ١٢، ١٣، ١٤

گناہ: گناہ كبيرہ ٤

مالكيت: ذاتى مالكيت٨، ٩

محارب: ٢، ٣

نہى عن المنكر: ٥

۳۳۱

وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (٢٨٠)

اور اگر تمھارا مقروض تنگ دست ہے تو اسے وسعت حال تك مہلت دى جائے گى اور اگر تم معاف كردو گے تو تمھارے حق ميں زيادہ بہتر ہے بشرطيكہ تم اسے سمجھ سكو _

١_ تنگ دست مقروض كو اس وقت تك قرض ادا كرنے كى مہلت دينا ضرورى ہے جب تك وہ آسانى سے ادا كرسكے_

و ان كان ذوعسرة فنظرة الى ميسرة

٢_ اسلام كا معاشرہ كے كمزور طبقات كے حقوق كى حمايت كرنا_و ان كان ذوعسرة فنظرة الى ميسرة

٣_ احكام اور حقوق كے بارے ميں اسلام كى سہل روش_و ان كان ذوعسرة فنظرة الى ميسرة

٤_ توبہ كرنے والے سودخور كيلئے ضرورى ہے كہ تنگ دست مقروض سے اصل سرمايہ واپس ليتے وقت اسے مہلت دے_و ان تبتم فنظرة الى ميسرة

٥_ تنگ دست مقروض كو پكڑ لينا اور اس كى معمولى ضروريات زندگى پر قبضہ كرلينا جائز نہيں ہے_و ان كان ذوعسرة فنظرة الى ميسرة

٦_ مقروض اگر قرض ادا كرنے كى توان ركھتا ہو تو قرض خواہ كى طرف سے اسے قرض كى ادائيگى پر مجبور كرنا جائز ہے_

و ان كان ذوعسرة فنظرة الى ميسرة مذكورہ مطلب جملہ شرطيہ''و ان كان ...'' كے مفہوم سے سمجھا گيا ہے كيونكہ مہلت نہ دينے كا لازمہ ادائيگى پر مجبور كرنا ہے_

٧_ مہلت دينے كے بجائے قرض خواہ كا تنگ دست مقرو ض كو معاف كردينا زيادہ قابل قدر ہے_

و ان تصدقوا خير لكم

۳۳۲

يہ اس احتمال كے پيش نظر ہے كہ درگذر كا بہتر ہونا مہلت دينے كى بنسبت ہو يعنى درگذر سے كام لينے كا ثواب مہلت دينے كے ثواب سے زيادہ ہے_

٨_ تنگ دست مقروض كو قرض معاف كردينا قرض واپس لينے سے زيادہ قدروقيمت ركھتا ہے_و ان تصدقوا خير لكم

يہ اس صورت ميں ہے كہ درگذر كرنا قرض واپس لينے سے بہتر ہو يعنى مال سے صرف نظر كرنا اسے واپس لينے سے بہتر ہے كيونكہ صدقے كا ثواب باقى رہے گاجبكہ واپس ليا ہوا مال باقى نہيں رہے گا_

٩_ دينى تعليمات ميں حقوقى اور اخلاقى نظام ہم آہنگ ہيں _و ان كان ذوعسرة ...و ان تصدقوا خير لكم

١٠_ تنگ دست مقروض كے قرضوں كا معاف كردينا صدقے كا ايك نمونہ ہے_و ان تصدقوا خير لكم ان كنتم تعلمون مقروض كے قرضے سے درگذر كرنے كو صدقہ سے تعبير كيا گيا ہے_

١١_ تنگ دست مقروض جو اپنا قرض ادا كرنے كى توان نہ ركھتے ہوں صدقہ لے سكتے ہيں_ و ان كان ذوعسرة ...و ان تصدقوا خير لكم

١٢_ نيك اعمال (صدقہ دينا ، تنگ دست مقروض كو معاف كردينا و غيرہ ) كے انجام سے آگاہى انسان كو ان كے انجام دينے پر ابھارتى ہے_و ان تصدقوا خير لكم ان كنتم تعلمون

مذكورہ نكتے ميں ''تعلمون'' كا مفعول صدقہ كے خير ہونے كو بنايا گيا ہے اور شرط''ان كنتم تعلمون''كا جواب محذوف ہے يعنى اگر تمہيں صدقہ كے خير ہونے كا پتہ چل جائے تو تم لوگ صدقہ دوگے_

١٣_ اشياء كے مصالح و مفاسد اور حقيقت تك پہنچنے كيلئے انسان كى توان محدود ہے_خير لكم ان كنتم تعلمون

ممكن ہے جملہ''ان كنتم تعلمون'' مصالح و مفاسد سے انسان كى جہالت سے كنايہ ہو_

١٤_ اگر انسان كو مقروض كى تنگ دستى كا علم ہو تو درگذر كرنا بہت بڑى قدر و قيمت ركھتا ہے_خير لكم ان كنتم تعلمون امام صادق(ع) فرماتے ہيں :''و ان كان ذو عسرة ...''ان كنتم تعلمون انه معسر فتصدقوا عليه بما لكم فهو خير لكم اگر تمہيں اس كے تنگ دست ہونے كا پتہ چل جائے تو اس پر اپنے مال كو صدقہ كردو پس يہ تمہارے لئے بہتر ہے_ (١)

____________________

١) كافى ج ٤ ص ٣٥ ح ٤،نور الثقلين ج ١ ص ٢٩٥ح ١١٨٢_

۳۳۳

احكام: ١، ٤، ٥، ٦ احكام كا فلسفہ ١٣

اخلاقى نظام: ٩ اسلام: اسلام كا آسان ہونا ،٣

انسان: اسكى ناتوانى ١٣

تنگدست: اسكے احكام ١، ٤، ٥، ٦ ; اسے معاف كردينا٧، ٨، ١٠، ١٢، ١٤; اسے مہلت دينا ١، ٤، ٧

جذبہ پيدا كرنا: اسكے عوامل ١٢

حقوق كا نظام: ٩

درگذر كرنا: اسكى فضيلت ٧، ٨، ١٤

دينى نظام تعليم: ٣، ٩

روايت : ١٤

سماجى نظام: ٢

شرعى فريضہ: اس كا آسان ہونا ٣

شناخت: اسكے موانع ١٣

صدقہ: صدقہ كے مصارف ١١;صدقہ كے موارد ١٠

عسر و حرج: ١، ٤

علم: اسكے اثرات ١٢

عمل: عمل صالح كا پيش خيمہ ١٢

فقہى قاعدہ : ١

فقير: فقير كى ضرورت پورى كرنا ١٠، ١١، ١٤ ;فقير كے حقوق ٢

قرض: قرض كے احكام ١، ٤، ٥، ٦; قرض معاف كردينا ٧، ٨، ١٠، ١٢، ١٤

۳۳۴

وَاتَّقُواْ يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ (٢٨١)

اس دن سے ڈرو جب تم سب پلٹاكر الله كى بارگاہ ميں لے جائے جاؤ گے _ اس كے بعد ہر نفس كو اس كے كئے كا پورا پورا بدلہ ملے گا اور كسى پر كوئي ظلم نہيں كيا جائے گا _

١_ انسان كيلئے ضرورى ہے كہ قيامت ميں اپنے برے اعمال كے انجام سے ڈرے_و اتقوا يوما ترجعون فيه الى الله

٢_ برے لوگوں كيلئے قيامت بہت خوفناك اور وحشتناك منظر ہوگا_و اتقوا يوما ترجعون فيه الى الله

''يوماً''كو نكرہ كى صورت ميں لانا اس دن كى عظمت كى طرف اشارہ ہے_

٣_ قيامت، انسانوں كے خدا تعالى كى طرف لوٹنے كا دن ہے_و اتقوا يوما ترجعون فيه الى الله

٤_ انسانوں كى ا بتدا اور انتہا خدا وند متعال كى ذات اقدس ہے _ترجعون فيه الى الله

خدا وند متعال كا مبداء ہونا''رجع''كے معنى سے ثابت ہوتاہے كيونكہ رجع يعنى جہاں سے ابتداء كى وہيں لوٹنا_

٥_ قيامت، اپنے اعمال كا مكمل نتيجہ لينے كا دن ہے (جزا و سزا كا دن ہے)_ثم توفى كل نفس ما كسبت

''توفي''كا معنى ہے پورا پورا دريافت كرنا_

٦_ انسان كے دنياوى اعمال باقى رہيں گے اور ناقابل فنا ہيں _ثم توفى كل نفس ما كسبت

كيونكہ '' توفي'' كو خود اعمال كى طرف اسناد ديا گيا ہے نہ ان كى جزا و سزا كى طرف پس اعمال كا محفوظ رہنا ضرورى ہے تاكہ انہيں دريافت كيا جاسكے_

٧_ قيامت ميں خدا تعالى كى طرف لوٹنے كے بعد انسانوں كو اپنے اعمال كى مكمل جزا و سزا كا ملنا_

و اتقوا يوما ترجعون فيه الى الله ثم توفى كل نفس ما كسبت

بعض مفسرين كے نزديك كلمہ''ماكسبت'' كا مضاف حذف كيا گيا ہے يعنى اپنے اعمال كى جزا و سزا كو دريافت كريں گے نہ اپنے اعمال و كردار كو_

٨_ قيامت پر توجہ اور اس سے خوف انسان كو بُرے اعمال (جيسے سود وغيرہ) سے روكتا ہے اور نيك اعمال (جيسے انفاق، صدقہ وغيرہ) كى ترغيب دلاتا ہے_ياايها الذين آمنوا اتقوا الله و ذروا ما بقى من الربوا و ان تصدقوا خير و اتقوا يوماً ترجعون فيه الى الله

۳۳۵

٩_ قيامت كے دن كسى پر ظلم نہيں كيا جائے گا (نہ اس كے ثواب ميں كمى كى جائے گى اور نہ اس كے عذاب ميں اضافہ كيا جائے گا)_

توفى كل نفس ما كسبت و هم لايظلمون

انسان: انسان كا انجام ٤; انسان كى ابتدا ٤

انفاق: انفاق كى تشويق ٨

ايمان: آخرت پر ايمان كے عملى اثرات ٨

تحريك : تحريك كے عوامل ٨

جزا : اخروى جزا٥

خدا كى طرف لوٹنا ٣ ، ٧:

خوف: پسنديدہ خوف٨; خوف قيامت سے ٨ ;خوف كے اثرات٨

دورانديشي: دور انديشى كى اہميت ٨

سزا: اخروى سزا ٥

سودخوري: سود خورى كے موانع ٨

صدقہ: صدقہ كى تشويق ٨

علم: علم كے اثرات ٨

عمل: بد عملى كا انجام ١;عمل صالح كا پيش خيمہ ٨; عمل كا

باقى رہنا ٦;عمل كى پاداش ٥،٧

قيامت:

قيامت كى خصوصيت ٢، ٣، ٥، ٩ ; قيامت ميں ظلم ٩; قيامت ميں عدالت ٩

نافرماني:

نافرمانى كى سزا ٢

۳۳۶