تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں0%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه  اسلام کی نگاہ میں

مؤلف: غلام مرتضي انصاری
زمرہ جات:

صفحے: 336
مشاہدے: 79173
ڈاؤنلوڈ: 2552

تبصرے:

تقيه اسلام کی نگاہ میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79173 / ڈاؤنلوڈ: 2552
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

روايات اهلبيت میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت آسیہ بہشت میں نبی کی بیویوں میں سے ہونگی۔(۱)

اصحاب كهف او رتقيه

قطب راوندي نے شيخ صدوق سے امام صادقعليه‌السلام کي روايت نقل کي هے :

فَقَالَ لَوْ كَلَّفَكُمْ قَوْمُكُمْ مَا كَلَّفَهُمْ قَوْمُهُمْ فَافْعَلُوا فِعْلَهُمْ فَقِيلَ لَهُ وَ مَا كَلَّفَهُمْ قَوْمُهُمْ قَالَ كَلَّفُوهُمُ الشِّرْكَ بِاللهِ فَأَظْهَرُوهُ لَهُمْ وَ أَسَرُّوا الْإِيمَانَ حَتَّى جَاءَهُمُ الْفَرَجُ وَ قَالَ إِنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ كَذَبُوا فَآجَرَهُمُ اللهُ إِلَى أَنْ قَالَ وَ قَالَ إِنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ أَسَرُّوا الْإِيمَانَ وَ أَظْهَرُوا الْكُفْرَ فَكَانُوا عَلَى إِظْهَارِهِمُ الْكُفْرَ أَعْظَمَ أَجْراً مِنْهُمْ عَلَى إِسْرَارِهِمُ الْإِيمَانَ وَ قَالَ مَا بَلَغَتْ تَقِيَّةُ أَحَدٍ تَقِيَّةَ أَصْحَابِ الْكَهْفِ فَأَعْطَاهُمُ اللهُ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ ۔(۲)

"اگر تمهاري قوم کفر کا اظهار کرنے پر مجبور کرے تو اظهار کرنا اوراپنا ايمان آرام آنے تک

____________________

۱: ۔ تفسير نور الثقلين ۔ ج۵ ، ص۲۷۷۔

۲: مستدرك‏الوسائل ،ج ۱۲ ،ص ۲۷۲۔

۶۱

چھپا رکھنا۔ پھر فرمايا اصحاب کهف نے بھي ظاهراً جھوٹ بولا اور الله تعالي نے بھي ان کو جزائے خير دي اور کها اصحاب کهف نے اپنے ايمان کو چھپایا اور کفر کا اظهار کیا۔پس کفر کا اظهار کرنے کا ثواب ايمان کے چھپانے سے زياده هے ۔ اور فرمايا: اصحاب کهف سے زياده کسي اور نے تقيه نهيں کيا ۔۔۔الله تعالي نے بھي ان کو دو مرتبه اجر اور ثواب عطا کيا"

امير المؤمنينعليه‌السلام سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے :

وَ عَلَيْكُمْ بِالتَّمَسُّكِ بِحَبْلِ اللهِ وَ عُرْوَتِهِ وَ كُونُوا مِنْ حِزْبِ اللهِ وَ رَسُولِهِ وَ الْزَمُوا عَهْدَ اللهِ وَ مِيثَاقَهُ عَلَيْكُمْ فَإِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيباً وَ سَيَعُودُ غَرِيباً وَ كُونُوا فِي أَهْلِ مِلَّتِكُمْ كَأَصْحَابِ الْكَهْفِ وَ إِيَّاكُمْ أَنْ تُفْشُوا أَمْرَكُمْ إِلَى أَهْلٍ أَوْ وَلَدٍ أَوْ حَمِيمٍ أَوْ قَرِيبٍ فَإِنَّهُ دِينُ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ الَّذِي أَوْجَبَ لَهُ التَّقِيَّةَ لِأَوْلِيَائِهِ ۔(۱)

امام ؑ نے فرمایا:تم پر ضروری ہے کہ اللہ کی رسی اور عروۃ الوثقی سے متمسک رہیں ۔ اللہ

____________________

۱: مستدرك، باب وجوب التقية مع الخوف إلى خر۔

۶۲

اور اس کے رسول کی سپاہیوں میں سے ہوجائیں۔اللہ تعالی کے ساتھ جو بھی عہد وپیمان باندھ لئے ہیں ،ان پر پورا اترا کریں۔بیشک اسلام ابتداء میں بھی غریب تھا اور آنے والے زمانے میں بھی غریب ہوگا۔ تم لوگ اپنی قوم کے درمیان اصحاب کہف کی طرح زندگی گزار اکریں۔خبرداراپنی راز کی باتیں اپنی بیویاں ،اولاد اور اپنے دوستوں کو نہ بتائیں۔بیشک تمہارے لئے یہی دین خدا ہے جس نے اپنے اولیاء کے لئے تقیہ کو مجاز قرار دیا ہے۔

امام حسن العسكريعليه‌السلام کی روايت اس بات کی تائید کرتی ہے۔

وَ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ع قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص: إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ إِنَّمَا فَضَّلَهُمُ اللَّهُ عَلَى خَلْقِهِ أَجْمَعِينَ بِشِدَّةِ مُدَارَاتِهِمْ لِأَعْدَاءِ دِينِ اللَّهِ وَ حُسْنِ تَقِيَّتِهِمْ لِأَجْلِ‏ إِخْوَانِهِمْ‏ فِي‏ اللَّه‏ ۔(۱)

"رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: بیشک انبیائے الہٰی کو دوسرے لوگوں پر اس لئے فضیلت

____________________

۱: مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل / ج‏۱۲ / ۲۶۲ / ۲۷ باب وجوب الاعتناء و الاهتمام بالتقية و قضاء حقوق الإخوان ,ص : ۲۶۱

۶۳

ملی ہے کہ خدا کے دشمنوں کے ساتھ مدارات کیا کرتے تھے اور نیک لوگوں کے ساتھ خدا کی خاطر اچھا تقیہ کیا کرتے تھے "

یہ اسلام سے پہلے کے تقیہ کے کچھ موارد تھےجو آیات اورشیعہ سنی احادیث کی کتابوں میں مرقوم تھے ۔ اور یہ ایسے حقائق ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ہے ۔

ب:ظهور اسلام کے بعد تقيه

اسلام چونکہ ابتدا سے غریب تھا اور غریب ہی رہ گیا ۔ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور اس زمانے میں لوگ انحرافات اور گمراہی کے اسیر ہوچکے تھے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آکر انہیں نجات دلاد دی ۔جس پر قرآن گواہی دے رہا ہے :

( هُوَ الَّذِى بَعَثَ فىِ الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنهْمْ يَتْلُواْ عَلَيهْمْ ءَايَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الحْكْمَةَ وَ

۶۴

إِن كاَنُواْ مِن قَبْلُ لَفِى ضَلَالٍ مُّبِينٍ ) ۔(۱)

"اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو ان ہی میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ,ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگرچہ یہ لوگ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے "

یہ تعلیمات اسلامی کی خصوصیت تھی کہ انسان کو اس گمراہی سے نکال کر انسانیت کے بلند و بالا مقام تک پہنچایا۔اور عقلوں پر لگے ہوئے تالے کھول دیے ۔اور سارے انسانوں کو ایک ہی صف میں لاکر رکھ دیا ۔

اور انسان کی فضیلت کیلئے تقوی کو معیار قرار دیتے ہوئے فرمایا :( إِنَّ أَكْرَمَكمُ‏ عِندَ اللهِ أَتْقَئكُمْ ) ۔(۲)

بے شک خدا کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ باعزت ترین شخص وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو ۔

____________________

۱: سوره جمعه۲۔

۲: سوره حجرات۱۳۔

۶۵

اسی طرح ظالم وجابر بادشاہ جو فقیر وں اور ضعیفوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہوئے زندگی گزارتے تھے ، جب اس پیغام کو سنا تو وہ لوگ خاموش نہیں رہ سکے ؛ بلکہ اسلام کو اس صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہوگئے ۔جس کی وجہ سے اسلام مظلوم اور غریب ہوا ۔

ابو طالبؑ اور تقيه

بعض نفسياتي خواهشات کے اسیر او ر ریاست طلب ،دین فروش اور درہم و دینار کے لالچی لوگوں نے ظالموں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اپنی کتابوں میں ابوطالب کے ایمان کو مشکوک ظاہر کرنا چاہا ۔ نعوذ باللہ ! آپ شرک کی حالت میں اس دنیا سے چلے گئے ؛ جبکہ آپ کی شخصیت ، عظمت اور اسلام کے ساتھ محبت اور ایمان پر واضح دلائل موجود ہیں ۔ابوطالبعليه‌السلام کی ذات وہ ہے جسے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کا شرف حاصل ہے ؛ کہ آپ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کفار قریش اور دوسرے دشمنوں کے مکر وفریب اور ظلم وستم سے بچاتے رہے ، جبکہ وہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان کے درپے تھے ۔

اگر آپ کا اسلام اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر مکمل ایمان اور اعتقاد نہ ہوتا توکیسے

۶۶

دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یوں خطاب کیا ؟!:

وَ اللَّهِ لَا وَصَلُوا إِلَيْكَ بِجَمْعِهِمْ حَتَّى أُغَيَّبَ فِي التُّرَابِ دَفِيناً

فَامْضِ ابْنَ أَخِ فَمَا عَلَيْكَ غَضَاضَةٌ وَ أَبْشِرْ بِذَاكَ وَ قِرَّ مِنْكَ عُيُوناً

وَ دَعَوْتَنِي وَ زَعَمْتَ أَنَّكَ‏ نَاصِحِي وَ لَقَدْ صَدَقْتَ وَ كُنْتَ قَبْلُ أَمِيناً

وَ لَقَدْ عَلِمْتُ‏ بأَنَ‏ دِينَ‏ مُحَمَّدٍ مِنْ خَيْرِ أَدْيَانِ البَرِيَّة دِينَا(۱)

خدا کی قسم! اگروہ سب مل کر اپنی پوری قوت صرف بھی کرے؛جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک آپ کو ان کی طرف سے کوئی گزند نہیں پہنچے گا ۔پس اے میرے برادر زادے! جو آپ کا مقصد ہے اسے آشکار کرلو اور اس کی بشارت دو کوئی عیب والی بات نہیں ہے اور تم خوش رہو۔چشم شما روشن باد۔[یہ فارسی اصطلاح میں ایک دعائے خیر ہے]

اور تم نے مجھے دعوت دی ہے مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ناصح ہو اور تم نے سچ کہا ہے ،اور تم پہلے سے ہی امانت دار تھے۔اور میں بھی جانتا تھا کہ کہ دین محمد تمام مخلوقات عالم

___________________

۱: الغدير، ج۷ ، ص۳۳۴۔

۶۷

کے دین سے بہتر دین تھا۔

اگر ابوطالبعليه‌السلام ايمان نہ لائے ہوتے تو ابولہب کی طرح وہ بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا تھے ، خدا کی طرف سے مورد مذمت اور قابل نفرین قرار پاتے ؛ لیکن ایمان ابوطالب ؑ ہمارے لئے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آئمہ طاہرین ؑ کے فرامین کے ذریعے واضح اور روشن ہے ، اور آپ کا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔

یہاں تک کہ ابن ابی الحدید نے اشعار کی شکل میں اس مطلب کو بیان کیا ہے :

لو لا ابو طالب و ابنه لما مثل الدين شخصا فقاما

فهذا بمكة آوي و حامي و هذا بيثرب جس الحماما(۱)

"اگر ابوطالبعليه‌السلام اور ان کے فرزند علی نہ ہوتے تو دین اسلام بطور نمونہ برپا نہ ہوتا ۔ پس ابوطالبعليه‌السلام نے مکہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پناہ دی اور ان کے بیٹے نے مدینے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان بچانے کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا دی" ۔

____________________

۱: شرح نهج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ج۱۴،ص۸۴۔

۶۸

اگر علی نہ ہوتے تو ابوطالب سید سادات المسلمین والسابقین الاولین ہوتے ۔

جابر بن عبداللہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدااصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے امیر المؤمنینعليه‌السلام کی ولادت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے وضاحت فرمائی ، یہاں تک کہ ابوطالبعليه‌السلام کے بارے میں عرض کی :

قَالَ جَابِرٌ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ اللهُ أَكْبَرُ النَّاسُ يَقُولُونَ [إِنَ‏] أَبَا طَالِبٍ مَاتَ كَافِراً قَالَ يَا جَابِرُ اللهُ أَعْلَمُ بِالْغَيْبِ إِنَّهُ لَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الَّتِي أُسْرِيَ بِي فِيهَا إِلَى السَّمَاءِ انْتَهَيْتُ إِلَى الْعَرْشِ فَرَأَيْتُ أَرْبَعَةَ أَنْوَارٍ فَقُلْتُ إِلَهِي مَا هَذِهِ الْأَنْوَارُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ هَذَا عَبْدُالْمُطَّلِبِ وَ هَذَا أَبُو طَالِبٍ وَ هَذَا أَبُوكَ عَبْدُ اللهِ وَ هَذَا أَخُوكَ طَالِبٌ فَقُلْتُ إِلَهِي وَ سَيِّدِي فَبِمَا نَالُوا هَذِهِ الدَّرَجَةَ قَالَ بِكِتْمَانِهِمُ الْإِيمَانَ وَ إِظْهَارِهِمُ الْكُفْرَ وَ صَبْرِهِمْ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى مَاتُوا ۔(۱)

جابر بن عبد اللہ انصاری نےعرض کی : یا رسول اللہ ! اللہ اکبر ؛ لوگ کہتے ہیں کہ ابوطالبؑ حالت کفر میں اس دنیا سے رحلت کر گئے!

____________________

۱: بحار الانوار،ج۳۵، ص۱۶۔

۶۹

فرمایا: اے جابر خداوند سب سے زیادہ جاننے والا ہے علم غیب کا مالک ہے ، جس رات جبرئیل مجھے معراج پر لے گئے اور عرش پر پہنچےتو چار نور دیکھنے میں آئے، میں نے سوال کیا : خدایا یہ چار نور کن کے ہیں ؟!تو الله تعالي کی طرف سے جواب آیا : اے محمد!صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ عبدالمطلب ، ابوطالب،تیرے والد عبداللہ اور تیرے بھائی طالب کے ہیں۔میں نے کہا : اے میرے الله اے میرے آقا ! یہ لوگ کیسے اس مرتبے پر پہنچے ؟ خدا تعالی کی طرف سے جواب آیا : ایمان کے چھپانے اور کافروں کے مقابلے میں کفر کے اظہار اور ان پر صبر کرنے کی وجہ سے پہنچے ہیں۔

يونس بن نباته نے امام صادقعليه‌السلام سے روايت کی ہے :

قال يا يونس ما يقول الناس في ايمان ابو طالب عليه‌السلام قلت جعلت فداك ، يقولون «هو في ضحضاح من نار و في رجليه نعلان من نار تغلى منهما امّ رأسه» فقال كذب اعداءالله ، ان اباطالب عليه‌السلام من رفقاء النبيين و الصديقين و الشهداء و الصالحين و حسن اولئك رفيقا ۔(۱)

____________________

۱: كنز الفوائد ،ص۸۰۔

۷۰

چنانچہ محمد بن یونس نے اپنے والد سے انہوں نے امام صادقعليه‌السلام سے نقل کيا هے کہ آنحضرت نے ہم سے کہا: اے یونس ! لوگ ابوطالب کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ میں نے عرض کی ، مولا میں آپ پر قربان ہو جاؤں ؛ لوگ کہتے ہیں :

هو في ضحضاح من نار و في رجليه نعلان من نار تغلى منهما امّ رأسه ۔

"ابو طالب کھولتی ہوئی آگ میں پیروں میں آگ کے جوتے پہنے ہوئے ہے جس کی وجہ سے اس کا دماغ کھول رہا ہے "

امام نے فرمایا: خدا کی قسم یہ خدا کے دشمن لوگ غلط کہہ رہے ہیں ! ابوطالب انبیاء،صادقین ، شہداء اور صالحین کے ساتھیوں میں سے ہیں اور وہ لوگ کتنے اچھے ساتھی ہیں ۔(۱)

قصہ مختصر اگر علمائے اہل سنت بھی تھوڑا انصاف سے کام لیتے تو ايمان ابو طالبعليه‌السلام کو درک کرلیتے کہ ایمان کے کتنے درجے پر آپ فائز تھے ۔لیکن بعض خود غرض اور بغض اور

____________________

۱:۔ الطرائف؛ترجمه داود الهامى؛ ايمان ابو طالب ص۴۴۸ ۔

۷۱

کینہ دل میں رکھنے والے لوگوں نے ایک جعلی اور ضعیف روایت جو حدیث ضحضاح کے نام سے مشہور ہے اس کو دلیل بنا کر امير المؤمنين کے پدر گرامی اور پیغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا ابو طالب کے ايمان کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔اگران لوگوں کو اہل بیت اور علی ابن ابی طالبعليه‌السلام سے دشمنی نہ ہوتی تو ان ساری صحیح اور معتبر حدیثوں میں سے صرف ایک ضعیف حدیث کو نہیں اپناتے ۔ اور شيخ بطحا مؤمن قريش پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بڑے حامى پر یہ تہمت نہ لگاتے ۔(۱)

محققین اور راويو ں نے اس حديث کی بررسى اور گہری تحقيق کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ حدیث مورد اعتماد نہیں ہے ۔ علمائے اہل سنت کے نزدیک اس روایت کو نقل کرنے والے جھوٹے ، بعض مجہول اور بعض علیعليه‌السلام اور ان کی اولاد سے بغض و کینہ رکھنے والے تھے ۔ جن میں سے ایک مغيرة بن شعبه ہے جو ایک فاسق و فاجر اور سخت دشمن اہل بیت تھا ۔اس بارے میں درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں :

____________________

۱: الطرائف؛ترجمه داود الهامى؛ ايمان ابو طالب ص۴۶۰۔

۷۲

۱- اسنى المطالب في نجاة ابي طالب، سيد احمد زينى دحلان۔

۲- شيخ الأبطح او ابو طالب، سيد محمد علي آل شرف الدين۔

۳- الطرائف-ترجمه داود الهامى، ص: ۴۶۱ ۔

۴- الشهاب الثاقب، لرجم كفر ابى طالب، شيخ نجم الدين۔

۵- ايمان ابى طالب، ابو على كوفى۔

۶- ايمان ابى طالب، مرحوم مفيد۔

۷- ايمان ابى طالب، ابن طاوس۔

۸- ايمان ابى طالب، احمد بن قاسم۔

۹- بغية الطالب ۔۔، سيد محمد عباس تسترى ۔

۱۰- موهاب الواهب في فضائل ابى طالب۔

۱۱- الحجة على الذاهب الى تكفير ابى طالب، سيد فخار۔(۱)

____________________

۱: ایضاً، ص ۴۶۱۔

۷۳

امام کاظمعليه‌السلام سے روایت ہے:

إِنَّ إِيمَانَ أَبِي طَالِبٍ لَوْ وُضِعَ فِي كِفَّةِ مِيزَانٍ وَ إِيمَانَ هَذَا الْخَلْقِ فِي كِفَّةِ مِيزَانٍ لَرَجَحَ‏ إِيمَانُ‏ أَبِي‏ طَالِبٍ‏ عَلَى إِيمَانِهِمْ ثُمَّ قَالَ كَانَ وَ اللَّهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ يَأْمُرُ أَنْ يُحَجَّ عَنْ أَبِي‏ النَّبِيِّ وَ أُمِّهِ وَ عَنْ أَبِي طَالِبٍ‏ حَيَاتَهُ وَ لَقَدْ أَوْصَى فِي وَصِيَّتِهِ بِالْحَجِّ عَنْهُمْ بَعْدَ مَمَاتِه ‏۔(۱)

" اگر ایمان ابوطالبعليه‌السلام کو ترازو کے ا یک پلڑے میں قرار دیدیا جائے ا ور دوسری تمام مخلوقات کے ایمان کو دوسرے پلڑےمیں رکھ دیا جائے تو ابوطالبعليه‌السلام کا ایمان دوسرے تمام مخلوقات کے ایمان سے زیادہ بھاری ہوگا ۔۔۔ خدا کی قسم امیر المؤمنینعليه‌السلام جب تک زندہ رہے اپنے باپ، ماں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نیابت میں حج انجام دیتے رہے ۔اور حسن و حسینعليه‌السلام کو بھی وصیت کرگئے کہ وہ لوگ بھی اسی طرح ان کی نیابت میں حج انجام دیتے رہیں ۔اور ہم میں سے ہر امام اس سنت پر عمل کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آخری حجت کا ظہور ہوگا "

____________________

۱: إيمان أبي طالب (الحجة على الذاهب إلى كفر أبي طالب) ؛ ص۸۵

۷۴

عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ أَبِي طَالِبٍ أَ كَانَ مُؤْمِناً فَقَالَ نَعَمْ فَقِيلَ لَهُ إِنَّ هَاهُنَا قَوْماً يَزْعُمُونَ أَنَّهُ كَافِرٌ فَقَالَ وَا عَجَبَاهْ أَ يَطْعَنُونَ عَلَى أَبِي طَالِبٍ أَوْ عَلَى رَسُولِ اللهِ ص وَ قَدْ نَهَاهُ اللهُ أَنْ يُقِرَّ مُؤْمِنَةً مَعَ كَافِرٍ فِي غَيْرِ آيَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ وَ لَا يَشُكُّ أَحَدٌ أَنَّ بِنْتَ أَسَدٍ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ السَّابِقَاتِ وَ أَنَّهَا لَمْ تَزَلْ تَحْتَ أَبِي طَالِبٍ حَتَّى مَاتَ أَبُو طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ۔(۱)

امام سجادعليه‌السلام سے ایمان ابوطالبعليه‌السلام کے بارے میں سوال ہوا: کیا وہ مؤمن تھے ؟

تو فرمایا : ہاں ۔

راوی نے عرض کی : یہاں ایک قوم رہتی ہے جن کا عقیدہ ہے کہ ابوطالب حالت کفر میں اس دنیا سے چلے گئے ہیں !

تو امام ؑ نے فرمایا : واعجبا ! کیا وہ لوگ ابوطالب پر طعنہ اور تہمت لگا رہے ہیں یا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ؟! جب کہ خدا تعالی نے قرآن مجید کی کئی آیات میں کفار کے ساتھ ازدواج کو

____________________

۱: بحار ،ج ۳۵، ص ۱۱۷۔

۷۵

ممنوع قرار دیا ہے؛ اور اس میں بھی کسی کواختلاف نہیں کہ فاطمہ بنت اسد مؤمنہ عورتوں میں سے تھیں اور مرتے دم تک ابوطالبؑ کی زوجیت میں رہیں ۔

اور یہ دوسری دلیل ہے ایمان ابوطالب پر کہ مسلمان عورتوں کا کافروں کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے ؛ چنانچہ ۔ جب زینب نے اسلام قبول کیا ، اور ابی العاص نے شریعت اسلام قبول نہیں کیا تو اسلام نے ابی العاص کے ایمان لانے تک ان کے درمیان فاصلہ ڈالا۔ اور جب وہ ایمان لایا تو دوبارہ نکاح پڑھ کر ان کو رشتہ ازدواج میں منسلک کیا ۔(۱)

لیکن حضرت فاطمه بنت اسد وہ پہلی خاتون ہیں جنھوں نے مکہ سے مدینے میں رسول خدا (ص) کی طرف ہجرت کی ہے اور آپ پیغمبر اسلام (ص) کیلئے مہربان ترین خاتون تھیں۔(۲)

جب آپ رحلت کرگئی تو امير المؤمنينعليه‌السلام روتے ہوئے رسول خدا (ص) کی خدمت میں تشریف لائے ۔ رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا : یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! میری ماں فاطمہ اس نیا سے رحلت کر گئی ہے ۔فقال رسول الله : امي والله !

____________________

۱: تنقيح المقال في علم الرجال،ج۳،ص۷۹۔

۲: اصول كافي ،ج۱،باب امير المؤمنين ۔

۷۶

تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا خدا کی قسم وہ میری ماں تھی ۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم روتے ہوئے تشریف لائے اور تشییع جنازے میں شریک ہوئے ۔(۱)

پس اگر فاطمه بنت اسدمؤمنه تھیں اور ابو طالبعليه‌السلام كافر، تو کیسے پیغمبر اسلام (ص) نے ان کے درمیان جدائی نہیں ڈالی ؟!کیسے یہ تصور ممكن ہے كه پیغمبر اسلام (ص) نے ایک مهم ترين احكام اسلام سے چشم پوشي كرتے ہوئے اس حکم کو تعطيل كیا ہو؟!۔(۲)

پیغمبر اكرم (ص) ا ور تقيه

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کےتقيه كرنے کے موارد میں سے ایک مورد آپ کا بعثت سے تین سال پہلےمخفیانہ طور پر دعوت دینا تھا ۔

____________________

۱: اصول كافي ،ج۱،باب امير المؤمنين۔

۲: بحار الانوار،ج۳۵،ص۱۱۵۔

۷۷

اسی طرح صلح حدیبیہ کےموقع پرسهيل بن عمرو جو کہ مشركوں کانماينده تھا ، کی درخواست پر بسم اللہ الرحمن الرحیم کی بجائے 'باسمک اللهم' لکھنا اور رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عنوان کو حذف کرکے محمد بن عبداللہ لکھنا بھی ایک قسم کا تقیہ ہے ۔(۱)

آنحضرت (ص) کا عبد الله بن ابي پر نماز ميت پڑھنا اور بجائے دعا کے آہستہ سے نفرین کرنا جبکہ وہ منافقين مدينه کا سردار تھا ؛ موارد تقيه میں سے تھا ۔(۲)

عليعليه‌السلام اور تقيه

آپ کا سقیفہ والوں کے انتخاب پر ظاہرا ً ۲۵ سال تک خاموش رہنا جبکہ آپ کو معلوم تھا کہ قرآن اور فرمان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مطابق خلافت پر آپ کا حق تھا ، لیکن مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اتحاد کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے خاموش رہنا ،تقیہ تھا ۔ جس

____________________

۱: ابن هشام؛ السنة النبويه،ج۳، ص۳۱۷ ۔

۲: وسائل الشيعه،ج۹ ، ص۳۲۸ ـ ۳۲۹۔

۷۸

کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی مصلحتوں کو محفوظ کیا ۔ اگر آپ خاموش نہ رہتے تو اس وقت روم والے مسلمانوں کے سر پر کھڑے تھے کہ کوئی موقع ہاتھ آجائے تاکہ مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کو نابود کرسکیں ، جو مسلمانوں کی وحدت کی وجہ سے ناکام ہوا ۔

آپ کا اپنے زمانے کے حاکموں کے پیچھے نماز پڑھنا بھی تقیہ کے موارد میں سے ہے ۔

امام حسن ، امام حسین ،امام سجاد  اور تقيه

امام حسنعليه‌السلام کی خلافت کا دور ۲۱ رمضان ۴۱ ھ سے لے کر وفات امام سجادعليه‌السلام سن ۹۵ ھ تک تاريك ترين اور وحشت ناك ترين دور ہے جس سے آئمہ طاهرين دوچار ہوئے۔

صلح امام حسنعليه‌السلام ربيع الاول سال ۴۱ ھ کے بعد اور حكومت اموي کے برسراقتدارآنے کے بعد ، شيعه اور ان کے پيشواؤں کوشدید دباؤ ميں رکھا گیا۔معا ويه نے حکم دیا كه خطيب لوگ عليعليه‌السلام اور ان کے خاندان کی شان میں گستاخی کریں

۷۹

اور منبروں سے لعن طعن کریں ۔ شهادت اما م حسينعليه‌السلام سن ۶۱ ھ کے بعد مزید سختی کرنے لگے ۔ حضرت عليعليه‌السلام نے اپني خاص روشن بینی کی وجہ سے اپنے بعد آنے والےتمام واقعات کی پیشگوئي فرمائی ۔ اور اس دوران میں اپنے دوستوں سے تقیہ کرنے کا حکم فرمارہے تھے ۔کہ جب بھی ان کے مولا کے بارے میں گستاخی کرنے پر مجبور کیا جائے تو اپنی جان بچائیں اور ان کی بات قبول کریں۔(۱)

اس دوران میں آئمہعليهم‌السلام کے سياسي تقيه کے واضح ترين مصداق ،صلح امام حسنعليه‌السلام کوقراردے سکتے ہیں ۔ كه جو خود مهم ترين علت اور اسباب میں سے ایک ہے جس کا مقصد مسلمانوں خصوصاً شیعیان حیدر کرار کے خون کی حفاظت تھی ۔(۲)

اسی طرح امام حسينعليه‌السلام کا معاويه کے خلاف جنگ نہ کرنا بھی تقیہ شمار ہو تا

____________________

۱: بحار الانوار،ج۷۵ ، ص۳۹۳۔

۲: بحار الانوار،ج۷۵ ، ص ۴۴۷۔

۸۰