تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں17%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86691 / ڈاؤنلوڈ: 3147
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

مکان میں جائز اور مطلوب ہے ۔جہاں باطل اور ناجائز کاموں کا اظہار کرنا جائز ہو ؛ صرف وهاں تقيه کرسکتا هے۔ اسی لئے تقیہ کے شرائط اور اسباب کچھ اس طرح تنظیم ہوئےہیں کہ اس کام کا باطل اور قبیح ہونا باقی نہ رہے۔ شيخ الطائفه( طوسي) اپنے استاد سيدمرتضي سے فعل قبیح کے مرتکب ہونے کے لئے تین شرائط نقل کرتے ہیں:

۱. اپنی جان کیلئے خطرہ ہو ، یعنی اگر اس قبیح فعل کو انجام نہ دے تو جان سے ماردینے کا خطرہ ہو ۔

۲. اس باطل فعل کے انجام دینے کے سوا کوئی اور چارہ نہ ہو ۔

۳. قبیح فعل کے انجام دینے پر مجبورکيا جارها ہو ۔

اگر یہ تین شرطيں موجود ہو تو اس کام کی قباحت بھی دور ہوجاتی ہے ۔(۱)

____________________

۱: يزدي ،دكتر محمود؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي ۔

۴۱

دوسری فصل

تقیہ تاریخ کے آئینے میں

۴۲

دوسری فصل : تقيه تاريخ کے آئینے میں

الف:ظهوراسلام سے پهلے تقیہ

تقیہ کا مفہوم بہت وسیع ہے اس لئے اسے زندگی کے صرف ایک حصّے سے مخصوص نہیں کياجاسکتا ۔بلکہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ تاريخی اعتبار سے تقيه کی ضرورت انسان کو اس وقت محسوس ہوتی ہے ،جب وہ اپنے آپ کو دشمن کے سامنے عاجز محسوس کرے ۔ اور یہ عاجزی انسان میں گاہ بہ گاہ خوف کا احساس پیدا کرنے لگتی ہے ۔ اور یہ ایک طبیعی چيز ہے کہ انسان اس خوف و ہراس کو اپنے سے دور کرنے کی فکر کرے ۔اور اس طبیعی امر میں تمام عالم بشریت حتی تمام ذی روح "حیوانات" بھی شریک ہیں۔

۴۳

خواہ یہ خوف و ہراس بھوک اور پیاس کی شکل میں ہو یا گرمی ، سردی اور بیماری کی شکل میں ہو ؛ انسان اس خوف سے بچنے کیلئے کوئی نہ کوئی راہ پیدا کر لیتا ہے ۔ لیکن ان حالات میں جنگ و جدال کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ہاں غیر طبیعی خطرات اور مشکلات کے موقع پر جیسے اپنے کسی مسلمان بھائی پر ظلم وستم کو روکنے کا سبب هو تو تقیہ کرنا بهترہے ۔

اس فصل ميں هم بهت هي اختصار کے ساتھ انبياء اوراولياءالهي نے جهاں جهاں تقيه کئے هيں ؛ ان موارد کو بيان کريں گے :

۴۴

حضرت آدمعليه‌السلام اور تقيه

سب سے پہلی جو سزا اپنے بھائی کے حسد اور دشمنی کی بنا پر قتل کرنے کی وجہ سے ملی وہ حضرت آدم کے زمانےمیں انہی کے بیٹے کو ملی۔قرآن اس واقعے کو کچھ یوں بیان فرما رہا ہے :

( وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَاْ بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لَأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ إِنِّي أُرِيدُ أَن تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِكَ جَزَاء الظَّالِمِينَ فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ ) (۱)

اور آپ انہیں آدم کے بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہ ہوئی تو اس نے کہا: میں تجھے

____________________

۱: سوره مائدہ ۲۷ ـ ۳۰۔

۴۵

ضرور قتل کروں گا، (پہلے نے)کہا: اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھانے والا نہیں ہوں، میں تو عالمین کے پروردگار اللہ سے ڈرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اپنے گناہ میں تم ہی پکڑے جاؤ اور دوزخی بن کر رہ جاؤ اور ظالموں کی یہی سزا ہے ۔چنانچہ اس کے نفس نے اس کے بھائی کے قتل کی ترغیب دی اور اسے قتل کر ہی دیا، پس وہ خسارہ اٹھانے والوں میں شامل ہو گیا۔

تاريخ بتاتي ہے چونکہ هابيل حضرت آدمعليه‌السلام کےوصی اور جانشین تھے ، ان کی شہادت کے بعد خلافت اور جانشینی ان کے بھائی شیث کی طرف منتقل ہوئی ۔ اور سب سے پہلے جس نے تقیہ کیا وہ حضرت شيثعليه‌السلام تھے، جنہوں نے قابیل سے تقیہ کیا کہ انہیں خدا تعالی نے علم عطا کیا تھا ۔ اگر وہ تقیہ نہ کرتے تو روئے زمین عالم دین سے خالی ہوجاتا۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ظالم کے خلاف مقاومت اور مقابلہ کرنے سے عاجز اور ناتوان هونے کی صورت میں تقیہ کرنا جائزہوتاہے ۔

اور یہ ایک فطری چیز ہے کہ حضرت ہابیل نے جو چیز انہیں خدا کی طرف سے

۴۶

عطا ہوئی تھی ، اپنے بھائی قابیل سے چھپائی ۔ اور یہ ان کا چھپانا صرف اس لئے تھا کہ حق کو نااہل لوگوں کے ہاتھ لگنے سے بچایا جائے ۔

اور یہ ایک ایسی سنت ہے جس پر سارے انبيآء ، اوليآء اور صالحين نے عمل کیا ہے ۔

طبري نے اپنی تاريخ میں روایت نقل کي ہے کہ : حضرت آدمعليه‌السلام اپنی وفات سے گیارہ دن پہلے مریض ہوئے اور اپنے بیٹے شيثعليه‌السلام کو اپنا جانشین بنانے کے بعد فرمایا: میرا یہ وصیت نامہ قابیل سے چھپائے رکھنا۔(۱)

حضرت ابراهيمؑ او رتقيه

ابراهيم خليل اللہ نے بت پرستوں اورمشركوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا ؛ یہاں تک کہ ان کی قوم انہیں آگ میں جلانے کے لئے تیار ہوگئ ۔ قرآن اس واقعے

____________________

۱: التقيه في فقه اهل البيتعليه‌السلام ، ج۱ ، ص ۱۵۔

۴۷

کو یوں بیان فرما رہا ہے :

( وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِه عَالِمِينَ إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مّبِينٍ قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَى ذَلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ وَتَاللهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ قَالُوا مَن فَعَلَ هَذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيم قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُو نَ قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ فَرَجَعُوا إِلَى أَنفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ ثُمَّ نُكِسُوا عَلَى رُؤُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاءيَنطِقُونَ ) ۔(۱)

____________________

۱:۔ انبياء /۵۱ ـ۶۵ ۔

۴۸

اور بہ تحقیق ہم نے ابراہیمعليه‌السلام کو پہلے ہی سے عقل کامل عطا کی تھی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے ،جب انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے گرد تم جمے رہتے ہو؟

کہنے لگے: ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے پایاہے۔

ابراہیمعليه‌السلام نے کہا: یقینا تم خود اور تمہارے باپ دادا بھی واضح گمراہی میں مبتلا ہیں۔

وہ کہنے لگے : کیا آپ ہمارے پاس حق لے کر آئے ہیں یا بیہود ہ گوئی کر رہے ہیں؟

ابراہیمعليه‌السلام نے کہا: بلکہ تمہارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور میں اس بات کے گواہوں میں سے ہوں۔ اور اللہ کی قسم! جب تم یہاں سے پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے ان بتوں کی خبر لینے کی تدبیر ضرور سوچوں گا۔ چنانچہ ابراہیم نے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا سوائے ان کے بڑے (بت) کے تاکہ و ہ اس کی طرف رجوع کریں۔

وہ کہنے لگے: جس نے ہمارے معبودوں کا یہ حال کیا ہے یقینا وہ ظالموں میں سے ہے۔

کچھ نے کہا: ہم نے ایک جوان کو ان بتوں کا (برے الفاظ میں) ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں۔ کہنے لگے: اسے سب کے سامنے پیش کرو تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں۔

۴۹

کہا :اے ابراہیم! کیا ہمارے معبودوں کا یہ حال تم نے کیا ہے ؟

ابراہیمعليه‌السلام نے کہا: بلکہ ان کے اس بڑے (بت )نے ایسا کیا ہے سو ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں۔

(یہ سن کر) وہ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور کہنے لگے : حقیقتاً تم خود ہی ظالم ہو۔ پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے ہو گئے اور (ابراہیم ) سے کہا: تم جانتے ہو یہ نہیں بولتے ۔

بخاري روايت کرتا ہے : حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے تین جھوٹ بولے: اس میں سے دو خدا کی ذات کے بارے میں «قوله اني سقيم» اور« بل فعله كبير هم» تیسرا جھوٹ اپنی بیوی سارہ کے بارے میں ، جو خوبصورت تھی ، اور فرعون کو کسی نے ان کی لالچ دی تھی ۔ فرعون نے حضرت ابراہیمعليه‌السلام کو اپنے دربار میں بلاکر کہا : یہ جو تمہارے ساتھ آئی ہے وہ کون ہے ؟

تو آپ نے جواب دیا : یہ میری بہن ہے ۔ اور ادھر سارا سے بھی کہہ رکھا تھا کہ تم بھی میری بات کی تائید کرنا ،جبکہ خود ان کی بیوی تھیں ۔حضرت ابراہیمعليه‌السلام کا تقیہ

۵۰

کرنے کا سبب یہی تھا کہ اپنی جان بچائی جائے ،کیونکہ فرعون ابراہیمعليه‌السلام کو قتل کرنا چاہتا تھا تاکہ ان کی زوجہ کو اپنے عقد میں لے لے۔

حضرت يوسفعليه‌السلام اور تقيه

حضرت يوسفعليه‌السلام کا واقعه بہت طولاني اور معروف ہے ، اس لئے خلاصه كلام بيان کروں گا وہ یوں ہے فرمایا :

( فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ ) ۔(۱)

اس کے بعد جب یوسف نے ان کا سامان تیار کرادیا تو پیالہ کو اپنے بھائی کے سامان میں رکھوادیا اس کے بعد منادی نے آواز دی کہ قافلے والو تم سب چور ہو۔

اسی سے استدلال کرتے هوئے امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا :

التقيه من دين الله قلت:من دين الله؟ قال :اي والله من دين الله لقد قال يوسف : ايتها العير انكم

____________________

۱: سوره يوسف/۷۰۔

۵۱

لسارقون والله ما كانوا سرقوا شی ۔(۱)

تقیہ دین خدا میں سے ہے ، میں نے سوال کیا: کیا دین خدا میں سے ہے ؟تو فرمایا: ہاں خدا کی قسم ؛دین خدا میں سے ہے بے شک یوسف پیغمبر نے فرمایا: اے قافلہ والو! بیشک تم لوگ چور ہو ؛ حالانکہ خدا کی قسم انہوں نے کوئی چوری نہیں کی تھی ۔

دوسری جگہ اس روایت کی تفصیل کچھ یوں بتائی گئی ہے:

عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع فِي قَوْلِ يُوسُفَ ع- أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ‏ فَقَالَ وَ اللَّهِ مَا سَرَقُوا وَ مَا كَذَبَ ‏۔(۲)

وَ قَالَ إِبْرَاهِيمُ ع- بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ‏ هذا فَسْئَلُوهُمْ‏ إِنْ كانُوا يَنْطِقُونَ‏ فَقَالَ وَ اللَّهِ مَا فَعَلُوا وَ مَا كَذَبَ قَالَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع مَا عِنْدَكُمْ فِيهَا يَا صَيْقَلُ قَالَ فَقُلْتُ مَا عِنْدَنَا فِيهَا إِلَّا التَّسْلِيمُ قَالَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ أَحَبَّ اثْنَيْنِ وَ أَبْغَضَ اثْنَيْنِ أَحَبَّ الْخَطَرَ فِيمَا بَيْنَ الصَّفَّيْنِ وَ أَحَبَّ الْكَذِبَ فِي الْإِصْلَاحِ وَ أَبْغَضَ الْخَطَرَ فِي الطُّرُقَاتِ‏ وَ أَبْغَضَ الْكَذِبَ فِي غَيْرِ الْإِصْلَاحِ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ ع إِنَّمَا قَالَ- بَلْ فَعَلَهُ

____________________

۱: تاريخ الامر والملوك،ج۱،ص۱۷۱۔

۲:الكافي (ط - الإسلامية) ؛ ج‏۲ ؛ ص۳۴۲۔

۵۲

كَبِيرُهُمْ هذا إِرَادَةَ الْإِصْلَاحِ وَ دَلَالَةً عَلَى أَنَّهُمْ لَا يَفْعَلُونَ وَ قَالَ يُوسُفُ ع إِرَادَةَ الْإِصْلَاحِ .(۱)

حسن صیقل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ: "ہمیں حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت بیان کی گئی ہے جب یوسف علیہ السلام کی طرف سے کہا گیا کہ "اے قافلہ والو! تم لوگ ضرور چور ہو" (یوسف/ ۷۰) اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟" کیونکہ امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا: "بخدا! نہ تو انہوں نے پیمانہ چرایا تھا اور نہ ہی یوسف علیہ السلام نے جھوٹ بولا تھا" اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کے بارے میں فرمایا: "بلکہ یہ کام بڑے بت نے کیا ہے، اگر وہ بول سکتے ہیں تو ان سے پوچھ لو اس بارے میں بھی امام علیہ السلام نے فرمایا: "خدا کی قسم! نہ تو بتوں نے یہ کام کیا تھا اور نہ ہی ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ بولا تھا" اس پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "صیقل ! اس بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو؟" صیقل نے کہا: "ہمارے پاس تو سرِ تسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کچھ

____________________

۱:. كلينى، محمد بن يعقوب، الكافي (ط - الإسلامية) ، ج‏۲، ص: ۳۴۲- تهران، چاپ: چهارم، ۱۴۰۷ ق.

۵۳

نہیں ہے امام علیہ السلام نے فرمایا: "ابراہیم علیہ السلام نے جو یہ کہا تھا اس سے ان کی مراد اصلاح کرنا تھی اور اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ بت کوئی کام نہیں کر سکتے۔ اور اگر یوسف علیہ السلام نے ایسا کہا تھا تو بھی اس سے ان کی مراد اصلاح کرنے کی تھی اور یہ بتانا تھا کہ برادران نے یوسف علیہ السلام کو چرایا تھا۔

پس معلوم ہوا اگر چہ فرمان امام سے واضح ہوا کہ حضرت یوسف اور حضرت ابراہیم علیہم السلام ن جھوٹ نہیں بولا ہے، اور اگر جھوٹ بھی مان لئےجائیں لوگوں کی اصلاح کی خاطر کہا تھا، اور اصلاح کی خاطر جھوٹ بولنا خدا کے نزدیک فساد پھیلانے والے سچ سے افضل ہے، اور جائز ہے۔

حضرت موسیعليه‌السلام اورتقيه

قرآن كريم نے حضرت موسیعليه‌السلام کی شجاعت کے بارے میں کئی دفعہ اشارہ کیا ہے کہ کس طرح فرعون کے ساتھ روبرو ہوئے ، حضرت موسیعليه‌السلام کو بہت سے پیغمبروں پر فضیلت حاصل ہے :

( تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُم

۵۴

مَّن كَلَّمَ اللّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ) ۔(۱)

یہ سب رسول وہ ہیں جن میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے خدا نے کلام کیا ہے اور بعض کے درجات بلند کئے ہیں ۔

حضرت موسیعليه‌السلام نے ان تمام شجاعتوں اور فضیلتوں کے باوجود اپنی زندگی میں کئی موقعوں پر لوگوں کو رسالت کی تبلیغ کے دوران تقیہ کیا ہے ۔اور یہ تقیہ اپنی جان کے خوف سے نہیں بلکہ باطل کا حق پر غلبہ پانے کے خوف سے کیا ہے ۔جب خدا نے موسي اور هارونعليه‌السلام کو حکم دیا :

( اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى ) ۔(۲)

"تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے ۔ اس سے نرمی سے بات کرنا کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا خوف زدہ ہوجائے "۔

____________________

۱: سوره بقره۲۵۳۔

۲: سوره طه۴۳،۴۴۔

۵۵

اورفرعون کے ساتھ نرم اور میٹھی زبان میں بات کرنا اور اعلان جنگ نہ کرنا ، جبکہ وہ طغیان اور نافرمانی کے عروج پر تھا ؛ ایک قسم کا تقیہ ہے ۔البتہ یہ تقیہ مداراتی تھا نہ خوفی لیکن اصحاب موسیعليه‌السلام کے بارے میں قرآن مجيد اشاره کرتا ہے :

( إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ) ۔(۱)

"فرعون نے روئے زمین پر بلندی اختیار کی اور اس نے اہلِ زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا کہ ایک گروہ نے دوسرے کو بالکل کمزور بنادیا وہ لڑکوں کو ذبح کردیا کرتا تھا اور عورتوں کو زندہ رکھا کرتا تھا۔ وہ یقینا مفسدین میں سے تھا"

یہ خوف لوگوں کا تھا نہ اپنی جان کا ۔لیکن ولادت حضرت موسیعليه‌السلام کے بارے میں قرآن کہہ رہا ہے کہ جنہوں نے حضرت موسیعليه‌السلام کی دعوت قبول کرلی تھی ، اپنے ایمان کو دلوں میں چھپائے ہوئے تھے ، جب تک موسیعليه‌السلام نے علیٰ الاعلان دعوت کرنا شروع کیا ۔

_________________

۱: ۔ سورہ قصص ۴۔

۵۶

تاریخ میں آپ کے بعض اصحاب اور مؤمنوں کی تاریخ کو قرآن نے ثبت کیا ہے ؛ جو درج ذیل ہیں :

مؤمن آل فرعون اور تقيه

قرآن فرما رہا ہے :

( وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللهُ وَقَدْ جَاءكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّه لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ) ۔(۱)

" اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا ،یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے اور

____________________

۱: غافر۲۸ ۔

۵۷

اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے"

ابن كثيرلکھتا ہے : یہ فرعون کا چچا زاد بھائی تھا اوراس نے اپنا ایمان اپنی قوم سے چھپا رکھا تھا ۔ جن کے نام میں مورخین نے اختلاف کیا ہے ؛ کسی نے کہا آپ کا نام شمعان تھا ، کسی نے کہا حزقیل تھا ۔بہر حال جب فرعون نے حضرت موسیعليه‌السلام کے قتل کا ارادہ کیا اور اپنے حواریوں سے مشاورت کرنے لگا ، تو مؤمن اس ناپاک سازش سے آگاہ ہو ا اورسخت فکر مند ہوا ،اور فرعون کو یوں مشوره دیا :

( وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ ءَالِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلاً أَن يَقُولَ رَبىّ‏َِ اللهُ ) ؟ !

"اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے "

۵۸

:( قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى ) ‏۔(۱)

" فرعون نے کہا کہ میں تمہیں وہی باتیں بتارہا ہوں جو میں خود سمجھ رہا ہوں "

ثعلبي نے لکھا ہے اس شخص کا نام حزقیل ہے اور یہ اصحاب فرعون میں سے تھااور وہی ترکھان تھا جس نے حضرت موسیعليه‌السلام کی ماں کیلئے وہی صندوق بنا کر دیا تھا جس میں ڈال کر موسیٰ کو دریائے نیل میں ڈال دیا گیا تھا ۔

قَالَ الصادق عليه‌السلام :إِنَّ مَثَلَ أَبِي طَالِبٍ مَثَلُ أَصْحَابِ الْكَهْفِ أَسَرُّوا الْإِيمَانَ وَ أَظْهَرُوا الشِّرْكَ فَآتَاهُمُ اللهُ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ ۔(۲)

امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا: "بے شک ابوطالب کی مثال اصحاب کہف کی مثال ہے ، انہوں نے اپنا ایمان چھپائے رکھا اور شرک کا اظہار کیا ، خدا تعالیٰ انہیں قیامت کے دن دو دفعہ ثواب عطا کریگا "

____________________

۱: غافر۲۹ ۔

۲: الكافي باب مولد النبي ص و وفاته‏،ج ۱، ص ۴۴۸۔

۵۹

امام حسن العسکریعليه‌السلام نے فرمایا:ان ابا طالب كمؤمن آل فرعون يكتم ايمانه ۔(۱) فرماتے ہیں : حضرت ابوطالب نےبھی مؤمن آل فرعون کی طرح اپنا ایما ن کفار قریش سے چھپا رکھا تھا ۔

آسيه بنت مزاحم اور تقيه

آپ فرعون کی بیوی ہیں قرآن نے آپ کے بارے میں فرمایا:

( وَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبّ‏ ابْنِ لىِ عِندَكَ بَيْتًا فىِ الْجَنَّةِ وَ نجَّنىِ مِن فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ وَ نجَّنىِ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ) ۔(۲)

" اور خدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے کہ اس نے دعا کی کہ پروردگار !میرے لئے جنّت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے کاروبار سے نجات دلادے اور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطا کردے"

____________________

۱: وسائل الشيعه ،ج۱۱، ص ۸۳۔

۲: سوره تحريم ۱۱۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

نوش فرمائي ؛اور ان کی طوفانی شهادت اور شهامت اس قدر مؤثر تھی که پورے مکه اور مدینه کے علاوه عراق میں بھی لوگوں میں انقلاب برپا کیا ؛ جسے معاویه نے کبھی سوچا بھي نه تھا ۔ اور چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی وہابی ٹولے نے ۱۴۳۴ ه میں محبت امیر المومنین ؑ کے جرم میں اس مردمؤمن کے جسم کو قبر سے نکال کر بے حرمتی کا نشانہ بنایا۔

امام حسينعليه‌السلام نے ایک پروگرام میں ، معاویه کے غیراسلامی کردار کو لوگوں پر واضح کرتے هوئے یوں بیان فرمایا :

الست قاتل حجر بن عدي اخا كنده ؛ والمصلين العابدين الذين كانوا ينكرون الظلم و يستعظمون البدع و لا يخافون في الله لومة لائم!

اے معاویه ! کیا تو وهي شخص نهیں ، جس نے قبیله کنده کےعظيم انسان (حجر بن عدی) کو نماز گزاروں کے ایک گروه کے ساتھ بے دردی سے شهید کیا ؟ ان کا جرم صرف یه تھا که وه ظلم اور ستم کے خلاف آوازاٹھاتے اور بدعتوں اور خلاف شرع کاموں سے بیزاری کا اظهار کرتے تھے، اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کی کوئی پروا نهیں کرتے

۲۶۱

تھے ؟!۔(۱)

ج:شیعوں کے تقیه سے مربوط شبهات

o تقيه شیعوں کے اصول دين میں سے ہے ۔

o تقيه شیعوں کی بدعتوں میں سے ہے ۔

o تقيه پيروي از آئمہ اطهار سے تناقض رکھتا ہے ۔

o تقيه زوال دين کاموجب ہے ۔

o فتواي امامعليه‌السلام تقيه کی صورت میں قابل تشخیص نہیں ۔

o تقيه شیعوں کا خوف اور اضطرار ی حالت ہے ۔

o تقيه کافروں کے ساتھ کیا جاتا ہے نہ مسلمانوں کے ساتھ ۔

____________________

۱ ۔مكارم شيرازي؛ تقيه مبارزه عميقتر، ص ۱۰۷۔

۲۶۲

۱۔تقيه شیعوں کی بدعت

شبهه پیدا کرنے والے کا کهنا هے که :تقیه شیعوں کی بدعت هے جو اپنے فاسد عقیدے کو چھپانے کی خاطر کرتے هیں۔(۱)

اس شبهه کا جواب یه هے که اس نے بدعت کے معنی میں غلطی کی هے ۔ جب که مفردات راغب نے بدعت کی تعریف کرتے هوئے کها هے :البدعة هي ادخال ما ليس من الدين في الدين ۔(۲) بدعت سے مراد یه هے که جوچیز دین میں نهیں، اسے دین میں داخل کرنا ۔اور گذشته مباحث سے معلوم هوا که تقیه دین کی ضروریات میں سے هے ۔ کیونکه قرآن اور احاديث آئمہعليهم‌السلام میں واضح طور پر بیان هوا هے که تقیه

____________________

۱۔ فهرست ايرادات و شبهات عليه شيعيان در هند و پاكستان، ص ۳۶۔

۲۔ راغب اصفهاني ؛ مفردات، بدع۔

۲۶۳

کو اهل تشیع اور اهل سنت دونوں مانتے هیں اور اس کے شرعی هونے کو بھی مانتے هیں ۔

لہذا ، تقیه نه بدعت هے اور نه شیعوں کا اختراع ،که جس کے ذریعے اپنا عقیده چھپایا جائے، بلکه یه الله اور رسول کا حکم هے ۔

گذشته مباحث سے معلوم هوا كه تقيه دين کاحصه هے کيونکه وه آيات جن کو شيعه حضرات اسلام کا اہم جزء جانتے هيں،ان کي مشروعيت کو ثابت کرچکے هيں اور اهل سنت نے بھي ان کي مشروع هونے کا في الجمله اعتراف کيا هے۔ اس بنا پر ، نه تقيه بدعت هے اور نه شيعوں کا اپنا عقيده چھپانے کيلئے اختراع هے۔

۲۶۴

۲۔تقيه، مكتب تشيع کا اصول دين ؟!

بعض لوگوں کا اپنے مخالفین کے خلاف مهم چلانے اور ان کو شکست دینے کیلئے جو خطرناک اور وحشنتاک راسته اختیار کرتے هیں ، ان میں سے ایک یه هے که ان کو متهم کرنا هے اور ایسی تهمتیں لگاتے هیں ، جن سے وه لوگ مبریٰ هیں ۔ اگرچه عیوب کا ذکر کرنا معیوب نهیں هے ۔

ان لوگوں میں سے ایک ابن تیمیه هے ؛ جو کهتا هے که شیعه تقیه کو اصول دین میں سے شمار کرتے هیں ۔ جبکه کسی ایک شیعه بچے سے بھی پوچھ لے تو وه بتائے گا : اصول دین پانچ هیں :

اول : توحید۔ دوم :عدل سوم: نبوت ۔چهارم:امامت ۔پنجم : معاد۔

ليکن وه اپنی كتاب منهاج السنه میں لکھتا هے : رافضي لوگ اسے اپنا اصول دین میں شمار کرتے هیں ۔ایسی باتیں یا تهمتیں لگانے کی دو هی وجه هوسکتی هیں:

۲۶۵

۱ ۔ یا وه شیعه عقائد سے بالکل بے خبر هے ؛ که هو هی نهیں سکتا ۔ کیونکه مذهب تشیع کا اتنا آسان مسئله ؛ جسے سات ساله بچه بھی جانتا هو ، ابن تیمیه اس سے بے خبر هو ۔کیونکه همارے هاں کوئی چھٹا اصل بنام تقیه موجود نهیں هے ۔

۲ ۔ یا ابن تیمیه اپنی هوا وهوس کا اسیر هوکر شیعوں کو متهم کرنے پر تلا هوا هے ۔ وه چاهتا هے که اس طریقے سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرےاوراسلام اور مسلمین کی قوت اور شان و شکوکت کو متزلزل کرے ۔

اس قسم کی بیهوده باتیں ایسے لوگوں کی خوشی کا سبب بن سکتی هیں، جو کسی بھی راستے سے شیعیان علی ابن ابی طالب کی شان شوکت کو دنیا والوں کے سامنے

۲۶۶

گھٹاتے اور لوگوں کو مکتب حقه سے دور رکھتے ۔(۱)

جب که خود اهل سنت بھی تقیه کے قائل هیں اور ان کے علماء کا اتفاق اور اجماع بھی هے ، که تقیه ضرورت کے وقت جائز هے ۔چنانچه ابن منذر لکھتا هے:

اجمعوا علي من اكره علي الكفر حتي خشي علي نفسه القتل فكفر و قلبه مطمئن بالايمان انه لا يحكم عليه بالكفر ۔(۲)

اس بات پر اجماع هے که اگر کوئی کفر کا اظهار کرنے پر مجبور هو جائے ، اور جان کا خطره هو تو ایسی صورت میں ضرور اظهار کفرکرے ۔جبکه اس کا دل ایمان سے پر هو ، تو اس پر کفر کا فتوا نهیں لگ سکتا ۔یا وه کفر کے زمرے میں داخل نهیں هوسکتا ۔

____________________

۱۔ عباس موسوي؛ پاسخ و شبهاتي پيرامون مكتب تشيع، ص۱۰۲۔

۲۔ دكترناصر بن عبدالله؛ اصول مذهب شيعه،ج ۲، ص ۸۰۷۔

۲۶۷

ابن بطال کهتا هے :واجمعوا علي من اكره علي الكفر واختار القتل انه اعظم اجرا عنداﷲ !یعنی علماء کا اجماع هے که اگر کوئی مسلمان کفر پر مجبور هوجائے ، لیکن جان دینے کو ترجیح نہ دے تو اس کے لئے الله تعالیٰ کے نزدیک بهت بڑا اجر اور ثواب هے ۔

خوداهل سنت تقيه کے جائز هونے کو قبول کرتے هیں ۔ لیکن جس معنی ٰ میں شیعه قائل هیں ، اسے نهیں مانتے ۔ ان کے نزدیک تقیه ، رخصت یا اجازت هے ، لیکن شیعوں کے نزدیک ، ارکان دین میں سے ایک رکن هے ۔ جیسے نماز۔ اور بعد میں امام صادقعليه‌السلام کی روایت کو نقل کرتے هیں، جو پیغمبر اسلام (ص) سے منسوب هے ۔قال الصادق عليه‌السلام : لو قلت له تارك التقيه كتارك الصلوة ۔ اس کے بعد کهتےهیں که شیعه صرف اس بات پر اکتفاء نهیں کرتے بلکه کهتے هیں :لا دين لمن لا تقية له ۔(۱)

____________________

۱۔ دكترناصر بن عبدالله؛ اصول مذهب شيعه،ج ۲، ص ۸۰۷۔

۲۶۸

۳۔تقيه، زوال دين کا موجب ؟!

کها جاتا هے که تقیه زوال دین اور احکام کی نابودی کا موجب بنتا هے ۔ لهذا تقیه پر عمل نهیں کرنا چاهئے ۔اور اس کو جائز نهیں سمجھنا چاهئے ۔

جواب:

تقيه ، احكام پنجگانه میں تقسيم كيا گیا هے :واجب ، حرام ، مستحب ، مكروه ، مباح۔

حرام تقيه، دین میں فساد اور ارکان اسلام کے متزلزل هونے کا سبب بنتا هے ۔ به الفاظ دیگر جوبھی اسلام کی نگاه میں جان، مال ، عزت، ناموس وغیره کی

۲۶۹

حفاظت سے زیاده مهم هو تو وهاں تقیه کرنا جائز نهیں هے ، بلکه حرام هے ۔اور شارع اقدس کا بھی یهی حکم هے ۔کیونکه عقل حکم لگاتی هے که جب بھی کوئی اهم اور مهم کے درمیان تعارض هوجائے تو اهم کو مقدم رکھاجائے ، اور اگر تقیه بھی موجب فساد یا ارکان اسلام کے متزلزل هونے کا سبب بنتا هے تو وهاں تقیه کرنا جائز نهیں هے ۔

آئمہ طاهرین سے کئی روايات هم تک پهنچی هیں که جو اس بات کی تائید کرتی هیں اور بتاتی هیں که بعض اوقات تقیه کرنا حرام هے ۔

امام صادقعليه‌السلام نےفرمایا:

فكل شيئ يعمل المؤمن بينهم لمكان التقية مما لا يؤدي الي الفساد في الدين فانّه جائز ۔(۱)

هر وه کام جو مؤمن تقیه کے طور پر انجام دیتے هیں ؛اگر دین کیلئے کوئی

____________________

۱۔ وسائل الشيعه ، ج۶، باب۲۵، ص۴۶۹۔

۲۷۰

ضرر یا نقصان بھی نه هو ،اور کوئی فساد کا باعث بھی نه هو ؛ تو جائز هے ۔

امام صادقعليه‌السلام کی اس حدیث سے معلوم هوتا هے که تقیه بطور مطلق حرام نهیں هے بلکه وه تقیه حرام هے جو زوال دین کا سبب بنتا هو ۔

لیکن وه تقیه واجب یا مباح يا مستحب هے جو زوال دین کا سبب نهیں بنتا ۔ اور یہ مکتب تشیع کا نظریہ هے ۔

۴۔امام ؑکی پيروي اور تقیه کے درميان تناقض

شبهه یہ هے که شیعه آئمہعليهم‌السلام کی پیروی کرنے کا دعویٰ کرتے هیں جبکه آئمہ طاهرین نے تقیه نہیں کیا هے ؛ جیساکہ علیعليه‌السلام نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی ، اور امام حسینعليه‌السلام نے یزید کے خلاف جهاد کیا ۔(۱)

____________________

۱۔ موسي موسوي؛ الشيعه والتصحيح، ص۶۹۔

۲۷۱

اس شبهه کا جواب :

اولاً :شیعه نظریے کے مطابق تقیه ایسے احکام میں سے نهیں که هر حالت میں جائز هو ، بلکه اسے انجام دینے کیلئے تقیه اور اظهار حق کرنے کے درمیان مصلحت سنجی کرناضروري هے که تقیه کرنے میں زیاده مصلحت هے یا تقیه کو ترک کرنے میں زیاده مصلحت هے ؟

آئمہ طاهرین بھی مصلحت سنجی کرتے اور عمل کرتے تھے۔ جیسا که اوپر کی دونوں مثالوں میں تقیه کو ترک کرنے میں زیاده مصلحت پائی جاتی تھیں لهذا دونوں اماموں ؑنے تقیه کو ترک کیا ۔ اگر امیرالمؤمنینعليه‌السلام ابوبکر کی بیعت کرتے تو ان کی خلافت کو قبول کرنا اور اپنی امامت اور خلیفہ بلافصل کا انکار کرنا ثابت ہوتاہے اسی طرح اگر امام حسینعليه‌السلام تقیه کرتےاور یزید کی بیعت کرتے تو اپنے جد امجدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین کا نام ونشان باقی نہ رہتا ، کیونکہ یزید نے منبر سے برملا کہہ دیا تھا :

لعبت بنوهاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل ۔

۲۷۲

نہ کوئی قرآن نازل ہوا ہے اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے بلکہ بنی ہاشم والوں نے حکومت کرنے کے لئے ایک کھیل کھیلا ہے ۔

ثانيا: شيعه سارے اماموںؑ کی پيروي کرنےکو واجب سمجھتے هیں ۔ اور همارے سارے آئمہؑ نے بعض جگهوں پر تقیه کیا هے اور بعض جگهوں پر تقیه کو ترک کیا هے ۔ بلکه اس سے بھی بالا تر که بعض مقامات پر تقیه کرنے کا حکم دیا هے۔ یه اس بات کی دلیل هے که ان کی زندگی میں کتنی سخت دشواریاں پیش آتی تھیں۔

ثالثاً: تقيه کے بهت سے موارد ، جهاں خود آئمہعليهم‌السلام نے تقیه کرنے کو مشروع قرار دیا هے ، جن کا تذکره گزرچکا ہے۔

رابعاً: شبهه پیدا کرنے والا خود اعتراف کررها هے که حضرت عليعليه‌السلام نے فقط چھ ماه بيعت كرنے سے انکار کیا پھر بعد میں بيعت کرلی ۔یه خود

۲۷۳

دلیل هے کہ حضرت عليعليه‌السلام کی سیرت میں بھی تقيه موجود هے ۔

۵۔تقيه اورفتواي امامعليه‌السلام کي تشخيص

اس کے بعد که قائل هوگئے كه آئمہعليهم‌السلام بھی تقیه کرتے تھے ؛ درج ذیل سوالات ، اس مطلب کی ضمن میں که اگر امامؑ حالت تقیه میں کوئی فتوا ی دیدیں، تو کیسے پهچانیں گے که تقیه کي حالت میں فتوا دے رهے هیں یا عام حالت میں ؟!

جواب:

اس کی پهچان تین طریقوں سے ممکن هے :

۱. امامؑ کا فتوی ایسے دلیل کے ساتھ بیان هوجو حالت تقیه پر دلالت کرتی هو ۔

۲. فتوای دینے سے پهلے کوئی قرینه موجود هو ، جو اس بات پر دلالت کرے

۲۷۴

که حالت تقیه میں امام ؑنےفتوی دیا هے ۔

۳. امامعليه‌السلام قرينه اور دليل کو فتوای صادر کرنے کے بعد ،بیان کریں که حالت تقیه میں مجھ سے یه فتوای صادر هوا هے ۔

۶۔ تقيه اورشیعوں کا اضطراب!

تقيه،جبن و اضطراب کادوسرا نام هے ،اور شجاعت اور بهادری کے خلاف هے۔ جس کی وجه سے اپنےقول و فعل میں، اورظاهر و باطن میں اختلاف کی صورت میں ظاهر هوتی هے ۔اور یه صفت ، رزائل اخلاقی کے آثار میں سے هے اور اس کی سخت مذمت هوئی هے؛ لهذا خود امام حسينعليه‌السلام نے كلمه حق کی راه میں تقيه کے حدود کو توڑ کر شهادت کیلئے اپنے آپ کو تیار کیا ۔(۱)

____________________

۱۔ دكتر علي سالوس؛ جامعه قطربين الشيعه و السنه،ص۹۲۔

۲۷۵

جواب:

اگرشیعوں میں نفسياتي طور پر جبن، اضطراب اور خوف پایا جاتا توظالم بادشاهوں کے ساتھ ساز باز کرتے ، اور کوئی جنگ يا جهاد کرنے کی ضرورت هی پیش نهیں آتی ۔ یه لوگ بھی درباری ملاؤں کی طرح اپنے اپنے دور کے خلیفوں کے هاں عزیز هوتے ۔اور تقیه کی ضرورت هی پیش نه آتی۔

اس سے بڑھ کر کیا کوئی شجاعت اور بهادری هے که جس دن اسلام کی رهبری اور امامت کا انتخاب هونے والاتھا ؛ اس دن لوگوں نے انحرافی راسته اپناتے هوئے نااهل افراد کو مسندخلافت پر بٹھادیا ۔ اس دن سے لیکر اب تک شیعوں کا اور شیعوں کے رهنماؤں کا یهی نعره اور شعار رها هے که هر طاغوتی طاقتوں کے ساتھ ٹکرانا هے اور مظلوموں کی حمایت کرنا هے اور اسلام سے بےگانه افراد کی سازشوں کو فاش کرنا هے ۔

اگرچه شیعه تقيه کی بنیاد پر حركت کرتے هیں ؛ لیکن جهاں بھی اس بات

۲۷۶

کی ضرورت پیش آئی که ظالم اور جابر کے خلاف آواز اٹھانا هے ؛ وهاں شیعوں نے ثابت کردیا هے که اسلام اور مسلمین اور مظلوموں کی حمایت میں اپنا خون اور اپنے عزیزوں کی جان دينے سے بھي دريغ نهيں کيا۔

شیعوں کا آئیڈیل یه هے که اسلام همیشه عظمت اور جلالت کے مسند پرقائم رهے اور امت اسلامی کے دل اور جان میں اسلام کی عظمت اور عزت باقی رهے ۔

مسلمان یه بھی یاد رکھیں! که تاریخ بشریت کا بهترین انقلاب ؛ شیعه انقلاب رها هے ۔ اور دنیا کے پاک اور شفاف ترین انقلابات ، جو منافقت ، دھوکه بازی ، مکر و فریب اور طمع و لالچ سے پاک رهیں ؛ وه شیعه انقلابات هیں جن میں مسلمان عوام اور حکومت کی عظمت اور عزت مجسم هوچکی تھی ۔اور طاغوتی طاقتوں کےمقابلے میں اس مکتب کے ماننے والوں کو عزت ملی اور شیعه، طاغوتی طاقتوں اور حکومتوں کو برکات اور خیرات کا مظهر ماننا تو درکنار ، بلکه ان کے ساتھ ساز باز کرنے سے پر هیز

۲۷۷

کرتے تھے ۔هم کچھ انقلابات کا ذکر کریں گے ، جن کو آئمہ طاهرین نے سراهتے هوئے ان کی کامیابی کے لئے دعائیں کی هیں ۔کیونکه کسی بھی قوم کی زندگی اور بقا کا راز انهی انقلابات میں هے ۔ جن میں سے بعض یه هیں:

o زيد ابن علي کا انقلاب۔

o محمد بن عبدالله کا حجازميں انقلاب۔

o ابراهيم بن عبدالله کا بصره ميں انقلاب۔

o محمد بن ابراهيم و ابو السرايا کا انقلاب۔

o محمد ديباج فرزند امام جعفر صادقعليه‌السلام کا انقلاب۔

o علي ابن محمد فرزند امام جعفر صادقعليه‌السلام کا انقلاب۔

اسی طرح دسیوں اور انقلابات هیں ، که جن کی وجه سے عوام میں انقلاب اورشعور پید ا

۲۷۸

هوگیا هے ۔ اور پوری قوم کی ضمیر اور وجدان کو جگایا هے ۔(۱)

امامان معصوم ان انقلابات کو مبارک اور خیر وبرکت کا باعث سمجھتے تھے ۔اور ان سپه سالاروں کي تشویق کرتے تھے ۔راوي کهتا هے :

فَدَخَلْنَا عَلَى الصَّادِقِ وَ دَفَعْنَا إِلَيْهِ الْكِتَابَ فَقَرَأَ وَ بَكَى ثُمَّ قَالَ إِنَّا للهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ عِنْدَ اللهِ أَحْتَسِبُ عَمِّي إِنَّهُ كَانَ نِعْمَ الْعَمُّ إِنَّ عَمِّي كَانَ رَجُلًا لِدُنْيَانَا وَ آخِرَتِنَا مَضَى وَ اللهِ عَمِّي شَهِيداً كَشُهَدَاءَ اسْتُشْهِدُوا مَعَ رَسُولِ اللهِ وَ عَلِيٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ ۔(۲)

جب امام صادقعليه‌السلام کو زیدابن علی کی شهادت کی خبر ملی تو کلمہ استرجاع کے بعد فرمایا :میرے چچا واقعاً بهترین اور عزیز ترین چچا هیں ۔ اور همارے لئے دنیا اور آخرت دونوں میں چاهنے والے هیں ۔ خدا کی قسم ! میرے چچا ایسے شهید هوئے

____________________

۱ ۔ علي عباس موسوي؛ پاسخ شبهاتي پيرامون مكتب تشيع ، ص۹۷۔

۲ ۔ بحارالأنوار ، ج ۴۶،ص ۱۷۵ باب ۱۱- أحوال أولاده و أزواجه ۔

۲۷۹

هیں ، جیسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علی اور حسین کےرکاب ميں شہید هوچکے هوں ۔خدا کی قسم ! انہوں نے شهادت نوش فرمائی هے ۔

ایسے کلمات آئمہ معصومین سے صادر هوئے هیں ، اور یه بهت دقیق تعبیر یں هیں که جو شیعه تفکر کی عکاسی کرتی هیں که هر ظالم و جابر حکمران کو غاصب مانتے تھے ۔اور هر حاکم ، شیعه کو اپنے لئے سب سے بڑا خطر ه جانتے تھے ۔

هم زیاده دور نهیں جاتے ، بلکه اسی بیسویں صدی کا انقلاب اسلامی ایران پر نظر ڈالتے ہیں ؛ کیسا عظیم انقلاب تھا ؟! که ساری دنیا کے ظالم وجابر ؛ کافر هو یا مسلمان ؛طاغوتی قوتیں سب مل کر اسلامی جمهوریہ ایران پر حمله آور هوئیں ؛ اگرچه ظاهراً ایران اور عراق کے درمیان جنگ تھی ، لیکن حقیقت میں اسلام اور کفر کے درمیان جنگ تھی ۔ کیونکه عالم کفر نے دیکھا که اگر کوئی آئین یا مکتب ، ان

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336