تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں17%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86739 / ڈاؤنلوڈ: 3149
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

ہے ۔اور اس دوران امام حسن و امام حسينعليه‌السلام کا مروان بن حكم ، حاكم مدينه کے پیچھے نماز پڑھنا بھی سياسي و اجتماعي تقيه کے مصاديق میں سے ہے ۔(۱)

اگر تاریخ کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام سجادعليه‌السلام تقیہ کرنے کا ایک خاص طریقہ اپناتے ہیں اور وہ دعا کی شکل میں اسلامی معارف اور تعلیمات کا عام کرنا ہے ۔ جس کا مجموعہ صحیفہ سجادیہ کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے ۔

امام باقرعليه‌السلام او رتقيه

امام باقرعليه‌السلام کا دور بنی امیہ کے کئی خلفاءوليد بن عبد الملك ، سليمان بن عبد الملك،عمر بن عبد العزيز، هشام بن عبد الملك)کا دور تھا اس دوران میں سخت گيري نسبتاً كم ہوئی ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے شيعه مکتب کے مختلف کلامي، فقهي اور فرهنگي امور کو تدوين کرکے اسلامي مکاتب کے سامنے رکھ ديا ، اور بهت

____________________

۱: بحار الانوار، ،ج۸۸۔

۸۱

سے شاگردوں کي تربيت کي ۔

ہم امام ؑ کے سیاسی تقیہ کے موارد میں سے درج ذیل توریہ والی روایت کو شمار کر سکتے ہیں کہ امام ؑ نے ہشام کی مجلس میں اس سے یوں خطاب کیا :يا امير المؤمنين الواجب علي الناس الطاعة لامامهم و الصدق له بالنصيحه ۔(۱) اے امير المؤمنین! لوگوں پر واجب ہے کہ اپنے امام ؑ کی اطاعت کریں اور نصیحت اور خیر خواہی کے وقت اسے قبول کریں ۔

اس روایت میں لفظ امام ،غاصب حاكموں ا ور آئمہ اهل بيتعليهم‌السلام دونوں پر قابل تطبيق ہے ۔بنی امیہ کے بادشاہوں سے تقیہ کرتے ہوئے شاہین اور عقاب کے ذریعے شکار کرنے کو حلال قرار دیا ؛ ان دو پرندوں کے ذریعے خلفائے بنی امیہ بہت زیادہ شکار کیا کرتے تھے ۔امام باقرعليه‌السلام کےتقیہ کرنے پر یہ روایت صراحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے ۔(۲)

____________________

۱: بحار الانوار ، ج ۴۶، ص ۳۱۶۔

۲:وسائل الشيعه ، ج ۱۶ ،ص ۲۶۴۔

۸۲

امام صادقعليه‌السلام اور تقيه

امام صادقعليه‌السلام کي ۳۴ ساله مدت امامت ۱۱۴ ھ سے لیکر ۱۴۸ ھ تک) آئمہ طاهرينعليهم‌السلام کي طولاني ترين مدت امامت شمار ہوتی ہے كه جسے تین حصوں میں تقسيم کرسکتے ہیں:

پہلاحصہ:

یہ هشام بن عبد الملک( ۱۰۵ ـــ ۱۲۵) کادور تھا ، جو سياسي لحاظ سے قدرت مند خليفه شمار ہوتا تھا اور مملكت اسلامي کے او ضاع پرمسلط تھا ۔ امام ؑ اور ان کی فعالیتوں کو سخت کنٹرول میں رکھتا تھا ۔

دوسرا حصہ :

یہ دوره سن ﴿ ۱۲۵ _ ۱۴۵ ﴾ھ کو شامل کرتا ہے كه بني اميه کي حكومت روبه زوال تھي اور بنی عباس کے ساتھ جنگ وجدال میں مشغول ہوگئے تھے آخرکار ان کے ہاتھوں شکست کھا کران کي حکومت سرنگوں ہوئي ۔

تیسرا حصہ:

سن( ۱۴۵ ـ ۱۴۸) ھ کوشامل کرتا ہے كه اس وقت منصور نے شدت

۸۳

کے ساتھ امام ؑ اور ان کی فعاليتوں کو مختلف اطراف سے كنٹرول کررکھا تھا۔

بحارالانوار میں آنحضرت کے تقيه سے مربوط ۵۳ روايت جمع کي گئي ہیں ۔(۱) كه جن میں سے زیادہ تر اس کتاب کے مختلف ٖصفحات پر ذکر ہوئی ہیں ۔

جب منصور نے امام ؑ کو ان کی حکومت کے خلاف قیام کرنے سے ڈرايا تو امامعليه‌السلام نے فرمايا: میں نے بنی امیہ کے زمانے میں کوئي ایسا قيام نہیں کیا ہے جب کہ وہ سب سے زیادہ ہمارے ساتھ دشمنی کرنے والے تھے ، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے چچا زاد بھائی کے خلاف قیام کروں جب کہ رشتے کے لحاظ سے سب سے زیادہ قریب ہے ، اورسب سے زیادہ میرے اوپر مہربان اور نیکی کرنے والا ہے۔(۲)

امام صادقعليه‌السلام کی وصيت بعنوان تقیہ ہم بیان کر سکتے ہیں کہ جب امام صادقعليه‌السلام رحلت فرماگئے تو منصور نے مدينه کے گورنر کو خط لکھا : جس کو بھی امام ؑ نے اپنا جانشین

____________________

۱: ۔ بحار الانوار،ج ۷۵، ص ۳۹۳ ۔

۲: بحار الانوار،ج۷۵ ، ص،۱۹۶۔

۸۴

اوروصی بنایا، اسے اپنے پاس لا کر اس کا سر قلم کردو۔

جب مدینے کا گورنر اس ماجرا کی تحقیق کرنے لگا تو معلوم ہوا کہ امامعليه‌السلام کئی افراد کو اپنے جانشین کے طور پر معین کرچکے هيں، جیسے موسی ابن جعفرعليه‌السلام ، اپنی زوجہ حميدہ اور اپنے دوسرےفرزند عبدالله اور خود امامعليه‌السلام ۔جن میں سے خود منصور اور مدینہ کا گورنر بھی شامل ہیں۔

دوسرے دن جب منصور کو یہ خبر دی گئی تو وہ چیخ اٹھا اور کہنے لگا : اے گورنر اس صورت میں میں کسی کو بھی قتل نہیں کرسکتا ۔(۱)

الْإِمَامُ الْعَسْكَرِيعليه‌السلام فِي تَفْسِيرِهِ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً قَالَ الصَّادِقُ ع قُولُوا لِلنَّاسِ كُلِّهِمْ حُسْناً مُؤْمِنِهِمْ وَ مُخَالِفِهِمْ أَمَّا الْمُؤْمِنُونَ فَيَبْسُطُ لَهُمْ وَجْهَهُ وَ أَمَّا الْمُخَالِفُونَ فَيُكَلِّمُهُمْ بِالْمُدَارَاةِ لِاجْتِذَابِهِمْ إِلَى الْإِيمَانِ فَإِنِ اسْتَتَرَ مِنْ ذَلِكَ يَكُفَّ شُرُورَهُمْ عَنْ نَفْسِهِ وَ عَنْ إِخْوَانِهِ الْمُؤْمِنِينَ

__________________

۱: مهدي پيشوائي ؛ سيره پيشوايان ، ص۴۱۴۔

۸۵

قَالَ الْإِمَامُ ع إِنَّ مُدَارَاةَ أَعْدَاءِ اللهِ مِنْ أَفْضَلِ صَدَقَةِ الْمَرْءِ عَلَى نَفْسِهِ وَ إِخْوَانِهِ كَانَ رَسُولُ اللهِ فِي مَنْزِلِهِ إِذِ اسْتَأْذَنَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي سَلُولٍ فَقَالَ رَسُولُ اللهِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ ائْذَنُوا لَهُ فَأَذِنُوا لَهُ فَلَمَّا دَخَلَ أَجْلَسَهُ وَ بَشَرَ فِي وَجْهِهِ فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَةُ يَا رَسُولَ اللهِ قُلْتَ افِيهِ مَا قُلْتَ وَ فَعَلْتَ بِهِ مِنَ الْبِشْرِ مَا فَعَلْتَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ص يَا عُوَيْشُ يَا حُمَيْرَاءُ إِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ يُكْرَمُ اتِّقَاءَ شَرِّهِ وَ قَالَ الْإِمَامُ ع مَا مِنْ عَبْدٍ وَ لَا أَمَةٍ دَارَى عِبَادَ اللهِ بَأَحْسَنِ الْمُدَارَاةِ وَ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا فِي بَاطِلٍ وَ لَمْ يَخْرُجْ بِهَا مِنْ حَقٍّ إِلَّا جَعَلَ اللهُ نَفَسَهُ تَسْبِيحاً وَ زَكَّى أَعْمَالَهُ وَ أَعْطَاهُ لِصَبْرِهِ عَلَى كِتْمَانِ سِرِّنَا وَ احْتِمَالِ الْغَيْظِ لِمَا يَحْتَمِلُهُ مِنْ أَعْدَائِنَا ثَوَابَ الْمُتَشَحِّطِ بِدَمِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ(۱)

امام عسکريعليه‌السلام اپني تفسير ميں امام صادقعليه‌السلام سے اس آيه شريفه کے ذيل ميں نقل فرماتے هيں :که هر انسان کے ساتھ نيک گفتار هونا چاهئے ، خواه وه مؤمن هو يا ان کا مخالف هو۔مؤمنوں کے ساتھ خوش روئي کے ساتھ پيش آئے،ليکن ان کے مخالفين کے ساتھ مدارات کے ساتھ پيش آئيں تاکه ان کوايمان کي طرف جلب کرسکيں۔ اگر يه لوگ ان سے چھپائیں کہ یہ مؤمن ہیں تو ان کے شر سے اپنے

____________________

۱: مستدرك‏الوسائل، ج۹، ص ۳۶، باب استحباب مداراة الناس ۔

۸۶

آپ کو ، اپنے مؤمن بھائيوں کوبچا سکتے هيں ۔امام ؑ نے فرمايا : دشمنوں کے ساتھ مدارات کے ساتھ پيش آنا؛ اپني جان، اور اپنے بھائيوں کا بهترين صدقه دينا هے۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايک دن اپنے گھر ميں تشريف فرما تھے که عبدالله بن ابي سلول نے دستک دي ، تو رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: قوم کا سب سے برا انسان هے ، اسے اندر آنے کي اجازت دي جائے ۔ جب وه اندر داخل هواتو آپ نے خنده پيشاني سے اس کا استقبال کيا ۔ جب وه نکل گيا تو عائشه نے سوال کيا : يا رسول الله ! آپ نے کها کچھ ، اور کيا کچھ؟تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا:اے عويش اے حميرا! الله کے نزديک قيامت کے دن سب سے برا انسان وه هوگا، جس کے خوف سے لوگ اس کي عزت کريں ۔

امام ؑ نے فرمايا : کسي بھي مرد اور عورت ميں سے کوئي بھي الله کے بندوں کيساتھ نيکي کرے ، جبکه وه اس حالت میں باهر نهيں نکلتا،مگر يه که الله تعالي اس کے سانسوں کو اپني تسبيح پڑھنے کا ثواب لکھ ديتا هے ۔ اور اس کے سارے اعمال کوخالص بناتا هےاور اسے همارے اسرار کو چھپانے ، اور دشمن کے غم وغصے

۸۷

کو برداشت کرنے کي وجه سے، اس شخص کا ثواب عطا کرے گا ، جو الله کي راه ميں جهاد کرتے هوئے اپنے خون ميں غلطان هوچکا هو۔اور اس مداراتي تقيه کے نتائج کو بھی بیان فرمایا۔

عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ مَنْصُورٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللهِ ع قَالَ مَنْ كَفَّ يَدَهُ عَنِ النَّاسِ- فَإِنَّمَا يَكُفُّ عَنْهُمْ يَداً وَاحِدَةً- وَ يَكُفُّونَ عَنْهُمْ أَيَادِيَ كَثِيرَة ۔(۱)

جو بھی لوگوں کے ساتھ مدارات اور مہربانی کرے اور ان کےساتھ سختی سے پیش نہ آئے تو اس نے حقیقت میں نه صرف اپنا ایک ہاتھ كسي دوسرے کو اذیت اورتکلیف پہنچانے سے باز رکھا ،بلکه بہت سے ہاتھوں کو اپنے اوپر ظلم و تشدد کرنے سے دور رکھا ہے ۔

____________________

۱: بحار الأنوار، ج‏۷۲، باب التقية و المداراة،ص : ۳۹۳۔

۸۸

امام موسي کاظم ؑ اور تقيه

امام كاظمؑ کا ۳۵ ساله دور امامت ( ۱۴۸ ـ ۱۸۳) جو حضرت حجت(عج) کی امامت کے علاوہ طولاني ترين اورسخت ترين دور شمار ہوتا ہے ۔جس میں تقیہ کے بہت سے موارد دیکھنے میں آتے ہیں:

یہ دور،بنی عباس کے سخت اورسفاک خلفاء جیسے منصور ، مهدي ، هادي اور هارون کی حکومت کا دور تھا ۔کہ ان میں سے ہر ایک امامت کی نسبت بہت زیادہ حساس تھے ، یہاں تک کہ امام ؑ کے بعض چاہنے والوں ، جیسے محمد ابن ابي عمير کئی عرصے تک جیل میں ڈالے گئے ۔ اسی دور میں حسين ابن علي ابن حسن جو شهيد فخ کے نام سے معروف تھے ، ۱۶۹ ه میں حکومت کے ساتھ ان کي جنگ هوئي ،جو ان کی شهادت پر جا کر ختم ہوئي۔ اور هادي عباسي یه تصور كررہا تھا کہ یہ جنگ ،امام ؑ کے فرمان کے مطابق کي گئي ہے، اس لئے ان کے اوپر زیادہ سخت گيري کرنی شروع کردی ۔

اس دورمیں تقيه امام ؑ کے بعض موارد یہ ہیں:

۸۹

۱ـ جب خلیفہ موسي الهادي اس دنيا سے چلا گیا تو امام ؑ کا اس کی ماں خیزران کو تعزيتي پیغام دیتے ہوئے خلیفہ کو امير المؤمنين کا عنوان دے کر ياد کرنا اور اس کیلئے رحمه الله کہہ کر طلب مغفرت کرنا اور پھر هارون کی خلافت کو بھی امير المؤمنين کے عنوان سے ياد کرتے ہوئے ان کو مبارک باد کہنا ،

مرحوم مجلسي نے اس خط کے ذیل میں لکھا ہے کہ ، آنحضرت کے زمانے میں شدت تقيه کا نظاره كر سکتے ہیں كه انہیں ایک فاسق اور جابر حاکم کے لئے ایسےالقابات لکھنے پر مجبورکرديا تھا۔(۱)

۲ـ يحي بن عبد الله بن حسن نے ایک خط امام ؑ کے نام لکھا ،کہ آنحضرت کو حكومت عباسي کے خلاف قیام کرنے سے روکتے ہوئے سزا دی جائے ۔لیکن امام ؑ نے

____________________

۱: بحار الانوار،ج۴۸۔ص۱۶۶۔

۹۰

اس کے جواب میں خط لکھا جس کے ضمن میں اسے بطورخلیفہ یاد کیا ۔ امام ؑ کا یہ خط هارون کے ہاتھوں میں پہنچ گیا ۔جسے دیکھ کر انہوں نے کہا: لوگ موسي ابن جعفر کے بارے میں مجھے بہت سی چیزیں بتا تے ہیں ، اور مجھے ان کے خلاف اکساتے ہیں جب کہ وہ ان تہمتوں سے پاک هیں ۔(۱)

۳۔علي ابن يقطين جو هارون کی حکومت میں مشغول تھے اور امامؑ کے ماننے والوں میں سے تھے ؛ ایک خط امامؑ کو لکھتے ہیں اور امامؑ سے وضو کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ امامؑ اس کے جواب میں اهل سنت کے وضو کا طریقہ اسے تعلیم دیتے ہیں کہ تم انہیں کی طرح وضو کیا کرو ۔ اگرچه علي ابن يقطين کو بڑاتعجب ہوا ، لیکن حکم امامؑ کی اطاعت ضروری تھی ۔ هارون كو بھی علي ابن يقطين پرشك ہو چکا تھا ، سوچا کہ اس کے وضو کرنے کے طریقے کو مشاہدہ کروں گا ۔ اگر اس نے مذهب شيعه کے مطابق وضوکیا تو اسے بهت سخت سزادوں گا ۔ لیکن جب ان کے وضوکرنے کے طریقے

____________________

۱: بحار الانوار،ج۷۵ ،ص۳۸۔

۹۱

کو دیکھا تو اسے اطمینان ہواکه ان کے بارے ميں لوگ جھوٹ کہتے تھے ، تو علی ابن یقطین کی عزت اور مقام اس کے نزدیک مزید بڑھ گيا ۔بلا فاصله اس ماجرا کے بعد امامؑ کی طرف سے علي ابن یقطین کو دستور ملا کہ وضو اب مذهب شيعه کے مطابق انجام دیا کریں ۔(۱)

امام رضاعليه‌السلام اور تقيه

امام رضاعليه‌السلام کی امامت کا دور ( ۱۸۳ ـ ۲۰۳) تک ہے ، جسے تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

پہلا دور : ۱۸۳ سے لیکر ۱۹۳ سال تک کا دور ہے ۔ اس دور میں ہارون الرشید حاکم تھا ؛ يه دورشیعیان حیدر کرار پر بہت سخت گزرا۔اس ملعون نے قسم کھا ئی ہوئی تھی کہ موسي ابن جعفرعليه‌السلام کے بعد جو بھی امامت کا دعویٰ کرے گا اسے قتل کیا جائے گا ۔ لیکن

____________________

۱: رياض ، ناصري ، الواقفيه۔

۹۲

اس کے باوجود امام رضاعليه‌السلام نے بغیر کسی خوف اور وہم و گمان کے اپنی امامت کو لوگوں پرآشکار کیا امام ؑ کا تقیہ نہ کرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس وقت خواہشات نفسانی اور مال و زر کے اسیروں نے آپ کی امامت کا انکار کرکے فرقہ واقفیہ کی بنیاد ڈالی تھی ۔ امام موسیعليه‌السلام کے زندہ ہونے کے قائل ہوگئے تھے ۔ چنانچہ کہنے لگے :الامام الکاظم لم یمت ولایموت ورفع الی السماء وقال رسول الله فی شانه:ویملأالارض قسطاً وعدلاً کماملئت ظلماً وجوراً ۔(۱)

"امام کاظم ؑفوت نہیں ہوئے ہیں اور نہ فوت ہونگے ، انہیں خدا تعالی نے آسمان کی طرف اٹھایا ہے ۔اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی شان میں فرمایا:دنیا کو وہ عدل و انصاف سے اسي طرح پر کریں گے جس طرح ظلم و جور سے پر ہو چکی ہوگی "

اس ماجرے کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کے ہاتھوں مال خمس اور زکوۃ کا کچھ حصہ موجود تھا ۔ کیونکہ حضرت امام موسی بن جعفرعليه‌السلام قید و بند میں تھے ؛ جس کے بعد آپ کی

____________________

۱: بحار الانوار، ج۴۶، ص ۱۱۴۔

۹۳

شہادت ہوئی تو جو مال ان کے ہاتھوں میں موجود تھا ،ضبط کر لیا اور ان کے فرزند ارجمند علی ابن موسی الرضاعليه‌السلام کی امامت کے منکر ہوگئے ۔(۱)

ٍ زياد بن مروان قندى جو گروہ واقفيه میں سے تھا کہتا ہے :میں ابو ابراہیمعليه‌السلام کی خدمت میں تھااور ان کے بیٹے علی ابن موسیٰ الرضاعليه‌السلام بھی ان کی خدمت میں حاضر تھے ؛ مجھ سے فرمانے لگے: اے زیاد ! یہ میرا بیٹا ہے اس کا قول میرا قول ہے اس کی کتاب میری کتاب ہے اس کا رسول میرا رسول ہے ، اور یہ جو بھی زبان پر جاری کرے گا وہ حق ہوگا۔(۲)

بہر حال امامعليه‌السلام نے اپنی امامت کا اظہار کیا تو آپ کے ایک صحابی نے اصرار کیا کہ آپ لوگوں کو اپنی امامت کے بارے میں مزيد وضاحت فرمائیں ؛ توفرمایا: اس سے بڑھ کر اور کیا وضاحت کروں ؟! کیا تم چاہتے ہو کہ میں ہارون کے پاس جاکر اعلان کروں کہ میں لوگوں کا امام ہوں اور تیری خلافت اور تیرا منصب باطل ہے ؟! ایسا توپیغمبراكرم (ص) نے بھی

____________________

۱:۔ زندگانى چهارده معصومعليه‌السلام ، ،امامت حضرت رضاعليه‌السلام , ص۴۲۴۔

۲:۔ زندگانى چهارده معصومعليه‌السلام ، ،امامت حضرت رضاعليه‌السلام ، ص۴۲۵۔

۹۴

اپنی رسالت کے اولین بار اعلان کرتے وقت نہیں کیا ہے ، بلکہ آغاز رسالت میں اپنے دوستوں ، عزیزوں اورقابل اعتماد افراد کو جمع کرکے اپنی نبوت کا اظہار کیا ۔(۱)

امام هاديعليه‌السلام اور تقيه

امام هاديعليه‌السلام کا دوران امامت ( ۲۲۰ ـ ۲۵۴ ھ)بھی سخت ترین دور تھا ، جس کی سب سے بڑی دلیل یہ هے کہ بنی عباس کے خلفاء اور حکمران، آپ پر ہر وقت پہرہ لگائےرکھتے تھے ۔ چنانچہ متوكل( ۲۳۲ ـ ۲۴۷) نے امامعليه‌السلام کی فعاليت کو سخت كنٹرول میں رکھنے کیلئے مدينه سے سامرا (دارالخلافہ) منتقل کردیا ۔جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ عباسیوں کے ایک گروہ نے متوکل کو خط لکھا کہ لوگ امام ہادیعليه‌السلام کے گرویدہ ہورہے ہیں جو تمہاری حکومت کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ اوراگر تم مكه اور مدينه چاہتے ہو تو علي ابن محمدکو مدينه سے نکال کر کہیں اور منتقل کردو ۔(۲)

____________________

۱:۔ بحار الانوار، ج۴۶، ص ۱۱۴۔

۲:۔ بحار الانوار،ج۵۰،ص۲۱۔

۹۵

امامعليه‌السلام کے سیاسی اوضاع کی شناخت کیلئے اتنا ہی کافی ہے ۔

اور اب اس دور میں اجتماعی تقیہ کے پائے جانے پر ہمارے پاس جو دلیل ہے ،وہ یہ ہیں :روایتوں میں ذکر ہوا ہے کہ علی ابن مھزیار نے امام ؑ سے پوچھا : کیا ہم اہل سنت کے احکام کے مطابق اموال پر مالک ہوسکتے ہیں جبکہ مکتب اہل بیت ؑ کے احکام کے مطابق اس مال پر مالک نہیں بن سکتے؟جیسے ارث وغیرہ کے احکام ہیں ،جب کہ وہ لوگ اپنے احکام کے مطابق ہم سے اموال لیتے ہیں ؟

تو امامعليه‌السلام نے فرمایا:

يجوز لكم ذالك انشاءالله اذا كان مذهبكم فيه التقية منهم والمداراة لهم ۔(۱)

"ہاں تمہارے لئے ایسا کرنا جائز ہے انشاءالله اگر تقيه اور مدارات کی حالت میں ہو" ۔

____________________

۱:۔ وسائل الشيعه،ج۱۸، ص۱۶۵۔

۹۶

امام جوادعليه‌السلام اور تقيه

امام جوادعليه‌السلام کا دور امامت سن ۲۰۳ سے ۲۲۰ ھ تک ہے جو مامون اور اس کے بھائی معتصم کی حكومت کا دور ہے۔ امام ؑ نے بیشتر وقت مدینہ اور مرکزی حکومت سے دور رہ کر گزارا ۔ لیکن پھر بھی مامون اور معتصم ،ام الفضل جو آپ کی زوجہ اور مامون کی بیٹی ہے ، کے ذریعے امامعليه‌السلام کے گھریلو معاملات میں جاسوسی کرنے لگے ؛ لیکن وہ قابل ذکر موارد جہاں آپ نے تقیہ کیا ہے وہ یہ ہیں:

۱. امامعليه‌السلام کا نماز میں قنوت نہ پڑھنا:اذا كانت التقية فلا تقنت وانا اتقلد هذا ۔(۱)

۲. ایک دفعہ يحي بن اكثم کے ساتھ مناظرہ ہوا ، جب یحی نے ابوبکر اور عمر کی شان میں جعلی احادیث کو بیان کیا تو امام ؑ نے فرمایا: میں منكر فضائل نہیں

____________________

۱:۔ وسائل الشيعه ،ج۴،ح۱ ۔

۹۷

ہوں ، اس کے بعد منطقي دلائل کے ذریعے ان احادیث کے جعلی ہونے کو ثابت کرنے لگے ۔(۱)

امام حسن العسكريعليه‌السلام اور تقيه

امام عسكريعليه‌السلام کا دور امامت اگرچہ بہت ہی مختصر ہے ( ۲۵۴ ـ ۲۶۰) لیکن اپنے بابا کے دور امامت سے کئی درجہ زیادہ سخت اور مشکل ہے ۔اس دور کے آغاز میں معتز( ۲۵۲ ـ ۲۵۵) نے آپ کو آل ابوطالبعليه‌السلام کے کچھ افراد کے ساتھ قید کرلیا ۔ اس کے بعد مهدي( ۲۵۵ ـ ۲۵۶) عباسی نے بھی یہی رویہ اختیار کیا ، یہاں تک کہ آپ کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دی گئی ۔(۲)

لیکن وہ اس مکروہ ارادے میں کامیاب نہیں ہوا ۔ لیکن آخر کار معتمد( ۲۵۶ ـ ۲۷۹)

____________________

۱:۔ بحار الانوار،ج۵۰،ص۸۰۔

۲:۔ بحار الانوار ،ص ۳۰۸۔

۹۸

جس نے یہ سن رکھا تھا کہ امام عسكريعليه‌السلام کی اولاد میں سے ایک فرزند آئے گا جو ظلم و بربریت کو ختم کرے گا ؛امام ؑ اور ان کے خاندان پر کڑی نظر اور پہرہ ڈال رکھا تھا ، تاکہ وہ فرزند اس دنیا میں نہ آنے پائے ۔ آخرکار اس نے امامعليه‌السلام کو شهید کردیا ۔

لیکن امامعليه‌السلام نے اپنے بیٹے کی ولادت کو مخفی رکھا ، یہاں تک کہ بہت سارے شیعوں کوبھی ان کی ولادت کا علم نہیں تھا جو سن ۲۵۵ ه میں متولد ہوئے تھے ۔(۱) کیونکہ بهت زياده خطرہ تھا ۔ امامعليه‌السلام کی شہادت کے بعد آپ کا بھائی جعفر جو ایک بےایمان انسان تھا ، آپ کی ساری میراث اپنے نام کروایا ۔کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ امام ؑ کا کوئی وارث بھی ہے ۔(۲)

امامعليه‌السلام کے کچھ سیاسی تقیہ کے موارد اپنے چاہنے والوں کے نام لکھے ہوئے خط سے

____________________

۱:۔ بحار الانوار ج ۵۱، ص ۔۱۵ ۔

۲:۔ الارشاد ، ج ۲، ص ۳۳۰۔

۹۹

واضح ہوتے ہیں، فرماتے ہیں کہ:

۱ ـ جب میں تمہارے سامنے سے گزروں تو مجھے سلام نہ کرنا ۔اور اپنے ہاتھوں سے میری طرف اشارہ نہ کرنا ، کیونکہ تم لوگ امان میں نہیں ہو ۔اور اس طرح اپنے آپ کو درد سر میں ڈالنے سے محفوظ رکھو ۔

۲ ـ امامعليه‌السلام جب اپنے اصحاب سے ملاقات کرتے تھے تو ان کیلئے مخفی طور پر پیغام بھیجتے تھے کہ فلاں جگہ جمع ہو جائیں ، تاکہ ایک دوسرے کا دیدار ہو سکے ۔ ۔امامعليه‌السلام سخت سياسي دباؤ کی وجہ سے اپنے چاہنے والوں کو تقیہ کرنے پر زیادہ زور دیتے تھے ۔جیسا کہ فرمایا:

وسع لهم في التقيه يجاهرون باظهار موالاة اولياءالله و معادات اعداءالله اذا قدروا و يسترونها اذا عجزوا ۔

خدا تعالی نے شیعیان حیدر کرار کیلئے تقیہ میں راحت اور آرام کو پوشیدہ رکھا ہے کہ اپنی طاقت اور قدر کو آشکار کرنے کا وقت آتا ہے تو اللہ کے چاہنے والوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے نفرت کا اعلان کریں، اور جب بھی دوسرے گروہ کے مقابلے میں کمزور واقع ہوجائیں تو اس دوستی اور دشمنی کو چھپائیں ؛ پھر فرمایا:

أَلَا وَ إِنَّ أَعْظَمَ فَرَائِضِ اللهِ عَلَيْكُمْ بَعْدَ فَرْضِ مُوَالاتِنَا وَ مُعَادَاةِ أَعْدَائِنَا اسْتِعْمَالُ التَّقِيَّةِ عَلَى أَنْفُسِكُمْ وَ إِخْوَانِكُمْ وَ مَعَارِفِكُمْ وَ قَضَاءُ حُقُوقِ إِخْوَانِكُمْ فِي

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

۱۴_ اسلامى معاشرے كے رہبر كيلئے انفاق كرنے والوں اور دينى خدمات انجام دينے والوں كى قدردانى كرنا اور ان كيلئے دعا كرنا ضرورى ہے_ويتخذ ما ينفق صلوات الرسول

پيغمبر (ص) كا انفاق كرنے والوں كيلئے دعا كرنا اور پھر خدا تعالى كا اسے ايك اچھائي كے طور پر ذكر كرنا مندرجہ بالا نكتے پر دلالت كرتا ہے_

۱۵_ خدا تعالى كے قريب ہونے اور معنوى اقدار كو حاصل كرنے كيلئے مادى وسائل سے استفادہ كرنا ضرورى ہے_

من يؤمن بالله و يتخذ ما ينفق قربات عند الله و صلوات الرسول

۱۶_ خدا تعالى كا انفاق كرنے والے مومنين كو اپنے دريائے رحمت ميں غوطے دينے كا وعدہ _سيدخلهم الله فى رحمته

۱۷_ مومنين كا خلوص كے ساتھ انفاق انكى گذشتہ لغزشوں كى بخشش اور خدا تعالى كى رحمت واسعہ كے ان كے شامل حال ہونے كا سبب بنتا ہے_سيدخلهم الله فى رحمته ان الله غفور رحيم

۱۸_ انفاق كرنے والے مومنين كا رحمت خداوندى سے بہرہ مند ہونا اسكى بے پايان رحمت و بخشش كا نتيجہ ہے_

و من الاعراب من يؤمن و يتخذ ما ينفق قربات سيدخلهم الله فى رحمته

۱۹_ خدا تعالى غفور ( بہت بخشنے والا ) اور رحيم ( وسيع رحمت والا ) ہے_ان الله غفور رحيم

اسماو صفات :غفور ۱۹; رحيم ۱۹

اقدار :انكو حاصل كرنے كى اہميت ۱۵; ان ميں مؤثر عوامل ۴

انسان :اس كا اختيار ۳

انفاق :اسكى قدر و قيمت كا معيار ۴;اسكے اثرات ۱۰; اس ميں اخلاص كے عوامل ۷

انفاق كرنے والے:ان كا شكر يہ ادا كرنا ۱۴;انكے ساتھ وعدہ ۱۶; ان كيلئے دعا كرنا ۶،۱۴

ايمان:خدا پر ايمان كى اہميت ۲;خدا پر ايمان كے آثار ۷; قيامت پر ايمان كى اہميت۲;قيامت پر ايمان كے آثار ۷

۲۸۱

باديہ نشين لوگ:ان كا اخلاص ۵; انكا انفاق ۵ ; انكا تقرب ۵يہ اور حضرت محمد (ص) كى دعا ۵

بخشش:اس كاپيش خيمہ ۱۰،۱۲،۱۷

تقرب:اسكا پيش خيمہ ۱۳;اسكى اہميت ۱۵; اس كے عوامل ۱۰،۱۱،۱۲

تمايلات:ان ميں مؤثر عوامل ۳

خدا تعالى :اسكى بخشش كے آثار ۱۸; اسكى رحمت كا پيش خيمہ ۱۰،۱۲،۱۷;اسكى مہربانى كے آثار ۱۸; اسكے وعدے ۱۶

دعا:اسكى اہميت ۱۴

دين كے خدمت گزار لوگ:انكا شكر يہ ادا كرنا ۱۴; ان كيلئے دعا ۱۴

دينى راہنما :ان كى ذمہ دارى ۱۴;ان كى طرف سے شكر يہ ادا كرنے كى اہميت ۱۴،

رحمت:اس كا وعدہ ۱۶;يہ جنكے شامل حال ہے۱۶،۱۸

عقيدہ :اس ميں مؤثر عوامل ۳

عمل:اسكى قدر و قيمت كا معيار ۴;اس ميں اخلاص كے عوامل ۷; پسنديدہ عمل ۱۳

قيامت :اس پر ايمان ركھنے والے۱

كفار :باديہ نشين كفار ۱

كفر :اسكے درجے ۱

ماحول :اجتماعى ماحول كے آثار ۳; اجتماعى ماحول كا مجبور كرنا ۳

مادى وسائل :ان سے استفادہ كرنا ۱۵

محرك :اسكے آثار ۴

محمد(ص) :آپ(ص) كى دعا ۶; آپ(ص) كى دعا حاصل كرنا ۱۳;

۲۸۲

آپ(ص) كى دعا كا پيش خيمہ ۱۰; آپ(ص) كى دعا كى قدر و قيمت ۹;آپ(ص) كى دعا كے آثار ۹،۱۲; آپ(ص) كى دعا كے عوامل ۱۱

مومنين :انكى كوشش ۱۸;ان كے انفاق كے آثار ۱۱،۱۷; ان كے ساتھ وعدہ ۱۶; باديہ نشين مومنين ۱; خدا پر

ايمان لانے والے ۱; مومنين اور حضرت محمد(ص) كى دعا ۸;مومنين اور خدا كا تقرب ۸

نفاق:اسكے اثرات ۱

نيت :اسكے اثرات۴

آیت ۱۰۰

( وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ )

اور مہاجرين و انصار ميں سے سبقت كرنے والے اور جن لوگوں نے نيكى ميں ان ا تباع كيا ہے ان سب سے خدا راضى ہوگيا ہے اور يہ سب خدا سے راضى ہيں خدا نے ان كے لئے وہ باغات مہّيا كئے ہيں جن كے نيچے نہريں جارى ہيں اور يہ ان ميں ہميشہ رہنے والے ہيں اور يہى بہت بڑى كاميابى ہے _

۱_ خدا تعالى ، مہاجرين و انصار ميں سے سب سے پہلے قدم بڑھانے والوں اور ان كے راستے كى پيروى كرنے والوں سے راضى ہے اور وہ بھى خدا تعالى سے راضى ہيں _

و السابقون الاولون من المهاجرين و الانصار و الذين اتبعوهم باحسان رضى الله عنهم و رضوا عنه

۲_ خدا تعالى كى بارگاہ ميں ايمان و عمل كى طرف سبقت كرنے كى خاص اہميت اور قدرو قيمت ہے_

و السابقون الاولون من المهاجرين و الانصار

۳_ سخت اور دشوار حالات ميں دين اور الہى اقدار كى حمايت كرنے كى بڑى قدر و قيمت ہے_

و السابقون الاولون من المهاجرين و الانصار

۴_ صرف نيكى كے راستے ميں مہاجرين و انصار كى پيروى قابل تعريف اور قابل قدر ہے نہ ہر قسم كى پيروي

و السابقون و الذين اتبعوهم باحسان

۲۸۳

۵_ مہاجرين و انصار كے قابل قدر ہونے كا لازمہ ان سے برے عمل كے صدور كى نفى نہيں ہے_

و الذين اتبعوهم باحسان

خدا تعالى نے متابعت كرنے والوں كے قابل قدر ہونے كو اس چيز كے ساتھ مشروط كيا ہے كہ وہ صرف نيكى كى بنياد پر اور نيكيوں ميں مہاجرين و انصار كى پيروى كريں نہ ہر قسم كے عمل ميں اورہر ہدف كے ساتھ اور يہ اس بات كى دليل ہے كہ مہاجرين و انصار برے عمل سے مبرا نہيں تھے_

۶_ دل كے ساتھ خدا تعالى سے راضى ہونا اور ميل و رغبت كے ساتھ اسكے احكام و قوانين كو قبول كرنا ،نہ بے رغبتى كے ساتھ اور مجبور ہو كر، سچے مومنين كے اوصاف ميں سے ہے_

و السابقون الاولون و الذين اتبعوهم باحسان رضى الله عنهم و رضوا عنه

۷_ راہ خدا ميں ہجرت اور دين كى مدد كرنا رضائے الہى اور بہشت ميں دائمى حيات كے حصول كا ذريعہ ہے_

من المهاجرين و الانصار ...رضى الله عنهم

۸_ مہاجرين و انصار ميں سے سب سے پہلے اور برتر مومنين سے خدا تعالى كى برتر رضا كا اعلان _

و السابقون الاولون من المهاجرين رضى الله عنهم

ہو سكتا ہے '' الاولون '' كى قيد توضيحى نہ ہو بلكہ ''سابقون '' كو دو گرو ہوں ميں تقسيم كرنے كيلئے ہو، كہ جس كا مطلب يہ ہوگا كہ پيش قدم مہاجرين و انصار كے دو گروہ تھے بعض '' الاولون'' اور بعض دوسرے _قابل ذكر ہے كہ مندرجہ بالا نكتے كے علاوہ ہو سكتاہے '' السابقون '' اور ''الاولون '' كے الفاظ صرف سبقت زمانى بتانے كيلئے نہ ہوں بلكہ معنوى سبقت و اولويت پر بھى دلالت كرتے ہوں _

۹_ پيش قدم مہاجرين و انصار كے در ميان بھى فضل و كمال كا تفاوت اور تقدم و تا خر موجود تھا_

و السابقون الاولون من المهاجرين و الانصار

مندرجہ بالا نكتہ اس بنياد پر ہے كہ '' الاولون '' كى قيد احترازى ہو كہ اس صورت ميں يہ ''سابقون'' كو دو گروہوں ميں تقسيم كرے گى _

۱۰_ اقدار كى طرف پيش قدم ہونا خود بہت قابل قدر ہے_و السابقون الاولون

۲۸۴

۱۱_ خدا تعالى كى طرف سے مہاجرين و انصار اور انكا اتباع كرنے والے نيك كردار لوگوں كو، ان كيلئے بہشت كے آمادہ ہونے كى خوشخبرى _اعد لهم جنات تجرى تحتها الانهار

۱۲_مومنين آخرت ميں دائمى سعادت اور كاميابى كے ساتھ لبريز زندگى سے بہرہ مند ہوں گے_

خالدين فيها ابداً ذلك الفوز العظيم

۱۳ _ بہشت كے باغات، متعدد اور ان ميں فراوان نہريں ہيں _و اعد لهم جنات تجرى تحتها الانهار

۱۴_ ايمان كى طرف پيش قدم ہونے والے اور انكا اتباع كرنے والے نيك كردار لوگ آخرت ميں خداتعالى كے مادى و معنوى لطف و كرم سے بہرہ مند ہوں گے_رضى الله عنهم لهم جنات تجري

رضائے الہى ، معنوى لطف ہے اور دائمى بہشت مادى نعمت ہے_

۱۵_ بہشت كے گھنے درختوں كے نيچے نہروں كا جارى ہونا آخرت كى لذت آفرين اور پر كشش نعمتوں كا ايك جلوہ ہے_

لهم جنات تجرى تحتها الانهار

۱۶_ مومنين كا بہشت كى نعمتوں اوراس ميں زندگى كے زوال كى پريشانى سے آسودہ خاطر ہونا_خالدين فيها ابد

۱۷_ انسان كا رضائے الہى اور بہشت ميں حيات جاويد كا حاصل كرلينا عظيم كاميابى اور حقيقى سعادت ہے_

رضى الله عنهم جنات خالدين فيها ابداً ذلك الفوز العظيم

۱۸_ خدا كا انسان اور انسان كا خدا سے راضى ہونا انسان كے بہشت جاويد اور حقيقى كاميابى كو حاصل كرلينے كا عامل ہے_رضى الله عنهم و رضوا عنه و اعد لهم جنات ذلك الفوز العظيم

۱۹_ امام حسن مجتبى عليہ السلام سے روايت كى گئي ہے : '' ...فكان ابي(ع) سابق السابقين الى اللہ و الى رسولہ ...وذلك انہ لم يسبقہ الى الايمان احد وقد قال اللہ تعالى : ''والسابقون الا ولون من المہاجرين والانصار ...'' فہو سابق جميع السابقين ...'' ميرے پدر بزرگوار خدا و رسول كى طرف سب سے پہلے پيش گام لوگوں ميں سے بھى پيش گام تھے كيونكہ كسى نے بھى ايمان كے سلسلے ميں ان پر سبقت نہيں كى اور خدا تعالى نے فرمايا ہے '' مہاجرين و انصار ميں سے سب سے پہلے پيش قدم '' پس وہ سب سے پہلے سبقت

۲۸۵

كرنے والوں ميں سے بھى سب سے آگے والے تھے _(۱)

۲۰_ امام صادق (ع) سے اللہ تعالى كے فرمان '' مہاجرين و انصار ميں سے سب سے پہلے سبقت كرنے والے اور جنہوں نے نيكى كے ساتھ انكى پيروى كى '' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ آپ نے فرمايا :''فبدء با لمها جرين الاولين على درجة سبقهم ثم ثنّى بالانصار ثم ثلّث بالتابعين لهم باحسان فوضع كل قوم عل قدر درجاتهم و منازلهم عنده ...'' ;پس خدا تعالى نے ايمان كى طرف سبقت كرنے كى بناء پر پہلے مہاجرين كو ذكر فرمايا پھر دوسرے نمبر پرانصار كو اور تيسرے نمبر پر نيكى كے ساتھ انكى پيروى كرنے والوں كو، خدا تعالى نے ہر گروہ كو اسى ترتيب كے ساتھ ذكر فرماياہے جسكے ساتھ وہ اسكے يہاں درجہ ركھتا تھا_(۲)

اتباع كرنے والے :ان سے راضى ہونا ۱;انكو بشارت ۱۱; انكى اخروى پاداش ۱۴; ان كے فضائل ۱۴

اقدار :۲،۳انكا معيار ۴،۵،۱۰; انكى حمايت كى قدر و قيمت ۳; ان ميں سبقت ۱۰

امام على (ع) :انكا ايمان ۱۹

انصار :ان سے راضى ہونا ۱،۸; ان كا راضى ہونا ۱; ان كا مرتبہ ۹; انكا مقام ۲۰; انكو بشارت ۱۱;انكى پيروى كى قدر و قيمت ۴; ان كے عمل كى قدر و قيمت ۵

ايمان :اس ميں سبقت كرنے والوں كى اخروى پاداش ۱۴; اس ميں سبقت كرنے والوں كے فضائل ۱۴; اس ميں سبقت كى اہميت ۲; اس ميں سبقت كى قدر و قيمت ۲;اس ميں سبقت كرنے والوں كے مادى وسائل ۱۴; اس ميں سبقت كرنے والوں كے معنوى وسائل ۱۴

بہشت:اسكى بشارت ۱۱; اسكى نعمتوں كا ہميشہ رہنا ۱۶; اسكى نعمتيں ۱۳،۱۵; اسكى نہروں كا متعدد ہونا ۱۳; اسكى نہريں ۱۵;اسكے اسباب ۱۸; اس كے باغات كا متعدد ہونا ۱۳;اسكے در خت ۱۵ ; اس ميں ہميشہ رہنا ۱۶; اس ميں ہميشہ رہنے كا پيش خيمہ ۷

بہشتى لوگ:۱۱

____________________

۱)امالى شيخ طوسى ج ۲ ص ۱۷۶_ تفسير برہان ج ۲ ص ۱۵۲ ح۱_

۲)كافى ج ۲ ص ۴۱ ح ۱_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۵۵ح ۲۸۲_

۲۸۶

حيات :اخروى حيات كا پيش خيمہ۷;اخروى حيات كى اہميت ۱۷

خدا تعالى :اسكا راضى ہونا ۱; اسكى بشارتيں ۱۱;اسكے راضى ہونے كا پيش خيمہ ۷; اسكے راضى ہونے كى اہميت ۱۷;اسكے راضى ہونے كے آثار ۱۸

خدا تعالى كى رضا:يہ جنہيں حاصل ہے۸

دين :اس كا قبول ہونا ۶; اسكى امداد كے آثار ۷; اسكى حمايت كى قدر و قيمت ۳

دينداري:اس ميں سختياں ۳

راضى ہونا :خدا سے راضى ہونا ۱;خدا سے راضى ہونے كے آثار ۱۸

روايت ۱۹،۲۰

سعادت :اسكے موارد ۱۷

كاميابى :اسكے عوامل ۱۸; اسكے مراتب ۱۷; اسكے موارد ۱۷

مسلمان :پہلے مسلمان ۱۹

مومنين :انكا اخروى سكون ۱۶; انكا بہشت ميں ہميشہ رہنا ۱۶; انكى اخروى حيات ۱۶; انكى اخروى سعادت ۱۲; انكى اخروى كاميابى ۱۲; انكى دائمى زندگى ۱۲; انكى صفات ۶

مہاجرين :ان سے راضى ہونا ۸; انكا راضى ہونا ۱،۸;انكا مقام ۲۰; انكو بشارت ۱۱; انكى پيروى كى قدر و قيمت ۴; ان كے عمل كى قدر و قيمت ۵; ان كے مراتب ۹

نعمت :اخروى نعمتيں ۱۵

نيك عمل :اسكى طرف سبقت كرنے والے ۲۰

ہجرت :اسكے آثار ۷

۲۸۷

آیت ۱۰۱

( وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النِّفَاقِ لاَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ )

اور تمھارے گرد ديہاتيوں ميں بھى منافقين ہيں اور اہل مدينہ ميں تو وہ بھى ہيں جو نفاق ميں ماہر اور سركش ہيں تم ان كو نہيں جانتے ہو ليكن ہم خوب جانتے ہيں _ عنقريب ہم ان پر دو ہرا عذاب كريں گے اس كے بعد يہ عذاب عظيم كى طرف پلٹادئے جائيں گے_

۱_ خدا تعالى كا مومنين كو خبردار كرنا كہ باديہ نشين اور خود مدينہ والوں ميں سے بعض نا معلوم منافقين ان كے اطراف ميں موجود ہيں _و ممن حولكم من الاعراب منافقون و من اهل المدينة مردوا على النفاق

۲_اہل مدينہ كے درميان عادى اور پنہان منافقين كا وجود _و من اهل المدينة مردوا على النفاق

''مَرَدَ ''كا ايك معنى ہے '' استمر'' اور '' قرن'' (استمرار اور عادت )

۳_ مدينہ كے منافقين كى منافقانہ حركتيں ، باديہ نشين منافقين كى حركتوں اور چالوں سے زيادہ پيچيدہ اور سخت تھيں _

و ممن حولكم و من اهل المدينة مردوا على النفاق

۴_ منافقين اپنے سب پوشيدہ كاموں اور چيرہ دستيوں كے باوجود علم الہى كے دائرے سے باہر نہيں ہيں _

و ممن حولكم لا تعلمهم نحن نعلمهم

۵_ وحى كے سائے ميں پيغمبراكرم (ص) اور مومنين كا منافقين كے وجود سے مطلع ہونا _

و ممن حولكم نحن نعلمهم

۶_ مدينہ كے مرموز اور مخفى منافقين كو خدا تعالى كى طرف

۲۸۸

سے قيامت كے عظيم اور آخرى عذاب كے علاوہ دوہرے عذاب كى دھمكى _سنعذبهم مرتين ثم يردون الى عذاب عظيم

۷_ خدا تعالى كا غير محدود علم منافقين كى بجا رسوائي اورسزا كا سرچشمہ ہے_

نحن نعلمهم سنعذبهم مرتين ثم يردون الى عذاب عظيم

۸_ اسلامى معاشروں كا پوشيدہ منافقين كے وجود اور سرگرميوں سے ہميشہ ہوشيار رہنا ضرورى ہے_

و ممن حولكم من الاعراب

۹_ مركز معرفت اور اسلام كے سنگر ميں رہنے سے ذمہ دارى بڑھ جاتى ہے اور اس ميں رہ كر منافقانہ چاليں چلنے سے دوگنا عذاب ہوتا ہے_*و ممن حولكم من الاعراب سنعذبهم مرتين

مذكورہ منافقين كا دوگنا عذاب ہو سكتا ہے اس وجہ سے ہو كہ انہوں نے مومنين كے قريب ( ممن حولكم ) اور تبليغ دين كے مركز ( مدينہ ) ميں رہتے ہوئے منافقت كا راستہ اپنايا_

۱۰_ چھپے ہوئے منافقين كو دنيا، برزخ اور پھر قيامت ميں عذاب ہوگا_سنعذبهم مرتين ثم يردون الى عذاب عظيم

مندرجہ بالا نكتہ اس احتمال كى بناپر ہے كہ آخرت سے پہلے عذاب سے مراد، ايك دنيا اور دوسرا برزخ كا عذاب ہو_

۱۱_ خدا تعالى كى طرف سے منافقين كو انكى جبرى واپسى اور پھر قيامت ميں عظيم عذاب ميں مبتلا ہونے كى دھمكي_

ثم يردون الى عذاب عظيم

۱۲_ شہر ميں رہنا علم و آگاہى كے ساتھ ساتھ منافقت و راہ انحراف ميں زيادہ پيچيدہ ہو جانے كا خطرہ بھى ركھتا ہے_

الاعراب اشد كفرا ً و نفاقاً و من اهل المدينة مردوا على النفاق

آيت ۹۷ ميں باديہ نشينوں كى انكى پست فكرى پر مذمت كے ساتھ ساتھ تلويحاً بڑے معاشروں كے ساتھ پيوستہ ہونے كى تعريف بھى ہے اور اس آيت ميں مدينہ كے منافقين كو نفاق ميں باديہ نشينوں كى نسبت زيادہ ماہر قرار ديا گيا ہے يعنى اس اچھائي كے مقابلے ميں يہ برائي بھى ہے_

اسلامى معاشرہ:اسكى ذمہ دارى ۹; اس كے ہوشيار ہونے كى اہميت ۹;يہ اور منافقين ۹

باديہ نشين لوگ:انكا نفاق ۴

خدا تعالى :

۲۸۹

اس كا علم ۸; اسكى تنبيہ ۱; اسكى دھمكياں ۷،۱۳ ; اسكے علم كا احاطہ ۵

شہر نشيني:اس كے آثار ۱۴; اس ميں انحراف كا خطرہ ۱۴; اس ميں نفاق كا خطرہ ۱۴

عذاب :اسكى دھمكى ۷; اسكے درجے ۷،۱۳

محمد(ص) :آپ(ص) اور باديہ نشين منافقين ۱۱;آپ(ص) اور غير معلوم منافقين ۲،۶;آپ(ص) اور مدينہ كے منافقين ۱۱; آپ (ص) كى آگاہى ۶; آپ(ص) كے علم كا دائرہ ۲،۱۱

مدينہ :اس ميں رہنے والوں كى ذمہ دارى ۱۰; اس ميں منافقت كا دوگنا عذاب ۱۰

مدينہ كے منافقين :انكا نفاق ۳; انكو دھمكى ۷; ان كے نفاق كى شدت ۴

منافقين :انكا اخروى عذاب ۱۲; انكا برزخ والا عذاب ۱۲ ; انكا تظاہر ۲;انكا دنيوى عذاب ۱۲; انكا دوگنا عذاب ۷; انكا عجز ۵; انكو دھمكى ۱۳; انكى رسوائي كے عوامل۸; انكى سزا ۸; انكے اخروى عذاب كا حتمى ہونا ۱۳;انكے ساتھ عملى سلوك ۲; انكے متعدد عذاب ۱۲

مومنين :انكو تنبيہ ۱; انكى آگاہى ۶; يہ اور باديہ نشين منافقين ۱،۱۱; يہ اور غير معلوم منافقين ۱،۶; يہ اور مدينہ كے منافقين ۱،۱۱

وحى :اس كا كردار ۶

آیت ۱۰۲

( وَآخَرُونَ اعْتَرَفُواْ بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُواْ عَمَلاً صَالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً عَسَى اللّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ )

اور دوسرے وہ لوگ جنھوں نے اپنے گناہوں كااعتراف كيا كہ انھوں نے نيك اور بد اعمال مخلوط كردئے ہيں عنقريب خدا ان كى توبہ قوبل كرلے گا كہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے_

۱_ بعض گناہكاروں اور جنگ تبوك سے گريز كرنے والوں كا اپنے برے عمل كا اعتراف _و آخرون اعترفوا بذنوبهم

اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ سابقہ آيات جنگ

۲۹۰

تبوك اورا س ميں شركت نہ كرنے والوں كے بارے ميں تھيں كہا جا سكتا ہے كہ يہ آيت بھى انہيں ميں سے بعض گريز كرنے والوں كے بارے ميں ہے_

۲_ گناہ كا اعتراف كر لينا اور اپنے كو مستحق تنقيد ٹھہرانا رحمت و بخشش الہى كے حصول كا ذريعہ اور توبہ كا ايك ركن ہے_اعترفوا عسى الله ان يتوب عليهم ان الله غفور رحيم

۳_ انسان كے اعمال كے در ميان نيك كاموں كا وجود اسكے اپنى خطاؤں سے توبہ كرنے كا ذريعہ ہے_*

و آخرون اعترفوا بذنوبهم خلطوا عملا صالحا

ممكن ہے '' خلطوا عملا صالحاً ...'' يہ بتانے كيلئے ہو كہ عمل صالح كا وجودان كے توبہ كى طرف متوجہ ہونے ميں اثر ركھتا تھا_

۴_ خدا تعالى چاہتا ہے كہ انسان خوف و اميد كى حالت سے خارج نہ ہو _عسى الله ان يتوب عليهم

خدا تعالى نے قطعى طورپر نہيں فرمايا كہ انكى توبہ قبول ہو جائيگى بلكہ فرمايا اميدہے انكى توبہ قبول ہو جائے_

۵_ گناہگار كا اپنے عمل كے برا ہونے كى طرف متوجہ ہونا اور پھر اس كا اعتراف كركے اس پر نادم ہونا توبہ كے مترادف ہے اور خدا تعالى كى طرف سے گناہ كى بخشش كا ذريعہ ہے _اعترفوا بذنو بهم عسى الله ان يتوب عليهم

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ خدا تعالى نے ''اعترفوا '' كے مقابلے ميں ''عسى اللہ ان يتوب '' كا وعدہ ديا ہے اور اعتراف كے بعد توبہ كا ذكر نہيں كيا _ مندرجہ بالا مطلب حاصل كيا جا سكتا ہے_

۶_ نادم اور پشيمان خطا كار كو خود سازى اور اپنى تربيت كا اميدوار ہونے كى ضرورت ہے_

عسى الله ان يتوب عليهم ان الله غفور رحيم

۷_ نادم اور اعتراف كر لينے والے خطا كاروں كيلئے اسلام كى آغوش كا كھلا ہونا_عسى الله ان يتوب عليهم ان الله غفور رحيم

۸_ توبہ قبول كر لينا خدا تعالى كى طرف سے بندوں پر فضل ہے ورنہ اس كيلئے لازم اور ضرورى نہيں ہے_

عسى الله ان يتوب عليهم

احتمال ہے كہ كلمہ '' عسى ''كا استعمال مندرجہ بالا نكتہ كو بيان كرنے كيلئے ہو يعنى توبہ كرنے والا خدا تعالى پر كسى قسم كا حق نہيں ركھتا _

۹_ نادم اور اعتراف كر لينے والے گناہكاروں كى توبہ كا قبول كر لينا خدا تعالى كى رحمت و بخشش كا ايك جلوہ

۲۹۱

ہے_عسى الله ان يتوب عليهم ان الله غفور رحيم

۱۰_ خدا تعالى غفور ( بخشنے والا ) اور حيم ( مہربان ) ہے_ان الله غفور رحيم

۱۱_ راوى كہتاہے امام باقر (ع) نے فرمايا:''الذين خلطوا عملاً صالحاً و آخر سيئاً ''فاولئك قوم مؤمنون يحدثون فى ايمانهم من الذنوب التى يعيبها المؤمنون و يكرهونها فاولئك عسى الله ان يتوب عليهم'' ; '' جن لوگوں نے ملے جلے نيك اور برے اعمال كئے ہيں '' سے مراد وہ مومنين ہيں جو ايمان كے ساتھ ساتھ بعض گناہوں كے بھى مرتكب ہوتے ہيں كہ جنہيں يہ مومنين عيب سمجھتے ہيں اور ناپسند كرتے ہيں ان كے بارے ميں اميد ہے كہ خدا تعالى انكى توبہ قبول كر لے(۱) _

۱۲_ امام باقر (ع) سے اللہ تعالى كے فرمان'' عسى الله ان يتوب عليهم '' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے: العسى من اللہ واجب ...'' '' عسى '' جو خدا فرماتا ہے وہ لازمى اور حتمى ہوتا ہے ( نہ صرف احتمال اور اميد كے معنى ميں ) _(۲)

۱۳_ ابوبكر حضرمى كہتے ہيں :'' قال محمد ابن سعيد: اسئل ابا عبدالله (ع) فاعرض عليه كلامى وقل له : انى اتولا كم وابرء من عدوكم اقول بالقدر ...قال: فعرضت كلامه على ابى عبدالله فحرك يده ثم قال:خلطوا عملاً صالحا وآخر سيئاً'' مجھے محمد بن سعيدنے كہا كہ امام صادق (ع) سے سوال كر اور ان كے سامنے ميرى باتيں پيش كر اور انہيں بتا كہ ميں آپ كى ولايت كو قبول كرتا ہوں اورآپ كے دشمنوں سے بيزار ہوں نيز قدر كا بھى قائل ہوں حضرمى كہتے ہيں ميں نے اسكى بات امام صادق (ع) كے سامنے پيش كى تو آپ نے ( تنقيد كى صورت ميں ) اپنے ہاتھ كو حركت دى اور فرمايا ان لوگوں نے اچھے اور برے عمل كو مخلوط كر ديا ہے ...''(۳)

اسلام :اس كا توبہ قبول كرنا ۷;اسكى جذابيت ۷;يہ اور پشيمان گناہگار۷

اسما و صفات :رحيم ۱۰; غفور ۱۰

____________________

۱)كافى ج ۲ ص ۴۰۸ ح ۲_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۵۷ ح ۲۹۲_

۲)تفسير عياشى ج ۲ ص ۱۰۵ ح ۱۰۵_ بحار الانوار ج ۶۶ ص ۱۷۲ ح ۱۹_

۳)تفسير عياشى ج ۲ ص ۱۰۶ ح ۱۰۸_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۵۷ ح ۲۹۵_

۲۹۲

اقرار :اقرار گناہ كے آثار ۲،۵; گناہ كا اقرار ۱; ناپسنديدہ عمل كا اقرار ۱

بخشش:اس كا پيش خيمہ ۲،۵

تربيت :اس ميں اميدوارى ۶

تزكيہ :اس ميں اميدوارى ۶

توبہ :اس كا قبول ہونا۸; اسكى قبوليت كا پيش خيمہ۳; اسكے اركان ۲; اسكے موارد ۵

خدا تعالى :اس كا فضل ۸; اس كا مطلوب ۴;اسكى بخشش كى نشانياں ۹; اسكى رحمت كا پيش خيمہ۲; اسكى رحمت كى نشانياں ۹;ا س كے كلام ميں عسى ۱۲

خوف:خوف و اميد ۴

روايت :۱۱،۱۲،۱۳

عمل صالح :اسكے آثار ۳; عمل صالح اور ناپسنديدہ عمل كا مخلوط ہونا ۱۳

غزوہ تبوك:اس سے گريز كرنے والوں كا اقرار ۱

گناہ:اس سے پشيمان ہونے كے آثار ۵

گناہگار لوگ:انكا اقرار ۱; انكى اميدوارى كى اہميت ۶; انكى توبہ كا قبول ہونا ۹; پشيمان ہونے والے گناہگاروں كى معنوى ضروريات ۶

مومنين :انكى توبہ ۱۱; گناہگار مومنين ۱۱

۲۹۳

آیت ۱۰۳

( خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ )

پيغمبر آپ ان كے اموال ميں سے زكوة لے ليجئے كہ اس كے ذريعہ يہ پاك و پاكيزہ ہو جائيں اور انھيں دعائيں ديجئے كہ آپ كى دعا ان كے لئے تسكين قلب كا باعث ہوگى اور خداسب كا سننے والا اور حاننے والا ہے _

۱_ خدا تعالى كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) كو لوگوں سے صدقہ (زكات ) وصول كرنے كا حكم_خذ من اموالهم صدقة

۲_ انسان كے مختلف اموال ميں صدقہ ( زكات ) ہے_خذ من اموالهم صدقة

( اموال كى مفرد ) مال ،اسم جنس ہے جو انسان كى ہر كمائي كو شامل ہے_

۳_ پيغمبراكرم (ص) اور اسلامى معاشرے كے حاكم كى ذمہ دارى ہے كہ وہ لوگوں سے صدقہ ( شرعى ماليات ) دصول كرےں اور منتظر نہ رہيں كہ وہ خود ادا كرنے كا اقدام كريں _خذ من اموالهم صدقة

''تقبل'' كى بجائے كلمہ '' خذ'' كا استعمال كرنا بتاتا ہے كہ حاكم اسلامى كو صدقے كى ادائيگى كا منتظر نہيں رہنا چاہيے بلكہ ضرورى ہے كہ خود ان سے اخذ كرے _

۴_ صدقہ (زكات) كن اموال ميں واجب ہے اور اسكى مقدار كيا ہے ؟يہ پيغمبر(ص) اور حاكم اسلامى كے اختيار ميں ہے_

خذ من اموالهم صدقة

''صدقہ'' كا نكرہ آنا او راسكى مقدار كا معين نہ كرنا شايد اس وجہ سے ہے كہ يہ پيغمبر(ص) اور حاكم اسلامى كے اختيار ميں ہے_

۵_ اموال كا صرف كچھ حصہ بعنوان صدقہ و زكات ليا جاتا ہے نہ پورا مال _

خذ من اموالهم صدقة

مندرجہ بالا نكتہ '' من '' تبعيضيہ سے حاصل ہوتا ہے يعنى اموال كا كچھ حصہ صدقات كے طور پر وصول كرو _

۶_ خدا تعالى كى طرف سے جہاد سے گريز كرنے والے ان لوگوں سے صدقہ (زكات ) لينے كى اجازت جو اپنے گناہ كا اعتراف كرچكے تھے _و آخرون اعترفوا بذنوبهم خذ من اموالهم صدقة

مندرجہ بالا نكتہ آيت كے شان نزول سے حاصل ہوتا ہے كہ جنگ تبوك سے گريز كرنے والے بعض افراد نے نادم ہو كر اپنى غلطى كے مقابلے ميں اپنے تمام اموال بطور صدقہ ادا كرنے كى تجويز پيش كى _

۲۹۴

۷_ حاكم اسلامى كى طرف سے نادم خطاكاروں سے صدقہ ( زكات ) لينے كى غرض انكى روح كو پاكيزہ كرنا اور انكا معنوى تكامل ہونا چاہيے_خذ من اموالهم صدقة تطهرهم و تزكيهم

۸_ صدقات و زكات ادا كرنا انسان كى تطہير ( روح كا آلودگى گناہ سے پاكيزہ ہونا ) اور تزكيہ ( معنوى ترقي) كا سبب ہے_

خذ من اموالہم صدقة تطہرہم و تزكيہم

۹_نفس كى تطہير اور اسے آلودگى اور روحانى موانع سے پاك كرنا انسان كے معنوى رشد و تكامل كا پيش خيمہ ہے _

خذ ...تطهرهم و تزكيهم

۱۰_ معاشرے كى روحانى ترقى اور معنوى تكامل، اسلام كے اقتصادى اور اجتماعى پروگراموں كا اصلى ہدف ہے_

خذ من اموالهم صدقة تطهر هم و تزكيهم

۱۱_ صدقات ( زكات ) ادا كرنا معاشرے كى پاكيزگى اور اسكى اقتصادى رونق كى ضمانت ديتا ہے_*

خذ من اموالهم صدقة تطهرهم و تزكيهم

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پرہے كہ تطہير اور ترقى سے مراد صرف انفرادى نہ ہو بلكہ اجتماعى بھى ہو دوسرے الفاظ ميں ، صدقات و زكات چونكہ دولت و ثروت ميں اعتدال كا سبب بنتے ہيں اسلئے معاشرتى عدالت كى ضمانت ديتے ہيں _

۱۲_ مال كے ساتھ دل لگا لينا اور صدقات ( زكات ) ادا كرنے كى طرف مائل نہ ہونا روح كى آلودگى اور انسان كے معنوى عدم تكامل كى علامت ہے_خذ من اموالهم صدقة تطهرهم و تزكيهم به

آيت كا مفہوم بتاتا ہے كہ تطہير و تزكيہ جو مورد توجہ ہے وہ صرف زكات ادا كرنے سے حاصل ہوتا ہے لہذا جو لوگ مال كے ساتھ دل لگا لينے كے نتيجے ميں صدقات ادا نہيں كرتے آلودہ ہيں اور ترقى نہيں كريں گے_

۱۳_ خدا تعالى كى طرف سے پيغمبراكرم (ص) اور زكات وصول كرنے والوں كو زكات وصول كرتے وقت زكات دينے والوں كيلئے دعا كرنے كا حكم _خذ من اموالهم و صل عليهم

۱۴_ پيغمبراكرم(ص) اور حاكم اسلامى كا زكات دينے والوں كيلئے دعا كرنا ان كے قلبى سكون كا باعث بنتا ہے _

و صل عليهم ان صلوتك سكن لهم

۲۹۵

۱۵_ زكات ادا كرنا اہم كام اور اسلامى معاشرے كے رہبر كى طرف سے قدر دانى كے لائق ہے_

خذ من اموالهم صدقة و صل عليهم ان صلوتك سكن لهم

۱۶_ خدا تعالى كى طرف سے پيغمبراكرم (ص) كو پشيمان ہونے والے گناہگاروں كے صدقات قبول كر كے اور ان كيلئے دعا كركے انكى دلجوئي كرنے كا حكم _خذ من اموالهم صدقة و صل عليهم ان صلوتك سكن لهم

مندرجہ بالا نكتہ اس آيت كے سابقہ آيات كے ساتھ ارتباط سے حاصل ہوتا ہے كہ جو ان لوگوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہيں جنہوں نے جنگ تبوك ميں شركت نہيں كى تھى اور اس سے پشيمان ہوكر اپنے پورے اموال كے انفاق كا عزم ركھتے تھے_

۱۷_ دينى اور اجتماعى قوانين كے عملى كرنے ميں لوگوں كے جذبات كى طرف توجہ اور ا ن كے نفسيات كا لحاظ كرنا ضرورى ہے_خذ من اموالهم صدقة و صل عليهم ان صلوتك سكن لهم

۱۸_ پيغمبراكرم (ص) كے غير پر صلوات ( درود ) بھيجنا جائز ہے_صل عليهم

۱۹_ خدا تعالى مومنين كيلئے پيغمبر اكرم (ص) كى دعا قبول كرتا ہے اور اس كا قطعى اثر ہے_صل عليهم و الله سميع عليم

'' صل عليهم '' كے بعد '' سميع عليم '' كا ذكر كرنا پيغمبر اكرم (ص) كى دعا كے قبول ہونے كى طرف اشارہ ہے كيونكہ سننے كى اہميت اور قدر وقيمت اس پر اثر مترتب كرنے كے ساتھ ہے_

۲۰_ خدا تعالى كے احكام و دستورات او ر ہدايات كا سرچشمہ واقعى مصلحتوں اور انكى مثبت تاثير كے بارے ميں اس كا وسيع علم ہے_صل عليهم ان صلوتك سكن لهم و الله سميع عليم

ہو سكتا ہے صفت '' عليم '' خدا تعالى كے ان فرامين'' خذ من اموالہم '' اور '' صل عليہم '' كے عالمانہ ہونے كى طرف اشارہ ہو كيونكہ خداتعالى نے اپنے وسيع علم كى بنياد پر ہر ايك كے مثبت اثر كو بيان فرمايا ہے_

۲۱_ خدا تعالى كى طرف سے جنگ تبوك سے گريز كرنے والے تائبين كى توبہ كے واقعى اور سچا ہونے كى تائيد _

خذ من اموالهم و صل عليهم و الله سميع عليم

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ آيت كا اسكے شان نزول كو مدنظر ركھتے ہوئے معنى كريں كہ يہ آيت كريمہ جنگ تبوك سے گريز كرنے والوں كے بارے ميں نازل ہوئي _

۲۹۶

اس احتمال كى بنا پر ہو سكتا ہے صفت '' عليم '' اس نكتہ كى طرف اشارہ ہو كہ خدا تعالى نے ان كے صدقات كو توبہ كيلئے سمجھا اور اسى وجہ سے انكى زكات وصول كرنے اور ان كيلئے دعا كرنے كا حكم ديا _

۲۲_ خدا تعالى سميع ( سب كچھ سننے والا ) اور عليم ( وسيع علم والا ) ہے_و الله سميع عليم

۲۳_ بعض اصحاب سے روايت ہے كہ :امام صادق (ع) سے سوال كيا گيا:''خذ من اموالهم صدقة ...'' جارية هى فى الامام بعد رسول الله؟ قال: نعم; خدا تعالى كا يه فرمان '' ان كے اموال سے صدقة وصول كر ...'' كيا پيغمبر (ص) كے بعد امام كے حق ميں بھى جارى ہے ؟ تو فرمايا ہاں _(۱)

۲۴_ امام جواد (ع) سے روايت ہے كہ آپ نے فرمايا :انّ موالى اسئل الله صلاحهم او بعضهم قصروا فيما يجب عليهم فعلمت ذلك فاحببت ان اطهر هم وازكيهم بما فعلت فى عامى هذا من امرالخمس قا ل الله تعالى : خذمن اموالهم صدقة تطهّرهم و تزكّيهم بها '';ہمارے محبين، ان كيلئے خدا تعالى سے صلاح و خير چاہتا ہوں ، يا ان ميں سے بعض نے واجبات كى ادائيگى ميں كوتاہى كى اور ميں اس سے مطلع ہوا تو ميں چاہتا تھا كہ اس سال ميں نے خمس كا جو پروگرام بنايا ہے اسكے ذريعے انكا تزكيہ اور تطہير كروں _ خدا تعالى نے فرمايا ہے'' ان كے اموال سے صدقہ وصول كر تا كہ اسكے ذريعے انكاتزكيہ و تطہيرہو ...''(۲)

۲۵_ امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ آپ نے فرمايا :يجبر الامام الناس على اخذ الزكاة من اموالهم لان الله عزوجل قال : خذ من اموالهم صدقة ...'' امام لوگوں كو مجبور كرے گا كہ ان كے اموال سے زكات وصول كى جائے_كيونكہ خدا تعالى نے فرمايا ہے ''ان كے اموال سے صدقہ وصول كر ...''(۳)

۲۶_ امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ آپ نے فرمايا : ''يحبر الامام الناس على اخذ الزكاة من اموالہم لان اللہ عزوجل قال: خذ من اموالہم صدقة ...''جو يہ سمجھتا ہے كہ امام لوگوں كے اموال كا محتاج ہے وہ كافر ہے بلكہ يہ لوگوں كى ضرورت ہے كہ امام ان كے صدقات كو قبول كرے

____________________

۱)تفسير عياشى ج ۲ ص ۱۰۶ ح ۱۱۱ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۵۹ ح ۳۰۲_

۲)تہذيب شيخ طوسى ج ۴ ص ۱۴۱ ح ۲۰ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۵۹ ح ۳۰۱ _

۳)دعائم الاسلام ج ۱ ص ۲۵۳ _ بحار الانوار ج ۹۳ ص ۸۶ ح ۷_

۲۹۷

خدا تعالى نے فرمايا ہے ''ان كے اموال سے صدقہ وصول كرتا كہ اسكے ذريعے انكا تزكيہ اور تطہير كرے''_(۱)

۲۷_ عبداللہ ابن سنان كہتے ہيں امام صادق(ع) نے فرمايا :''لما انزلت آية الزكاة ''خذمن اموالهم صدقة ...'' ...فامر رسول الله (ص) مناديه فنادى فى الناس ان الله فرض عليكم الزكاة ...ففرض الله عزوجل عليهم من الذهب والفضة و فرض الصدقة من الابل والبقر والغنم ومن الحنطة والثعيروالتمر والذبيب ...وعفا لهم عمّا سوى ذلك ...'' ; جب آيت زكات ''ان كے اموال سے زكات وصول كر ...'' نازل ہوئي تو پيغمبر (ص) نے اپنے منادى كو حكم ديا اور اس نے لوگوں كے در ميان اعلان كيا كہ خدا تعالى نے تم پر زكات واجب فرمائي ہے پس خدا تعالى نے سونے اور چاندى ميں ( زكات ) واجب كى ہے نيز اونٹ ، گائے ، بھيڑبكرى ، گندم ، جو ، كھجور اور كشمش ميں صدقہ واجب كيا ہے_ اور اسكے علاوہ كو لوگوں كيلئے چھوڑ ديا ہے_(۲)

احكام :۲،۵،۱۸،۲۳،۲۵،۲۷ان كے اجرا كرنے كى روش ۱۷

اسما و صفات :سميع ۲۲; عليم ۲۲

اقتصاد :اقتصادى ترقى كا ذريعہ۱۱; اقتصادى سياست كا فلسفہ ۱۰

ائمہ :انكے اختيارات ۲۳

پاكيزگى :اس كا پيش خيمہ ۸;اسكے آثار ۹

پليدگى :اسكے عوامل ۱۲

تزكيہ :اس كا پيش خيمہ ۸; اسكى اہميت ۷; اسكے عوامل ۲۴،۲۶

تكامل :اسكا سرچشمہ ۹; اسكے موانع ۱۲

جذبات :انكى اہميت ۱۷

جہاد:اسكے ترك كرنے والے اور زكات ۶

خدا تعالى :

____________________

۱)اصول كافى ج ۱ ص ۵۳۷ ح ۱_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۶۰ ح ۳۰۴_

۲)كافى ج ۳ ص ۴۹۷ ح ۲ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۶۰ ح ۳۰۶_

۲۹۸

اس كا اذن ۶; اس كا علم ۲۰ ; اسكى نصيحتيں ۱۳; اسكے اوامر ۱،۱۶;اسكے اوامر كا سرچشمہ ۲۰

دينى راہنما:انكى دعا كے آثار ۱۴;انكى ذمہ دارى ۴،۱۵; انكى شرعى ذمہ دارى ۳;يہ اور زكات وصول كرنا ۳; يہ اور صدقات وصول كرنا ۳

روايت:۲۳،۲۴،۲۵،۲۶،۲۷

رہبر:اسكے اختيارات ۲۰

زكات :اس پر مجبور كرنا ۲۵;اس كا فلسفہ ۷;اسكى اہميت ۱۵; اسكے آثار ۸،۱۱; اس كے احكام ۲،۵،۲۵،۲۷; اسكے ترك كرنے كے آثار ۱۲;اس كے وصول كرنے والے كو نصيحت ۱۳; زكات دينے والے كے سكون كے عوامل ۱۴; زكات دينے والے كيلئے دعا ۱۳; يہ كن چيزوں ميں ہے۲،۴،۵،۲۷

صدقات :انكا فلسفہ ۷;انكے آثار ۸،۱۱،۲۴،۲۶;ان كے احكام ۲،۵،۲۳; ان كے ادا نہ كرنے كے آثار ۱۲; يہ كن چيزوں ميں ہے۲۷

صلوات :انكے احكام ۱۸

غزوہ تبوك :اس سے گريز كرنے والوں كى توبہ ۲۱; اس كے توبہ كرنے والوں كے صدقات ۲۱

قانون:اسكے اجرا كى روش ۱۷

گناہگا ر لوگ:انكے صدقات كا قبول ہونا ۱۶; پشيمان ہونے والے گناہگاروں كى دلجوئي ۱۶; پشيمان ہونے واے گناہگاروں كى زكات ۷; پشيمان ہونے والے گناہگاروں كيلئے دعا ۱۶

مال دوستى :اسكے ثار ۱۲

محمد (ص) :آپ(ص) اور جہاد سے گريز كرنے والے۶; آپ(ص) اور زكات وصول كرنا ۱،۶; آپ(ص) اور صدقات كن چيزوں ميں ہے۴;آپ(ص) اور صدقات وصول كرنا ۱،۳،۶;آپ (ص) اور مومنين ۱۹; آپ(ص) كو اجازت ۶; آپ(ص) كو نصيحت ۱۳;آپ(ص) كى دعا كا قبول ہونا ۱۹ ; آپ (ص) كى دعا كے آثار ۱۴;آپ(ص) كى ذمہ دارى ۴،۱۶; آپ (ص) كى شرعى ذمہ دارى ۱،۳

معاشرہ:اسكى پاكيزگى كاپيش خيمہ۱۱;اسكى پاكيزگى كى اہميت ۱۰; اسكى معاشرتى سياست كا فلسفہ ۱۰

مومنين :ان پر صلوات ۱۸

۲۹۹

آیت ۱۰۴

( أَلَمْ يَعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ )

كيا يہ نہيں جانتے كہ اللہ ہى اپنے بندوں كى توبہ قبول كرتا ہے اور زكوة و خيرات كو وصول كرتا ہے اور وہى بڑا تو بہ قبول كرنے والا اور مہربان ہے _

۱_ توبہ قبول كرنا صرف خدا تعالى كا كام ہے_صل عليهم ان الله هو يقبل التوبة

مندرجہ بالا نكتہ اس جملے ( ان اللہ ہو يقبل التوبة ) ميں ضمير فصل كے آنے سے حاصل ہوتا ہے كيونكہ اگر مبتدا كى خبر پر الف و لام جنس نہ ہو تو ضمير فصل حصر كا فائدہ ديتى ہے _

۲_ بندوں كى توبہ قبول كرنا خدا تعالى كا ان كے ساتھ حتمى وعدہ _الم يعلمون ان الله هو يقبل التوبة عن عباده

۳_ زكات وصول كرنے والا در حقيقت خدا ہے اور پيغمبراكرم (ص) اور حاكم اسلامى صرف واسطے ہيں _

خذ من اموالهم صدقة و يا خذ الصدقات

۴_ توبہ كر لينے والے گناہگاروں كے صدقات و خيرات كو خدا تعالى قبول كر ليتاہے_

و آخرون اعترفوا بذنوبهم خذ من اموالهم صدقة و يا خذ الصدقات

۵_ خدا تعالى كى طرف سے گناہگاروں كى توبہ قبول كرنا ان كى اپنى صداقت كے اظہار كيلئے عملى اقدامات كے ساتھ مشروط ہے_ان الله هو يقبل التوبة عن عباده و يا خذ الصدقات

۶_ گناہگاروں كى توبہ قبول كرنا ; اعتراف ، نيز گناہ كى جڑوں كو خشك كرنے كے بعد ہے نہ صرف ندامت كى صورت ميں _

و آخرون اعترفوا بذنوبهم هو يقبل التوبة عن عباده و يا خذ الصدقات

مندرجہ بالانكتہ شان نزول كو مد نظر ركھتے ہوئے

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336