تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں0%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه  اسلام کی نگاہ میں

مؤلف: غلام مرتضي انصاری
زمرہ جات:

صفحے: 336
مشاہدے: 79247
ڈاؤنلوڈ: 2564

تبصرے:

تقيه اسلام کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79247 / ڈاؤنلوڈ: 2564
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

مکان میں جائز اور مطلوب ہے ۔جہاں باطل اور ناجائز کاموں کا اظہار کرنا جائز ہو ؛ صرف وهاں تقيه کرسکتا هے۔ اسی لئے تقیہ کے شرائط اور اسباب کچھ اس طرح تنظیم ہوئےہیں کہ اس کام کا باطل اور قبیح ہونا باقی نہ رہے۔ شيخ الطائفه( طوسي) اپنے استاد سيدمرتضي سے فعل قبیح کے مرتکب ہونے کے لئے تین شرائط نقل کرتے ہیں:

۱. اپنی جان کیلئے خطرہ ہو ، یعنی اگر اس قبیح فعل کو انجام نہ دے تو جان سے ماردینے کا خطرہ ہو ۔

۲. اس باطل فعل کے انجام دینے کے سوا کوئی اور چارہ نہ ہو ۔

۳. قبیح فعل کے انجام دینے پر مجبورکيا جارها ہو ۔

اگر یہ تین شرطيں موجود ہو تو اس کام کی قباحت بھی دور ہوجاتی ہے ۔(۱)

____________________

۱: يزدي ،دكتر محمود؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي ۔

۴۱

دوسری فصل

تقیہ تاریخ کے آئینے میں

۴۲

دوسری فصل : تقيه تاريخ کے آئینے میں

الف:ظهوراسلام سے پهلے تقیہ

تقیہ کا مفہوم بہت وسیع ہے اس لئے اسے زندگی کے صرف ایک حصّے سے مخصوص نہیں کياجاسکتا ۔بلکہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ تاريخی اعتبار سے تقيه کی ضرورت انسان کو اس وقت محسوس ہوتی ہے ،جب وہ اپنے آپ کو دشمن کے سامنے عاجز محسوس کرے ۔ اور یہ عاجزی انسان میں گاہ بہ گاہ خوف کا احساس پیدا کرنے لگتی ہے ۔ اور یہ ایک طبیعی چيز ہے کہ انسان اس خوف و ہراس کو اپنے سے دور کرنے کی فکر کرے ۔اور اس طبیعی امر میں تمام عالم بشریت حتی تمام ذی روح "حیوانات" بھی شریک ہیں۔

۴۳

خواہ یہ خوف و ہراس بھوک اور پیاس کی شکل میں ہو یا گرمی ، سردی اور بیماری کی شکل میں ہو ؛ انسان اس خوف سے بچنے کیلئے کوئی نہ کوئی راہ پیدا کر لیتا ہے ۔ لیکن ان حالات میں جنگ و جدال کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ہاں غیر طبیعی خطرات اور مشکلات کے موقع پر جیسے اپنے کسی مسلمان بھائی پر ظلم وستم کو روکنے کا سبب هو تو تقیہ کرنا بهترہے ۔

اس فصل ميں هم بهت هي اختصار کے ساتھ انبياء اوراولياءالهي نے جهاں جهاں تقيه کئے هيں ؛ ان موارد کو بيان کريں گے :

۴۴

حضرت آدمعليه‌السلام اور تقيه

سب سے پہلی جو سزا اپنے بھائی کے حسد اور دشمنی کی بنا پر قتل کرنے کی وجہ سے ملی وہ حضرت آدم کے زمانےمیں انہی کے بیٹے کو ملی۔قرآن اس واقعے کو کچھ یوں بیان فرما رہا ہے :

( وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَاْ بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لَأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ إِنِّي أُرِيدُ أَن تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِكَ جَزَاء الظَّالِمِينَ فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ ) (۱)

اور آپ انہیں آدم کے بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہ ہوئی تو اس نے کہا: میں تجھے

____________________

۱: سوره مائدہ ۲۷ ـ ۳۰۔

۴۵

ضرور قتل کروں گا، (پہلے نے)کہا: اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھانے والا نہیں ہوں، میں تو عالمین کے پروردگار اللہ سے ڈرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اپنے گناہ میں تم ہی پکڑے جاؤ اور دوزخی بن کر رہ جاؤ اور ظالموں کی یہی سزا ہے ۔چنانچہ اس کے نفس نے اس کے بھائی کے قتل کی ترغیب دی اور اسے قتل کر ہی دیا، پس وہ خسارہ اٹھانے والوں میں شامل ہو گیا۔

تاريخ بتاتي ہے چونکہ هابيل حضرت آدمعليه‌السلام کےوصی اور جانشین تھے ، ان کی شہادت کے بعد خلافت اور جانشینی ان کے بھائی شیث کی طرف منتقل ہوئی ۔ اور سب سے پہلے جس نے تقیہ کیا وہ حضرت شيثعليه‌السلام تھے، جنہوں نے قابیل سے تقیہ کیا کہ انہیں خدا تعالی نے علم عطا کیا تھا ۔ اگر وہ تقیہ نہ کرتے تو روئے زمین عالم دین سے خالی ہوجاتا۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ظالم کے خلاف مقاومت اور مقابلہ کرنے سے عاجز اور ناتوان هونے کی صورت میں تقیہ کرنا جائزہوتاہے ۔

اور یہ ایک فطری چیز ہے کہ حضرت ہابیل نے جو چیز انہیں خدا کی طرف سے

۴۶

عطا ہوئی تھی ، اپنے بھائی قابیل سے چھپائی ۔ اور یہ ان کا چھپانا صرف اس لئے تھا کہ حق کو نااہل لوگوں کے ہاتھ لگنے سے بچایا جائے ۔

اور یہ ایک ایسی سنت ہے جس پر سارے انبيآء ، اوليآء اور صالحين نے عمل کیا ہے ۔

طبري نے اپنی تاريخ میں روایت نقل کي ہے کہ : حضرت آدمعليه‌السلام اپنی وفات سے گیارہ دن پہلے مریض ہوئے اور اپنے بیٹے شيثعليه‌السلام کو اپنا جانشین بنانے کے بعد فرمایا: میرا یہ وصیت نامہ قابیل سے چھپائے رکھنا۔(۱)

حضرت ابراهيمؑ او رتقيه

ابراهيم خليل اللہ نے بت پرستوں اورمشركوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا ؛ یہاں تک کہ ان کی قوم انہیں آگ میں جلانے کے لئے تیار ہوگئ ۔ قرآن اس واقعے

____________________

۱: التقيه في فقه اهل البيتعليه‌السلام ، ج۱ ، ص ۱۵۔

۴۷

کو یوں بیان فرما رہا ہے :

( وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِه عَالِمِينَ إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مّبِينٍ قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَى ذَلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ وَتَاللهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ قَالُوا مَن فَعَلَ هَذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيم قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُو نَ قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ فَرَجَعُوا إِلَى أَنفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ ثُمَّ نُكِسُوا عَلَى رُؤُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاءيَنطِقُونَ ) ۔(۱)

____________________

۱:۔ انبياء /۵۱ ـ۶۵ ۔

۴۸

اور بہ تحقیق ہم نے ابراہیمعليه‌السلام کو پہلے ہی سے عقل کامل عطا کی تھی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے ،جب انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے گرد تم جمے رہتے ہو؟

کہنے لگے: ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے پایاہے۔

ابراہیمعليه‌السلام نے کہا: یقینا تم خود اور تمہارے باپ دادا بھی واضح گمراہی میں مبتلا ہیں۔

وہ کہنے لگے : کیا آپ ہمارے پاس حق لے کر آئے ہیں یا بیہود ہ گوئی کر رہے ہیں؟

ابراہیمعليه‌السلام نے کہا: بلکہ تمہارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور میں اس بات کے گواہوں میں سے ہوں۔ اور اللہ کی قسم! جب تم یہاں سے پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے ان بتوں کی خبر لینے کی تدبیر ضرور سوچوں گا۔ چنانچہ ابراہیم نے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا سوائے ان کے بڑے (بت) کے تاکہ و ہ اس کی طرف رجوع کریں۔

وہ کہنے لگے: جس نے ہمارے معبودوں کا یہ حال کیا ہے یقینا وہ ظالموں میں سے ہے۔

کچھ نے کہا: ہم نے ایک جوان کو ان بتوں کا (برے الفاظ میں) ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں۔ کہنے لگے: اسے سب کے سامنے پیش کرو تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں۔

۴۹

کہا :اے ابراہیم! کیا ہمارے معبودوں کا یہ حال تم نے کیا ہے ؟

ابراہیمعليه‌السلام نے کہا: بلکہ ان کے اس بڑے (بت )نے ایسا کیا ہے سو ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں۔

(یہ سن کر) وہ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور کہنے لگے : حقیقتاً تم خود ہی ظالم ہو۔ پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے ہو گئے اور (ابراہیم ) سے کہا: تم جانتے ہو یہ نہیں بولتے ۔

بخاري روايت کرتا ہے : حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے تین جھوٹ بولے: اس میں سے دو خدا کی ذات کے بارے میں «قوله اني سقيم» اور« بل فعله كبير هم» تیسرا جھوٹ اپنی بیوی سارہ کے بارے میں ، جو خوبصورت تھی ، اور فرعون کو کسی نے ان کی لالچ دی تھی ۔ فرعون نے حضرت ابراہیمعليه‌السلام کو اپنے دربار میں بلاکر کہا : یہ جو تمہارے ساتھ آئی ہے وہ کون ہے ؟

تو آپ نے جواب دیا : یہ میری بہن ہے ۔ اور ادھر سارا سے بھی کہہ رکھا تھا کہ تم بھی میری بات کی تائید کرنا ،جبکہ خود ان کی بیوی تھیں ۔حضرت ابراہیمعليه‌السلام کا تقیہ

۵۰

کرنے کا سبب یہی تھا کہ اپنی جان بچائی جائے ،کیونکہ فرعون ابراہیمعليه‌السلام کو قتل کرنا چاہتا تھا تاکہ ان کی زوجہ کو اپنے عقد میں لے لے۔

حضرت يوسفعليه‌السلام اور تقيه

حضرت يوسفعليه‌السلام کا واقعه بہت طولاني اور معروف ہے ، اس لئے خلاصه كلام بيان کروں گا وہ یوں ہے فرمایا :

( فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ ) ۔(۱)

اس کے بعد جب یوسف نے ان کا سامان تیار کرادیا تو پیالہ کو اپنے بھائی کے سامان میں رکھوادیا اس کے بعد منادی نے آواز دی کہ قافلے والو تم سب چور ہو۔

اسی سے استدلال کرتے هوئے امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا :

التقيه من دين الله قلت:من دين الله؟ قال :اي والله من دين الله لقد قال يوسف : ايتها العير انكم

____________________

۱: سوره يوسف/۷۰۔

۵۱

لسارقون والله ما كانوا سرقوا شی ۔(۱)

تقیہ دین خدا میں سے ہے ، میں نے سوال کیا: کیا دین خدا میں سے ہے ؟تو فرمایا: ہاں خدا کی قسم ؛دین خدا میں سے ہے بے شک یوسف پیغمبر نے فرمایا: اے قافلہ والو! بیشک تم لوگ چور ہو ؛ حالانکہ خدا کی قسم انہوں نے کوئی چوری نہیں کی تھی ۔

دوسری جگہ اس روایت کی تفصیل کچھ یوں بتائی گئی ہے:

عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع فِي قَوْلِ يُوسُفَ ع- أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ‏ فَقَالَ وَ اللَّهِ مَا سَرَقُوا وَ مَا كَذَبَ ‏۔(۲)

وَ قَالَ إِبْرَاهِيمُ ع- بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ‏ هذا فَسْئَلُوهُمْ‏ إِنْ كانُوا يَنْطِقُونَ‏ فَقَالَ وَ اللَّهِ مَا فَعَلُوا وَ مَا كَذَبَ قَالَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع مَا عِنْدَكُمْ فِيهَا يَا صَيْقَلُ قَالَ فَقُلْتُ مَا عِنْدَنَا فِيهَا إِلَّا التَّسْلِيمُ قَالَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ أَحَبَّ اثْنَيْنِ وَ أَبْغَضَ اثْنَيْنِ أَحَبَّ الْخَطَرَ فِيمَا بَيْنَ الصَّفَّيْنِ وَ أَحَبَّ الْكَذِبَ فِي الْإِصْلَاحِ وَ أَبْغَضَ الْخَطَرَ فِي الطُّرُقَاتِ‏ وَ أَبْغَضَ الْكَذِبَ فِي غَيْرِ الْإِصْلَاحِ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ ع إِنَّمَا قَالَ- بَلْ فَعَلَهُ

____________________

۱: تاريخ الامر والملوك،ج۱،ص۱۷۱۔

۲:الكافي (ط - الإسلامية) ؛ ج‏۲ ؛ ص۳۴۲۔

۵۲

كَبِيرُهُمْ هذا إِرَادَةَ الْإِصْلَاحِ وَ دَلَالَةً عَلَى أَنَّهُمْ لَا يَفْعَلُونَ وَ قَالَ يُوسُفُ ع إِرَادَةَ الْإِصْلَاحِ .(۱)

حسن صیقل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ: "ہمیں حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت بیان کی گئی ہے جب یوسف علیہ السلام کی طرف سے کہا گیا کہ "اے قافلہ والو! تم لوگ ضرور چور ہو" (یوسف/ ۷۰) اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟" کیونکہ امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا: "بخدا! نہ تو انہوں نے پیمانہ چرایا تھا اور نہ ہی یوسف علیہ السلام نے جھوٹ بولا تھا" اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کے بارے میں فرمایا: "بلکہ یہ کام بڑے بت نے کیا ہے، اگر وہ بول سکتے ہیں تو ان سے پوچھ لو اس بارے میں بھی امام علیہ السلام نے فرمایا: "خدا کی قسم! نہ تو بتوں نے یہ کام کیا تھا اور نہ ہی ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ بولا تھا" اس پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "صیقل ! اس بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو؟" صیقل نے کہا: "ہمارے پاس تو سرِ تسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کچھ

____________________

۱:. كلينى، محمد بن يعقوب، الكافي (ط - الإسلامية) ، ج‏۲، ص: ۳۴۲- تهران، چاپ: چهارم، ۱۴۰۷ ق.

۵۳

نہیں ہے امام علیہ السلام نے فرمایا: "ابراہیم علیہ السلام نے جو یہ کہا تھا اس سے ان کی مراد اصلاح کرنا تھی اور اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ بت کوئی کام نہیں کر سکتے۔ اور اگر یوسف علیہ السلام نے ایسا کہا تھا تو بھی اس سے ان کی مراد اصلاح کرنے کی تھی اور یہ بتانا تھا کہ برادران نے یوسف علیہ السلام کو چرایا تھا۔

پس معلوم ہوا اگر چہ فرمان امام سے واضح ہوا کہ حضرت یوسف اور حضرت ابراہیم علیہم السلام ن جھوٹ نہیں بولا ہے، اور اگر جھوٹ بھی مان لئےجائیں لوگوں کی اصلاح کی خاطر کہا تھا، اور اصلاح کی خاطر جھوٹ بولنا خدا کے نزدیک فساد پھیلانے والے سچ سے افضل ہے، اور جائز ہے۔

حضرت موسیعليه‌السلام اورتقيه

قرآن كريم نے حضرت موسیعليه‌السلام کی شجاعت کے بارے میں کئی دفعہ اشارہ کیا ہے کہ کس طرح فرعون کے ساتھ روبرو ہوئے ، حضرت موسیعليه‌السلام کو بہت سے پیغمبروں پر فضیلت حاصل ہے :

( تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُم

۵۴

مَّن كَلَّمَ اللّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ) ۔(۱)

یہ سب رسول وہ ہیں جن میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے خدا نے کلام کیا ہے اور بعض کے درجات بلند کئے ہیں ۔

حضرت موسیعليه‌السلام نے ان تمام شجاعتوں اور فضیلتوں کے باوجود اپنی زندگی میں کئی موقعوں پر لوگوں کو رسالت کی تبلیغ کے دوران تقیہ کیا ہے ۔اور یہ تقیہ اپنی جان کے خوف سے نہیں بلکہ باطل کا حق پر غلبہ پانے کے خوف سے کیا ہے ۔جب خدا نے موسي اور هارونعليه‌السلام کو حکم دیا :

( اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى ) ۔(۲)

"تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے ۔ اس سے نرمی سے بات کرنا کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا خوف زدہ ہوجائے "۔

____________________

۱: سوره بقره۲۵۳۔

۲: سوره طه۴۳،۴۴۔

۵۵

اورفرعون کے ساتھ نرم اور میٹھی زبان میں بات کرنا اور اعلان جنگ نہ کرنا ، جبکہ وہ طغیان اور نافرمانی کے عروج پر تھا ؛ ایک قسم کا تقیہ ہے ۔البتہ یہ تقیہ مداراتی تھا نہ خوفی لیکن اصحاب موسیعليه‌السلام کے بارے میں قرآن مجيد اشاره کرتا ہے :

( إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ) ۔(۱)

"فرعون نے روئے زمین پر بلندی اختیار کی اور اس نے اہلِ زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا کہ ایک گروہ نے دوسرے کو بالکل کمزور بنادیا وہ لڑکوں کو ذبح کردیا کرتا تھا اور عورتوں کو زندہ رکھا کرتا تھا۔ وہ یقینا مفسدین میں سے تھا"

یہ خوف لوگوں کا تھا نہ اپنی جان کا ۔لیکن ولادت حضرت موسیعليه‌السلام کے بارے میں قرآن کہہ رہا ہے کہ جنہوں نے حضرت موسیعليه‌السلام کی دعوت قبول کرلی تھی ، اپنے ایمان کو دلوں میں چھپائے ہوئے تھے ، جب تک موسیعليه‌السلام نے علیٰ الاعلان دعوت کرنا شروع کیا ۔

_________________

۱: ۔ سورہ قصص ۴۔

۵۶

تاریخ میں آپ کے بعض اصحاب اور مؤمنوں کی تاریخ کو قرآن نے ثبت کیا ہے ؛ جو درج ذیل ہیں :

مؤمن آل فرعون اور تقيه

قرآن فرما رہا ہے :

( وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللهُ وَقَدْ جَاءكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّه لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ) ۔(۱)

" اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا ،یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے اور

____________________

۱: غافر۲۸ ۔

۵۷

اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے"

ابن كثيرلکھتا ہے : یہ فرعون کا چچا زاد بھائی تھا اوراس نے اپنا ایمان اپنی قوم سے چھپا رکھا تھا ۔ جن کے نام میں مورخین نے اختلاف کیا ہے ؛ کسی نے کہا آپ کا نام شمعان تھا ، کسی نے کہا حزقیل تھا ۔بہر حال جب فرعون نے حضرت موسیعليه‌السلام کے قتل کا ارادہ کیا اور اپنے حواریوں سے مشاورت کرنے لگا ، تو مؤمن اس ناپاک سازش سے آگاہ ہو ا اورسخت فکر مند ہوا ،اور فرعون کو یوں مشوره دیا :

( وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ ءَالِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلاً أَن يَقُولَ رَبىّ‏َِ اللهُ ) ؟ !

"اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے "

۵۸

:( قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى ) ‏۔(۱)

" فرعون نے کہا کہ میں تمہیں وہی باتیں بتارہا ہوں جو میں خود سمجھ رہا ہوں "

ثعلبي نے لکھا ہے اس شخص کا نام حزقیل ہے اور یہ اصحاب فرعون میں سے تھااور وہی ترکھان تھا جس نے حضرت موسیعليه‌السلام کی ماں کیلئے وہی صندوق بنا کر دیا تھا جس میں ڈال کر موسیٰ کو دریائے نیل میں ڈال دیا گیا تھا ۔

قَالَ الصادق عليه‌السلام :إِنَّ مَثَلَ أَبِي طَالِبٍ مَثَلُ أَصْحَابِ الْكَهْفِ أَسَرُّوا الْإِيمَانَ وَ أَظْهَرُوا الشِّرْكَ فَآتَاهُمُ اللهُ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ ۔(۲)

امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا: "بے شک ابوطالب کی مثال اصحاب کہف کی مثال ہے ، انہوں نے اپنا ایمان چھپائے رکھا اور شرک کا اظہار کیا ، خدا تعالیٰ انہیں قیامت کے دن دو دفعہ ثواب عطا کریگا "

____________________

۱: غافر۲۹ ۔

۲: الكافي باب مولد النبي ص و وفاته‏،ج ۱، ص ۴۴۸۔

۵۹

امام حسن العسکریعليه‌السلام نے فرمایا:ان ابا طالب كمؤمن آل فرعون يكتم ايمانه ۔(۱) فرماتے ہیں : حضرت ابوطالب نےبھی مؤمن آل فرعون کی طرح اپنا ایما ن کفار قریش سے چھپا رکھا تھا ۔

آسيه بنت مزاحم اور تقيه

آپ فرعون کی بیوی ہیں قرآن نے آپ کے بارے میں فرمایا:

( وَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبّ‏ ابْنِ لىِ عِندَكَ بَيْتًا فىِ الْجَنَّةِ وَ نجَّنىِ مِن فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ وَ نجَّنىِ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ) ۔(۲)

" اور خدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے کہ اس نے دعا کی کہ پروردگار !میرے لئے جنّت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے کاروبار سے نجات دلادے اور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطا کردے"

____________________

۱: وسائل الشيعه ،ج۱۱، ص ۸۳۔

۲: سوره تحريم ۱۱۔

۶۰