تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں23%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86693 / ڈاؤنلوڈ: 3147
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دیتے هوئے بتوں کو اعلانیہ طور پر باطل قرارديتے تھے تو کفار قریش اس کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے ۔ اورجب کوئی اسلام قبول کر تا تھا اس پر ظلم وتشدد کیا کرتے تھے ۔چنانچہ بلال، عمار، ياسر و سميه () جیسے پاک دل اور ایمان سے سرشار افراد کو مختلف مواقع پر جان لیوا اذیت اور آزار پہنچا تے تھے اور ان کو دوبارہ کفر کی طرف بلاتے تھے ۔چنانچہ عمار اور ان کے ماں باپ کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی اور نازیبا الفاظ زبان پر لانے پر مجبور کیا گيا؛ تو جناب یاسر اور ان کی زوجہ ، یعنی حضرت عمار کے والدین نے یہ گوارا نہیں کیا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی کی جائے ۔ اسی جرم میں وہ دونوں اپنے بیٹے کے سامنے شہید کئے گئے ، لیکن عمار کی جب باری آئی تو اپنی جان بچانے کی خاطر کفار قریش کے ارادے کے مطابق پیغمبر کی شان میں گستاخی کی ۔ جس پر کفار نے انہیں آزاد کیا ۔جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں یہ شکایت پہنچی کہ عمار نے آپ کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ تو فرمایا : ایسا ممکن نہیں کہ عمار نے دوبار ہ کفر اختیار کیا ہو بلکہ وہ سر سے لیکر پاؤں تک ایمان سے لبریز اور اس کے گوشت و خون اور سراسر وجود میں ایمان کا نور رواں دواں ہے ۔اتنے میں عمار روتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کے چهرے

۲۱

سے آنسو صاف کئے اور فرمایا : جو کام تو نے انجام ديا هے ، قابل مذمت اور جرم نہیں ہے اگر دوبارہ کبھی ایسا موقع آجائے اور مشرکوں کے ہاتھوں گرفتار ہوجاؤ تو کوئی بات نہیں کہ تم ان کی مرضی کے مطابق انجام دو ۔پھر یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی ۔

جس سے معلوم ہوتا کہ دینی مقدسات کی شان میں گستاخی کرنے پر مجبور ہوجائیں تو کوئی بات نہیں ۔ آپ کو اختیار ہے کہ یا آپ تقیہ کرکے اپنی جان بچائیں یا جرٲت دکھاتے ہوئے جام شہادت نوش کریں ۔

ایک روايت منقول ہے کہ دو مسلمانوں کو مسیلمہ کے پاس لایا گیا جو نبوت کا دعوی ٰ کررہا تھا ۔مسیلمہ نے ایک سے پوچھا: محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟

اس نے کہا : آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔

مسیلمہ : میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟

مسلمان: آپ بھی اسی طرح ہیں ۔

پھردوسرے شخص کو لایا گیا ، اور اس سے بھی یہی سوال پوچھا گیا ، لیکن اس نے کچھ بھی

۲۲

نہیں کہا ۔تو اسے قتل کرنے کا حکم دیا گیا ۔

یہ خبر رسول خدا تک پہنچی ، فرمایا: پہلے شخص نے تقیہ پر عمل کیا اور دوسرے شخص نے حق کو آشکار اور بلند و بالا کیا ۔اورپہلے کے حق میں دعا کی اور دوسرے کے لئے فرمایا :اس کیلئے شہادت مبارک ہو ۔(۱)

يوسف بن عمران روايت کرتا ہے کہ ميثم تمارسے سنا ہے: امير المؤمنينعليه‌السلام نے مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا : اے میثم جب عبيد الله ابن زياد تمھیں میرے بارے میں گستاخی کرنے اور مجھ سے برائت کرنے کا حکم دے گا تو تم کیا کرو گے؟

میں نے کہا :يا امير المؤمنينعليه‌السلام خدا کی قسم! کبھی اظہار برائت نہیں کروں گا ۔

فرمایا:پھر تو تم مارےجاؤ گے ۔

میں نے کہا : میں صبر کروں گا ؛ کیونکہ راہ خدا میں جان دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔

فرمایا:اے میثم! تم اس عمل کی وجہ سے قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگے ۔

____________________

۱: تقيه در اسلام ، ص۱۰۔

۲۳

پس یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اگر کسی نے تقیہ کے موارد میں تقیہ نہیں کیا تو اس نے خودکشی کرلی هو ، بلکہ ایسے موارد میں انسان کو اختیار ہے کہ وہ شہادت کو اختیار کرے یا تقیہ کرکے اپنی جان بچائے تاکہ آئندہ آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اور اسلام کي زیادہ خدمت کرسکے ۔

۳ ۔تقيه كتمانيه

ضعف اور ناتوانی کے مواقع پر اپنا مذہب اور مذہب والوں کی حفاظت کرنا اور ان کی طاقت اور پاور کو محفوظ کرنا تاکہ بلند و بالا اہداف حاصل کرسکے ۔

اور یہاں تقيه كتمانيه سے مراد ہے دین مقدس اسلام اور مکتب اہل بیتعليهم‌السلام کی نشر واشاعت کی خاطر اپنی فعالیتوں کو مخفی اور پوشیدہ رکھنا ، تاکہ دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ قدرت مند ہو ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ہمارے دینی اور مذہبی رہنما حضرات اس طرح تقیہ

۲۴

کرنے کا حکم دیتے ہیں ؟

اس کا جواب یہی ہے کہ کیونکہ مکتب تشیع ایک ایسا مکتب ہے کہ حقيقي اسلام کو صرف اور صرف ان میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔شیعہ ابتدا ہی سے مظلوم واقع ہوئے ہیں کہ جب آئمہ طاہرینعليهم‌السلام تقیہ کرنے کا حکم دے رہے تھے اس وقت شیعہ انتہائی اقلیت میں تھے اور ظالم وجابر اور سفاک بادشاہوں اور سلاطین کی زد میں تھے ۔اگر شیعہ اپنے آداب و رسوم کو آشکار کرتے تو ہر قسم کی مشکلات ان کے سروں پر آجاتیں اور جان بھی چلی جاتی ۔اور کوئی شیعہ باقی نہ رہتا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ حقیقی اسلام باقی نہ رہتا ۔ یہی وجہ تھی کہ آئمہ اطهارعليهم‌السلام نے تقیہ کا حکم دیا ۔

تقيه كتمانيه پر دلیل :

۱ ـ:كِتَابُ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلَالِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيّاً ع يَقُولُ يَوْمَ قُتِلَ عُثْمَانُ قَالَ رَسُولُ اللهِ ص قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ التَّقِيَّةَ مِنْ دِينِ اللهِ وَ لَا دِينَ لِمَنْ لَا تَقِيَّةَ لَهُ وَ اللهِ لَوْ لَا التَّقِيَّةُ مَا عُبِدَ اللهُ فِي الْأَرْضِ فِي دَوْلَةِ إِبْلِيسَ فَقَالَ رَجُلٌ وَ مَا دَوْلَةُ إِبْلِيسَ فَقَالَ إِذَا وُلِّيَ إِمَامُ هُدًى فَهِيَ فِي دَوْلَةِ الْحَقِّ عَلَى إِبْلِيسَ وَ إِذَا وُلِّيَ إِمَامُ ضَلَالَةٍ فَهِيَ

۲۵

دَوْلَةُ إِبْلِيسَ ۔(۱)

راوی کہتا ہے :هم نے امير المؤمنينعليه‌السلام سےقتل عثمان کے دن فرماتے هوئےسنا :هم نے رسول خداسے تاکید کے ساتھ فرماتے هوئےسنا: تقیہ میرا دین ہے اور جو بھی تقیہ کا قائل نہیں ، اس کا کوئی دین نہیں ۔ اور اگر تقیہ کے قوانین پر عمل نہ ہوتا تو شیطان کی سلطنت میں روئے زمین پر خدا کی کوئی عبادت نہ ہوتی ۔ اس وقت کسی نے سوال کیا ، ابلیس کی سلطنت سے کیا مراد ہے ؟

فرمایا : اگر کوئی خدا کا ولی یا عادل امام لوگوں پر حکومت کرے تو وہ خدائی حکومت ہے ، اور اگرکوئی گمراہ اور فاسق شخص حکومت کرے تو وہ شیطان کی حکومت ہے ۔

اس روایت سے جو مطلب ہمیں حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس طاغوتی حکومت کے دوران صرف اپنے مذہب کو مخفی رکھنا اور خاموش رہنا صحیح نہیں ہے بلکہ اس میں بھی خدا تعالی کی عبادت و بندگی ہوتی رہے۔

اصحاب كهف کا عمل بھی اسی طرح کا تقیہ تھا ، اور حضرت ابوطالب کا تقیہ

____________________

۱: مستدرك‏الوسائل، ج ۱۲، ص۲۵۲ باب وجوب التقية مع الخوف ۔

۲۶

بھی اسی قسم کا تقیہ شمار ہوتا ہے ۔جسے ابتدائے اسلام میں انہوں نے اختیار کیا تھا ۔کہ اپنے دین کو کفار قریش سے مخفی رکھا ۔ اورخود کو کفار کا ہم مسلک ظاہر کرتے رہے تاکہ رسول گرامي اسلام کی حمايت اور حفاظت آسانی سے کرسکیں ۔اور مخفی طور پر دین مبین اسلام کی نشر واشاعت کرتے رہے ۔ چنانچہ آپ ہی کی روش اور تکنیک کی وجہ سے پیغمبر اسلامسے بہت سارے خطرات دور ہوتے رہے ۔

۴ ۔تقيه مداراتي يا تحبيبي

اهل سنت کےساتھ حسن معاشرت اور صلح آميز زندگي کرنے کی خاطر ان کی عبادي ا ور اجتماعي محفلوں اور مجلسوں میں جانا تاکہ وحدت پیدا ہو اور اسلام دشمن عناصر کے مقابلے میں اسلام اور مسلمین قدرت مند ہوں ۔

تقيه مداراتي

۱ ۔ مطلوبيت ذاتي رکھتا ہے = وجوب نفسي

۲ ۔ مطلوبيت غيري رکھتا ہے = وجوب غيري

۲۷

تقيه مداراتي کے شرعی جواز پر دلیلیں:

o امام سجاد نے صحيفه سجاديه میں مسلمانوں کیلئے دعائے خیر اور کفار کیلئے بددعا کرتے ہوئے فرمایا:خدايا اسلام اور مسلمين کودشمن اورآفات و بليات سے محفوظ فرما ، اور ان کے اموال کو با ثمر و منفعت اورپر بركت فرما۔ اور انہیں دشمن کے مقابلے میں زیادہ قدرت مند اور شان وشوکت اور نعمت عطا فرما ۔اور میدان جنگ میں انہیں کافروں پر فتح و نصرت عطا فرما ۔ اور اپنی عبادت اور بندگی کرنے کی مہلت اور فرصت عطا فرما تاکہ وہ تجھ سےتوبہ اور استغفار اور راز و نیاز کر سکیں خدایا ! مسلمانوں کو ہر طرف سے مشرکوں کے مقابلے میں عزت اور قدرت عطا فرما اور مشرکوں اور کافروں کوآپس میں جنگوں میں مشغول فرما ! تاکہ وہ مسلمانوں کے حدود اور دیار کی طرف دست درازی نہ کرسکیں ۔(۱)

____________________

۱: مستدرك‏الوسائل، ج ۱۲، باب وجوب التقية مع الخوف ، ص ۱۰۰۔

۲۸

o معاويه بن وهب کہتا ہے کہ میں نے امام صادقعليه‌السلام سے سوال کیا : کہ دوسرے مسلمانوں اور مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے ؟

امامعليه‌السلام نے فرمایا: ان کی امانتوں کو پلٹاؤ اور جب آپس میں کوئی نزاع پیدا ہو جائے اور حاکم شرع کے پاس پہنچ جائے تو حق دار کے حق میں گواہی دو اور ان کے بیماروں کی عیادت کیلئے جاؤ اور ان کے مرنے والوں کی تشییع جنازے میں شرکت کرو۔(۱)

امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

كونوا لمن انقطعتم ﺇليه زيناً ولا تكونوا علينا شيناً صلّوا في عشائرهم عودوا مرضاهم و اشهدوا جنائزهم ولا يسبقونكم الي شيئٍ من الخير فا نتم أولي به منهم والله ما عبدالله بشيئٍ أحبُّ اليه من الخباء قلت: و ما الخباء؟ قال: التقيه ۔(۲)

ایسے کاموں کے مرتکب ہونے سے پرہیز کرو جو ہمارے مخالفین کے سامنے سرزنش کا باعث بنے ، کیوں کہ لوگ باپ کو اس کے بیٹوں کے برے اعمال کی وجہ سے ملامت کرتے

____________________

۱: وسائل الشيعه،ج۱ ، كتاب حج،احكام عشرت۔

۲: وسائل الشيعه ،ج ۱۱،ص ۴۷۱۔

۲۹

ہیں ۔کوشش کرو کہ ہمارے لئے باعث زینت بنو نہ کہ باعث ذلت۔ اہل سنت کے مراکز میں نماز پڑھا کرو اور بیماروں کی عیادت کیا کرواور ان کے مردوں کے جنازے میں شرکت کیا کرو اور تمام اچھے کاموں میں ان پر سبقت لے جاؤ ، ان صورتوں میں اگر ضرورت پڑي تو محبت بڑھانے اور اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کیلئے اپنے عقائد کو چھپاؤ ۔ خدا کی قسم ایسے مواقع میں کتمان کرنا بہترین عبادت ہے ۔ راوی نے سوال کیا : یابن رسول اللہ ! کتمان سے کیا مراد ہے ؟ ! تو فرمایا: تقیہ ۔

یہ تقیہ مداراتی اور تحبیبی کے جواز پر کچھ دلائل تھے ۔ لیکن ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سارے مسلمان عقیدتی ، فکری اور سلیقائی اختلافات مکمل طور پر ختم کرکے صرف ایک ہی عقیدہ اور سلیقہ کے پابندہوجائیں ؟ !

اس سوال کا جواب بالکل منفی میں ملے گا۔ یہ ناممکن ہے ۔کیونکہ کوئی بھی قوم یا قبیلہ نہیں ملے گا جس میں سینکڑوں اختلافات اور نظریات نہ پائے جاتے ہوں۔ حتی خود دین اسلام میں کہ سارے اصول اور فروع دین توحید کی بنیاد پر قائم ہیں ، پھر بھی زمانے کے

۳۰

گزرنے کے ساتھ ساتھ اصلی راستے اور قاعدے سے منحرف ہوجاتے ہیں اور اختلافات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ پس ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟! اور راہ حل کیا ہے ؟! ایک طرف سے بغیر وحدت اور اتحاد کے کوئی کام معاشرے کے حوالے سے نہیں کرپاتے، دوسری طرف سے اس وحدت اور اتحاد کے حصول کیلئے سارے اختلافی عوامل کو پس پشت ڈالنا پڑتا ہے ۔

کیا ایسی صورت میں ہم بیٹھے رہیں اور اختلافات کے کیڑے مکوڑے معاشرے کے سعادت مند ستون کو اندر سے خالی کرتے کرتےسرنگوں کریں؟!یا کوئی راہ حل موجود ہے جس کے ذریعے سے ايک حد تک وحدت برقرار کرلیں ؟!

یہ وہ مقام ہے جہاں دور حاضر کے مفکرین اور دانشمندوں نے کئي فارمولے تیار کئے ہیں جن کے ذریعے ممکن ہے کہ یہ ہدف حاصل ہوجائے ، اور وہ فامولے درج ذیل ہیں:

۱ ۔ ہر معاشرے میں موجود تمام ادارے قوم پرستی، رنگ و زبان اور موقعیت ، مذہب میں فرق کئے بغیر اجتماعی حقوق کو بعنوان ”حقوق بشر“ رسمی مان لیں اور خود غرضی سے پرہیز کریں ۔

۳۱

۲ ۔ تمام ممالک کو چاہئے کہ معاشرے میں موجود تمام گروہوں کو اس طرح تعلیم دیں کہ اتحاد و اتفاق کی حفاظت کی خاطر اجتماعی منافع کو شخصی منافع پر مقدم رکھیں ۔ اور انہیں یہ سمجھائیں کہ اجتماع کی بقا میں افراد کی بقا ہے ۔

۳ ۔ ہر ایک شخص کو تعلیم دیں کہ دوسروں کے عقائد کا احترام کریں تاکہ معاشرے کیلئے کوئی مشکل ایجاد نہ ہو ۔اور ملک اور معاشرے کے بنیادی اصولوں اور قواعد و ضوابط کو ضرر نہ پہنچائيں ۔ اور ایک دوسرے کے احساسات اور عواطف کا احترا م کریں ۔

۴ ۔ ان کو سمجھائیں کہ دوسرے مکاتب فکر کے مختلف اور معقول آداب و رسوم میں شرکت کریں ۔ اس طرح ایک دوسرے کے درمیان محبت پیدا کریں۔

پس اگر ايك جامعه یامعاشرے میں ان قوانین اور اصولوں پر عمل درآمدهوجائے تو سارے اسلامی ممالک ایک پليٹ فارم پر جمع ہونگے اور ایک دوسرے کے درمیان محبت اور جذبہ ایثار پیدا هوگا۔ یہی وجہ تھی کہ آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اپنے گوہر بار كلمات میں اس بات کی طرف تشویق کرتے هوئے نظر آتے هيں۔

۳۲

مداراتی تقیہ کی ایک زندہ مثال یہ ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کیلئے مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں دوسروں کے ساتھ بغیر سجدہ گاہ کے قالین پر سجدہ کر سکتے ہیں ، یہ نماز صحیح ہے اگرچہ جانی یا مالی نقصان کا خدشہ بھی نہیں ہے۔(۱)

تقيه اور توريه میں موازنه

لغت میں توريه ؛وراء یا پيٹھ سے نکلا ہے جس کا مد مقابل امام یعنی (آگے ) سے لیا گیا ہے ۔اور اصطلاح میں کسی چیز کو چھپانے کو کہا جاتا ہے ۔

 تقيه اور توريه کے درمیان نسبت تباين پایاجا تا ہے ۔ کیونکہ توریہ لغت میں ستر(چھپانا) اور تقیہ صیانت اور حفاظت کو کہا جاتا ہے ۔

 توریہ میں شخص واقعیت کا ارادہ کرتا ہے لیکن تقیہ میں نہیں ۔

____________________

۱: مکارم شیرازی؛ شیعہ پاسخ می گوید،ص۴۵۔

۳۳

 توریہ میں مصلحت کو ملحوظ نظر نہیں رکھا جاتا لیکن تقیہ میں کئی مصلحتوں کو ملحوظ نظر رکھا جاتا ہے ۔

 لیکن مصداق کے لحاظ سے ان دونوں میں عموم و خصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے ۔ کہ ان دونوں کا مورد اجتماع یہ ہے کہ تقیہ کرنے والا تقیہ کے موارد میں اوراظہار کے موقع پر حق کے برخلاف ، توریہ سے استفادہ کرتا ہے کیونکہ خلاف کا اظہار کرنا ؛ حق کا ارادہ کرنے یا خلاف حق کا ارادہ کرنے سے ممکن ہے۔

 تقيه اور توريه میں افتراق کا ایک مورد ، تقيه كتماني ہے كه یہاں کوئی چیز بیان نہیں ہوئی ہے جو توریہ کا باعث بنے ۔

 ان دونوں میں افتراق کا ایک اور مورد یہ ہے کہ توریہ میں کوئی مصلحت لحاظ نہیں ہوئی ہے اور اگر کوئی مصلحت ملحوظ ہوئی ہے تو بھی ذاتی منافع ہے ۔

تقيه ، اكراه اور اضطرارکے درمیان تقابل

تقيه کے بعض موارد کو اكراه و اضطرار کے موارد میں منحصر سمجھاجاتاہے۔شيخ انصاري(ره) مكاسب میں اكراه کے بارےمیں یوں فرماتے ہیں :

۳۴

ثم ان حقيقة الاكراه لغة و عرفا حمل الغير علي ما يكرهه في وقوع الفعل من ذالك الحمل اقترانه بوعيد منه مظنون الترتب الغير علي ترك ذالك الفعل مضر بحال الفاعل او متعلقه نفسا او عرضا او مالا ۔(۱)

اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اکراہ کے وجود میں آنے کی تین شرائط ہیں:

۱. یہ مخالف کی طرف سے واقع ہوتا ہے ۔ پس جہاں اگر خود انسان جلب منفعت یا دفع ضرر کیلئے کوئي قدم اٹھائے تو وہ توریہ میں شامل نہیں ہے ۔

۲. اكراه یہ ہے کہ مستقيماکسی کام پر انسان کو مجبور کیا جائے نه بطور غير مستقيم۔

۳. تهديد اور وعيد کے ساتھ ہو کہ اگر انجام نہ دے تو اس کی جان ، مال، عزت آبرو خطرے میں پڑ جائے ۔

ان تین شرائط اور اولین آیہ شریفہ جو مشروعیت تقیہ کے بارے میں نازل ہوئی جس میں

عمار ابن یاسر ؒ کا قصہ بیان ہوا ہے ، سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض موارد میں تقیہ اور اکراہ میں مطابقت پائی جاتی ہے ۔ اور ان تین شرائط کے ذریعے حضرت عمارؒ کے تقیہ کرنے پر استدلال کیا جا سکتا ہے ۔اور تقیہ کی تعریف بھی اس پر منطبق ہوسکتی ہے ۔لیکن جہاں یہ تین شرائط صدق آئیں اور تقیہ صدق نہ کرے تو وہ اکراہ اور تقیہ کے افتراق کے موارد ہونگے ۔

____________________

۱: شيخ انصاري(ره) ،المكاسب،شروط متعا قد ين،ص۱۱۹۔

۳۵

تقيه کے آثارا ور فوائد

شہیدوں کے خون کی حفاظت

تقیہ کا بہترین فائدہ شہیدوں کے خون کی حفاظت ہے ۔یعنی پوری تاریخ میں شیعیان علیعليه‌السلام مظلوم واقع ہوتے رہے ہیں۔ جب بھی ظالموں کے مظالم کا نشانہ بنتےتھے تقیہ کرکے اپني جان بچاتےتھے۔

چنانچہ امام صادقعليه‌السلام فرماتے هيں: اے ہمارے شیعو! تم، لوگوں کے درمیان ایسے ہو جیسے پرندوں کے درمیان شہد کی مکھی ہے ۔ اگر پرندوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ شہد کی مکھی کے پیٹ میں شہد موجود ہے ، تو ساری شهد کي مکھیوں کو کھاجائیں اور ایک بھی زندہ نہیں چھوڑیں ؛ اسي طرح اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ تمہارے دلوں میں ہم اہل بیتعليهم‌السلام کی محبت موجود ہے تو تمھیں زخم زبان کے ذریعے کھا جائيں گے اور ہر وقت تمہاری غیبت اور بدگمانی میں مصروف رہيں گے ۔ خدا ان لوگوں پر اپنی رحمت نازل کرے جو ہماری ولایت کو

۳۶

مانتے ہيں۔(۱)

اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور تقویت

یہ تقیہ کا دوسرا فائدہ ہے کہ اہل بیتعليهم‌السلام ، اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور تقویت کیلئے زیادہ کوشش کرتے تھے ، تاکہ اسلامی معاشرہ ایک واحد اور قدرت مند معاشرہ بنے ، اور اسلام دشمن عناصر کبھی بھی اس معاشرے پر آنکھ اٹھانے کی جرأت نہ کرسکيں ۔

اس عظیم مقصد کے حصول کی خاطر آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اپنے چاہنے والوں کو سخت تاکید فرماتے تھے ۔جيسا که حديث ميں آيا هے:

قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مِهْرَانَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع وَ عِنْدَهُ نَفَرٌ مِنَ الشِّيعَةِ فَسَمِعْتُهُ وَ هُوَ يَقُولُ مَعَاشِرَ الشِّيعَةِ كُونُوا لَنَا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْنَا شَيْناً قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً احْفَظُوا أَلْسِنَتَكُمْ وَ كُفُّوهَا عَنِ الْفُضُولِ وَ

____________________

۱: علامه كليني ؛ اصول كافي،ج۲،ص۲۱۸۔

۳۷

قَبِيحِ الْقَوْل ۔(۱)

چنانچه امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہیں : اے ہمارے شیعو! خبردار! کوئی ایسا کام انجام نہ دو ، جوہماری مذمت کا سبب بنے ۔ لوگوں کے ساتھ اچھی گفتگو کیا کرو ، اپنی زبانوں کی حفاظت کرواور فضول اور نازیبا باتیں کرنے سے باز آؤ ۔

عَنْ هِشَامٍ الْكِنْدِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللهِ ع يَقُولُ إِيَّاكُمْ أَنْ تَعْمَلُوا عَمَلًا نُعَيَّرُ بِهِ فَإِنَّ وَلَدَ السَّوْءِ يُعَيَّرُ وَالِدُهُ بِعَمَلِهِ كُونُوا لِمَنِ انْقَطَعْتُمْ إِلَيْهِ زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْهِ شَيْناً صَلُّوا فِي عَشَائِرِهِمْ وَ عُودُوا مَرْضَاهُمْ وَ اشْهَدُوا جَنَائِزَهُمْ وَ لَا يَسْبِقُونَكُمْ إِلَى شَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَيْرِ فَأَنْتُمْ أَوْلَى بِهِ مِنْهُمْ وَ اللهِ مَا عُبِدَ اللهُ بِشَيْ‏ءٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الْخَبْ‏ءِ قُلْتُ وَ مَا الْخَبْ‏ءُ قَالَ التَّقِيَّة ۔(۲)

راوی کہتا ہے کہ امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا: خبردار ! تم لوگ کوئی ایسا کام کر نہ بیٹھو جس کی وجہ سے هميں ذلت اٹھانی پڑے کیونکہ جب بھی کوئی اولاد برا کام کرتی ہے تو لوگ اس کے والدین کی مذمت کرنے لگتے ہیں۔جب کسی سے دوستی کرنے لگو اور

____________________

۱:۔ أمالي الصدوق، ص ۴۰۰، جلسہ۶۲‏۔

۲: وسائل الشيعة ‏، باب وجوب عشرة العامة بالتقية ،ج۱۶،ص۲۱۹ ۔

۳۸

اس کی خاطر دوسروں سے دوری اختیار کرو تو اس کیلئے زینت کاباعث بنو نہ کہ مذمت اور بدنامی کا ۔ برادران اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کرو ، ان کے مرنے والوں کے جنازے میں شریک ہو جاؤ ، ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ تم سے کار خیر میں آگے ہو ں ، کیوں کہ اچھے کاموں میں تم لوگ ان سے زیادہ سزاوار ہو ۔ خدا کی قسم ! خبأسے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں ہے ۔ کسی نے سوال کیا : اے فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خبأ سے کیا مراد ہے ؟! تو امام ؑ نے جواب دیا : اس سے مرادتقیہ هے ۔

عَنْ أَبِي أُسَامَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللهِ وَ الْوَرَعِ وَ الِاجْتِهَادِ وَ صِدْقِ الْحَدِيثِ وَ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَ حُسْنِ الْخُلُقِ وَ حُسْنِ الْجِوَارِ وَ كُونُوا دُعَاةً إِلَى أَنْفُسِكُمْ بِغَيْرِ أَلْسِنَتِكُمْ وَ كُونُوا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا شَيْناً وَ عَلَيْكُمْ بِطُولِ الرُّكُوعِ وَ السُّجُودِ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَطَالَ الرُّكُوعَ وَ السُّجُودَ هَتَفَ إِبْلِيسُ مِنْ خَلْفِهِ وَ قَالَ يَا وَيْلَهُ أَطَاعَ وَ عَصَيْتُ وَ سَجَدَ وَ أَبَيْتُ ۔(۱)

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادقعليه‌السلام سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے : تم پر لازم

____________________

۱:۔ كافي ،باب الورع، ج‏۲ ، ص ۷۶۔

۳۹

ہے کہ تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرو ،کوشش کرو کہ سچ بات کہو،امانت میں دیانت داری دکھاؤ ،اچھے اخلاق کے مالک بنو، اور اچھے پڑوسی بنو،اور لوگوں کو زبانی نہیں بلکہ اپنے کردار کے ذریعے اچھائی کی طرف بلاؤ ۔اور ہمارے لئے باعث افتخار بنو نہ کہ باعث ذلت اور رسوائی۔اور تم پر لازم ہے کہ طولانی رکوع اور سجدے کیا کرو ؛ جب تم میں سے کوئی رکوع اور سجود کو طول دیتا ہے تو اس وقت شیطان اس کے پیچھے سے چیخ وپکار کرنےلگتا هے ، اور کهتا هے : واویلا ! اس نے خدا کی اطاعت اوربندگی کی، ليکن میں نے نافرمانی کی ، اس نے خدا کیلئے سجدہ کیا اور میں نے انکار کیا ۔

اگر ان دستورات کو آپ ملاحظہ فرمائیں تو معلوم ہو جائےگا کہ آئمہ طاہرین کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان الفت و محبت پیداهو اور سب مسلمان صلح و صفائی کے ساتھ زندگي بسر کريں ۔

تقيه کے شرائط

تقیہ ہر صورت اور ہر موقع اور ہر جگہ پر صحیح نہیں ہے بلکہ خاص شرائط اور زمان و

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

رہى ہے كہ وقوع عذاب حتمى ہے ليكن مناسب وقت اور خاص شرائط سے مربوط ہے_

۵_ دنيا ميں كوئي بھى واقعہ، بطور اتفاق اور نظام عليت سے ہٹ كر واقع نہيں ہوتا_لكل نباء مستقر

جملہ ''لكل نبائ'' موجبہ كليہ كى صورت ميں ايك قضيہ محصورہ كو بيان كررہاہے_ بنابرايں كوئي بھى ''مخبر عنہ'' اسكى كليت سے خارج نہيں _

۶_ تاريخى حوادث اور زمانے كے تحولات ہميشہ قرآنى وعدوں كى حقانيت كى تائيد كريں گے_لكل نباء مستقر و سوف تعلمون

جملہء ''سوف تعلمون'' اس نكتے كى تصريح كررہاہے كہ مستقبل اور آيندہ، ہميشہ قرآنى وعدوں كى حقانيت كو ظاہر كرتارہے گا_ چونكہ يہ جملہ ہميشہ صادق (سچا) ہے_ پس ہر زمانے كے حوادث، حقانيت قرآن كى تائيد كرتے رہيں گے_

آفرينش (خلقت):آفرينش و خلقت ميں علّيت ۵

اتفاق:اتفاق كى نفي۵

تاريخ :تاريخ كے فوائد ۶

حوادث :حوادث كا قانون و ضابطے كے مطابق ہونا ۵;حوادث كے وقوع كى شرائط ۱

خدا تعالى :خدا كے وعدوں كى حقانيت ۶; خدا كے وعدوں كے پورا ہونے كى شرائط ۲

عذاب :عذاب كا قانون كے مطابق ہونا ۳; عذاب كے نزول كا سبب ۳;عذاب كے وعدہ كى حقانيت ۴;وعدہ عذاب ۲

مشركين مكہ: ۴

۲۰۱

آیت ۶۸

( وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُواْ فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ )

اور جب تم ديكھو كہ لوگ ہمارى نشانيوں كے بارے مبں بے ربط بحث كررہے ہيں تو ان سے كنارہ كش ہو جاؤ يہان تك كہ وہ دوسرى بات ميں مصروف ہو جائيں اور اگر شيطان غافل كردے تو ياد آنے كے بعد پھر ظالموں كے ساتھ نہ بيٹھنا

۱_مشركين اور پيغمبر(ص) كے مخالفين، اپنى غلط باتوں كے ذريعے آيات قرآن اور دوسرى آيات الہى ميں مغالطہ پيدا كرنے كى كوشش ميں تھے_و اذا رايت الذين يخوضون فى آيتنا

طبرسي ''خوض'' كے معنى كے بارے ميں كہتے ہيں''الخوض التخليط فى المفاوضة على سبيل اللعب و العبث و ترك التفهم و التبيين'' يعنى خوض، گفتگو اور باتوں كے دوران، بيہودہ گوئي و تمسخر كے ليے غير متعلق بات لے آنا، اور فہم اور حقيقت كى وضاحت كو ترك كردينا_

۲_ پيغمبر(ص) كا فريضہ ہے كہ آپ (ص) آيات قرآن اور دوسري آيات الہى ميں شبھہ پيدا كرنے اور مغالطہ ڈالنے والوں سے بحث و تكرار اور جنگ و جدال سے اجتناب كريں _و اذا رايت الذين يخوضون فى آيتنا فاعرض عنهم

۳_ مؤمنين كا فريضہ ہے كہ وہ دين اور آيات الہى كے بارے ميں مغالطہ ڈالنے والے اور ناروا باتيں كرنے والے افراد سے بحث كرنے سے پرہيز كريں _و اذا رايت الذين يخوضون فى آيتنا فاعرض عنهم

۴_ دين كے بارے ميں مغالطہ ڈالنے والے اور مجادلہ

۲۰۲

كرنے والے ياوہ افراد جو حقيقت جاننا نہيں چاہتے، ان كے مقابلے ميں بہترين رويہ، بے اعتنائي ہے_

الذين يخوضون فى آيتنا فاعرض عنهم

۵_ قرآن كے بارے ميں مغالطہ ڈال كر مجادلہ كرنے والے فراد سے بات چيت ترك كرنا، انھيں اس ناپسنديدہ فعل سے روكنے كا ايك طريقہ اور نہى از منكر كا ايك درجہ ہے_يخوضون فى آيتنا فاعرض عنهم حتى يخوضوا فى حديث غيره

۶_ قرآن اور آيات الہى كے بارے ميں مغالطہ ڈالنے افراد كو اس بيہودہ گوئي سے ہٹاكر دوسرى باتوں ميں لگانا ضرورى ہے_الذين يخوضون فاعرض عنهم حتى يخوضوا فى حديث غيره

۷_ جو لوگ حقيقت نہيں جاننا چاہتے، ان سے بے فائدہ بحث و تكرار كرنے سے بچنے كى ضرورت_

الذين يخوضون فاعرض عنهم حتى يخوضوا فى حديث غيره

۸_ اگر مشركين اور مخالفين دين كے بارے ميں مغالطہ نہ ڈاليں تو ان سے بات چيت كرنے اور ميل جول ركھنے ميں كوئي مضائقہ نہيں _فاعرض عنهم حتى يخوضوا فى حديث غيره

بظاہر ''حتى '' حكم اعراض كے ليے غايت و انتہا ہے_يعنى مشركين سے اس وقت تك دور رہو يہاں تك كہ وہ آيات الہى ميں غور فكر كرنے لگے ہيں _

۹_ فرائض الہى كے سلسلے ميں انسان كى فراموشى كا عامل شيطان ہے_و اما ينسينك الشيطن

۱۰_ مغالطہ ڈالنے والے اور فضول بحث كرنے والے افراد كى محفل ميں نادانستہ طور پر اور فراموشى كے سبب بيٹھنا، گناہ نہيں _اما ينسيك الشيطن فلا تقعد بعد الذكرى

۱۱_ پيغمبر(ص) پر فراموشى و نسيان كا عارض ہونا ممكن ہے_و اما ينسينك الشيطان

۱۲_ شيطان، انسان كى ذہنى سرگرمى و فعاليت پر اثر انداز ہونے كى طاقت ركھتاہے_

و اما ينسينك الشيطن فراموشى ايك حالت ہے كہ جو انسان پر طارى ہوتى ہے_ يہاں يہ حالت و كيفيت پيدا كرنے كى نسبت شيطان كى طرف دى گى ہے، لہذا اسى سے مندرجہ بالا مفہوم اخذ كيا گياہے_

۲۰۳

۱۳_ شيطان چاہتاہے كہ دين كے بارے ميں مغالطہ ڈالنے والے افراد كى محفل ميں بيٹھنے كى حرمت كا حكم فراموش كرديا جائے_و اما ينسينك الشيطن

''ينسينك'' كا نون اور ''اما'' ميں ''مائے'' زائدہ كہ جو تاكيد كےليے ہيں ، ظاہر كررہے ہيں كہ شيطان چاہتاہے كہ انسان كو اس قسم كے موارد ميں فراموشى و نسيان ميں مبتلا كردے_

۱۴_ فراموشى فرائض الہى كے مكلَّف كے بارے ميں ايك قابل قبول عذر ہے_و اما ينسينك الشيطن

۱۵_ قرآن اور آيات الہى كے بارے ميں مغالطہ ڈالنے والے ، فضول باتيں كرنے والے اور مجادلہ كرنےوالے افراد كے ساتھ اٹھنا بيٹھنا اور ميل جول ركھنا حرام ہے_الذين يخوضون فى آيتنا فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين

۱۶_ صدر اسلام كے مسلمانوں كو فراموشى و نسيان كے خطرے كى وجہ سے، آيات الہى كے بار ے ميں مغالطہ ڈالنے والوں سے بے اعتنائي كرنے كا حكم ديا جانا_و اما ينسينك الشيطن فلا تقعد بعد الذكرى

۱۷_ قرآن اور آيات الہى كے بارے ميں مغالطہ ڈالنے والے افراد ظالم و ستم كار ہيں _

الذين يخوضون فى آيتنا مع القوم الظالمين

۱۸_عن رسول الله(ص) : من كان يؤمن بالله و اليوم الآخر فلا يجلس فى مجلس يسب فيه امام او يغتاب فيه مسلم ان الله يقول فى كتابه : و اذا رايت الذين يخوضون فى آياتنا فاعرض عنهم ..(۱)

آنحضرت(ص) سے منقول ہے كہ جو شخص اللہ تعالى اور قيامت كے دن پر ايمان لاتاہے وہ اس مجلس ميں ہرگز نہ بيٹھے جس ميں امام كو (نعوذ باللہ) گالياں دى جاتى ہوں يا كسى مسلمان كى غيبت كى جاتى ہو_ كيونكہ اللہ تعالى قرآن ميں فرماتاہے ''اور جب تم ان لوگوں كو ديكھو جو ہمارى آيتوں ميں (بے فائدہ) بحث كرتے ہيں تو ان سے روگردانى كرو ...''

۱۹_عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قول الله ''و اذا رايت الذين يخوضون فى آياتنا'' قال : الكلام فى الله والجدال فى القرآن ''فاعرض عنهم حتى يخوضوا فى حديث غيره'' (۲)

____________________

۱) تفسير قمي، ج ۱، ص ۲۰۴، نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۲۶ ح ۱۱۶_

۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۳۶۲، حديث ۳_ نور الثقلين ج/ ۱ ص ۷۲۵ ح ۱۱۴_

۲۰۴

امام باقرعليه‌السلام فرماتے ہيں :''يخوضون فى آياتنا'' سے مراد خداوند عالم كے بارے ميں گفتگو كرنا اور قرآن كے بارے ميں مجادلہ (بحث و تكرار) كرنا ہے ''پس ان لوگوں سے روگردانى اختيار كرو يہاں تك كہ وہ كسى اور بات ميں بحث كرنے لگيں ''

۲۰_عن امير المؤمنين عليه‌السلام فغرض على السمع ان لا تصغى به الى المعاصي فقال عزوجل ''واذا رايت الذين يخوضون فى آياتنا فاعرض عنهم ... ''(۱)

امير المؤمنين علىعليه‌السلام سے منقول ہے كہ خداوند متعال نے انسان كے كانوں پر فرض كرديا كہ ان سے گناہ كى بات نہ سنى جائے خداوند عزوجل كا ارشاد ہے : اور جب تم ان لوگوں كو ديكھو جو ہمارى آيتوں ميں (بے فائدہ) بحث كرتے ہيں تو ان سے روگردانى كرو ...''

آنحضرت(ص) :آنحضرت كى ذمہ دارى ۲، آنحضرت(ص) كى فراموشي۱۱

آئمہعليه‌السلام :آئمہعليه‌السلام كو گالياں دينے والے سے روگردانى ۱۸

تكليف:تكليف كى فراموشى كا منشاء ۹;تكليف كے رفع كے عوامل ۱۰،۱۴

حق قبول نہ كرنے والے :حق قبول نہ كرنے والے افراد سے رويّہ ۷

دين :دين كى پاسدارى ۲، ۳، ۴،۵، ۶، ۸

ذہن :ذہن پر اثر انداز ہونے والے عوامل ۱۲

روايت ۱۸، ۱۹، ۲۰

شبھات :آيات خدا ميں شبھہ ڈالنا ۱; شبھات سے مقابلہ كى روش ۲; قرآن ميں شبھہ ايجاد كرنا ۱

شيطان :شيطان كا كردار ۹، ۱۲، ۱۳;شيطان كى كوشش ۱۳

ظالمين : ۱۷

ظلم :موارد ظلم ۱۷

عذر :قابل قبول عذر ۱۴

____________________

۱) من لا يحضرہ الفقيہ ج/ ۲ ص ۳۸۲ ح/۱ باب ۲۲۷ نور الثقلين ج/۱ ص ۷۲۴ ح ۱۱۸_

۲۰۵

غيبت :محفل غيبت ميں حاضر ہونا ۱۸

فراموشى :فراموشى كے آثار ۱۰، ۱۴

گناہ :گناہ كى بات سننے سے اجتناب ۲۰

مجادلہ :ذات الہى كے بارے ميں مجادلہ كرنے والے ۱۹ ; مجادلے سے اجتناب ۲، ۳، ۵، ۷

محرمات : ۱۳، ۱۵

مسلمان :صدر اسلام كے مسلمانوں كى فراموشى ۱۶

مشركين :مشركين اور آيات خدا ۱; مشركين اور آيات قرآن ۱; مشركين كا شبہہ پيدا كرنا ۱;مشركين كا مغالط ۱

مغالطہ :آيات خدا ميں مغالطہ ڈالنے والے ۱;آيات خداميں مغالطہ ڈالنے والوں سے بے اعتنائي ۱۶; آيات خدا ميں مغالطہ ڈالنے والوں سے روگردانى ۲،۳; آيات خدا ميں مغالطہ پيدا كرنے كا ظلم ۱۷; آيات خدا ميں مغالطہ ڈالنے والوں كا مقابلہ ۶،۱۶; دين ميں مغالطہ ڈالنے الوں سے بے اعتنائي۴،۵; دين ميں مغالطہ ڈالنے والوں سے روگردانى ۳،۸; دين ميں مغالطہ ڈالنے والوں سے مقابلہ ۴،۵; قرآن ميں مغالطہ ڈالنے والوں سے روگردانى ۲،۱۹; قرآن ميں مغالطہ والوں سے مقابلہ ۶

مؤمنين :مؤمنين كى ذمہ دارى ۳

نہى از منكر :نہى از منكر كے درجات و مراتب ۵

ہم نشينى (ميل جول) :آيات خدا ميں مغالطہ پيدا كرنے والوں سے ميل جول ۱۵; حرام ميل جول ۱۳، ۱۵;دين ميں مغالطہ پيدا كرنے والوں سے ميل جول ۱۳; قرآن ميں مغالطہ ڈالنے والوں سے ميل جول ۱۵; مشركين سے ميل جول ۸

۲۰۶

آیت ۶۹

( وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَلَـكِن ذِكْرَى لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ )

اور صاحبان تقوى پر ان كے حساب كى كوئي ذمہ دارى نہيں ہے ليكن يہ ايك ياد دہانى ہے كہ شايد يہ لوگ بھى تقوى اختيار كر ليں

۱_ جو لوگ، قرآن اور اسلام كے بارے ميں بيہودہ گوئي كرنے والے افراد كى محفل ميں اٹھنے بيٹھنے سے پرہيز كرنے كے باوجود مجبوراً ان كى باتيں سنتے ہيں ، ان پر كوئي گناہ نہيں _و ما على الذين يتقون من حسابهم من شيء و لكن ذكرى لعلهم يتقون

يہاں ''يتقون'' كا لغوى معنى مراد ليا گيا ہے_

۲_ قرآن اور اسلام كے سلسلے ميں بيہودہ گوئي كرنا، مذاق اڑانا اور مغالطہ پيدا كرنا ايك عظيم گناہ ہے_

فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظلمين_ و ما على الذين يتقون من حسابهم من شيئ

آيات ميں ''خوض'' (بے فائدہ بحث) كرنے والوں كو ظالم كہنا اور ان كے ساتھ مسلمانوں كے ميل جول كى حرمت پر تاكيد كرنا اور اسى طرح جملہ ''من حسابھم'' مجموعى طور پرآيات ميں خوض (بے فائدہ بحث) كرنے كےگناہ كبيرہ ہونے كى نشاندہى كررہاہے_

۳_ جو لوگ، قرآن اور اسلام كے بارے ميں مغالطہ پيدا كرنے والوں كے ساتھ اٹھنے بيٹھنے سے پرہيز كرتے ہيں اور اور دوسروں كو بھى (ان سے ميل جول ركھنے سے) منع كرنے كى كوشش كرتے ہيں ان پر كوئي گناہ نہيں _

و ما على الذين يتقون من حسابهم من شيء و لكن ذكرى

يہاں ''يتقون'' كا لغوى معنى ليتے ہوئے اسكا متعلق خوض ليا گيا ہے اور''يذكرونھم'' كے ليے ''ذكرى '' كو مفعول مطلق فرض كيا گيا ہے_ يعنى''يتقون الخوض و لكن يذكرونهم ذكرى ''

۴_ قرآن اور اسلام كے سلسلے ميں مغالطہ پيدا كرنے والے افراد كا (يہ) مغالطہ اور مذاق جارى رہنے كے باوجود، ان سے اجتناب كرنے والے مؤمنين پر كوئي گناہ نہيں _

۲۰۷

و ما على الذين يتقون من حسابهم من شيئ

ممكن ہے يہ آيت بعض مؤمنين كے اس سوال كا جواب دے رہى ہو كہ اگر ہم كفار كى مجلس ميں نہ جائيں اور ان كے ساتھ ميل جول كو حرام قرار ديں تو ان كے ليے مغالطے اور مذاق كا مزيد موقع فراہم ہوتاہے ؟ اس آيت ميں فرمايا گيا ہے آپ لوگ اجتناب كريں ، ان كے كام كا گناہ، آپ كى جانب سرايت نہيں كرے گا_

۵_ آيات الہى ميں مغالطہ پيدا كرنے والے ، بيہودہ باتيں كرنے والے افراد سے اٹھنے بيٹھنے كى حرمت كا مقصد، انھيں اس ناپسنديدہ فعل سے روكنا ہے_فلا تقعد بعد الذكرى ...و ما على الذين يتقون من حسابهم من شيء و لكن ذكرى لعلهم يتقون

۶_ ان كفار اور مشركين سے نشست و برخاست حرام نہيں كہ جو قرآن و اسلام كے بارے ميں نہ تو كسى قسم كا مغالطہ پيدا كرتے اور نہ ہى مذاق اڑاتے ہيں _و ما على الذين يتقون من حسابهم من شيئ اس آيت ميں ''يتقون'' كا فاعل، كفار اور ''حسابھم'' كى ضمير كا مرجع، خوض (بے فائدہ بحث) كرنے والوں ، كو فرض كيا گيا ہے_ يعنى ''خوض'' سے پرہيز كرنے والے كفار كا حساب''خوض'' كرنے والوں كے حساب سے جدا ہے_ اور ان سے اٹھنے بيٹھنے ميں كوئي حرج نہيں _

۷_ مسلمانوں كو چاہيئے كہ وہ غير جانبدار كفار و مشركين سے ميل جول ركھتے ہوئے انھيں قرآن اور اسلام كے بارے ميں مغالطہ كارى اور مذاق سے بچنے كى نصيحت كرتے ہوئے خبردار كرتے رہيں _و ما على الذين يتقون من حسابهم من شيء و لكن ذكرى تعلهم يتقون

۸_ قرآن اور اسلام كے تقدس كى حفاظت كرنا، دوسروں كو اس كے بارے ميں مذاق اڑانے ، بيہودہ باتيں كرنے سے منع كرنا، سب مسلمانوں كا فريضہ ہے_و ما على الذين يتقون ...و لكن ذكرى لعلهم يتقون

۹_قال ابوجعفر عليه‌السلام : لما نزلت ''فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين،قال المسلمون: كيف نصنع ان كان كلما استهزء المشركون بالقرآن قمنا و تركنا هم فلا ندخل اذا المسجد الحرام و لا نطوف بالبيت الحرام فانزل الله تعالى ''و ما على الذين يتقون من حسابهم من شيئ'' وا مرهم بتذكيرهم وتبصيرهم ما استطاعوا (۱)

امام محمد باقرعليه‌السلام سے منقول ہے كہ جس وقت آيت ''فلا تقعد بعد ...'' نازل ہوئي اس وقت مسلمانوں نے عرض كى (يا رسول اللہ(ص) ) ہم كيا

____________________

۱) تفسير تبيان ج۴ ص۱۶۷ ،نورالثقلين ج۱، ص ۷۲۸ ج ۰۱۲۶

۲۰۸

كريں اگر مشركوں كے قرآن سے مذاق اڑانے پر اٹھ جائيں تو نہ مسجد الحرام ميں داخل ہوسكيں گے اور نہ بيت الحرام كا طواف كرسكيں گے اس وقت اللہ تعالى نے يہ آيت نازل كى ''اور جو لوگ پرہيز كرتے ہيں ان پر ايسے لوگوں كے حساب كى كچھ ذمہ دارى نہيں '' اور اس ميں مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ كفار كو نصيحت ديں اور اپنى استطاعت كے مطابق انھيں موعظہ كريں _

اسلام :اسلام كا مذاق اڑانے سے اجتناب ۷، ۸;اسلام كا مذاق اڑانے كا گناہ ۲ اسلام كى حفاظت ۳; اسلام كے تقدس كى حفاظت ۸

احكام :فلسفہ احكام ۵

دين :دين كى حفاظت ۵، ۷، ۸

روايت : ۹

عذر :قابل قبول عذر ۱، ۳

قرآن :قرآن كے تقدس كى حفاظت ۸; قرآن كے مذاق اڑانے سے اجتناب ۷، ۸; قرآن كے مذاق اڑانے كا گناہ ۲

كفار :كفار كو موعظہ ۹

گناہ :كبيرہ گناہ ۲

مسلمان :مسلمانوں كى ذمہ دارى ۷، ۸

معاشرت :احكام معاشرت ۱، ۳، ۶ ;غيروں سے ميل جول ۶

مغالطہ :آيات خدا ميں مغالطہ ڈالنے والوں سے روگردانى ۵; اسلام ميں مغالطہ پيدا كرنے والوں سے روگردانى ۳; اسلام ميں مغالطہ پيدا كرنے كا گناہ ۲; قرآن ميں مغالطہ ڈالنے والوں سے روگردانى ۴; قرآن ميں مغالطہ پيدا كا گناہ ۲

نہى از منكر :نہى از منكر كى اہميت ۷، ۸; نہى از منكر كے مراتب ۵; نہى از منكر كے موارد ۵، ۹

ہم نشينى (ميل جول) :آيات خدا ميں مغاطہ ڈالنے والوں سے ميل جول ۵; اسلام كا مذاق اڑانے والوں سے ميل جول ۱، ۳، ۴، ۶; قرآن كا مذاق اڑانے والوں سے ميل جول ۶;قرآن ميں مغالطہ پيدا كرنے والوں سے ميل جول ۱،۳،۴،۶; كفار سے ميل جول ۶، ۷; مشركين سے ميل جول ۶، ۷; ميل جول ركھنے كا جواز ۱، ۳، ۶

۲۰۹

آیت ۷۰

( وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَهُمْ لَعِباً وَلَهْواً وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللّهِ وَلِيٌّ وَلاَ شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لاَّ يُؤْخَذْ مِنْهَا أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُواْ بِمَا كَسَبُواْ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ )

اور ان لوگوں كو چھوڑ ذو جنھوں نے اپنے ديں كو كھيل تماشہ بنا ركھا ہے اور انھيں زندگانى دنيا نے دھوكہ ميں مبتلا كرديا ہے اور ان كو ياد دہانى كراتے رہو كہ مبادا كوئي شخص اپنے كئے بنا پر ايسے عذاب ميں مبتلا ہو جائے كہ اللہ كے علاوہ كوئي سفارش كرنے والا اور مدد كرنے والا نہ ہو اور سارے معاوضے اكٹھا بھى كردے تو اسے قبول نہ كيا جائے ، يہى وہ لوگ ہيں جنھيں ان كے كر توت كى بتاپر بلاؤں ميں مبتلا كيا گيا ہے كہ اب ان كے لئے گرم پانى كا مشروب ہے اور ان كے كفر كى بنا پر دردناك عذاب ہے

۱_ بعض لوگوں نے دنيوى كھيل تماشے كو (ہي) اپنا دين بنا ركھا ہے_و ذر الذين اتخذوا دينهم لعبا و لهواً

۲_ بعض لوگوں نے بے عقلى كى بنا پر دين خدا كو اپنے ليے بازيچہ اور كھيل تماشا بنايا ہوا ہے_

و ذر الذين اتخذوا دينهم لعبا و لهواً ہوسكتاہے ''دينھم'' سے مراد، آئين الہى ہو كہ جو ان لوگوں كے ليے نازل كيا گيا ہے_ ليكن انھوں نے اس سے تمسك كرنے كے بجائے اسے بازيچہ بنا ركھا ہے_

۳_ پيغمبر(ص) كا فريضہ ہے كہ جن لوگوں نے كھيل كود كو اپنا

۲۱۰

دين بنا ركھا ہے، ان سے بے اعتنائي كريں _و ذر الذين اتخذوا دينهم لعبا و لهوا

۴_ دين الہى سے تمسك كرنا ايك فطرى بات ہے اور فطرت انسان ميں شامل ہے_و ذر الذين اتخذوا دينهم لعبا و لهواً كفار كى جانب دين كى نسبت دينا يعنى ''دينھم'' اس بات كى حكايت كررہاہے كہ ان كے ليے ايك دين فرض كيا گيا ہے_ ايك احتمال كے مطابق، يہ دين ان كى ندائے فطرت ہے_ كہ جو انھيں توحيد اور دين دارى كى طرف دعوت دے رہى ہے_ يہى قول صاحب الميزان نے اختيار كيا ہے_

۵_ اسلام اور قرآن ميں مغالطہ پيدا كرنے والے اور خوض (بے فائدہ بحث) كرنے والے افراد اور اسے اپنے مذاق كا نشانہ بنانے والے لوگوں نے دين خدا كو اپنے ليے كھيل تماشا بنا ركھاہے_

الذين يخوضون فى ايتنا و يخوضوا فى حديث غيره و ذر الذين اتخذوا دينهم لعبا و لهوا

گذشتہ آيات كے قرينے سے ''الذين ...'' سے مراد وہى لوگ ہيں جو آيات ميں خوض (بے فائدہ بحث و تكرار) كرتے ہيں _

۶_ جن لوگوں نے دين خدا كو بازيچہ سمجھ ركھا ہے انھيں چھوڑ دينا اور ان سے بے اعتنائي كرنا، پيغمبر(ص) اور مؤمنين كا فريضہ ہے_و ذر الذين اتخذوا دينهم لعبا و لهوا

۷_ دنيوى زندگى فريب ساز اور خطرات سے پر ، لغزش كا مقام ہے _و غرتهم الحياة الدنيا

۸_ دنيا سے محبت اور دل بستگى ہى دين كو بازيچہ سمجھنے اور اس كے بارے ميں بيہودہ گوئي كرنے كا سبب بنتى ہے_

و ذر الذين اتخذوا دينهم و غرتهم الحياة الدنيا جملہ ''غرتھم'' كا عطف، مسبب پر سبب كا عطف ہے_ يعنى بعض لوگوں كے دين كو بازيچہ بنانے كا سبب ان كى دنيا سے محبت و دلبستگى ہے_

۹_ جو لوگ دين كو بازيچہ بناتے ہيں ، دنيا كے فريب اور دھوكے ميں آنے والے اور اس سے محبت و دلبستگى ركھنے والے ہيں _و ذر الذين اتخذوا دينهم لعبا و لهوا و غرتهم الحياة الدنيا

۱۰_ دنيوى زندگى كے فريب و دھوكے اور اس كے پر كشش لغزشوں كے مقابلے ميں ہوشيار رہنے كى ضرورت_

و غرتهم الحياة الدنيا جملہ ''غرتھم ...'' كو بيان كرنے كا مقصد جو كہ انحراف كے سبب كے طور پر ذكر كيا گيا ہے، عام لوگوں كو ہوشيار اور چوكنا كرنا ہے_

۱۱_ لوگوں كو قرآن كے ذريعے نصيحت كرنا، پيغمبر(ص) اور دينى مبلغين كے فرائض ميں سے ہے_

۲۱۱

و ذكر به ان تبسل نفس _

ہوسكتاہے ''بہ'' كى ضمير كا مرجع قرآن ہو كہ جو مذكورہ آيات كے سياق سے ظاہر ہے_ اصطلاح ميں اسے مرجع حكمى كہتے ہيں _

۱۲_ قرآن، لوگوں كو نصيحت كرنے والى كتاب ہے_و ذكر به ان تبسل نفس

۱۳_ انسان اپنے اعمال كے ذريعے اپنے آپ كو نيكى و ثواب سے محروم كركے ہلاكت و تباہى ميں ڈال ديتاہے_

ان تبسل نفس بما كسبت''بسل'' كا معنى ''منع'' اور ''حبس'' ہے اور اس كا نتيجہ ہلاكت و تباہى ہے_ لسان العرب ميں ہے كہ ''ابسلت فلانا اذا اسلمت هلل هلكة''

۱۴_ انسانى اعمال كے نقصان دہ آثار كى طرف متوجہ كرانا، تربيت و تبليغ كا ايك مؤثر طريقہ ہے_

و ذكر به ان تبسل نفس بما كسبت

ہوسكتاہے جملہ ''ان تبسل'' ''ذكر'' كے ليے مفعول لہ ہو_ اس صورت ميں يہ معنى ہوگا_ ''ذكر لان لا تبسل نفس بما كسبت''

۱۵_ قرآن كى نصيحتوں پر عمل كرنے كا نتيجہ تباہى و ہلاكت سے بچنا ہے_و ذكر به ان تبسل نفس بما كسبت

ہوسكتاہے كہ جملہ ''ان تبسل'' لام تعليل اور حرف نفى كو تقدير ميں ركھتے ہوئے ''ذكر'' كے ليے مفعول لہ ہو_ بنابرايں جملہ كا معنى اس طرح ہوجائے گا : لوگوں كو قرآن كے ذريعے نصيحت كرو تا كہ وہ اپنے برے اعمال كے عواقب و نتائج ميں گرفتار نہ ہوں _

۱۶_ دين كو بازيچہ اور كھيل بنانا، نيكى و ثواب سے محروميت اور تباہى كا باعث بنتاہے_

و ذر الذين اتخذوا دينهم لعبا و لهوا و ذكر به ان تبسل نفس

گذشتہ آيت ميں دين سے كھيل كى بات ہورہى تھي_ اور (يہاں ) جملہ ''ذكر بہ ...'' چوكنا كرنے اور ان كے اعمال كا نتيجہ بيان كرنے كے ليے ہے_

۱۷_ خداوند عالم كے سوا، انسان كے ليے كوئي بھى مددگار اور شفاعت كرنے والا نہيں _

ليس لها من دون الله ولى و لا شفيع

۱۸_ جو لوگ اپنے ناپسنديدہ اور ناروا اعمال كے ذريعے اپنے آپ كو تباہ كركے نيكى و خير سے محروم كر چكے ہيں ، مخلوقات ميں ان كا كوئي بھى دوست، مددگار اور شفاعت كنندہ نہيں ہوگا_

۲۱۲

ان تبسل نفس بما كسبت ليس من دون الله ولى و لا شفيع

۱۹_ دين كو بازيچہ بنانے والوں سے، عذاب سے نجات كے بدلے كسى قسم كا فديہ قبول نہيں كيا جائے گا_

اتخذوا دينهم لعبا و ان تعدل كل عدل لا يؤخذ منها

۲۰_ دين كو كھيل و بازيچہ بنانے كا نتيجہ، عذاب ميں مبتلا ہونا اور شفاعت سے محروميت ہے_

الذين اتخذوا دينهم لعبا و لهوا اولئك الذين ا بسلوا بما كسبوا

۲۱_ قيامت كا عذاب اور شفاعت سے محروميت، انسانى اعمال كانتيجہ ہے _

ليس لها من دون الله اولئك الذين ابسلوا بما كسبوا

۲۲_ دين كو كھيل و بازيچہ بنانے والوں كے ليے كھولتا ہوا گرم پانى اور قيامت كا دردناك عذاب آمادہ ہوگا_

اولئك الذين ابسلوا لهم شراب من حميم و عذاب اليم

۲۳_ دين كو كھيل و بازيچہ بنانا كفر ہے اور اسے كھيل بنانے والے كافر ہيں _

و ذر الذين اتخذوا دينهم لعبا و لهوا بما كانوا يكفرون

۲۴_ كفر پر ہميشہ قائم رہنا قيامت كے دردناك عذاب ميں گرفتار ہونے كا باعث بنتا ہے_

عذاب اليم بما كانوا يكفرون

۲۵_ جو لوگ، دنيا كے كھيل تماشے كو اپنا دين قرار ديتے ہيں (وہي) كافر ہيں _

و ذر الذين اتخذوا دينهم لعبا و لهوا بما كانوا يكفرون

يہ اس بنا پرہے كہ جب''اتخذوا دينهم لعبا'' كا معنى''اتخذوا اللعب دينا'' ہو_

آنحضرت(ص) :آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۳،۶،۱۱

انسان :انسانى رجحانات ۴

اجتماعى گروہ : ۱، ۲

بے پناہ لوگ: ۱۸

بے پناہى :بے پناہى كے علل و اسباب ۱۸

۲۱۳

بے دين لوگ :بے دين لوگوں سے بے اعتنائي ۳

تبليغ :روش تبليغ ۱۴

تربيت :تربيت ميں مؤثر عوامل ۱۴

جزا:جزا سے محروميت كے اسباب

جہنم :جہنم كا گرم پانى ۲۲; جہنم ميں پينے والى اشياء ۲۲

خدا تعالى :شفاعت خدا ۱۷; مختصات خدا ۱۷

خير (بھلائي):خير و بھلائي سے محروميت كے عوامل ۱۳، ۱۶، ۱۸

دنيا :دنيا كا پر فريب ہونا ۷، ۹ ،۱۰

دنيا پرست لوگ : ۹

دنيا پرستى :دنيا پرستى كے آثار ۸، ۹

دين :دين سے كھيلنا ۲،۵،۶،۹،۲۳; دين سے كھيل كے آثار ۱۶ ;دين سے كھيلنے كى سزا ۳ ، ۱۹ ، ۲۰ ، ۲۲; دين سے كھيلنے كے عوامل ۸; دين كا فطرى ہونا ۴; دين كا مذاق اڑانا ۵ ; دين كا مذاق اڑانے كے اسباب ۸; دين كا مذاق اڑانے والوں سے بے اعتنائي۶; دين كى حفاظت ۳،۶; دين ميں مغالط ڈالنے والے ۵

ديندارى :ديندارى كا سرچشمہ۴

دين سازى :كھيل كو دين بنانا ۱،۲۵، ۲۵; لوگوں كا دين بنانا ۱

سرگرمى :دنيوى سرگرمى ۱، ۲، ۵

شفاعت :شفاعت سے محروم لوگ ۱۸;شفاعت سے محروميت كے عوامل ۲، ۲۱;

عذاب :اخروى عذاب كے موجبات ۲۱، ۲۴; عذاب سے نجات كے موانع ۱۹;عذاب كے مراتب ۲۲;گرم پانى كا عذاب ۲۲; موجبات عذاب ۲۰

عمل :آثار عمل ۱۳، ۱۴; ناپسنديدہ عمل كى سزا ۲۱; ناپسنديدہ عمل كے آثار۱۸

۲۱۴

قرآن :قرآن كا كردار ۱۱، ۱۲، ۱۵;قرآن كا مذاق اڑانا۵

كفار : ۲۳، ۲۵

كفر :كفر پر قائم رہنے كے آثار ۲۴; كفر كے عوامل۲۳، ۲۵; موارد كفر ۲۳

لغزش :لغزش كے عوامل ۷، ۱۰

لہو و لعب : ۱، ۲، ۵

مبلغين :مبلغين كى ذمہ دارى ۱۱

مغالطہ :قرآن اور دين ميں مغالطہ پيدا كرنے والے ۵

مومنين :مؤمنين كى ذمہ داري۶

نہى از منكر :نہى از منكر كے مراتب ۳، ۶

ہلاكت :ہلاكت سے بچنے كے عوامل ۱۵; موجبات ہلاكت۱۳، ۱۶، ۱۸

ہوشيار رہنا :ہوشيار رہنے كى اہميت، ۱۰

۲۱۵

آیت ۷۱

( قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَنفَعُنَا وَلاَ يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَى أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللّهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى اء تِنَا قُلْ إِنَّ هُدَى اللّهِ هُوَ الْهُدَىَ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ )

پيغمبر آپ كہہ ديجئے كہ ہم خدا كو چھوڑ كر ان كو پكاريں جو نہ فائدہ پہنچا سكتے ہيں اور نہ نقصان اور اس طرح اللہ كے ہدايت دنيے كے بعد الٹے پاؤں پلٹ جائيں جس طرح كہ كسى شخص كو شيطان نے روئے زمين پر بعكا ديا ہو اور وہ حيران و سرگردان مارا مارا پھر رہا ہو اور اس كے كجھ اصحاب اسے ہدايت كى طرف پكار رعے ہوں كہ ادھر آجاؤ ____ آپ كہہ ديجئے كہ ہدايت صرف اللہ كے ہدايت ہے اور ہميں حكم ديا گيا ہے كہ ہم رب العالمين كى بارگاہ ميں سراپا تسليم رہيں

۱_ بے ہودہ اور فضول خداؤں كى پرستش ميں بنى آدم كيلئے كسى قسم كا فائدہ نہيں _

قل اندعوا من دون الله ما لا ينفعنا

۲_ بيہودہ خداؤں كى پرستش نہ كرنے ميں كوئي نقصان اور ضرر نہيں _قل اندعوا من دون الله ما لا ينفعنا و لايضرنا

يہ مفہوم اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ صدر آيہ كے قرينے كے مطابق جملہ شرطيہ ''ان دعونا ھم'' جملہ ''لا ينفعنا'' كے بعد اور ''ان تركنا دعوتھم'' ''لا يضرنا'' كے بعد، مد نظر ركھا گيا ہے_

۳_ بتوں كى پرستش نہ كرنے كى عاقلانہ دليل ، ان كا نفع

۲۱۶

و نقصان پہچانے سے عاجز ہوناہے_قل اندعوا من دون الله ما لا ينفعنا و لا يضرنا

۴_ فقط وہى معبود پرستش اور عبادت كے لائق ہے جو انسان كو نفع و ضرر پہنچانے كا اختيار ركھتاہو_

قل اندعوا من دون الله ما لا ينفعنا و لا يضرنا

۵_ خداوند يكتا اور بنى آدم كو نفع نقصان پہنچانے پر قادر (پروردگار) ہى عبادت و پرستش كے لائق ہے_

قل اندعوا من دون الله ما لا ينفعنا و لا يضرنا

۶_ توحيد او معارف الہى كى تبليغ كے ليے، قرآن كا انسان كى سود طلب اور ضرر سے گريزاں حس سے فائدہ اٹھانا_

قل اندعوا من دون الله ما لا ينفعنا و لا يضرنا

۷_ قرآنى تبليغ كے طريقوں ميں سے ايك طريقہ سوال كے ذريعے ضمير كو قضاوت پر واردار كرنا ہے_

قل اندعوا من دون الله ما لا ينفعنا

۸_ تبليغ دين كى ايك روش، منفعت پسندى كى فطرى خواہش سے مثبت اور تعميرى فائدہ اٹھانا ہے_

قل اندعوا من دون الله ما لا ينفعنا و لا يضرنا

۹_ ظہور اسلام كے دوران، جزيرة العرب كے لوگوں ميں بت پرستى اور شرك كاعام رواج ہونا_

قل اندعوا من دون الله ما لا ينفعنا و لا يضرنا

۱۰_ صدر اسلام كے مشركين اپنے پروپيگنڈے كے ذريعے، مسلمانوں كو شرك اور بت پرستى كى جانب پلٹانے ميں كوشاں تھے_قل اندعوا من دون الله و نرد على اعقابنا

۱۱_ توحيد كے بعد شرك كى طرف رجحان_ (ارتداد) ايك رجعت پرستانہ (دقيانوسي) اور (انساني) كمال كے خلاف حركت ہے_اندعوا من دون الله و نرد على اعقابنا بعد اذ هدى نا الله

جملہ ''نرد علي ...'' كا معنى فقط ماضى كى طرف پلٹنا ہى نہيں ہے بلكہ جہالت كى جانب رجوع كرنے اور فكرى پسماندگى كى حكايت بھى كررہاہے_

۱۲_ توحيد كمال تك پہنچانے والا عقيدہ ہے كہ موحدين ہدايت الہى كے ذريعے جس تك رسائي حاصل كرتے ہيں _

۲۱۷

اندعوا من دون الله و نرد على اعقابنا بعد اذ هدى نا الله

۱۳_ شرك كى جانب پلٹنے والا شخص (مرتد) اس سرگردان ديوانے كى مانند ہے كہ جس كى عقل شياطين (جنات) نے زائل كر ركھى ہے_اندعوا من دون الله و نرد كالذى استهوته الشى طين

''استهوته الشياطين'' يعنى شياطين نے اس كى عقل و فكر كو ختم كرڈالا ہو_ اسى طرح جملہ''استهوته الشياطين'' اس شخص كے بارے ميں بھى استعمال ہوتاہے كہ جس كى (عقل كو) جنات نے زائل كرديا ہو (لسان العرب)

۱۴_ مرتد اس شخص كى مانند زمين پر بے مقصد و سرگردان پھرتاہے كہ جس پر جنات كا سايہ ہوگيا ہو_

و نرد على اعقابنا كالذى استهوته الشياطين فى الارض حيران

۱۵_ مرتد، اندرونى كشمكش اور تحير ميں مبتلا ہوتاہے اور اسے كسى بھى وقت چين و آرام نہيں ملتا_

كالذين استهوته الشياطين حيران له اصحب يدعونه

۱۶_ شرك اور ارتداد، حيرت و سرگردانى كا باعث بنتے ہيں _و نرد علي كالذى استهوته الشياطين فى الارض حيران

۱۷_ عقيدہ توحيد، حيرت و سرگردانى سے نجات پانے كى راہ ہموار كرتاہے اور زندگى كا رخ ايك ہدف اور معنويت كى جانب موڑ ديتاہے_كالذى استهوته الشياطين فى الارض حيران چونكہ مرتد اور مشرك لوگوں كو ديوانگى اور حيرت و سرگردانى ميں مبتلا شخص سے تشبيہ دى گئي ہے_ طبعاً شرك كا نقطہ مقابل (توحيد) اس كے متضاد اثرات كا حامل ہوگا_

۱۸_ مشركين، حيران و پريشان مرتدين كو شرك كى طرف دعوت ديتے ہيں اور اپنے آپ كو ہدايت يافتہ سمجھتے ہيں _

له اصحب يدعونه الى الهدى اء تنا ايك احتمال كے مطابق ''اصحب'' سے مراد وہ مشركين اور منحرفين ہيں جو مرتد افراد كى تشويق كرتے ہيں اور انھيں اپنى جانب بلاتے ہيں اور اپنے آپ كو ہدايت يافتہ تصور كرتے ہيں _

۱۹_ مرتد، بيابانوں اور صحراؤں ميں سرگرداں شخص كى مانند ہے كہ جسے شياطين گمراہى كى جانب بلاتے ہيں اور كچھ لوگ اسے راہ ہدايت كى جانب دعوت ديتے ہيں _كالذى استهوته الشياطين فى الارض حيران له اصحب يدعونه الى الهدى اء تنا''فى الارض'' استھوى سے متعلق ہے، اور

۲۱۸

''استهوى فى الارض'' كا معنى ہوسكتاہے يہ ہو كہ ''اس كى عقل كو بيابان و صحرا ميں اس سے لے ليا جائے'' اور ''اصحاب يدعونہ'' ميں ''اصحاب'' سے مراد ممكن ہے مشركين ہوں يا موحدين_ مندرجہ بالا مفہوم ميں دوسرا احتمال اخذ كيا گيا ہے_

۲۰_ واقعى ہدايت، فقط خدا كى طرف سے ملنے والى ہدايت ہے_قل انى هدى الله هو الهدى

۲۱_ توحيد اور يكتا پرستى ايك الہى ہدايت ہے_قل ان هدى الله هو الهدى

چونكہ جملہ ''ان ھدى اللہ'' جملہ ''لہ اصحاب يدعونہ'' كے مقابلے ميں لايا گيا ہے اور آيت كا محور بحث بھى توحيد ہے اس سے پتہ چلتاہے كہ جملہ ان ''ھدى اللہ'' ميں ہدايت سے مراد توحيد اور يكتاپرستى ہے_

۲۲_ پيغمبر(ص) كو كفار كى پروپينگنڈا مہم كا مناسب مقابلہ كرنے كا حكم ديا گيا ہے_قل اندعوا قل ان هدى الله هو الهدي

''قل'' پيغمبر(ص) سے خطاب ہے_آيت ميں اس كا تكرار كفار كى جانب سے پھيلائے گئے افكار اور نظريات كے مدمقابل ان مفاہيم كى اہميت بتانے كيلئے ہے_

۲۳_ انسان كا فريضہ ہے كہ وہ پروردگار عالم كے سامنے تسليم خم رہے_و امرنا لنسلم لرب العالمين

چنانچہ بعض علمائے ادب (مثل كسائي اور فرائ) كے بقول، مادہ''امر'' كے بعد لام، بمعنى ''ان'' حرف مصدرى ہے_ بنابرايں فعل ''نسلم'' تاويل مصدر ہوتے ہوئے ''امرنا'' كے ليے مفعول دوم شمار كيا جائے گا_

۲۴_ خداوند عالم تمام جہانوں كا پالنے والا ہے_لرب العالمين

۲۵_ خداوندعالم كے سامنے تسليم ہونا، گويا كائنا ت كے رشد و كمال كى آغوش ميں آنا ہے_و امرنا لنسلم لرب العلمين

۲۶_ توحيد اور اس پر اعتقاد سے مراد پروردگار عالم كے سامنے تسليم ہونا ہے_و امرنا لنسلم لرب العلمين

جملہ ''لنسلم'' ''امرنا'' كے ليے مفعول لاجلہ ہے اور آيت كے گذشتہ حصوں كے قرينے سے ''التوحيد'' اس كا مفعول دوم ہے_لہذا آيت كا معنى يہ ہوگا كہ ہميں توحيد كا حكم ديا گيا ہے تا كہ پروردگار عالم كے سامنے تسليم ہوجائيں _

آنحضرت(ص) :

۲۱۹

آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۲۲

ارتداد :ارتداد كے آثار ۱۱، ۱۳، ۱۶ عوامل ارتداد ۱۰

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۱۰

انسان :انسان كا منفعت طلب ہونا ۶، ۸;غرائزانسان ۶، ۸; وظيفہ انسان ۲۳

بت :بتوں كا عجز ۳

بت پرستى :بت پرستى كا بے منطق ہونا ۳; بت پرستى كى تبليغ ۱۰; بعثت كے دوران بت پرستى ۹

پروپينگنڈا مہم :پروپيگنڈا مہم كے خلاف جنگ ۲۲

تبليغ :روش تبليغ ۶، ۷، ۸

تحيّر (تعجب) :تحيّر سے نجات كے اسباب ۱۷;سبب تحير ۱۶

تسليم :خدا كے سامنے تسليم ہونا ۲۳ ۲۶;خدا كے سامنے تسليم ہونے كے آثار ۲۵

تشبيھات :جن زدہ شخص سے تشبيہ ۱۴; سرگردان شخص سے تشبيہ ۱۹; مجنون و ديوانے سے تشبيہ ۱۳

تعليم :تعليم كے دوران سؤالات ۷

توحيد :آثار توحيد ۱۷، ۲۶; اہميت توحيد ۱۲; توحيد عبادى ۵، ۲۱; توحيد كى طرف ہدايت ۱۲

جنات :جنات كا كردار ۱۳

حقيقى معبود:حقيقى معبود كا ضرر پہچانا ۴;حقيقى معبود كا معيار ۴; حقيقى معبود كا نفع پہنچاسكنا۴;حقيقى معبود كى قدرت ۴

خدا تعالى :افعال خدا ۲۴; قدرت خدا ۵; مختصات خدا ۵; ہدايت خدا ۱۲، ۲۰، ۲۱

خلقت:خلقت كا رشد ۵۲ ; خلقت كا كمال ۵۲

رجحانات :شرك كى جانب ميلان ۱۱

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336