تقيه اسلام کی نگاہ میں

تقيه  اسلام کی نگاہ میں11%

تقيه  اسلام کی نگاہ میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 336

تقيه اسلام کی نگاہ میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 336 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 86689 / ڈاؤنلوڈ: 3147
سائز سائز سائز
تقيه  اسلام کی نگاہ میں

تقيه اسلام کی نگاہ میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

ہے ۔اور اس دوران امام حسن و امام حسينعليه‌السلام کا مروان بن حكم ، حاكم مدينه کے پیچھے نماز پڑھنا بھی سياسي و اجتماعي تقيه کے مصاديق میں سے ہے ۔(۱)

اگر تاریخ کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام سجادعليه‌السلام تقیہ کرنے کا ایک خاص طریقہ اپناتے ہیں اور وہ دعا کی شکل میں اسلامی معارف اور تعلیمات کا عام کرنا ہے ۔ جس کا مجموعہ صحیفہ سجادیہ کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے ۔

امام باقرعليه‌السلام او رتقيه

امام باقرعليه‌السلام کا دور بنی امیہ کے کئی خلفاءوليد بن عبد الملك ، سليمان بن عبد الملك،عمر بن عبد العزيز، هشام بن عبد الملك)کا دور تھا اس دوران میں سخت گيري نسبتاً كم ہوئی ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے شيعه مکتب کے مختلف کلامي، فقهي اور فرهنگي امور کو تدوين کرکے اسلامي مکاتب کے سامنے رکھ ديا ، اور بهت

____________________

۱: بحار الانوار، ،ج۸۸۔

۸۱

سے شاگردوں کي تربيت کي ۔

ہم امام ؑ کے سیاسی تقیہ کے موارد میں سے درج ذیل توریہ والی روایت کو شمار کر سکتے ہیں کہ امام ؑ نے ہشام کی مجلس میں اس سے یوں خطاب کیا :يا امير المؤمنين الواجب علي الناس الطاعة لامامهم و الصدق له بالنصيحه ۔(۱) اے امير المؤمنین! لوگوں پر واجب ہے کہ اپنے امام ؑ کی اطاعت کریں اور نصیحت اور خیر خواہی کے وقت اسے قبول کریں ۔

اس روایت میں لفظ امام ،غاصب حاكموں ا ور آئمہ اهل بيتعليهم‌السلام دونوں پر قابل تطبيق ہے ۔بنی امیہ کے بادشاہوں سے تقیہ کرتے ہوئے شاہین اور عقاب کے ذریعے شکار کرنے کو حلال قرار دیا ؛ ان دو پرندوں کے ذریعے خلفائے بنی امیہ بہت زیادہ شکار کیا کرتے تھے ۔امام باقرعليه‌السلام کےتقیہ کرنے پر یہ روایت صراحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے ۔(۲)

____________________

۱: بحار الانوار ، ج ۴۶، ص ۳۱۶۔

۲:وسائل الشيعه ، ج ۱۶ ،ص ۲۶۴۔

۸۲

امام صادقعليه‌السلام اور تقيه

امام صادقعليه‌السلام کي ۳۴ ساله مدت امامت ۱۱۴ ھ سے لیکر ۱۴۸ ھ تک) آئمہ طاهرينعليهم‌السلام کي طولاني ترين مدت امامت شمار ہوتی ہے كه جسے تین حصوں میں تقسيم کرسکتے ہیں:

پہلاحصہ:

یہ هشام بن عبد الملک( ۱۰۵ ـــ ۱۲۵) کادور تھا ، جو سياسي لحاظ سے قدرت مند خليفه شمار ہوتا تھا اور مملكت اسلامي کے او ضاع پرمسلط تھا ۔ امام ؑ اور ان کی فعالیتوں کو سخت کنٹرول میں رکھتا تھا ۔

دوسرا حصہ :

یہ دوره سن ﴿ ۱۲۵ _ ۱۴۵ ﴾ھ کو شامل کرتا ہے كه بني اميه کي حكومت روبه زوال تھي اور بنی عباس کے ساتھ جنگ وجدال میں مشغول ہوگئے تھے آخرکار ان کے ہاتھوں شکست کھا کران کي حکومت سرنگوں ہوئي ۔

تیسرا حصہ:

سن( ۱۴۵ ـ ۱۴۸) ھ کوشامل کرتا ہے كه اس وقت منصور نے شدت

۸۳

کے ساتھ امام ؑ اور ان کی فعاليتوں کو مختلف اطراف سے كنٹرول کررکھا تھا۔

بحارالانوار میں آنحضرت کے تقيه سے مربوط ۵۳ روايت جمع کي گئي ہیں ۔(۱) كه جن میں سے زیادہ تر اس کتاب کے مختلف ٖصفحات پر ذکر ہوئی ہیں ۔

جب منصور نے امام ؑ کو ان کی حکومت کے خلاف قیام کرنے سے ڈرايا تو امامعليه‌السلام نے فرمايا: میں نے بنی امیہ کے زمانے میں کوئي ایسا قيام نہیں کیا ہے جب کہ وہ سب سے زیادہ ہمارے ساتھ دشمنی کرنے والے تھے ، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے چچا زاد بھائی کے خلاف قیام کروں جب کہ رشتے کے لحاظ سے سب سے زیادہ قریب ہے ، اورسب سے زیادہ میرے اوپر مہربان اور نیکی کرنے والا ہے۔(۲)

امام صادقعليه‌السلام کی وصيت بعنوان تقیہ ہم بیان کر سکتے ہیں کہ جب امام صادقعليه‌السلام رحلت فرماگئے تو منصور نے مدينه کے گورنر کو خط لکھا : جس کو بھی امام ؑ نے اپنا جانشین

____________________

۱: ۔ بحار الانوار،ج ۷۵، ص ۳۹۳ ۔

۲: بحار الانوار،ج۷۵ ، ص،۱۹۶۔

۸۴

اوروصی بنایا، اسے اپنے پاس لا کر اس کا سر قلم کردو۔

جب مدینے کا گورنر اس ماجرا کی تحقیق کرنے لگا تو معلوم ہوا کہ امامعليه‌السلام کئی افراد کو اپنے جانشین کے طور پر معین کرچکے هيں، جیسے موسی ابن جعفرعليه‌السلام ، اپنی زوجہ حميدہ اور اپنے دوسرےفرزند عبدالله اور خود امامعليه‌السلام ۔جن میں سے خود منصور اور مدینہ کا گورنر بھی شامل ہیں۔

دوسرے دن جب منصور کو یہ خبر دی گئی تو وہ چیخ اٹھا اور کہنے لگا : اے گورنر اس صورت میں میں کسی کو بھی قتل نہیں کرسکتا ۔(۱)

الْإِمَامُ الْعَسْكَرِيعليه‌السلام فِي تَفْسِيرِهِ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً قَالَ الصَّادِقُ ع قُولُوا لِلنَّاسِ كُلِّهِمْ حُسْناً مُؤْمِنِهِمْ وَ مُخَالِفِهِمْ أَمَّا الْمُؤْمِنُونَ فَيَبْسُطُ لَهُمْ وَجْهَهُ وَ أَمَّا الْمُخَالِفُونَ فَيُكَلِّمُهُمْ بِالْمُدَارَاةِ لِاجْتِذَابِهِمْ إِلَى الْإِيمَانِ فَإِنِ اسْتَتَرَ مِنْ ذَلِكَ يَكُفَّ شُرُورَهُمْ عَنْ نَفْسِهِ وَ عَنْ إِخْوَانِهِ الْمُؤْمِنِينَ

__________________

۱: مهدي پيشوائي ؛ سيره پيشوايان ، ص۴۱۴۔

۸۵

قَالَ الْإِمَامُ ع إِنَّ مُدَارَاةَ أَعْدَاءِ اللهِ مِنْ أَفْضَلِ صَدَقَةِ الْمَرْءِ عَلَى نَفْسِهِ وَ إِخْوَانِهِ كَانَ رَسُولُ اللهِ فِي مَنْزِلِهِ إِذِ اسْتَأْذَنَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي سَلُولٍ فَقَالَ رَسُولُ اللهِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ ائْذَنُوا لَهُ فَأَذِنُوا لَهُ فَلَمَّا دَخَلَ أَجْلَسَهُ وَ بَشَرَ فِي وَجْهِهِ فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَةُ يَا رَسُولَ اللهِ قُلْتَ افِيهِ مَا قُلْتَ وَ فَعَلْتَ بِهِ مِنَ الْبِشْرِ مَا فَعَلْتَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ص يَا عُوَيْشُ يَا حُمَيْرَاءُ إِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ يُكْرَمُ اتِّقَاءَ شَرِّهِ وَ قَالَ الْإِمَامُ ع مَا مِنْ عَبْدٍ وَ لَا أَمَةٍ دَارَى عِبَادَ اللهِ بَأَحْسَنِ الْمُدَارَاةِ وَ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا فِي بَاطِلٍ وَ لَمْ يَخْرُجْ بِهَا مِنْ حَقٍّ إِلَّا جَعَلَ اللهُ نَفَسَهُ تَسْبِيحاً وَ زَكَّى أَعْمَالَهُ وَ أَعْطَاهُ لِصَبْرِهِ عَلَى كِتْمَانِ سِرِّنَا وَ احْتِمَالِ الْغَيْظِ لِمَا يَحْتَمِلُهُ مِنْ أَعْدَائِنَا ثَوَابَ الْمُتَشَحِّطِ بِدَمِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ(۱)

امام عسکريعليه‌السلام اپني تفسير ميں امام صادقعليه‌السلام سے اس آيه شريفه کے ذيل ميں نقل فرماتے هيں :که هر انسان کے ساتھ نيک گفتار هونا چاهئے ، خواه وه مؤمن هو يا ان کا مخالف هو۔مؤمنوں کے ساتھ خوش روئي کے ساتھ پيش آئے،ليکن ان کے مخالفين کے ساتھ مدارات کے ساتھ پيش آئيں تاکه ان کوايمان کي طرف جلب کرسکيں۔ اگر يه لوگ ان سے چھپائیں کہ یہ مؤمن ہیں تو ان کے شر سے اپنے

____________________

۱: مستدرك‏الوسائل، ج۹، ص ۳۶، باب استحباب مداراة الناس ۔

۸۶

آپ کو ، اپنے مؤمن بھائيوں کوبچا سکتے هيں ۔امام ؑ نے فرمايا : دشمنوں کے ساتھ مدارات کے ساتھ پيش آنا؛ اپني جان، اور اپنے بھائيوں کا بهترين صدقه دينا هے۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايک دن اپنے گھر ميں تشريف فرما تھے که عبدالله بن ابي سلول نے دستک دي ، تو رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: قوم کا سب سے برا انسان هے ، اسے اندر آنے کي اجازت دي جائے ۔ جب وه اندر داخل هواتو آپ نے خنده پيشاني سے اس کا استقبال کيا ۔ جب وه نکل گيا تو عائشه نے سوال کيا : يا رسول الله ! آپ نے کها کچھ ، اور کيا کچھ؟تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا:اے عويش اے حميرا! الله کے نزديک قيامت کے دن سب سے برا انسان وه هوگا، جس کے خوف سے لوگ اس کي عزت کريں ۔

امام ؑ نے فرمايا : کسي بھي مرد اور عورت ميں سے کوئي بھي الله کے بندوں کيساتھ نيکي کرے ، جبکه وه اس حالت میں باهر نهيں نکلتا،مگر يه که الله تعالي اس کے سانسوں کو اپني تسبيح پڑھنے کا ثواب لکھ ديتا هے ۔ اور اس کے سارے اعمال کوخالص بناتا هےاور اسے همارے اسرار کو چھپانے ، اور دشمن کے غم وغصے

۸۷

کو برداشت کرنے کي وجه سے، اس شخص کا ثواب عطا کرے گا ، جو الله کي راه ميں جهاد کرتے هوئے اپنے خون ميں غلطان هوچکا هو۔اور اس مداراتي تقيه کے نتائج کو بھی بیان فرمایا۔

عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ مَنْصُورٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللهِ ع قَالَ مَنْ كَفَّ يَدَهُ عَنِ النَّاسِ- فَإِنَّمَا يَكُفُّ عَنْهُمْ يَداً وَاحِدَةً- وَ يَكُفُّونَ عَنْهُمْ أَيَادِيَ كَثِيرَة ۔(۱)

جو بھی لوگوں کے ساتھ مدارات اور مہربانی کرے اور ان کےساتھ سختی سے پیش نہ آئے تو اس نے حقیقت میں نه صرف اپنا ایک ہاتھ كسي دوسرے کو اذیت اورتکلیف پہنچانے سے باز رکھا ،بلکه بہت سے ہاتھوں کو اپنے اوپر ظلم و تشدد کرنے سے دور رکھا ہے ۔

____________________

۱: بحار الأنوار، ج‏۷۲، باب التقية و المداراة،ص : ۳۹۳۔

۸۸

امام موسي کاظم ؑ اور تقيه

امام كاظمؑ کا ۳۵ ساله دور امامت ( ۱۴۸ ـ ۱۸۳) جو حضرت حجت(عج) کی امامت کے علاوہ طولاني ترين اورسخت ترين دور شمار ہوتا ہے ۔جس میں تقیہ کے بہت سے موارد دیکھنے میں آتے ہیں:

یہ دور،بنی عباس کے سخت اورسفاک خلفاء جیسے منصور ، مهدي ، هادي اور هارون کی حکومت کا دور تھا ۔کہ ان میں سے ہر ایک امامت کی نسبت بہت زیادہ حساس تھے ، یہاں تک کہ امام ؑ کے بعض چاہنے والوں ، جیسے محمد ابن ابي عمير کئی عرصے تک جیل میں ڈالے گئے ۔ اسی دور میں حسين ابن علي ابن حسن جو شهيد فخ کے نام سے معروف تھے ، ۱۶۹ ه میں حکومت کے ساتھ ان کي جنگ هوئي ،جو ان کی شهادت پر جا کر ختم ہوئي۔ اور هادي عباسي یه تصور كررہا تھا کہ یہ جنگ ،امام ؑ کے فرمان کے مطابق کي گئي ہے، اس لئے ان کے اوپر زیادہ سخت گيري کرنی شروع کردی ۔

اس دورمیں تقيه امام ؑ کے بعض موارد یہ ہیں:

۸۹

۱ـ جب خلیفہ موسي الهادي اس دنيا سے چلا گیا تو امام ؑ کا اس کی ماں خیزران کو تعزيتي پیغام دیتے ہوئے خلیفہ کو امير المؤمنين کا عنوان دے کر ياد کرنا اور اس کیلئے رحمه الله کہہ کر طلب مغفرت کرنا اور پھر هارون کی خلافت کو بھی امير المؤمنين کے عنوان سے ياد کرتے ہوئے ان کو مبارک باد کہنا ،

مرحوم مجلسي نے اس خط کے ذیل میں لکھا ہے کہ ، آنحضرت کے زمانے میں شدت تقيه کا نظاره كر سکتے ہیں كه انہیں ایک فاسق اور جابر حاکم کے لئے ایسےالقابات لکھنے پر مجبورکرديا تھا۔(۱)

۲ـ يحي بن عبد الله بن حسن نے ایک خط امام ؑ کے نام لکھا ،کہ آنحضرت کو حكومت عباسي کے خلاف قیام کرنے سے روکتے ہوئے سزا دی جائے ۔لیکن امام ؑ نے

____________________

۱: بحار الانوار،ج۴۸۔ص۱۶۶۔

۹۰

اس کے جواب میں خط لکھا جس کے ضمن میں اسے بطورخلیفہ یاد کیا ۔ امام ؑ کا یہ خط هارون کے ہاتھوں میں پہنچ گیا ۔جسے دیکھ کر انہوں نے کہا: لوگ موسي ابن جعفر کے بارے میں مجھے بہت سی چیزیں بتا تے ہیں ، اور مجھے ان کے خلاف اکساتے ہیں جب کہ وہ ان تہمتوں سے پاک هیں ۔(۱)

۳۔علي ابن يقطين جو هارون کی حکومت میں مشغول تھے اور امامؑ کے ماننے والوں میں سے تھے ؛ ایک خط امامؑ کو لکھتے ہیں اور امامؑ سے وضو کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ امامؑ اس کے جواب میں اهل سنت کے وضو کا طریقہ اسے تعلیم دیتے ہیں کہ تم انہیں کی طرح وضو کیا کرو ۔ اگرچه علي ابن يقطين کو بڑاتعجب ہوا ، لیکن حکم امامؑ کی اطاعت ضروری تھی ۔ هارون كو بھی علي ابن يقطين پرشك ہو چکا تھا ، سوچا کہ اس کے وضو کرنے کے طریقے کو مشاہدہ کروں گا ۔ اگر اس نے مذهب شيعه کے مطابق وضوکیا تو اسے بهت سخت سزادوں گا ۔ لیکن جب ان کے وضوکرنے کے طریقے

____________________

۱: بحار الانوار،ج۷۵ ،ص۳۸۔

۹۱

کو دیکھا تو اسے اطمینان ہواکه ان کے بارے ميں لوگ جھوٹ کہتے تھے ، تو علی ابن یقطین کی عزت اور مقام اس کے نزدیک مزید بڑھ گيا ۔بلا فاصله اس ماجرا کے بعد امامؑ کی طرف سے علي ابن یقطین کو دستور ملا کہ وضو اب مذهب شيعه کے مطابق انجام دیا کریں ۔(۱)

امام رضاعليه‌السلام اور تقيه

امام رضاعليه‌السلام کی امامت کا دور ( ۱۸۳ ـ ۲۰۳) تک ہے ، جسے تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

پہلا دور : ۱۸۳ سے لیکر ۱۹۳ سال تک کا دور ہے ۔ اس دور میں ہارون الرشید حاکم تھا ؛ يه دورشیعیان حیدر کرار پر بہت سخت گزرا۔اس ملعون نے قسم کھا ئی ہوئی تھی کہ موسي ابن جعفرعليه‌السلام کے بعد جو بھی امامت کا دعویٰ کرے گا اسے قتل کیا جائے گا ۔ لیکن

____________________

۱: رياض ، ناصري ، الواقفيه۔

۹۲

اس کے باوجود امام رضاعليه‌السلام نے بغیر کسی خوف اور وہم و گمان کے اپنی امامت کو لوگوں پرآشکار کیا امام ؑ کا تقیہ نہ کرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس وقت خواہشات نفسانی اور مال و زر کے اسیروں نے آپ کی امامت کا انکار کرکے فرقہ واقفیہ کی بنیاد ڈالی تھی ۔ امام موسیعليه‌السلام کے زندہ ہونے کے قائل ہوگئے تھے ۔ چنانچہ کہنے لگے :الامام الکاظم لم یمت ولایموت ورفع الی السماء وقال رسول الله فی شانه:ویملأالارض قسطاً وعدلاً کماملئت ظلماً وجوراً ۔(۱)

"امام کاظم ؑفوت نہیں ہوئے ہیں اور نہ فوت ہونگے ، انہیں خدا تعالی نے آسمان کی طرف اٹھایا ہے ۔اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی شان میں فرمایا:دنیا کو وہ عدل و انصاف سے اسي طرح پر کریں گے جس طرح ظلم و جور سے پر ہو چکی ہوگی "

اس ماجرے کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کے ہاتھوں مال خمس اور زکوۃ کا کچھ حصہ موجود تھا ۔ کیونکہ حضرت امام موسی بن جعفرعليه‌السلام قید و بند میں تھے ؛ جس کے بعد آپ کی

____________________

۱: بحار الانوار، ج۴۶، ص ۱۱۴۔

۹۳

شہادت ہوئی تو جو مال ان کے ہاتھوں میں موجود تھا ،ضبط کر لیا اور ان کے فرزند ارجمند علی ابن موسی الرضاعليه‌السلام کی امامت کے منکر ہوگئے ۔(۱)

ٍ زياد بن مروان قندى جو گروہ واقفيه میں سے تھا کہتا ہے :میں ابو ابراہیمعليه‌السلام کی خدمت میں تھااور ان کے بیٹے علی ابن موسیٰ الرضاعليه‌السلام بھی ان کی خدمت میں حاضر تھے ؛ مجھ سے فرمانے لگے: اے زیاد ! یہ میرا بیٹا ہے اس کا قول میرا قول ہے اس کی کتاب میری کتاب ہے اس کا رسول میرا رسول ہے ، اور یہ جو بھی زبان پر جاری کرے گا وہ حق ہوگا۔(۲)

بہر حال امامعليه‌السلام نے اپنی امامت کا اظہار کیا تو آپ کے ایک صحابی نے اصرار کیا کہ آپ لوگوں کو اپنی امامت کے بارے میں مزيد وضاحت فرمائیں ؛ توفرمایا: اس سے بڑھ کر اور کیا وضاحت کروں ؟! کیا تم چاہتے ہو کہ میں ہارون کے پاس جاکر اعلان کروں کہ میں لوگوں کا امام ہوں اور تیری خلافت اور تیرا منصب باطل ہے ؟! ایسا توپیغمبراكرم (ص) نے بھی

____________________

۱:۔ زندگانى چهارده معصومعليه‌السلام ، ،امامت حضرت رضاعليه‌السلام , ص۴۲۴۔

۲:۔ زندگانى چهارده معصومعليه‌السلام ، ،امامت حضرت رضاعليه‌السلام ، ص۴۲۵۔

۹۴

اپنی رسالت کے اولین بار اعلان کرتے وقت نہیں کیا ہے ، بلکہ آغاز رسالت میں اپنے دوستوں ، عزیزوں اورقابل اعتماد افراد کو جمع کرکے اپنی نبوت کا اظہار کیا ۔(۱)

امام هاديعليه‌السلام اور تقيه

امام هاديعليه‌السلام کا دوران امامت ( ۲۲۰ ـ ۲۵۴ ھ)بھی سخت ترین دور تھا ، جس کی سب سے بڑی دلیل یہ هے کہ بنی عباس کے خلفاء اور حکمران، آپ پر ہر وقت پہرہ لگائےرکھتے تھے ۔ چنانچہ متوكل( ۲۳۲ ـ ۲۴۷) نے امامعليه‌السلام کی فعاليت کو سخت كنٹرول میں رکھنے کیلئے مدينه سے سامرا (دارالخلافہ) منتقل کردیا ۔جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ عباسیوں کے ایک گروہ نے متوکل کو خط لکھا کہ لوگ امام ہادیعليه‌السلام کے گرویدہ ہورہے ہیں جو تمہاری حکومت کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ اوراگر تم مكه اور مدينه چاہتے ہو تو علي ابن محمدکو مدينه سے نکال کر کہیں اور منتقل کردو ۔(۲)

____________________

۱:۔ بحار الانوار، ج۴۶، ص ۱۱۴۔

۲:۔ بحار الانوار،ج۵۰،ص۲۱۔

۹۵

امامعليه‌السلام کے سیاسی اوضاع کی شناخت کیلئے اتنا ہی کافی ہے ۔

اور اب اس دور میں اجتماعی تقیہ کے پائے جانے پر ہمارے پاس جو دلیل ہے ،وہ یہ ہیں :روایتوں میں ذکر ہوا ہے کہ علی ابن مھزیار نے امام ؑ سے پوچھا : کیا ہم اہل سنت کے احکام کے مطابق اموال پر مالک ہوسکتے ہیں جبکہ مکتب اہل بیت ؑ کے احکام کے مطابق اس مال پر مالک نہیں بن سکتے؟جیسے ارث وغیرہ کے احکام ہیں ،جب کہ وہ لوگ اپنے احکام کے مطابق ہم سے اموال لیتے ہیں ؟

تو امامعليه‌السلام نے فرمایا:

يجوز لكم ذالك انشاءالله اذا كان مذهبكم فيه التقية منهم والمداراة لهم ۔(۱)

"ہاں تمہارے لئے ایسا کرنا جائز ہے انشاءالله اگر تقيه اور مدارات کی حالت میں ہو" ۔

____________________

۱:۔ وسائل الشيعه،ج۱۸، ص۱۶۵۔

۹۶

امام جوادعليه‌السلام اور تقيه

امام جوادعليه‌السلام کا دور امامت سن ۲۰۳ سے ۲۲۰ ھ تک ہے جو مامون اور اس کے بھائی معتصم کی حكومت کا دور ہے۔ امام ؑ نے بیشتر وقت مدینہ اور مرکزی حکومت سے دور رہ کر گزارا ۔ لیکن پھر بھی مامون اور معتصم ،ام الفضل جو آپ کی زوجہ اور مامون کی بیٹی ہے ، کے ذریعے امامعليه‌السلام کے گھریلو معاملات میں جاسوسی کرنے لگے ؛ لیکن وہ قابل ذکر موارد جہاں آپ نے تقیہ کیا ہے وہ یہ ہیں:

۱. امامعليه‌السلام کا نماز میں قنوت نہ پڑھنا:اذا كانت التقية فلا تقنت وانا اتقلد هذا ۔(۱)

۲. ایک دفعہ يحي بن اكثم کے ساتھ مناظرہ ہوا ، جب یحی نے ابوبکر اور عمر کی شان میں جعلی احادیث کو بیان کیا تو امام ؑ نے فرمایا: میں منكر فضائل نہیں

____________________

۱:۔ وسائل الشيعه ،ج۴،ح۱ ۔

۹۷

ہوں ، اس کے بعد منطقي دلائل کے ذریعے ان احادیث کے جعلی ہونے کو ثابت کرنے لگے ۔(۱)

امام حسن العسكريعليه‌السلام اور تقيه

امام عسكريعليه‌السلام کا دور امامت اگرچہ بہت ہی مختصر ہے ( ۲۵۴ ـ ۲۶۰) لیکن اپنے بابا کے دور امامت سے کئی درجہ زیادہ سخت اور مشکل ہے ۔اس دور کے آغاز میں معتز( ۲۵۲ ـ ۲۵۵) نے آپ کو آل ابوطالبعليه‌السلام کے کچھ افراد کے ساتھ قید کرلیا ۔ اس کے بعد مهدي( ۲۵۵ ـ ۲۵۶) عباسی نے بھی یہی رویہ اختیار کیا ، یہاں تک کہ آپ کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دی گئی ۔(۲)

لیکن وہ اس مکروہ ارادے میں کامیاب نہیں ہوا ۔ لیکن آخر کار معتمد( ۲۵۶ ـ ۲۷۹)

____________________

۱:۔ بحار الانوار،ج۵۰،ص۸۰۔

۲:۔ بحار الانوار ،ص ۳۰۸۔

۹۸

جس نے یہ سن رکھا تھا کہ امام عسكريعليه‌السلام کی اولاد میں سے ایک فرزند آئے گا جو ظلم و بربریت کو ختم کرے گا ؛امام ؑ اور ان کے خاندان پر کڑی نظر اور پہرہ ڈال رکھا تھا ، تاکہ وہ فرزند اس دنیا میں نہ آنے پائے ۔ آخرکار اس نے امامعليه‌السلام کو شهید کردیا ۔

لیکن امامعليه‌السلام نے اپنے بیٹے کی ولادت کو مخفی رکھا ، یہاں تک کہ بہت سارے شیعوں کوبھی ان کی ولادت کا علم نہیں تھا جو سن ۲۵۵ ه میں متولد ہوئے تھے ۔(۱) کیونکہ بهت زياده خطرہ تھا ۔ امامعليه‌السلام کی شہادت کے بعد آپ کا بھائی جعفر جو ایک بےایمان انسان تھا ، آپ کی ساری میراث اپنے نام کروایا ۔کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ امام ؑ کا کوئی وارث بھی ہے ۔(۲)

امامعليه‌السلام کے کچھ سیاسی تقیہ کے موارد اپنے چاہنے والوں کے نام لکھے ہوئے خط سے

____________________

۱:۔ بحار الانوار ج ۵۱، ص ۔۱۵ ۔

۲:۔ الارشاد ، ج ۲، ص ۳۳۰۔

۹۹

واضح ہوتے ہیں، فرماتے ہیں کہ:

۱ ـ جب میں تمہارے سامنے سے گزروں تو مجھے سلام نہ کرنا ۔اور اپنے ہاتھوں سے میری طرف اشارہ نہ کرنا ، کیونکہ تم لوگ امان میں نہیں ہو ۔اور اس طرح اپنے آپ کو درد سر میں ڈالنے سے محفوظ رکھو ۔

۲ ـ امامعليه‌السلام جب اپنے اصحاب سے ملاقات کرتے تھے تو ان کیلئے مخفی طور پر پیغام بھیجتے تھے کہ فلاں جگہ جمع ہو جائیں ، تاکہ ایک دوسرے کا دیدار ہو سکے ۔ ۔امامعليه‌السلام سخت سياسي دباؤ کی وجہ سے اپنے چاہنے والوں کو تقیہ کرنے پر زیادہ زور دیتے تھے ۔جیسا کہ فرمایا:

وسع لهم في التقيه يجاهرون باظهار موالاة اولياءالله و معادات اعداءالله اذا قدروا و يسترونها اذا عجزوا ۔

خدا تعالی نے شیعیان حیدر کرار کیلئے تقیہ میں راحت اور آرام کو پوشیدہ رکھا ہے کہ اپنی طاقت اور قدر کو آشکار کرنے کا وقت آتا ہے تو اللہ کے چاہنے والوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے نفرت کا اعلان کریں، اور جب بھی دوسرے گروہ کے مقابلے میں کمزور واقع ہوجائیں تو اس دوستی اور دشمنی کو چھپائیں ؛ پھر فرمایا:

أَلَا وَ إِنَّ أَعْظَمَ فَرَائِضِ اللهِ عَلَيْكُمْ بَعْدَ فَرْضِ مُوَالاتِنَا وَ مُعَادَاةِ أَعْدَائِنَا اسْتِعْمَالُ التَّقِيَّةِ عَلَى أَنْفُسِكُمْ وَ إِخْوَانِكُمْ وَ مَعَارِفِكُمْ وَ قَضَاءُ حُقُوقِ إِخْوَانِكُمْ فِي

۱۰۰

اللهِ أَلَا وَ إِنَّ اللَّه يَغْفِرُ كُلَّ ذَنْبٍ بَعْدَ ذَلِكَ وَ لَا يَسْتَقْصِي فَأَمَّا هَذَانِ فَقَلَّ مَنْ يَنْجُو مِنْهُمَا إِلَّا بَعْدَ مَسِّ عَذَابٍ شَدِيدٍ إِلَّا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ مَظَالِمُ عَلَى النَّوَاصِبِ وَ الْكُفَّارِ فَيَكُونَ عَذَابُ هَذَيْنِ عَلَى أُولَئِكَ الْكُفَّارِ وَ النَّوَاصِبِ قِصَاصاً بِمَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ مِنَ الْحُقُوقِ وَ مَا لَهُمْ إِلَيْكُمْ مِنَ الظُّلْمِ فَاتَّقُوا اللَّه وَ لَا تَتَعَرَّضُوا لِمَقْتِ اللهِ بِتَرْكِ التَّقِيَّةِ وَ التَّقْصِيرِ فِي حُقُوقِ إِخْوَانِكُمُ الْمُؤْمِنِينَ ۔(۱)

آگاہ رہو ! ہمارے ساتھ دوستی اور ہمارے دشمنوں کے ساتھ نفرت اور دشمنی کے بعد خدا تعالی کے واجبات میں سے سب سے بڑا واجب تقیہ کرتے ہوئے اپنی اور اپنے دوستوں کی حفاظت کرو اور اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرو ، آخر میں فرمایا: تقوی الہی کو اپنا پیشہ قرار دو اور اپنے آپ کو تقیہ نہ کرکے اور اپنے مؤمن بھائیوں کے حقوق ادا نہ کرکے غضب الہی کےمستحق نہ بنو ۔

۳ ـ آپ کے اصحاب میں سے ایک چاہتا تھا کہ آپ اعلانیہ طور پر حجت خدا کی حیثیت سے معرفی ہوجائیں۔لیکن امامعليه‌السلام نے فرمایا:خاموش رہو ! یا اسے چھپا ئے رکھو یا آشکار کرکے موت

____________________

۱:۔ بحار الانوار ، ج ۷۵، ص۴۰۹ ۔

۱۰۱

کیلئے تیار ہوجاؤ ۔(۱)

امامعليه‌السلام زندان میں بھی آزاد نہیں تھے بلکہ وہاں بھی جمحی نامی ایک شخص جاسوس رکھا گیا تھا امام ؑ نے جس سے زندانیوں کے سامنے خلیفہ کے لئے تیار کیا گیا خط نکالا جس میں زندانیوں کے خلاف رپورٹ تیار کیا گیا تھا۔(۲)

آپ کے ایک صحابی کہتا ہے کہ ہم ایک گروہ سامرہ میں امام ؑ کی ملاقات کرنے گئے ہمیں امام ؑ نے ایک خط لکھا جس میں حکم دیا گیا تھا :کوئی مجھے سلام نہ کرے اور نہ ہاتھوں سے اشارہ کرے،کیونکہ تمہاری جانیں خطرے میں ہیں۔(۳)

عبدالعزیز بلخی کہتا ہے ہم نے دیکھا کہ امام ؑ شہر کے دروازہ کی طرف تشریف لارہے ہیں۔،میں نے دل میں سوچا کہ اونچی آواز میں لوگوں کو بتادوں : لوگو! یہ حجت خدا ہیں انہیں پہچان لو۔پھر سوچا ایسی صورت میں تو مجھے قتل کیا جائے گا۔ جب امام ؑ میرے

____________________

۱:۔ بحار الانوار ، ج ۵۰، ص ۲۹۰۔

۲: ۔ ابن صباغ مالکی،الفصول المھمۃ،ص۳۰۴،ابن شہر آشوب،مناقب آل ابیطالب ،ج۴ ،ص۴۳۷۔

۳: ۔ مجلسی،باقر؛بحار الانوار،ج۵۰،ص۲۶۹۔

۱۰۲

نزدیک پہنچے تو ہاتھوں سے اشارہ کیا کہ خاموش رہو ورنہ مارے جاؤگے ، اس رات کو میں امام ؑ کی خدمت میں شرف یاب ہوا تو فرمایا: راز فاش کرکے اپنے آپ کو خطر میں نہ ڈالو ورنہ مارے جاؤگے۔(۱)

حضرت حجت(عج) اور تقيه

آنحضرت(عج) کی امامت کاپہلا دور جو غيبت صغري کا دورکہلاتا ہے اور سنہ ( ۲۶۰ ـ ۳۲۹) ھ پر مشتمل ہے ۔اس دوران میں امام ؑ اپنے چار خاص نائبین کے ساتھ رابطہ رکھتے تھے ۔ ان چار نائبین کے نام لیتے ہوئے امام ؑ کے ساتھ ان کا رابطہ اور تقیہ کے موارد کو بیان کریں گے:

____________________

۱: ۔ مسعودی،اثبات الوصیہ،نجف،المکتبۃ الحیدریۃ،ص۲۴۳۔

۱۰۳

۱۔ ابو عمرو عثمان ابن سعيد عمري

وہ امام حسن العسكريعليه‌السلام کے وكيل بھی تھے جو روغن فروشي کے شغل کو اپنی فعاليتوں کیلئے وسیلہ قرار دیتے ہوئے امام ؑ تک ان کے اموال کو پہنچاتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ ابوعمرو عثمان عمری ”سمان“ يعني روغن فروش کے نام سے معروف تھے۔(۱)

۲۔ ابو جعفر محمد بن عثمان

اس زمانے میں شیعیان حیدر کرار کا زیادہ اصرار تھا کہ امامعليه‌السلام کا نام مبارک معلوم ہوجائے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ اس قدرپوشیدہ تھا کہ بہت سارے شیعوں کو ان کا نام بھی معلوم نہ تھا ۔ لیکن آنحضرت نے ایک خط میں جو محمد بن عثمان کے ذریعے بھیجا ؛ جس میں یوں لکھا تھا :

____________________

۱:۔ بحار الانوار ، ج ،۵۱،ص۳۴۴۔

۱۰۴

ليخبر الذين يسالون عن الاسم،امّا السكوت و الجنة و امّا الكلام و النارفانهم اوقفوا علي الاسم اذاعوه و ان وقفوا علي المكان دلواً عليه ۔(۱)

ضروری ہے کہ ان لوگوں کو جو میرا نام جاننا چاہتے ہیں ،بتادوں کہ اس بارے میں خاموش رہیں تو ان کے لئے بہشت ہے اور اگر اس بارے میں بات کریں تو ان کے لئے جہنم ہے ۔ کیونکہ جو میرا نام جاننے کے بعد اسے افشا کرے اور اگر اسے میرے رہنے کی جگہ معلوم ہوجائے اور دوسروں کو خبر دے تو وہ عذاب جہنم کا مستحق ہے ۔

۳۔ ابو القاسم حسين بن روح

حسين بن روح جو بہت ہی محتاط انسان تھے، امنیت اور حفاظت کے تمام اصول اور قواعد وضوابط کو بروئے کار لاتے تھے ۔ چنانچہ محمد بن عثمان کے بعد نائب امام ؑ آپ ہی کو بننا تھا، جب ایک مؤمن نے آپ سے سوال کیا کہ کیوں یہ نیابت آپ کو نہیں ملی ؟

تو کہا : میں ایک ایسی حالت میں تھا کہ اگر اس بارے میں مجھ پر سختی کرتے تو شاید میں

____________________

۱۔ بحار الانوار ، ج ،۵۱،، ص ۳۵۱۔

۱۰۵

آنحضرت کے مكان اور جائیگاہ کا راز فاش کر دیتا ۔(۱)

ان کے تقیہ کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے کہ ایک مجلس میں تینوں خلیفوں کو عليعليه‌السلام سے افضل اور برتر توصیف اور تمجید کرنے لگے اور لوگوں کو اپنے اوپر راضی کرنے لگے تو ایک صحابی جو آپ کے عقیدے سے باخبر تھا ، ہنسنے لگا ۔ جب مجلس اختتام پذیر ہوا تو اس شخص کے پاس گئے اور اسے خوب ڈانٹا اور اسے کہا اگر دوبارہ کبھی ایسا کیا تو رابطہ قطع کردوں گا۔(۲)

۴ ـ علي ابن محمد السمري 

ان کی وفات کے وقت ایک خط جو آنحضرت(عج)نے آپ کو دیا تھا جس میں نائب خاص کے منقطع اور اس کے دعوی کرنے والوں کی تکذیب کی ہوئی تھی ۔ اسی طرح آپ کے سیاسی تقیہ کے موارد میں شیعوں سے خمس وزکوۃ لینے کے بعد ان کو کوئی رسید نہ

____________________

۱:۔ بحار الانوار ، ج ،۵۱، ، ص۳۵۹۔

۲:۔ بحار الانوار ، ج ،۵۱،، ص۳۵۶۔

۱۰۶

دینا بھی شامل ہے ۔(۱)

____________________

۱: بحار الانوار ، ج ،۵۱، ، ص۳۵۴۔

۱۰۷

تیسری فصل

مذاہب اہل سنت اورتقيه

۱۰۸

تیسری فصل:مذاہب اہل سنت اورتقيه

گذشتہ مباحث سے معلوم ہو ا کہ بيشتر اسلامي فرقے تقيه کو قبول کرتے ہیں ۔لیکن بعض کہتے ہیں کہ جائز نہیں ہے جیسے :

o فرقه ازارقه کہتا ہے ،تقيه نه قولاً جائزہے ا ور نه فعلاً۔

o فرقه صفريه کہتا ہے ، تقيه قولاً جائز ہے لیکن فعلاً جائز نہیں ۔

o فرقه زيديه کہتا ہے ، تقيه اهل عصمت کیلئے جائز ہے ليکن عصمت کے نااہل کیلئے جائز نہیں ہے ۔

۱۰۹

تمام مفسّران مذاهب مختلف اسلامی مشروعیت تقیه کو قرآن ہی سے درج ذیل آیات کی روشنی میں ثابت کرتے ہیں:

۱:( لاَ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ فِى شَىْء إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ) ۔۔۔(۱)

مذاهب اسلامی کے سارے مفسّرین کا اتفاق نظر ہے کہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے اور جب مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی کفر قریش انہیں اذیت و آزار پہنچاتے تھے جس سے پچنے کے لئے یہ لوگ تقیہ کرتے تھے۔حسن بصری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:مسیلمہ کذاب کے دو جاسوسوں نے دو مسلمان کو پکڑ کر اس کے پاس لے آئے اور اس نے ایک سے

____________________

۱: سوره آل عمران، آيه ۲۸۔

۱۱۰

کہا:کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے جواب دیا:ہاں ۔مسیلمہ نے اسے قتل کرنے کا جلاد کو حکم دیا۔ دوسرے سے یہی سوال دہرایا۔ اس نے منفی میں جواب دیا۔ تو اسے چھوڑ دیاگیا۔

اس شخص نے رسول خدا کی خدمت میں جاکر ماجرا بیان کیا تو آپ نے فرمایا:تمہارے ساتھی نے اپنے ایمان پر استقامت کا مظاہرہ کیا اور تم نے اس راستے کا انتخاب کیا ،جس کی اسلام نے اجازت دی ہے۔(۱)

امام شافعی نے اس آیۃ کے ذیل میں لکھا ہے :شرعی لحاظ سے مجبور کیا ہوا انسان کی بات ناگفتہ تلقی ہوتی ہے اور وہ اگر قسم بھی کھائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔(۲)

شیخ محمد فواد عبدالباقی نے اس آیت کے ذیل میں ابن ماجہ سے ایک حدیث نقل کی ہے:۔۔۔چند مسلمانوں کو مشرکوں نے گرفتار کر لیا تو جو بھی انہوں نے کہا اس پر عمل کیا۔ اور ایسی حالات

____________________

۱:۔ تفسیر الحسن البصری، ج ۲، ص ۷۶۔

۲: ابوعبدالله محمدبن ادریس شافعی، احکام القرآن، ج ۲، ص ۱۱۴۔

۱۱۱

میں تقیہ ضرور کرنا چاہئے۔کیونکہ خدا تعالی نے فرمایا ہے:الا من اکره و قلبه مطمئن بالایمان ۔(۱) اسی طرح بہت سارے علمائے اہل سنت نے ایسی صورت میں تقیہ کو جائز مانے ہیں، جن میں سے کچھ کا نام یہ ہیں:

ابن جوزی(۲) ، فخر رازی(۳) ، بیضاوی(۴) و امام شوکانی(۵)

۲:( وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلا أَنْ يَقُولَ رَبِّى اللهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ ) ۔(۶)

تمام مذاہب اسلامی کے مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مومن آل فرعون ،فرعون کا چچا

____________________

۱۔ سنن ابن ماجه، ج ۱، ص ۱۵۰۔

۲۔ المحرر الوجر فی تفسیر الکتاب الغریز، ج ۱۰، ص ۲۳۵۔

۳۔ زاد المیسی، ج ۴، ص ۴۹۶۔

۴۔ تفسیر الکبیر، ج ۲، ص ۱۳۲۔

۵۔ انوار التنزیل و اسرار التأویل، ج ۱، ص ۵۷۱۔

۶۔ سوره غافر، آيه ۲۸

۱۱۲

زاد بھائی تھا جس نے حضرت موسی پر ایمان لایا ہوا تھا۔جب فرعون نے موسی کو قتل کرنا چاہا تو انہوں نے کہا:کیا ایسے شخص کو قتل کروگے جو کہتا ہے کہ میرا خدا اللہ ہے؟جبکہ وہ اپنے پروردگار کی طرف سے معجزات لے کر آیا ہے۔اگر وہ جھوٹا ہے تو یہی جھوٹ اس کے لئے باعث ہلاکت ہے۔اور اگر سچا ہے تو کچھ عذاب تو تم تک بھی پہنچنے والا ہے ،جن کا وہ وعدہ دے رہا ہے۔بے شک خدا کسی اسراف کرنے اور زیادہ طلبی کرنے اور جھوٹ بولنے والے کی ہدایت نہیں کرتا۔ پس ان کا ایمان کا چھپانا اور فرعونیوں کے ساتھ ہمدردی اور دل سوزی کا اظہار کرنا تقیہ کے علاوہ کیا کچھ اور ہوسکتا ہے؟جن کے مشورے سے موسی کلیم اللہ کی جان بچ گئی۔

محدّثان اهل سنّت نےابن عباس اور دوسرے محدثین سے ایک روایت نقل کی ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا:صدیقین چار لوگ ہیں:حبیب نجار، مؤمن آل یاسین، مؤمن آل فرعون که جنہوں نے کہا: «اتقتلون رجلاً ان یقول ربی الله»اور علی بن ابیطالب ،جو ان سب میں افضل ہیں۔(۱)

____________________

۱:۔ متقی هندی، کنزالعمال، ص ۱۱؛ قرشی، مسند شمس الاخبار، ص ۹۸؛ محمد بن حرین جلال، حاشیه کشف الاستار، ص ۹۸۔

۱۱۳

۳:( فَابْعَثُواْ أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَاذِهِ إِلىَ الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيهُّا أَزْكىَ‏ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَ لْيَتَلَطَّفْ وَ لَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا إِنهَّمْ إِن يَظْهَرُواْ عَلَيْكمُ‏ يَرْجُمُوكمُ‏ أَوْ يُعِيدُوكُمْ فىِ مِلَّتِهِمْ وَ لَن تُفْلِحُواْ إِذًا أَبَدًا ) ؛(۱)

"اب تم اپنے سکے دے کر کسی کو شہر کی طرف بھیجو وہ دیکھے کہ کون سا کھانا بہتر ہے اور پھر تمہارے لئے رزق کا سامان فراہم کرے اور وہ آہستہ جائے اورکسی کو تمہارے بارے میں خبر نہ ہونے پائے یہ اگرتمہارے بارے میں باخبر ہوگئے تو تمہیں سنگسار کردیں گے یا تمہیں بھی اپنے مذہب کی طرف پلٹا لیں گے اور اس طرح تم کبھی نجات نہ پاسکو گے"

کے ذیل میں مفسرین اہل سنت لکھتے ہیں کہ اصحاب کہف نے اس زمانے کے بت پرست بادشاہ کے سامنے اپنا ایمان چھپا کر تقیہ کرتے رہے ،یہاں تک کہ غار میں پناہ لیں۔

شیعہ مفسرین نے امام جعفر صادق ؑ سے اس بارے میں روایت کی ہے:اصحاب کہف سے بڑھ کر کسی نے تقیہ نہیں کیا ہے کیونکہ ان لوگوں کے گلے میں طوق پہنائے جاتے تھے۔ اسی

____________________

۱۔ کهف ۱۹ – ۲۰۔

۱۱۴

لئے اللہ تعالی نے انہیں دو بار اس کا اجر عطا کیا ہے۔(۱)

فخر رازی شافعی، و قرطبی مالکی نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے۔(۲)

تقيه اور احاديث اهل سنت

اہل سنت کی بہت سی روایتوں میں تقیہ کے جواز کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔جیسا کہ سیوطی نے رسول خدا کی ایک حدیث نقل کی ہے، آپ نے فرمایا:بدترین قوم وہ قوم ہے جن کے درمیان مومنین تقیہ کرنے پر مجبور ہوں۔

ابن عربی مالکی لکھتا ہے کہ رسول اللہ تین ہجری میں ایک گروہ کو کعب ن اشرف طائی جو یہودی قبیلہ بنی نصر کا سردار تھا،جن میں محمد بن مسلمہ تھا ۔ اس نے اپنے ساتھیوں سمیت کہا:یا رسول اللہ کیا ہمیں اجازت دیتے ہیں کہ مجبوری کے وقت آپ کو ناسزا کہیں؟ رسول

____________________

۱۔ اصول کافی، ج ۲، ص ۱۷۴۔

۲۔ تفسیر الکبیر، ج ۲۱، ص ۱۰۳۔

۱۱۵

خدا نے انہیں اجازت دے دی۔(۱)

شیعہ سنی دونوں کی کتابوں میں مشہور حدیث "لا ضرر و لا ضرار فی الاسلام "نقل ہوئی ہے ۔جس کی تفصیل میں لکھتے ہیں :اس کی مشہور ترین مصداق ، اجبار اور اضطرار کے موقع پر تقیہ کو ترک کرکے جانی اور مالی نقصان پہنچانے سے روک دینا ہے۔(۲)

امام شافعی اور ان کے پیروکاروں نے آیہ شریفہ:"الا مااضطررتم " کے ذیل میں لکھا ہے کہ مجبور شخص کا طلاق دینا اور آزاد کرنا حیثیت نہیں رکھتا۔(۳) یعنی نہ طلاق جاری ہوگا اور نہ غلام کو آزاد کرنے سے آزاد ہوگا۔کیونکہ اس پر حکم ساقط ہے۔اس لئے کہ اس نے اپنی جان بچانے کے لئے طلاق جاری کیا ہے اور غلام کو آزاد کیا ہے،اور اپنی جان بچانا اس پر واجب ہے۔اسی طرح اگر وہ کفر آمیز کلمات زبان پر لائے تو اس پر مرتد کا حکم بھی نہیں لگا سکتا،کیونکہ اس کا مقصد اپنے دین کی حفاظت کرنا تھا۔

____________________

۱۔ احکام القرآن، ج ۲، ص ۱۲۵۷۔

۲۔ سنن ابن ماجه، ج ۲، ص ۷۸۴؛ السنن الکبری بیهقی، ج ۶، ص ۶۹؛ معجم الکبیر طبرانی، ج ۲ ، ص ۸۱؛ المستدرک حاکم، ج ۲، ص ۵۸۔

۳۔ احکام القرآن، ج ۳، ص ۱۹۴۔

۱۱۶

اس بحث میں ہم ثابت کریں گے کہ اهل سنت والجماعت اور ان کے آئمہ نے بھی تقيه کیا ہے ، چنانچہ وہ احادیث جنہیں مسلم ا ور بخاري نے ذکر کیا ہے اہل سنت صحیح مانتے ہیں ۔ اوریہ دونوں اس بات کے قائل ہیں کہ اپنی جان بچانے کیلئے کفر کا اظہار کرنا جائز ہے ،اور اسی ضمن میں عمار بن یاسر کا قصہ نقل کرتے ہیں :الا من اكره و قلبه مطمئن بالايمان ۔

آگے کہتے ہیں کہ جب بھی اپنی جان خطرے میں پڑ جائے تو عمار بن یاسر کی پیروی کرنا کوئی بدعت نہیں ہے ۔ کیونکہ سب جانتے تھے کہ عمار، سر سے لیکر پیر تک سارا وجود ایمان سے لبریز تھا ۔(۱)

ذهبي نے اسی قصے کو اپنی کتاب میں نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اگر مسلم اور بخاری نے اسے صحیح اور جائز مانا ہے تو جائز ہے ۔

____________________

۱۔ تقیہ از دیدگاہ مذاہب و فرقہ ہای اسلامی ، ص ۹۵۔

۱۱۷

تقیہ اور صحابہ کانظریہ

عمر بن خطاب (ت ۲۳ ھ) اور تقیہ

بخاری روایت کرتا ہے کہ عمر بن خطاب نے جب اسلام قبول کیا تو مشرکوں سے خوف زدہ ہوکرگھر میں چھپا رہا ، اس قصہ کو عبداللہ بن عمر خطاب نے یحیی بن سلیمان کے ذریعے " عمر بن خطاب کا اسلام "کے باب میں نقل کیا ہے :وه لکھتا ہے کہ عمر ابن خطاب بہت ہي خوف زدہ ہوگیا تھا ، ابو عمر و عاص بن وائل سھمی جو دور جاہلیت میں اس کے ساتھ ہم پیمان ہو چکاتھا عمر کے پاس آیا ، عاص بن وائل نے عمر سے کہا : تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ تو عمر نے جواب دیاتیری قوم کا کہنا ہے کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤ ں تو مجھے قتل کیا جائیگا۔تو اس نے کہا : وہ لوگ تمہار ا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ جب اس سے یہ

۱۱۸

بات سنی تو اس کے بعد سے امان محسوس کرنے لگا ۔

اس کے بعد عاص باہر آیا اور دیکھا کہ لوگ درّے سے نیچے آرہے ہیں ، ان سے پوچھا کہ کہاں جارہے ہو ؟ تو کہنے لگے : خطاب کے بیٹے کو قتل کرنے جارہے ہیں۔

اس نے کہا: نہیں تم ایسا نہیں کروگے؛ تو وہ لوگ وہاں سے واپس چلے گئے ۔(۱)

مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث پوری صراحت کے ساتھ بیان کررہی ہے کہ عمر نے تقیہ کے طورپر اپنے آپ کو گھر میں چھپائےرکھا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر نے اپنی اسلامی زندگی کا آغاز هي تقیہ سے کیا ۔اور اس کی کوئی عاقل انسان مذمت بھی نہیں کر سکتا ؛ کیونکہ یہ ایک فطری عمل ہے ،اس کے برخلاف اگر کوئی دشمن کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرلے تووہ قابل مذمت ہے ۔

____________________

۱۔ صحیح بخاری ۵: ۶ باب اسلام عمر بن خطاب۔

۱۱۹

عبد اللہ ابن مسعود(ت ۳۲ ھ)اور تقیہ

عبداللہ ابن مسعود کہتا ہے : جب بھی مجھے کوئی ظالم و جابر اپنی مرضی کے مطابق الفاظ زبان پر لانے پر مجبور کرے جو ایک یا دو کوڑے لگنے سے بچنے کا سبب ہو تو ضرور وہ الفاظ زبان پر جاری کروں گا ۔

اسی کے ذیل میں ابن حزم کہتا ہے:اس بارے میں کسی بھی صحابی کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ بلکہ سب کا اتفاق ہے ۔(۱)

یہ بات تقیہ کے جائز ہونے اورسارے صحابہ کا اتفاق ہونے پر دلیل ہے اگر چہ جابر حکمران کے ایک یا دو تازیانے سے بچنے کیلئے ہی کیوں نہ کیا جائے ۔

ابن مسعود کا تقیہ کرنے کا دوسرا مورد ولید بن عقبہ کے پیچھے نماز پڑھنا ہے کہ

____________________

۱۔ المحلی ابن حزم ج ۸ ص ۳۳۶،مسالہ ۱۴۰۹۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336