تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں11%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86700 / ڈاؤنلوڈ: 3148
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

مکان میں جائز اور مطلوب ہے ۔جہاں باطل اور ناجائز کاموں کا اظہار کرنا جائز ہو ؛ صرف وهاں تقيه کرسکتا هے۔ اسی لئے تقیہ کے شرائط اور اسباب کچھ اس طرح تنظیم ہوئےہیں کہ اس کام کا باطل اور قبیح ہونا باقی نہ رہے۔ شيخ الطائفه( طوسي) اپنے استاد سيدمرتضي سے فعل قبیح کے مرتکب ہونے کے لئے تین شرائط نقل کرتے ہیں:

۱. اپنی جان کیلئے خطرہ ہو ، یعنی اگر اس قبیح فعل کو انجام نہ دے تو جان سے ماردینے کا خطرہ ہو ۔

۲. اس باطل فعل کے انجام دینے کے سوا کوئی اور چارہ نہ ہو ۔

۳. قبیح فعل کے انجام دینے پر مجبورکيا جارها ہو ۔

اگر یہ تین شرطيں موجود ہو تو اس کام کی قباحت بھی دور ہوجاتی ہے ۔(۱)

____________________

۱: يزدي ،دكتر محمود؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي ۔

۴۱

دوسری فصل

تقیہ تاریخ کے آئینے میں

۴۲

دوسری فصل : تقيه تاريخ کے آئینے میں

الف:ظهوراسلام سے پهلے تقیہ

تقیہ کا مفہوم بہت وسیع ہے اس لئے اسے زندگی کے صرف ایک حصّے سے مخصوص نہیں کياجاسکتا ۔بلکہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ تاريخی اعتبار سے تقيه کی ضرورت انسان کو اس وقت محسوس ہوتی ہے ،جب وہ اپنے آپ کو دشمن کے سامنے عاجز محسوس کرے ۔ اور یہ عاجزی انسان میں گاہ بہ گاہ خوف کا احساس پیدا کرنے لگتی ہے ۔ اور یہ ایک طبیعی چيز ہے کہ انسان اس خوف و ہراس کو اپنے سے دور کرنے کی فکر کرے ۔اور اس طبیعی امر میں تمام عالم بشریت حتی تمام ذی روح "حیوانات" بھی شریک ہیں۔

۴۳

خواہ یہ خوف و ہراس بھوک اور پیاس کی شکل میں ہو یا گرمی ، سردی اور بیماری کی شکل میں ہو ؛ انسان اس خوف سے بچنے کیلئے کوئی نہ کوئی راہ پیدا کر لیتا ہے ۔ لیکن ان حالات میں جنگ و جدال کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ہاں غیر طبیعی خطرات اور مشکلات کے موقع پر جیسے اپنے کسی مسلمان بھائی پر ظلم وستم کو روکنے کا سبب هو تو تقیہ کرنا بهترہے ۔

اس فصل ميں هم بهت هي اختصار کے ساتھ انبياء اوراولياءالهي نے جهاں جهاں تقيه کئے هيں ؛ ان موارد کو بيان کريں گے :

۴۴

حضرت آدمعليه‌السلام اور تقيه

سب سے پہلی جو سزا اپنے بھائی کے حسد اور دشمنی کی بنا پر قتل کرنے کی وجہ سے ملی وہ حضرت آدم کے زمانےمیں انہی کے بیٹے کو ملی۔قرآن اس واقعے کو کچھ یوں بیان فرما رہا ہے :

( وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَاْ بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لَأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ إِنِّي أُرِيدُ أَن تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِكَ جَزَاء الظَّالِمِينَ فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ ) (۱)

اور آپ انہیں آدم کے بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہ ہوئی تو اس نے کہا: میں تجھے

____________________

۱: سوره مائدہ ۲۷ ـ ۳۰۔

۴۵

ضرور قتل کروں گا، (پہلے نے)کہا: اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھانے والا نہیں ہوں، میں تو عالمین کے پروردگار اللہ سے ڈرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اپنے گناہ میں تم ہی پکڑے جاؤ اور دوزخی بن کر رہ جاؤ اور ظالموں کی یہی سزا ہے ۔چنانچہ اس کے نفس نے اس کے بھائی کے قتل کی ترغیب دی اور اسے قتل کر ہی دیا، پس وہ خسارہ اٹھانے والوں میں شامل ہو گیا۔

تاريخ بتاتي ہے چونکہ هابيل حضرت آدمعليه‌السلام کےوصی اور جانشین تھے ، ان کی شہادت کے بعد خلافت اور جانشینی ان کے بھائی شیث کی طرف منتقل ہوئی ۔ اور سب سے پہلے جس نے تقیہ کیا وہ حضرت شيثعليه‌السلام تھے، جنہوں نے قابیل سے تقیہ کیا کہ انہیں خدا تعالی نے علم عطا کیا تھا ۔ اگر وہ تقیہ نہ کرتے تو روئے زمین عالم دین سے خالی ہوجاتا۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ظالم کے خلاف مقاومت اور مقابلہ کرنے سے عاجز اور ناتوان هونے کی صورت میں تقیہ کرنا جائزہوتاہے ۔

اور یہ ایک فطری چیز ہے کہ حضرت ہابیل نے جو چیز انہیں خدا کی طرف سے

۴۶

عطا ہوئی تھی ، اپنے بھائی قابیل سے چھپائی ۔ اور یہ ان کا چھپانا صرف اس لئے تھا کہ حق کو نااہل لوگوں کے ہاتھ لگنے سے بچایا جائے ۔

اور یہ ایک ایسی سنت ہے جس پر سارے انبيآء ، اوليآء اور صالحين نے عمل کیا ہے ۔

طبري نے اپنی تاريخ میں روایت نقل کي ہے کہ : حضرت آدمعليه‌السلام اپنی وفات سے گیارہ دن پہلے مریض ہوئے اور اپنے بیٹے شيثعليه‌السلام کو اپنا جانشین بنانے کے بعد فرمایا: میرا یہ وصیت نامہ قابیل سے چھپائے رکھنا۔(۱)

حضرت ابراهيمؑ او رتقيه

ابراهيم خليل اللہ نے بت پرستوں اورمشركوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا ؛ یہاں تک کہ ان کی قوم انہیں آگ میں جلانے کے لئے تیار ہوگئ ۔ قرآن اس واقعے

____________________

۱: التقيه في فقه اهل البيتعليه‌السلام ، ج۱ ، ص ۱۵۔

۴۷

کو یوں بیان فرما رہا ہے :

( وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِه عَالِمِينَ إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مّبِينٍ قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَى ذَلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ وَتَاللهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ قَالُوا مَن فَعَلَ هَذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيم قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُو نَ قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ فَرَجَعُوا إِلَى أَنفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ ثُمَّ نُكِسُوا عَلَى رُؤُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاءيَنطِقُونَ ) ۔(۱)

____________________

۱:۔ انبياء /۵۱ ـ۶۵ ۔

۴۸

اور بہ تحقیق ہم نے ابراہیمعليه‌السلام کو پہلے ہی سے عقل کامل عطا کی تھی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے ،جب انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے گرد تم جمے رہتے ہو؟

کہنے لگے: ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے پایاہے۔

ابراہیمعليه‌السلام نے کہا: یقینا تم خود اور تمہارے باپ دادا بھی واضح گمراہی میں مبتلا ہیں۔

وہ کہنے لگے : کیا آپ ہمارے پاس حق لے کر آئے ہیں یا بیہود ہ گوئی کر رہے ہیں؟

ابراہیمعليه‌السلام نے کہا: بلکہ تمہارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور میں اس بات کے گواہوں میں سے ہوں۔ اور اللہ کی قسم! جب تم یہاں سے پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے ان بتوں کی خبر لینے کی تدبیر ضرور سوچوں گا۔ چنانچہ ابراہیم نے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا سوائے ان کے بڑے (بت) کے تاکہ و ہ اس کی طرف رجوع کریں۔

وہ کہنے لگے: جس نے ہمارے معبودوں کا یہ حال کیا ہے یقینا وہ ظالموں میں سے ہے۔

کچھ نے کہا: ہم نے ایک جوان کو ان بتوں کا (برے الفاظ میں) ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں۔ کہنے لگے: اسے سب کے سامنے پیش کرو تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں۔

۴۹

کہا :اے ابراہیم! کیا ہمارے معبودوں کا یہ حال تم نے کیا ہے ؟

ابراہیمعليه‌السلام نے کہا: بلکہ ان کے اس بڑے (بت )نے ایسا کیا ہے سو ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں۔

(یہ سن کر) وہ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور کہنے لگے : حقیقتاً تم خود ہی ظالم ہو۔ پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے ہو گئے اور (ابراہیم ) سے کہا: تم جانتے ہو یہ نہیں بولتے ۔

بخاري روايت کرتا ہے : حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے تین جھوٹ بولے: اس میں سے دو خدا کی ذات کے بارے میں «قوله اني سقيم» اور« بل فعله كبير هم» تیسرا جھوٹ اپنی بیوی سارہ کے بارے میں ، جو خوبصورت تھی ، اور فرعون کو کسی نے ان کی لالچ دی تھی ۔ فرعون نے حضرت ابراہیمعليه‌السلام کو اپنے دربار میں بلاکر کہا : یہ جو تمہارے ساتھ آئی ہے وہ کون ہے ؟

تو آپ نے جواب دیا : یہ میری بہن ہے ۔ اور ادھر سارا سے بھی کہہ رکھا تھا کہ تم بھی میری بات کی تائید کرنا ،جبکہ خود ان کی بیوی تھیں ۔حضرت ابراہیمعليه‌السلام کا تقیہ

۵۰

کرنے کا سبب یہی تھا کہ اپنی جان بچائی جائے ،کیونکہ فرعون ابراہیمعليه‌السلام کو قتل کرنا چاہتا تھا تاکہ ان کی زوجہ کو اپنے عقد میں لے لے۔

حضرت يوسفعليه‌السلام اور تقيه

حضرت يوسفعليه‌السلام کا واقعه بہت طولاني اور معروف ہے ، اس لئے خلاصه كلام بيان کروں گا وہ یوں ہے فرمایا :

( فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ ) ۔(۱)

اس کے بعد جب یوسف نے ان کا سامان تیار کرادیا تو پیالہ کو اپنے بھائی کے سامان میں رکھوادیا اس کے بعد منادی نے آواز دی کہ قافلے والو تم سب چور ہو۔

اسی سے استدلال کرتے هوئے امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا :

التقيه من دين الله قلت:من دين الله؟ قال :اي والله من دين الله لقد قال يوسف : ايتها العير انكم

____________________

۱: سوره يوسف/۷۰۔

۵۱

لسارقون والله ما كانوا سرقوا شی ۔(۱)

تقیہ دین خدا میں سے ہے ، میں نے سوال کیا: کیا دین خدا میں سے ہے ؟تو فرمایا: ہاں خدا کی قسم ؛دین خدا میں سے ہے بے شک یوسف پیغمبر نے فرمایا: اے قافلہ والو! بیشک تم لوگ چور ہو ؛ حالانکہ خدا کی قسم انہوں نے کوئی چوری نہیں کی تھی ۔

دوسری جگہ اس روایت کی تفصیل کچھ یوں بتائی گئی ہے:

عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع فِي قَوْلِ يُوسُفَ ع- أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ‏ فَقَالَ وَ اللَّهِ مَا سَرَقُوا وَ مَا كَذَبَ ‏۔(۲)

وَ قَالَ إِبْرَاهِيمُ ع- بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ‏ هذا فَسْئَلُوهُمْ‏ إِنْ كانُوا يَنْطِقُونَ‏ فَقَالَ وَ اللَّهِ مَا فَعَلُوا وَ مَا كَذَبَ قَالَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع مَا عِنْدَكُمْ فِيهَا يَا صَيْقَلُ قَالَ فَقُلْتُ مَا عِنْدَنَا فِيهَا إِلَّا التَّسْلِيمُ قَالَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ أَحَبَّ اثْنَيْنِ وَ أَبْغَضَ اثْنَيْنِ أَحَبَّ الْخَطَرَ فِيمَا بَيْنَ الصَّفَّيْنِ وَ أَحَبَّ الْكَذِبَ فِي الْإِصْلَاحِ وَ أَبْغَضَ الْخَطَرَ فِي الطُّرُقَاتِ‏ وَ أَبْغَضَ الْكَذِبَ فِي غَيْرِ الْإِصْلَاحِ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ ع إِنَّمَا قَالَ- بَلْ فَعَلَهُ

____________________

۱: تاريخ الامر والملوك،ج۱،ص۱۷۱۔

۲:الكافي (ط - الإسلامية) ؛ ج‏۲ ؛ ص۳۴۲۔

۵۲

كَبِيرُهُمْ هذا إِرَادَةَ الْإِصْلَاحِ وَ دَلَالَةً عَلَى أَنَّهُمْ لَا يَفْعَلُونَ وَ قَالَ يُوسُفُ ع إِرَادَةَ الْإِصْلَاحِ .(۱)

حسن صیقل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ: "ہمیں حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت بیان کی گئی ہے جب یوسف علیہ السلام کی طرف سے کہا گیا کہ "اے قافلہ والو! تم لوگ ضرور چور ہو" (یوسف/ ۷۰) اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟" کیونکہ امام محمد باقرعلیہ السلام نے فرمایا: "بخدا! نہ تو انہوں نے پیمانہ چرایا تھا اور نہ ہی یوسف علیہ السلام نے جھوٹ بولا تھا" اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کے بارے میں فرمایا: "بلکہ یہ کام بڑے بت نے کیا ہے، اگر وہ بول سکتے ہیں تو ان سے پوچھ لو اس بارے میں بھی امام علیہ السلام نے فرمایا: "خدا کی قسم! نہ تو بتوں نے یہ کام کیا تھا اور نہ ہی ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ بولا تھا" اس پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "صیقل ! اس بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو؟" صیقل نے کہا: "ہمارے پاس تو سرِ تسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کچھ

____________________

۱:. كلينى، محمد بن يعقوب، الكافي (ط - الإسلامية) ، ج‏۲، ص: ۳۴۲- تهران، چاپ: چهارم، ۱۴۰۷ ق.

۵۳

نہیں ہے امام علیہ السلام نے فرمایا: "ابراہیم علیہ السلام نے جو یہ کہا تھا اس سے ان کی مراد اصلاح کرنا تھی اور اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ بت کوئی کام نہیں کر سکتے۔ اور اگر یوسف علیہ السلام نے ایسا کہا تھا تو بھی اس سے ان کی مراد اصلاح کرنے کی تھی اور یہ بتانا تھا کہ برادران نے یوسف علیہ السلام کو چرایا تھا۔

پس معلوم ہوا اگر چہ فرمان امام سے واضح ہوا کہ حضرت یوسف اور حضرت ابراہیم علیہم السلام ن جھوٹ نہیں بولا ہے، اور اگر جھوٹ بھی مان لئےجائیں لوگوں کی اصلاح کی خاطر کہا تھا، اور اصلاح کی خاطر جھوٹ بولنا خدا کے نزدیک فساد پھیلانے والے سچ سے افضل ہے، اور جائز ہے۔

حضرت موسیعليه‌السلام اورتقيه

قرآن كريم نے حضرت موسیعليه‌السلام کی شجاعت کے بارے میں کئی دفعہ اشارہ کیا ہے کہ کس طرح فرعون کے ساتھ روبرو ہوئے ، حضرت موسیعليه‌السلام کو بہت سے پیغمبروں پر فضیلت حاصل ہے :

( تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُم

۵۴

مَّن كَلَّمَ اللّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ) ۔(۱)

یہ سب رسول وہ ہیں جن میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے خدا نے کلام کیا ہے اور بعض کے درجات بلند کئے ہیں ۔

حضرت موسیعليه‌السلام نے ان تمام شجاعتوں اور فضیلتوں کے باوجود اپنی زندگی میں کئی موقعوں پر لوگوں کو رسالت کی تبلیغ کے دوران تقیہ کیا ہے ۔اور یہ تقیہ اپنی جان کے خوف سے نہیں بلکہ باطل کا حق پر غلبہ پانے کے خوف سے کیا ہے ۔جب خدا نے موسي اور هارونعليه‌السلام کو حکم دیا :

( اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى ) ۔(۲)

"تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے ۔ اس سے نرمی سے بات کرنا کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا خوف زدہ ہوجائے "۔

____________________

۱: سوره بقره۲۵۳۔

۲: سوره طه۴۳،۴۴۔

۵۵

اورفرعون کے ساتھ نرم اور میٹھی زبان میں بات کرنا اور اعلان جنگ نہ کرنا ، جبکہ وہ طغیان اور نافرمانی کے عروج پر تھا ؛ ایک قسم کا تقیہ ہے ۔البتہ یہ تقیہ مداراتی تھا نہ خوفی لیکن اصحاب موسیعليه‌السلام کے بارے میں قرآن مجيد اشاره کرتا ہے :

( إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ) ۔(۱)

"فرعون نے روئے زمین پر بلندی اختیار کی اور اس نے اہلِ زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا کہ ایک گروہ نے دوسرے کو بالکل کمزور بنادیا وہ لڑکوں کو ذبح کردیا کرتا تھا اور عورتوں کو زندہ رکھا کرتا تھا۔ وہ یقینا مفسدین میں سے تھا"

یہ خوف لوگوں کا تھا نہ اپنی جان کا ۔لیکن ولادت حضرت موسیعليه‌السلام کے بارے میں قرآن کہہ رہا ہے کہ جنہوں نے حضرت موسیعليه‌السلام کی دعوت قبول کرلی تھی ، اپنے ایمان کو دلوں میں چھپائے ہوئے تھے ، جب تک موسیعليه‌السلام نے علیٰ الاعلان دعوت کرنا شروع کیا ۔

_________________

۱: ۔ سورہ قصص ۴۔

۵۶

تاریخ میں آپ کے بعض اصحاب اور مؤمنوں کی تاریخ کو قرآن نے ثبت کیا ہے ؛ جو درج ذیل ہیں :

مؤمن آل فرعون اور تقيه

قرآن فرما رہا ہے :

( وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللهُ وَقَدْ جَاءكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّه لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ) ۔(۱)

" اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا ،یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے اور

____________________

۱: غافر۲۸ ۔

۵۷

اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے"

ابن كثيرلکھتا ہے : یہ فرعون کا چچا زاد بھائی تھا اوراس نے اپنا ایمان اپنی قوم سے چھپا رکھا تھا ۔ جن کے نام میں مورخین نے اختلاف کیا ہے ؛ کسی نے کہا آپ کا نام شمعان تھا ، کسی نے کہا حزقیل تھا ۔بہر حال جب فرعون نے حضرت موسیعليه‌السلام کے قتل کا ارادہ کیا اور اپنے حواریوں سے مشاورت کرنے لگا ، تو مؤمن اس ناپاک سازش سے آگاہ ہو ا اورسخت فکر مند ہوا ،اور فرعون کو یوں مشوره دیا :

( وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ ءَالِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلاً أَن يَقُولَ رَبىّ‏َِ اللهُ ) ؟ !

"اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے "

۵۸

:( قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى ) ‏۔(۱)

" فرعون نے کہا کہ میں تمہیں وہی باتیں بتارہا ہوں جو میں خود سمجھ رہا ہوں "

ثعلبي نے لکھا ہے اس شخص کا نام حزقیل ہے اور یہ اصحاب فرعون میں سے تھااور وہی ترکھان تھا جس نے حضرت موسیعليه‌السلام کی ماں کیلئے وہی صندوق بنا کر دیا تھا جس میں ڈال کر موسیٰ کو دریائے نیل میں ڈال دیا گیا تھا ۔

قَالَ الصادق عليه‌السلام :إِنَّ مَثَلَ أَبِي طَالِبٍ مَثَلُ أَصْحَابِ الْكَهْفِ أَسَرُّوا الْإِيمَانَ وَ أَظْهَرُوا الشِّرْكَ فَآتَاهُمُ اللهُ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ ۔(۲)

امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا: "بے شک ابوطالب کی مثال اصحاب کہف کی مثال ہے ، انہوں نے اپنا ایمان چھپائے رکھا اور شرک کا اظہار کیا ، خدا تعالیٰ انہیں قیامت کے دن دو دفعہ ثواب عطا کریگا "

____________________

۱: غافر۲۹ ۔

۲: الكافي باب مولد النبي ص و وفاته‏،ج ۱، ص ۴۴۸۔

۵۹

امام حسن العسکریعليه‌السلام نے فرمایا:ان ابا طالب كمؤمن آل فرعون يكتم ايمانه ۔(۱) فرماتے ہیں : حضرت ابوطالب نےبھی مؤمن آل فرعون کی طرح اپنا ایما ن کفار قریش سے چھپا رکھا تھا ۔

آسيه بنت مزاحم اور تقيه

آپ فرعون کی بیوی ہیں قرآن نے آپ کے بارے میں فرمایا:

( وَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبّ‏ ابْنِ لىِ عِندَكَ بَيْتًا فىِ الْجَنَّةِ وَ نجَّنىِ مِن فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ وَ نجَّنىِ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ) ۔(۲)

" اور خدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے کہ اس نے دعا کی کہ پروردگار !میرے لئے جنّت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے کاروبار سے نجات دلادے اور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطا کردے"

____________________

۱: وسائل الشيعه ،ج۱۱، ص ۸۳۔

۲: سوره تحريم ۱۱۔

۶۰

روايات اهلبيت میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت آسیہ بہشت میں نبی کی بیویوں میں سے ہونگی۔(۱)

اصحاب كهف او رتقيه

قطب راوندي نے شيخ صدوق سے امام صادقعليه‌السلام کي روايت نقل کي هے :

فَقَالَ لَوْ كَلَّفَكُمْ قَوْمُكُمْ مَا كَلَّفَهُمْ قَوْمُهُمْ فَافْعَلُوا فِعْلَهُمْ فَقِيلَ لَهُ وَ مَا كَلَّفَهُمْ قَوْمُهُمْ قَالَ كَلَّفُوهُمُ الشِّرْكَ بِاللهِ فَأَظْهَرُوهُ لَهُمْ وَ أَسَرُّوا الْإِيمَانَ حَتَّى جَاءَهُمُ الْفَرَجُ وَ قَالَ إِنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ كَذَبُوا فَآجَرَهُمُ اللهُ إِلَى أَنْ قَالَ وَ قَالَ إِنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ أَسَرُّوا الْإِيمَانَ وَ أَظْهَرُوا الْكُفْرَ فَكَانُوا عَلَى إِظْهَارِهِمُ الْكُفْرَ أَعْظَمَ أَجْراً مِنْهُمْ عَلَى إِسْرَارِهِمُ الْإِيمَانَ وَ قَالَ مَا بَلَغَتْ تَقِيَّةُ أَحَدٍ تَقِيَّةَ أَصْحَابِ الْكَهْفِ فَأَعْطَاهُمُ اللهُ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ ۔(۲)

"اگر تمهاري قوم کفر کا اظهار کرنے پر مجبور کرے تو اظهار کرنا اوراپنا ايمان آرام آنے تک

____________________

۱: ۔ تفسير نور الثقلين ۔ ج۵ ، ص۲۷۷۔

۲: مستدرك‏الوسائل ،ج ۱۲ ،ص ۲۷۲۔

۶۱

چھپا رکھنا۔ پھر فرمايا اصحاب کهف نے بھي ظاهراً جھوٹ بولا اور الله تعالي نے بھي ان کو جزائے خير دي اور کها اصحاب کهف نے اپنے ايمان کو چھپایا اور کفر کا اظهار کیا۔پس کفر کا اظهار کرنے کا ثواب ايمان کے چھپانے سے زياده هے ۔ اور فرمايا: اصحاب کهف سے زياده کسي اور نے تقيه نهيں کيا ۔۔۔الله تعالي نے بھي ان کو دو مرتبه اجر اور ثواب عطا کيا"

امير المؤمنينعليه‌السلام سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے :

وَ عَلَيْكُمْ بِالتَّمَسُّكِ بِحَبْلِ اللهِ وَ عُرْوَتِهِ وَ كُونُوا مِنْ حِزْبِ اللهِ وَ رَسُولِهِ وَ الْزَمُوا عَهْدَ اللهِ وَ مِيثَاقَهُ عَلَيْكُمْ فَإِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيباً وَ سَيَعُودُ غَرِيباً وَ كُونُوا فِي أَهْلِ مِلَّتِكُمْ كَأَصْحَابِ الْكَهْفِ وَ إِيَّاكُمْ أَنْ تُفْشُوا أَمْرَكُمْ إِلَى أَهْلٍ أَوْ وَلَدٍ أَوْ حَمِيمٍ أَوْ قَرِيبٍ فَإِنَّهُ دِينُ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ الَّذِي أَوْجَبَ لَهُ التَّقِيَّةَ لِأَوْلِيَائِهِ ۔(۱)

امام ؑ نے فرمایا:تم پر ضروری ہے کہ اللہ کی رسی اور عروۃ الوثقی سے متمسک رہیں ۔ اللہ

____________________

۱: مستدرك، باب وجوب التقية مع الخوف إلى خر۔

۶۲

اور اس کے رسول کی سپاہیوں میں سے ہوجائیں۔اللہ تعالی کے ساتھ جو بھی عہد وپیمان باندھ لئے ہیں ،ان پر پورا اترا کریں۔بیشک اسلام ابتداء میں بھی غریب تھا اور آنے والے زمانے میں بھی غریب ہوگا۔ تم لوگ اپنی قوم کے درمیان اصحاب کہف کی طرح زندگی گزار اکریں۔خبرداراپنی راز کی باتیں اپنی بیویاں ،اولاد اور اپنے دوستوں کو نہ بتائیں۔بیشک تمہارے لئے یہی دین خدا ہے جس نے اپنے اولیاء کے لئے تقیہ کو مجاز قرار دیا ہے۔

امام حسن العسكريعليه‌السلام کی روايت اس بات کی تائید کرتی ہے۔

وَ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ع قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص: إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ إِنَّمَا فَضَّلَهُمُ اللَّهُ عَلَى خَلْقِهِ أَجْمَعِينَ بِشِدَّةِ مُدَارَاتِهِمْ لِأَعْدَاءِ دِينِ اللَّهِ وَ حُسْنِ تَقِيَّتِهِمْ لِأَجْلِ‏ إِخْوَانِهِمْ‏ فِي‏ اللَّه‏ ۔(۱)

"رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: بیشک انبیائے الہٰی کو دوسرے لوگوں پر اس لئے فضیلت

____________________

۱: مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل / ج‏۱۲ / ۲۶۲ / ۲۷ باب وجوب الاعتناء و الاهتمام بالتقية و قضاء حقوق الإخوان ,ص : ۲۶۱

۶۳

ملی ہے کہ خدا کے دشمنوں کے ساتھ مدارات کیا کرتے تھے اور نیک لوگوں کے ساتھ خدا کی خاطر اچھا تقیہ کیا کرتے تھے "

یہ اسلام سے پہلے کے تقیہ کے کچھ موارد تھےجو آیات اورشیعہ سنی احادیث کی کتابوں میں مرقوم تھے ۔ اور یہ ایسے حقائق ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ہے ۔

ب:ظهور اسلام کے بعد تقيه

اسلام چونکہ ابتدا سے غریب تھا اور غریب ہی رہ گیا ۔ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور اس زمانے میں لوگ انحرافات اور گمراہی کے اسیر ہوچکے تھے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آکر انہیں نجات دلاد دی ۔جس پر قرآن گواہی دے رہا ہے :

( هُوَ الَّذِى بَعَثَ فىِ الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنهْمْ يَتْلُواْ عَلَيهْمْ ءَايَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الحْكْمَةَ وَ

۶۴

إِن كاَنُواْ مِن قَبْلُ لَفِى ضَلَالٍ مُّبِينٍ ) ۔(۱)

"اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو ان ہی میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ,ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگرچہ یہ لوگ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے "

یہ تعلیمات اسلامی کی خصوصیت تھی کہ انسان کو اس گمراہی سے نکال کر انسانیت کے بلند و بالا مقام تک پہنچایا۔اور عقلوں پر لگے ہوئے تالے کھول دیے ۔اور سارے انسانوں کو ایک ہی صف میں لاکر رکھ دیا ۔

اور انسان کی فضیلت کیلئے تقوی کو معیار قرار دیتے ہوئے فرمایا :( إِنَّ أَكْرَمَكمُ‏ عِندَ اللهِ أَتْقَئكُمْ ) ۔(۲)

بے شک خدا کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ باعزت ترین شخص وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو ۔

____________________

۱: سوره جمعه۲۔

۲: سوره حجرات۱۳۔

۶۵

اسی طرح ظالم وجابر بادشاہ جو فقیر وں اور ضعیفوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہوئے زندگی گزارتے تھے ، جب اس پیغام کو سنا تو وہ لوگ خاموش نہیں رہ سکے ؛ بلکہ اسلام کو اس صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہوگئے ۔جس کی وجہ سے اسلام مظلوم اور غریب ہوا ۔

ابو طالبؑ اور تقيه

بعض نفسياتي خواهشات کے اسیر او ر ریاست طلب ،دین فروش اور درہم و دینار کے لالچی لوگوں نے ظالموں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اپنی کتابوں میں ابوطالب کے ایمان کو مشکوک ظاہر کرنا چاہا ۔ نعوذ باللہ ! آپ شرک کی حالت میں اس دنیا سے چلے گئے ؛ جبکہ آپ کی شخصیت ، عظمت اور اسلام کے ساتھ محبت اور ایمان پر واضح دلائل موجود ہیں ۔ابوطالبعليه‌السلام کی ذات وہ ہے جسے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کا شرف حاصل ہے ؛ کہ آپ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کفار قریش اور دوسرے دشمنوں کے مکر وفریب اور ظلم وستم سے بچاتے رہے ، جبکہ وہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان کے درپے تھے ۔

اگر آپ کا اسلام اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر مکمل ایمان اور اعتقاد نہ ہوتا توکیسے

۶۶

دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یوں خطاب کیا ؟!:

وَ اللَّهِ لَا وَصَلُوا إِلَيْكَ بِجَمْعِهِمْ حَتَّى أُغَيَّبَ فِي التُّرَابِ دَفِيناً

فَامْضِ ابْنَ أَخِ فَمَا عَلَيْكَ غَضَاضَةٌ وَ أَبْشِرْ بِذَاكَ وَ قِرَّ مِنْكَ عُيُوناً

وَ دَعَوْتَنِي وَ زَعَمْتَ أَنَّكَ‏ نَاصِحِي وَ لَقَدْ صَدَقْتَ وَ كُنْتَ قَبْلُ أَمِيناً

وَ لَقَدْ عَلِمْتُ‏ بأَنَ‏ دِينَ‏ مُحَمَّدٍ مِنْ خَيْرِ أَدْيَانِ البَرِيَّة دِينَا(۱)

خدا کی قسم! اگروہ سب مل کر اپنی پوری قوت صرف بھی کرے؛جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک آپ کو ان کی طرف سے کوئی گزند نہیں پہنچے گا ۔پس اے میرے برادر زادے! جو آپ کا مقصد ہے اسے آشکار کرلو اور اس کی بشارت دو کوئی عیب والی بات نہیں ہے اور تم خوش رہو۔چشم شما روشن باد۔[یہ فارسی اصطلاح میں ایک دعائے خیر ہے]

اور تم نے مجھے دعوت دی ہے مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ناصح ہو اور تم نے سچ کہا ہے ،اور تم پہلے سے ہی امانت دار تھے۔اور میں بھی جانتا تھا کہ کہ دین محمد تمام مخلوقات عالم

___________________

۱: الغدير، ج۷ ، ص۳۳۴۔

۶۷

کے دین سے بہتر دین تھا۔

اگر ابوطالبعليه‌السلام ايمان نہ لائے ہوتے تو ابولہب کی طرح وہ بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا تھے ، خدا کی طرف سے مورد مذمت اور قابل نفرین قرار پاتے ؛ لیکن ایمان ابوطالب ؑ ہمارے لئے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آئمہ طاہرین ؑ کے فرامین کے ذریعے واضح اور روشن ہے ، اور آپ کا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔

یہاں تک کہ ابن ابی الحدید نے اشعار کی شکل میں اس مطلب کو بیان کیا ہے :

لو لا ابو طالب و ابنه لما مثل الدين شخصا فقاما

فهذا بمكة آوي و حامي و هذا بيثرب جس الحماما(۱)

"اگر ابوطالبعليه‌السلام اور ان کے فرزند علی نہ ہوتے تو دین اسلام بطور نمونہ برپا نہ ہوتا ۔ پس ابوطالبعليه‌السلام نے مکہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پناہ دی اور ان کے بیٹے نے مدینے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان بچانے کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا دی" ۔

____________________

۱: شرح نهج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ج۱۴،ص۸۴۔

۶۸

اگر علی نہ ہوتے تو ابوطالب سید سادات المسلمین والسابقین الاولین ہوتے ۔

جابر بن عبداللہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدااصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے امیر المؤمنینعليه‌السلام کی ولادت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے وضاحت فرمائی ، یہاں تک کہ ابوطالبعليه‌السلام کے بارے میں عرض کی :

قَالَ جَابِرٌ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ اللهُ أَكْبَرُ النَّاسُ يَقُولُونَ [إِنَ‏] أَبَا طَالِبٍ مَاتَ كَافِراً قَالَ يَا جَابِرُ اللهُ أَعْلَمُ بِالْغَيْبِ إِنَّهُ لَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الَّتِي أُسْرِيَ بِي فِيهَا إِلَى السَّمَاءِ انْتَهَيْتُ إِلَى الْعَرْشِ فَرَأَيْتُ أَرْبَعَةَ أَنْوَارٍ فَقُلْتُ إِلَهِي مَا هَذِهِ الْأَنْوَارُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ هَذَا عَبْدُالْمُطَّلِبِ وَ هَذَا أَبُو طَالِبٍ وَ هَذَا أَبُوكَ عَبْدُ اللهِ وَ هَذَا أَخُوكَ طَالِبٌ فَقُلْتُ إِلَهِي وَ سَيِّدِي فَبِمَا نَالُوا هَذِهِ الدَّرَجَةَ قَالَ بِكِتْمَانِهِمُ الْإِيمَانَ وَ إِظْهَارِهِمُ الْكُفْرَ وَ صَبْرِهِمْ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى مَاتُوا ۔(۱)

جابر بن عبد اللہ انصاری نےعرض کی : یا رسول اللہ ! اللہ اکبر ؛ لوگ کہتے ہیں کہ ابوطالبؑ حالت کفر میں اس دنیا سے رحلت کر گئے!

____________________

۱: بحار الانوار،ج۳۵، ص۱۶۔

۶۹

فرمایا: اے جابر خداوند سب سے زیادہ جاننے والا ہے علم غیب کا مالک ہے ، جس رات جبرئیل مجھے معراج پر لے گئے اور عرش پر پہنچےتو چار نور دیکھنے میں آئے، میں نے سوال کیا : خدایا یہ چار نور کن کے ہیں ؟!تو الله تعالي کی طرف سے جواب آیا : اے محمد!صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ عبدالمطلب ، ابوطالب،تیرے والد عبداللہ اور تیرے بھائی طالب کے ہیں۔میں نے کہا : اے میرے الله اے میرے آقا ! یہ لوگ کیسے اس مرتبے پر پہنچے ؟ خدا تعالی کی طرف سے جواب آیا : ایمان کے چھپانے اور کافروں کے مقابلے میں کفر کے اظہار اور ان پر صبر کرنے کی وجہ سے پہنچے ہیں۔

يونس بن نباته نے امام صادقعليه‌السلام سے روايت کی ہے :

قال يا يونس ما يقول الناس في ايمان ابو طالب عليه‌السلام قلت جعلت فداك ، يقولون «هو في ضحضاح من نار و في رجليه نعلان من نار تغلى منهما امّ رأسه» فقال كذب اعداءالله ، ان اباطالب عليه‌السلام من رفقاء النبيين و الصديقين و الشهداء و الصالحين و حسن اولئك رفيقا ۔(۱)

____________________

۱: كنز الفوائد ،ص۸۰۔

۷۰

چنانچہ محمد بن یونس نے اپنے والد سے انہوں نے امام صادقعليه‌السلام سے نقل کيا هے کہ آنحضرت نے ہم سے کہا: اے یونس ! لوگ ابوطالب کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ میں نے عرض کی ، مولا میں آپ پر قربان ہو جاؤں ؛ لوگ کہتے ہیں :

هو في ضحضاح من نار و في رجليه نعلان من نار تغلى منهما امّ رأسه ۔

"ابو طالب کھولتی ہوئی آگ میں پیروں میں آگ کے جوتے پہنے ہوئے ہے جس کی وجہ سے اس کا دماغ کھول رہا ہے "

امام نے فرمایا: خدا کی قسم یہ خدا کے دشمن لوگ غلط کہہ رہے ہیں ! ابوطالب انبیاء،صادقین ، شہداء اور صالحین کے ساتھیوں میں سے ہیں اور وہ لوگ کتنے اچھے ساتھی ہیں ۔(۱)

قصہ مختصر اگر علمائے اہل سنت بھی تھوڑا انصاف سے کام لیتے تو ايمان ابو طالبعليه‌السلام کو درک کرلیتے کہ ایمان کے کتنے درجے پر آپ فائز تھے ۔لیکن بعض خود غرض اور بغض اور

____________________

۱:۔ الطرائف؛ترجمه داود الهامى؛ ايمان ابو طالب ص۴۴۸ ۔

۷۱

کینہ دل میں رکھنے والے لوگوں نے ایک جعلی اور ضعیف روایت جو حدیث ضحضاح کے نام سے مشہور ہے اس کو دلیل بنا کر امير المؤمنين کے پدر گرامی اور پیغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا ابو طالب کے ايمان کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔اگران لوگوں کو اہل بیت اور علی ابن ابی طالبعليه‌السلام سے دشمنی نہ ہوتی تو ان ساری صحیح اور معتبر حدیثوں میں سے صرف ایک ضعیف حدیث کو نہیں اپناتے ۔ اور شيخ بطحا مؤمن قريش پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بڑے حامى پر یہ تہمت نہ لگاتے ۔(۱)

محققین اور راويو ں نے اس حديث کی بررسى اور گہری تحقيق کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ حدیث مورد اعتماد نہیں ہے ۔ علمائے اہل سنت کے نزدیک اس روایت کو نقل کرنے والے جھوٹے ، بعض مجہول اور بعض علیعليه‌السلام اور ان کی اولاد سے بغض و کینہ رکھنے والے تھے ۔ جن میں سے ایک مغيرة بن شعبه ہے جو ایک فاسق و فاجر اور سخت دشمن اہل بیت تھا ۔اس بارے میں درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں :

____________________

۱: الطرائف؛ترجمه داود الهامى؛ ايمان ابو طالب ص۴۶۰۔

۷۲

۱- اسنى المطالب في نجاة ابي طالب، سيد احمد زينى دحلان۔

۲- شيخ الأبطح او ابو طالب، سيد محمد علي آل شرف الدين۔

۳- الطرائف-ترجمه داود الهامى، ص: ۴۶۱ ۔

۴- الشهاب الثاقب، لرجم كفر ابى طالب، شيخ نجم الدين۔

۵- ايمان ابى طالب، ابو على كوفى۔

۶- ايمان ابى طالب، مرحوم مفيد۔

۷- ايمان ابى طالب، ابن طاوس۔

۸- ايمان ابى طالب، احمد بن قاسم۔

۹- بغية الطالب ۔۔، سيد محمد عباس تسترى ۔

۱۰- موهاب الواهب في فضائل ابى طالب۔

۱۱- الحجة على الذاهب الى تكفير ابى طالب، سيد فخار۔(۱)

____________________

۱: ایضاً، ص ۴۶۱۔

۷۳

امام کاظمعليه‌السلام سے روایت ہے:

إِنَّ إِيمَانَ أَبِي طَالِبٍ لَوْ وُضِعَ فِي كِفَّةِ مِيزَانٍ وَ إِيمَانَ هَذَا الْخَلْقِ فِي كِفَّةِ مِيزَانٍ لَرَجَحَ‏ إِيمَانُ‏ أَبِي‏ طَالِبٍ‏ عَلَى إِيمَانِهِمْ ثُمَّ قَالَ كَانَ وَ اللَّهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ يَأْمُرُ أَنْ يُحَجَّ عَنْ أَبِي‏ النَّبِيِّ وَ أُمِّهِ وَ عَنْ أَبِي طَالِبٍ‏ حَيَاتَهُ وَ لَقَدْ أَوْصَى فِي وَصِيَّتِهِ بِالْحَجِّ عَنْهُمْ بَعْدَ مَمَاتِه ‏۔(۱)

" اگر ایمان ابوطالبعليه‌السلام کو ترازو کے ا یک پلڑے میں قرار دیدیا جائے ا ور دوسری تمام مخلوقات کے ایمان کو دوسرے پلڑےمیں رکھ دیا جائے تو ابوطالبعليه‌السلام کا ایمان دوسرے تمام مخلوقات کے ایمان سے زیادہ بھاری ہوگا ۔۔۔ خدا کی قسم امیر المؤمنینعليه‌السلام جب تک زندہ رہے اپنے باپ، ماں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نیابت میں حج انجام دیتے رہے ۔اور حسن و حسینعليه‌السلام کو بھی وصیت کرگئے کہ وہ لوگ بھی اسی طرح ان کی نیابت میں حج انجام دیتے رہیں ۔اور ہم میں سے ہر امام اس سنت پر عمل کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آخری حجت کا ظہور ہوگا "

____________________

۱: إيمان أبي طالب (الحجة على الذاهب إلى كفر أبي طالب) ؛ ص۸۵

۷۴

عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ أَبِي طَالِبٍ أَ كَانَ مُؤْمِناً فَقَالَ نَعَمْ فَقِيلَ لَهُ إِنَّ هَاهُنَا قَوْماً يَزْعُمُونَ أَنَّهُ كَافِرٌ فَقَالَ وَا عَجَبَاهْ أَ يَطْعَنُونَ عَلَى أَبِي طَالِبٍ أَوْ عَلَى رَسُولِ اللهِ ص وَ قَدْ نَهَاهُ اللهُ أَنْ يُقِرَّ مُؤْمِنَةً مَعَ كَافِرٍ فِي غَيْرِ آيَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ وَ لَا يَشُكُّ أَحَدٌ أَنَّ بِنْتَ أَسَدٍ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ السَّابِقَاتِ وَ أَنَّهَا لَمْ تَزَلْ تَحْتَ أَبِي طَالِبٍ حَتَّى مَاتَ أَبُو طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ۔(۱)

امام سجادعليه‌السلام سے ایمان ابوطالبعليه‌السلام کے بارے میں سوال ہوا: کیا وہ مؤمن تھے ؟

تو فرمایا : ہاں ۔

راوی نے عرض کی : یہاں ایک قوم رہتی ہے جن کا عقیدہ ہے کہ ابوطالب حالت کفر میں اس دنیا سے چلے گئے ہیں !

تو امام ؑ نے فرمایا : واعجبا ! کیا وہ لوگ ابوطالب پر طعنہ اور تہمت لگا رہے ہیں یا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ؟! جب کہ خدا تعالی نے قرآن مجید کی کئی آیات میں کفار کے ساتھ ازدواج کو

____________________

۱: بحار ،ج ۳۵، ص ۱۱۷۔

۷۵

ممنوع قرار دیا ہے؛ اور اس میں بھی کسی کواختلاف نہیں کہ فاطمہ بنت اسد مؤمنہ عورتوں میں سے تھیں اور مرتے دم تک ابوطالبؑ کی زوجیت میں رہیں ۔

اور یہ دوسری دلیل ہے ایمان ابوطالب پر کہ مسلمان عورتوں کا کافروں کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے ؛ چنانچہ ۔ جب زینب نے اسلام قبول کیا ، اور ابی العاص نے شریعت اسلام قبول نہیں کیا تو اسلام نے ابی العاص کے ایمان لانے تک ان کے درمیان فاصلہ ڈالا۔ اور جب وہ ایمان لایا تو دوبارہ نکاح پڑھ کر ان کو رشتہ ازدواج میں منسلک کیا ۔(۱)

لیکن حضرت فاطمه بنت اسد وہ پہلی خاتون ہیں جنھوں نے مکہ سے مدینے میں رسول خدا (ص) کی طرف ہجرت کی ہے اور آپ پیغمبر اسلام (ص) کیلئے مہربان ترین خاتون تھیں۔(۲)

جب آپ رحلت کرگئی تو امير المؤمنينعليه‌السلام روتے ہوئے رسول خدا (ص) کی خدمت میں تشریف لائے ۔ رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا : یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! میری ماں فاطمہ اس نیا سے رحلت کر گئی ہے ۔فقال رسول الله : امي والله !

____________________

۱: تنقيح المقال في علم الرجال،ج۳،ص۷۹۔

۲: اصول كافي ،ج۱،باب امير المؤمنين ۔

۷۶

تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا خدا کی قسم وہ میری ماں تھی ۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم روتے ہوئے تشریف لائے اور تشییع جنازے میں شریک ہوئے ۔(۱)

پس اگر فاطمه بنت اسدمؤمنه تھیں اور ابو طالبعليه‌السلام كافر، تو کیسے پیغمبر اسلام (ص) نے ان کے درمیان جدائی نہیں ڈالی ؟!کیسے یہ تصور ممكن ہے كه پیغمبر اسلام (ص) نے ایک مهم ترين احكام اسلام سے چشم پوشي كرتے ہوئے اس حکم کو تعطيل كیا ہو؟!۔(۲)

پیغمبر اكرم (ص) ا ور تقيه

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کےتقيه كرنے کے موارد میں سے ایک مورد آپ کا بعثت سے تین سال پہلےمخفیانہ طور پر دعوت دینا تھا ۔

____________________

۱: اصول كافي ،ج۱،باب امير المؤمنين۔

۲: بحار الانوار،ج۳۵،ص۱۱۵۔

۷۷

اسی طرح صلح حدیبیہ کےموقع پرسهيل بن عمرو جو کہ مشركوں کانماينده تھا ، کی درخواست پر بسم اللہ الرحمن الرحیم کی بجائے 'باسمک اللهم' لکھنا اور رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عنوان کو حذف کرکے محمد بن عبداللہ لکھنا بھی ایک قسم کا تقیہ ہے ۔(۱)

آنحضرت (ص) کا عبد الله بن ابي پر نماز ميت پڑھنا اور بجائے دعا کے آہستہ سے نفرین کرنا جبکہ وہ منافقين مدينه کا سردار تھا ؛ موارد تقيه میں سے تھا ۔(۲)

عليعليه‌السلام اور تقيه

آپ کا سقیفہ والوں کے انتخاب پر ظاہرا ً ۲۵ سال تک خاموش رہنا جبکہ آپ کو معلوم تھا کہ قرآن اور فرمان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مطابق خلافت پر آپ کا حق تھا ، لیکن مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اتحاد کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے خاموش رہنا ،تقیہ تھا ۔ جس

____________________

۱: ابن هشام؛ السنة النبويه،ج۳، ص۳۱۷ ۔

۲: وسائل الشيعه،ج۹ ، ص۳۲۸ ـ ۳۲۹۔

۷۸

کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی مصلحتوں کو محفوظ کیا ۔ اگر آپ خاموش نہ رہتے تو اس وقت روم والے مسلمانوں کے سر پر کھڑے تھے کہ کوئی موقع ہاتھ آجائے تاکہ مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کو نابود کرسکیں ، جو مسلمانوں کی وحدت کی وجہ سے ناکام ہوا ۔

آپ کا اپنے زمانے کے حاکموں کے پیچھے نماز پڑھنا بھی تقیہ کے موارد میں سے ہے ۔

امام حسن ، امام حسین ،امام سجاد  اور تقيه

امام حسنعليه‌السلام کی خلافت کا دور ۲۱ رمضان ۴۱ ھ سے لے کر وفات امام سجادعليه‌السلام سن ۹۵ ھ تک تاريك ترين اور وحشت ناك ترين دور ہے جس سے آئمہ طاهرين دوچار ہوئے۔

صلح امام حسنعليه‌السلام ربيع الاول سال ۴۱ ھ کے بعد اور حكومت اموي کے برسراقتدارآنے کے بعد ، شيعه اور ان کے پيشواؤں کوشدید دباؤ ميں رکھا گیا۔معا ويه نے حکم دیا كه خطيب لوگ عليعليه‌السلام اور ان کے خاندان کی شان میں گستاخی کریں

۷۹

اور منبروں سے لعن طعن کریں ۔ شهادت اما م حسينعليه‌السلام سن ۶۱ ھ کے بعد مزید سختی کرنے لگے ۔ حضرت عليعليه‌السلام نے اپني خاص روشن بینی کی وجہ سے اپنے بعد آنے والےتمام واقعات کی پیشگوئي فرمائی ۔ اور اس دوران میں اپنے دوستوں سے تقیہ کرنے کا حکم فرمارہے تھے ۔کہ جب بھی ان کے مولا کے بارے میں گستاخی کرنے پر مجبور کیا جائے تو اپنی جان بچائیں اور ان کی بات قبول کریں۔(۱)

اس دوران میں آئمہعليهم‌السلام کے سياسي تقيه کے واضح ترين مصداق ،صلح امام حسنعليه‌السلام کوقراردے سکتے ہیں ۔ كه جو خود مهم ترين علت اور اسباب میں سے ایک ہے جس کا مقصد مسلمانوں خصوصاً شیعیان حیدر کرار کے خون کی حفاظت تھی ۔(۲)

اسی طرح امام حسينعليه‌السلام کا معاويه کے خلاف جنگ نہ کرنا بھی تقیہ شمار ہو تا

____________________

۱: بحار الانوار،ج۷۵ ، ص۳۹۳۔

۲: بحار الانوار،ج۷۵ ، ص ۴۴۷۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336