تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں11%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86744 / ڈاؤنلوڈ: 3149
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

کیلئے خطرناک هے ، تو وه اسلام ناب محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس کے پیروی کرنے والے هیں ۔ اسی لئے باطل طاقتیں اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ ، اسلام ناب محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علمبردار یعنی خمینی بت شکن  اور ان کے انقلاب کو سرکوب کرنے پر اتر آئے ، لیکن الله تعالیٰ نے ان کو ذلیل و خوار کیا اور اسلامی جمهوریہ ایران کی ایک فٹ زمین بھی چھین نه سکے، جبکه صدام نے مغرورانه انداز ميں کها تھا که ايک هفتے کے اندر اندر تهران ميں وارد هونگے اور ظهرانه تهران ميں جشن مناتے هوئے کھائيں گے ۔

آج پوری دنیا میں اگر اسلام کا کوئی وقار اور عزت نظر آتی هے تو انقلاب اسلامی کی وجه سے هے ۔

آئیں؛ اس انقلاب سے بھی نزدیکتر دیکھتے هیں که مکتب اهل بیتعليهم‌السلام کے پیروکاروں نے کس طرح حقیقی اسلام کے دشمنوں کے ساتھ بهادرانه طور پر مقابله

۲۸۱

کیا اور دشمن کے سارے غرور کو خاک میں ملاتے هوئے ، شکست دی ؟! میرا مقصد ؛ شیعیان لبنان (حزب الله اور ان کے عظیم لیڈر ، سید حسن نصرالله ) هیں ۔ جو کردار ،خمینی بت شکن  نے امریکا اور اسرائیل کے مقابلے میں دنیا کے مستضعفوں کی حاکمیت قائم کرنے میں ادا کیا ، وهی کردار سید حسن نصرالله نے جنایت کار اور خون خوار اسرائیل کے ساتھ ادا کیا ۔

مناسب هے که اس بارے میں کچھ تفصیل بیان کروں ،تاکه دنیا کے انصاف پسند لوگوں کو یه معلوم هو سکے که تقیه کے دائرے کو توڑ کر دشمن کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابله کرنے والا کون تھا ؟!

رهبر انقلاب اسلامي حضرت امام خميني  نے ایک تحقير آميز انداز میں اسرائیل کی حیثیت کو دنیا کے سامنے واضح کرتے هوئے فرمایا تھا : که اگر دنیا کے سارے مسلمان متحد هوکر ایک ایک گلاس پانی پھینکیں تو اسرائیل اس صفحہ هستی

۲۸۲

سے مٹ جائے گا ۔ دنیا کے بهت سارے دانشمندوں اور روشن فکروں نے اس بات کا مزاق اڑایا تھا ، لیکن حزب الله لبنان کی تجربات اور مهارت نے یه بات دنیا کے اوپر واضح کردی که اسرائیل کی حکومت هزاروں ایٹمی میزائیلوں اور بموں اور جدید ترین هتھیاروں کے رکھنے کے باوجود بھی ایک باایمان اور مختصر گروه کے سامنے بے بس هوکر اپنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور هوگیا ۔اور شیشے کے درودیوار والے محل اور بنگلوں میں رهنے والے چھوٹے چھوٹے فلسطینی بچوں کے غلیل کی زد میں آکر پریشان اور بیچین نظر آنےلگے۔

آج پوری دنیا میں خمینی بت شکن کے افکار اور نظریات پھیل چکے هیں ؛ جس کا مصداق اور نمونه اتم ، سید حسن نصر الله اور حزب الله لبنان کی شکل میں نظرآتا هے ۔اور آپ کے اس فرمان کی ترجمانی کرتے هوئے سید حسن نصرالله نے کها:والله انّ هي( اسرائيل) اوهن من بيت العنكبوت ؛ خدا کی قسم یه اسرائیل مکڑی کی جال سے بھی زیاده نازک اور کمزور هے ۔ یه کهه کر امام خمینی کے اس

۲۸۳

جملے( اسرائیل کو اس صفحه هستی سے مٹ جانا چاهئے ) کی صحیح ترجمانی کی ۔

هاں ! سید حسن نصر الله کیلئے یهی باعث فخر تھا که رهبر معظم و مرجع عالی قدر حضرت آیة الله العظمی سید علی خامنه ای حفظہ اللہ کے بازؤں کا بوسه لیتے هوئے ، دنیا پر واضح کررهے تھے که میں امام زمان (عج) کے نائب برحق کےشاگردوں میں سے ایک ادنیٰ شاگرد هوں۔ اس مرد مجاهد نے لبنان کے سارے بسنے والوں کو ؛ خواه وه مسلمان هویا غیر مسلمان ، شهادت طلبی کا ایسا درس دیا که سارے مرد ،عورت ، چھوٹے بڑوں نے ان کی باتوں پر لبیک کهه کرکلمه لاالٰه الا الله کی سربلندی کے لئے شهادت کی موت کو خوشی سے گلے لگایا ۔ یهی حزب الله کی جیت کی اصل وجه تھی ۔اور یه ثابت کردیا که مکتب اهل بیت کے ماننے والے هی رهبری کے لائق هیں ۔

آج پوری دنیا نے یه محسوس کرلیا هے ، خصوصاً جوانوں نے ، که حزب

۲۸۴

الله ، شیعه هے ، اور ان کی مکتب حقه کا زیاده سے زیاده مطالعه کرنے لگے هیں ، جس کا نتیجه یه نکلا هے که حقیقی اسلام کی شناخت کیلئے دروازه کھل گیا هے ۔

نيو يورك ٹائمز لکھتا هے که : سيد حسن نصر الله نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کرکے اپنی اور اپنی ٹیم کی شخصيت اور وقار کو حد سے زیاده بلند و بالا کیا هے ۔ اور جو چیز صفحه تاریخ سے مٹادینے کے قابل هے، وه مصر کا صدر جمال عبد الناصر کا یهودیوں کو سمندر میں پھینک دینے کا خالی اور کھوکھلا دعویٰ اور صدام کا آدھا اسرائیل کو جلانے کا جھوٹا دعویٰ تھا ؛ ان دنوں صدام کے بڑے بڑے پوسٹرز پاکستان کے مختلف شهروں کی سڑکوں پر بکنے لگے ۔ اور صدام کو صلاح الدین ایوبی کا لقب دینے لگے ۔لیکن اس نے اسرائیل کے اوپر حمله کرنے کی بجائے کویت پر حمله کر کے مسلمانوں کا مال اور خزانه لوٹ کر سب سے بڑا ڈاکو بن گیا ۔

لیکن ان کے مقابلے میں دیکھ لو که سيد حسن نصر الله، ایک عالم دین

۲۸۵

کے لباس میں محاذ جنگ پر ایک فوجی جرنیل کا کردار ادا کرتے هوئے اپنی ٹیم کا کمانڈ کرتے هوئے نظر آتےهیں ۔

نيو يورك ٹائمز مزید لکھتا هے که : وه مشرق وسطي کاسب سے بڑا قدرت مند انسان هے ۔یه بات عرب ممالک کے کسی ایک وزیر اعظم کے مشیر نے اس وقت کهی که جب سيد حسن نصرالله ٹی وی پر خطاب کررهے تھے ۔پھر وه مشیرایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہتا هے کہ وہ جو وعدہ کرتے ہیں وہ اسے ضرور پورا کرتے هیں ۔

خود اسرائیل کے ذرائع ابلاغ نے اعلان کردیا تھا که ۳۳ روزه جنگ میں ۱۲۰ اسرائیلی فوج کو قتل اور ۴۰۰ کوشدید زخمی کردئیے ہیں، جن میں سے بھی اکثر مرنے کے قریب ہیں۔اسی طرح ۵۰ یهودی دیہاتی بھی حزب الله کے میزائلوں کی زد میں آکر مرے ہیں، اور ۲۵۰۰ افراد زخمی ہوگئے ہیں ۔حز ب الله نے یه کر

۲۸۶

دکھایا که اس مختصر مدت میں ۱۲۰ میر کاوا ٹینک ، ۳۰ زرهی ، ۲ آپاچی هیلی کوپٹرز کو منهدم کردیا ۔

غربی سیاستمداروں ، وایٹ هاوس کے حکمران لوگ ، شروع میں حزب الله کی اس مقاومت اور مقابلے کو بهت هی ناچیز اور کم سمجھ رهے تھے ،اور ان کا یه تصور تھا که ایک هفتے کے اندر اندر حزب الله پسپا هوجائے گا ، اور اسرائیل کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور هوجائے گا ۔یهی وجه تھی که پهلے دو هفتے تک تو نه اقوام متحده کی جانب سے اعتراض هوا اور نه وائٹ هاؤس کی جانب سے ،اور نه کوئی سازمان كانفرنس اسلامي عرب لیگ کی جانب سے ، نه اس جنگ کو روکنے کی بات هوئی ؛ صرف یه لوگ تماشا دیکھتے رهے ، اس سے بڑھ کر تعجب کی بات یه تھي که ایک دفعه بھی اسرائیل کی ان جنایات اور غانا میں بچوں اور عورتوں کے قتل عام کرنے پر ، ایک احتجاجی جلسه بھی عرب لیگ میں منعقد نهیں هوا !!

۲۸۷

جب امریکه کی وزیر خارجه مس کونڈولارائس سے جنگ بندی کیلئے تلاش کرنے کی اپیل کی؛ تاکه لبنان خون خرابه میں تبدیل نه هو ؛ تو اس نے بڑی نزاکت کے ساتھ کها تھا :کوئی بات نهیں ، بچه جننے کیلئے اس کی ماں کو درد زه برداشت کرنا پڑتا هے ، اسی طرح هم اس کره زمین پر ایک جدید مشرق وسطی کے وجود میں لانے کیلئے کوشاں هیں ، جس کا وجود میں آنے کیلئے کوئی ایک ملک جیسے(لبنان) خون خرابه میں تبدیل هوجائے تو ہونے دو کیونکہ یه ایک طبیعی چيز هے !!

اس بیان کے جواب میں سید حسن نصراللہ نے مناسب اور منه توڑ جواب دیتے هوئے کها : هم بھی اس ناجائز طریقے سے وجود میں آنے والے بچے کو دنیا میں قدم رکھتے هی گلا دبا کر ماردیں گے ۔

تیسرے هفتے میں دهیمے دهیمے الفاظ میں بعض ممالک کے رهنماؤں اور سیاسی لیڈروں کے منه کھلنے لگے ۔اقوام متحده کے اٹارنی جرنیل ، جیسے طولانی خواب سے بیدار هوا هو، سمجھنے لگا که لبنان میں کوئی معمولی حادثه رونما هوا هے ۔

۲۸۸

تیسرے هفتے کے آخر میں جب حزب الله ، اسرائیل کے چار بحری کشتیوں کو منهدم کرنے میں کامیاب هوئے ، اور اسرائیل اپنے کسی بھی ایک هدف کو پهنچ نهیں پایا ؛ تو امریکه ؛ جو کسی بھی صورت میں شورائے امنیت کا جلسه تشکیل دینے کیلئے حاضر نه تھا ، ایک دم وه جنگ بندی کرنے کی خاطر اتفاق رأئے کے ساتھ شق نمبر ۱۷۰۱ کے مطابق ، میدان میں اتر آیا ؛ کیونکه اسرائیل نے امریکه اور دوسرے ممالک کی طرف سے دئے هوئے تمام تر جدید میزائل ، بمب اور دوسرے سنگین اسلحے سے لیس هونے کے باوجود ؛ حزب الله کے سامنے اپنے گٹھنے ٹیک دیے تھے، اور مزید سیاسی امداد کیلئے هاتھ پھیلا رها تھا ۔ اس ضرورت کو امریکه ، قطعنامه کے ذریعے جبران کرنا چاهتا تھا ۔

مکتب اهل بیت کے ماننے والوں کے یه سارے انقلابات ، شیعوں کی شجاعت ، دلیری اور بهادری کو ثابت کرتےهیں ۔اور یه سارے انقلابات ، اپنی ذاتی مفاد

۲۸۹

کی خاطر نهیں تھے ، بلکه الله تعالی کے ارادے کو حاکم بنانا اور ظلم و ستم کو ختم کرنا مقصود تھا ۔

لیکن افسوس کے ساتھ کهنا پڑتا هےکه بعض مسلم ممالک کے مفتی حضرات ؛ جیسے سعودی عرب کے مفتی بن جبرین ، اور مصر کے درباری ملا ، طنطاوی ، نے فتویٰ دیا تھا که حزب الله کی مدد کرنا، بلکہ ان کے لئےدعا کرنا بھی جائز نهیں هے اور حرام هے ؛ کیونکه وه لوگ شیعه هیں ۔ اسي طرح سعودی حکومت بھي اسرائیل کے جنگی طياروں کولبنان پر حمله کرنے کیلئے پیٹرول (فیول) دیتی رهی۔

اور جب مسلمانوں کی طرف سے یه لوگ دباؤ میں آئے تو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے هوئے اپنی قوم اور ملت کے سامنے معافی مانگنے پر مجبور هو گئے ۔ اور مفتی بن جبرین نے اپنے ویب سایٹ پر غلطی کا اعتراف کرتے هوئے معافی مانگ لی ، اور کها: جو کچھ مجھ سے پهلے نقل هوا هے وه میرا قدیم اور پرانا نظریه تھا ؛ ابھی میرا جدید نظریه یه هے که یه حزب الله ، وهی حزب الله هیں جس کا ذکر

۲۹۰

قرآن مجید میں آیا هے ۔اور هم انهیں دوست رکھتے هیں اور ان کیلئے دعا بھی کرتے هیں ۔اور طنطاوي نے بھی جب جامعة الازهر کے اساتذه نے ان کے اوپر اعتراض کئے تو ان کے سامنےکها: جو کچھ میں نے پهلے بتايا تھا وه میرا اپنا ذاتی نظریه نهیں تھا بلکه حکومت کی طرف سے کهلوایا تھا ۔ اور میرا ذاتی نظریه ان کے بارے میں یه هے که حزب الله کے مجاهدین، اس وقت اسلام ، مسلمین اور عرب امت کی عزت اور کرامت کے لئے اسرائیل کے ساتھ لڑ رهے هیں ،لهذا ان کی حمایت کرنا ضروری هے ۔

آج کے دور میں سارے عرب ممالک میں محبوب ترین اسلامی شخصیت ، سید حسن نصرالله کو ٹھہرایا جاتا هے ۔ اور هر بچه ، جو پیداهوتا هے ؛ اس کا نام حسن نصرالله رکھ رهے هیں ۔ یه بهت دلچسپ بات تھی که اس سال جب ماه رمضان المبارک کا مهینه آیا اور لوگ روزه رکھنے لگے ؛ مصر میں بهترین اور اعلیٰ درجے کے خرما یا کھجور کا نام حسن نصرالله رکھا گیا ؛تا که روزه دار، افطاری کے وقت حسن

۲۹۱

نصرالله کو دعائیں دیں اور خراب کھجور کا نام بش اور بلر رکھا گیا۔

یه وه تاریخی حقائق هیں ، جن سے کوئی بھی اهل انصاف انکار نهیں کرسکتا ۔ اور ان حقیقتوں سے لوگ جب آشنا هوجاتے هیں تو خود بخود مذهب حقه کی طرف مائل هوجاتے هیں ، بشرطیکه درباری ملاؤں کی طرف سے مسلمانوں کوکوئی رکاوٹ درپيش نه هو۔

اب هم ان سے سوال کرتے هیں که آپ کوئی ایک نمونه پیش کریں جو آپ کے کسی سیاسی یا مذهبی رهنما نے ایسا کوئی انقلاب برپا کیا هو ، اور اپنی شجاعت کا ثبوت دیا هو، تاکه هم بھی ان کی پیروی کریں !اور همیں یقین هے که وه لوگ نه اسلام سے پهلے اور نه اسلام کے بعد ، کوئی ایسی جوان مردی نهیں دکھا سکتے ۔ کیونکه انهیں اپنی جوان مردی دکھانے کی ضرورت هی نهیں پڑی ؛ جو همیشه ظالم و جابر حکمرانوں کے کوڑوں اور تلواروں سے محفوظ رهے هیں ۔کیونکه وه لوگ همیشه

۲۹۲

حاکموں کے هم پیاله بنتے رهے هیں اوران کی هرقسم کے ظلم وستم کی تائید کرتے رهے هیں ۔ جس کی وجه سے تقیه کا موضوع هی منتفی هوجاتا هے ۔

اگر شیعه علما بھی ان کی طرح حکومت وقت کی حمایت کرتے اور ان کے هاں میں هاں ملاتے رهتے تو ان کو بھی کبھی تقيه کی ضرورت پیش نه آتی ۔بلکه ان کیلئے تقیه جائز بھی نه هوتا ، کیونکه تقیه جان اور مکتب کی حفاظت کی خاطر کیا جاتا هے ، اور جب ان کی طرف سے جان اور مال کی حفاظت کی گارنٹی مل جاتی تو تقیه کرنے کی ضرورت هی نهیں رهتی ۔

۷۔تقيه كافروں سے کیا جاتا هے نه کہ مسلمانوں سے

اشكال کرتے هیں که تقیه کافروں سے کیا جاتا هے نه کہ مسلمانوں سے ۔ کیونکه قرآن مجید میں تقیه کا حکم کافروں سے کرنے کا هے نه کہ مسلمانوں سے ۔ چنانچه

۲۹۳

فرمایا:

( لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّهِ فِي شَيْءٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّهِ الْمَصِيرُ ) ۔(۱)

خبردار صاحبانِ ایمان !مؤمنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ اور یه تقیه ابتدائے اسلام میں تھا ، لیکن شیعه حضرات ، اهل حدیث سے تقیه کرتے هیں ۔

پهلاجواب:

یه شيعيان حيدر كرار کی مظلوميت تھی که جو مسلمانوں سے بھی تقیه کرنے اور اپنا عقیده چھپانے پر مجبور هوگئے ۔ اور یه نام نهاد

____________________

۱۔ سوره مباركه آلعمران/۲۸۔

۲۹۴

مسلمانوں کیلئے لمحه فکریه هے که وه اپنے اعمال اور کردار اور عقیدے پر نظر ثانی کریں ۔ جو کافروں والا کام اوربرتاؤ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ کرتا هو ، کیونکه اگر تقیه کرنے کی وجه اور علت کو دیکھا جائے تو معلوم هوجاتا هے که نتیجه یہی نکلتا هے ، اور وه دشمن کی شر سے دین، جان اور مال کی حفاظت کرنا هے

دوسرا جواب:

ظاهر آيه اس بات پر لالت کرتی هے که تقیه ان کافروں سے کرنا جائز هے جو تعداد یا طاقت کے لحاظ سے مسلمانوں سے زیاده قوی هوں ۔

لیکن شافعی مذهب کے مطابق اسلامی مختلف مکاتب فکر سے تقیه کرنا جائز هے ۔ کیونکه شافعی کے نزدیک مجوز تقیه ، خطر هے ، خواه یه خطر کافروں سے هو یا مسلمانوں سے هو ؛ فخر رازی آیۃ شریفہ

( لا ان تتقوا منهم تقاة )

کی تفسیرمیں لکھتا ہے کہ تقیہ کافروں کے مقابلے میں مباح ہے

۲۹۵

(الا ان مذهب الشافعی ان الحالة بین المسلمین اذا شاکلت الحالة بین المشرکین حلت التقیه محاماة علی النفس(۱)

اسی طرح تفسیر نیشاپوری کہ جو تفسیر طبری کا حاشیہ ہے لکھتا ہے :

(قال الامام الشافعی:تجوز التقیة بین المسلمین کما تجوز بین الکافرین محاماة عن النفس(۲)

شیعه مسلمانوں کے هاتھوں بهت سی سختیوں اور مشکلات کو تحمل کرنے پر مجبور هوئے هیں ۔ اور یه مظلومیت ،شهادت علي ابن ابي طالبعليه‌السلام کے بعد سے شروع هوئی ۔ان دوران میں بنی امیه کے کارندوں نے شیعه مردوں عورتوں ، چھوٹے بڑوں ، حتی کہ شیعوں کے کھیتوں اور حیوانات پر بھی رحم نهیں کيا ۔آخر کار انهیں بھی آگ لگادی گئي۔

جب معاویه اريكه قدرت پر بیٹھا تو شيعيان عليعليه‌السلام کو سخت سے

____________________

۱۔ فخر رازی؛ تفسیر کبیر،ج۸،ص۱۳۔

۲۔ تفسیر نیشاپوری(حاشیہ تفسیر الطبری)،ج۳،ص۱۱۸۔

۲۹۶

سخت قسم کی اذیتیں پهنچانا شروع کیں۔ اور ان کی زندگی تنگ کردی ۔اور اس نے اپنےایک کارندے کو خط لکھا : کہ میں علی اور اولاد علی کے فضائل بیان کرنے والوں سے اپنی ذمه بری کرتا هوں ، یعنی انهیں نابود کرتا ہوں۔

یهی خط تھا که جس کی وجه سے ان کی نماز جماعت اور جمعہ کے خطیبوں نے علی پر ممبروں سے لعن طعن کرتے هوئے ان سے اظهار برائت کرنے لگے ، یه دور،کوفه والوں پر بهت سخت گزرا، کیونکه اکثر کوفه والے علی کے ماننے والے تھے ۔ معاویه نے زیاد بن سمیه کو کوفه اور بصره کی حکومت سپرد کی ، یه ملعون شیعوں کو خوب جانتا تھا ، ایک ایک کرکے انهیں شهیدکرنا ، هاتھ پیر ، کان اور زبان کاٹنا ، آنکھیں نکالنا اور شهر بدر کرنا شروع کیا ۔

اس کے بعد ایک اور خط مختلف علاقوں میں بانٹنا شروع کیا ؛ جس میں اپنے کارندوں اور حکومت والوں کو حکم دیا گياکه شیعوں کی کوئی گواهی قبول نه کریں ۔

۲۹۷

سب سے زیاده دشواری اور سختی عراق ، خصوصاً کوفه والوں پر کی جاتی تھی ؛ کیونکه وه لوگ اکثر شیعیان علی ابن ابی طالبعليه‌السلام تھے ۔اگر یه لوگ کسی معتبر شخص کے گھر چلےجاتے تو ان کے غلاموں اور کنیزوں سے بھی احتیاط سے کام لینا پڑتا تھا ؛ کیونکه ان کے اوپر اعتماد نهیں کرسکتے تھے ۔اور انهیں قسم دلاتے تھے که ان اسرار کو فاش نهیں کریں گے ۔ اور یه حالت امام حسن مجتبیٰ کے دور تک باقی رهی ، امام مجتبیٰ کی شهادت کے بعد امام حسینعليه‌السلام پر زندگی اور تنگ کردی۔

عبدالملك مروان کی حکومت شروع هوتے اور حجاج بن يوسف کے بر سر اقتدار آتے هی ، دشمنان امير المؤمنينعليه‌السلام هر جگه پھیل گئے اور علی کے دشمنوں کی شأن میں جعلی احادیث تحریرکرنے ، اور علیعليه‌السلام کی شأن میں گستاخی کرنے لگے۔اور یه جسارت اس قدر عروج پر تھی که عبدالملك بن قريب جو اصمعي کا دادا تھا ؛ عبدالملك سے مخاطب هوکر کهنے لگا : اے امیر ! میرے والدین نے مجھے عاق کردیا هے اور سزا کے طور پر میرا نام علی رکھا هے ۔ میرا کوئی مددگار نهیں ،

۲۹۸

سواے امیر وقت کے ۔ اس وقت حجاج بن یوسف هنسنے لگا اور کها: جس سے تو متوسل هوا هے ؛ اس کی وجه سے تمھیں فلاں جگه کی حکومت دونگا ۔(۱)

امام باقرعليه‌السلام شیعوں کی مظلومیت اور بنی امیه کے مظالم کے بارے میں فرماتے هیں : یه سختی اور شدت معاويه کے زمانے اور امام مجتبيعليه‌السلام کی شهادت کے بعد اس قدر تھی که همارے شیعوں کو کسی بھی بهانے شهید کیا جاتا تھا اور هاتھ پاؤں کاٹے جاتے اور جو بھی هماری محبت کا اظهار کرتا تھا ان سب کو قید کرلیا جاتا تھا اور ان کے اموال کو غارت کرتے تھے ۔ اور گھروں کو آگ لگاتے تھے ،یه دشواری اور سختی اس وقت تک باقی رهی که عبید الله جو امام حسینعليه‌السلام کا قاتل هے کے زمانے میں حجاج بن یوسف اقتدار پر آیا تو سب کو گرفتار کرکے مختلف تهمتیں لگا کر شهید کر دیا گیا ۔اور اگر کسی پر یه گمان پیدا هوجائے ، که شیعه هے ، تو اسے قتل کیا جاتا تھا ۔(۲)

____________________

۱ ۔ عباس موسوي؛ پاسخ و شبهاتي پيرامون مكتب تشيع،ص۸۶۔

۲ ۔ ابن ابي الحديد؛ شرح او، ج ۱۱ ص۴۴۔

۲۹۹

یه تو بنی امیه کا دور تھا اور بنی عباس کا دور تو اس سے بھی زیاده سخت دور اهل بیت ؑ کے ماننے والوں پر آیا ۔ چنانچه شاعر نے علیکے ماننے والوں کی زبانی یه آرزو کی هے ، که اے کاش ، بنی امیه کا دور واپس پلٹ آتا !:

فياليت جور بني مروان دام لنا و كان عدل بني العباس في النار

اےكاش ! بنی امیه کا ظلم و ستم ابھی تک باقی رهتا اور بنی عباس کا عدل و انصاف جهنم کی آگ میں جلتا۔

جب منصور سن ۱۵۸ ھ میں عازم حج هوا كه وه اس کی زندگی کا آخری سال تھا ؛ ریطه جو اپنے بھائی سفاح کی بیٹی اور اپنے بیٹے کی بیوی (بهو) تھی ، اسے اپنے پاس بلا کر سارے خزانے کی چابیاں اس کےحوالےکردیں اور اسے قسم دلائی که اس کے خزانے کو کسی کیلئے بھی نهیں کھولے گي۔اور کوئی ایک بھی اس کے راز سے باخبر نه هو،حتی کہ اس کا بیٹا محمد بھی ، لیکن جب اس کی موت کی خبر ملی تو محمد اور اس کی بیوی جا کر خزانے کا دروازه کھولا ، بهت هی وسیع اور عریض کمروں میں پهنچے ، جن میں علی کے ماننے والوں کی کھوپڑیاں اور جسم کے ٹکڑے اور

۳۰۰

لاشیں ملیں ۔اور هر ایک کے کانوں میں کوئی چیز لٹکی هوئی تھی که جس پر اس کا نام اور نسب مرقوم تھا ۔ ان ميں بچے ، نوجوان اوربوڑھے سب شامل تھے ۔الا لعنة الله علي القوم الظالمين !۔محمد نے جب یه منظر دیکھا تو وه مضطرب هو ا اور اس نے حکم دیا که ان تمام لاشوں کو گودال کھود کر اس میں دفن کیا جائے ۔(۱)

بنی عباس کے بادشاهوں نے علیعليه‌السلام کے فضائل بیان کرنےوالے شاعروں کی زبان کاٹی ، اور ان کو زنده درگور کیا اور جو پهلے مر چکے تھے ان کو قبروں سے نکال کرجسموں کو جلادیا ۔ ان سب کا صرف ايک هي جرم تھا ؛ اوروه محبت علی کے سوا کچھ اورنه تھا ۔

شيعيان آفريقا ،معاذ ابن باديس کے دور میں سنه ۴۰۷ ھ میں سب

____________________

۱۔ عباس موسوي؛ پاسخ و شبهاتي پيرامون مكتب تشيع،ص۸۷۔

۳۰۱

کو شهید کیاگیا اور حلب کے شیعوں کو بھی اسی طرح بے دردی سے شهید کیاگیا۔

اهل انصاف!خود بتائیں که ان تمام سختیوں ، قید وبند کی صعوبتوں اور قتل و غارت ،کے مقابلے میں اس مظلوم گروه نے اگر تقیه کر کے اپني جان بچانے کي کوشش کي ، تو کیا انهوں نے کوئی جرم کیا؟!!

اور یه بتائیں که کون سا گروه یا فرقه هے ؛ جس نے شیعوں کی طرح اتنی سختیوں کو برداشت کیا هو ؟!!

۳۰۲

خاتمه:جمع بندی اور نتیجہ گیری

اگرچہ مقدمہ میں اس کتاب کا نچوڑ بیان گیا ہے پھر بھی جمع بندی اور نتیجہ کے طور پر کچھ اختتامی کلمات بیان کرتے ہیں:یہ کتاب ایک مقدمہ اور چھ فصلوں پر مشتمل ہے:

پہلی فصل کلیات تقیہ ہے ،جس میں تقیہ کی تعریف،اقسام، آثار ،فوائد اور شرائط بیان کیا گیا ہے۔

دوسری فصل تاریخ تقیہ سے مربوط ہے ،جس میں اسلام سے پہلے [حضرت آدم ؑ سے لے کر اصحاب کہف تک ] اور اسلام کے بعد[حضرت ابوطالب ؑ سے لے کر آئمہ طاہرینؑ اور امام زمان ؑکے خاص نائبین تک کے ] مواردشامل ہیں۔

تیسری فصل میں مذاہب اہل سنت اور تقیہ سے مربوط واقعات بیان کئے گئے ہیں ،جن میں حضرت عمر سے لے کر امام مالک،امام شافعی،حنفی اور حنبلی تک اور پھر امام بخاری سے لے کر وہابی علمائے رجال تک بیان کیا گیا ہے۔

چوتھی فصل میں تقیہ کے جائز ہونے پر قرآن کریم اور سنت نبوی سے ،ساتھ ہی

۳۰۳

عقلی ،اور فطری دلائل بطور تفصیل بیان کیا گیا ہے۔

پانچویں فصل میں تقیہ کے حرام ہونے اور واجب ہونے کے موارد کو جدا گانہ ذکر کیا گیا ہے۔

چھٹی فصل جو اہم ترین فصل شمار ہوتی ہے جس میں ابن تیمیہ و امثال آن کی طرف سے کئے گئے اشکالات اور شبہات کو تین حصوں [الف:تشریع تقیہ ،امام معصوم اور شیعیان حیدر کرارؑ ]میں تقسیم کرکے ان کا مدلل جواب دیا گیاہے ۔ امید رب العزت ہے کہ یہ مطالب آپ اور میرے لئے مفید اور باعث ہدایت اور ثبات قدم ہو اور ساتھ ہی آپ سے یہ امید بھی رکھی جاتی ہے کہ اس میں جو بھی نقائص آپ کی نظر مبارک سے گزرے ، اس کی نشاندہی کرکے بندہ حقیر کی اصلاح فرمائیں گے۔اور مفید پیشنہادات سے نوازیں گے۔

اگر ایک جملہ میں ان بحثوں کا نچوڑ بیان کرنا چاہے تو یوں کہیں گے : کہ جو لوگ شیعوں پر تقیہ کا تہمت لگا کر مذمت کرتے ہیں وہ لوگ خود قابل مذمت ہیں جو دوسروں کو تقیہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

۳۰۴

اس کا فیصلہ اہل انصاف پر چھوڑتے ہیں کہ مذمت کے قابل ہم ہیں یا وہ لوگ۔

پهلے تحریرہواہےکه تقیه کهاں واجب هے؟ کهاں مستحب هے ؟ اور کهاں حرام هے؟اور کهاں مکروه و مباح ہے؟یهاں هم بطور خلاصه ان موارد کو بیان کریں گے تا که مکمل طور پر واضح هو سکے :

تقیه کا واجب هونا :

تقیه کرنا اس وقت واجب هوجاتا هے که جب بغیر کسی فائدے کے اپنی جان خطرے میں پڑجائے ۔

تقیه کا مباح هونا:

تقیه اس صورت میں مباح هوجاتا هے که اس کا ترک کرنا ایک قسم کا دفاع اور حق کی تقویت کا باعث هو۔ ایسے مواقع پر انسان فداکاری کرکے اپنی جان بھی دے سکتا هے ،اسی طرح اسے یه بھی حق حاصل هے که وه اپنے حق سے دست بردار هوکر اپنی جان بچائے ۔

۳۰۵

تقیه کا حرام هونا:

اس صورت میں تقیه کرنا حرام هوجاتا هے جب باطل کی ترویج، گمراهی کا سبب، اور ظلم وستم کی تقویت کا باعث بنتا هو۔ایسے موقعوں پر جان کی پروا نهیں کرنا چاهئے اور تقیه کو ترک کرنا چاهئے ۔اور هر قسم کی خطرات اور مشکلات کو تحمل کرنا چاهئے ۔

ان بیانات سے واضح هواہے که تقیه کی حقیقت کیا هے اور شیعوں کا عقلی اور منطقی نظریه سے بھی واقف هوجاتا هے ، اس ضمن میں اگر کوئی تقیه کی وجه سے ملامت اور مذامت کرنے کے لائق هے تو وه تقیه کرنے پر مجبور کرنے والے هيں ، که کیوں کہ آخر اپنی کم علمی کی وجه سے دوسرے مسلمانوں کی جان و مال کے درپے هوگئے هوں؟ او ر تقیه کرنے پر ان کو مجبور کرتے هوں؟!!پس وه لوگ خود قابل مذمت هیں ، نه یه لوگ۔کیونکه تاریخ کے اوراق یه بتاتے هیں که معاویه نے جب حكومت اسلامي کی باگ دوڑ مسلمانوں کی رضایت کے بغیر سنبھال لی تو اس کی خودخواهی اس قدر بڑھ گئی که جس طرح چاهے اور جو چاهے ، اسلامی

۳۰۶

احکام کے ساتھ کھیلتارہے ، اور کسی سے بھی خوف نهیں کھائے ، حتی کہ خدا سے بھی !! خصوصاً شیعیان علی ابن ابی طالبعليه‌السلام کا پیچھا کرتا تھا ، ان کو جهاں بھی ملتا ، قتل کیا کرتا تھا ، یهاں تک که اگر کسی پر یه شبهه پیدا هوجائے که یه شیعه هے تو اسے بھی نهیں چھوڑتا تھا ۔ بنی امیه اور بنی مروان نے بھی اسی راه کو انتخاب کیا اور ادامه رکھا ۔بنی عباس کی نوبت آئی تو انہوں نے بھی بنی امیہ کے مظالم اور جنایات کا نہ صرف تکرار کیا بلکہ ظلم وستم کا ایک اور باب کھولا ، جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

ایسے میں شیعہ تقیہ کرنے کے سوا کیا کچھ کر سکتے تھے؟یہی وجہ تھی کہ کبھی اپنا عقیدہ چھپاتے اور کبھی اپنے عقیدے کو ظاہر کرتے تھے۔جس طریقے سے حق اور حقیقت کا دفاع ہوسکتا تھا اور ضلالت اور گمراہی کو دور کرسکتے تھے۔ ایسے موارد میں شيعه اپنا عقيده نهيں چھپاتے تھے ، تاکه لوگوں پر حجت تمام هوجائے ۔اورحقانيت لوگوں پر مخفي نه ره جائے ۔اسي لئے هم ديکھتے هيں که

۳۰۷

هماري بهت ساري هستياں اپنے دور ميں تقيه کو کلي طور پر پس پشت ڈالتے هوئے اپني جانوں کو راه خدا ميں قربان کرتے، اور ظالموں کی قربان گاهوں اور پھانسي کے پھندوں تک جانے کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھنے لگے ۔

تاريخ کبھي بھي مجعذراء (شام کي ايک ديہات کانام هے) کے شهداء کو فراموش نهيں کرے گي۔يه لوگ چوده افرادتھے جو بزرگان شيعه تھے ، جن کا سربراه وهي صحابي رسول تھے جن کا زهد و تقوي اور عبادت کي وجه سےجسم نحيف هوچکے تھے۔اور وه کون تھے ؟ وه عظيم نامور حجر بن عدي کنديؓ تھے ، شام کو فتح کرنے والي فوج کے سپه سالاروں ميں سے تھے ۔

ليکن معاويه نے ان چوده افراد کو سخت اذيتيں دے کر شهيد کيا ۔ اور اس کے بعد کها: ميں نےجس جس کو بھي قتل کيا ، اس کي وجه جانتا هوں ؛سوائے حجر بن عديؓ کے ، که اس کا جرم کيا تھا ؟!

۳۰۸

ابن زياد بن ابيه جو بدکارعورت سميه کا بيٹا تھا ؛ شراب فروش ابي مريم کي گواهي کي بناپر معاويه نے اسے اپنا بھائي کهه کر اپنے باپ کي طرف منسوب کيا ؛ اسي زيادنے حکم ديا که رشيد حجريؓ کو عليعليه‌السلام کي محبت اور دوستي کے جرم ميں ، ان کے هاتھ پير اور زبان کاٹ دی جائے ۔اور درخت کی ٹهني کی سولي پر چڑھایا جائے۔

ابن زياد جو اسي زنازاده کا بيٹا تھا ، نے علي کے دوستدار ميثم تمارؓ کو مار پيٹ کے بعد اسے دونوں هاتھ اور دونوں پاؤں اور زبان کو کاٹ کر تين دن تک کچھور کے اس سوکھی ٹهني پر لٹکائے رکھا، جس کي جب سے مولا نے پيشن گوئي کي تھي اس وقت سے اس تنے کو پاني ديتا رها تھا ، اور تين دن بعد اسے بے دردي سے شهيدکيا گيا ۔(۱)

____________________

۱۔ شيعه مي پرسد، ص ۲۹۰۔

۳۰۹

اے اهل انصاف! اب خودبتائيں که ظلم و ستم کے ان تمام واقعات ميں کون زياده قابل مذمت هے ؟! کياوه گروه جسے تقيه کرنے اور اپناعقيده چھپانے پر مجبور کيا گيا هو يا وه گروه جو اپنے دوسرے مسلمانوں کو تقيه کرنے اور عقيده چھپانے پر مجبور کرتے هوں؟!دوسرے لفظوں ميں مظلوموں کا گروه قابل مذمت هے يا ظالوں کا گروه ؟!

هر عاقل اور باانصاف انسان کهے گا : يقيناً دوسرا گروه هي قابل مذمت هے۔

آقاي كاشف الغطاء  دوسروں کو تقيه کرنے پر مجبور کرنے والوں سے سوال کرتے هيں اور جواب ديتے هيں : کيا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابي عمر بن حمق خزاعي ؓاور عبد الرحمن ابن حسانبيؓ ، زياد کے هاتھوں« قس الناطف» ميں زنده درگورکئے جانے کو فراموش کرسکتے هيں؟!!

۳۱۰

کيا ميثم تمارؓ ، رشيد هجريؓ اور عبدالله بن يقطرؓجيسي هستيوں کو ابن زياده نے جس طرح بے دردي سے سولي پر چڑا کر شهيد کيا ؛ قابل فراموش هے؟!

ان جيسے اور سينکڑوں عليعليه‌السلام کے ماننے والے تاريخ ميں مليں گے جنهوں نے اپني پياري جانوں کو الله کي راه ميں قربان کرنے سے دريغ نهيں کيا ۔کيونکه يه لوگ جانتے تھے که تقيه کهاں استعمال کرنا هے اور کهاں ترک کرنا هے ۔يه لوگ بعض مواقع ميں تقيه کو اپنے آپ پر حرام سمجھتے تھے۔کيونکه اگر يه لوگ ان موارد ميں تقيه کرتے تو حق اور حقيقت بالکل ختم هوجاتی ۔

آقاي كاشف الغطاء  فرماتے هيں:ميں معاويه سے يهي پوچھوں گا که حجر بن عدي ؓکا کيا قصور تھا اور اس کا کيا جرم تھا ؟ سوائے عليعليه‌السلام کي محبت اور مودت کے ، جس سے اس کا دل لبريز تھا ۔اس نے تقيه کو کنار رکھتے

۳۱۱

هوئے بني اميه کا اسلام سے کوئي رابطه نه هونے کو لوگوں پر آشکار کرديا تھا۔ هاں اس کا اگر کوئي گناه تھا تو وه حق بات کا اظهار کرنا اپنے لئے سعادت سمجھتا تھا ۔ اور يهي اس کا مقدس اور اهم هدف تھا ، جس کي خاطر اپني جان کا نذرانه دينے سے دريغ نهيں کيا ۔(۱)

ابن اثير لکھتا هے که حجر بن عديؓ کے دو دوستوں کو پکڑ کرشام ميں معاويه کی طرف روانه کيا گيا ؛ معاويه نے ايک سے سوال کيا : عليعليه‌السلام کے بارے ميں کيا کهتے هو؟!

اس نے کها: وهي ، جو تو کهتا هے ۔

معاويه نے کها: ميں ان سے اور ان کے دين سے که جس کي وه

____________________

۱۔ اين است آئين ما، ص ۳۶۸۔

۳۱۲

پيروي کرتا هے، اور اس خدا سے که جس کي وه پرستش کرتا هے ، بيزار هوں ۔

وه شخص خاموش رها۔اس مجلس ميں موجود بعض لوگوں نے ان کي سفارش کي، اور معاويه نے بھي ان کي سفارش قبول کرلي ۔اور اسے آزاد کرديا ۔ ليکن اسے شهر بدر کرکے موصل کی طرف بھيجا گيا ۔

معاويه نے دوسرے سے سوال کيا :تم عليعليه‌السلام کے بارے ميں کيا کهتے هو؟

اس نے کها: مجھے چھوڑ دو ، نه پوچھو توبهتر هے ۔

معاويه نے کها: خدا کي قسم تمهيں جواب دئیے بغير نهيں چھوڑوں گا ۔

۳۱۳

اس مرد مجاهد نے کها: ميں گواهي ديتا هوں علي بن ابي طالبعليه‌السلام ان لوگوں ميں سے تھے جو الله تعالي کو بهت ياد کرتے تھے اور حق بات کي طرف لوگوں کو دعوت ديتے تھے ، عدل اور عدالت کے قيام کے لئے کوشان تھے،عليعليه‌السلام ان ميں سے تھے جو لوگوں کي دادو فرياد سنتے تھے ،۔۔۔ اس طرح وه فضائل عليعليه‌السلام بيان کرتے گئے اور لوگ انهيں داد ديتے گئے ۔يهاں تک که معاويه نے کها : تو نے اپنےآپ کو هلاکت ميں ڈالا ہے۔

اس محب عليعليه‌السلام نے کها:بلکه ميں نے تجھے بھي هلاک کيا، يعني لوگوں کے سامنے تجھے بھي ذليل و خوارکيا۔

معاويه نے حکم ديا که اس شخص کو زياد بن ابيه کے پاس واپس بھيج دو، تاکه وه اسے بدترين حالت ميں قتل کردے !

زياد بن ابيه ملعون نے بھي اس محب عليعليه‌السلام کو زنده درگور کيا ۔

۳۱۴

اگر يه لوگ تقيه کرتےتو لوگوں تک عليعليه‌السلام کے فضائل نه پهنچتے ، اور دين اسلام معاويه ، يزيداور ابن زياد والا دين بن کر ره جاتا۔يعني ايسا دين ؛ جو هر قسم کے رزائل ( جيسے مکرو فريب ، خيانت ومنافقت،ظلم و بربريت ،۔۔۔) کا منبع هوتا ۔اور يه دين کهاں اور وه دين جو تمام فضليتوں کامنبع هے، جسے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لايا اسےعليعليه‌السلام اور اولاد علي  نے بچايا اور ان کے دوستوں نے قيامت تک کيلئے حفاظت کي ؛ کهاں؟!!!

هاں يه لوگ راه حق اور فضيلت ميں شهيد هونے والے هيں ۔ جن ميں سے ايک گروه شهدائے طف هے ، جس کا سپه سالار حسين  هيں ، جنهوں نے کبھي بھي ظلم وستم کو برداشت نهيں کيا ، بلکه ظالموں کے مقابلے ميں بڑي شجاعت اور شهامت کے ساتھ جنگ کي ، اور تقيه کو اپنے اوپر حرام قرار ديا ۔

۳۱۵

اب ان کے مقابلے ميں بعض عليعليه‌السلام کے ماننے والے تقيه کرنے پر مجبور تھے ، کيونکه شرائط،اوضاع واحوال اور محيط فرق کرتا تھا۔بعض جگهوں پرمباح ، يا جائز سمجھتے تھے اور بعض جگهوں پر واجب يا حرام يا مکروه۔

اب هم مسلمانوں سےيهي کهيں گے که آپ لوگ دوسرے مسلمانوں کو تقيه کرنے پر مجبور کرتے هو اور پھر کهتے هو که شيعه تقيه کيوں کرتے هيں ؟آپ کوئي ايسا کام نه کريں ، که دوسرے مسلمان تقيه کرنے پر مجبور هوجائيں ۔

ان لوگوں کو کيا غم ؟!

چاليس هجري سے ليکر اب تک شيعه اور ان کے اماموں نے رنج و الم، اذيت اورآزارميں زندگي بسرکی۔کسي نے زندگي کا بيشتر حصه

۳۱۶

قيد خانوں ميں گزارا ، کسي کو تيروں اور تلواروں سے شهيد کيا گيا، تو کسي کو زهر ديکر شهيد کيا گيا ۔ان مظالم کي وجه سے تقيه کرنے پر بھي مجبور هوجاتےتھے۔

ليکن دوسرے لوگ معاويه کي برکت سے سلسله بني اميه کے طويل و عريض دسترخوان پر لطف اندوز هوتے تھے ، اس کے علاوه مسلمانوں کے بيت المال ميں سے جوائز اور انعامات سے بھي مالامال هوتے تھے ،اور بني عباس کے دور ميں بھي يه برکتوں والا دسترخوان ان کيلئے بچھا رهتا تھا ۔يهي وجه تھي که ان نام نهاد اور ظالم وجابر لوگوں کو بھي اولي الامر اور واجب الاطاعة سمجھتے تھے ۔اس طرح يزيد پليد ، وليد ملعون اور حجاج خونخوار کو بھي خلفائے راشدين ميں شامل کرتے تھے ۔

خدايا !ان کی عقل کو کیا ہوگیا ہے ؟ یہ لوگ دوست کوبھی رضی اللہ اور

۳۱۷

دشمن کو بھی رضی اللہ۔ علیعليه‌السلام کوبھی خلیفہ اور معاویہ کوبھی خلیفہ مانتے ہیں، جب کہ ان دونوں میں سے صرف ایک برحق ہوسکتا ہے ۔ اگر کہیں کہ ان کے درمیان سیاسی اختلاف تھا ؛ تو سب سے زیادہ جوطولانی جنگ مسلمانوں کے درمیان ہوئی ،وہ جنگ صفین ہے ، جس میں سینکڑون مسلمان مارے گئے۔ اور جہاں مسلمانوں کاقتل عام ہورہاہو؛ اسے معمولی یا سیاسی اختلاف سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔

اسی طرح یزید کو بھی رضی اللہ عنہ اور حسین کو بھی رضی اللہ عنہ ، عمر بن عبدالعزیز کو بھی رضی اللہ عنہ اور متوکل عباسی اور معتصم کو بھی رضی اللہ عنہ؟ یعنی دونوں طرف کو واجب الاطاعۃ سمجھتے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف اور قانون ہے ؟ اور کون سا عاقلانہ کام ہے ؟

سؤال يه هے که کيا يه لوگ بھي کوئي رنج و الم ديکھيں گے ؟!

۳۱۸

ليکن اس بارے ميں اماميه کا کيا عقيده هے؟ ذرا سن ليں : شيعه اسے اپنا امام اور خليفه رسول مانتے هيں جوالله اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کي جانب سے معين هوا هو ، نه لوگوں کے ووٹ سے۔اس سلسلے ميں بهت لمبي بحث هے ، جس کيلئے ايک نئي کتاب کي ضرورت هے ۔

خلاصه کلام يه هے که شيعه هر کس وناکس کو خليفه رسول نهيں مانتے؛ بلکه ايسے شخص کو خليفه رسول مانتے هيں ، جو خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کي طرح معصوم هو اور خود رسول پاک نے منتخب کیا ہو۔

هم کهتے هيں که ٹھيک هے هم تقيه کے قائل هيں ،ليکن هم پر اعتراض کرنے والے هميشه حاکم وقت کي چاپلوسي کرنے ميں مصروف رہے هيں۔اور آپ کوئي ايک مورد دکھائيں ، که جس ميں اپنا کوئي دینی رہنما نے ظالم و جابر حاکم کو نهي از منکر کرتے هوئے اسے ناراض کيا هو؟!

اس کے باوجود که آپ کے بهت سے علما ءجو درباري تھے ، جب بني اميه کا حاکم وليد ، بقول آپ کے،اميرالمؤمنين مستي اور نشے کي حالت

۳۱۹

ميں مسجد ميں نماز جماعت کراتا هے اور محراب عبادت کو شراب کي بدبو سے آلوده کرتا هے اور صبح کي نمازچار رکعت پڑھا تا هے ، جب لوگ کانافوسي کرنے لگتے هيں تو وه پيچھے مڑ کر کهتا هے : اگر رکعتیں کم هوئیں تو اور چار رکعت پڑھا دوں؟!کوئي بھي حالت تقيه سے نکل کر اسے روکنے يا نهي از منکر کرنے والا نهيں هوتا ! !

اگرعليعليه‌السلام کے هزاروں شيعوں کاخونخوارقاتل حجاج بن يوسف جو آپ کی نگاهوں ميں اولوالامر هے ، کے ساتھ گفتگو سننا چاهتے هو تومعلوم هوجائے گا که کن کن هستيوں نے اس ظالم و جابر کے ساتھ آنکھوں ميں آنکھيں ڈال کر باتیں کي ہیں ؟!

بڑے بڑے دانشمندوں جيسے شهيد اول محمد بن مکي عامليؓ ، کو پهلے تلوار سے شهيد کيا گيا ،پھر لاش کو سولي پر لٹکا رکھا ، پھر اسے دمشق کے قلعے ميں لے جاکرجلايا گيا! !

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336